خُمس اَرباح مَکاسب سے مراد کاروبار اور دیگر طریقوں سے حاصل ہونے والے منافع اور آمدنی کا خمس ہے۔ شیعہ فقہا کے نزدیک سالانہ آمدنی اور منافع پر خمس ہے لیکن اہل سنت معتقد ہیں کہ ارباح مکاسب پر خمس نہیں ہے۔
معنا
ارباح مَکاسب سے مراد کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ شیعہ فقہ کے مطابق سالانہ آمدنی سے سال کے اخراجات کم کرنے کے بعد اس کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر دینا واجب ہے۔
شیعہ فقہا، «ارباح مکاسب» میں، تجارت، زراعت، صنعت، تصنیف و تالیف، ٹیلری، مال کو کرائے پر دینے یا دوسرے کسی بھی کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی اور منافع کو شامل کرتے ہیں۔ لیکن کیا حق مہر، انعام، ہدیہ اور ارث بھی ارباح مکاسب میں سے ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف نظر ہے۔
نظریات
اہل سنت فقہا کے نزدیک ارباح مکاسب پر خمس نہیں ہے۔لیکن شیعہ خمس کے قائل ہیں۔ شیعہ فقہا اہل بیتؑ کی روایات اور اسی طرح آیہ خمس سے استناد کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ اس آیت میں غنیمت ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے جو ہر قسم کے منافع اور آمدنی کو شامل ہے۔ تاریخی مصادر میں پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کے دور میں سالانہ آمدنی پر خمس دینے کی کوئی گزارش موجود نہیں ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ارباح مکاسب پر شروع ہی سے خمس واجب تھا لیکن مسلمان فقیر ہونے کی وجہ سے عملی طور پر خمس دینے کو تاخیر کردیا ہے۔اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ اگر بنی ہاشم کے فقیر ارباح مکاسب کے خمس سے محروم رہیں تو چونکہ زکات غیر بنی ہاشم کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے ان کی زندگی کی مشکلات حل کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں رہے گا۔
خمس دینے کا وقت
فقہا کے نزدیک خمسی سال کے آغاز سے ایک سال گزر جائے تو ارباح مکاسب کا خمس دینا ہوگا۔ خمسی سال کا آغاز ہر شخص کی پہلی آمدنی، پہلے مال کے ملنے یا کام کے آغاز کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ سالانہ منافع کا خمس حساب کرنے کا طریقہ توضیح المسائل میں ذکر ہوا ہے۔
فِطرہ یا فطرانہ جسے زکات فطرہ بھی کہا جاتا ہے، اسلام کے واجب احکام میں سے ایک ہے جس کے معنی عید فطر کے دن مخصوص مقدار اور کیفیت میں مال ادا کرنے کے ہیں۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے سال کے غالب خوراک میں سے ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) گندم، جو، کھجور یا کشمش یا ان کی قیمت ہے۔
ہر بالغ اور عاقل شخص جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ رکھتا ہو، پر اپنے اور اپنے اہل عیال کا فطرہ ادا کرنا واجب ہے۔ فطرہ کی ادائیگی کا وقت نماز عید فطر یا اسی دن ظہر کی نماز سے پہلے تک ہے۔ فطرہ کا مصرف اکثر فقہاء کے نزدیک زکات کے مصرف کی طرح ہے۔ احادیث کے مطابق فطرہ روزے کی تکمیل اور قبولیت نیز اسی سال انسان کی موت سے نجات اور زکات مال کی تکمیل کا باعث ہے۔
لغوی معنی
فطرہ کے کئی معنی ہیں:
- خلقت کے معنی میں: یعنی کسی مخلوق کی شکل و صورت جسے خدا نے اسے دی ہو، اس معنی کے اعتبار سے زکات فطرہ سے مراد خلقت کی زکات ہوگی اسی وجہ سے زکات فطرہ کو زکات بدن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زکات فطرہ انسان کے جسم کا مختلف آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کا سبب ہوتا ہے۔
- اسلام کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد زکات اسلام ہوگی۔ یہاں اسلام اور زکات فطرہ کے درمیان جو نسبت ہے وہ یہ ہے کہ زکات فطرہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔
- روزہ کے مقابلے میں افطار کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد روزہ کھولنے کی زکات ہوگی۔
احادیث کی روشنی میں
- امام صادقؑ سے اس آیت قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ(ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔) کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے فطرہ ادا کی ہو”۔ کہا گیا: پھر وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ(ترجمہ: اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔) سے کیا مراد ہے تو فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے صحرا میں جا کر نماز عید ادا کی۔”
