شہدائے کربلا امام حسینؑ کے ان ساتھیوں کو کہا جاتا ہے جو سن 61ھ روز عاشورا کو واقعہ کربلا میں لشکر عمر سعد کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے۔ شہدائے کربلا کی دقیق تعداد معلوم نہیں لیکن مشہور قول کی بنا پر ان کی تعداد 72 تھیں۔ دوسرے اقوال میں ان کی تعداد 78، 87 اور 145 تک ذکر کی گئی ہیں۔ شہدائے کربلا میں سے 18 شہداء بنیہاشم سے تھے۔ بنی ہاشم میں امام حسینؑ، عباس بن علی اور علی اکبر جبکہ اصحاب میں حر بن یزید ریاحی، حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ کا نام شہدائے کربلا میں نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔
شہدائے کربلا کو بنی اسد کے کچھ افراد نے دفن کیا۔ حر بن یزید کے علاوہ باقی تمام شہداء کربلا میں ہی مدفون ہیں۔
تعداد
شہدائے کربلا کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر تاریخی منابع میں روز عاشورا امام حسینؑ کے ساتھیوں کی مجموعی تعداد 72 افراد ذکر کرتے ہیں۔ مشہور قول کی بنا پر ان میں سے 18 افراد بنی ہاشم سے جبکہ باقی افراد دوسرے قبائل سے تھے۔اسی طرح اس واقعے سے مربوط منابع کے مطابق اس جنگ میں امامؑ کی فوج کے سوارہ نظام کی تعداد 32 اور پیادہ نظام کی تعداد 40 تھی۔
انکے علاوہ دوسرے منابع میں درج ذیل تعداد بیان ہوئی ہے:
مسعودی: عاشورا کے روز امام حسین ؑ کے ساتھ شہید ہونے والے افراد کی تعداد 87 تھی۔
بعض نے اس دن کے شہدا کی تعداد 61 افراد لکھی ہے لیکن ممکن ہے کہ اس تعداد میں اہل بیت اور بنی ہاشم کے شہدا شامل نہ ہوں کیونکہ انہیں شامل کیا جائے تو بعد والے قول کی تعداد حاصل ہوتی ہے۔
سید بن طاووس: اصحاب حسین ؑ، 78 نفر تھے۔ اور خود امام حسین ؑ کے ساتھ 79 نفر ہونگے۔
مجلسی نے محمد بن ابی طالب سے نقل کیا: انکی تعداد 82 افراد تھے۔
امام باقر ؑ سے منقول ہے کہ 45 سوار اور 100 نفر پیاده تھے۔
سروں کی تعداد
عمر سعد اور شمر کے حکم پر امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کے سروں کو ان کے بدن سے جدا کیا گیا۔ شیخ مفید کتاب ارشاد میں شہدائے کربلا کے سروں کی تعداد 72 سر ذکر کرتے ہیں۔ بَلاذُری انساب الاشراف میں بدن سے جدا کئے گئے سروں کی تعداد 72 سر ذکر کرتے ہیں؛ لیکن وہ أَبی مِخْنف سے نقل کرتے ہیں کہ قبیلہ کندہ نے 13 سر، قبیلہ ہوازن نے 20 سر، قبیلہ بنیتمیم نے 17 سر، قبیلہ بنیاسد نے 17 سر، قبیلہ مذحج نے 7 سر اور قبیلہ قیس نے 9 سر اپنے ساتھ ابن زیاد کے پاس لے کر گئے تھے۔ بعض مورخین نے شہداء کے سروں کی تعداد 78 ذکر کی ہیں۔
شہدائے بنی ہاشم کی تعداد
معتبر مآخذ میں امام حسینؑ کے علاوہ بنو ہاشم کے 18 افراد نے کربلا میں جام شہادت نوش کیا۔
اولاد امام علیؑ
حضرت عباس بن علی ؑ
عبد اللہ بن علی
عثمان بن على
ابو بکر بن علی
محمد بن على
عون بن علی
اولاد امام حسنؑ
قاسم بن حسن
ابو بکر بن حسن
عبداللہ بن حسن
اولاد امام حسینؑ
على بن حسین جو حضرت علی اکبرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
عبداللہ بن حسین جو حضرت علی اصغرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
بنی ہاشم کے دیگر شہداء
جعفر بن عقیل
عبدالرحمان بن عقیل
عبداللہ بن عقیل
محمد بن ابی سعید بن عقیل
عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
محمد بن عبد اللہ بن جعفر
عون بن عبد اللہ بن جعفر
نادر اسما
بعض کتب میں صرف ناموں کی حد تک بنی ہاشم کے 42 افراد کے نام شہدائے کربلا کے عنوان سے نقل ہوئے ہیں:
ابراہیم بن على
عبّاس اصغر بن على
جعفر بن علی
عبد اللہ اکبر بن على
عبد اللہ اصغر بن على
عبید اللہ بن على
عمر بن على
عتیق بن على
قاسم بن على
بشر بن حسن
عمر بن حسن
ابو بکر بن حسین
ابو بکر بن قاسم بن حسین
ابراہیم بن حسین
جعفر بن حسین
حمزۃ بن حسین
زید بن حسین
قاسم بن حسین
محمّد بن حسین
عمر بن حسین
محمّد بن عقیل
محمّد بن عبد اللہ بن عقیل
حمزۃ بن عقیل
على بن عقیل
عَون بن عقیل
جعفر بن محمّد بن عقیل
ابو سعید بن عقیل
ابراہیم بن مسلم بن عقیل
