رَدِّ مَظالِم انسان کے ذمے موجود دوسروں کے ناحق اموال کے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک رد مظالم ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق رد مظالم واجب ہے۔
رد مظالم میں مجہول المالک اموال کو مرجع تقلید کی اجازت سے محتاجوں اور فقیروں کو صدقہ دے سکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں خمس، امر بہ معروف، میّت کے احکام، وصیت اور غصب کے ابواب میں رد مظالم سے متعلق بحث کی گئی ہے۔
تعریف
ردّ مظالم سے مراد انسان کے ذمے موجود دوسروں کے اموال اور قرضوں کو ادا کرنا ہے؛ لیکن ان اموال کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
اسداللہ شوشتری (تیرہویں صدی ہجری) لکھتے ہیں: مَظالِم مَظلِمَہ کا جمع ہے جس سے مراد دوسروں کے وہ اموال اور حقوق ہیں جو انسان کے ذمے باقی ہیں؛ مثلا وہ اموال جو غصب یا چوری کے ذریعے انسان کے پاس موجود ہو۔ آیت اللہ مکارم شیرازی ان حرام اموال کو مظالم قرار دیتے ہیں جو انسان کے پاس موجود ہو لیکن ان کے مالک کو نہ پہنچانتے ہو۔
آقا محمد علی کرمانشاہی فرزند وحید بہبہانی کے مطابق مظالم ان اموال اور حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کے اموال سے مخلوط ہو گئے ہوں لیکن نہ ان کی مقدار معلوم ہو اور نہ ان کا مالک۔ آیت اللہ سیستانی مظالم ان اموال کو قرار دیتے ہیں جنہیں انسان نے ظلم کے ساتھ دوسروں سے لیا ہو یا انہیں ضایح کیا ہو؛ چاہے ان کا مالک معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔
آیت اللہ صافی گلپایگانی مظالم کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ مظالم ان اموال کو کہا جاتا ہے جن کی مقدار تو معلوم ہے لیکن ان کا مالک مشخص نہ ہو۔
فقہ اور احادیث میں اس کی اہمیت
شیعہ احادیث میں ردّ مظالم کو توبہ کی قبولیت میں شرائط قرار دیتے ہوئے اسے ترک کرنے کو گناہان کبیرہ اور موجب نزول بلا جانا جاتا ہے۔ حدیثی منابع میں امر بہ معروف اور فقہی کتابوں میں احکام طہارت (احکام میت)، خمس، غصب، وصیت اور امر بہ معروف کے ابواب میں رد مظالم سے بحث کی گئی ہے۔
حکم شرعی
شیعہ فقہاء ردّ مظالم کو خمس اور زکات کی طرح واجب مانتے ہیں۔ بعض فقہاء مانند آیت اللہ فیاض اسے واجب فوری قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اس وقت اسے فورا ادا کرنا واجب ہے۔
طریقہ
مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر انسان کے ذمے دوسروں کا مال ہو چاہے وہ مجہول المالک ہو یا ان کے مالک تک رسائل ممکن نہ ہو، انہیں یا ان کی قیمت (اس صورت میں کہ جب عین مال تلف ہوئی ہو) کو حاکم شرع یا مرجع تقلید کی احازت سے فقیروں کو صدقہ دے دیں۔ بعض فقہاء من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی رد مظالم کو صرف غیر سید کو دینا چاہئے۔
مذکورہ مال کو صدقہ دینے کے بعد اگر اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اس تک رسائل ممکن ہو جائے تو اس صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پابا جاتا ہے۔ امام خمینی کے فتوے کے مطابق احتیاط واجب کی بنا پر اس مال کے برابر اس کے مالک کو بھی دینا واجب ہے؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ آیت اللہ خویی کے مطابق صدقہ دینے کے بعد دوبارہ اس کے مالک کو بھی دینا واجب نہیں ہے۔
مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق رد مظالم میں اگر مال کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مالک کے ساتھ صلح کرنا چاہئے؛ یعنی ایک دوسرے کو راضی کریں؛ لیکن اگر صاحب مال راضی نہ ہو جائے تو اس صورت میں صرف اس مقدار کو دینا کافی ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو۔ البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مقدار سے کچھ اضافہ بھی دے دیا جائے۔
مونوگرافی
آقا محمد علی کرمانشاہی نے "رد مظالم کے مصرف” کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب لکھی ہیں۔