حضرت زینب سلام اللہ علیہا (5 یا 6ھ- 62ھ) امام علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں۔ احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے دور خلافت میں آپ کوفہ میں خواتین کے لئے تفسیر قرآن کا درس دیتی تھیں۔
حضرت زینب کے شوہر عبداللہ بن جعفر تھے۔ واقعہ کربلا میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ موجود تھیں۔ امام حسینؑ نے عاشورا کے دن آخری وداع میں حضرت زینب سے نماز شب میں آپ کے لئے دعا کرنے کی سفارش کی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد حضرت زینب دوسرے اسیروں کے ساتھ اسیری کی حالت میں کوفہ پھر وہاں سے شام بھیجی گئیں۔
کوفہ اور دربار شام میں حضرت زینب کا خطبہ مشہور ہے۔ آپ نے یزید کے دربار میں اپنے خطبوں کے ذریعے سامعین کو متاثر کیا جس کی بنا پر یزید امام حسینؑ کے قتل اور دیگر جرائم کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالنے نیز اس پر لعنت بھیجنے پر مجبور ہوا۔
آپ بہت زیادہ مصائب کا شکار ہوئیں اسی بنا پر آپ کو اُمّ المَصائب کا لقب دیا گیا ہے۔ حضرت زینب کے محل دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شام میں حرم حضرت زینب اور مصر میں مقام السیدۃ زینب آپ سے منسوب ہیں۔
اجمالی تعارف
حضرت زینب امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی صاحبزادی ہیں۔ بعض منابع کے مطابق حضرت زینبؑ 5 جمادی الاول 5 یا 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
متعدد احادیث کے مطابق حضرت زینب کا نام پیغمبر اسلامؐ نے انتخاب کیا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کی طرف سے یہ نام پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا تھا۔ کتاب الخصائص الزینبیۃ میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اس کے بعد فرمایا: میری امت کے حاضرین غایبین کو میری پوتی زینب کی کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری پوتی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہے۔ زینب لغت میں نیک منظر اور خوشبودار درخت یا باپ کی زینت کے معنی میں آتا ہے۔
حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:
عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔
آپ نے زندگی میں بہت زیادہ مصائب دیکھے۔ جیسے رسول اللہ کی وفات، اپنی والدہ فاطمہ و حضرت علی کی زندگی کی سختیاں، شہادت امام حسن مجتبی، واقعۂ کربلا اور کوفہ و شام کی اسیری ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔
پیدائش و وفات
حضرت زینبؑ پانچ جمادی الثانی سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں اور اتوار کی رات 15 رجب سنہ 63 ہجری کو اپنے شریک حیات عبداللہ بن جعفر کے ہمراہ سفر شام کے دوران وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں اور بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ مدینہ یا مصر میں دفن ہیں۔
شریک حیات اور اولاد
حضرت زینب کی شادی سنہ 17 ہجری میں جعفر طیار کے بیٹے عبداللہ سے ہوئی اور اس شادی کے نتیجے میں خدا نے انہیں چار بیٹے: علی، عون، عباس، محمد؛ اور ایک بیٹی بنام ام کلثوم عطا فرمائی۔ عون اور محمد واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔
معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کیلئے ام کلثوم کا رشتہ مانگا لیکن امام حسینؑ نے انہیں اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کیا۔
فضائل اور مناقب
علم
کوفہ اور دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.
اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔
حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ: شیعیان آل رسولؐ کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔
سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے۔ کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔
کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"میرے ماں باپ ان پر قربان ہو جائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں۔
عبادت
حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:
شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔
خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل” ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔
صبر و استقامت
حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلا میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہونچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:
بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس چھوٹی قربانی کو قبول فرما۔
آپ نے بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔
واقعۂ کربلا
تفصیلی مضمون: شب عاشورا
شیخ مفید امام سجاد ؑ سے یوں روایت کرتے ہیں: شب تاسوعا میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا اور پھوپھی زینب ہمارے پاس تھیں اور امام حسین میری دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ امام حسین خیمے میں گئے جہاں ابوذر غفاری کے غلام جوین انکے ساتھ تھے۔ آپ اپنی تلوار کو تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
یا دهر افّ لک من خلیل کم لک بالاشراق والاصیل
اے دنیا! تیری دوستی پر افسوس! کتنے ایسے خلیل تمہیں پانے والے اشراق اور اصیل ہیں
من صاحب او طالب قتیل والدّہر لا یقنع بالبدیل
ان میں سے کچھ صاحب اور طالب قتیل ہیں اور زمانہ بدیل پر قناعت نہیں کرتا
پس امام حسین نے ان اشعار کی دو تین مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ میں نے آپ کے مقصود کو پا لیا، مجھ پر گریہ غالب ہوا لیکن میں آنسو پی گیا اور میں جان گیا مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ میری پھوپھی رقت قلبی (جو عورتوں کی خصوصیت ہے) کی وجہ سے یہ سننے کی طاقت نہ لا سکی، جلدی سے اٹھیں اور میرے والد کے پاس پہنچیں تو مخاطب ہوئیں: واہ مصیبتا! کاش مجھے موت آ جاتی، آج میری ماں فاطمہ، باپ علی اور بھائی حسن فوت ہو گئے، اے گذشتگان کے جانشین! باقی رہ جانے والوں کی ڈھارس! یہ سننا تھا کہ امام حسین نے انکی طرف نگاہ کی اور فرمایا: اے بہن! شیطان تجھ پر غلبہ حاصل نہ کرلے، آپ نے بھری ہوئی آنکھوں سے فرمایا: اگر پرندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ سو جائے گا۔
پس حضرت زینب ؑ نے کہا: مجھ پر وائے ہو! کیا یہ بزور شمشیر تمہاری جان لیں گے؟ ایسا ہے تو یہ مجھے اور زیادہ غمگین کر دیا اور یہ میرے لئے زیادہ ناقابل برداشت ہے یہ کہہ کر پھوپھی نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور گریبان پارہ پارہ کر لیا، آپ بیہوش ہو کر گر گئیں۔ پس حسین ؑ اٹھے اور پانی کے چھینٹے آپ کے چہرے مارے اور فرمایا:
اے بہن! خدا کا خوف کیجئے، صبر اور شکیبائی اختیار کیجئے! جان لیجئے کہ اہل زمین اس دنیا سے چلے گئے اور نہ ہی اہل آسمان باقی نہیں رہے گے، ہر چیز فانی ہے صرف وہ وجہ اللہ باقی رہے گا جس نے اپنی قدرت سے خلق کیا اور پھر انہیں اپنی طرف لوٹائے گا اور وہ یگانہ و یکتا ہے۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ مجھ سے بہتر تھیں اسی طرح میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور رسول خدا صلّی اللّه علیہ و آلہ ہمارے اور سب مسلمانوں کیلئے نمونۂ عمل ہیں۔
امام نے ان الفاظ کے ساتھ انکی دلداری کی اور فرمایا: اے بہن! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں تم میرے بعد اس قسم کو مت توڑنا، جب دیگران پر حزن و غم طاری ہو تو آپ میری خاطر اپنا گریبان چاک نہ کریں، چہرہ مت پیٹیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ کہہ کر حضرت زینب کو میرے پاس بٹھا دیا اور اپنے اصحاب کے پاس چلے گئے۔
عصر عاشور جب سیدہ زینبؑ نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لے کر آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور عمر ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟”. (ترجمہ: اے سعد کے بیٹے! ابو عبد اللہ (امام حسنؑ) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہو؟!).
ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبریؑ نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل”.(ترجمہ: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیمبرؐ! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)
حضرت زینبؑ نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!