محمّد بن مسلم بن عقیل
عبد الرحمان بن مسلم بن عقیل
عبیداللہ بن مسلم بن عقیل
ابو عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
على بن مسلم بن عقیل
ابراہیم بن جعفر
ابوبکر بن عبد اللہ بن جعفر
عون اصغر بن عبد اللہ بن جعفر
حسین بن عبد اللہ بن جعفر
عبیداللہ بن عبد اللہ بن جعفر
عون بن جعفر بن جعفر
محمّد بن جعفر
محمّد بن عبّاس
احمد بن محمّد ہاشمى
اصحاب
اصحاب رسول(ص)
اَنَس بن حارث
عبد الرحمان بن عبد ربّہ انصارى
ابن حجر عسقلانی کے مطابق حبیب بن مظاہر اسدی بھی صحابہ میں سے ہیں.
اصحاب امام علیؑ
ابو ثُمامہ عمرو بن عبد اللہ صائِدى
حبیب بن مظاہر اسدی
زاہر (عمرو بن حَمِق کا غلام)
عمّار بن ابى سلامہ دالانى
سعد بن حارث خُزاعى (امام علیؑ کے غلام)
عبد اللہ بن عمیر کلبی
کردوس بن زہیر تغلبی
نافع بن ہلال بجلی
اصحاب امام حسینؑ
ابراہیم بن حُصَین اسدى
حُذَیفۃ بن اَسید غِفارى کا ایک بھتیجا
ابو ہیّاج
اَدہم بن امیّہ
انیس بن مَعقِل اَصبَحى
بُرَیر بن خُضَیر
بشیر بن عمرو حَضرَمى
جابر بن حَجّاج
جَبَلۃ بن على شیبانى
جُنَادۃ بن حارث
جُندَب بن حجیر
جون بن حوی غلام ابوذر
جوین بن مالک تیمی
حارث بن اِمرؤ القیس
حارث بن نَبہان حمزۃ بن عبدالمطّلب کا غلام
ابو الحتوف بن حرث انصاری
حَجّاج بن زید
حَجّاج بن مَسروق
حر بن یزید ریاحی
حلّاس بن عمرو
نُعمان بن عمرو
حَنظَلۃ بن اسعد
رافع، یہ قبیلۂ بنی شندہ کے حلیف تھے
رُمَیث بن عمرو
زُہیر بن بِشْر خَثعَمى
زُہیر بن سلیم اَزْدى
زہیر بن قین بجلی
زید بن مَعقِل
سالم، حلیفِ ابن مدنیّہ
سعد بن حنظلہ تمیمى
سعید بن عبداللہ حنفى
سعید بن کَردَم
سلیمان، غلامِ امام حسینؑ
سلیمان بن ربیعہ
سوّار بن ابى حِمیَر
سُوَید بن عمرو بن ابى مُطاع
سیف بن حارث جابرى
شَبیب بن عبداللہ نَہشَلى
سیف بن مالک
ضَرغامۃ بن مالک
شوذَب، حلیفِ بنى شاکر
ضُباب بن عامر
عابِس بن ابى شَبیب شاکرى
عامر بن مسلم
سالم، غلامِ عامر بن مسلم
عباد بن ابى مہاجر
عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی (یَزَنى)
عبداللہ بن قیس غِفارى
عبد الرحمان بن قیس غِفارى
عُقْبۃ بن صَلت
عمّار بن حسّان طایى
عمران بن کعب
عمر بن اَحدوث حَضرَمى
عمر بن خالد صَیداوى
سعد، غلامِ عمر بن خالد صَیداوى
عمرو بن خالد اَزْدى
خالد بن عمرو اَزْدى
عمرو بن ضَبیعہ
عمرو بن عبد اللہ جُندَعى
عمرو بن قَرَظَہ انصارى
غلامِ ترک
قارِب، غلامِ امام حسینؑ
قاسم بن حبیب اَزْدى
قَعنَب بن عمرو نَمِرى
کِنانۃ بن عتیق
مالک بن عبد بن سَریع جابرى
مُجَمِّع بن زیاد
مُجَمّع بن عبد اللہ عائِذى
پسر مُجَمّع بن عبد اللہ عائذى
مسعود بن حَجّاج
عبد الرحمان بن مسعود
مسلم بن عوسجہ
مسلم بن کثیر ازدی
مُنجِح ، غلامِ امام حسینؑ
نَعیم بن عَجْلان
ہفہاف بن مُہنَّد راسِبى
ہمّام بن سَلَمہ قانِصى (قائضى)
وَہب بن وہب
یحیى بن سلیم مازِنى
یزید بن زیاد بن مُہاصِر ابو شعثاء کندی
یزید بن ثبیط عبدی
عبیداللہ بن ثبیط عبدى
حسن بن یوسف بن مطہر حلّی (648۔726 ھ) علامہ حلّی کے نام سے مشہور، آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ہیں۔ انہوں نے علم اصول، فقہ، تفسیر، منطق، کلام اور رجال میں 120 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے اکثر اس وقت بھی شیعہ حوزات علمیہ میں تدریس اور تحقیق کا اصلی منبع شمار کی جاتی ہیں۔ فقہ شیعہ کی گسترش اور توسیع میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے شیعہ مذہب کے کلامی اور اعتقادی مبانی کو عقلی بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی کتاب باب حادی عشر اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتاب تجرید الاعتقاد کی شرح میں لکھی جانے والی کتاب کشف المراد شیعہ اعتقادات کے اصلی متون میں شامل ہیں۔ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید، تذکرۃ الفقہاء، قواعد الاحکام اور مختلف الشیعہ وغیرہ ان کی دیگر معروف تصانیف ہیں۔
