محمد بن محمد بن نُعمان (336 یا 338۔413 ھ) شیخ مفید کے نام سے مشہور چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ امامی متکلم و فقیہ ہیں۔ نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید نے علم اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ فقہی اجتہاد کی راہ میں ایک جدید روش کو متعارف کرایا جو افراطی عقل گرائی اور روایات کو بغیر عقلی پیمانے پر جانچے قبول کرنے کے مقابلہ میں ایک درمیانی راہ پر مبنی تھی۔
شیخ صدوق، ابن جنید اسکافی و ابن قولویہ ان کے برجستہ ترین اساتید، شیخ طوسی، سید مرتضی، سید رضی و نجاشی ان کے مشہور ترین شاگرد اور فقہ میں کتاب المُقنِعَہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور شیعہ ائمہ کی سیرت پر کتاب الارشاد ان کی معروف ترین تالیفات میں سے ہیں۔
نسب، لقب اور ولادت
محمد بن محمد نعمان کی ولادت 11 ذی القعدہ 336 ھ یا 338 ھ میں بغداد کے پاس عکبری نامی مقام پر ہوئی۔
ان کے والد معلم تھے۔ اسی سبب سے وہ ابن المعلم کے لقب سے مشہور تھے۔ عکبری و بغدادی بھی ان کے دو دیگر القاب ہیں۔ شیخ مفید کے لقب سے ملقب ہونے سلسلہ میں نقل ہوا ہے: معتزلی عالم علی بن عیسی رمانی سے ہوئے ایک مناظرے میں جب انہوں نے ان کے تمام استدلالات کو باطل کرنے میں کامیابی حاصل کی تو وہ اس کے بعد سے انہیں مفید کہہ کر خطاب کرنے لگے۔
تاریخی منابع میں ان کی دو اولاد کا ذکر ہوا ہے: ایک ابو القاسم علی نامی بیٹے کا اور دوسرے ایک بیٹی ہے جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے وہ ابو یعلی جعفری کی زوجہ ہیں۔
تعلیم
انہوں نے قرآن اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ شیعہ و اہل سنت محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔
شیخ صدوق (متوفی 381 ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی 381 ھ)، ابن قولویہ (متوفی 369 ھ)، ابو غالب زراری (متوفی 368 ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی 355 ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔
شیخ مفید نے بزرگ معتزلی استاد حسین بن علی بصری معروف بہ جعل اور نامور متکلم ابو الجیش مظفر بن محمد خراسانی بلخی کے شاگرد ابو یاسر سے علم حاصل کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کے کہنے پر اس زمانہ کے مشہور معتزلی عالم علی بن عیسی زمانی کے درس میں بھی شرکت کی۔
تقریبا 40 برس کی عمر سے شیعوں کی فقہی، کلامی و حدیثی زعامت ان کے ذمے ہوئی اور انہوں نے شیعہ عقائد کے دفاع کے لئے دوسرے مذاہب کے علماء سے مناظرات کئے۔
اخلاقی خصوصیات
نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید کثرت سے صدقہ دیتے تھے، متواضع تھے، اکثر روزے رکھتے اور بیشتر وقت نماز میں مشغول رہتے تھے۔ موٹا لباس پہنتے تھے یہاں تک کہ انہیں شیخ مشایخ الصوفیہ کہا جانے لگا۔ ان کے داماد ابو یعلی جعفری کے مطابق وہ شب میں کم سوتے تھے اور بیشتر اوقات مطالعہ، نماز، تلاوت قرآن اور تدریس میں بسر کرتے تھے۔
مقام علمی
شیخ طوسی نے اپنئ کتاب الفہرست میں شیخ مفید کو تیز فہم، حاضر جواب، علم کلام و فقہ میں پیش گام ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم نے انہیں رئیس متکلمین کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ علم کلام میں انہیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اور انہیں بے نظیر ذکر کیا ہے۔
شیخ مفید نے بہت سے شاگرد تربیت کئے جن میں بعض بڑے شیعہ عالم ہوئے۔ ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
سید مرتضی (متوفی 436 ھ)
سید رضی (متوفی 406 ھ)
شیخ طوسی (متوفی 460 ھ)
نجاشی (متوفی 450 ھ)
سلَّار دیلمی (متوفی 463 ھ)
ابو الفتح کراجکی (متوفی 449 ھ)
ابو یعلی محمّد بن حسن جعفری (متوفی 463 ھ)۔
