رباب بنت امرؤ القیس بن عدی، امام حسین علیہ السلام کی زوجہ، سکینہ و علی اصغر (عبداللہ رضیع) کی مادر ہیں۔ آپ کو اہل علم اور اہل فصاحت و بلاغت کہا گیا ہے۔ رباب واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیروں کے ہمراہ شام کا سفر بھی کیا۔ آپ کی وفات عاشورا کے بعد ہوئی اور اس کی وجہ شدید مصائب کہا گیا ہے۔
نسب
رباب امرؤالقیس عدی کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد شام کے عرب اور نصرانی تھے جو کہ عمر کے دور خلافت میں مسلمان ہوئے۔ رباب کی مادر جن کا نام ہند الہنود اور وہ ربیع بن مسعود بن مصاد بن حصن بن کعب کی بیٹی تھی۔
خصوصیات
سید محسن امین نے کتاب الاغانی سے ہشام کلبی کا قول نقل کیا ہے کہ رباب عورتوں میں فضیلت، خوبصورتی، ادب اور عقل کے لحاظ سے بہترین اور برترین تھیں۔
ازدواج
شیخ مفید امام حسین (ع) کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے رباب کا ذکر امام(ع) کی زوجہ کے نام سے کرتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق امرؤالقیس حضرت علی (ع) کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت رکھتا تھا جس کی وجہ سے اپنی ایک بیٹی کا نکاح امیرالمومنین (ع) اور ایک کا امام حسن (ع) اور ایک کا امام حسین (ع) کے ساتھ کیا۔
امام حسین (ع) کی محبت
امام حسین(ع) رباب کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ اور آپ کے بارے میں شعر بھی پڑھتے تھے۔ ایک شعر جو امام (ع) سے منسوب ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں رباب اور سکینہ ہوں مجھے وہ گھر پسند ہے۔ رباب کے بارے میں امام حسین (ع) کے اور اشعار بھی موجود ہیں۔
اولاد
رباب سے امام حسین(ع) کی دو اولاد تھیں۔ ایک سکینہ اور دوسری عبداللہ۔ عبداللہ (علی اصغر) جو نہایت کمسنی میں عاشور کے دن اپنے بابا کی آغوش میں شہادت پر فائز ہوئے۔
واقعہ کربلا کے بعد
بعض قول کے مطابق رباب واقعہ کربلا کے ایک سال بعد تک امام حسین (ع) کی قبر کے پاس کربلا میں ہی رہیں اور پھر مدینہ لوٹ گئیں۔ لیکن شہید قاضی طباطبائی کا قول ہے کہ رباب نے مدینہ میں عزاداری کی نہ کہ کربلا میں اور وہ کہتے ہیں: اگرچہ امام سجاد (ع) بھی اس بات پر راضی نہ ہوتے کہ امام حسین (ع) کی زوجہ اکیلی کربلا میں رہیں اس کے علاوہ خود آپ کی شخصیت بھی ایسی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں: کوئی بھی یقینی طور پر یوں نہیں کہتا کہ یہ معظمہ خاتون پورا ایک سال امام (ع) کی قبر پر رہیں ہیں، ابن اثیر نے بھی اپنے قول کا کوئی قائل ذکر نہیں کیا، اس لئے پہلا قول کہ آپ شہادت کے بعد پورا سال قبر کے پاس رہیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں، ضعیف قول ہے۔ ابن کثیر نے بھی کچھ اشعار آپکی زبانی بیان کئے ہیں:
|
مدینے میں قریش کی بزرگ شخصیات نے آپ کا رشتہ مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کسی کے ساتھ شادی کے لئے حاضر نہ ہوئیں۔ آپ فرماتی تھیں: میں اس بات پر راضی نہیں کہ پیغمبر(ص) کے بعد کوئی اور میرا سسر ہو۔ مصقلہ الطحان نے امام صادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: جب حسین (ع) شہید ہو گئے تو آپ کی زوجہ رباب آپ کے لئے مجلس بپا کرتی خود بھی روتی اور آپ کی خدمت کرنے والی بھی گریہ کرتیں یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔ اس وقت اپنی ایک کنیز کو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس کو بلا کو سوال کیا: کیا وجہ ہے کہ ہم سب کے درمیان صرف تمہارے آنسو خشک نہیں ہوئے؟ اس نے کہا: میں سویق کا شربت پیتی ہوں آپ نے بھی حکم دیا کہ سویق کا شربت منگوایا جائے اور وہی شربت پیا اور اس کے بعد کہا کہ یہ شربت پی کر حسین (ع) پر رونے کی طاقت پیدا کروں گی۔
وفات
ابن کثیر لکھتا ہے: رباب واقعہ کربلا کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہیں اور اس ایک سال میں درخت کے سائے میں نہ بیھٹیں اور شدید غم و اندوہ کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔ سید محسن امین نے آپ کا سنہ وفات سنہ 62 ہجری (یعنی عاشورا کے ایک سال بعد) لکھا ہے۔