بھائی کی شہادت پر رد عمل
حضرت زینبؑ بھائی امام حسینؑ کے بے جان جسم کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور دل گداز انداز ميں نوحہ گری کرتے ہوئے کہا:
"وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي”.
ترجمہ: اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں۔ یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خداؐ ہے اور وہ پیامبر ہدایتؐ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی… حضرت زینبؑ کے کلام اور آہ و فریاد نے دوست اور دشمن کو متاثر و مغموم کیا اور سب کو رلا دیا.
دربار كوفہ
تفصیلی مضمون: کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ
عاشورا کے بعد اہل بیت کے اسیروں کو بازار میں لایا گیا۔ کوفہ میں زینب بنت علی نے ایک اثردار خطبہ دیا جس نے لوگوں پر بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا۔
بُشر بن خُزیم اسدی حضرت زینبؑ کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:
اس دن میں زینب بنت علیؑ کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ”! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔ حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا لیکن اس خطبے نے کوفہ میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علیؑ کی بیٹی کے خطبے نے کوفیون کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔
خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی علامات ظاہر ہونے لگیں چنانچہ اس حکومت کے خلاف احتمالی بغاوت کے سد باب کیلئے اسیروں کو حکومت کے مرکزی مقام دار الامارہ لے جانے حکم دیا گیا۔
حضرت زینبؑ دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زياد کے ساتھ آپ نے مناظرہ کیا۔
حضرت زینبؑ کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بنو امیہ کو رسوا کردیا۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زياد نے اسیروں کو قید کرنے کا حکم دیا ۔کوفہ اور دارالامارہ میں حضرت زينبؑ کے خطبات، امام سجادؑ، ام کلثوم اور فاطمہ بنت الحسین کی گفتگو، عبداللہ بن عفیف ازدی اور زید بن ارقم کے اعتراضات نے کوفہ کے عوام میں جرأت پیدا کر دی یوں ظالم حکمران کے خلاف قیام کا راستہ ہموار ہوا؛ کیونکہ کوفہ والے حضرت زینبؑ کا خطبہ سننے کے بعد نادم و پشیمان ہوگئے اور خاندان عصمت و طہارت کے قتل کا بدنما داغ جو ان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گیا تھا کو مٹانے کیلئے راہ کسی راہ حل تلاش کرنے لگے یوں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ آخرکار مختار کی قیادت میں خون حسین بن علی کے انتقام کیلئے قیام کیا۔
شام
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اسرائے اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہارؑ کا یہ کاروان شام روانہ ہوا۔
اسرائے اہل بیتؑ کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دار الخلافہ دمشق جہاں لوگ علیؑ اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسولؐ کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے شہر کی تزئین باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا۔
لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ امام سجّادؑ اور حضرت زینبؑ نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسینؑ کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئیں بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونے شروع ہو گئی تھی۔
دربار یزید
یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے۔ اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔
یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک لبوں کی بے حرمتی کرنا شروع کیا اور رسول اکرمؐ اور آپ کی آل کے ساتھ اپنی دشمنی کو علنی کرتے ہوئے کچھ اشعار پڑھنا شروع کیا جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
"اے کاش میرے آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خرزج کس طرح ہماری تلواروں کی ستم کا نشانہ بنا ہے، تو وہ اس منظر کو دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھتے: اے یزید! تہمارے ہاتھ کبھی شل نہ ہو! ہم نے بنی ہاشم کے بزرگان کو قتل کیا اور اسے جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور اس فتح کو جنگ بدر کی شکست کے مقابلے میں قرار دیا۔ بنی ہاشم نے سیاسی کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ آسمان سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی وحی اتری ہے۔ میں خُندُف کے نسل میں سے نہیں ہو اگر احمد(حضرت محمد) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔
اتنے میں مجلس کے ایک کونے سے حضرت زینبؑ اٹھی اور بلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ یزید کے دربار میں جناب زینبؑ کے اس خطبے نے امام حسینؑ کی حقّانیت اور یزید کے باطل ہونے کو سب پر واضح اور آشکار کیا۔
خطبے کے فوری اثرات
حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔
دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔
یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔ اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی۔
آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔
حضرت زینب کے خطبہ کے چند اقتباسات : سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود و سلام کے بعد فرمایا:
اما بعد! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کر دیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہو چکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان و منزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کر رہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خود نمایی کر رہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منا رہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”.
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں۔.
اس کے بعد فرمایا: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹها رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے گا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبد المطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد [برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں۔ "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں۔”
اے یزید! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے” ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
مسجد قُبا اسلام میں پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد حضرت محمد(ص) نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ قرآن کریم میں سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۸ اور ۱۰۹ میں اس مسجد کا تذکرہ ہوا ہے۔
محل وقوع
مسجد قبا، قبا نامی گاوں میں مدینہ سے 6 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وقت اس مسجد اور گاوں دونوں کو مدینہ کے اندر شامل کیا گیا ہے۔ اس مسجد کو "قبا” نام رکھنے کی علت بھی یہی تھی کہ اسے "قبا” نامی گاوں میں بنائی گئی تھی اور اس گاوں کو اس نام سے پکارنے کی وجہ یہ تھی کی اس میں اسی نام سے ایک چشمہ موجود تھا۔
پیغمبر اکرم(ص) کا قبا میں داخلہ اور مسجد کی تعمیر
پیغمبر اکرم(ص) ہجرت کے موقع پر مدینے میں داخل ہونے سے پہلے "قبا” نامی گاوں کے مکینوں کے اصرار پر اس گاوں میں کچھ ایام کیلئے قیام فرمایا اور وہیں پر آپ نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم صادر فرمایا۔ قبا میں آپ کی تشریف آوری پیر کے دن 12 یا 14 ربیع الاول بتایا گیا ہے۔ اس گاوں میں آپ کے قیام کے ایام کو مورخین نے ایک ہفتہ بتایا ہے جس کے دوران آپ(ص) نے مسلمانوں کے تعاون سے اس مسجد کی تعمیر فرمائی۔ بعض منابع کے مطابق اس مسجد کو عمار یاسر کی تجویز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جبکہ بعض دیگر منابع کے مطابق اس مسجد کی ساخت اور تعمیر "عمار یاسر” نے اہم کردار ادا کیا اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسلام میں وہ پہلا شخص ہے جس نے مسجد تعمیر کی۔
فضایل
- رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: جو بھی اپنے گھر میں وضو کرے اور مسجد قبا میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو اسے ایک عمرہ کا ثواب دیا جاتا ہے۔
- مسجد قبا حضرت رسول خدا(ص) کے ہاں نہایت اہمیت کا حامل تھا، یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضور(ص) مدینہ میں سکونت اختیار فرمانے کی بعد ہر ہفتہ کے دن پیدل یا سوارہ نماز کی خاطر اس مسجد میں تشریف لاتے تھے۔
تعمیر نو
مسجد قبا کو عثمان بن عفان کی خلافت کے دور میں پہلی بار توسیع اور تعمیر کی گئی ۔
مسجد قبا میں دوسری تبدیلی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں لایی گئی جس کے بعد کئی سال اسی حالت پر باقی رہی۔
سنہ ۵۵۵ق، میں جمال الدین اصفہانی جو موصل کا وزیر تھا، نے اس مسجد کی تعمیر نو کا حکم دیا جس پر اس مسجد کی دبارہ تعمیر عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح آٹھویں اور نویں صدی ہجری قمری میں اس مسجد کے بعض حصوں کی تعمیر نو کی گئی ۔ اس کے بعد حکومت عثمانی خصوصا سعود بن عبد العزیز کے دور میں اسے اسے دوبارہ توسیع دے کر کئی برابر کی گئی۔
اس وقت اس مسجد کے کئی صحن ہیں جن میں سے ہر ایک پر مخصوص گنبد تعمیر کی گئی ہے۔
قرآن میں مسجد قبا کا تذکرہ
اکثر مفسرین کے مطابق سورہ توبہ کی آیت نمبر 108 میں جس مسجد کا تذکزہ ہوا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کو زیادہ سزاوار گردانا گیا ہے اس سے مراد یہی مسجد ہے۔
لَا تَقُمْ فِیہ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ أَوَّلِ یوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیہ فِیہ رِجَالٌ یحِبُّونَ أَن یتَطَہرُوا وَاللَّہ یحِبُّ الْمُطَّہرِینَ (ترجمہ: جس مسجد کی بنیاد روز اوّل سے تقوٰیٰ پر ہے وہ اس قابل ہے کہ آپ اس میں نماز ادا کریں -اس میں وہ مرد بھی ہیں جو طہارت کو دوست رکھتے ہیں اور خدا بھی پاکیزہ افراد سے محبت کرتا ہے۔)
مذکورہ آیت میں اس مسجد کی دو خصوصیات کا تذکرہ ہوتا ہے جن میں سے ایک اس میں نماز پڑهنا زیادہ مناسب ہونا جبکہ دوسری صفت یہاں پر موجود افراد کی ہیں جو پاکی اور طہارت کو دوست رکھنے والے ہیں۔
عام الفیل اس سال کو کہا جاتا ہے جس سال یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا۔ چونکہ ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر سوار تھے اسی لئے اس سال کو عام الفیل کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے سورہ فیل میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مورخین کے مطابق یہ واقعہ سنہ 570 عیسوی کو پیش آیا اور مشہور قول کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ولادت بھی اسی سال ہوئی ہے۔
لشکر تیار کرنے کی وجہ
جب یمن کی حکومت ابرہہ کے ہاتھ آئی تو اس نے دیکھا کہ لوگ دور اور نزدیک سے اس شہر میں ایک خاص عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور اس عزت کی وجہ کعبہ ہے، اسی لئے صنعاء شہر میں ایک کلیسا بنایا اور حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھا جس میں یوں تحریر کیا: (میں ایک ایسا کلیسا بنوا رہا ہوں جس کی مانند ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا۔ اور اس کلیسا کے تیار ہوتے ہی کعبہ کے زائرین کو اس کی طرف لے جاؤں گا۔)
لوگوں نے اس کا زیادہ احترام نہ کیا حتی کے بنی فقیم کے ایک فرد نے ابرہہ کے اس کلیسے میں پیشاب کر کے اس کی بے حرمتی کی، ابرہہ جو کہ ایک مناسب فرصت کی تلاش میں تھا تا کہ کعبہ کو خراب کرے، اس بے حرمتی وجہ سے اس نے ایک لشکر تیار کیا اور ١٤ ہاتھی کے ہمراہ مکہ کی جانب حرکت کی تا کہ کعبہ کو خراب کرے اور لوگوں کی توجہ صرف یمن کی جانب ہو جائے۔
ابرہہ کا مقابلہ
یمن کے دو بزرگوار ذونفر اور نفیل بن حبیب خثعمی اس لشکر کے مقابلے کے لئے اٹھے لیکن ابرہہ کے ہاتھوں ان دونوں کو شکست ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب کو پیغام
جب ابرہہ کا لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو، ابرہہ نے ایک پیک مکہ کی جانب روانہ کیا تا کہ مکہ کے بزرگ کے ساتھ گفتگو کرے اور انکو مکہ کی تخریب کے بارے میں بتائے۔ اس نے مکہ کے بزرگوار، عبدالمطلب کو پیغام بھیجا (میں مکہ میں لوگوں کو کوئی نقصان پہنچانے نہیں آیا بلکہ صرف کعبہ کی عمارت کو خراب کرنے آیا ہوں)
عبدالمطلب نے ابرہہ کے پیک کو واپس بھیجا اور کہا جا کر ابرہہ کو کہہ دو کہ ہماری کسی قسم کی جنگ ابرہہ کے ساتھ نہیں کیونکہ ہماری جنگ کے لئے کوئی تیاری نہیں ہے اور اگر خانہ کعبہ کو خراب کرنے کی نیت سے آیا ہے تو اسے کہہ دو کہ یہ گھر خدا اور اس کے خلیل ابراہیم(ع) کا گھر ہے اگر وہ اپنے اور اپنے خلیل کے گھر کی خود حفاظت کرنا چاہے گا تو کرے گا اگر نہیں چاہے گا تو نہیں کرے گا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات
ابرہہ کے لشکر نے قریش کے کچھ اونٹ چوری کئے تھے۔ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے اور درخواست کی کہ ہمارے ٢٠٠ اونٹ جن کو تمہارے لشکر نے چوری کئے گئے ہیں ان کو واپس لوٹایا جائے۔ جس کے نتیجے میں ابرہہ کی عزت اور بھی خراب ہوئی اور ابرہہ نے عبدالمطلب سے کہا میں نے سوچا تھا کہ تم مکے کی تعظیم اور حرمت کی خاطر مجھ سے بات کرنے آئے ہو لیکن تم نے تو اونٹ واپش لوٹانے کے علاوہ کوئی درخواست مجھ سے نہیں کی۔ عبدالمطلب نے جواب میں کہا: انا ربّ الابل و للبیت ربّ یمنعه ترجمہ: میں اونٹوں کا مالک ہوں، کعبہ کا مالک بھی ہے جو خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔
ابرہہ نے غرور سے کہا: (کوئی مجھے اپنے مقصد سے نہیں روک سکتا) اور حکم دیا کہ اس کے اونٹ کو واپس لوٹا دیں۔
قریش کا مکے سے خارج ہونا
جب عبدالمطلب نے اپنے اونٹ واپس لوٹا لئے تو اہل مکہ کی جانب آکر حکم دیا کہ اپنے مال کے ہمراہ پہاڑوں کے اوپر چلے جائیں۔ جب شہر مکہ خالی ہو گیا، تو حضرت عبدالمطلب کعبہ کے نزدیک جاکر کعبہ کے غلاف کو ہاتھ میں لیا اور دعا اور گریہ وزاری میں مشغول ہو گئے اور کہا:
- خدایا! تمہارے بندے نے اپنے گھر کو آباد اور تمہارے گھر کو ویران اور خراب کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو خود اپنے گھر کی حفاظت فرما اور اپنے گھر کی شوکت کو اس کے گھر کی شوکت سے کم نہ ہوںے دے۔ لیکن اگر دشمن تیرے گھر اور ہمارے قبلے کو خراب کر دے تو خود ہمیں بتا کہ اس کے بعد ہم کس جگہ پر تیری عبادت کریں۔ (٢)
ابرہہ کے لشکر پر ابابیل کا حملہ
جیسے ہی ابرہہ کے لشکر نے کعبہ کی جانب حرکت کی خداوند نے آسمان سے ابابیل نام کے پرندوں کو حکم دیا تا کہ وہ اپنی چونچ میں پتھر لے کر ابرہہ کے لشکر پر حملہ کریں اور انکو ہلاک کر دیں۔ اچانک آسمان پر اندھیرا چھا گیا اور پرندوں کا ایک بہت بڑا لشکر ظاہر ہو گیا۔ ہر ایک کی چونچ میں ایک چھوٹا پتھر تھا اور وہ پتھر کو پھیںک رہے تھے جس کو بھی یہ پتھر لگتا تھا وہی پر ہلاک ہوجاتا تھا بہت کم تعداد میں لوگ زندہ بچے جو یمن کی طرف زخمی اور خون آلود حالت میں لوٹ گئے۔ (٣)
قرآن نے اس واقعہ کو سورہ فیل کے نام سے یاد کیا ہے۔ عام الفیل کے واقعہ کے بعد قریش کو اعراب میں خاص منزلت اور مقام و عزت حاصل ہوئی۔
علی بن محمد (212۔254 ھ)، امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔
عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔
امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔
آپ کا روضہ سامرا میں حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے۔ سنہ 2006 اور 2007 ء میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں اسے تباہ کیا گیا تھا جسے بعد میں پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔
نسب، کنیت و لقب
آپ کے والد امام محمد تقی علیہ السلام، شیعیان اہل بیتؑ کے نویں امام ہیں۔ آپؑ کی والدہ سمانہ یا سوسن نامی ایک کنیز تھیں۔
امام ہادیؑ اور آپؑ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام عسکریین کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کیونکہ عباسی خلفا انہیں سنہ 233 ہجری میں سامرا لے گئے اور آخر عمر تک وہیں نظر بند رکھا۔
