صدقہ پیشگی ادا کرنے کا حکم، ایک مدت میں تقسیم کرنے کی نیت سے
یہ وہ مسئلہ ہے جس پر بہت سے علماء اسلام نے بحث کی ہے اور اس کے متعلق مختلف آراء اور دلائل موجود ہیں۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب تک نیت صاف اور خلوص ہو اور رقم معلوم اور متعین ہو تو پیشگی صدقہ دینا جائز ہے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ پیشگی زکوٰۃ (فرضی صدقہ) کی ادائیگی کے معاملے سے ملتا جلتا ہے، جس کی قرآن و سنت (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل) سے کچھ دلائل سے اجازت ملتی ہے۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض مثالیں بھی پیش کرتے ہیں جو بعض وجوہات یا مواقع پر پیشگی صدقہ کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد آنے والوں کے لیے صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ ” (سنن ابی داؤد:1609)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اسے مقررہ وقت سے پہلے ادا کر دیا، اس نیت سے کہ جو لوگ بعد میں اس کے گھر میں شامل ہوں گے۔
دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ صدقہ پیشگی ادا کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ ایسا کرنے کی کوئی صحیح وجہ یا ضرورت نہ ہو۔ ان کا استدلال ہے کہ صدقہ اسی وقت دینا چاہیے جب واجب ہو، نہ کہ اس سے پہلے اور نہ بعد، کیونکہ یہ لینے والوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے اور عطیہ کرنے والوں کے لیے زیادہ ثواب ہے۔ وہ قرآن و سنت سے کچھ دلائل بھی نقل کرتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صدقہ فوری اور بلا تاخیر کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: "اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درمانده بیٹھ جائے” (سورۃ الاسراء: 17:29)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے میں بخل یا اسراف نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اعتدال اور متوازن ہونا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: "نیک کاموں میں جلدی کرو اس سے پہلے کہ تم پر سات مصیبتوں میں سے کوئی ایک مصیبت آ جائے۔” پھر موت، غربت، بیماری وغیرہ کا ذکر کیا۔(صحیح مسلم:118)۔
لہٰذا ان آراء اور شواہد کی بنا پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ صدقہ واجب ہونے کے وقت ادا کیا جائے، الا یہ کہ پہلے سے ادا کرنے کی کوئی معقول وجہ یا ضرورت نہ ہو۔ اس طرح، کوئی اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ کوئی اپنی ذمہ داری کو صحیح اور خلوص کے ساتھ ادا کرتا ہے، اور کسی شک و شبہ سے بچتا ہے۔ البتہ اگر کوئی پہلے ہی صدقہ فطر اور خلوص نیت سے ادا کر چکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت اور اجر کی امید رکھنی چاہیے اور اس کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ (عزوجل) بہتر جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں۔