حسن بن یوسف بن مطہر حلّی (648۔726 ھ) علامہ حلّی کے نام سے مشہور، آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ہیں۔ انہوں نے علم اصول، فقہ، تفسیر، منطق، کلام اور رجال میں 120 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے اکثر اس وقت بھی شیعہ حوزات علمیہ میں تدریس اور تحقیق کا اصلی منبع شمار کی جاتی ہیں۔ فقہ شیعہ کی گسترش اور توسیع میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے شیعہ مذہب کے کلامی اور اعتقادی مبانی کو عقلی بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی کتاب باب حادی عشر اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی کتاب تجرید الاعتقاد کی شرح میں لکھی جانے والی کتاب کشف المراد شیعہ اعتقادات کے اصلی متون میں شامل ہیں۔ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید، تذکرۃ الفقہاء، قواعد الاحکام اور مختلف الشیعہ وغیرہ ان کی دیگر معروف تصانیف ہیں۔
علامہ حلی پہلی شخصیت ہیں جنہیں آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔ قطب الدین رازی، فخر المحققین، ابن معیہ اور محمد بن علی جرجانی ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔ ایران اور سلطان محمد خدا بندہ کے دربار میں ان کی موجودگی اس ملک میں شیعہ مذہب کے رواج پیدا کرنے کا سبب بنی۔
زندگی اور حصول علم
علامہ حلی جمعہ 29 رمضان سنہ 648 ھ میں عراق کے شہر حلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد یوسف بن مطہر متکلمین اور بلند پائے کے شقعہ فقہاء میں سے تھے۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے والد کی ہدایات پر قرآن کی تعلیم کیلئے مدرسہ میں داخلہ لیا اور اسی مدرسے میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ادبیات عرب، علم فقہ، اصول فقہ، حدیث اور کلام اپنے والد اور اپنے ماموں محقق حلی سے جبکہ علم منطق، فلسفہ اور ہیئت وغیرہ دوسرے اساتید بطور خاص خواجہ نصیر الدین طوسی سے کسب کئے اور سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے۔ کمسنی میں تعلیم اور اعلی فضائل کے حامل ہونے کی وجہ سے آپ اپنے خاندان اور اہل علم کے درمیان جمال الدین کے نام سے مشہور تھے۔
علمی کمالات
سنہ 676 ھ میں محقق حلی جو اپنے زمانے میں دنیائے تشیع کے مرجع تقلید تھے، کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور دیگر دانشوروں نے ایک ایسی شخصیت کی تلاش شروع کیا جو شیعیان جہاں کی مرجعیت اور زعامت کیلئے سب سے لائق اور مناسب ہو۔ اس حوالے سے علامہ حلی کو اس مقام کیلئے سب سے زیادہ مناسب پایا یوں انہوں نے 28 سال کی عمر میں شیعہ مرجعیت کو قبول کیا۔
علامہ حلی پہلی شخصیت تھی جنہیں ان کی علمی مقام اور اخلاقی فضائل و کمالات کی بنا پر آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852 ھ) نے انہیں "آیۃ فی الذكاء” کا لقب دیا۔ شرف الدین شولستانی، شیخ بہائی اور ملا محمد باقر مجلسی نے اپنے اپنے شاگردوں کو دیئے جانے والے اجازہ اجتہاد میں علامہ حلی کو آیت اللہ فی العالمین کے نام سے یاد کیا ہے۔
ایران میں آمد
علامہ حلی ایران کب تشریف لائے اس کی کوئی دقیق تاریخ مشخص نہیں۔ لیکن یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ سنہ 705 ہجری میں انہوں نے سلسلہ ایلخانیان کے بادشاہ سلطان محمد خدا بندہ کی دعوت پر ایران کا سفر کیا۔ تاج الدین آوی نے بادشاہ کے دربار میں علامہ حلی کی رسائی کیلئے زمینہ ہموار کیا۔ علامہ حلی کی ایران میں داخلے کے بعد ایک دن کسی مجلس میں اہل سنت کے مذاہب اربعہ کے مختلف علماء منجملہ خواجہ نظام الدین عبد الملک مراغہای کے ساتھ مناظرہ کیا۔ ان مناظرے میں علامہ حلی نے امام علی(ع) کی ولایت و امامت اور مذہب شیعہ کی حقانیت کو پادشاہ کے سامنے ثابت کیا۔ یہ واقعہ پادشاہ کے مذہب شیعہ اختیار کرنے کا باعث بنا اور انہوں نے اپنا نام "الجایتو” سے سلطان محمد خدا بندہ میں تبدیل کیا اور شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔ مختلف تاریخی منابع میں سلطان محمد خدا بندہ کی مذہب شیعہ اختیار کرنے میں علامہ حلی کے کردار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