امام ہادیؑ نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیّب جیسے القاب سے بھی مشہور تھے۔ آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ اور چونکہ امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظمؑ کو ابوالحسن اول، امام رضاؑ کو ابوالحسن ثانی اور امام ہادیؑ کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔
انگشتریوں کے نقش
امام علی نقی علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:
"الله رَبّي وهو عِصمَتي مِن خَلقِه”. اور "حِفْظُ الْعُهُودِ مِنْ أَخْلَاقِ الْمَعْبُود”۔
ولادت اور شہادت
کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔
شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ 25 یا 26 جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔ اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔
آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون ، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر معتمد عباسی نے آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکریؑ کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر امام ہادی علیہ السلام کو شہید کیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس نے دو ائمہ اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کا قاتل متوکل عباسی تھا۔
تاہم متوکل کے ہاتھوں امامؑ کی شہادت کی روایت بحار کی درج ذیل روایت سے متصادم ہے : متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن امام ہادیؑ کو پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امامؑ کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولیے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی متوکل نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ امام ہادی علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ”(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔ میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر امام ہادیؑ نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادیؑ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کر کے شیعیان اہل بیتؑ میں سے ہو گیا۔
زوجہ اور اولاد
امام ہادی علیہ السلام کی زوجہ مکرمہ کا نام سلیل خاتون تھا؛ وہ ام ولد تھیں اور ان کا تعلق "نوبہ” ۔ سے تھا اور وہی امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔
اکثر شیعہ علماء کے مطابق آپؑ کی چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں لیکن آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ خصیبی کے قول کے مطابق آپؑ کے چار فرزند امام حسن عسکریؑ، محمد، حسین اور جعفر ہیں۔ مؤخر الذکر نے امامت کا جھوٹا دعوی کیا چنانچہ جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا۔
شیخ مفید آپ کے فرزندوں کے بارے میں لکھتے ہیں: امام ہادیؑ کے جانشین حضرت ابو محمد حسن ہیں جو آپؑ کے بعد گیارہویں امام ہیں، اور حسین، محمد اور جعفر اور ایک بیٹی بنام عائشہ، جبکہ ابن شہرآشوب کا کہنا ہے کہ آپؑ کی دوسری بیٹی کا نام علیہ ہے۔ البتہ قرائن اور نشانیوں کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آپؑ کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کے کئی نام تھے۔ علمائے اہل سنت کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی، ہیں۔
امامت
امام ہادیؑ سنہ 220 ہجری میں اپنے والد امام جوادؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ظاہر ہے کہ امام کی کمسنی کا مسئلہ امام جوادؑ کی امامت کے آغاز پر حل ہوچکا تھا چنانچہ اکابرین شیعہ کے لئے امامت کے وقت یہ مسئلہ حل شدہ تھا اور کسی کو کوئی شک و تردد پیش نہ آیا۔ شیخ مفید کے بقول چند معدودافراد کے سوا امام جوادؑ کے پیروکاروں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔ متذکرہ معدود افراد کچھ عرصے کے لئے قم میں مدفون موسی بن محمد (متوفی 296ہجری ) المعروف بہ موسی مبرقع کی امامت کے قائل ہوئے؛ لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے اور انھوں نے امام ہادیؑ کی امامت کو قبول کیا۔ سعد بن عبد اللہ کہتے ہیں: یہ افراد اس لئے امام ہادیؑ کی امامت کی طرف پلٹ آئے کہ موسی مبرقع نے ان سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا اور انہیں بھگا دیا۔
دلائل امامت
طبرسی اور ابن شہر آشوب کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام کی امامت پر شیعیان آل رسولؐ کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔ ان سب کے ساتھ، کلینی اور ديگر محدثین نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
روایات کے مطابق معتصم نے امام جوادؑ کو بغداد بلوایا تو آپؑ نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپؑ نے امام ہادی علیہ السلام کو شیعیان اہل بیت کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر پہچنوایا۔ حتی کہ آپؑ نے ایک نصِّ مکتوب بھی مدینہ میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی نقی الہادی علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (آیت اولو الامر) یعنی ("اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم”) نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (آیت تطہیر) یعنی ("انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا”) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔
ہم عصر عباسی خلفاء
امام ہادی اپنی امامت کی مدت میں بنی عباس کے کئی ایک خلفاء کے ساتھ ہم عصر تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:
- معتصم، جو مامون کا بھائی تھا (دوران حکومت: 218 سے 227 ہجری تک)۔
- واثق، جو معتصم عباسی کا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 227 سے 232 ہجری تک)۔
- متوکل عباسی، جو واثق عباسی کا بھائی تھا۔ (دوران حکومت 232 سے 248 ہجری تک)۔
- منتصر، جو متوکل کا بیٹا تھا۔ (مدت حکومت 6 مہینے)۔
- مستعین، منتصر عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ (دوران حکومت 248 سے 252 ہجری تک)۔
- معتز عباسی، متوکل کا دوسرا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 252 سے 255 ہجری تک)۔
امام نقی علیہ السلام کو مؤخر الذکر عباسی حکمران معتز کے زمانے میں بمقام سامرا زہر دیا گیا اور وہیں آپ جام شہادت نوش کرگئے۔ آپؑ سامرا میں ہی مدفون ہوئے۔
امام کے مقابل متوکل کی روش
متوکل کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے عباسی خلفاء کی روش مامون ہی کی روش تھی۔ یہ روش اہل حدیث کے مقابلے میں معتزلیوں کا تحفظ کررہی تھی اور اس روش نے علویوں کے لئے مساعد و مناسب سیاسی ماحول پیدا کردیا تھا۔ متوکل کے آتے ہی تنگ نظریوں کا آغاز ہوا۔ متوکل نے اہل حدیث کی حمایت کی اور انہیں معتزلہ اور شیعہ کے خلاف اکسایا اور یوں معتزلہ اور شیعہ کی سرکوبی شروع کردی اور یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔
ابو الفرج اصفہانی نے طالبیون کے ساتھ متوکل کے نفرت انگيز طرز سلوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ متوکل کا وزیر عبید اللہ بن یحیی بن خاقان بھی متوکل کی طرح خاندان علوی کا شدید دشمن تھا۔ طالبیوں کے ساتھ متوکل عباسی کے ناخوشایند روشوں کے نمونے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے زمین کربلا ـ اور بالخصوص مرقد منور کے گرد کے علاقے ـ کو ہموار کروایا اور وہاں ہل چلوایا اور وہاں کھیتی کا انتظام کیا؛ زائرین امام حسینؑ کے ساتھ سختگیرانہ رویہ اختیار کیا اور ان کے لئے شدید اور ہولناک سزائیں مقرر کردیں۔ اس صورت حال کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ کربلا میں واقع حرم حسینی شیعہ طرز فکر اور مکتب آئمہؑ کے ساتھ عوام کا پیوند و تعلق استوار کرسکتا تھا۔
سامرا میں طلب کیا جانا
متوکل نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو مدینہ سے سامرا طلب کیا۔ ابن جوزی نے خاندان رسالتؐ کے دشمنوں کی طرف سے متوکل کے ہاں امامؑ کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: متوکل نے بدگمانیوں پر مبنی خبروں کی بنیاد پر جو امامؑ کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں، امام ہادیؑ کو سامرا طلب کیا۔