علامہ حلی پہلی شخصیت ہیں جنہیں آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔ قطب الدین رازی، فخر المحققین، ابن معیہ اور محمد بن علی جرجانی ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔ ایران اور سلطان محمد خدا بندہ کے دربار میں ان کی موجودگی اس ملک میں شیعہ مذہب کے رواج پیدا کرنے کا سبب بنی۔
زندگی اور حصول علم
علامہ حلی جمعہ 29 رمضان سنہ 648 ھ میں عراق کے شہر حلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد یوسف بن مطہر متکلمین اور بلند پائے کے شقعہ فقہاء میں سے تھے۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے والد کی ہدایات پر قرآن کی تعلیم کیلئے مدرسہ میں داخلہ لیا اور اسی مدرسے میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ادبیات عرب، علم فقہ، اصول فقہ، حدیث اور کلام اپنے والد اور اپنے ماموں محقق حلی سے جبکہ علم منطق، فلسفہ اور ہیئت وغیرہ دوسرے اساتید بطور خاص خواجہ نصیر الدین طوسی سے کسب کئے اور سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے۔ کمسنی میں تعلیم اور اعلی فضائل کے حامل ہونے کی وجہ سے آپ اپنے خاندان اور اہل علم کے درمیان جمال الدین کے نام سے مشہور تھے۔
علمی کمالات
سنہ 676 ھ میں محقق حلی جو اپنے زمانے میں دنیائے تشیع کے مرجع تقلید تھے، کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور دیگر دانشوروں نے ایک ایسی شخصیت کی تلاش شروع کیا جو شیعیان جہاں کی مرجعیت اور زعامت کیلئے سب سے لائق اور مناسب ہو۔ اس حوالے سے علامہ حلی کو اس مقام کیلئے سب سے زیادہ مناسب پایا یوں انہوں نے 28 سال کی عمر میں شیعہ مرجعیت کو قبول کیا۔
علامہ حلی پہلی شخصیت تھی جنہیں ان کی علمی مقام اور اخلاقی فضائل و کمالات کی بنا پر آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852 ھ) نے انہیں "آیۃ فی الذكاء” کا لقب دیا۔ شرف الدین شولستانی، شیخ بہائی اور ملا محمد باقر مجلسی نے اپنے اپنے شاگردوں کو دیئے جانے والے اجازہ اجتہاد میں علامہ حلی کو آیت اللہ فی العالمین کے نام سے یاد کیا ہے۔
ایران میں آمد
علامہ حلی ایران کب تشریف لائے اس کی کوئی دقیق تاریخ مشخص نہیں۔ لیکن یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ سنہ 705 ہجری میں انہوں نے سلسلہ ایلخانیان کے بادشاہ سلطان محمد خدا بندہ کی دعوت پر ایران کا سفر کیا۔ تاج الدین آوی نے بادشاہ کے دربار میں علامہ حلی کی رسائی کیلئے زمینہ ہموار کیا۔ علامہ حلی کی ایران میں داخلے کے بعد ایک دن کسی مجلس میں اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے مختلف علماء منجملہ خواجہ نظام الدین عبد الملک مراغہای کے ساتھ مناظرہ کیا۔ ان مناظرے میں علامہ حلی نے امام علی(ع) کی ولایت و امامت اور مذہب شیعہ کی حقانیت کو پادشاہ کے سامنے ثابت کیا۔ یہ واقعہ پادشاہ کے مذہب شیعہ اختیار کرنے کا باعث بنا اور انہوں نے اپنا نام "الجایتو” سے سلطان محمد خدا بندہ میں تبدیل کیا اور شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔ مختلف تاریخی منابع میں سلطان محمد خدا بندہ کی مذہب شیعہ اختیار کرنے میں علامہ حلی کے کردار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
علامہ حلی کا مشہور مناظرہ
میرزا محمد علی مدرس تبریزی اپنی کتاب ریحانۃ الادب میں علامہ مجلسی سے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح میں لکھتے ہیں: ایک دن سلطان محمد خدا بندہ نے ایک مجلس منعقد کی اور اہل سنت کے بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا نیز علامہ حلی کو بھی اس مجلس میں دعوت دی گئی۔ علامہ حلی نے مجلس میں داخل ہوتے وقت جوتے اپنی بغل میں رکھ کر پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ درباریوں نے علامہ سے پوچھا کہ کیوں آپ نے پادشاہ کو سجدہ اور احترام نہیں کیا؟ اس موقع پر علامہ نے جواب دیا: پیغمبر اکرم(ص) تمام پادشاہوں کے پادشاہ تھے اور انہیں سب سلام کرتے تھے اور قرآن میں بھی آیا ہے کہ "فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّة مِّنْ عِندِ اللَّه مُبَارَكَة طَيِّبَة (ترجمہ: جب بھی کسی گھر میں داخل ہو جاؤ تو ایک دوسرے کو سلام کیا کرو! یہ سلام خدا کے نزدیک مبارک اور پسندیدہ ہے)” اس کے علاوہ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سجدہ صرف خدا کے ساتھ مختص ہے۔