علامہ حلی کا مشہور مناظرہ
میرزا محمد علی مدرس تبریزی اپنی کتاب ریحانۃ الادب میں علامہ مجلسی سے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح میں لکھتے ہیں: ایک دن سلطان محمد خدا بندہ نے ایک مجلس منعقد کی اور اہل سنت کے بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا نیز علامہ حلی کو بھی اس مجلس میں دعوت دی گئی۔ علامہ حلی نے مجلس میں داخل ہوتے وقت جوتے اپنی بغل میں رکھ کر پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ درباریوں نے علامہ سے پوچھا کہ کیوں آپ نے پادشاہ کو سجدہ اور احترام نہیں کیا؟ اس موقع پر علامہ نے جواب دیا: پیغمبر اکرم(ص) تمام پادشاہوں کے پادشاہ تھے اور انہیں سب سلام کرتے تھے اور قرآن میں بھی آیا ہے کہ "فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّة مِّنْ عِندِ اللَّه مُبَارَكَة طَيِّبَة (ترجمہ: جب بھی کسی گھر میں داخل ہو جاؤ تو ایک دوسرے کو سلام کیا کرو! یہ سلام خدا کے نزدیک مبارک اور پسندیدہ ہے)” اس کے علاوہ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سجدہ صرف خدا کے ساتھ مختص ہے۔
انہوں نے کہا پس کیوں تم پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: کیونکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور حدیث میں آیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں جاؤ تو جہاں کہیں جگہ خالی ہو وہیں بیٹھ جاؤ۔ پوچھا گیا: ان جوتوں کی کیا حیثیت تھی کہ تم اسے پادشاہ کے دربار میں لے آئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ مذہب حنفی والے میرے جوتے چوری نہ کر لیں جس طرح ان کے پیشواؤں نے پیغمبر اکرم (ص) کی جوتیاں چوری کی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ مذہب حنفی کے ماننے والوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ ابو حنیفہ تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں نہیں تھے۔ علامہ نے کہا معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی ہوگئی وہ شخص شافعی تھا، اس طرح یہ گفتگو اور اعتراض شافعی، مالکی اور جنبلیوں کے ساتھ تکرار ہوا۔ اس موقع پر علامہ حلی نے پادشاہ کی طرف رخ کرکے کہا: اب حقیقت روشن ہو گئی کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کا پیشوا پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریات ان کی اپنی اختراع ہیں، اس کا وحی اور پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن مذہب شیعہ جو امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے وصی، جانشین اور نفس پیغمبر ہیں۔ علامہ نے اس مناظرہ کے آخر میں ایک نہایت فصیح اور بلیغ خطبہ بھی دیا جسے سننے کے بعد پادشاہ نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔
علامہ سلطان محمد خدا بندہ کی وفات تک ایران میں مقیم رہے اور مذہب حقہ کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ایران میں اقامت کے دوران علامہ حلی پادشاہ کے تمام مسافرتوں میں ہمراہ رہے اور ان کی ہی تجویز پر پادشاہ نے ایک سیار مدرسہ بھی تاسیس کیا یوں علامہ جہاں بھی جاتے خیمہ نصب کئے جاتے یوں علامہ درس و تدریس میں مشغول ہو جاتے تھے۔
اساتذہ
شیخ یوسف سدید الدین (والد علامہ)
محقق حلی
سید رضی الدین علی بن طاووس
سید احمد بن طاووس
خواجہ نصیر الدین طوسی
محمد بن علی اسدی
یحیی بن سعید حلی
مفید الدین محمد بن جہم حلی
کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی
جمال الدین حسین بن ایاز نحوی
محمد بن محمد بن احمد کشی
نجم الدین علی بن عمر کاتبی
برہان الدین نسفی
شیخ فاروقی واسطی
شیخ تقی الدین عبد اللہ بن جعفر کوفی
شاگرد
علامہ کے بعض شاگردوں کے اسامی درج ذیل ہیں:
محمد بن حسن بن یوسف حلی، فخر المحققین (فرزند علامہ)
سید عمید الدین عبدالمطلب (بھانجے)
سید ضیا الدین عبد اللہ حسینی (بھانجے)
سید محمد بن قاسم حسنی معروف بہ ابن معیہ
رضی الدین ابو الحسن علی بن احمد حلی
قطب الدین رازی
سید نجم الدین مہنا بن سنان مدنی
تاج الدین محمود بن مولا
