صدقہ، اس مال کو کہتے ہیں جو راہ خدا میں دیا جائے۔ دین اسلام میں جس طرح رزق و روزی حاصل کرنے کے لئے ہر طریقہ صحیح نہیں ہے اسی طرح سے اس مال کو ہر راہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلام میں مال استعمال کرنے کا ایک بہترین راستہ، خدا کی راہ میں صدقہ دینا ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، صدقہ واجب اور مستحب دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اسی طرح اس کے استعمال کے شرائط بھی بیان کئے گئے ہیں۔ روایات کے مطابق، صدقہ دینے سے نہ صرف یہ کہ انسان کے مال و اموال کم نہیں ہوتے، بلکہ یہ مال میں زیادتی اور برکت کا باعث بنتا ہے۔
صدقے کا معنی
صدقہ ایسی چیز ہے جسے انسان قربۃً الی اااللہ کی نیت سے (خداوند کے نزدیک ہونے کے لئے) اپنے مال سے نکالتا ہے، جیسے زکات، لیکن لفظ (صدقہ) کو مستحب صدقہ کے لئے اور (زکات) واجب صدقہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. خدا کی راہ میں مال دینے کو (تصدق) اور جو مال دیا گیا ہے اس کو (صدقہ) کہا جاتا ہے۔
صدقے کی اہمیت
سورہ توبہ کی آیت 104 میں یوں آیا ہے، خداوند خود صدقے کو لیتا ہے: أَلَمْ یعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ﴿۱۰۴﴾ ترجمہ: کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور زکات و خیرات کو وصول کرتا ہے اور وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔(104) تفسیر نمونہ میں اس آیت کے ذیل کے اس طرح آیا ہے: یہ تعبیر، اس اسلامی حکم کی عظمت کو مجسم کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس الہی فریضہ میں رغبت دلانے کے علاوہ، یہ بھی سکھا رہی ہے کہ زکات اور صدقات کو نہایت ادب واحترام سے خرچ کریں، کیونکہ اس کا لینے والا خود خداوند ہے. اسی طرح ایک روایت میں امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: إنَّ الصَّدَقَة لاتَقَع فی یدِ العَبدِ حتّی تَقَعُ فی یدِ الرَّب ترجمہ: صدقہ بندے کے ہاتھ میں قرار نہیں دیا جاتا مگر یہ کہ اس سے پہلے یہ خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے۔
صدقہ کی اقسام
صدقات کی دو اقسام ہیں:
- واجب: صدقے کی اس قسم میں، انسان اپنے اموال کے کچھ حصے کو خاص شرائط کے تحت خاص لوگوں میں تقسیم کرتا ہے. صدقہ واجب جیسے زکات، خمس اور فطرہ۔
- مستحب: اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں انسان جس مقدار میں چاہے اپنے مال کو خدا کی راہ میں فقیروں اور نیاز مندوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔
صدقہ کے شرائط
قرآن کی آیات اور آئمہ معصومین(ع) کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے صدقے کے درج ذیل شرائط ہیں:
- ہر چیز سے پہلے صدقہ پاک اور حلال مال سے نکالنا چاہیے.
- بہتر یہ ہے کہ صدقہ مخفی طور پر دیا جائے.
- صدقہ آزار اور منت کے ساتھ نہ ہو.
- صدقہ دیتے وقت نیت خالص ہونی چاہیے.
- اپنے پسندیدہ اور اچھے مال سے صدقہ دینا چاہیے.
- صدقہ دینے والا ہر گز خود کو اس مال کا حقیقی مالک نہ سمجھے بلکہ خود کو خدا اور اسکی خلق کے درمیان وسیلہ سمجھے.
صدقے کا استعمال
خداوند نے قرآن کی آیات میں صدقہ کے استعمال کے آٹھ مورد بیان کئے ہیں:
- فقرا
- مساکین
- زکات جمع کرنے والے. درحقیقت جو ان کو دیا جاتا ہے وہ انکی اجرت کے طور پر ہوتا ہے.