انہوں نے کہا پس کیوں تم پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: کیونکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور حدیث میں آیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں جاؤ تو جہاں کہیں جگہ خالی ہو وہیں بیٹھ جاؤ۔ پوچھا گیا: ان جوتوں کی کیا حیثیت تھی کہ تم اسے پادشاہ کے دربار میں لے آئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ مذہب حنفی والے میرے جوتے چوری نہ کر لیں جس طرح ان کے پیشواؤں نے پیغمبر اکرم (ص) کی جوتیاں چوری کی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ مذہب حنفی کے ماننے والوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ ابو حنیفہ تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں نہیں تھے۔ علامہ نے کہا معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی ہوگئی وہ شخص شافعی تھا، اس طرح یہ گفتگو اور اعتراض شافعی، مالکی اور جنبلیوں کے ساتھ تکرار ہوا۔ اس موقع پر علامہ حلی نے پادشاہ کی طرف رخ کرکے کہا: اب حقیقت روشن ہو گئی کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کا پیشوا پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریات ان کی اپنی اختراع ہیں، اس کا وحی اور پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن مذہب شیعہ جو امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے وصی، جانشین اور نفس پیغمبر ہیں۔ علامہ نے اس مناظرہ کے آخر میں ایک نہایت فصیح اور بلیغ خطبہ بھی دیا جسے سننے کے بعد پادشاہ نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔
علامہ سلطان محمد خدا بندہ کی وفات تک ایران میں مقیم رہے اور مذہب حقہ کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ایران میں اقامت کے دوران علامہ حلی پادشاہ کے تمام مسافرتوں میں ہمراہ رہے اور ان کی ہی تجویز پر پادشاہ نے ایک سیار مدرسہ بھی تاسیس کیا یوں علامہ جہاں بھی جاتے خیمہ نصب کئے جاتے یوں علامہ درس و تدریس میں مشغول ہو جاتے تھے۔
اساتذہ
شیخ یوسف سدید الدین (والد علامہ)
محقق حلی
سید رضی الدین علی بن طاووس
سید احمد بن طاووس
خواجہ نصیر الدین طوسی
محمد بن علی اسدی
یحیی بن سعید حلی
مفید الدین محمد بن جہم حلی
کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی
جمال الدین حسین بن ایاز نحوی
محمد بن محمد بن احمد کشی
نجم الدین علی بن عمر کاتبی
برہان الدین نسفی
شیخ فاروقی واسطی
شیخ تقی الدین عبد اللہ بن جعفر کوفی
شاگرد
علامہ کے بعض شاگردوں کے اسامی درج ذیل ہیں:
محمد بن حسن بن یوسف حلی، فخر المحققین (فرزند علامہ)
سید عمید الدین عبدالمطلب (بھانجے)
سید ضیا الدین عبد اللہ حسینی (بھانجے)
سید محمد بن قاسم حسنی معروف بہ ابن معیہ
رضی الدین ابو الحسن علی بن احمد حلی
قطب الدین رازی
سید نجم الدین مہنا بن سنان مدنی
تاج الدین محمود بن مولا
تقی الدین ابراہیم بن حسین آملی
محمد بن علی جرجانی
تألیفات
تفصیلی مضمون: آثار علامہ حلی
علامہ حلی نے مختلف علوم جیسے فقہ، اصول فقہ، کلام، حدیث، تفسیر، رجال، فلسفہ اور منطق میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لیکن ان کی تألیفات کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ علامہ حلی نے خود خلاصۃ الاقوال میں اپنی 57 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
سید محسن امین اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں: علامہ حلی کی سو سے زیادہ تصانیف ہیں اور میں نے ان کی 95 کتابوں کو دیکھا ہے جن میں سے کئی کتابوں کے کئی جلدیں ہیں۔ اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ علامہ کی کتاب الروضات کے تقریبا ہزار تحقیقی دستاویزات ہیں۔ میرزا محمد علی مدرس نیز ریحانۃ الادب میں 120 تصانیف اور کتاب گلشن ابرار میں حوزہ علمیہ قم کے محققین کی ایک گروہ نے علامہ کی تصانیف کی تعداد کو تقریبا 110 عدد ذکر کیا ہے۔
