توابین کا قیام واقعہ عاشورا کے بعد شیعوں کی پہلی تحریک تھی جو امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے قاتلوں سے انتقام لینے کی غرض سے چلائی گئی تھی۔ یہ تحریک سنہ ۶۵ ھ.ق میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کی توسط سے شام کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی غرض سے عین الوردہ نامی جگہ پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں عمل میں آئی۔
قیام کی وجہ
واقعہ عاشورا اور امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت کے بعد شیعوں میں سے وہ حضرات جنہوں نے آپؑ کو بیعت کا وعدہ دے کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی لیکن بعد میں وعدہ خلافی کرتے ہوئے آپؑ کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا، اپنے کئے پر پشیمان ہوکر اپنے گناہ سے توبہ اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی ٹھان لی۔ متعدد نشست وبرخاست کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ذلت اور خواری کا یہ بدنما داغ ان کے دامن سے سوائے آپؑ کی راہ میں جان نچھاور کرنے اور آپؑ کے دشمنوں سے انتقام لئے بغیر پاک نہیں ہو سکتا۔
قیام کے خدوخال
واقعہ کربلا کے کچھ عرصے بعد کوفہ کے شیعہ شخصیات میں سے تقریبا 300 افراد سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوگئے۔ سلیمان نے اس جلسے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 54 کی روشنی میں حضرت موسیؑ کی قوم کے توبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت علیہم السلام کی حمایت کرنے کا وعدہ دیا تھا لیکن ہم نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا یہاں تک کہ فرزند زہرا(س) اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے۔ اب خدا ہم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوگا جب تک ہم ان کے دشمنوں سے جنگ نہ کریں، پس اپنی تلواروں کو تیز کریں اور گھوڑے اور جنگی سازوسامان فراہم کریں انشاء اللہ عنقریب تمہیں بھلایا جائے گا۔
سلیمان کے بعد دیگر شیعہ بزرگان اور امام علیؑ کے اصحاب منجملہ مسیب بن نجبۃ فزاری، رفاعۃ بن شداد بجلی، عبداللہ بن وال تمیمی و عبداللہ بن سعد ازدی نے بھی تقریریں کیں اور آخر کا سلیمان بن صرد خزاعی کو قیادت کیلئے انتخاب کیا گیا۔
قیام کے اہداف
توابین کے جلسات اور انکی تقریروں پر غور و فکر کرنے سے اس قیام کے درج ذیل اہداف سامنے آتے ہیں:
- امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لینا۔
- حکومت کو پیغمبر اکرمؐ کی آل کی طرف پلٹانا۔
فوج کی تشکیل
سنہ 61 ھ.ق میں اس تحریک کے بارے میں سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں توابین کے مخفی طور پر ہفتہ وار جلسات منعقد ہوتے تھے جن میں فوج کی تشکیل سے لے کر قیام کی تاریخ تک پر بحث ہوتی تھی۔ اسی تناظر میں کوفہ کے اندر اور کوفہ سے باہر مختلف قبائل میں اسلحہ اور افرادی قوت نیز جنگی مقدمات کی فراہمی کیلئے مخفی طور پر اقدامات انجام پاتے تھے۔
اس قیام کے لئے فوج تشکیل دینے کی خاطر سلیمان بن صرد خزاعی نے سنہ ۶۴ ھ.ق کو مدائن میں شیعہ رہنما سعد بن حذیفہ اور مثنی بن مخرمہ عبدی جو کہ بصرہ کے شیعہ شخصیات میں سے تھے، کی طرف خطوط لکھے اور انہیں اس قیام کی طرف دعوت دی۔ مداین اور بصرہ کے شیعوں نے بھی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس قیام میں شریک ہونے کی حامی بھر لی۔
قیام کا آغاز
سلیمان بن صرد خزاعی نے ربیع الاول سنہ ۶۵ ھ.ق کو قیام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ بہت سارے افراد نے ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی لیکن آخر کار 4000 افراد نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچایا جہاں توابین کی فوج جمع ہوتی تھے۔
تاریخی شواہد کے مطابق مختار ثقفی سلیمان کی سیاسی اور نظامی سوج بھوج کا قائل نہیں تھا اسی بنا پر شیعوں کی بڑی تعداد سلیمان کی فوج سے جدا ہوگئی۔
توابین کے لشکر ۵ ربیع الاول کو مقررہ مقام سے دمشق کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب یہ لشکر کربلا پہنچے تو اپنی سواریوں سے اتر کر اپنے آپ کو امام حسینؑ کی قبر مطہر پر گرا دیا اور ایک پر جوش فوج کی شکل اختیار کر لی۔ سلیمان نے اس موقع پر کہا: خدایا تو گواہ رہنا ہم حسینؑ کے ماننے والے، انکی راہ پر چلنے والے اور ان کے قاتلوں کے دشمن ہیں۔ توابین نے بھی امام حسین کی راہ میں شہادت نصیب ہونے کی دعا کی۔
جنگ کا آغاز
توابین نے شام کی فوج پہونچنے سے پہلے عین الوردہ نامی جگہ پر پڑاؤ ڈال دیا اور وہاں پر 5 دن آرام کیا۔ جنگ کی ابتداء میں سلیمان نے جنگی سفارشات کے ساتھ اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس موقع پر حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: اگر میں مارا جاؤں تو لکشر کی قیادت "مسیب بن نجبہ” سنبھالے گا اور اس کے بعد عبداللہ بن سعد بن نفیل لشکر کی قیادت کرینگے ان کے قتل ہونے کے بعد عبداللہ بن وال اور رفاعہ بن شداد لشکر کی قیادت سنبھالیں گے۔ ۲۵ جمادی الاول کو دونوں لشکر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے اور توابین اور شام کے لشکر کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ لشکر شام کی قیادت عبیداللہ بن زیاد کررہے تھے اور حصین بن نمیر، شرحبيل بن ذی الكلاع حميری، ادہم بن محرز باہلى، ربيعۃ بن مخارق عنوى اور جبلۃ بن عبد اللہ خثعمى اس کے ہمراہ تھے۔
جنگ کا انجام