- مُؤلِفَة قلوبُهُ یعنی جو اسلام کی مدد کرنے کا انگیزہ نہیں رکھتے لیکن مالی لحاظ سے انکی تعریف کر کے انکی محبت کو جلب کیا جا سکتا ہے. غلام کو آزاد کرنا
- ان کے قرض کو ادا کرنا جو بغیر جرم اور قصور کے مقروض ہوں اور قرضہ ادا کرنے سے عاجز ہوں.
- خدا کی راہ میں استعمال کرنا. اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام وہ راہ جس سے دین الہی کی گسترش اور تقویت ہو.
- جو اپنا راستہ بھول گئے (وابن سبیل)، یعنی وہ مسافر جو اپنے راہ سے بھٹک گئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ان کے پاس زاد راہ موجود نہ ہو.
صدقہ دینے کا طریقہ
- قرآن کی نگاہ میں دو ناپسند طریقے:
- خداوند نے صدقہ دینے کے لئے دو طریقوں سے منع کیا ہے:
- صدقہ ریا اور دکھاوے کے لئے ہو۔ اس صورت میں صدقہ ابتداء سے ہی باطل ہے۔
ایسا صدقہ جس کو دینے کے بعد اذیت اور منت کے ذریعے اس کی اہمیت کو ختم کیا جائے۔ ان دو قسم کے صدقے کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رضای خدا کے لئے انجام نہیں دیئے گئے یا اگر بھی خدا کی رضا کے لئے انجام دیئے گئے تھے لیکن اس شخص نے منت لگا کر اور اذیت دے کر اپنی نیت کو ناخالص کر دیا جس کی وجہ سے یہ عمل باطل ہو گیا.
- قرآن کی نگاہ میں اچھے کام:
خداوند نے قرآن میں دو قسم کے صدقے کو بیان کیا ہے اور ان دو قسموں کو درست قرار دیا ہے:
- چھپ کر صدقہ دیںا: اس طرح انسان ریا اور دکھاوے سے دور ہوتا ہے اور فقیر کی عزت بھی محفوظ رہتی ہے اور فقیر اپنی ذلت کا احساس نہیں کرتا۔ جہاں تک کہ دین کی بنیاد اخلاص پر ہے جتنا عمل خالص تر ہو گا، اتنی ہی اس کی فضیلت زیادہ ہو گی اسی لئے خداوند نے بغیر دکھاوے کے صدقہ دینے کو، دکھاوے کے صدقہ پر ترجیع دی ہے اور فرمایا ہے: اگر بغیر دکھاوے کے صدقہ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
- سب کو دکھا کر صدقہ دینا: کہ جو لوگوں کو اس نیک کام کے بجا لانے کی عملی دعوت ہے اور یہ فقرا اور مساکین کی دلگرمی کا باعث ہے کیونکہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انکے حال پر ترحم کرتے ہیں، اور اس کام سے ان کی یاس اور ناامیدی ختم ہوتی ہے۔
آپ یہاں سے اپنا صدقہ گمنامی میں ادا کر سکتے ہیں۔
صدقہ کے مصادیق
صدقہ حقیقی اور حقوقی افراد کی طرف سے تحفہ ہے جو محتاج افراد کو دیا جاتا ہے. صدقہ ممکن ہے نقد رقم، خدمات، استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ اشیاء، کپڑے، کھانے پینے کا سامان، کھلونے یا دوسری انسان دوستانہ مدد، اسی طرح دوسری جسمانی مدد جیسے خون یا بدن کے اعضاء ہدیہ دینا وغیرہ… رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہر اچھائی صدقہ ہے اور ہر وہ چیز جو مومن اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور بیوی کے لئے جمع کرتا ہے اور ہر وہ چیز جس سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے. اور یہ کہ کن چیزوں سے صدقہ دیا جائے، اس بارے میں قرآن کی آیات اور روایات میں یوں آیا ہے: طیبات سے صدقہ دیں، یعنی پاک اور حلال مال جسے انسان نے حلال طریقے سے حاصل کیا ہو، اور کوشش کرے کہ گھٹیا اور پست مال کو صدقے کے لئے استعمال نہ کرے، کیونکہ صدقہ دینے سے خدا کی رضایت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ایک طرف فقیروفقراء، اور دوسری طرف خدا ہے اور اگر مومنین ان نکات کی رعایت نہ کریں، تو ایک طرف خداوند کی توہین اور دوسری طرف فقیروفقراء کی توہین ہے.