تقی الدین ابراہیم بن حسین آملی
محمد بن علی جرجانی
تألیفات
تفصیلی مضمون: آثار علامہ حلی
علامہ حلی نے مختلف علوم جیسے فقہ، اصول فقہ، کلام، حدیث، تفسیر، رجال، فلسفہ اور منطق میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لیکن ان کی تألیفات کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ علامہ حلی نے خود خلاصۃ الاقوال میں اپنی 57 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
سید محسن امین اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں: علامہ حلی کی سو سے زیادہ تصانیف ہیں اور میں نے ان کی 95 کتابوں کو دیکھا ہے جن میں سے کئی کتابوں کے کئی جلدیں ہیں۔ اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ علامہ کی کتاب الروضات کے تقریبا ہزار تحقیقی دستاویزات ہیں۔ میرزا محمد علی مدرس نیز ریحانۃ الادب میں 120 تصانیف اور کتاب گلشن ابرار میں حوزہ علمیہ قم کے محققین کی ایک گروہ نے علامہ کی تصانیف کی تعداد کو تقریبا 110 عدد ذکر کیا ہے۔
علامہ حلی کی معروف تصانیف میں علم فقہ میں مختلف الشیعہ اور تذکرہ الفقہاء، عقائد و کلام میں کشف المراد، باب حادی عشر اور منہاج الکرامۃ، علم رجال میں خلاصۃ الاقوال اور منطق میں جوہر النضید کا نام قابل ذکر ہیں۔
علامہ حلی نے شیعہ اصول عقايد میں لکھی گئیں اپنی دو کتابیں نہج الحق و کشف الصدق اور منہاج الکرامہ کو سلطان محمد خدا بندہ کو بطور ہدیہ دیا۔
امام زمانہ (ع) سے ملاقات
علامہ حلی کی امام مہدی (ع) کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں سے دو واقعات مشہور ہیں۔
تکمیل کتاب توسط امام زمانہ (ع)
پہلا واقعہ ایک کتاب سے متعلق ہے جسے علامہ نے کسی اہل سنت عالم دین سے بطور امانت لیا تھا تاکہ اس کی نسخہ برداری کی جا سکے لیکن آدھی رات کو نیند غالب آنے کی وجہ سے کتاب کی نسخہ برداری میں رکاوٹ آنے لگی اتنے میں امام زمانہ (ع) علامہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور کتاب کی تنسیخ کا باقی ماندہ کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ بیداری کے بعد جب علامہ حلی نے کتاب کی نسخہ برداری کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا۔
اس داستان کا سب سے قدیمی منبع کتاب مجالس المومنین تالیف قاضی نوراللہ شوشتری ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔
کربلا کے راستے میں ملاقات
دوسرا واقعہ قصص العلما تالیف تنکابنی میں نقل ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق علامہ حلی کے کربلا کی طرف سفر کے دوران راستے میں ان کی کسی سید سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت ہیں لہذا علامہ نے اپنی علمی مشکلات کو ان سے دریافت کرنا شروع کیا اور وہ ان سوالوں کا جواب دیتے گئے۔ اسی دوران ایک دفعہ علامہ حلی سوال کرتے ہیں کہ آیا زمانہ غیبت کبری میں امام عصر(ع) سے ملاقات کا امکان ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ علامہ حلی کے ہاتھ سے تازیانہ زمین پر گر جاتا ہے تو وہ شخص زمین سے اس تازیانہ کو اٹھا کر علامہ حلی کو دیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ کیسے ممکن نہیں ہے جبکہ اس (امام زمانہ) کا ہاتھ ابھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت علامہ حلی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص خود امام زمانہ(ع) ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی علامہ حلی نے خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا۔
تنکابنی اس داستان کیلئے کوئی مآخذ ذکر کئے بغیر لوگوں کی زبانی مشہور داستانوں کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ اپنی بات پر گواہ کے طور پر انہوں نے جس چیز کو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اور اس شخص کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس شخص نے علامہ کو شیخ طوسی کی کتاب تہذیب الاحکام میں ایک حدیث کا ایڈریس بتاتے ہیں جس سے علامہ آگاہ نہیں تھے۔ جب علامہ نے اس سفر سے واپس آکر اس حدیث کو مذکورہ کتاب میں دریافت کیا تو اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ امام عصر (ع) نے مجھے اس حدیث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ تنکابنی نے اس واقعہ کو سید محمد طباطبایی صاحب مناہل کے ایک شاگرد "ملا صفر علی لاہیجی” سے نقل کیا ہے۔ لاہیجی اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب اور اس میں علامہ حلی کی یادداشت کو دیکھا ہے۔