- امام صادقؑ فرماتے ہیں: روزے کا کمال زکات فطرہ کی ادائیگی میں ہے۔ جس طرح نماز کا کمال پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے میں ہے۔ کیونکہ جس نے روزہ رکھا لیکن عمدا فطرہ ادا نہ کیا تو گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اسی طرح جس نے نماز ادا کی لیکن پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے کو ترک کیا تو گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ خداوند متعال نماز سے پہلے زکات ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ(ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔ (14) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔)
- امام علیؑ فرماتے ہیں: "جو بھی فطرہ ادا کرتا ہے خداوند عالم اس کے ذریعے اس کے مال میں سے زکات کی کمی رہ گئی ہے اسے پورا کرتا ہے۔
- امام صادقؑ نے فرمایا: جس نے بھی اپنا روزہ کسی اچھی بات یا اچھے کام سے اختتام کو پہنچایا، خدا اس کا روزہ قبول کرتا ہے۔ لوگوں نے سوال کیا فرزند رسولؐ، اچھی بات سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اور اچھے کام سے مراد فطرہ کی ادائیگی ہے۔”
- امام صادقؑ نے اپنے وکیل متعب سے فرمایا: "جاؤ جن جن کے اخراجات ہمارے ذمہ ہے ان سب کا فطرہ ادا کرو اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑو۔ کیونکہ اگر کسی کو چھوڑا یا فراموش کیا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ فوت ہو جائے” معتب نے سوال کیا: فوت سے کیا مراد ہے؟ (عربی میں فوت کا ایک معنی مفقود ہونا بھی ہے شاید راوی نے اس لئے یہ سوال کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ فوت سے مراد کیا ہے) تو امام نے فرمایا: "موت”۔
حکم
زکات فطرہ ایک واجب عبادت ہے اس لئے اس کی ادائیگی میں قصد قربت شرط ہے۔
واجب ہونے کی شرائط
- بلوغ اور عقل: پس زکات فطرہ (نابالغ اور دیوانہ) سے ساقط ہے۔
- ہوش میں ہو: جو شخص ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو بے ہوشی کی حالت میں ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
- بینیازی: فقیر پر زکات فطرہ واجب ہے۔ مشہور قول کی بنا پر فقیر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ابھی یا مستقبل میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ نہ ہو۔ یعنی ابھی کو مال موجود بھی نہیں ہے یا کوئی ایسا شغل بھی نہیں ہے جس سے وہ اپنا خرچہ پورا کر سکے۔ گذشتہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ: فقیر وہ شخص ہے جو زکات کے کسی ایک نصاب یا اس کی قیمت کا مالک نہ ہو۔ بعض فقہاء سے منقول ہے کہ جس شخص کے پاس فقط ایک دن اور رات کا خرچہ ہو تو اس پر بھی زکات واجب ہے۔ البتہ فقیر پر بھی فطرہ کے مستحب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور کم از کم یہ کہ ایک صاع(تقریبا تین کلو گرام) گندم یا دوسری اشیاء جو وہ فطرہ کے طور پر دینا چاہتا ہے، کو اپنے اہل خانہ کے ایک فرد کے ہاتھ میں دے اور وہ دوسرے کو اسی طرح پورا اہل خانہ آخر میں اسے فطرہ کے عنوان سے اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور فقیر کو دے دے۔
- اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ زکات فطرہ واجب ہونے کیلئے علاوہ بر مخارج سال خود فطرہ کا بھی مالک ہونا شرط ہے یا نہیں؟۔ اس صورت میں اگر اسے بھی شرط قرار دے تو جس کے پاس پورے ایک سال کے خرچے کی علاوہ فطرہ کی مقدار کا بھی مالک نہ ہو تو یعنی سال کے اخراجات کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
- تعض فقہاء غنی بالفعل اور غنی بالقوھ یعنی ابھی اخراجات اس کے پاس ہونے اور کسی شغل کے ذریعے رفتہ رفتہ اخراجات کے حاصل ہونے میں فرق کے قائل ہوئے ہیں اس وقت دوسری صورت میں یہ شرط رکھی ہے کہ سال کے اخراجات سے ہٹ کر زکات فطرہ کا بھی مالک ہو۔
- فطرہ واجب ہونے کے لئے عید کی رات مغرب تک شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بنابراین اگر کوئی عید کی رات مغرب سے پہلے تک تو شرائط رکھتا ہو لیکن مغرب کے دوران اس میں شرائط مفقود ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر عید کی رات مغرب سے عید کی صبح نماز عید تک شرائط محقق ہو جائے مثلا اس دوران کوئی نابالغ، بالغ ہو جائے تو اس پر فطرہ ادا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
- بعض معاصرین کہتے ہیں: اگر عید کی رات مغرب سے عید کے صبح نماز عید تک شرائط متحقق ہو جائے تو فطرہ بنابر احتیاط واجب ہے۔ بعض دیگر کہتے ہیں: عید کی رات مغرب کے وقت شرائط کا موجود ہونا کافی ہے اس سے پہلے شرائط کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے.