صدقہ کی مقدار
صدقہ دیتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، یعنی نہ یہ کہ صدقہ دینے میں کنجوسی اختیار کرے اور نہ یہ کہ صدقہ دے کر اپنے لئے مشکل ایجاد کر لے. صدقہ کی مقدار خود اس شخص کے مطابق ہے، حتی بعض روایات میں ایک چلو پانی بھی صدقہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے.
صدقہ کے آثار و برکات
بہت سی روایات صدقہ کی فضیلت اور برکت کے لئے نقل ہوئی ہیں اور ان کے لئے بہت سے فائدے اور آثار بیان ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
مصیبت اور بری موت سے دوری صدقہ مصیبت اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں: صدقہ انسان سے ستر بلاؤں کو دور کرتا ہے اور نیز بری موت کو انسان سے دور کرتا ہے، کیونکہ صدقہ دینے والا ہرگز بری موت کے ذریعے دنیا سے نہیں جاتا۔
لمبی عمر
پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: صدقہ اور صلہ رحم شہروں کو آباد اور عمروں کو زیادہ کرتا ہے۔
بیماروں کی شفا
صدقہ دینے کی ایک اور برکت بیماروں کی شفا ہے۔ معصومین (ع) کی حدیث میں بیان ہوا ہے: اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ مستحب ہے کہ مریض خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دے۔
فقر کو دور کرتا ہے
امام باقر (ع) فرماتے ہیں: نیکی اور صدقہ فقر کو دور کرتے ہیں۔
صدقہ کے معنوی اثرات
قرآن کریم کی نگاہ میں خدا کی راہ میں صدقہ دینا، ایک سودمند تجارت ہے جس کا انعام بہشت ہے اور جو انسان کو قیامت کی ھولناک سختیوں سے دور کرتا ہے اور دردناک عذاب الہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔
نحوست سے دوری
پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: جب رات گزار کر صبح کرتے ہو، تو صدقہ دو تا کہ اس دن کی نحوست تم سے دور ہو جائیں اور جس وقت دن گزار کر رات کرتے ہو، صدقہ دو تا کہ رات کی نحوست تم سے دور ہو جائیں۔
پل صراط سے گزرنا
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: صراط سے گزرنے کی تلاش تھی اس کو صدقہ میں پایا ہے۔
بہشت کی ضمانت
امام علی (ع) فرماتے ہیں: چھ گروہ کے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں۔ ایک وہ مرد جو کوئی چیز صدقہ دینے کے لئے الگ رکھتا ہے، لیکن مر جاتا ہے، وہ اہل بہشت ہے۔ دوسرے پانچ گروہ درج ذیل ہیں: بیمار کی عیادت کرنے والے، جہاد کرنے والے، حج گزار، نماز جمعہ اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلیں اور گھر واپس آنے سے پہلے فوت ہو جائیں۔
رَدِّ مَظالِم انسان کے ذمے موجود دوسروں کے ناحق اموال کے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک رد مظالم ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق رد مظالم واجب ہے۔
رد مظالم میں مجہول المالک اموال کو مرجع تقلید کی اجازت سے محتاجوں اور فقیروں کو صدقہ دے سکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں خمس، امر بہ معروف، میّت کے احکام، وصیت اور غصب کے ابواب میں رد مظالم سے متعلق بحث کی گئی ہے۔
تعریف
ردّ مظالم سے مراد انسان کے ذمے موجود دوسروں کے اموال اور قرضوں کو ادا کرنا ہے؛ لیکن ان اموال کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