چار دن کے مقابلے کے بعد توابین کی اکثریت شہید ہو گئی اور باقی افراد بھی دشمن کے نرغے میں آگئے۔ توابین کے سپہ سالار ایک کے بعد ایک شہید ہوتے گئے اور بچے کچے چند افراد "رفاعہ بن شداد بجلی” کی قیادت میں عقب نشینی پر مجبور ہوگئے۔ واپس جاتے ہوئے بصرہ اور مدائن کے شیعوں سے ان کی ملاقات ہوئی جو ان کی مدد کیلئے آرہے تھے جب ان کو حقیقت کا پتہ چلا تو اظہار افسوس کے بعد اپنے اپنے وطن کی طرف واپس پلٹ گئے۔ توابین شکست کے بعد جب کوفہ پہنچے تو مختار ثقفینے جوکہ اس وقت جیل میں بند تھے سلیمان اور دیگر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ عہد کیا کہ توابین اور امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ضرور قیام کریں گے۔
سید حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ ظاہرا توابین نے بنی امیہ کی فوج سے شکست کھائی لیکن شیعوں کا ایک منظم گروہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور چونکہ ان کا قیام خالصۃ شیعہ عقاید کی پاسبانی کرتا تھا اور امام حسینؑ کی شہادت سے متاثر ہوکر یہ قیام عمل میں آیا تھا اس لئے یہ قیام اہل تشیع کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنا۔
زینب بنت خُزَیمَہ بن حارث (متوفی 4 ھ) رسول خداؐ کی زوجہ ہیں جو ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے طفیل بن حارث سے جدا ہونے کے بعد ان کے بھائی عتیدہ بن حارث سے عقد کیا۔ جنگ بدر میں عتیدہ کی شہادت کے بعد رسول خداؐ نے انہیں زوجیت کے لئے انتخاب کیا۔ مگر اس شادی کی عمر چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوئی اور 30 برس کی عمر میں ان کی رحلت ہو گئی۔ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں جنت البقیع میں سپرد لحد کیا۔
نسب
ان کا سلسلہ نسب اس طرح ذکر ہوا ہے: زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبد الله بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ عامری۔
ابن عبد البر نے ابی الحسن جرجانی کا قول نقل کرتے ہوئے انہیں زوجہ رسول میمونہ بنت حارث کی بہن قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مزید کہا ہے کہ میں نے اس مطلب کو ان کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا ہے۔ ابن حبیب بغدادی نے بھی انہیں میمونہ بنت حارث کی مادری بہنوں میں ذکر کیا ہے۔
لقب
زینب بنت خزیمہ کو غرباء و مساکین کے ساتھ عطوفت و مہربانی کی وجہ سے ام المساکین کا لقب دیا گیا تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اسی لقب سے مشہور تھیں۔
پیغمبر اکرمؐ سے شادی
مورخین کے درمیان اس بارے میں کہ پیغمبر اکرمؐ سے پہلے وہ کس کی زوجیت میں تھیں، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ قول مشہور کی بنیاد پر وہ طفیل بن حارث بن عبد المطلب بن عبد مناف کے عقد میں تھیں لیکن ان سے طلاق لیکر ان کے بھائی عتیدہ بن حارث کی زوجیت میں آ گئیں۔ عتیدہ جنگ بدر میں زخمی ہوا اور 64 برس کی عمر میں صفراء میں وفات پائی۔ البتہ بعض مصادر میں ذکر ہوا ہے کہ زینب نے سب سے پہلے عبیدہ بن حارث کے چچازاد بھائی جہم بن عمرو بن حارث سے عقد کیا۔ ان سے جدا ہونے کے بعد انہوں نے عبیدہ سے شادی کی۔ بعض دوسرے مآخذ میں انہیں عبد اللہ بن جحش کی زوجہ ذکر کیا گیا ہے۔ عبد اللہ نے جنگ احد میں شہادت پائی۔ ان کے شوہر کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اس کا فیصلہ خود آپ کے اختیار میں دے دیا۔ پیغمبر اسلامؐ نے رمضان 3 ہجری میں ان سے عقد فرمایا۔ حالانکہ اس بارے کہ کس طرح سے رسول خداؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی اور ان کا مہر کتنا تھا، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
وفات
زینب نے پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ 8 ماہ زندگی گزارنے کے بعد ربیع الثانی 4 ہجری کو وفات پائی۔ بعض نے پیغمبرؐ کے ساتھ ان کی زندگی کی مدت کو 2 یا 3 ماہ ذکر کیا ہے۔ رسول خداؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔
وفات کے وقت زینب کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔ وہ اور حضرت خدیجہ (س) ان ازواج میں شامل ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں انتقال فرمایا۔ مورخین کے مطابق، وہ ازواج پیغمبر کی پہلی فرد تھیں جنہوں نے مدینہ میں وفات پائی۔ رسول خداؐ کو ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
لَیلَۃ المَبیت اس رات کو کہا جاتا ہے جس میں امام علی ؑ نے پیغمبر اکرم ؐ کی جان بچانے کی خاطر آپ ؐ کے بستر پر گزاری۔ مشرکین مکہ نے آج کی رات سب مل کر پیغمبر اکرم ؐ پر حملہ کر کے آپ ؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب پیغمبر اکرم ؐ کو وحی کے ذریعے مشرکین کے ارادے کا پتہ چلا تو آپ ؐ نے حضرت علی ؑ کو اپنے بستر پر سلایا اور راتوں رات مکہ سے یوں خارج ہوئے کہ مشرکین مکہ پیغمبر اکرم ؐ کی عدم موجودگی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے اور پیغمبر اکرم ؐ رات کی تاریکی میں یثرب کی طرف ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اکثر مفسرین کا عقیدہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 کا شأن نزول آج کی رات امام علی ؑ کی وہ فداکاری ہے جس نے پیغمبر اکرم ؐ کو مشرکوں کے گزند سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ بعثت کے تیرہویں یا چودہویں سال ربیع الاول کی پہلی رات کو پیش آتا تھا۔
پیغمبر اکرم ؐ کے قتل کا منصوبہ