سکینہ بنت الحسین واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئیں۔ آپ نے اپنے والد سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھیں اور حضرت امام حسینؑ کے لئے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔
آپ کی شادی اور جہاں وفات پائی ہیں اس جگہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ اسی طرح بعض شیعہ فقہاء نے آپ کی مصعب بن زبیر سے شادی کو دلیل بنا کر شیعہ عورتوں کا دیگر مسلمانوں سے شادی کرنا جائز قرار دیا ہے۔ بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائی گئی الزام قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔
آپ کی شادی کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ نے آپ کی شادی آپ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن سے کی لیکن؛ لیکن شیخ مفید نے عبد اللہ بن حسن کو واقعہ کربلا میں ایک نابالغ اور شادی کی عمر تک نہ پہنچا ہوا بچہ کے طور پر بیان کیا ہے۔
جبکہ بعض مآخذ سکینہ کے شوہر کا نام ابو بکر (عبد اللہ) بن حسن لکھتے ہیں۔ اور انہی منابع کے مطابق گویا ابوبکر، عبداللہ بن حسن کی کنیت تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ سکینہ کی شادی عبد اللہ بن حسن سے ہوئی لیکن شب زفاف سے پہلے ہی عبد اللہ بن حسن کربلا میں شہید ہو گئے۔ ریاحین الشریعہ میں آپ کا شوہر عبداللہ بن مسلم بن عقیل لکھا گیا ہے۔
بعض مآخذ میں مصعب بن زبیر کا نام ذکر ہوا ہے۔ کتاب الطبقات الکبری و الاعلام میں آیا ہے کہ مصعب قتل ہونے کے بعد سکینہ نے عبداللہ بن عثمان سے شادی کی اور عبداللہ مرنے کے بعد زید بن عمر بن عثمان بن عفان نے ان سے شادی کی۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سکینہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کی ہے۔ بعض شیعہ فقہاء نے سکینہ کی مصعب سے شادی یہ استفادہ کیا ہے کہ شیعہ لڑکی غیر شیعہ مسلمانوں سے شادی کر سکتی ہیں۔
اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ سے جو بہت ساری شادیوں کی نسبت دی ہے انہیں بعض مورخین نے رد کیا ہے؛ کیونکہ ان میں سے بعض ایسے افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں جو اہل بیت کے دشمن تھے اور ایسے شخص سے سکینہ کا شادی کرنا بعید ہے۔ ان کتابوں میں آیا ہے کہ سکینہ نے عبداللہ بن حسن سے شادی کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی ہے۔ اسی طرح سکینہ کی متعدد شادیوں کے بارے میں کہا ہے کہ صدرِ اسلام میں یہ رسم تھی کہ شوہر مرنے کے بعد عورتیں بغیر شوہر کے نہیں رہتی تھیں اور دوبارہ سے شادی کرنا ایک فطری اور عام سی بات تھی۔ بعض نے سکینہ کا حسب ونسب اور سماجی حیثیت کو متعدد شادیوں کی علت قرار دیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ کی بیٹیوں کے شوہر وفات ہونے کے بعد بنی امیہ کے حکمران ان کا رشتہ مانگتے تھے اور دشمنِ اہل بیت کا رشتہ ٹھکرانے کے لئے کسی اور سے شادی کرتی تھیں۔
کربلا میں موجودگی
مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، امام حسین (ع) میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں آپ نے ان سے صبر کرنے کو کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کئے اور یہ اشعار پڑھے:
|
|
|
-
- ترجمہ: اے سکینہ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہوگا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لئے شایستہ ہے۔
اسیری کے ایام
واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلامؐ سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچا تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی؛ اس نے اپنے کو سکینہ بنت الحسین سے معرفی کیا اور مجھے کسی خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تاکہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کیا۔ بعض منابع میں سکینہ سے دمشق ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرمؐ بعض دیگر انبیاءؑ کے ہمراہ اور فاطمہ زہراؑ کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسینؑ کا خونی قمیص ہاتھ میں لئے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔
سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات
حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق اور بزرگ خاتون شمار کی جاتی ہے۔ فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسینؑ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے
سکینہ کی سخاوت کا بھی بعض تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی علی ابن الحسینؑ کے حج کے پورے اخراجات آپ نے دیئے۔
احادیث اور رجال کی کتابوں میں انہیں موثق راوی کے طور پر جانا گیا ہے، کوفہ والے آپ سے روایت نقل کرتے تھے۔ سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں ان کے والد گرامی امام حسینؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔ اور عبیداللہ بن ابیارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل بن ابی خالد اور سکینہ دختر قاضی ابیذر نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قابل میں اور امام حسینؑ کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:
|
|
|
|
-
- ترجمہ: جو راستے سے بھٹک گیا ہے اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسینؑ کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجادؑ کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بدترین لوگ، حرام زادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بدترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اس قتل کیا ہے۔
عربی ادب پر آپ کو اتنا تسلط حاصل تھا کہ عربی معروف شاعر فرزدق، جریر، کثیر، نصیب اور جمیل اپنے اشعار کو پرکھنے کے لیے آپ کے پاس لے آتے تھے تاکہ اصلاح ہوسکے۔
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسینؑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسب دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔ ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے کہ سکینہ غزل اور اشعار پڑھتی تھی۔
ابوالفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر بن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔ اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسور کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر بن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علما بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر بن ابی ربیعہ سے ملاقاتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے تھے۔ اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہیں وہ بھی حقیقت میں مصعب بن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ بن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں جو عمر بن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔
وفات
آپ اسراء کے کاروان کے ساتھ مدینے لوٹ آئی اور وفات تک مدینے میں رہی، تاریخی منابع میں اس بارے کوئی خاص بات ذکر نہیں صرف بعض علمی مناظروں کا ذکر آیا ہے۔ آپ کی وفات اور مقام وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق 5 ربیع الاول 117 ھ کو مدینہ میں وفات پائی۔ کے زمانے میں جبکہ دوسری نقل کے مطابق خالد بن عبد الملک بعض منابع کے مطابق خالد بن عبد اللہ (وقت کے حاکم) نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبد العزیز سے شادی کے بعد مصر جاتے ہوئے دمشق میں فوت ہوئیں اس لحاظ سے باب الصغیر نامی قبرستان میں ایک قبر سکینہ کے نام سے منسوب ہے ۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کر کے مصر گئی اور وہاں پر مدفون ہیں اور قاہرہ میں ایک مزار سکینہ بنت الحسین کے نام سے منسوب ہے۔
آپ کے بارے میں تالیفات
آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں مختلف کتابوں میں مطالب لکھے گئے ہیں اور مستقل کتاب کی شکل میں عربی زیان میں «سکینہ بنت الامامالحسین (ع)» بقلم علی محمد علی دخیل، انتشارات موسسہ اہل البیت (ع) سے 1979ء کو بیروت لبنان سے چھپی۔ اور اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے 1363 ش میں طبع ہوئے ہیں۔
کوہ ثَور مکہ کا مشہور پہاڑ ہے۔ اس کی وجۂ شہرت اس میں واقع وہ غار ہے جہاں ہجرت کے موقع پر لیلۃ المبیت کو رسول اللہؐ نے مشرکین سے بچنے کے لئے پناہ لی۔ مشرکین غار کے دہانے تک آئے مگر اللہ کی غیبی امداد کے بدولت آپؐ کو نہ پاسکے۔
کوہ ثور
کوہ ثور مکہ اور مسجد الحرام کے جنوب میں، یمن کے راستے میں واقع ہے۔
بعض مؤلفین نے اس کو "جبل اطخل” یا "ثور اطخل” کا نام دیا ہے، جبکہ دوسروں نے اس پہاڑ کو "ابو ثور” کا نام دیا ہے جو صحیح نظر نہیں آتا۔ بعید از قیاس نہیں ہے کہ اس پہاڑ کو ثور [بمعنی بیل] کا نام اس وجہ سے ہو کہ اس کی ہیئت ایک بیل کی سی ہے جس نے مکہ کے جنوب کی طرف رخ کیا ہے۔
قدیم الایام میں لوگ دو کوہستانی راستوں سے کوہ ثور کی طرف جاتے تھے جن میں سے ایک راستہ دشوارگزار مگر مختصر جبکہ دوسرا آسان مگر طویل تھا۔ مکہ سے کوہ ثور تک کی مسافت راستے کے انتخاب پر منحصر تھی؛ اسی بنا پر اس راستے کو اختلاف کے ساتھ ایک فرسخ، دو یا تین میل، اور مکہ سے دو گھنٹوں کا راستہ بیان کیا گیا ہے۔ آج مسجد الحرام سے کوہ ثور کا راستہ تین سے چار کلومیٹر ہے۔
غار ثور
غار ثور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے اور یہاں سے اطراف کی پہاڑوں کی نگرانی کی جاسکی ہے۔ ایک کھوکھلی چٹان یا پتھر کی مانند ہے اور الٹی کشتی سے مشابہت رکھتی ہے۔ زمین سے اس کی اونچائی 500 میٹر سے کچھ اوپر ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ بہت دشوار ہے جس کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
غار ثور میں داخلے کے لئے دو راستے یا دراڑیں ہیں، ایک مغرب کی جانب ہے جو بہت تنگ ہے اور تقریبا غار کے فرش سے چسپاں ہے اور دوسرا مشرقی راستہ ہے جو کسی حد تک چوڑا ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ یہ راستہ رسول اللہؐ کے داخلے کے بعد اعجاز الہی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے۔
غار کی لمبائی 18 بالشت (Span)، اور درمیانی حصے کی چوڑائی 11 بالشت ہے۔ غار کی اندرونی اونچائی ایک انسان کے قد کے برابر اور پوری غار کا اندرونی رقبہ اڑھائی میٹر مربع ہے۔
کچھ مؤرخین کے نزدیک غار ثور ـ جہاں رسول اللہؐ نے پناہ لی تھی ـ غار حراء کے ساتھ ـ جہاں رسول اللہؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی ـ مشتبہ ہوئی ہے۔
رسول خداؐ کا غار ثور میں پناہ لینا
خداوند متعال نے پیغمبرؐ کو مشرکین کی طرف سے قتل کی سازش سے آگاہ فرمایا تو طے پایا کہ علیؑ آپؐ کے بستر پر لیٹیں اور آپؐ خود رات کے وقت مکہ کو يثرب کی جانب، چھوڑ دیں۔ (دیکھئے: لیلۃ المبیت)۔ رسول خداؐ مشرکین مکہ کی دسترس سے نکلنے کے لئے ـ جو آپؐ کی تلاش میں تھے ـ ابوبکر کو ساتھ لے کر غار ثور میں روپوش ہوئے اور تین دن اور تین رات وہیں مقیم رہے۔ قرآن کریم نے بھی مشرکین کی سازش، پیغمبراکرمؐ کے مکہ میں اپنے گھر سے نکلنے اور جبل ثور میں واقع اس غار میں پناہ لینے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اعجاز الٰہی
اس غار میں رسول اللہؐ کے مقیم ہوجانے کے بموجب متعدد معجزات رونما ہوئے، جیسے غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا بنا جانا، دو جنگلی (وحشی) کبوتروں کا گھونسلا بنانا، اور ایک قول کی بنا پر رسول خداؐ کے سامنے ایک درخت کا اگ جانا۔
مشرکین رسول خداؐ کی تلاش میں غار ثور کے دہانے تک بھی آئے مگر خداوند متعال نے انہیں داخلے سے باز رکھا؛ اس طرح کہ قریشیوں نے دہانے پر مکڑی کے جالے اور گھونسلے میں کبوتر کے اںڈوں کو دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ غار متروک اور خالی ہے اور اس میں کوئی داخل نہیں ہوا کیونکہ کسی کے آنے کی صورت میں جالا پھٹ جاتا اور کبوتر کے انڈے ٹوٹ جاتے اور کبوتر بھی وہاں نہ بیٹھا رہتا۔