اسداللہ شوشتری (تیرہویں صدی ہجری) لکھتے ہیں: مَظالِم مَظلِمَہ کا جمع ہے جس سے مراد دوسروں کے وہ اموال اور حقوق ہیں جو انسان کے ذمے باقی ہیں؛ مثلا وہ اموال جو غصب یا چوری کے ذریعے انسان کے پاس موجود ہو۔ آیت اللہ مکارم شیرازی ان حرام اموال کو مظالم قرار دیتے ہیں جو انسان کے پاس موجود ہو لیکن ان کے مالک کو نہ پہنچانتے ہو۔
آقا محمد علی کرمانشاہی فرزند وحید بہبہانی کے مطابق مظالم ان اموال اور حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کے اموال سے مخلوط ہو گئے ہوں لیکن نہ ان کی مقدار معلوم ہو اور نہ ان کا مالک۔ آیت اللہ سیستانی مظالم ان اموال کو قرار دیتے ہیں جنہیں انسان نے ظلم کے ساتھ دوسروں سے لیا ہو یا انہیں ضایح کیا ہو؛ چاہے ان کا مالک معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔
آیت اللہ صافی گلپایگانی مظالم کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ مظالم ان اموال کو کہا جاتا ہے جن کی مقدار تو معلوم ہے لیکن ان کا مالک مشخص نہ ہو۔
فقہ اور احادیث میں اس کی اہمیت
شیعہ احادیث میں ردّ مظالم کو توبہ کی قبولیت میں شرائط قرار دیتے ہوئے اسے ترک کرنے کو گناہان کبیرہ اور موجب نزول بلا جانا جاتا ہے۔ حدیثی منابع میں امر بہ معروف اور فقہی کتابوں میں احکام طہارت (احکام میت)، خمس، غصب، وصیت اور امر بہ معروف کے ابواب میں رد مظالم سے بحث کی گئی ہے۔
حکم شرعی
شیعہ فقہاء ردّ مظالم کو خمس اور زکات کی طرح واجب مانتے ہیں۔ بعض فقہاء مانند آیت اللہ فیاض اسے واجب فوری قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اس وقت اسے فورا ادا کرنا واجب ہے۔
طریقہ
مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر انسان کے ذمے دوسروں کا مال ہو چاہے وہ مجہول المالک ہو یا ان کے مالک تک رسائل ممکن نہ ہو، انہیں یا ان کی قیمت (اس صورت میں کہ جب عین مال تلف ہوئی ہو) کو حاکم شرع یا مرجع تقلید کی احازت سے فقیروں کو صدقہ دے دیں۔ بعض فقہاء من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی رد مظالم کو صرف غیر سید کو دینا چاہئے۔
مذکورہ مال کو صدقہ دینے کے بعد اگر اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اس تک رسائل ممکن ہو جائے تو اس صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پابا جاتا ہے۔ امام خمینی کے فتوے کے مطابق احتیاط واجب کی بنا پر اس مال کے برابر اس کے مالک کو بھی دینا واجب ہے؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ آیت اللہ خویی کے مطابق صدقہ دینے کے بعد دوبارہ اس کے مالک کو بھی دینا واجب نہیں ہے۔
مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق رد مظالم میں اگر مال کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مالک کے ساتھ صلح کرنا چاہئے؛ یعنی ایک دوسرے کو راضی کریں؛ لیکن اگر صاحب مال راضی نہ ہو جائے تو اس صورت میں صرف اس مقدار کو دینا کافی ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو۔ البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مقدار سے کچھ اضافہ بھی دے دیا جائے۔