رسول اللہ کی تبلیغی سرگرمیاں جب شدت اختیار کر گئیں تو حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ نے آنحضرت ؐ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت و آزار پہنجانا شروع کردیا اور مسلمانوں کو اسلام سے ہاتھ اٹھانے پر مجبور کرنے لگے۔ پیغمبر خدا نے جب مسلمانوں کی جان خطرے میں دیکھی تو ان کی حفاظت کی خاطر اہل مدینہ سے ایک معاہدہ کیا اور مسلمانوں کو مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں مشرکین سے آنکھ بچا کر مدینے کی طرف ہجرت کر گئے۔ مشرکین مکہ نے آخری حربے کے طور پر رسول اللہ کے قتل کا ارادہ کیا۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے مشرکین دار الندوہ میں جمع ہوگئے اور آخرکار ابو جہل کی رائے کے مطابق طے پایا کہ ہر قبیلے سے ایک شجاع جوان کا انتخاب ہو اور رات کی تاریکی میں اکٹھے رسول اللہ کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اس صورت میں رسول اللہ کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے کی بجائے مختف قبیلوں کے گردن پر آجاتی نتیجے میں بنی ہاشم کو آپ ؐ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تمام قبائل سے جنگ کرنا پڑتا اور جب وہ ان تمام قبائل سے جنگ کرنے سے عاجز آتے تو جزیہ لے کر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ بعض تاریخی اسناد کے مطابق شیطان ایک بوڑھے شخص کی صورت میں اس میٹنگ میں کفار کی راہنمائی کرتا رہا۔
آیت کا نزول اور پیغمبر کا اس منصوبے سے مطلع ہونا
مشرکین مکہ کی جانب سے جب پیغمبر اکرمؐ کی قتل کا منصوبہ تیار ہوا تو اللہ نے جبرائیل کے ذریعے نبی اکرمؐ کو مشرکین کے اس خطرناک ارادے سے مطلع فرمایا۔ جس کا ذکر قرآن کی سورہ انفال میں اس طرح آیا ہے:
- وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (ترجمہ: اور جب کافر تیرے متعلق تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کردیں یا تمہیں قتل کردیں یا تمہیں دیس بدر کر دیں، وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔)
اس بنا پر رسول اللہ نے مشرکین کے آنے سے پہلے یثرب کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ نے مشرکین کی نگاہوں سے محفوظ رہنے کیلئے
- وَجَعَلْنَا مِن بَینِ أَیدِیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَینَاهُمْ فَهُمْ لَا یبْصِرُونَ ﴿۹﴾ کی تلاوت فرمائی۔
واقعے کی تفصیل
ربیع الاول کی پہلی رات رسول اللہ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا: مشرکین مکہ آج کی رات مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں کیا تم میری جگہ سو سکتے ہو تا کہ میں آج رات غار ثور کی طرف چلا جاؤں؟ حضرت علی نے جواب دیا: کیا اس صورت میں آپ کی جان محفوظ رہے گی؟ رسول اللہ نے جواب دیا: ہاں۔حضرت علیؑ مسکرائے اور سجدۂ شکر بجا لائے۔سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کہا: میری جان آپ پر نثار ہو! جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسے انجام دیں۔ جس طرح بھی آپ مجھے حکم دینگے میں حاضر خدمت ہوں۔ جیسا آپ چاہتے ہیں میں اسی طرح انجام دوں گا کامیابی خدا کی جانب سے ہو گی۔ پس پیغمبر ؐخدا نے حضرت علیؑ کو آغوش میں لیا اور دونوں نے گریہ کیا پھر جدا ہو گئے۔
حضرت علیؑ اس رات جب سوئے تو جبرائیل آپ کے سرہانے اور میکائیل پائینتی کی جانب آئے۔ جبرائیل نے کہا: اے فرزند ابو طالب! آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خدا فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر و مباہات کر رہا ہے۔
مشرکین مکہ نے رات کی ابتدا سے ہی آپ کے گھر کو محاصرے میں لے لیا اور آدھی رات کے وقت حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن ابو لہب نے کہا: اس وقت عورتیں اور انکی اولادیں گھروں میں ہوتی ہیں۔ بعد میں اہل عرب ہمارے بارے میں کہیں گے کہ انھوں نے اپنے چچا کی حرمت شکنی کی ہے۔
حضرت علیؑ نے گھر کے دروازے بند کئے۔ کفار نے بستر پر پتھر پھینک کے اطمینان حاصل کیا کہ بستر پر کوئی سویا ہے اور انہیں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ حضرت رسول خداؐ ہی ہیں۔صبح ہوتے ہی وہ تلواریں سونتے گھر میں داخل ہوئے ۔جب حضرت علیؑ کو دیکھا تو کہنے لگے: محمدؐ کہاں ہے؟ حضرت علیؑ نے جواب دیاَ کیا انہیں میرے حوالے کیا تھا؟ جو مجھ سے اس کے طلبگار ہو؟ تم نے کچھ ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ کفار حضرت علیؑ کو گھر سے باہر لے آئے انہیں زد و کوب کیا۔ کچھ دیر کیلئے انہیں مسجد الحرام میں قید کیا اور انہیں اذیتیں دیں پھر رسول خداؐ کا پیچھا کرنے کیلئے مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے جبکہ غار ثور اس کی مخالف سمت میں تھی۔
بعض نے کہا ہے کہ:
- جب قریش کا گروہ حضرت کی سمت آیا تو انہیں رسول خدا کے ہونے کے بارے میں شک نہیں تھا۔ انہوں نے فجر کے نزدیک آپ کے سر اور چہرے پر پتھر مارے اور وہ رسوا ہونے سے خوف زدہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے اکٹھے حملہ کیا۔ اس زمانے میں گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے گھر میں داخل ہونے کے راستے پر صرف ایک پردہ لٹکایا جاتا تھا۔ حضرت علی نے جب انہیں اپنی طرف ننگی تلواروں کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا جن میں سب سے آگے خالد بن ولید تھا وہ سب سے پہلے ننگی تلوار کے ساتھ آپ کی جانب بڑھا تو آپ نے بڑی ہوشیاری سے اس کی تلوار ہاتھ سے چھینی وہ مڑا اور اونٹ کی مانند چنگھاڑا۔ باقی افراد ابھی گھر کی دہلیز پر ہی تھے کہ حضرت علی خالد کی تلوار لے کر انکی جانب بڑھے۔ کفار مقابلے سے فراری ہوتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ کی مانند تتر بتر ہوئے اور گھر کی چھت کی طرف نکل گئے۔ جب انہوں نے غور سے دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ تو علی ہے۔ انہوں نے کہا تو علی ہے؟ حضرت نے جواب دیا: ہاں میں علی ہوں۔ ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں بتاؤ محمد کہاں ہے؟ آپ نے کہا مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ قریش اپنے سواریوں پہ سوار ہوئے اور تیز بین نگاہوں سے آپ کے سراغ میں روانہ ہوئے۔
آیت کا نازل ہونا
اکثر علمائے شیعہ اور علمائے اہل سنت کی ایک جماعت معتقد ہے کہ سورۂ بقرہ کی 207ویں آیت
- وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾
- اور انسانوں میں سے کچھ ایسے (انسان) بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں (خطرے میں ڈال دیتے ہیں) اور اللہ (ایسے جاں نثار) بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔
شب ہجرت کے موقعہ پر حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔لیکن بعض اہل سنت علما نے اسے ابوذر، صہیب بن سنان، عمار یاسر اور انکے والد اور انکی والدہ، خباب بن ارت، زبیر بن عوام و مقداد کے بارے میں نقل کیا ہے۔
مَأمُون عباسی، ابو العباس عبد اللہ (170-218 ھ) ہارون الرشید کے بیٹے و سلسلہ عباسی کے ساتویں خلیفہ تھے۔ جو اپنے بھائی محمد امین کو شکست اور قتل کے بعد سنہ 198 ہجری میں سلطنت پر پہنچا اور اپنے ایرانی وزیر فضل بن سہل کے مشورے سے مرو کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ بنایا۔ اس کی حکومت کا ابتدائی دور اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور علویوں کے پے در پے قیام کی وجہ سے متزلزل رہا۔ اسی لئے اس نے اپنی حکومت کو ثبات دینے کی خاطر امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلایا اور علویوں سے اظہار محبت کے بہانے شروع میں خلافت کو ہی امام رضا (ع) کو دینے کی پیشکش لیکن جب امام نے اس کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا تو اس نے ولایت عہدی کے منصب کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔
یوں علویوں کی مزاحمتی تحریکوں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اس نے اپنی سلطنت کو توسیع دینے کی خاطر دار الخلافہ کو "مرو” سے بغداد منتقل کیا اس دوران لوگوں میں امام رضا (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر اس نے امام کو شہید کر دیا۔
مأمون کو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امام علی (ع) کی برتری کے قائل ہونے، متعہ کو جائز سمجھنے، امام رضا (ع) کو ولایتعہدی دینے اور فدک کو اولاد فاطمہ (س) کی طرف منتقل کرنے کی وجہ سے شیعوں کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے مأمون کو معتزلہ کی طرف داری بطور خاص قرآن کے مخلوق ہونے کے مسئلے میں ان کی حمایت اور شیعہ قاضیوں اور اعلی حکومتی عہدیداروں سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار لینے کی وجہ سے اسے معتزلی سمجھا جاتا ہے۔
حسب و نسب
عبداللہ ملقب بہ مأمون، ہارون رشید کا بیٹا اور بنی عباس کا پانچواں خلیفہ تھا ان کا تعلق خاندان قریش اور بنی ہاشم سے تھا۔ شب جمعہ ربیع الاول کی 15 تاریخ سنہ 170 ہجری قمری کو بغداد میں پیدا ہوا۔ ان کی والدہ ایک ایرانی خاتون (دوسری نقل کے مطابق کنیز) مراجل بادغیس (شمال مغربی افغانستان) کی رہنے والی تھی۔ استاذیس جس نے منصور عباسی کے دور میں قیام کیا مراجل کا والد تھا۔ مأمون کا ماموں جس کا نام غالب تھا، نے مأمون کے کہنے پر اس کے وزیر اور لشکر کے سپہ سالار فضل بہ سہل کو قتل کیا۔
خلافت
مأمون بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا جس نے اپنے بہائی امین عباسی کو ایک نزاع کے بعد شکست دے کر خلافت کو حاصل کیا۔
مأمون کی خلافت پر پہنچنے کی کیفیت
مأمون اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور اسے قتل کرنے کے بعد خلافت تک پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں مأمون نے اپنے وزیر فضل بن سہل کے مشورہ سے طاہر بن حسین ملقب بہ "ذوالیمینین” کی سرکردگی میں ایک لشکر "علی بن عیسی” کے مقابلے میں بھیجا جو "امین” کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ امین کی فوج نے شہر ری میں علی بن عیسی کے قتل ہونے کے بعد سنہ ۱۹۵ ہجری قمری کو شکست کھائی۔ مأمون کی فوج نے آخر کار سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو شدید جنگ کے بعد بغداد پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد امین کو قید پھر قتل کیا گیا۔ امین کی خلافت کے اختتام پر مأمون نے سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو مرو میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کیا اور فضل بن سہل کو اپنا وزیر منتخب کیا۔
بعض محققین ان دو بھائیوں کے جھگڑے کی دو علتیں بیان کرتے ہیں: 1 – ولایت عہدی کا چیلنج، 2 – عربوں اور ایرانیوں کی پارٹی بازی
- الف: مأمون کی ولایتعہدی کا چیلنج
امین اور مأمون کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ولایت عہدی کا مسئلہ تھا۔ جب ہارون رشید نے اپنے چھوٹے بیٹے امین کے ہاتھوں ولایت عہدی کی بیعت کی اور مأمون کو امین کا نائب بنا کر صوبہ خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اسی وقت سے ہی ان دو بھائیوں کے درمیان اختلاف کی بیج بوئی گئی جس کی وجہ سے خلافت کی مستقبل کو لاحق مسائل اور داخلی جنگ چھڑنے کے امکانات نے ہارون کو سخت پریشان کر دیا۔ ان وجوہات کی بنا پر ہارون نے ان دونوں بھائیوں کو خانہ کعبہ میں ایک عہد و پیمان پر دستخط کروایا جس میں مأمون کی ولایت عہدی اور ایک دوسرے کے دائرہ اختیارات میں دخالت نہ کرنے پر تاکید کی گئی تھی اور اس عہد و پیمان کو تقدس بخشنے کیلئے اس کے ایک نسخے کو خانہ کعبہ میں ہی آویزاں کیا گیا۔
ہارون کی وفات اور امین کے خلیفہ بننے کی بعد امین نے بعض ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مذکورہ عہد و پیمان کو نقض کرنے کا شائبہ پیدا ہو سکتا تھا۔ امین کی طرف سے اپنے دو بھائی مأمون اور مؤتمن کے قلمرو حکومت میں اپنا نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کرنا، اپنے بیٹے موسی کو اپنا نائب منتخب کرنا اور خانہ کعبہ میں آویزاں عہد و پیمان کو آگ لگانا اس عہد و پیمان کی واضح مخالفت اور مأمون کے ساتھ اعلان جنگ تھا۔