جدید فقہی روش
شیخ مفید نے فقہ شیعہ میں سابق عہد سے متفاوت روش پیش کی۔ سبحانی و گرجی کے مطابق، شیخ سے قبل دو فقہی روش کا رواج تھا: پہلی روش روایات پر افراطی صورت پر عمل پر مبتنی تھی، جس میں روایت کی سند و متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ دوسری روش میں روایات کے اوپر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور حد سے زیادہ عقلی قواعد پر تاکید کی جاتی تھی چاہے وہ قیاس کی مانند نصوص دینی کے ساتھ تعارض ہی کیوں نہ رکھتی ہوں۔ شیخ نے درمیانی راہ کا انتخاب کیا اور ایک جدید روش کی بنیاد رکھی کہ جس میں ابتدائی طور پر عقل کی مدد سے اسنباط و استخراج احکام کے لئے اصول و قواعد تدوین ہوتے تھے، اس کے بعد ان اصولوں کے ذریعہ متون دینی سے احکام استنباط کئے جاتے تھے۔ اسی سبب سے انہیں علم اصول فقہ کا مدون کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔
شیخ مفید کے بعد ان کے شاگرد سید مرتضی نے اپنی کتاب الذریعہ الی اصول الشریعہ اور شیخ طوسی نے کتاب العدہ فی الاصول کے ذریعہ اس راہ کو جاری رکھا۔
علمی مناظرے
شیخ مفید کے زمانہ میں مختلف اسلامی مذاہب کے بزرگ علماء کے درمیان بغداد میں علمی مباحثات ہوا کرتے تھے۔ ان میں بہت سے مناظرات عباسی خلفاء کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ شیخ ان جلسات میں حاضر ہوتے تھے اور شیعہ مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔
شیخ مفید کے گھر میں بھی ایسی بحثوں اور گفتگو کے لئے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مختلف اسلامی مذاہب کے علماء جیسے معتزلی، زیدی، اسماعیلی شرکت کیا کرتے تھے۔
قلمی آثار
تفصیلی مضمون: فہرست آثار شیخ مفید
فہرست نجاشی کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ۱۷۵ ہے۔ ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔
ان کی معروف ترین کتب میں علم فقہ میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت ائمہ (ع) کے سلسلہ میں کتاب الارشاد قابل ذکر ہیں۔
شیخ مفید کا مجموعہ آثار ۱۴ جلدوں میں تصنیفات شیخ مفید کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۷۱ ش میں شیخ مفید عالمی کانگریس کے موقع پر منظر عام پر آ چکا ہے۔
عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں امامت، 10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ، 41 کتابیں فقہ، 12 کتابیں علوم قرآن، 5 کتابیں اصول فقہ، 4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں حدیث کے موضوع پر لکھی ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔
ہزار سالہ عالمی کانفرنس
تفصیلی مضمون: ہزار سالہ عالمی کانفرنس
شیخ مفید ہزار سالہ عالمی پروگرام 24۔26 شوال 1413 ھ) میں مدرسہ عالی تربیتی و قضایی قم میں منعقد ہوا۔ جس میں اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے بزرگان و متفکرین نے شرکت کی اور شیخ مفید کی علمی و دینی شخصیت کے سلسلہ میں مقالات پیش کئے۔
وفات
سن 413 ھ میں 2 یا 3 رمضان جمعہ کے روز شیخ مفید 75 یا 77 سال کی عمر گزار کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کی وفات پر اس سے بڑا جم غفیر نہیں دیکھا۔ لوگ اعتقادی اور مذہبی تفریق کے بغیر ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور گریہ کیا۔ مؤرخین نے ان کے جنازے میں شریک ہونے والے شیعوں کی تعداد 80/000 بیان کی ہے دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے علاوہ تھے۔ میدان "اشنان” میں ان کی نماز جنازہ سید مرتضی نے پڑھائی اور انہیں ان کے گھر کے صحن میں دفن کیا گیا۔ دو سال کے بعد ان کے جسد کو حرم کاظمین کی پائنتی کی جانب قریش کی قبروں کی طرف ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی سمت دفنایا گیا۔