مونوگرافی
آقا محمد علی کرمانشاہی نے "رد مظالم کے مصرف” کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب لکھی ہیں۔
کَفّارہ شریعت کی روی سے ایک قسم کی سزا ہے جو بعض حرام کاموں کے ارتکاب یا واجبات کے ترک کرنے پر متعلقہ شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ کسی غلام یا کنیز کو آزاد کرنا، 60 فقیروں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا، 60 دن روزہ رکھنا(جس کے 31 روزوں کو بغیر کسی فاصلے کے رکھنا واجب ہے) اور گوسفند وغیرہ کی قربانی دینا کفارہ کے اقسام میں سے ہیں۔ بعض وہ امور جن کی انجام دہی کفارہ کا موجب بنتا ہے وہ یہ ہیں: کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا، ماہ رمضان کے روزوں کو عمدا باطل کرنا، عہد، نذر اور قسم کی مخالفت کرنا اور اِحرام کے بعض محرمات۔
کفارہ کی نوعیت انجام شدہ عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ہوتی ہے: بعض امور کے لئے ایک مشخص کفارہ ہے؛ جبکہ بعض امور کے لئے کئی کفارے متعین ہے اور ان میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں مکلف کو اختیار ہے؛ اسی طرح بعض امور کے لئے کئی کفارے بالترتیب معین ہیں جنہیں ترتیب سے انجام دینا ضروری ہے۔ بعض امور کے لئے کفارہ جمع دینا ضروری ہے؛ یعنی کئی کفارے ایک ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔
مفهومشناسی
بعض گناہوں کے ارتکاب اور واجبات کے ترک کرنے پر شریعت میں جو مالی اور بدنی سزائیں مقرر کی گئی ہیں انہیں کفارہ کہا جاتا ہے۔ غالباً کفارہ گناہ کے اخروی سزا میں تخفیف یا اس کے ساقط ہونے کا باعث بنتا ہے۔
کفارہ "کفر” کے مادہ سے ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں؛ پس کفارہ کو کفارہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کفارہ گناہوں سے چشم پوشی اور ان کے عذاب کے محو ہونے کا باعث بنتا ہے۔
بعض اوقات فدیہ پر بھی کفارہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مُد طعام (۷۵۰ گرام گندم وغیرہ) کو روزے کے کفارے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ اصل میں روزے کا فدیہ یعنی جانشین ہے جو کسی بیماری یا جسمانی ناتوانی کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکنے کی بنا پر ادا کی جاتی ہے۔
کفارہ کے اقسام
فقہی منابع کے مطابق کفارہ کے درج ذیل اقسام ہیں:
- غلام یا کنیز کو آزاد کرنا
- 60 فقیروں کو کھانا کھلانا
- دس مسکینوں کو کھانا کھلانا
- دو مہینے روزہ رکھنا
- 3 دن روزہ رکھنا
- گوسفند کی قربانی دینا
- اونٹ کی قربانی دینا
- گائیں یا گوسفند کی قربانی دینا
- ایک مد طعام
- 6 مسکینوں کو کھانا کھلانا
- 10 فقیروں کو کپڑا پہنانا۔
وہ گناہ جن کی انجام دہی کفارہ کا موجب ہے
فقہی منابع کے مطابق بعض گناہوں کی انجام دہی کفارہ کا موجب ہے جس کے بارے میں ظِہار کے باب میں بحث ہوتی ہے؛ البتہ سوائے مُحَرَّمات احرام کے کفارے کے کہ جن کے بارے میں حج کے باب میں بیان کیا جاتا ہے۔