- ب: عربوں اور ایرانیوں کا آپس میں جھگڑا
فضل بن سہل جو ایرانی برمکیوں کے نفوذ کے دور میں بنی عباس کی حکومت میں میں شامل ہو گیا تھا اور ایک طرح سے مأمون کا مربی اور بعد میں اس کا وزیر بن گیا تھا، نے اپنی سب سے بڑی آرزو یعنی دار الخلافہ کو مرو سے بغداد منتقل کرنا اور اور خراسان کی عظمت کو بڑھانے کیلئے خلافت پر مأمون کے حق کو محفوظ رکھنے کیلئے جد و جہد شروع کیا۔ دوسری طرف سے فضل بن ربیع جو ہاروں اور بعد میں امین کا وزیر تھا اور ایرانی برمکیوں کی وجہ سے ہاروں کی نسبت اس کے دل میں کدورت پیدا ہو گئی تھی اور ایرانیوں کو امین کے دربار سے باہر کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے، نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور بنی عباس کی حکومت میں عربوں کا نفوذ بڑھانے اور ایرانیوں کا نفوذ کم کرنے کی کوشش کی۔ یوں اس جھگڑے نے عوامی شکل اختیار کی اور جتنا عربوں نے امین کی حمایت کی اتنا ہی ایرانیوں نے مأمون کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کیوںکہ آخر مأمون ماں اور بیوی دونوں حوالے سے ایرانی شمار ہوتا تھا۔
بھائی کا قتل
آخر کار امین اور مأمون کی سپاہیوں کے درمیان شہر ری اور ہمدان میں پے در پے جھنگ چھڑ گئی جس میں ہر وقت امین کے سپاہیوں کو شکست ہوئی جس کے نتیجے میں بغداد پر قبضہ ہوا اور امین بھی مارا گیا۔
مأمون کا علویوں کے ساتھ رابطہ
عباسی خلفاء کو در پیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ پورے عالم اسلام میں ان کے خلاف علویوں کی تحریک تھی۔ اہل تشیع جو منصور عباسی کے دور حکومت میں ہمیشہ حکمرانوں کی ظلم و بربریت کا شکار ہوئے تھے، نے موقع پاتے ہی حکومت وقت کے خلاف تحریک چلانا شروع کی لیکن اکثر مواقع میں ان کی تحریک شکست سے روبرو ہوئی۔ سنہ 193-197 ہجری قمری کے درمیان امین اور مأمون کے درمیان شروع ہونے والا جھگڑا عباسی حکومت کی تضعیف اور حجاز، یمن اور عراق وغیرہ میں علویوں کی تحریکوں میں اضافہ کا سبب بنا۔
مأمون کے دور میں علویوں کی تحریکیں
علویوں نے مأمون کے دور خلافت میں کئی تحریکیں چلائیں۔ ان میں سے اکثر تحریکیں زیدی علویوں کی سرکردگی میں چلائی گئیں۔ ان تحریکوں میں سب سے اہم تحریک جو ایک مستقل حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی وہ تحریک ہے جسے ابن طباطبا نے کوفہ میں چلائی۔ بعض مورخین کے مطابق اس تحریک نے جسے سنہ ۱۹۹ ہجری قمری میں چلائی گئی، بنی عباس کے حکومت کو سخت نقصان پہنچائی اور بنی عباس کی حکومت کے خلاف دوسرے مختلف جگہوں پر بھی تحریکیں چلانے جانے اور اپنی استقلالیت کے اعلان کرنے کا سبب بنی۔ اس طرح کوفہ کے علاوہ زید بن موسی ملقب بہ زیدالنار نے بصره میں، ابراہیم بن موسی بن جعفر نے یمن میں ، حسین بن حسن بن علی معروف بہ ابنافطس نے مکہ میں اور محمد بن جعفر الصادق معروف بہ محمد دیباج نے حجاز میں تحریکیں چلائی ۔ ان میں سے اکثر تحریکیں ابن طباطبا کی تحریک کے بعد شروع ہوئیں
مأمون کے خلاف شیعہ تحریکوں کا نتیجہ
اگرچہ یہ تحریکیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی تھیں لیکن یہ تحریکیں مختلف فوائد اور نتائج کا حامل تھیں منجملہ یہ کہ عراق اور ایران کے لوگوں کی اہل بیت(ع) کے ساتھ رکھنے والی محبت علویوں کو مأمون کے خلاف قیام کرنے کا موقع دیتی اور ان ملکوں میں موجود اہل بیت کے ماننے ان تحریکوں کی حمایت کرتے تھے۔ یہ چیز مقتدر عباسی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیتی اور ہمیشہ ملک کے کسی بھی علاقے میں تحریکیں شروع ہونے کے بارے میں خوفزدہ رہتی تھی۔ ان تحریکوں کے دیگر فوائد اور نتائج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان تحریکوں نے بعد میں طبرستان اور یمن میں زیدیوں کی حکومت کی تشکیل کیلئے زمینہ فراہم کیا۔
امام رضا (ع) کی ولی عہدی، علویوں کی تحریکوں کو روکنے کا حربہ
مأمون اپنے خلاف علویوں کی تحریکوں کو ہمیشہ کیلئے روکنے اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی خاطر خراسانیوں(ایرانیوں) کے سامنے اپنے آپ کو اہل بیت (ع) کا ماننے والا ظاہر کرنے کی فکر میں پڑ گیا۔ اسی مقصد کی خاطر اس نے امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلا لیا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ مأمون نے خلافت اور حکومت سے ہاتھ اٹھا اور اسے علویوں میں سے سب سے افضل و برتر شخص یعنی امام رضا (ع) کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب امام رضا (ع) کی طرف سے خلافت اور حکومت کو ٹھکرا دیا گیا تو اس نے امام کو ولایتعہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔
بعض محققین کے مطابق خلافت کو امام رضا (ع) کے حوالے کرنا مأمون کا اصل ہدف نہیں تھا بلکہ وہ ظاہرا حکومت امام کے حوالے کرکے اسے اپنی مرضی سے چلانا چاہتا تھا۔ سنہ 201 ہجری قمری میں ولایتعہدی کو زبردستی امام رضا (ع) کے سپرد کرنے کے بعد اس نے لوگوں سے امام کی بیعت لی۔ مأمون کے حکم سے امام کو "الرضا” کا لقب دیا گیا، امام کے نام پر سکے جاری کئے گئے، حکومتی کارندوں اور سپاہیوں کی تنخواہیں انہیں سکوں کے ذریعے دینے لگا اور کالے لباس جو بنی عباس کی علامت سمجھی جاتی تھی کی جگہ علویوں کی علامت، سبز کپڑوں کو سرکاری لباس قرار دیا۔ مأمون ان کاموں کے ذریعے علویوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ الرضا من آل محمد کے نعرے کے ذریعے وہ لوگوں اپنی طرف دعوت دیتے تھے اب امام رضا(ع) جو "الرضا” کا مصداق ہے کے ذریعے وجود میں آگئی ہے اب انہیں تحریک چلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مأمون کے ان اقدامات کی وجہ سے علویوں کی مخالفتیں کسی حد تک کم ہوگئیں۔
بعض مناطق کو تحریک چلانے والے علویوں کے سپرد کرنا