شیخ مفید پر فیلم
1374 ش میں شیخ مفید پر 90 مینٹ کی ایک فیچر فیلم بنائی گئی۔ جس کے رائٹر محمود حسنی اور ڈائریکٹر سیرووس مقدم و فریبرز صالح تھے۔ 1381 ش میں یہ فیلم سیریل اور ڈرامہ کی شکل میں خورشید شب کے نام سے ایرانی ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی گئی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا (5 یا 6ھ- 62ھ) امام علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں۔ احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے دور خلافت میں آپ کوفہ میں خواتین کے لئے تفسیر قرآن کا درس دیتی تھیں۔
حضرت زینب کے شوہر عبداللہ بن جعفر تھے۔ واقعہ کربلا میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ موجود تھیں۔ امام حسینؑ نے عاشورا کے دن آخری وداع میں حضرت زینب سے نماز شب میں آپ کے لئے دعا کرنے کی سفارش کی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد حضرت زینب دوسرے اسیروں کے ساتھ اسیری کی حالت میں کوفہ پھر وہاں سے شام بھیجی گئیں۔
کوفہ اور دربار شام میں حضرت زینب کا خطبہ مشہور ہے۔ آپ نے یزید کے دربار میں اپنے خطبوں کے ذریعے سامعین کو متاثر کیا جس کی بنا پر یزید امام حسینؑ کے قتل اور دیگر جرائم کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالنے نیز اس پر لعنت بھیجنے پر مجبور ہوا۔
آپ بہت زیادہ مصائب کا شکار ہوئیں اسی بنا پر آپ کو اُمّ المَصائب کا لقب دیا گیا ہے۔ حضرت زینب کے محل دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شام میں حرم حضرت زینب اور مصر میں مقام السیدۃ زینب آپ سے منسوب ہیں۔
اجمالی تعارف
حضرت زینب امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی صاحبزادی ہیں۔ بعض منابع کے مطابق حضرت زینبؑ 5 جمادی الاول 5 یا 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
متعدد احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کی طرف سے یہ نام پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا تھا۔ کتاب الخصائص الزینبیۃ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اس کے بعد فرمایا: میری امت کے حاضرین غایبین کو میری پوتی زینب کی کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری پوتی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہے۔ زینب لغت میں نیک منظر اور خوشبودار درخت یا باپ کی زینت کے معنی میں آتا ہے۔
حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔
آپ نے زندگی میں بہت زیادہ مصائب دیکھے۔ جیسے رسول اللہ کی وفات، اپنی والدہ فاطمہ و حضرت علی کی زندگی کی سختیاں، شہادت امام حسن مجتبی، واقعۂ کربلا اور کوفہ و شام کی اسیری ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔
پیدائش و وفات
حضرت زینبؑ پانچ جمادی الثانی سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں اور اتوار کی رات 15 رجب سنہ 63 ہجری کو اپنے شریک حیات عبداللہ بن جعفر کے ہمراہ سفر شام کے دوران وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں اور بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ مدینہ یا مصر میں دفن ہیں۔
شریک حیات اور اولاد
حضرت زینب کی شادی سنہ 17 ہجری میں جعفر طیار کے بیٹے عبداللہ سے ہوئی اور اس شادی کے نتیجے میں خدا نے انہیں چار بیٹے: علی، عون، عباس، محمد؛ اور ایک بیٹی بنام ام کلثوم عطا فرمائی۔ عون اور محمد واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔
معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کیلئے ام کلثوم کا رشتہ مانگا لیکن امام حسینؑ نے انہیں اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا۔
فضائل اور مناقب
علم
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.
اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔
حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔
سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے۔ کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔
کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"میرے ماں باپ ان پر قربان ہو جائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں۔
عبادت
حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:
شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔
خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل” ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔
صبر و استقامت
حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلا میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:
بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما۔
آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔
واقعۂ کربلا
تفصیلی مضمون: شب عاشورا
شیخ مفید امام سجاد ؑ سے یوں روایت کرتے ہیں: شب تاسوعا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب ہمارے پاس تھیں اور امام حسین میری دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ امام حسین خیمے میں گئے جہاں ابوذر غفاری کے غلام جوین انکے ساتھ تھے۔ آپ اپنی تلوار کو تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
یا دهر افّ لک من خلیل کم لک بالاشراق والاصیل
اے دنیا! تیری دوستی پر افسوس! کتنے ایسے خلیل تمہیں پانے والے اشراق اور اصیل ہیں
من صاحب او طالب قتیل والدّہر لا یقنع بالبدیل
ان میں سے کچھ صاحب اور طالب قتیل ہیں اور زمانہ بدیل پر قناعت نہیں کرتا
پس امام حسین نے ان اشعار کی دو تین مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ میں نے آپ کے مقصود کو پا لیا، مجھ پر گریہ غالب ہوا لیکن میں آنسو پی گیا اور میں جان گیا مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ میری پھوپھی رقت قلبی (جو عورتوں کی خصوصیت ہے) کی وجہ سے یہ سننے کی طاقت نہ لا سکی، جلدی سے اٹھیں اور میرے والد کے پاس پہنچیں تو مخاطب ہوئیں: واہ مصیبتا! کاش مجھے موت آ جاتی، آج میری ماں فاطمہ، باپ علی اور بھائی حسن فوت ہو گئے، اے گذشتگان کے جانشین! باقی رہ جانے والوں کی ڈھارس! یہ سننا تھا کہ امام حسین نے انکی طرف نگاہ کی اور فرمایا: اے بہن! شیطان تجھ پر غلبہ حاصل نہ کرلے، آپ نے بھری ہوئی آنکھوں سے فرمایا: اگر پرندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سو جائے گا۔
پس حضرت زینب ؑ نے کہا: مجھ پر وائے ہو! کیا یہ بزور شمشیر تمہاری جان لیں گے؟ ایسا ہے تو یہ مجھے اور زیادہ غمگین کر دیا اور یہ میرے لئے زیادہ ناقابل برداشت ہے یہ کہہ کر پھوپھی نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور گریبان پارہ پارہ کر لیا، آپ بیہوش ہو کر گر گئیں۔ پس حسین ؑ اٹھے اور پانی کے چھینٹے آپ کے چہرے مارے اور فرمایا:
اے بہن! خدا کا خوف کیجئے، صبر اور شکیبائی اختیار کیجئے! جان لیجئے کہ اہل زمین اس دنیا سے چلے گئے اور نہ ہی اہل آسمان باقی نہیں رہے گے، ہر چیز فانی ہے صرف وہ وجہ اللہ باقی رہے گا جس نے اپنی قدرت سے خلق کیا اور پھر انہیں اپنی طرف لوٹائے گا اور وہ یگانہ و یکتا ہے۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ مجھ سے بہتر تھیں اسی طرح میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور رسول خدا صلّی اللّه علیہ و آلہ ہمارے اور سب مسلمانوں کیلئے نمونۂ عمل ہیں۔
امام نے ان الفاظ کے ساتھ انکی دلداری کی اور فرمایا: اے بہن! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم میرے بعد اس قسم کو مت توڑنا، جب دیگران پر حزن و غم طاری ہو تو آپ میری خاطر اپنا گریبان چاک نہ کریں، چہرہ مت پیٹیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ کہہ کر حضرت زینب کو میرے پاس بٹھا دیا اور اپنے اصحاب کے پاس چلے گئے۔
عصر عاشور جب سیدہ زینبؑ نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لے کر آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور عمر ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟”. (ترجمہ: اے سعد کے بیٹے! ابو عبد اللہ (امام حسنؑ) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہو؟!).
ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبریؑ نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل”.(ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیمبرؐ! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)
حضرت زینبؑ نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!
بھائی کی شہادت پر رد عمل
حضرت زینبؑ بھائی امام حسینؑ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:
"وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي”.
ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں۔ یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خداؐ ہے اور وہ پیامبر ہدایتؐ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی… حضرت زینبؑ کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا.
دربار كوفہ
تفصیلی مضمون: کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ
عاشورا کے بعد اہل بیت کے اسیروں کو بازار میں لایا گیا۔ کوفہ میں زینب بنت علی نے ایک اثردار خطبہ دیا جس نے لوگوں پر بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا۔
بُشر بن خُزیم اسدی حضرت زینبؑ کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:
اس دن میں زینب بنت علیؑ کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ”! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔ حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا لیکن اس خطبے نے کوفہ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علیؑ کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔
خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی علامات ظاہر ہونے لگیں چنانچہ اس حکومت کے خلاف احتمالی بغاوت کے سد باب کیلئے اسیروں کو حکومت کے مرکزی مقام دار الامارہ لے جانے حکم دیا گیا۔
حضرت زینبؑ دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زياد کے ساتھ آپ نے مناظرہ کیا۔
حضرت زینبؑ کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بنو امیہ کو رسوا کردیا۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے اسیروں کو قید کرنے کا حکم دیا ۔کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينبؑ کے خطبات، امام سجادؑ، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین کی گفتگو، عبداللہ بن عفیف ازدی اور زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام میں جرأت پیدا کر دی یوں ظالم حکمران کے خلاف قیام کا راستہ ہموار ہوا؛ کیونکہ کوفہ والے حضرت زینبؑ کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور خاندان عصمت و طہارت کے قتل کا بدنما داغ جو ان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا تھا کو مٹانے کیلئے راہ کسی راہ حل تلاش کرنے لگے یوں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ آخرکار مختار کی قیادت میں خون حسین بن علی کے انتقام کیلئے قیام کیا۔
شام
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اسرائے اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہارؑ کا یہ کاروان شام روانہ ہوا۔
اسرائے اہل بیتؑ کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دار الخلافہ دمشق جہاں لوگ علیؑ اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسولؐ کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے شہر کی تزئین باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا۔
لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ امام سجّادؑ اور حضرت زینبؑ نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسینؑ کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئیں بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونے شروع ہو گئی تھی۔
دربار یزید
یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے۔ اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔
یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک لبوں کی بے حرمتی کرنا شروع کیا اور رسول اکرمؐ اور آپ کی آل کے ساتھ اپنی دشمنی کو علنی کرتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنا شروع کیا جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
"اے کاش میرے آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خرزج کس طرح ہماری تلواروں کی ستم کا نشانہ بنا ہے، تو وہ اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھتے: اے یزید! تہمارے ہاتھ کبھی شل نہ ہو! ہم نے بنی ہاشم کے بزرگان کو قتل کیا اور اسے جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور اس فتح کو جنگ بدر کی شکست کے مقابلے میں قرار دیا۔ بنی ہاشم نے سیاسی کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی وحی اتری ہے۔ میں خُندُف کے نسل میں سے نہیں ہو اگر احمد(حضرت محمد) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔
اتنے میں مجلس کے ایک کونے سے حضرت زینبؑ اٹھی اور بلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ یزید کے دربار میں جناب زینبؑ کے اس خطبے نے امام حسینؑ کی حقّانیت اور یزید کے باطل ہونے کو سب پر واضح اور آشکار کیا۔
خطبے کے فوری اثرات
حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔
دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔
یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔ اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی۔
آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔
حضرت زینب کے خطبہ کے چند اقتباسات : سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود و سلام کے بعد فرمایا:
اما بعد! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کر دیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہو چکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان و منزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کر رہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خود نمایی کر رہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منا رہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”.