شیخ مفید لکھتے ہیں: امام علی نقیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو سامرا آنے کی دعوت دی۔ کلینی نیز شیخ مفید نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔
متوکل نے امامؑ کی مدینہ سے سامرا کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور امامؑ کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے تاہم مدنیہ کے عوام ابتدا ہی سے اس حقیقت حال کو بھانپ گئے تھے۔
ابن جوزی اس سلسلے میں یحیی بن ہرثمہ سے نقل کرتے ہیں: میں مدینہ چلا گیا اور شہر میں داخل ہوا تو وہاں کی عوام کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بعض غیر متوقع مگر پرامن اور ملائم اقدامات عمل میں لا کر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ رفتہ رفتہ عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس سلسلے میں اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی۔
خطیب بغدادی (متوفٰی 463 ہجری) نے لکھا ہے: متوکل عباسی نے امام ہادیؑ کو مدینہ سے بغداد اور وہاں سے سرّ من رأٰی منتقل کیا اور آپؑ 20 سال اور 9 مہینے کی مدت تک وہیں قیام پذیر رہے اور معتز کے دور حکومت میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے۔
سامرا میں قیام اور متوکل کا رویہ
سامرا پہنچنے پر امام ہادیؑ کا عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا اور آپؑ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں بسایا گیا۔
شیخ مفید کہتے ہیں: سامرا میں پہنچنے کے پہلے روز متوکل نے حکم دیا کہ آپؑ کو تین دن تک "خَانِ الصَّعَالِيكِ” یا("دار الصَّعَالِيكِ”) میں رکھا اور بعدازاں آپؑ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپؑ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔ صالح بن سعید کی رائے کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات امامؑ کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔
امامؑ آخر عمر تک اسی شہر میں مقیم رہے۔ شیخ مفید سامرا میں امامؑ کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلیفہ بظاہر امامؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن درپردہ آپؑ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔
امامؑ سامرا میں اس قدر صاحب عظمت و رأفت تھے کہ سب آپؑ کے سامنے سر تعظیم خم کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپؑ کے سامنے منکسرالمزاجی کا اظہار کرتے اور آپؑ کا احترام کرتے تھے۔ امام علی نقی سامرا میں جبری اقامت 20 سال اور 9 ماہ کی مدت کے دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے مگر متوکل انہیں اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تا کہ اس طرح وہ امام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکے نیز لوگوں کے درمیان امام کے مقام کو گرا دے۔
متوکل کو خبر دی گئی کہ امام کے گھر میں جنگی اسلحہ اور شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے خطوط موجود ہیں۔ اس نے ایک گروہ کو امام کے گھر پر غافل گیرانہ حملے کا حکم دیا۔ حکم پر عمل کیا گیا جب اس کے کارندے امام کے گھر داخل ہوئے تو انہوں نے اس گھر میں امام کے ایسے کمرے میں اکیلا پایا جس کا دروازہ بند تھا اور اس کے فرش پر صرف ریت اور ماسہ موجود تھا۔ امام پشم کا لباس زیب تن کئے اور سر پر ایک رومال لئے قرآنی آیات زمزمہ کر رہے تھے۔ امام کو اسی حالت میں متوکل کے حضور لایا گیا ۔
جب امام متوکل کے پاس حاضر ہوئے تو متوکل کے ہاتھ میں ایک کاسۂ شراب تھا۔ اس نے امام کو اپنے پاس جگہ دی اور شراب کا پیالہ امام کو پیش کیا۔ امام نے جواب دیا میں میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے۔ اس نے امام سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے لئے اشعار پڑھیں جو اسے وجد میں لے آئیں امام نے جواب دیا میں اشعار کم کہتا ہوں ۔متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار کہے :
| "باتوا علی قُلَلِ الأجبال تحرسهم”|"غُلْبُ الرجال فما أغنتهمُ القُللُ”
"انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں| لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا” "واستنزلوا بعد عزّ عن معاقلهم”|"فأودعوا حُفَراً، یا بئس ما نزلوا” "عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیا|انہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں” |
||
اشعار ختم ہوئے تو متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے یہاں تک کہ متوکل کا چہر آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ امامؑ کو اکرام و احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آئیں۔
منتصر کا دور
متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصر اقتدار پر قابض ہوا جس کی وجہ سے امام علی نقیؑ سمیت علویوں پر عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم ہوگیا؛ گوکہ دوسرے علاقوں میں عباسی کارگزاروں کا دباؤ شیعیان اہل بیت پر بدستور جاری تھا۔
گذشتہ ادوار کی نسبت گھٹن کی کسی حد تک کمی کے بدولت مختلف علاقوں میں شیعیان اہل بیت] کی تنظیم کو تقویت ملی۔ جب بھی کسی شہر میں امامؑ کا کوئی وکیل گرفتار کیا جاتا تھا، آپؑ دوسرا وکیل مقرر کر دیتے تھے۔
اسلامی معارف کی تشریح
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہؐ کی بعثت کے اہداف و مقاصد اور امامؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ عباسی گھٹن کے اس دور میں رسول اللہؐ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا امامت کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادیؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں امامؑ اس دور میں تبلیغ اسلام کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔
قرآن کی بنیادی حیثیت
اہل تشیع کے درمیان غُلات کی سرگرمیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے انحرافات کی وجہ سے دوسرے فرقوں نے مکتب تشیع کو اپنی یلغار کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان انحرافات میں سے ایک تحریف قرآن کا مسئلہ تھا جس کا تصور البتہ تشیع تک محدود نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی بعض کتب و مآخذ میں بھی تحریف کے سلسلے میں بعض غلط روایات نقل ہوئی ہیں۔
اس تہمت کا ازالہ کرنے کے لئے آئمۂ شیعہؑ نے قرآن کو بنیاد قرار دیتے اور فرماتے جو روایت قرآن سے متصادم ہو وہ باطل ہے۔
امام ہادیؑ نے ایک مفصل رسالہ لکھا جس میں آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔قرآن کو ایک باضابطہ طور ایک ایسا متن قرار دیا کہ تمام اسلامی مکاتب فکر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ رسالہ ابن شعبہ حرانی نے نقل کیا ہے۔
امامؑ نے اپنے زمانے کے مختلف مکاتب اور فرقوں کے اکابرین کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب کرکے قرآن سے استناد کیا اور سب کو اپنی رائے قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ عیاشی کی روایت میں ہے کہ:"كان ابو جعفر وابو عبد الله عليهما السّلام لا يصدّق علينا إلا بما يوافق كتاب الله وسنّة نبيه”، ترجمہ: امام ابوجعفر و امام ابو عبداللہ علیہما السلام ہمارے لئے صرف ان روایات کی تصدیق فرمایا کرتے تھے جو قرآن و سنت کی موافق ہوتی تھیں۔
امامؑ اور خلق قرآن کا مسئلہ
تیسری صدی ہجری کے آغاز میں حدوث و قِدَمِ قرآن کی بحث نے عالم تسنن کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ یہ بحث خود اہل تسنن میں فرقوں اور گروہوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔
شیعیان اہل بیتؑ نے آئمہؑ کے فرمان کے مطابق خاموشی اختیار کرلی۔ امام ہادیؑ نے ایک شیعہ عالم کے خط کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں اظہار خیال نہ کرو اور حدوث و قِدَمِ قرآن میں کسی فریق کی جانبداری نہ کرو۔
امام ہادیؑ کے اس مؤقف کی بنا پر ہی شیعہ اس لاحاصل بحث میں الجھنے سے محفوظ رہے۔
علم کلام
مختلف شیعہ گروہوں کے درمیان اختلاف رائے، ان کی ہدایت کو آئمہؑ کے لئے دشواری کا سبب بن رہا تھا؛ شیعیان اہل بیتؑکا مختلف شہروں میں پھیلے ہونے اور کبھی دوسرے فرقوں کی بعض نظریات کے تحت تاثیر قرار پانا مزید دشوار تر کرتا تھا ۔ اس شور وغوغا میں شیعہ مخالف گروہ اور شیعہ دشمن مسالک ان اختلافات کو مزید ہوا دیتے اور انہیں بہت زيادہ عمیق ظاہر کرتے تھے ۔ کشی سے منقولہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص نے بیٹھ کر زراریہ، عمّاریہ اور یعفوریہ نامی مذاہب بنا دئے اور انہیں تشَیُع فرقے قرار دیتے ہوئے امام صادقؑ کے بزرگ اصحاب یعنی زرارہ بن اعین ، عمار ساباطی اور ابن ابی یعفور سے منسوب کیا۔