مأمون اپنی خلافت کی تثبیت اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کی خاطر انجام دینے والے اقدامات میں امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کے بعد بعض مناطق کی گورنری بھی ان علویوں کے سپرد کیا جنہوں نے ان مناطق پر قبضہ کیا تھا۔ یمن اور حجاز انہی مناطق میں سے تھے۔
سادات کا ایران میں داخلہ
امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کے نتائج میں سے ایک سادات کی ایران کی طرف مہاجرت ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق شیعہ اور سادات کی ایک کثیر تعداد امام رضا(ع) سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد ان قافلوں میں شامل ہوئے۔ مأمون کی ظاہری طور پر علویوں اور شیعوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے کسی حد تک سادات کی ایران بطور خاص خراسان کی طرف مہاجرت کیلئے زمینہ ہموار کیا۔
خلافت کی تثبیت کے بعد مأمون کے اقدامات
علویوں کی تحریکوں کو مہار کرنے اور اپنی خلافت کو کسی حد تک طاقتور بنانے کے بعد مأمون نے اپنی سیاست کا رخ تبدیل کیا۔ اس کی سیاسی رویے میں تبدیلی کئی موارد میں آشکار ہو گئی: حکومت سے ایرانیوں اور ایرانی طور و طریقوں کو باہر کرنا، عربی رسم و رواج کی پرچار اور اپنے آبائی دارالخلافہ بغداد پر توجہ دینا، امام رضا(ع) کو شہید کرنا، علویوں کے گرد دوبارہ گیرا تنگ کرنا اور بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑوں کو نمایاں کرنا اور علویوں کی علامت یعنی سبز کپڑوں پر پابندی لگانا۔
اپنے ایرانی وزیر کو قتل کرنا
فضل بن سہل مأمون کا ایرانی وزیر تھا جس نے مأمون کو خلافت پر پہنچانے اور اس کی خلافت کو طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فضل بن سہل یہ ان کوششوں کے صلے میں مأمون نے خلافت پر پہنچنے کے بعد فضل کو "ذوالریاستین” کا لقب دیا۔ اس اہم لقب کا مطلب یہ تھا کہ فضل بیک وقت وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں عہدوں پر فائز تھا۔
بعض مورخین کے مطابق ابن سہل کی مأمون کی خلافت کیلئے کوششیں کرنا اور اسے طاقتور بنانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ بغداد کی جگہ مرو دار الخلافہ بنے، خراسان (ایران) عراق اور دیگر مناطق کے مقابلے میں زیادہ مقام پیدا کرے اور بنی عباس کی حکومت سے برمکیوں کو نکال باہر کرنے کی وجہ سے جو ایرانیوں کی تذلیل ہوئی ہے اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔ اسی وجہ سے فضل بن سہل کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ ہر وہ مسئلہ اور چیلنجز جو مرو، خراسان اور ایرانیوں کی عظمت کیلئے خطرہ بن سکتا تھا وہ خلیفہ کی نگاہوں سے دور رہے۔ منجملہ ان مسائل میں بغداد میں ناامنی پھیلانا جس کی اصل جڑیں بعداد کے عربی گورنر طاہر بن حسین کو عزل کرکے ان کی جگہ حسن بن سہل ایرانی کو بیٹھانا اور بطور کلی ایرانی نژاد کو عربی نژاد پر فوقیت اور برتری دینا تھا جو مأمون کی خلافت کا سرلوحہ قرار پایا تھا۔ ایرانی نے نہایت کوشش کیا تا کہ بغداد کی خبریں خلیفہ کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔
جب مأمون امام رضا (ع) کے توسط سے بغداد کی ناامنی سے مطلع ہوا تو اس نے مرو کو ترک کرکے اپنے آبائی دار الخلافہ بغداد جانے کا ارادہ کیا۔ خلیفہ اس بات سے بھی آگاہ ہوا کہ اس کا بغداد جانا اس کے ایرانی وزیر کی مخالفت کا سبب بنے گا اور اس سے پہلے بھی بغداد میں رونما ہونے والے واقعات کو خلیفہ سے مخفی کرنے کی وجہ سے خلیفہ کی فضل بن سہل کی نسبت بدبینی میں اضافہ ہوا تھا۔ یوں مأمون نے بغداد کی طرف سفر کرنے سے پہلے اپنے ایرانی وزیر کو شہر سرخس میں اپنے کارندوں کے ذریعے قتل کیا۔
امام رضا (ع) کی شہادت
امام رضا (ع) کو ولی عہد بنانے اور اس کے ذریعے اپنے اہداف کی تکمیل کے بعد مأمون نے یہ محسوس کیا اب امام رضا (ع) کی موجودگی اس کے اور اس کی حکومت کی مصلحت میں نہیں ہے۔ امام رضا (ع) کی ولی عہدی کے استمرار سے مأمون کو جو پریشانی لاحق تھی اس کی کئی وجوہات تھیں: مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے میں امام رضا (ع) کی برتری، لوگوں میں امام رضا (ع) کی مقبولیت میں اضافہ اور مأمون کے بعض اقدامات پر امام رضا (ع) کی صریح تنقید۔ اس بنا پر مأمون نے بنی عباس کے گذشتہ خلفاء کی طرح اپنی خلافت کو بچانے کیلئے سنہ 203 ہجری قمری کے اوائل میں بغداد کی جانب اپنے سفر سے پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امام رضا (ع) کو شہید کیا۔
دارالخلافہ کی بغداد منتقلی
مأمون کی ایرانی طرز حکومت اور بظاہر بنی عباس کی مخالفت کی وجہ سے بنی عباس کے سرکردگان اور بغداد کے باسی ہمیشہ مأمون کے مخالف رہے ہیں۔ ان مخالفتوں کی وجہ سے بنی عباس کے بعض بزرگوں نے مأمون کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ابراہیم بن مہدی کی بیعت کی۔ اس کے علاوہ ان مخالفتوں کی وجہ سے بغداد میں آہستہ آہستہ بدامنی پیدا ہونے لگی اور آخر کار خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی۔ دوسری طرف سے مصر اور الجزائر میں بھی بدامنی پھیلنے لگی اور خانہ جنگی کا خطرہ بڑھنے لگا۔ ایسے میں خلیفہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان بدامنیوں کی روک تھام طرز حکومت میں تبدیلی اور دار الخلافہ کی منتقلی کی بغیر امکان پذیر نہیں، یوں انہوں نے اپنے آبائی دار الخلافہ، بغداد جانے کا ارادہ کیا۔
علویوں کے گرد دوبارہ گیرا تنگ ہونا