وفات
علامہ حلی سنہ 716 ھ میں سلطان محمد خدا بندہ کی وفات کی بعد اپنے آبائی شہر حلہ واپس آ گئے اور آخر عمر تک وہیں مقیم رہے۔ 21 محرم سنہ 726 ہجری میں 78 سال کی عمر میں "حلہ” میں وفات پائی۔ انہیں حرم امیرالمومنین (ع) میں سپرد خاک کیا گیا۔
محمد باقر اقا نجفی اصفہانی (فارسی: محمد باقر آقانجفی اصفهانی، پیدائش 1234/1818-19، وفات 1301/1883) 19ویں صدی میں فقہ اور اصول فقہ کے امامی عالم تھے۔ اس نے اصفہان اور نجف میں حسن کاشف الغیطہ، الشیخ محمد حسن النجفی جواہر الکلام کے مصنف اور الشیخ مرتضیٰ الانصاری سے تعلیم حاصل کی اور پھر اصفہان واپس آ گئے۔ وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے پر زور دیتے تھے اور فیصلہ اور فتویٰ کا درجہ رکھتے تھے۔ لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کیا۔ اس طرح اصفہان کی مقامی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھی۔ وہ لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ محمد تقی نجفی اور آقا نور اللہ اصفہانی ان کے بیٹے تھے۔
ان کے شاگردوں میں السید اسماعیل الصدر، السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، اور شریعت اصفہانی شامل ہیں۔
نسب اور اولاد
محمد باقر کے والد کا نام محمد تقی تھا۔ مرزا عبد الرحیم الایوانکی التہرانی المسجدشاہی، جسے محمد تقی الرازی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے الشہد الثانی کے معلم کے لیے ہدایت المستشردین کے عنوان سے ایک تفسیر لکھی۔ محمد تقی عراق میں پلے بڑھے کیونکہ ان کے والد مرزا عبدالرحیم ملک میں ہجرت کر گئے تھے۔ تاہم، عراق میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، محمد تقی ایران واپس آئے اور اصفہان میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے اصفہان کی شاہ مسجد (مسجد شاہ) میں لیکچر دیا۔ اس مسجد کی نگرانی ان کے بچوں کو سونپی گئی اور اس طرح وہ ’’مسجد شاہی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آقا نجفی شیخ جعفر کاشف الغیطہ کے نواسے تھے۔ محمد باقر کی عمر 13 سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔
آقا نجفی نے تین شادیاں کیں اور ان کے 6 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ان کے تمام بیٹے عالم دین تھے۔ ان کے بیٹے محمد تقی (جو اپنے والد کے بعد اتھارٹی تھے)، آقا نور اللہ (ایک عالم جنہوں نے ایران میں آئینی تحریک کی حمایت کی)، محمد حسین، جمال الدین، اسماعیل، اور محمد علی تھے۔
تعلیم
محمد باقر نے اصفہان میں اپنی تعلیم کا آغاز شہر کے علماء کے لیکچرز میں شرکت کرکے کیا۔ شادی کے بعد وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے عراق چلے گئے۔ انہوں نے اپنے ماموں شیخ حسن کاشف الغیطہ، مصنف انوار الفقہاء، اور جواہر الکلام کے مصنف شیخ محمد حسن النجفی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور الشیخ مرتضیٰ سے اصول فقہ کا مطالعہ کیا۔ الانصاری انہوں نے ان علماء سے احادیث کی ترسیل کی اجازت حاصل کی۔ وہ الشیخ الانصاری کے اولین شاگردوں میں سے تھے۔ اس نے ابتدائی طور پر معالیم الصلوۃ پر اپنے والد کی تفسیروں کا مطالعہ کیا۔ آقا نجفی ایک بلند پایہ عالم بن کر اصفہان واپس آ گئے۔
طلباء
اصفہان واپس آنے کے بعد آقا نجفی نے مسجد شاہ میں درس دینا شروع کیا جہاں ان کے والد درس دیا کرتے تھے۔ ان کے شاگردوں میں مرزا محمد حسین نائنی، السید اسماعیل الصدر، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، شریعت اصفہانی، اور ان کے بیٹے محمد تقی (جو ایک معروف بااثر بن گئے) جیسے علماء شامل ہیں۔ اپنے والد کی زندگی کے دوران عالم)۔
کام کرتا ہے۔