آئمۂ شیعہؑ کو کبھی ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن میں سے بعض کا سبب شیعہ علما کے درمیان اختلافات سے ہوتا تھا۔ یہ سوالات کبھی تو سطحی قسم کے لیکن کبھی گہرائی کے حامل ہوتے تھے اور آئمہؑ مداخلت کرکے اصلاح کیا کرتے تھے۔ ان کلامی و اعتقادی مسائل میں سے ایک تشبیہ اور تنزیہ کا مسئلہ تھا۔ آئمہؑ ابتدا ہی سے نظریۂ تنزیہ کی حقانیت پر تاکید کرتے تھے۔
تشبیہ اور تنزیہ کی بحث میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کا موقف اور کلام شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان اختلاف کا سبب بنااورآئمہؑ کو مسلسل اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس سلسلے میں امام ہادیؑ سے 21 حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض مفصل ہیں اور وہ سب اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ امامؑ تنزیہ کے مؤقف کی تائید کرتے تھے۔
جبر و اختیار کے مسئلے میں بھی ایک مفصل رسالہ امام ہادیؑ کے علمی ورثے کے طور پر موجود ہے۔ اس رسالے میں قرآن کریم کی آیات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور امام صادقؑ سے منقولہ حدیث "لا جبر ولا تفویض بل امر بین الامرین” کی تحلیل و تشریح کی گئی ہے اور مسئلۂ جبر و تفویض کے سلسلے میں شیعہ کلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔
حضرت امام علی نقی ؑ کی مقام استدلال میں بیان ہونے والی اکثر روایات جبر و تفویض کے متعلق ہیں۔
دعا اور زیارت
دعا اور زیارت امام علی نقی ؑ کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیتؑ کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگر ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔
زیارت جامعۂ کبیرہ
مفصل مضمون: زیارت جامعۂ کبیرہ
زیارت جامعۂ کبیرہ آئمہ معصومینؑ کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے ان سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جا سکتی ہے۔
یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادیؑ کی طرف سے صادر ہوا۔ زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں آئمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمۂؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے۔ چونکہ اس زیارت کے مضامین و محتویات ائمۂؑ کے مقامات و مراتب کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔
شیعوں سے رابطہ
امام ہادی علیہ السلام ادارہ وکالت کے توسط سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ روش حقیقت میں ابتداء ہی سے آئمہؑ کی سیرت کا تسلسل تھی۔ اس دور میں پیروان اہل بیتؑ کی اکثریت کا مسکن ایران تھا اور امام ہادیؑ کا غالیوں سے بھی مقابلہ رہا۔
نظامِ وکالت
اگرچہ ائمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔ وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔
ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:
- بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
- بصرہ اور اہواز؛
- قم اور ہمدان؛
- حجاز، یمن اور مصر۔
آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔
امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔
ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے۔
حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔
اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔
شیعیانِ ایران
پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
امام ہادیؑ کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔
قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔
قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔
قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم” کی صفت سے نوازا ہے۔
ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔ دیلم دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے.
بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادیؑ کے بعض اصحاب قزوین میں سکونت پذیر تھے۔
اصفہان ـ کہ جن کے متعلق متعصب سنیوں حنبلی ہونے کی خبر معروف تھی اور اس شہر کی اکثریت کا تعلق اہل سنت سے ہی تھاـ میں امام ہادیؑ کے بعض اصحاب سکونت پذیر تھے جن میں سے بطور نمونہ ابراہیم بن شیبہ اصفہانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ اگرچہ کاشانی کے تھے لیکن ظاہرا طویل مدت تک اصفہان میں قیام پذیر ہونے کے وجہ سے اصفہانی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ اس کا برعکس بھی صحیح ہے جیسا کہ امام ہادیؑ کے ایک صحابی علی بن محمد کاشانی کاشانی کے لقب سے معروف ہوئے اگرچہ انکا تعلق اصفہان سے تھا؛ نیز ایک روایت میں عبد الرحمن نامی شخص کا ذکر آیا ہے جن کا تعلق اصفہان سے تھا۔ وہ سامرا میں امام ہادیؑ کی ایک کرامت دیکھ کر مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے. ْ ہمدان میں امام ہادی علیہ السلام اپنے وکیل کے نام خط پر مشتمل روایت میں آپ اس طرح فرماتے ہیں: میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے تمہاری سفارش کی ہے۔
غالی شیعہ
امام ہادیؑ آئمۂ سابقین علیہم السلام کی روش جاری رکھتے ہوئے غالیوں کے خلاف میدان میں اترے کیونکہ آپؑ کے اصحاب میں بھی بعض غالی شامل تھے.ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:
- علی بن حسکہ: یہ قاسم شعرانی یقطینی کا استاد تھا اوریہ دونوں غالیوں کے بزرگوں اور آئمہؑ کے نفرین اور لعن شدہ اشخاص تھے۔ محمد بن عیسی نے ان دونوں کے متعلق امام حسن عسکری ؑ کو خط میں لکھا: ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو آپ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جنہیں ہم نہ تو رد کر سکتے ہیں چونکہ آپ سے منقول ہیں اور ان میں ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قبول بھی نہیں کر سکتے۔ وہ "ان الصلاة تنہی عن الفحشاء و المنکر…”میں کہتے ہیں۔ ان سے شخص (امام حسن عسکری) مراد ہے کوئی رکوع و سجود مراد نہیں ہے اسی طرح فرائض و سنن کی وہ تاویل کرتے ہیں….امام نے جواب میں لکھا۔ یہ ہمارا دین نہیں ہے تم ان سے دوری اختیار کرو۔
- حسن بن محمد بن بابا قمی اور محمد بن موسی شریقی: یہ علی بن حسکہ کے شاگرد تھے۔ جو لوگ امام ہادیؑ کے لعن کا مصداق قرار پائے۔ امامؑ نے ایک خط کے ضمن میں ابن بابا قمی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے بھیجا ہے اور وہ میرا باب ہے۔ پھر فرمایا: اے محمد!اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو پتھر سے اسکا سر کچل ڈالو۔
- محمد بن نصیر نمیری: یہ بھی غالیوں میں سے ہے۔ امام حسن عسکری ؑ نے اس پر لعن کی تھی۔ ایک فرقہ محمد بن نصیر نمیری کی نبوت کا قائل تھا کیونکہ نمیری نے ادعا کیا تھا کہ امام حسن عسکری ؑ نے اسے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ کے بارے میں خدائی کا دعویدار تھا۔ تناسخ کا قائل تھا، محارم سے نکاح نیز مرد کا مرد سے نکاح جائز ہے و ….محمد موسی بن حسن بن فرات بھی اس کی پشت پناہی کرتا تھا. محمد بن نصیر کے پیروکار، جو نُصَیری کہلائے۔ نصیری مشہور ترین غالی فرقے کا نام ہے جو خود کئی فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔
- فارس بن حاتم قزوینی: امام ہادیؑ نے حکم دیا کہ فارس بن حاتم کو جھٹلایا جائے اور اس کی ہتک کی جائے۔ جب علی بن جعفر اور فارس بن حاتم کے درمیان جھگڑا واقع ہوا تو آپؑ نے علی بن جعفر کی حمایت کی اور ابن حاتم کو رد کر دیا۔ نیز آپؑ نے ابن حاتم کے قتل کا حکم جاری کیا اور اس کے قاتل کے لئے اخروی سعادت اور جنت کی ضمانت دی۔ بالآخر جنید نامی شیعہ فرد نے امامؑ سے بالمشافہہ اجازت حاصل کرکے ابن حاتم کو ہلاک کر دیا۔
- حسین بن عبید اللہ محرر: یہ امام ہادیؑ کے اصحاب میں تھا۔.اس پر غلو کا الزام تھا۔ قمیوں کی جماعت نے غلو کے ملزمین کے ہمراہ اسے قم سے باہر نکال دیا۔.
