رباب بنت امرؤ القیس کون تھا؟

مذہب

رباب بنت امرؤ القیس بن عدی، امام حسین علیہ السلام کی زوجہ، سکینہ و علی اصغر (عبداللہ رضیع) کی مادر ہیں۔ آپ کو اہل علم اور اہل فصاحت و بلاغت کہا گیا ہے۔ رباب واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیروں کے ہمراہ شام کا سفر بھی کیا۔ آپ کی وفات عاشورا کے بعد ہوئی اور اس کی وجہ شدید مصائب کہا گیا ہے۔

نسب

رباب امرؤالقیس عدی کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد شام کے عرب اور نصرانی تھے جو کہ عمر کے دور خلافت میں مسلمان ہوئے۔ رباب کی مادر جن کا نام ہند الہنود اور وہ ربیع بن مسعود بن مصاد بن حصن بن کعب کی بیٹی تھی۔

خصوصیات

سید محسن امین نے کتاب الاغانی سے ہشام کلبی کا قول نقل کیا ہے کہ رباب عورتوں میں فضیلت، خوبصورتی، ادب اور عقل کے لحاظ سے بہترین اور برترین تھیں۔

ازدواج

شیخ مفید امام حسین (ع) کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے رباب کا ذکر امام(ع) کی زوجہ کے نام سے کرتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق امرؤالقیس حضرت علی (ع) کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت رکھتا تھا جس کی وجہ سے اپنی ایک بیٹی کا نکاح امیرالمومنین (ع) اور ایک کا امام حسن (ع) اور ایک کا امام حسین (ع) کے ساتھ کیا۔

امام حسین (ع) کی محبت

امام حسین(ع) رباب کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ اور آپ کے بارے میں شعر بھی پڑھتے تھے۔ ایک شعر جو امام (ع) سے منسوب ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں رباب اور سکینہ ہوں مجھے وہ گھر پسند ہے۔ رباب کے بارے میں امام حسین (ع) کے اور اشعار بھی موجود ہیں۔

اولاد

رباب سے امام حسین(ع) کی دو اولاد تھیں۔ ایک سکینہ اور دوسری عبداللہ۔ عبداللہ (علی اصغر) جو نہایت کمسنی میں عاشور کے دن اپنے بابا کی آغوش میں شہادت پر فائز ہوئے۔

واقعہ کربلا کے بعد

بعض قول کے مطابق رباب واقعہ کربلا کے ایک سال بعد تک امام حسین (ع) کی قبر کے پاس کربلا میں ہی رہیں اور پھر مدینہ لوٹ گئیں۔ لیکن شہید قاضی طباطبائی کا قول ہے کہ رباب نے مدینہ میں عزاداری کی نہ کہ کربلا میں اور وہ کہتے ہیں: اگرچہ امام سجاد (ع) بھی اس بات پر راضی نہ ہوتے کہ امام حسین (ع) کی زوجہ اکیلی کربلا میں رہیں اس کے علاوہ خود آپ کی شخصیت بھی ایسی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں: کوئی بھی یقینی طور پر یوں نہیں کہتا کہ یہ معظمہ خاتون پورا ایک سال امام (ع) کی قبر پر رہیں ہیں، ابن اثیر نے بھی اپنے قول کا کوئی قائل ذکر نہیں کیا، اس لئے پہلا قول کہ آپ شہادت کے بعد پورا سال قبر کے پاس رہیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں، ضعیف قول ہے۔ ابن کثیر نے بھی کچھ اشعار آپکی زبانی بیان کئے ہیں:

اِلی الحول ثمَ اَسْمُ السلامَ علیکما وَ مَنْ یبْک حَوْلاً کامِلاً فَقَد اعْتَذَر
ایک سال پھر اس کے بعد آپ پر درود (اور الوداع) بھیجتی رہوں گی اور جو پورا ایک سال روتی رہی وہ اس کے بعد معذور ہے۔

مدینے میں قریش کی بزرگ شخصیات نے آپ کا رشتہ مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کسی کے ساتھ شادی کے لئے حاضر نہ ہوئیں۔ آپ فرماتی تھیں: میں اس بات پر راضی نہیں کہ پیغمبر(ص) کے بعد کوئی اور میرا سسر ہو۔ مصقلہ الطحان نے امام صادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: جب حسین (ع) شہید ہو گئے تو آپ کی زوجہ رباب آپ کے لئے مجلس بپا کرتی خود بھی روتی اور آپ کی خدمت کرنے والی بھی گریہ کرتیں یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔ اس وقت اپنی ایک کنیز کو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس کو بلا کو سوال کیا: کیا وجہ ہے کہ ہم سب کے درمیان صرف تمہارے آنسو خشک نہیں ہوئے؟ اس نے کہا: میں سویق کا شربت پیتی ہوں آپ نے بھی حکم دیا کہ سویق کا شربت منگوایا جائے اور وہی شربت پیا اور اس کے بعد کہا کہ یہ شربت پی کر حسین (ع) پر رونے کی طاقت پیدا کروں گی۔

وفات

ابن کثیر لکھتا ہے: رباب واقعہ کربلا کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہیں اور اس ایک سال میں درخت کے سائے میں نہ بیھٹیں اور شدید غم و اندوہ کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔ سید محسن امین نے آپ کا سنہ وفات سنہ 62 ہجری (یعنی عاشورا کے ایک سال بعد) لکھا ہے۔

رمضان 2025 – 1446

اپنی زکوٰۃ، فدیہ، زکوٰۃ الفطر اور کفارہ کا حساب لگائیں اور ادا کریں۔ افطار کے لیے عطیہ کریں اور اپنی زکوٰۃ اور عطیات براہ راست اپنے والیٹ (Wallet) سے ادا کریں یا ایکسچینج کریں۔

بات پھیلائیں، مزید مدد کریں۔

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں اور ہماری ویڈیوز دیکھیں تاکہ ضرورت مندوں کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لائی جا سکے۔ آپ کی مدد کسی کے لیے وہ دستِ تعاون ثابت ہو سکتی ہے جس کا وہ منتظر ہے۔