محمد باقر کی تخلیقات میں شامل ہیں:
لب الفقہ؛ 32 سال کی عمر میں لکھی گئی۔ حسن صدرالدین کی لائبریری میں طہرہ (صفائی) سے متعلق وضو سے متعلق کتاب کی صرف ایک نامکمل جلد دستیاب ہے۔
رسالہ حجیت الزن الطرقی؛ یہ ان کے والد کی ہدایت المسترشدین کے ساتھ مل کر شائع ہوا تھا۔
لب الصلوٰۃ
سماجی سرگرمیاں
اصفہان واپس آنے کے بعد، محمد باقر اصفہانی نماز باجماعت کے امام بنے اور شہر کی مسجد شاہ میں درس و تدریس کے منصب پر فائز ہوئے۔ سید اسد اللہ جیسے اصفہان کے معروف علماء کی وفات کے بعد ان کا مذہبی اور سماجی اثر اس قدر بڑھ گیا کہ وہ شرعی قوانین کو نافذ کر سکتے تھے۔ چونکہ اس نے "اچھی بات کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے” پر زور دیا تھا اور اس کے پاس قاضی اور فتویٰ کا عہدہ تھا، اس لیے وہ لوگوں کے معاملات میں مشغول رہتا تھا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا۔ لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کیا۔ اس طرح اصفہان کی مقامی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھی۔ وہ کافروں اور مرتدوں کے ساتھ اپنے سلوک میں فیصلہ کن تھا کہ اس کے حکم پر کچھ بہائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، اس نے ایک دن میں 27 لوگوں کو پھانسی دینے کا حکم دیا: حکم 12 لوگوں کے معاملے میں کیا گیا تھا، اور باقی فرار ہو گئے. ان کے فتوے قانونی مسائل کے حوالے سے اثر انگیز تھے۔ اس کے اور ظل السلطان کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔
نجف کی طرف ہجرت اور موت
آقا نجفی لوگوں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ ان کے مسائل میں ان کی مدد کرتے تھے۔ جب اس نے 1300/1882 میں العتبات العلیات میں رہنے کے لیے نجف کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو اصفہان کے لوگ اس کے گھر کے گرد جمع ہوگئے اور اسے شہر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ تاہم وہ راتوں رات اصفہان سے نکل گئے۔
نجف پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد، آقا نجفی کا انتقال صفر 1301/دسمبر 1883ء میں ہوا، اور اپنے دادا شیخ جعفر کاشف الغیطہ کے مدفن میں دفن ہوئے۔
معاویہ بی یزید ب۔ معاویہ (عربی:مُعاویَة بْن یَزید بْن معاویة) (متوفی 64/683) جسے دوسرا معاویہ بھی کہا جاتا ہے، تیسرا اموی خلیفہ تھا جو 64/683 میں خلافت کے منصب پر فائز ہوا اور مختصر عرصے کے بعد اقتدار سے استعفیٰ دے دیا۔ وقت مؤرخین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ اس نے کیوں استعفیٰ دیا، لیکن ان میں سے اکثر اسے امام علی (ع) کے گھر والوں کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔ جب اس نے خلافت سے استعفیٰ دیا تو مروان بن۔ حاکم اس کا جانشین ہوا اور اموی خاندان کے زوال تک مروان کی اولاد اقتدار میں رہی۔ بعض ذرائع کے مطابق معاویہ بن. یزید کا انتقال 18 سال کی عمر میں ہوا اور دمشق میں دفن ہوا۔
خلافت کا مختصر دور
اموی فوجوں اور عبد اللہ بن کے درمیان لڑائی کے دوران۔ الزبیر (جس نے مکہ میں خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا)، یزید بن۔ معاویہ کا شام میں انتقال ہوا اور یہ خبر سنتے ہی اموی افواج مکہ سے شام واپس آگئیں۔ امویوں نے یزید کے بیٹے معاویہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ اس طرح شام کے لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی اور مکہ کے لوگوں نے عبداللہ بن مسعود سے بیعت کی۔ الزبیر
خلافت سے استعفیٰ دینا
معاویہ ب۔ یزید کا دور خلافت بہت مختصر تھا۔ کچھ ذرائع کے مطابق، یہ صرف 40 دن تک جاری رہا. تمام تاریخی واقعات کے مطابق، وہ خلیفہ ہونے کو حقیر سمجھتے تھے۔ البتہ اس بارے میں مختلف تاریخی وضاحتیں ہیں کہ وہ خلافت کو کیوں ناپسند کرتے تھے۔