- دیگر غالیوں میں سے احمد بن محمد سیاری تھا جو اصحاب امام ہادیؑ کے زمرے میں شمار ہوتا تھا ـ ، جس کو بہت سے علمائے رجال نے غالی اور فاسد المذہب قرار دیا ہے. اس شخص کی کتاب القرأت ان لوگوں کے حوالہ جات کا ماخذ ہے جو تحریف قرآن کے حوالے سے اس سے استناد و استدلال کرتے ہیں۔
- اس دور کے دیگر غالیوں میں عباس بن صدقہ، ابو العباس طرنانی (طبرانی)، ابو عبداللہ کندی المعروف بہ شاہ رئیس تھے جو غلات کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔
امام کی شہادت
معتمد عباسی نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کیا لوگ آپؑ کے جنازے میں اپنے چہرے اور رخساروں کو پیٹ رہے تھے. انہوں نے امامؑ کے جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر گھر سے باہر نکالا اور "موسی بن بغا” کے گھر کے سامنے قرار دیا. معتمد نے انہیں دیکھا تو فیصلہ کیا کہ امامؑ کے جنازے کی نماز پڑھائے. چنانچہ اس نے حکم دیا کہ جنازہ زمین پر رکھا جائے اور اس نے نماز پڑھائی اگرچہ امام حسن عسکری علیہ السلام قبل ازاں شیعیان سامرا کے ہمراہ آپؑ کی نماز جنازہ ادا کرچکے تھے. اس کے بعد امامؑ کو اس گھر میں دفنا دیا گیا جہاں آپؑ کو کچھ عرصے سے قید رکھا گیا تھا. روایت ہے کہ امامؑ کے جنازے میں عوام کی بھیڑ اس قدر زيادہ تھی کہ امام عسکریؑ کے لئے ان کے درمیان حرکت کرنا مشکل ہورہا تھا. حتی کہ ایک نوجوان ایک گھوڑا امام کے پاس لایا اور لوگ گھر تک آپ کے ساتھ چلے.
شاگرد اور اصحاب
مفصل مضمون: اصحاب امام ہادیؑ
شیخ طوسی نے مرقوم کیا ہے کہ دسویں امامؑ کے شاگردوں اور آپؑ سے روایت کرنے والے اصحاب کی تعداد 185 تک پہنچتی ہے. امامؑ کے بعض معروف و مشہور اصحاب کے نام حسب ذیل ہیں:
عبدالعظیم حسنی
مفصل مضمون: عبدالعظیم حسنی
عبدالعظیم حسنی ـ جن کا سلسلۂ نسب امام حسنؑ تک پہنچتا ہے ـ شیخ طوسی کے مطابق امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں گوکہ بعض دیگر مآخذ میں ان کو امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے.
"عبدالعظیم” ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ اور امام دہمؑ کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں. "ابو حماد رازی” کہتے ہیں: میں سامرا میں امام ہادیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ سے بعض مسائل اور حلال اور حرام کے بارے میں بعض سوالات پوچھے. وداع کا وقت آیا تو امامؑ نے فرمایا: اے حماد! جب بھی تمہیں اپنے منطقۂ سکونت میں دین کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھو اور میرا سلام انہیں پہنچا دو.
عثمان بن سعید
مفصل مضمون: عثمان بن سعید
عثمان بن سعید نے صرف گیارہ سال کی عمر میں امام ہادیؑ کی حدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی کہ امامؑ نے انہیں اپنا "ثقہ” اور "امین” قرار دیا.
ایوب بن نوح
مفصل مضمون: ایوب بن نوح
ایوب بن نوح امین اور قابل اعتماد انسان تھے اور عبادت اور تقوی میں اعلی رتبے کے مالک تھے یہاں تک کہ علمائے رجال انہیں اللہ کے صالح بندوں کے زمرے میں قرار دیتے تھے. وہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے وکیل تھے اور انھوں نے امام ہادیؑ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں.
حسن بن راشد
مفصل مضمون: حسن بن راشد
حسن بن راشد ـ جن کی کنیت ابو علی ہے ـ امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں اور ان دو بزرگواروں کے نزدیک اعلی منزلت کے مالک تھے۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ وہ نمایاں فقہاء اور ان رتبۂ اول کی شخصیات میں سے ہیں جن سے حلال و حرام اخذ کیا جاتا ہے اور ان کی مذمت اور ان پر طعن کا امکان نہیں پایا جاتا۔
شیخ طوسی نے بھی آئمہؑ کے ممدوح اصحاب اور سفراء کے بارے میں بحث کرتے ہوئے حسن بن راشد کا نام امام ہادیؑ کے اصحاب کے ضمن میں بیان کیا ہے اور امام ہادیؑ کی طرف سے انہیں ارسال کردہ مکاتیب و خطوط کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حسن بن علی ناصر
مفصل مضمون: حسن بن علی ناصر
شیخ طوسی نے انہیں امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے. وہ سید مرتضی علم الہدی کے نانا ہیں. سید مرتضی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علم، فقہ اور زہد و پارسائی میں اس کی مرتبت اور برتری سورج سے زیادہ روشن ہے. وہی ہیں جنہوں نے "دیلم” میں اسلام کی ترویج کی. یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں نے ان کی برکت سے گمراہی سے نجات پائی اور ان کی دعا سے حق کی طرف پلٹ آئے. ان کی پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق حد و حساب سے باہر ہیں.