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں۔.
اس کے بعد فرمایا: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے گا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبد المطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد [برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں۔ "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں۔”
اے یزید! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے” ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
مسجد قُبا اسلام میں پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد حضرت محمد(ص) نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ قرآن کریم میں سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۸ اور ۱۰۹ میں اس مسجد کا تذکرہ ہوا ہے۔
محل وقوع
مسجد قبا، قبا نامی گاوں میں مدینہ سے 6 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وقت اس مسجد اور گاوں دونوں کو مدینہ کے اندر شامل کیا گیا ہے۔ اس مسجد کو "قبا” نام رکھنے کی علت بھی یہی تھی کہ اسے "قبا” نامی گاوں میں بنائی گئی تھی اور اس گاوں کو اس نام سے پکارنے کی وجہ یہ تھی کی اس میں اسی نام سے ایک چشمہ موجود تھا۔
پیغمبر اکرم(ص) کا قبا میں داخلہ اور مسجد کی تعمیر
پیغمبر اکرم(ص) ہجرت کے موقع پر مدینے میں داخل ہونے سے پہلے "قبا” نامی گاوں کے مکینوں کے اصرار پر اس گاوں میں کچھ ایام کیلئے قیام فرمایا اور وہیں پر آپ نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم صادر فرمایا۔ قبا میں آپ کی تشریف آوری پیر کے دن 12 یا 14 ربیع الاول بتایا گیا ہے۔ اس گاوں میں آپ کے قیام کے ایام کو مورخین نے ایک ہفتہ بتایا ہے جس کے دوران آپ(ص) نے مسلمانوں کے تعاون سے اس مسجد کی تعمیر فرمائی۔ بعض منابع کے مطابق اس مسجد کو عمار یاسر کی تجویز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جبکہ بعض دیگر منابع کے مطابق اس مسجد کی ساخت اور تعمیر "عمار یاسر” نے اہم کردار ادا کیا اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسلام میں وہ پہلا شخص ہے جس نے مسجد تعمیر کی۔
فضایل
- رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: جو بھی اپنے گھر میں وضو کرے اور مسجد قبا میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو اسے ایک عمرہ کا ثواب دیا جاتا ہے۔
- مسجد قبا حضرت رسول خدا(ص) کے ہاں نہایت اہمیت کا حامل تھا، یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضور(ص) مدینہ میں سکونت اختیار فرمانے کی بعد ہر ہفتہ کے دن پیدل یا سوارہ نماز کی خاطر اس مسجد میں تشریف لاتے تھے۔
تعمیر نو
مسجد قبا کو عثمان بن عفان کی خلافت کے دور میں پہلی بار توسیع اور تعمیر کی گئی ۔
مسجد قبا میں دوسری تبدیلی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں لایی گئی جس کے بعد کئی سال اسی حالت پر باقی رہی۔