وہ اعمال جن کے انجام دینے پر کفارہ واجب ہوتا وہ اس عمل کی نوعیت اور اسے انجام دینے کی کیفیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے: ان میں سے بعض کی انجام دہی پر ایک خاص کفارہ واجب ہوتا ہے(کفارہ مُعیَّنہ)۔ بعض اعمال کے لئے کئی کفاروں میں سے کسی ایک کے انتخاب میں مذکورہ شخص کو اختیار حاصل ہوتا ہے(کفارہ مُخَیَّرہ)۔ بعض اوقات مختلف کفارے بالترتیب معین ہوتے ہیں جنہیں اسی ترتیب کے مطابق انجام دینا ضروری ہوتا ہے؛ یعنی اگر پہلا کفارہ انجام نہ دے سکے تو دوسرے کی نوبت آتی ہے(کفارہ مُرتَّبہ)۔ بعض اعمال کے لئے ایک سے زیادہ کفارے معین ہوتے ہیں اور سب کو اکھٹے انجام دینا ضروری ہوتا ہے(کفارہ جمع)۔
آپ یہاں مختلف کریپٹو کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے کفارہ کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔
موجب کفارہ امور | کفارہ کی نوعیت | کفارہ |
---|---|---|
۱۔ ظِہار اور قتل غیرعمد ۲۔ ماہ رمضان کے قضا روزوں کو ظہر کے بعد توڑنا |
کفارہ مُرتَّبہ | ۱۔ غلام یا کنیز آزاد کرنا اگر یہ کام نہ کر سکے تو 60 فقیروں کو کھانا کھلانا ۲۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا اگر یہ کام نہ کر سکے تو 3 دن روزہ رکھنا |
الف) ۱۔ماہ رمضان کے روزوں کو عمدا توڑنا ۲۔ نذر کی مخالفت کرنا ۳۔ عہد پر عمل نہ کرنا ۴۔ مصیبت کے وقت عورتوں کا سر کے بال نوچنا(بعض فقہاء کے مطابق)۔ ۵۔اعتکاف کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا ب) باب حج ۱۔ قربانی سے پہلے حلق یا تقصیر انجام دینا ۲۔ احرام کی حالت میں شکار کرنا |
کفارہ مُخَیَّرہ | الف) کسی ایک کو انتخاب کرنے میں اختیار ہے ۱۔غلام یا کنیز آزاد کرنا ۲۔ دو مہینے روزہ رکھنا ۳۔ 60 فقیروں کو کھنا کھلاناب) باب حج ۱ و ۲۔ کسی ایک کو انتخاب کرنے میں اختیار ہے قربانی، 6 یا 10 مسکینوں کو کھانا کھلانا یا 3 دن روزہ رکھنا |
۱۔ حِنث قسم یعنی قسم توڑنا ۲۔ عورت کا مصیبت کے موقع پر سر کے بال نوچنا ۳۔ عورت کا مصیبت کے موقع پر چہرہ نوچنا ۴۔ مرد کا اپنی بیوی بچوں کی موت پر لباس چاک کرنا |
کفارہ مُخَیَّرہ و مُرتَّبہ | الف) کسی ایک کے انتخاب میں اختیار ہے ۱۔ غلام یا کنیز آزاد کرنا ۲۔دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ۳۔ دس فقیروں کو کپڑا پہنانا ب) انجام نہ دے سکنے کی صورت میں ۴۔3 دن روزہ رکھنا |
۱۔ کسی مؤمن کو عمدا قتل کرنا ۲۔ ماہ رمضان کے روزے کو حرام کام کے ذریعے توڑنا |
کفارہ جمع | درج ذیل امور کو اکھٹے انجام دینا ضروری ہے ۱۔غلام یا کنیز آزاد کرنا ۲۔ دو مہینے روزہ رکھنا ۳۔ 60 فقیروں کو کھانا کھلانا |
محرمات احرام جیسے ۱۔بیوی کے ساتھ جماع کرنا بیوی کے ساتھ مُلاعبہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے بیوی کی طرف شہوت آمیز نگاہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے بیوی کو شہوت کے ساتھ بوسہ لگانا ۲۔ حرم کے درختوں کو اکھاڑنا ۳۔ خوشبو استعمال کرنا سر پر سایہ قرار دینا(فقط مردوں کے لئے) ہاتھ یا پاؤوں کے تمام ناخونوں کو تراشنا کپڑے پہننا یا ان کھانوں کا کھانا جو مُحرِم پر حرام ہیں بیوی کو شہوت کے بغیر بوسہ لگانا بیوی کو شہوت کے ساتھ لمس کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے ۴۔ ہر ناخن کے تراشنے پر جن کی مجموعی تعداد 1 ناخنوں سے کم ہو ۵۔ احرام کی حالت میں نامحرم کی طرف نگاہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے |
کفارہ مُعیَّنہ | ۱۔ قربانی (اونٹ) ۲۔ گائیں یا گوسفند کی قربانی(درختوں کی جسامت پر موقوف ہے) ۳۔ قربانی (گوسفند) ۴۔ ایک مد طعام ۵۔ اونٹ کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت بہتر ہو گائیں کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت متوسط ہو گوسفند کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت کمزور ہو |
احکام
- کفارے کے طور پر فقیر کو دیا جانے والا کھانا اور کپڑا کسی مسلمان فقیر کو دینا واجب ہے
- کفارہ واجب تعبدی ہے۔ اس بنا پر اس کے ادا کرنے میں قصد قربت شرط ہے۔
- اگر کفارے کے بعض موارد جیسے غلام یا کنیز آزاد کرنا، ممکن نہ ہو تو کفارہ جمع میں یہ مورد ساقط ہوگا اور مخیّرہ اور مرتبہ کفارات میں اس کے علاوہ دوسرے موارد کو انجام دینا ضروری ہے۔
- کہا گیا ہے کہ جس وقت روزے کو کفارے کے عنوان سے رکھا جائے تو اسے پے در پے رکھنا ضروری ہے۔ البتہ 60 روزوں میں صرف 31 روزوں کو پے در پے رکھنا ضروری ہے۔
- اگر مختلف محرمات احرام کی وجہ سے مختلف کفارے واجب ہوں تو ہر ایک کے لئے علیحدہ کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
وجوہات شرعی سے مراد، وہ مال یا رقوم ہیں کہ جو خمس، زکات، کفارات، رد مظالم، نذورات اور موقوفات کے عنوان سے، مکلف ادا کرتا ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ خمس اور زکوت، صرف حاکم شرع یا اس کے نمائندہ یا وکیل کو دی جانی چاہیے۔
معنی ومفہوم کی وضاحت
وجوہات، وجوہ کی جمع ہے کہ جس کے معنی عربی لغت میں پیسے اور رقم کے ہیں۔[1] لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ سخن، جیسی لغت کی کتب میں آیا ہے کہ وجوہات کے عرفی اور رائج معانی میں سے ایک معنی، خمس اور زکات [2] نیز رد مظالم کی وہ رقوم ہیں جو مجتہدین کو دی جاتی ہیں۔[3] بعض فقہاء نے وجوہات کو وجوہات بریہ [4] (یعنی وہ رقوم کہ جو نیکی اور نیک اعمال کی خاطر دوسروں کو دی جائیں) کے نام سے جانا ہے۔[5]
فقہاء نے وجوہات شرعیہ کی اصطلاح کو علم فقہ کے مختلف عناوین کے ذیل میں استعمال کیا ہے۔[6] بعض فقہاء کا کہنا ہے چونکہ علم فقہ میں وجوہات شرعیہ کی تعریف نہیں کی گئی ہے اس لئے اس کی فقہی اصطلاحی تعریف نہیں ہو سکتی بلکہ عرفی اصطلاح (یعنی عوام کے درمیان رائج اصطلاحی معنی) مراد ہوں گے۔[7] اور اس کے عرفی (رائج) معنی میں وہ تمام رقوم شامل ہوں گی جو بالغ شخص، احکام شرعی کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔[8]
مصادیق
بعض علماء نے وجوہات شرعیہ کو صرف واجبات شرعیہ (خمس و زکات کی رقوم) کی حد تک جانا ہے[9] لیکن بعض دیگر علماء کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعیہ سے مراد وہ تمام دینی رقوم اور آمدنی [10] ہیں کہ جو مثلا: خمس، زکات، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب کے عنوان سے ادا کی جائیں۔[11] بعض علماء کا نظریہ ہے کہ اوقاف (شرعی وقف شدہ چیزوں کے منافع) اور قیمتی تحائف [12] وجوہ شرعیہ میں داخل ہیں اور نیز بعض علماء نے انفال کو وجوہات شرعیہ میں قرار دیا ہے۔[13] محمد حسین نائینی نے اپنے وکیل، جناب مہدی بہبہانی کو جو اجازہ وکالت دیا تھا اس میں حق امام، مجہول المالک (یعنی جس مال یا پیسے کا مالک معلوم نہ ہو)، زکات، نذر، اور ہر قسم کے صدقات، کفارے اور اسی طرح اجارہ کی عبادات کی رقوم کو وجوہات شرعیہ میں شمار کیا ہے۔[14]