مأمون کی سیاسیت میں تبدیلی اور ایرانی طور طریقوں سے عربی رسم و رواج میں تبدیلی کے ساتھ مامون کا علویوں کے ساتھ رابطہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کیا کہ آپ کی شہادت میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا اسی بنا پر بغداد جانے کے بعد اس نے علویوں کی دلجوئی کی اور امام جواد (ع) کیلئے تحفہ تحائف ارسال کیا اور فدک علویوں کو لوٹا دیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد اس نے علویوں کی مخالف شروع کر دیا اور اپنے دربار میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دیا اور انہیں بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑے پہننے پر مجبور کرنا شروع کیا۔ علویوں کے خلاف مامون کی ظالمانہ کاروائیاں صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے زیاد بن ابیہ کے نواسوں میں سے ایک کو یمن جسے علویوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، کا گورنر مقرر کیا جو علویوں کے ساتھ دشمنی رکھنے میں مشہور تھا۔
مأمون کا معتزلہ کی طرف رجحان
تاریخی مستندات کی روی سے مأمون معتزلہ مذہب کے بعض علماء جیسے اَبُوہذِیل عَلّاف اور نَظَّام کے ساتھ لین دین رکھتا تھا اور مذہب معتزلہ کے بعض بزرگان کو حکومتی مناصب پر منصوب کیا ہوا تھا۔ اسی طرح مامون قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ ان تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر بعض مورخین نے مامون کی مذہب معتزلہ کی طرف رجحان رکھنے کا نظریہ مطرح کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض کا خیال ہے کہ مامون معتزلہ کے مخالفین کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا تھا۔ یحیی بن اکثم جو مأمون کا مشاور اعظم تھا معتزلہ کے دشمنوں میں سے تھا۔ ان متضاد نظریات کی وجہ سے بعض نے مامون کے اعتقادات کو کلامی اعتبار سے مختلف فرقوں کے اعتقادات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔
اعتقادات کی چھان بین
مأمون نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں اپنے فقہا، محدثین اور قضات کو آزمانے کیلئے اعتقادات کی چھان بین کیلئے ایک محکمہ تشکیل دیا۔ سنہ 218 ہجری قمری کو مأمون کے حکم سے مذہب معتزلہ کے علماء کی ذمہ داری لگا دی کہ وہ قرآن کے مخلوق ہونے سے متعلق لوگوں کے اعتقادات کی چھان بین کریں، اور جو اشخاص اس بات کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے انہیں حکومتی عہدوں سے برکنار اور انہیں زندان میں ڈال دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض فقہاء نے حکومتی عہدوں سے عزل ہونے اور زندان میں ڈالنے کے خوف سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ مأمون کی اس اقدام کو محنت سے یاد کیا جاتا ہے۔
مأمون کا شیعہ ہونا
مأمون کا مذہب مورخین کے درمیان مورد اختلاف رہا ہے۔ شیعوں نے بنی عباس کے حکمرانوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رویہ اختیار کیا ہے۔ مأمون اگرچہ دوسرے خلفاء کی بنسبت زیادہ پڑھا لکھا شخص تھا اور خود کو شیعہ مذہب کی طرف تمائل رکھنے والا ظاہر کرتا تھا لیکن وہ بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں اس بنا پر اس کا شیعہ ہونا اس معنی میں کہ جس شیعہ مذہب کا شیعہ ائمہ معصومین قائل تھے وہ بھی قائل تھا، سرے سے قابل قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف سے بعض سنی معتبر منابع میں مأمون کے شیعہ ہونے پر تاکید کی گئی ہے، مثلا ذہبی، ابنکثیر اور ابنخلدون اس کے شیعہ ہونے کی تصریح کرتے ہیں اور بعض اوقات عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سے تعبیر کرتے ہیں؛ سیوطی کے مطابق بھی مأمون کا شیعہ ہونا مشہور تھا۔
مأمون کی طرف شیعہ ہونے کی نسبت دینا اس کی موت کے بعد سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کے دور خلافت میں بھی اس کے شیعہ رجحانات کی وجہ سے اسے شیعہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے دور خلافت میں علویوں کے ساتھ اس کی دوستی اور شیعوں کی حمایت میں انجام دینے والے بعض اقدامات کی وجہ سے بغداد میں مقیم بنی عباس میں سے اس کے مخالفین کی طرف اس پر بھی رافضی ہونے کا الزام لگاتا رہا ہے۔
حامیوں کی دلیل
تاریخی منابع کے مطابق مأمون کا اپنے دور خلافت میں انجام دینے والے اقدامات اور اس کا طرز حکومت اس کے شیعہ مذہب کی طرف مائل ہونے کی کی خبر دیتی ہے۔ مأمون کے اس طرح کے اقدامات کو چند مسائل کے ذیل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- آل علی کو خلافت اور ولایتعہدی کی پیشکش: مأمون کے شیعہ ہونے مدعی حضرات معتقد ہیں کہ مأمون کی طرف سے امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش کرنا اصل میں اس کے شیعہ اور معتزلہ مذہب خاص کر خلافت پر حضرت علی (ع) کی برتری جیسے عقائد کے سایے میں تربیت ہونے کی طرف لوٹتی ہے۔ اس کے علاوہ مامون کی ماں کا ایرانی ہونا اور حضرت علی (ع) اور آپ کی اولاد کی حقانیت پر ایمان رکھنا اور مامون کا ایرانیوں کے ہاں تربیت پانا اس کی تشیع کی طرف مائل ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مأمون نے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے بھائی امین پر غالب آئے تو وہ خلافت کو آل علی میں سے سب سے افضل شخص کے حوالے کر دونگا اسی بنا پر امین کی شکست کے بعد جب مأمون خلافت پر فائز ہوا تو اس نے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے امام رضا (ع) کو ولی عہد بنایا۔ مامون کا یہ اقدام سبب بنا کہ سیوطی جیسے مورخین مامون کو افراطی شیعہ قرار دینے لگا۔