سنہ ۵۵۵ق، میں جمال الدین اصفہانی جو موصل کا وزیر تھا، نے اس مسجد کی تعمیر نو کا حکم دیا جس پر اس مسجد کی دبارہ تعمیر عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح آٹھویں اور نویں صدی ہجری قمری میں اس مسجد کے بعض حصوں کی تعمیر نو کی گئی ۔ اس کے بعد حکومت عثمانی خصوصا سعود بن عبد العزیز کے دور میں اسے اسے دوبارہ توسیع دے کر کئی برابر کی گئی۔
اس وقت اس مسجد کے کئی صحن ہیں جن میں سے ہر ایک پر مخصوص گنبد تعمیر کی گئی ہے۔
قرآن میں مسجد قبا کا تذکرہ
اکثر مفسرین کے مطابق سورہ توبہ کی آیت نمبر 108 میں جس مسجد کا تذکزہ ہوا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کو زیادہ سزاوار گردانا گیا ہے اس سے مراد یہی مسجد ہے۔
لَا تَقُمْ فِیہ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ أَوَّلِ یوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیہ فِیہ رِجَالٌ یحِبُّونَ أَن یتَطَہرُوا وَاللَّہ یحِبُّ الْمُطَّہرِینَ (ترجمہ: جس مسجد کی بنیاد روز اوّل سے تقوٰیٰ پر ہے وہ اس قابل ہے کہ آپ اس میں نماز ادا کریں -اس میں وہ مرد بھی ہیں جو طہارت کو دوست رکھتے ہیں اور خدا بھی پاکیزہ افراد سے محبت کرتا ہے۔)
مذکورہ آیت میں اس مسجد کی دو خصوصیات کا تذکرہ ہوتا ہے جن میں سے ایک اس میں نماز پڑهنا زیادہ مناسب ہونا جبکہ دوسری صفت یہاں پر موجود افراد کی ہیں جو پاکی اور طہارت کو دوست رکھنے والے ہیں۔
عام الفیل اس سال کو کہا جاتا ہے جس سال یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا۔ چونکہ ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر سوار تھے اسی لئے اس سال کو عام الفیل کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے سورہ فیل میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مورخین کے مطابق یہ واقعہ سنہ 570 عیسوی کو پیش آیا اور مشہور قول کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ولادت بھی اسی سال ہوئی ہے۔
لشکر تیار کرنے کی وجہ
جب یمن کی حکومت ابرہہ کے ہاتھ آئی تو اس نے دیکھا کہ لوگ دور اور نزدیک سے اس شہر میں ایک خاص عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور اس عزت کی وجہ کعبہ ہے، اسی لئے صنعاء شہر میں ایک کلیسا بنایا اور حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھا جس میں یوں تحریر کیا: (میں ایک ایسا کلیسا بنوا رہا ہوں جس کی مانند ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا۔ اور اس کلیسا کے تیار ہوتے ہی کعبہ کے زائرین کو اس کی طرف لے جاؤں گا۔)
لوگوں نے اس کا زیادہ احترام نہ کیا حتی کے بنی فقیم کے ایک فرد نے ابرہہ کے اس کلیسے میں پیشاب کر کے اس کی بے حرمتی کی، ابرہہ جو کہ ایک مناسب فرصت کی تلاش میں تھا تا کہ کعبہ کو خراب کرے، اس بے حرمتی وجہ سے اس نے ایک لشکر تیار کیا اور ١٤ ہاتھی کے ہمراہ مکہ کی جانب حرکت کی تا کہ کعبہ کو خراب کرے اور لوگوں کی توجہ صرف یمن کی جانب ہو جائے۔
ابرہہ کا مقابلہ
یمن کے دو بزرگوار ذونفر اور نفیل بن حبیب خثعمی اس لشکر کے مقابلے کے لئے اٹھے لیکن ابرہہ کے ہاتھوں ان دونوں کو شکست ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب کو پیغام