بعض کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعی حسب ذیل چیزوں کو شامل ہوتی ہیں:[15]
- فدیہ: اس سے مراد وہ رقم اور مال ہے کہ جو بعض واجبات کے ترک کے سبب، بالغ شخص پر واجب ہے۔ مثلا: جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد، طعام یا اس کے برابر رقم فقیر کو دے۔
- کفارہ: اس کا موضوع، وہ جرمانہ ہے کہ جس کا ادا کرنا کسی حرام کام کو انجام دینے یا واجب کو ترک کرنے کے سبب بالغ شخص پر واجب ہوتا ہے۔ جیسے: واجب روزہ عمدا ترک کرنے کا کفارہ، قتل کا کفارہ، قسم توڑنے کا کفارہ، ظہار و ۔۔۔
- خراج: وہ مالی حق ہے کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے زمین کے خاص حصوں کے لئے قرار دیا جائے۔
- خمس: سال بھر کے اخراجات کے بعد جو باقی بچ جائے اس کا پانچواں حصہ، خمس کے طور پر نکالنا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر جیسے: کان (ہیرے، جواہرات اور سونا و چاندی اور قیمتی پتھر اور ۔۔۔ کی کانیں)، اور ملا ہوا خزانہ، ان شرائط کے ساتھ کہ جو فقہی کتب میں بیان ہوئے ہیں۔
- زکات: جب خاص مال اپنے معینہ نصاب تک پہنچ جائیں تواس میں سے خاص مقدار میں ادا کرنا۔
- زکات فطرہ: مال یا نقد پیسے کی صورت میں بالغ شخص پر شب عید فطر غروب کے وقت ہر سال واجب ہے۔
- جزیہ: مال یا پیسے (ٹیکس کے طور پر) کہ جو اسلامی حکومت بعض اہل ذمہ سے وصول کرتی ہے۔
- عُشر: یہ اس مال کو کہا جاتا ہے کہ جو غیر مسلم تاجروں سے اسلامی سرزمین پر تجارت کے لئے لیا جاتا ہے۔[16]
رقوم شرعی کسے دی جائیں؟
بعض علماء کا کہنا ہے کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہرشخص رقوم شرعی میں استعمال کا حق نہیں رکھتا ہے جبکہ اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں ہے۔[17] ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حاکم، چاہے جس اخلاقی اور علمی خصوصیت کا مالک ہو صرف اس بنا پر کہ وہ حاکم اسلامی ہے رقوم شرعی کو استعمال کا حق اور اختیار رکھتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ صرف، حاکم شرع اور اس کے نمائندے رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتے ہیں۔[18] امام معصوم کی موجودگی میں، صرف امام معصوم ہی رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتا ہے اور غیبت کے زمانے میں، عادل اور جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین کو ان رقوم کے استعمال کی اجازت ہے۔[19] آیت اللہ خامنہ ای کے فتوی کے مطابق، شرعی رقوم کا مسئلہ اگرچہ ولی امر مسلمین سے متعلق ہے، لیکن مراجع تقلید میں سے کسی بھی مرجع کے مقلدین، رقوم شرعی کے دونوں حصوں(سہم امام اور سہم سادات) کو ادا کرنے میں اپنے مرجع کے فتوی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے شرعی فریضہ سے سبکدوش ہو جائیں گے۔