- فدک کو اولاد فاطمہ(س) کی ملکیت میں دینا: بغداد واپسی اور حکومت کے مستقر ہونے کے بعد جب مأمون نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا ارادہ کیا تو بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بنا پر اس نے اس زمانے کے 200 علماء کو دعوت دی اور ان سے فدک کی ملکیت کے بارے میں اپنی رائ سے بیان کرنے کو کہا۔ مختلف نظریات مطرح ہونے کے بعد اس جلسے کا نتیجہ یہ ہوا کہ "فدک” حضرت زہرا(س) کی ملکیت ہے اور اسے ان کے حقیقی وارثوں کو لوٹا دینا چاہئے۔ مخالفین کی مخالفت موجب بنی کہ مأمون نے ایک اور مجلس کا اہتمام کیا جس میں پورے اسلامی مملکت سے تمام علماء کو مدعو کیا گیا۔ اس جلسہ کا نتیجہ بھی پہلے جلسے کی مانند ہی نکلا۔ یوں سنہ۲۱۰ ہجری قمری کو مأمون نے "قثم بن جعفر” والی مدینہ کو "فدک” حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا حکم صادر کیا۔ فدک کو اس کے مالک حقیقی کو واپس دے دینے کی خبر شاعروں کے شعروں میں بھی نمایاں ہونے لگیں مثلا دعبل خزاعی نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کے بعد ایک شعر میں یوں کہا
اَصْبَحَ وَجْہ الزَّمانِ قَدْ ضَحِکاً | بِرَدَّ مَأْموُنُ ہاشِمُ فَدَکاً |
-
-
-
-
-
-
-
- ترجمہ= زمانے کے چہرے پر خوشی ظاہر ہونے لگی، جب مأمون نے فدک بنی ہاشم کو واپس کیا۔
-
-
-
-
-
-
- متعہ کو حلال قرار دینا: نکاح متعہ (عربی= متعہ) شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف مسائل میں سے ہے جسے عمر نے حرام قرار دیا جس کے بعد آنے والے خلفاء اور اہل سنت علماء نے عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس کی حرمت کو باقی رکھا لیکن مامون نے بہت زیادہ مخالفتوں کے باوجود اس کی حرمت کو اٹھایا اور اسے جائز شمار کیا۔ لیکن جب مأمون کے چیف جسٹس یحیی بن اکثم اور بعض دیگر اہل سنت علماء نے کہا کہ امام علی بھی متعہ کو حرام سمجھتے تھے تو اس وقت مأمون نے حصرت علی (ع) کے احترام میں اس حکم سے صرف نظر کیا۔
- خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کو ثابت اور اس کا باقاعدہ اعلان: معتبر شیعہ اور اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اہل سنت کے 40 برجستہ علماء کو ایک مجلس میں مدعو کیا اور خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کے حوالے سے مناظرہ کیا اور اس مناظرے میں مأمون، اہل سنت علماء پر غالب آیا یوں انہوں نے پیامبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کی برتری اور افضلیت کا اعتراف کیا۔ اس کے علاوہ مأمون نے سنہ 212 ہجری قمری کو ابوبکر اور عمر پر امام علی (ع) کی برتری کا اعلان کیا۔
- معاویہ کی تعریف سے بے زاری اور امام علی (ع) پر سب و شتم کرنے کی ممانعت اور سزا: مأمون کی شیعیت کی طرف تمائل کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے سنہ 211 ہجری قمری کو معاویہ کی مدح اور تعریف کرنے والوں سے برائت کا اعلان کیا اور اس کی تعریف و تمجید کرنے والوں پر سزا تجویز کیا۔
- خود مأمون کی طرف سے اپنی اور اپنے والد کے شیعہ ہونے پر تصریح: بعض مورخین کے مطابق خود مأمون نے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اس نے شیعہ مذہب کی تعلیمات کو اپنے والد ہارون سے سیکھا ہے۔ اس سے پوچھا گیا: اگر ہارون عباسی شیعہ تھا تو اہل بیت (ع) کو کیوں قتل کیا؟ مأمون نے جواب میں کہا: المُلکُ عَقیم۔ (یعنی جب حکومت کی بات آتی ہے تو باپ بیٹے کو نہیں پہچانتا دوسروں کی تو بات ہی نہیں)
اس نظریے کے مخالفین کے دلائل
- مأمون شیعیت کے لباس میں معتزلی تھا: مأمون کے شیعہ ہونے کے مخالفین اس بات کے معتقد ہیں کہ مأمون اصل میں معتزلہ تھا لیکن ظاہرا شیعیت کا اظہار کرتا تھا۔ مأمون کے دور میں بہت معتزلہ کا ایک گروہ علویوں اور شیعوں کے بہت قریب تھے۔ یہ لوگ شیعوں کی طرح خلفاء ثلاثہ پر امام علی(ع) کی برتری کے قائل تھے اور امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کی حمایت اور اس پر گواہی دیتے تھے۔ اس نظریہ کے مطابق مأمون کی طرف سے امام رضا(ع) کو خلافت کی پیشکش اس کی شیعیت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وہ علویوں سے دوستی کا اظہار اور ایرانیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کیلئے تھا۔
- مأمون کی شیعیت، شیعہ بمنای اعم تھا: بعض تشیع کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلی قسم، تشیع سے مراد خاص ایمان رکھنے والے کے ہیں اور اس اصطلاح کے مطابق شیعہ سے مراد شیعہ اثناعشری ہیں۔ دوسری قسم تشیع عام ہے۔ اس سے مراد یہ کہ امام علی(ع) کی خلافت بلا فصل کا قائل ہونا۔ مأمون، اس کے والد ہارون اور بنی عباس شیعوں کی اس دوسری قسم میں سے تھے۔
- مأمون امام کو قتل کرنے والا شیعہ: شہید مرتضی مطہری نے مأمون کا اہل سنت علماء کے ساتھ خلافت میں امام علی(ع) کی برتری کے موضوع پر ہونے والے مناظرے کو ایک بے نظیر مناظرہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: علمائے دین میں سے بہت کم علماء نے خلافت کے مسئلے میں مأمون کی طح استدلال کیا ہے۔ اس نے حضرت علی (ع) کی خلافت کی بارے میں مناظرہ کرتے ہوئے سب کو مغلوب کیا ہے۔ شہید مطہری مأمون کی شیعیت کے بارے میں موجود واقعات کو غیر قابل انکار سمجھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ "امام کو قتل” کرنے والا شیعہ ہے۔ وہ مأمون کی شیعیت کو امام حسین(ع) کے دور امامت میں کوفیوں کی شیعیت کی طرح قرار دیتے ہیں جنہوں نے آخر کار امام حسین (ع) کو شہید کئے۔
مأمون کے دور میں علم کی ترقی
مأمون، جوانی کے عالم میں ایرانیوں کے ہاں تربیت پانے کی وجہ سے علم و حکمت سے شدید لگاؤ رکھتا تھا اور ہمیشہ یونانی، سریانی، پہلوی اور اردو زبان سے کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کی سفارش کرتا تھا۔ اس کا دربار مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں سے بھرا رہتا تھا جس میں مختلف علمی مناظرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہتے تھے۔
وفات
مأمون رجب سنہ 218 ہجری قمری کو رومیوں کے ساتھ جنگ کے دوران ایک بیماری کی وجہ سے بَدَندون میں وفات کر گیا اور طَرَسوس میں دفن ہوا۔ موجودہ دور میں اس کی قبر ترکی کے جنوبی صوبہ مرسین کے شہر طرسوس کی جامع مسجد میں واقع ہے۔