جب ابرہہ کا لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو، ابرہہ نے ایک پیک مکہ کی جانب روانہ کیا تا کہ مکہ کے بزرگ کے ساتھ گفتگو کرے اور انکو مکہ کی تخریب کے بارے میں بتائے۔ اس نے مکہ کے بزرگوار، عبدالمطلب کو پیغام بھیجا (میں مکہ میں لوگوں کو کوئی نقصان پہنچانے نہیں آیا بلکہ صرف کعبہ کی عمارت کو خراب کرنے آیا ہوں)
عبدالمطلب نے ابرہہ کے پیک کو واپس بھیجا اور کہا جا کر ابرہہ کو کہہ دو کہ ہماری کسی قسم کی جنگ ابرہہ کے ساتھ نہیں کیونکہ ہماری جنگ کے لئے کوئی تیاری نہیں ہے اور اگر خانہ کعبہ کو خراب کرنے کی نیت سے آیا ہے تو اسے کہہ دو کہ یہ گھر خدا اور اس کے خلیل ابراہیم(ع) کا گھر ہے اگر وہ اپنے اور اپنے خلیل کے گھر کی خود حفاظت کرنا چاہے گا تو کرے گا اگر نہیں چاہے گا تو نہیں کرے گا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات
ابرہہ کے لشکر نے قریش کے کچھ اونٹ چوری کئے تھے۔ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے اور درخواست کی کہ ہمارے ٢٠٠ اونٹ جن کو تمہارے لشکر نے چوری کئے گئے ہیں ان کو واپس لوٹایا جائے۔ جس کے نتیجے میں ابرہہ کی عزت اور بھی خراب ہوئی اور ابرہہ نے عبدالمطلب سے کہا میں نے سوچا تھا کہ تم مکے کی تعظیم اور حرمت کی خاطر مجھ سے بات کرنے آئے ہو لیکن تم نے تو اونٹ واپش لوٹانے کے علاوہ کوئی درخواست مجھ سے نہیں کی۔ عبدالمطلب نے جواب میں کہا: انا ربّ الابل و للبیت ربّ یمنعه ترجمہ: میں اونٹوں کا مالک ہوں، کعبہ کا مالک بھی ہے جو خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔
ابرہہ نے غرور سے کہا: (کوئی مجھے اپنے مقصد سے نہیں روک سکتا) اور حکم دیا کہ اس کے اونٹ کو واپس لوٹا دیں۔
قریش کا مکے سے خارج ہونا
جب عبدالمطلب نے اپنے اونٹ واپس لوٹا لئے تو اہل مکہ کی جانب آکر حکم دیا کہ اپنے مال کے ہمراہ پہاڑوں کے اوپر چلے جائیں۔ جب شہر مکہ خالی ہو گیا، تو حضرت عبدالمطلب کعبہ کے نزدیک جاکر کعبہ کے غلاف کو ہاتھ میں لیا اور دعا اور گریہ وزاری میں مشغول ہو گئے اور کہا:
- خدایا! تمہارے بندے نے اپنے گھر کو آباد اور تمہارے گھر کو ویران اور خراب کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو خود اپنے گھر کی حفاظت فرما اور اپنے گھر کی شوکت کو اس کے گھر کی شوکت سے کم نہ ہوںے دے۔ لیکن اگر دشمن تیرے گھر اور ہمارے قبلے کو خراب کر دے تو خود ہمیں بتا کہ اس کے بعد ہم کس جگہ پر تیری عبادت کریں۔ (٢)
ابرہہ کے لشکر پر ابابیل کا حملہ
جیسے ہی ابرہہ کے لشکر نے کعبہ کی جانب حرکت کی خداوند نے آسمان سے ابابیل نام کے پرندوں کو حکم دیا تا کہ وہ اپنی چونچ میں پتھر لے کر ابرہہ کے لشکر پر حملہ کریں اور انکو ہلاک کر دیں۔ اچانک آسمان پر اندھیرا چھا گیا اور پرندوں کا ایک بہت بڑا لشکر ظاہر ہو گیا۔ ہر ایک کی چونچ میں ایک چھوٹا پتھر تھا اور وہ پتھر کو پھیںک رہے تھے جس کو بھی یہ پتھر لگتا تھا وہی پر ہلاک ہوجاتا تھا بہت کم تعداد میں لوگ زندہ بچے جو یمن کی طرف زخمی اور خون آلود حالت میں لوٹ گئے۔ (٣)
قرآن نے اس واقعہ کو سورہ فیل کے نام سے یاد کیا ہے۔ عام الفیل کے واقعہ کے بعد قریش کو اعراب میں خاص منزلت اور مقام و عزت حاصل ہوئی۔