علامہ حلی کی معروف تصانیف میں علم فقہ میں مختلف الشیعہ اور تذکرہ الفقہاء، عقائد و کلام میں کشف المراد، باب حادی عشر اور منہاج الکرامۃ، علم رجال میں خلاصۃ الاقوال اور منطق میں جوہر النضید کا نام قابل ذکر ہیں۔
علامہ حلی نے شیعہ اصول عقايد میں لکھی گئیں اپنی دو کتابیں نہج الحق و کشف الصدق اور منہاج الکرامہ کو سلطان محمد خدا بندہ کو بطور ہدیہ دیا۔
امام زمانہ (ع) سے ملاقات
علامہ حلی کی امام مہدی (ع) کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں سے دو واقعات مشہور ہیں۔
تکمیل کتاب توسط امام زمانہ (ع)
پہلا واقعہ ایک کتاب سے متعلق ہے جسے علامہ نے کسی اہل سنت عالم دین سے بطور امانت لیا تھا تاکہ اس کی نسخہ برداری کی جا سکے لیکن آدھی رات کو نیند غالب آنے کی وجہ سے کتاب کی نسخہ برداری میں رکاوٹ آنے لگی اتنے میں امام زمانہ (ع) علامہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کتاب کی تنسیخ کا باقی ماندہ کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ بیداری کے بعد جب علامہ حلی نے کتاب کی نسخہ برداری کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا۔
اس داستان کا سب سے قدیمی منبع کتاب مجالس المومنین تالیف قاضی نوراللہ شوشتری ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔
کربلا کے راستے میں ملاقات
دوسرا واقعہ قصص العلما تالیف تنکابنی میں نقل ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق علامہ حلی کے کربلا کی طرف سفر کے دوران راستے میں ان کی کسی سید سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت ہیں لہذا علامہ نے اپنی علمی مشکلات کو ان سے دریافت کرنا شروع کیا اور وہ ان سوالوں کا جواب دیتے گئے۔ اسی دوران ایک دفعہ علامہ حلی سوال کرتے ہیں کہ آیا زمانہ غیبت کبری میں امام عصر(ع) سے ملاقات کا امکان ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ علامہ حلی کے ہاتھ سے تازیانہ زمین پر گر جاتا ہے تو وہ شخص زمین سے اس تازیانہ کو اٹھا کر علامہ حلی کو دیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ کیسے ممکن نہیں ہے جبکہ اس (امام زمانہ) کا ہاتھ ابھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت علامہ حلی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص خود امام زمانہ(ع) ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی علامہ حلی نے خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا۔
تنکابنی اس داستان کیلئے کوئی مآخذ ذکر کئے بغیر لوگوں کی زبانی مشہور داستانوں کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ اپنی بات پر گواہ کے طور پر انہوں نے جس چیز کو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اور اس شخص کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس شخص نے علامہ کو شیخ طوسی کی کتاب تہذیب الاحکام میں ایک حدیث کا ایڈریس بتاتے ہیں جس سے علامہ آگاہ نہیں تھے۔ جب علامہ نے اس سفر سے واپس آکر اس حدیث کو مذکورہ کتاب میں دریافت کیا تو اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ امام عصر (ع) نے مجھے اس حدیث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ تنکابنی نے اس واقعہ کو سید محمد طباطبایی صاحب مناہل کے ایک شاگرد "ملا صفر علی لاہیجی” سے نقل کیا ہے۔ لاہیجی اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب اور اس میں علامہ حلی کی یادداشت کو دیکھا ہے۔
وفات
علامہ حلی سنہ 716 ھ میں سلطان محمد خدا بندہ کی وفات کی بعد اپنے آبائی شہر حلہ واپس آ گئے اور آخر عمر تک وہیں مقیم رہے۔ 21 محرم سنہ 726 ہجری میں 78 سال کی عمر میں "حلہ” میں وفات پائی۔ انہیں حرم امیرالمومنین (ع) میں سپرد خاک کیا گیا۔