ایک وجہ سے، اس نے استعفیٰ دینے کی بنیادی وجہ اپنے والد (یزید) اور اپنے دادا (معاویہ بن ابی سفیان) کے ساتھ ساتھ دیگر امویوں کے طرز عمل سے نفرت اور اہل بیت (ع) کی طرف ان کا جھکاؤ تھا۔ یعقوبی کے تاریخی بیان کے مطابق، اس نے ایک خطبہ دیا جس میں اس نے خلافت کے منصب سے بیزاری کا اعلان کیا اور اپنے والد اور دادا پر تنقید کی۔ اس خطبہ میں فرمایا کہ معاویہ بن۔ امام علی (ع) کے ساتھ ابی سفیان کی جنگ اور ان کے والد کے شیطانی اعمال بالخصوص امام حسین (ع) اور پیغمبر (ص) کے گھر والوں کا قتل گناہ کبیرہ تھا۔ اموی لوگوں نے انہیں اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ایک مجلس منعقد کرنے کا مشورہ دیا جیسا کہ عمر بن خطاب نے کیا تھا۔ خطاب، لیکن انہوں نے کہا کہ اب اس کونسل کے ممبران جیسے لوگ نہیں رہے۔
ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے کہا کہ وہ خلافت کا عہدہ سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور نشاندہی کی کہ ایسے لوگ ہیں جو ان سے زیادہ خلیفہ بننے کے اہل تھے۔ اس نے اموی لوگوں سے کہا کہ یا تو اسے اپنا جانشین چننے دیں یا خود اگلا خلیفہ منتخب کریں۔ کچھ اموی لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ انہیں کچھ وقت دیں۔ تاہم تھوڑی دیر بعد انہوں نے اسے زخمی کر کے قتل کر دیا۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس کی اپنے والد اور دادا پر تنقید سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بیمار تھے، اور ان کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے وہ خلافت سنبھالنے میں ناکام رہے۔ المسعودی کے مطابق، معاویہ کی کنیت پہلے ابو یزید تھی، لیکن خلافت سنبھالنے کے بعد انہیں ابو لیلیٰ کہا گیا جو کمزور لوگوں کو دیا جانے والا لقب تھا۔
شیعہ ازم
کچھ حالیہ شیعہ تاریخی اور سوانحی ذرائع کے مطابق، معاویہ بن. یزید شیعہ تھا۔ دسویں/ سولہویں صدی کے فارسی تاریخی ماخذ حبیب السیار میں ایک رپورٹ ہے کہ معاویہ نے واضح طور پر کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام خلافت کے منصب کے اہل تھے اور لوگوں کی سفارش کرتے تھے۔ اس سے عہدہ قبول کرنے کے لیے کہیں۔ بعض شیعہ سوانحی منابع نے اس رپورٹ کو ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے کہ معاویہ بن یزید شیعہ تھا۔
موت
معاویہ ب۔ یزید کی وفات 64/683 میں ہوئی اور دمشق میں دفن ہوئے۔ اس کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اسے زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہو گا اور دوسروں کا خیال ہے کہ شاید وہ فالج سے مارا گیا ہے۔ دوسرے تاریخی بیانات کے مطابق اس کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ معاویہ بن کے بارے میں اختلاف ہے۔ یزید کی عمر جب وفات پائی۔ ابن قتیبہ کے مطابق جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی عمر 18 سال تھی۔ دوسرے ذرائع کا خیال ہے کہ وہ 19، 20، یا 21 سال کا تھا۔
معاویہ ب۔ یزید کا خطبہ یعقوبی کے حساب سے
"الحمد للہ، اے لوگو، ہم تم سے آزمائے گئے اور تم ہم سے آزمائے گئے، اور ہم اس بات سے بے خبر نہیں کہ تم ہمیں ناپسند کرتے ہو اور ہم پر لعنت بھیجتے ہو۔ میرے دادا معاویہ بن ابی سفیان نے خلافت پر اختلاف کیا۔ کسی ایسے شخص کے ساتھ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری اور اسلام کے حوالے سے ان سے زیادہ قابل ہو، کوئی ایسا شخص جو مسلمانوں کا علمبردار اور پہلا مومن ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ہوں۔ میرے دادا نے ایسے گناہ کیے ہیں جو آپ جانتے ہیں اور آپ نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے جس سے آپ انکار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ مر گیا اور اپنے اعمال کی قبر میں پھنس گیا۔ وہ شہوت کی گاڑی پر بیٹھ گیا، اپنے گناہوں کو اپنی امیدوں کے ساتھ ساتھ نیک ہونے کے لیے لے گیا، تاہم، وہ اپنی خواہش پوری نہ کر سکا اور اس پر موت آ گئی، اس کی طاقت ختم ہو گئی اور اس کا وقت ختم ہو گیا، وہ اپنے گناہوں میں پھنس گیا۔ اس کی قبر میں۔”
پھر معاویہ بن یزید نے روتے ہوئے کہا: ہمارے لیے سب سے زیادہ ناگوار بات یہ ہے کہ ہم ہیں۔ اپنی ہولناک موت اور اس کے فتنوں سے واقف تھا، کیونکہ اس نے رسول اللہ (ص) کے گھر والوں کو قتل کیا اور کعبہ کو جلا کر اس کی بے حرمتی کی۔ میں تمہارے معاملات سنبھالنے اور تمہاری ذمہ داریوں کو اٹھانے والا نہیں ہوں۔ اب یہ آپ اور آپ کی خلافت ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ دنیاوی دنیا نعمت ہے تو اس میں ہمارا حصہ تھا اور اگر نقصان ہے تو سفیان نے جو کچھ حاصل کیا وہ کافی ہے۔