غار ثور سے لوگوں کا تبرک حاصل کرنا
کوہ ثور، رسول اللہؐ کے تین روزہ قیام سے اب تک مسلمانوں کے نزدیک مبارک اور بابرکت سمجھا جاتا ہے اور اسی وقت سے سے حجاج کرام کی زیارت گاہ ہے۔
اس کے باوجود کہ اس غار کے تنگ دہانے سے اندر داخل ہونا بہت دشوار ہے جس میں رسول اللہؐ داخل ہوئے تھے، غار جانے والے لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ تبرک کے حصول کے لئے اس میں داخل ہوجائیں، اور اس طرح کئی لوگ شگاف کی تنگی کی وجہ سے اس میں پھنس کر محبوس ہو جاتے تھے۔ عوام کے درمیان غار ثور کی شگاف سے داخلے میں ناکام ہونے والے افراد کے بارے میں ایک نہایت بھونڈی اور نامعقول افواہ پھیلی ہوئی تھی۔ ابن جبیر لکھتے ہیں: "زیادہ تر غار کے تنگ دہانے کی وجہ سے اس میں داخلے سے پرہیز کرتے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جو وہاں سے داخل نہ ہوسکے، وہ حلال زادہ نہیں ہے”۔
سنہ 800 اور بقول دیگر 810ھ ق کو، حاکم وقت نے غار کا دہانہ وسیع کرنے کا اہتمام کیا تا کہ لوگ اس میں محبوس نہ ہوں۔ بعد کے زمانے میں، حاکم مکہ نے غار کے دہانے کو وسیع تر کردیا۔ آج کے زمانے میں دہانے کی اونچائی نیز غار کی چوڑائی تقریبا نصف میٹر ہے۔
توابین کا قیام واقعہ عاشورا کے بعد شیعوں کی پہلی تحریک تھی جو امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے قاتلوں سے انتقام لینے کی غرض سے چلائی گئی تھی۔ یہ تحریک سنہ ۶۵ ھ.ق میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کی توسط سے شام کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی غرض سے عین الوردہ نامی جگہ پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں عمل میں آئی۔
قیام کی وجہ
واقعہ عاشورا اور امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت کے بعد شیعوں میں سے وہ حضرات جنہوں نے آپؑ کو بیعت کا وعدہ دے کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی لیکن بعد میں وعدہ خلافی کرتے ہوئے آپؑ کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا، اپنے کئے پر پشیمان ہوکر اپنے گناہ سے توبہ اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی ٹھان لی۔ متعدد نشست وبرخاست کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ذلت اور خواری کا یہ بدنما داغ ان کے دامن سے سوائے آپؑ کی راہ میں جان نچھاور کرنے اور آپؑ کے دشمنوں سے انتقام لئے بغیر پاک نہیں ہو سکتا۔
قیام کے خدوخال
واقعہ کربلا کے کچھ عرصے بعد کوفہ کے شیعہ شخصیات میں سے تقریبا 300 افراد سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوگئے۔ سلیمان نے اس جلسے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 54 کی روشنی میں حضرت موسیؑ کی قوم کے توبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت علیہم السلام کی حمایت کرنے کا وعدہ دیا تھا لیکن ہم نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا یہاں تک کہ فرزند زہرا(س) اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے۔ اب خدا ہم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوگا جب تک ہم ان کے دشمنوں سے جنگ نہ کریں، پس اپنی تلواروں کو تیز کریں اور گھوڑے اور جنگی سازوسامان فراہم کریں انشاء اللہ عنقریب تمہیں بھلایا جائے گا۔
سلیمان کے بعد دیگر شیعہ بزرگان اور امام علیؑ کے اصحاب منجملہ مسیب بن نجبۃ فزاری، رفاعۃ بن شداد بجلی، عبداللہ بن وال تمیمی و عبداللہ بن سعد ازدی نے بھی تقریریں کیں اور آخر کا سلیمان بن صرد خزاعی کو قیادت کیلئے انتخاب کیا گیا۔
قیام کے اہداف
توابین کے جلسات اور انکی تقریروں پر غور و فکر کرنے سے اس قیام کے درج ذیل اہداف سامنے آتے ہیں:
- امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لینا۔
- حکومت کو پیغمبر اکرمؐ کی آل کی طرف پلٹانا۔
فوج کی تشکیل