محمد باقر اقا نجفی اصفہانی (فارسی: محمد باقر آقانجفی اصفهانی، پیدائش 1234/1818-19، وفات 1301/1883) 19ویں صدی میں فقہ اور اصول فقہ کے امامی عالم تھے۔ اس نے اصفہان اور نجف میں حسن کاشف الغیطہ، الشیخ محمد حسن النجفی جواہر الکلام کے مصنف اور الشیخ مرتضیٰ الانصاری سے تعلیم حاصل کی اور پھر اصفہان واپس آ گئے۔ وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے پر زور دیتے تھے اور فیصلہ اور فتویٰ کا درجہ رکھتے تھے۔ لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کیا۔ اس طرح اصفہان کی مقامی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھی۔ وہ لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ محمد تقی نجفی اور آقا نور اللہ اصفہانی ان کے بیٹے تھے۔
ان کے شاگردوں میں السید اسماعیل الصدر، السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، اور شریعت اصفہانی شامل ہیں۔
نسب اور اولاد
محمد باقر کے والد کا نام محمد تقی تھا۔ مرزا عبد الرحیم الایوانکی التہرانی المسجدشاہی، جسے محمد تقی الرازی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے الشہد الثانی کے معلم کے لیے ہدایت المستشردین کے عنوان سے ایک تفسیر لکھی۔ محمد تقی عراق میں پلے بڑھے کیونکہ ان کے والد مرزا عبدالرحیم ملک میں ہجرت کر گئے تھے۔ تاہم، عراق میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، محمد تقی ایران واپس آئے اور اصفہان میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے اصفہان کی شاہ مسجد (مسجد شاہ) میں لیکچر دیا۔ اس مسجد کی نگرانی ان کے بچوں کو سونپی گئی اور اس طرح وہ ’’مسجد شاہی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آقا نجفی شیخ جعفر کاشف الغیطہ کے نواسے تھے۔ محمد باقر کی عمر 13 سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔
آقا نجفی نے تین شادیاں کیں اور ان کے 6 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ان کے تمام بیٹے عالم دین تھے۔ ان کے بیٹے محمد تقی (جو اپنے والد کے بعد اتھارٹی تھے)، آقا نور اللہ (ایک عالم جنہوں نے ایران میں آئینی تحریک کی حمایت کی)، محمد حسین، جمال الدین، اسماعیل، اور محمد علی تھے۔
تعلیم
محمد باقر نے اصفہان میں اپنی تعلیم کا آغاز شہر کے علماء کے لیکچرز میں شرکت کرکے کیا۔ شادی کے بعد وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے عراق چلے گئے۔ انہوں نے اپنے ماموں شیخ حسن کاشف الغیطہ، مصنف انوار الفقہاء، اور جواہر الکلام کے مصنف شیخ محمد حسن النجفی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور الشیخ مرتضیٰ سے اصول فقہ کا مطالعہ کیا۔ الانصاری انہوں نے ان علماء سے احادیث کی ترسیل کی اجازت حاصل کی۔ وہ الشیخ الانصاری کے اولین شاگردوں میں سے تھے۔ اس نے ابتدائی طور پر معالیم الصلوۃ پر اپنے والد کی تفسیروں کا مطالعہ کیا۔ آقا نجفی ایک بلند پایہ عالم بن کر اصفہان واپس آ گئے۔
طلباء
اصفہان واپس آنے کے بعد آقا نجفی نے مسجد شاہ میں درس دینا شروع کیا جہاں ان کے والد درس دیا کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں میں مرزا محمد حسین نائنی، السید اسماعیل الصدر، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، شریعت اصفہانی، اور ان کے بیٹے محمد تقی (جو ایک معروف بااثر بن گئے) جیسے علماء شامل ہیں۔ اپنے والد کی زندگی کے دوران عالم)۔
کام کرتا ہے۔
محمد باقر کی تخلیقات میں شامل ہیں:
لب الفقہ؛ 32 سال کی عمر میں لکھی گئی۔ حسن صدرالدین کی لائبریری میں طہرہ (صفائی) سے متعلق وضو سے متعلق کتاب کی صرف ایک نامکمل جلد دستیاب ہے۔
رسالہ حجیت الزن الطرقی؛ یہ ان کے والد کی ہدایت المسترشدین کے ساتھ مل کر شائع ہوا تھا۔
لب الصلوٰۃ
سماجی سرگرمیاں