محمد بن محمد بن نُعمان (336 یا 338۔413 ھ) شیخ مفید کے نام سے مشہور چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ امامی متکلم و فقیہ ہیں۔ نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید نے علم اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ فقہی اجتہاد کی راہ میں ایک جدید روش کو متعارف کرایا جو افراطی عقل گرائی اور روایات کو بغیر عقلی پیمانے پر جانچے قبول کرنے کے مقابلہ میں ایک درمیانی راہ پر مبنی تھی۔
شیخ صدوق، ابن جنید اسکافی و ابن قولویہ ان کے برجستہ ترین اساتید، شیخ طوسی، سید مرتضی، سید رضی و نجاشی ان کے مشہور ترین شاگرد اور فقہ میں کتاب المُقنِعَہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور شیعہ ائمہ کی سیرت پر کتاب الارشاد ان کی معروف ترین تالیفات میں سے ہیں۔
نسب، لقب اور ولادت
محمد بن محمد نعمان کی ولادت 11 ذی القعدہ 336 ھ یا 338 ھ میں بغداد کے پاس عکبری نامی مقام پر ہوئی۔
ان کے والد معلم تھے۔ اسی سبب سے وہ ابن المعلم کے لقب سے مشہور تھے۔ عکبری و بغدادی بھی ان کے دو دیگر القاب ہیں۔ شیخ مفید کے لقب سے ملقب ہونے سلسلہ میں نقل ہوا ہے: معتزلی عالم علی بن عیسی رمانی سے ہوئے ایک مناظرے میں جب انہوں نے ان کے تمام استدلالات کو باطل کرنے میں کامیابی حاصل کی تو وہ اس کے بعد سے انہیں مفید کہہ کر خطاب کرنے لگے۔
تاریخی منابع میں ان کی دو اولاد کا ذکر ہوا ہے: ایک ابو القاسم علی نامی بیٹے کا اور دوسرے ایک بیٹی ہے جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے وہ ابو یعلی جعفری کی زوجہ ہیں۔
تعلیم
انہوں نے قرآن اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ شیعہ و اہل سنت محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔
شیخ صدوق (متوفی 381 ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی 381 ھ)، ابن قولویہ (متوفی 369 ھ)، ابو غالب زراری (متوفی 368 ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی 355 ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔
شیخ مفید نے بزرگ معتزلی استاد حسین بن علی بصری معروف بہ جعل اور نامور متکلم ابو الجیش مظفر بن محمد خراسانی بلخی کے شاگرد ابو یاسر سے علم حاصل کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کے کہنے پر اس زمانہ کے مشہور معتزلی عالم علی بن عیسی زمانی کے درس میں بھی شرکت کی۔
تقریبا 40 برس کی عمر سے شیعوں کی فقہی، کلامی و حدیثی زعامت ان کے ذمے ہوئی اور انہوں نے شیعہ عقائد کے دفاع کے لئے دوسرے مذاہب کے علماء سے مناظرات کئے۔
اخلاقی خصوصیات
نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید کثرت سے صدقہ دیتے تھے، متواضع تھے، اکثر روزے رکھتے اور بیشتر وقت نماز میں مشغول رہتے تھے۔ موٹا لباس پہنتے تھے یہاں تک کہ انہیں شیخ مشایخ الصوفیہ کہا جانے لگا۔ ان کے داماد ابو یعلی جعفری کے مطابق وہ شب میں کم سوتے تھے اور بیشتر اوقات مطالعہ، نماز، تلاوت قرآن اور تدریس میں بسر کرتے تھے۔
مقام علمی
شیخ طوسی نے اپنئ کتاب الفہرست میں شیخ مفید کو تیز فہم، حاضر جواب، علم کلام و فقہ میں پیش گام ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم نے انہیں رئیس متکلمین کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ علم کلام میں انہیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اور انہیں بے نظیر ذکر کیا ہے۔
شیخ مفید نے بہت سے شاگرد تربیت کئے جن میں بعض بڑے شیعہ عالم ہوئے۔ ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
سید مرتضی (متوفی 436 ھ)
سید رضی (متوفی 406 ھ)
شیخ طوسی (متوفی 460 ھ)
نجاشی (متوفی 450 ھ)
سلَّار دیلمی (متوفی 463 ھ)
ابو الفتح کراجکی (متوفی 449 ھ)
ابو یعلی محمّد بن حسن جعفری (متوفی 463 ھ)۔
جدید فقہی روش