امام ہادیؑ کی حدیثیں
امام ہادی علیہ السلام سے مروی 12 حدیثیں:
| عنوان | حدیث |
|---|---|
| قم اور آبہ کے لوگ | "أهْلُ قُمْ وَأهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ، لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىّ ابْنِ مُوسَى الرِّضا عليه السلام بِطُوس، ألا وَمَنْ زارَهُ فَأصابَهُ فى طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حُرَِّمَ جَسَدُهُ عَلَى النّار”. ترجمہ: "قم اور آبہ کے لوگوں کی مغفرت ہوچکی ہے کیونکہ وہ طوس میں میرے جد بزرگوار حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کی زیارت کو جاتے ہیں. جان لو کہ جو بھی ان کی زیارت کرے اور راستے میں اس کے اوپر آسمان سے ایک قطرہ پڑجائے (اور کسی مشکل سے دوچار ہوجائے) اس کا جسم آتش جہنم پر حرام ہو جاتا ہے”. |
| قرآن سدا بہار | "عَنْ يَعْقُوبِ بْنِ السِّكيتْ، قالَ: سَألْتُ أبَاالْحَسَنِ الْهادي عليه السلام: ما بالُ الْقُرْآنِ لا يَزْدادُ عَلَى النَّشْرِ وَالدَّرْسِ إلاّ غَضاضَة؟ قالَ ؑ: إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَجْعَلْهُ لِزَمان دُونَ زَمان، وَلالِناس دُونَ ناس، فَهُوَ فى كُلِّ زَمان جَديدٌ وَعِنْدَ كُلِّ قَوْم غَضٌّ إلى يَوْمِ الْقِيامَةِ”. "یعقوب ابن سکیت کہتے ہیں کہ میں نے امام ہادیؑ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید نشر و اشاعت اور درس و بحث سے مزید تر و تازہ ہوجاتا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے کسی خاص زمانے اور خاص افراد کے لئے مخصوص نہیں کیا ہے پس وہ ہر زمانے میں نیا اور قیامت تک ہر قوم و گروہ کے پاس ترو تازہ رہے گا”. |
| غصہ کبھی نہیں! | "الْغَضَبُ عَلى مَنْ لا تَمْلِكُ عَجْزٌ، وَعَلى مَنْ تَمْلِكُ لُؤْمٌ”. "جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے”. |
| اطاعت کرو! | "مَنۡ جَمَعَ لَكَ وُدَّهُ وَرَأیَهُ فَأجۡمَعۡ لَهُ طَاعَتَكَ”. "جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی اطاعت کرو”. |
| جانکنی کو یاد کرو | "اُذكُرْ مَصْرَعَكَ بَيْنَ يَدَىْ أهْلِكَ لا طَبيبٌ يَمْنَعُكَ، وَلا حَبيبٌ يَنْفَعُكَ”. "اپنے گھر والوں کے سامنے (حالت احتضار میں لاچار) پڑے رہنے کو یاد کرو جب نہ طبیب تمہیں (مرنے سے) سے بچا سکتا ہے اور نہ حبیب (دوست) تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے”.. |
| حرام میں برکت نہیں | "إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ لَهُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ كانَ زادَهُ إلَى النّارِ”. "(مال) حرام بڑھتا پھولتا نہیں ہے اور اگر بڑھے اور پھولے بھی تو اس میں (صاحب مال حرام) کے لئے برکت نہیں ہوتی، اگر جو وہ اس مال میں سے انفاق کردے تو اس کا اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا اور اگر (ترکے میں) چھوڑ جائے تو جہنم کی راہ کا توشہ ہے”. |
| دوہری مصیبت | "اَلْمُصيبَةُ لِلصّابِرِ واحِدَةٌ وَ لِلْجازِعِ اِثْنَتان”. "مصیبت صبر كرنے والے كے لئے اکہری (ایك ہی) اور بے صبری کرنے والے كے لئے دوہری ہے”.. |
| خدا کے مقامات | "اِنّ لِلّهِ بِقاعاً يُحِبُّ أنْ يُدْعى فيها فَيَسْتَجيبُ لِمَنْ دَعاهُ، وَالْحيرُ مِنْها”. فرمایا: "خدا کے کچھ (خاص) مقامات ہیں جہاں اسے پکارا جانا پسند ہے لہٰذا جو ان میں خدا کو پکارتا ہے خدا اس کی سن لیتا ہے اور حائر حسینی ؑ ان ہی مفامات میں سے ایک ہے”. |
| جزا اور سزا کا مالک | "اِنّ اللّهَ هُوَ الْمُثيبُ وَالْمُعاقِبُ وَالْمُجازى بِالاَْعْمالِ عاجِلاً وَآجِلاً”. "خدا ہی ثواب و عقاب دینے والا اور اعمال کی جلد یا بدیر جزا و سزا دیتا ہے”. |
| بےآبرو شخص سے ڈرو | "مَنْ هانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ”. "جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ مت سمجھو”. |
| تقیہ اور نماز | "إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار”. "اے داؤد اگر تم یہ کہو کہ (تقیہ کے موقع پر) تقیہ چھوڑنے والا بے نمازی کے مانند ہے تو تم سچے ہو”. |
| بد گمانی کہاں؟ | "اِذَا كانَ زَمانُ العَدلِ فيهِ أَغلَبَ مِنَ الجَورِ فَحَرامٌ أَن یظُنَّ بِاَحَدٍ سُوءً حَتّی یَعلَمَ ذالِكَ مِنهُ واِذَا كانَ زَمانُ الجَورِ أَغلَبَ فیهِ مِنَ العَدلِ فَلَیسَ لِأَحَدٍ أَن یَظُنَّ بِاَحَدٍ خَیراً ما لَم یَعلَم ذالِكَ مِنهُ”. "جب بھی معاشرے میں عدل و انصاف ظلم و ستم پر غلبہ کرے، کسی پر بدگمانی کرنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں یقین تک پہنچے؛ اور جب بھی ظلم و ستم عدل و انصاف پر غالب آجائے تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے بارے میں حسن ظن رکھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرے”.. |
حرم امام ہادیؑ پر حملہ
حالیہ برسوں میں دہشت پسند سلفی و تکفیری ٹولوں نے کئی مرتبہ امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے حرم پر حملے کئے ہیں. سب سے خطرناک حملہ دہشت گردوں نے 22 فروری سنہ 2006 عیسوی کو انجام دیا اور القاعدہ نامی دہشت گرد جماعت نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی؛ دہشت گردی کی اس کاروائی میں 200 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کرکے گنبد کے مرکز اور میناروں کے بعض طلائی گلدستوں کو منہدم کیا گیا.
دو سال بعد مورخہ 13 مارچ سنہ 2008 عیسوی کو امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کا حرم پھر سے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں باقیماندہ گلدستے بھی مکمل طور پر منہدم ہوئے. مورخہ 6 جون سنہ 2014 عیسوی کو بھی داعش نامی ٹولے نے امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کی غرض سے ایک پھر ایک وسیع حملے کا آغاز کیا جو حرم کے محافظین اور عراقی افواج کی زبردست مزاحمت کے نتیجے میں ناکام ہوا.
حرم کی تعمیر نو
حرم کے گنبد اور گلدستوں کی تخریب و ویرانی کے بعد، گنبد کی تعمیر نو کا کام دس کروڑ ڈالر کی لاگت سے شہر قم میں سید جواد شہرستانی کے زیر سرپرستی شروع ہوا۔ اس گنبد کو سونے کی 23 ہزار اینٹوں سے مزین کیا گیا ہے۔
امام ہادیؑ کی ضریح بھی آیت اللہ سید علی سیستانی کے زیر اہتمام تعمیر کی گئی ہے۔ اس ضریح میں 70 کلوگرام سونے، 4500 کلوگرام چاندی، 1100 کلوگرام تانبے و 11 ٹن ساگوان (Teak) کی لکڑی (جو 300 سال تک بادوام رہتی ہے) سے استفادہ کیا گیا اور یہ سارے اخراجات آیت اللہ سید علی سیستانی نے ہی اٹھائے ہیں۔