اصفہان واپس آنے کے بعد، محمد باقر اصفہانی نماز باجماعت کے امام بنے اور شہر کی مسجد شاہ میں درس و تدریس کے منصب پر فائز ہوئے۔ سید اسد اللہ جیسے اصفہان کے معروف علماء کی وفات کے بعد ان کا مذہبی اور سماجی اثر اس قدر بڑھ گیا کہ وہ شرعی قوانین کو نافذ کر سکتے تھے۔ چونکہ اس نے "اچھی بات کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے” پر زور دیا تھا اور اس کے پاس قاضی اور فتویٰ کا عہدہ تھا، اس لیے وہ لوگوں کے معاملات میں مشغول رہتا تھا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا۔ لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کیا۔ اس طرح اصفہان کی مقامی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھی۔ وہ کافروں اور مرتدوں کے ساتھ اپنے سلوک میں فیصلہ کن تھا کہ اس کے حکم پر کچھ بہائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، اس نے ایک دن میں 27 لوگوں کو پھانسی دینے کا حکم دیا: حکم 12 لوگوں کے معاملے میں کیا گیا تھا، اور باقی فرار ہو گئے. ان کے فتوے قانونی مسائل کے حوالے سے اثر انگیز تھے۔ اس کے اور ظل السلطان کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔
نجف کی طرف ہجرت اور موت
آقا نجفی لوگوں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ ان کے مسائل میں ان کی مدد کرتے تھے۔ جب اس نے 1300/1882 میں العتبات العلیات میں رہنے کے لیے نجف کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو اصفہان کے لوگ اس کے گھر کے گرد جمع ہوگئے اور اسے شہر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ تاہم وہ راتوں رات اصفہان سے نکل گئے۔
نجف پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد، آقا نجفی کا انتقال صفر 1301/دسمبر 1883ء میں ہوا، اور اپنے دادا شیخ جعفر کاشف الغیطہ کے مدفن میں دفن ہوئے۔
معاویہ بی یزید ب۔ معاویہ (عربی:مُعاویَة بْن یَزید بْن معاویة) (متوفی 64/683) جسے دوسرا معاویہ بھی کہا جاتا ہے، تیسرا اموی خلیفہ تھا جو 64/683 میں خلافت کے منصب پر فائز ہوا اور مختصر عرصے کے بعد اقتدار سے استعفیٰ دے دیا۔ وقت مؤرخین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ اس نے کیوں استعفیٰ دیا، لیکن ان میں سے اکثر اسے امام علی (ع) کے گھر والوں کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔ جب اس نے خلافت سے استعفیٰ دیا تو مروان بن۔ حاکم اس کا جانشین ہوا اور اموی خاندان کے زوال تک مروان کی اولاد اقتدار میں رہی۔ بعض ذرائع کے مطابق معاویہ بن. یزید کا انتقال 18 سال کی عمر میں ہوا اور دمشق میں دفن ہوا۔
خلافت کا مختصر دور
اموی فوجوں اور عبد اللہ بن کے درمیان لڑائی کے دوران۔ الزبیر (جس نے مکہ میں خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا)، یزید بن۔ معاویہ کا شام میں انتقال ہوا اور یہ خبر سنتے ہی اموی افواج مکہ سے شام واپس آگئیں۔ امویوں نے یزید کے بیٹے معاویہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ اس طرح شام کے لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی اور مکہ کے لوگوں نے عبداللہ بن مسعود سے بیعت کی۔ الزبیر
خلافت سے استعفیٰ دینا
معاویہ ب۔ یزید کا دور خلافت بہت مختصر تھا۔ کچھ ذرائع کے مطابق، یہ صرف 40 دن تک جاری رہا. تمام تاریخی واقعات کے مطابق، وہ خلیفہ ہونے کو حقیر سمجھتے تھے۔ البتہ اس بارے میں مختلف تاریخی وضاحتیں ہیں کہ وہ خلافت کو کیوں ناپسند کرتے تھے۔
ایک وجہ سے، اس نے استعفیٰ دینے کی بنیادی وجہ اپنے والد (یزید) اور اپنے دادا (معاویہ بن ابی سفیان) کے ساتھ ساتھ دیگر امویوں کے طرز عمل سے نفرت اور اہل بیت (ع) کی طرف ان کا جھکاؤ تھا۔ یعقوبی کے تاریخی بیان کے مطابق، اس نے ایک خطبہ دیا جس میں اس نے خلافت کے منصب سے بیزاری کا اعلان کیا اور اپنے والد اور دادا پر تنقید کی۔ اس خطبہ میں فرمایا کہ معاویہ بن۔ امام علی (ع) کے ساتھ ابی سفیان کی جنگ اور ان کے والد کے شیطانی اعمال بالخصوص امام حسین (ع) اور پیغمبر (ص) کے گھر والوں کا قتل گناہ کبیرہ تھا۔ اموی لوگوں نے انہیں اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ایک مجلس منعقد کرنے کا مشورہ دیا جیسا کہ عمر بن خطاب نے کیا تھا۔ خطاب، لیکن انہوں نے کہا کہ اب اس کونسل کے ممبران جیسے لوگ نہیں رہے۔
ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے کہا کہ وہ خلافت کا عہدہ سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نشاندہی کی کہ ایسے لوگ ہیں جو ان سے زیادہ خلیفہ بننے کے اہل تھے۔ اس نے اموی لوگوں سے کہا کہ یا تو اسے اپنا جانشین چننے دیں یا خود اگلا خلیفہ منتخب کریں۔ کچھ اموی لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ انہیں کچھ وقت دیں۔ تاہم تھوڑی دیر بعد انہوں نے اسے زخمی کر کے قتل کر دیا۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس کی اپنے والد اور دادا پر تنقید سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بیمار تھے، اور ان کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے وہ خلافت سنبھالنے میں ناکام رہے۔ المسعودی کے مطابق، معاویہ کی کنیت پہلے ابو یزید تھی، لیکن خلافت سنبھالنے کے بعد انہیں ابو لیلیٰ کہا گیا جو کمزور لوگوں کو دیا جانے والا لقب تھا۔
شیعہ ازم
کچھ حالیہ شیعہ تاریخی اور سوانحی ذرائع کے مطابق، معاویہ بن. یزید شیعہ تھا۔ دسویں/ سولہویں صدی کے فارسی تاریخی ماخذ حبیب السیار میں ایک رپورٹ ہے کہ معاویہ نے واضح طور پر کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام خلافت کے منصب کے اہل تھے اور لوگوں کی سفارش کرتے تھے۔ اس سے عہدہ قبول کرنے کے لیے کہیں۔ بعض شیعہ سوانحی منابع نے اس رپورٹ کو ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے کہ معاویہ بن یزید شیعہ تھا۔
موت
معاویہ ب۔ یزید کی وفات 64/683 میں ہوئی اور دمشق میں دفن ہوئے۔ اس کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اسے زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہو گا اور دوسروں کا خیال ہے کہ شاید وہ فالج سے مارا گیا ہے۔ دوسرے تاریخی بیانات کے مطابق اس کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ معاویہ بن کے بارے میں اختلاف ہے۔ یزید کی عمر جب وفات پائی۔ ابن قتیبہ کے مطابق جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی عمر 18 سال تھی۔ دوسرے ذرائع کا خیال ہے کہ وہ 19، 20، یا 21 سال کا تھا۔
معاویہ ب۔ یزید کا خطبہ یعقوبی کے حساب سے
"الحمد للہ، اے لوگو، ہم تم سے آزمائے گئے اور تم ہم سے آزمائے گئے، اور ہم اس بات سے بے خبر نہیں کہ تم ہمیں ناپسند کرتے ہو اور ہم پر لعنت بھیجتے ہو۔ میرے دادا معاویہ بن ابی سفیان نے خلافت پر اختلاف کیا۔ کسی ایسے شخص کے ساتھ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری اور اسلام کے حوالے سے ان سے زیادہ قابل ہو، کوئی ایسا شخص جو مسلمانوں کا علمبردار اور پہلا مومن ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ہوں۔ میرے دادا نے ایسے گناہ کیے ہیں جو آپ جانتے ہیں اور آپ نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے جس سے آپ انکار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ مر گیا اور اپنے اعمال کی قبر میں پھنس گیا۔ وہ شہوت کی گاڑی پر بیٹھ گیا، اپنے گناہوں کو اپنی امیدوں کے ساتھ ساتھ نیک ہونے کے لیے لے گیا، تاہم، وہ اپنی خواہش پوری نہ کر سکا اور اس پر موت آ گئی، اس کی طاقت ختم ہو گئی اور اس کا وقت ختم ہو گیا، وہ اپنے گناہوں میں پھنس گیا۔ اس کی قبر میں۔”
پھر معاویہ بن یزید نے روتے ہوئے کہا: ہمارے لیے سب سے زیادہ ناگوار بات یہ ہے کہ ہم ہیں۔ اپنی ہولناک موت اور اس کے فتنوں سے واقف تھا، کیونکہ اس نے رسول اللہ (ص) کے گھر والوں کو قتل کیا اور کعبہ کو جلا کر اس کی بے حرمتی کی۔ میں تمہارے معاملات سنبھالنے اور تمہاری ذمہ داریوں کو اٹھانے والا نہیں ہوں۔ اب یہ آپ اور آپ کی خلافت ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ دنیاوی دنیا نعمت ہے تو اس میں ہمارا حصہ تھا اور اگر نقصان ہے تو سفیان نے جو کچھ حاصل کیا وہ کافی ہے۔