شیخ مفید نے فقہ شیعہ میں سابق عہد سے متفاوت روش پیش کی۔ سبحانی و گرجی کے مطابق، شیخ سے قبل دو فقہی روش کا رواج تھا: پہلی روش روایات پر افراطی صورت پر عمل پر مبتنی تھی، جس میں روایت کی سند و متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ دوسری روش میں روایات کے اوپر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور حد سے زیادہ عقلی قواعد پر تاکید کی جاتی تھی چاہے وہ قیاس کی مانند نصوص دینی کے ساتھ تعارض ہی کیوں نہ رکھتی ہوں۔ شیخ نے درمیانی راہ کا انتخاب کیا اور ایک جدید روش کی بنیاد رکھی کہ جس میں ابتدائی طور پر عقل کی مدد سے اسنباط و استخراج احکام کے لئے اصول و قواعد تدوین ہوتے تھے، اس کے بعد ان اصولوں کے ذریعہ متون دینی سے احکام استنباط کئے جاتے تھے۔ اسی سبب سے انہیں علم اصول فقہ کا مدون کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔
شیخ مفید کے بعد ان کے شاگرد سید مرتضی نے اپنی کتاب الذریعہ الی اصول الشریعہ اور شیخ طوسی نے کتاب العدہ فی الاصول کے ذریعہ اس راہ کو جاری رکھا۔
علمی مناظرے
شیخ مفید کے زمانہ میں مختلف اسلامی مذاہب کے بزرگ علماء کے درمیان بغداد میں علمی مباحثات ہوا کرتے تھے۔ ان میں بہت سے مناظرات عباسی خلفاء کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ شیخ ان جلسات میں حاضر ہوتے تھے اور شیعہ مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔
شیخ مفید کے گھر میں بھی ایسی بحثوں اور گفتگو کے لئے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مختلف اسلامی مذاہب کے علماء جیسے معتزلی، زیدی، اسماعیلی شرکت کیا کرتے تھے۔
قلمی آثار
تفصیلی مضمون: فہرست آثار شیخ مفید
فہرست نجاشی کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ۱۷۵ ہے۔ ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔
ان کی معروف ترین کتب میں علم فقہ میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت ائمہ (ع) کے سلسلہ میں کتاب الارشاد قابل ذکر ہیں۔
شیخ مفید کا مجموعہ آثار ۱۴ جلدوں میں تصنیفات شیخ مفید کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۷۱ ش میں شیخ مفید عالمی کانگریس کے موقع پر منظر عام پر آ چکا ہے۔
عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں امامت، 10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ، 41 کتابیں فقہ، 12 کتابیں علوم قرآن، 5 کتابیں اصول فقہ، 4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں حدیث کے موضوع پر لکھی ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔
ہزار سالہ عالمی کانفرنس
تفصیلی مضمون: ہزار سالہ عالمی کانفرنس
شیخ مفید ہزار سالہ عالمی پروگرام 24۔26 شوال 1413 ھ) میں مدرسہ عالی تربیتی و قضایی قم میں منعقد ہوا۔ جس میں اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے بزرگان و متفکرین نے شرکت کی اور شیخ مفید کی علمی و دینی شخصیت کے سلسلہ میں مقالات پیش کئے۔
وفات
سن 413 ھ میں 2 یا 3 رمضان جمعہ کے روز شیخ مفید 75 یا 77 سال کی عمر گزار کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کی وفات پر اس سے بڑا جم غفیر نہیں دیکھا۔ لوگ اعتقادی اور مذہبی تفریق کے بغیر ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور گریہ کیا۔ مؤرخین نے ان کے جنازے میں شریک ہونے والے شیعوں کی تعداد 80/000 بیان کی ہے دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے علاوہ تھے۔ میدان "اشنان” میں ان کی نماز جنازہ سید مرتضی نے پڑھائی اور انہیں ان کے گھر کے صحن میں دفن کیا گیا۔ دو سال کے بعد ان کے جسد کو حرم کاظمین کی پائنتی کی جانب قریش کی قبروں کی طرف ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی سمت دفنایا گیا۔
شیخ مفید پر فیلم
1374 ش میں شیخ مفید پر 90 مینٹ کی ایک فیچر فیلم بنائی گئی۔ جس کے رائٹر محمود حسنی اور ڈائریکٹر سیرووس مقدم و فریبرز صالح تھے۔ 1381 ش میں یہ فیلم سیریل اور ڈرامہ کی شکل میں خورشید شب کے نام سے ایرانی ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی گئی۔