سنہ 61 ھ.ق میں اس تحریک کے بارے میں سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں توابین کے مخفی طور پر ہفتہ وار جلسات منعقد ہوتے تھے جن میں فوج کی تشکیل سے لے کر قیام کی تاریخ تک پر بحث ہوتی تھی۔ اسی تناظر میں کوفہ کے اندر اور کوفہ سے باہر مختلف قبائل میں اسلحہ اور افرادی قوت نیز جنگی مقدمات کی فراہمی کیلئے مخفی طور پر اقدامات انجام پاتے تھے۔
اس قیام کے لئے فوج تشکیل دینے کی خاطر سلیمان بن صرد خزاعی نے سنہ ۶۴ ھ.ق کو مدائن میں شیعہ رہنما سعد بن حذیفہ اور مثنی بن مخرمہ عبدی جو کہ بصرہ کے شیعہ شخصیات میں سے تھے، کی طرف خطوط لکھے اور انہیں اس قیام کی طرف دعوت دی۔ مداین اور بصرہ کے شیعوں نے بھی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس قیام میں شریک ہونے کی حامی بھر لی۔
قیام کا آغاز
سلیمان بن صرد خزاعی نے ربیع الاول سنہ ۶۵ ھ.ق کو قیام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ بہت سارے افراد نے ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی لیکن آخر کار 4000 افراد نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچایا جہاں توابین کی فوج جمع ہوتی تھے۔
تاریخی شواہد کے مطابق مختار ثقفی سلیمان کی سیاسی اور نظامی سوج بھوج کا قائل نہیں تھا اسی بنا پر شیعوں کی بڑی تعداد سلیمان کی فوج سے جدا ہوگئی۔
توابین کے لشکر ۵ ربیع الاول کو مقررہ مقام سے دمشق کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب یہ لشکر کربلا پہنچے تو اپنی سواریوں سے اتر کر اپنے آپ کو امام حسینؑ کی قبر مطہر پر گرا دیا اور ایک پر جوش فوج کی شکل اختیار کر لی۔ سلیمان نے اس موقع پر کہا: خدایا تو گواہ رہنا ہم حسینؑ کے ماننے والے، انکی راہ پر چلنے والے اور ان کے قاتلوں کے دشمن ہیں۔ توابین نے بھی امام حسین کی راہ میں شہادت نصیب ہونے کی دعا کی۔
جنگ کا آغاز
توابین نے شام کی فوج پہونچنے سے پہلے عین الوردہ نامی جگہ پر پڑاؤ ڈال دیا اور وہاں پر 5 دن آرام کیا۔ جنگ کی ابتداء میں سلیمان نے جنگی سفارشات کے ساتھ اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس موقع پر حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: اگر میں مارا جاؤں تو لکشر کی قیادت "مسیب بن نجبہ” سنبھالے گا اور اس کے بعد عبداللہ بن سعد بن نفیل لشکر کی قیادت کرینگے ان کے قتل ہونے کے بعد عبداللہ بن وال اور رفاعہ بن شداد لشکر کی قیادت سنبھالیں گے۔ ۲۵ جمادی الاول کو دونوں لشکر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے اور توابین اور شام کے لشکر کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ لشکر شام کی قیادت عبیداللہ بن زیاد کررہے تھے اور حصین بن نمیر، شرحبيل بن ذی الكلاع حميری، ادہم بن محرز باہلى، ربيعۃ بن مخارق عنوى اور جبلۃ بن عبد اللہ خثعمى اس کے ہمراہ تھے۔
جنگ کا انجام
چار دن کے مقابلے کے بعد توابین کی اکثریت شہید ہو گئی اور باقی افراد بھی دشمن کے نرغے میں آگئے۔ توابین کے سپہ سالار ایک کے بعد ایک شہید ہوتے گئے اور بچے کچے چند افراد "رفاعہ بن شداد بجلی” کی قیادت میں عقب نشینی پر مجبور ہوگئے۔ واپس جاتے ہوئے بصرہ اور مدائن کے شیعوں سے ان کی ملاقات ہوئی جو ان کی مدد کیلئے آرہے تھے جب ان کو حقیقت کا پتہ چلا تو اظہار افسوس کے بعد اپنے اپنے وطن کی طرف واپس پلٹ گئے۔ توابین شکست کے بعد جب کوفہ پہنچے تو مختار ثقفینے جوکہ اس وقت جیل میں بند تھے سلیمان اور دیگر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ عہد کیا کہ توابین اور امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ضرور قیام کریں گے۔
سید حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ ظاہرا توابین نے بنی امیہ کی فوج سے شکست کھائی لیکن شیعوں کا ایک منظم گروہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور چونکہ ان کا قیام خالصۃ شیعہ عقاید کی پاسبانی کرتا تھا اور امام حسینؑ کی شہادت سے متاثر ہوکر یہ قیام عمل میں آیا تھا اس لئے یہ قیام اہل تشیع کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنا۔