وہ افراد جن پر فطرہ واجب ہے
جو بھی عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی شخص کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ وہ شخص ان کا فطرہ دے، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے مسلمان ہوں یا کافر اگر اس شخص میں فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط ہوں میں اس پر ان سب کا فطرہ واجب ہے۔
آیا بیوی کا فطرہ اس کے شوہر پر اسی طرح غلام کا فطرہ اس کے آقا پر ہر صورت میں واجب ہے اگرچہ یہ اس کے عیال میں شامل نہ ہوتے ہوں؟ یا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ یہ ان کے عیال میں شامل ہوتا ہو؟ یا ان کا نفقہ ان پر واجب ہونے کی صورت میں واجب ہے؟ فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ البتہ اختلاف صرف اس صورت میں ہے کہ زوجہ اور غلام کسی اور کا عیال شمار نہ ہوتے ہوں ورنہ اگر یہ دونوں کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہوں تو شوہر اور مالک سے ان کا فطرہ ساقط ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
جس شخص کا فطرہ کسی اور پر واجب ہے خود اس کے اوپر اس کا فطرہ واجب نہیں اگرچہ وہ اسکا فطرہ ادا نہ بھی کرے . لیکن اس صورت میں کہ معیل(وہ شخص جو گھر کا ذمہ دارہے) فقیر ہو جبکہ عیال غنی ہو تو اس صورت میں عیال کے اوپر اپنی طرف سے اپنا فطرہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
مہمان کا فطرہ
مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے۔ اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے کہ آیا عید کی رات ایک دفعہ افطاری کھانے سے مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہونے کیلئے مہمان کا عنوان صدق آنا کافی ہے اگرچہ افطار سے ایک لمحہ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن بقیہ حضرات معتقد ہیں کہ صرف اس مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے جسے عرف میں میزبان کا عیال اور کھانے والا شمار کیا جاتا ہو۔ اس مسئلے میں دیگر اقوال بھی ہیں منجملہ: پورے ماہ رمضان میں مہمان رہنے کی شرط؛دوسرے نصف میں مہمان رہنا؛ آخری عشرے میں مہمان رہنا یا آخری دو راتوں میں مہمان رہنا وغیرہ۔
جنس اور مقدار
زکات فطرہ کے جنس کے بارے میں فقہاء کے کلمات مختلف ہیں۔ بعض فقط گندم، جو، خرما اور کشمش کو ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات مذکورہ اشیاء کے علاوہ مکئی اور خشک دھی کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تیسرا گروہ مذکورہ اشیاء پر دودھ کو جبکہ چوتھا گروہ چاول کو بھی اضافہ کرتے ہیں۔
متاخرین میں سے مشہور علماء زکات فطرہ کی جنس کو عرف عام میں غالبا اور اکثرا استعمال ہونے والی چیز کو قرار دیتے ہیں۔
زکات فطره میں مذکورہ اشیاء کی قیمت کی ادائیگی بھی کافی ہے۔
زکات فطرہ کی مقدار ہر شخص کے مقابلے میں دودھ کے علاوہ باقی اشیاء میں ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) ہے۔ جبکہ دودھ میں اس کی مقدار کو بعض نے چار رطل ذکر کیا ہے اگرچہ مشہور دودھ میں بھی باقی اشیاء کی طرح ایک صاع ذکر کرتے ہیں۔ قول اول کی بنا پر رطل سے مراد "رطل عراقی” ہے یا "رطل مدنی” علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ زکوۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے کلک کریں۔
زمان وجوب
- متأخرین میں سے مشہور کا قول ہے کہ زکات فطرہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو مغرب کے وقت واجب ہوتی ہے۔ بعض نے فطرہ کے وجوب کے وقت کو عید کے دن فجر تک ذکر کیا ہے۔ فطرہ کی ادائیگی کے آخری وقت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض اسے نماز عید کی ادائیگی کے وقت جبکہ بعض عید کے دن زوال اور بعض اسے اسی روز مغرب تک ذکر کرتے ہیں.
- ماہ رمضان میں چاند رات سے پہلے فطرہ کی ادائیگی کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جائز ہونے کی صورت میں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی جائز ہو گی۔
- اگر کوئی شخص مقرره مدت میں فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اگر قصد قربت کے ساتھ اپنے مال سے اسے الگ کر کے رکھا ہو تو اسی کو فطرہ کے طور پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اس نے الگ نہ کیا ہو تو آیا زکات اس کے گردن سے ساقط ہو گی یا نہیں اور اگر اس سے ساقط نہ ہونے کی صورت میں فطرہ کو ادا کی نیت سے ادا کرنا چاہئے یا قضا کی نیت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
- اگر فطرہ کو اپنے مال سے الگ رکھا ہو اور ادائیگی کی امکان کے باوجود ادا نہ کی گئی ہو تو شخص اس کا ضامن ہے۔
مصرف
- فقہاء کے درمیان مشہور قول کی بنا پر زکات فطرہ کا مصرف وہی زکات مال کا مصرف ہے۔
- بعض قدماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات فطرہ فقط فقراء کے ساتھ مختص ہے۔ بعض معاصرین بھی زکات فطرہ کو فقط فقیروں کے ساتھ مختص ہونے کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔
- فقہاء کے ایک گروہ کے مطابق مؤمن(شیعہ) فقیر نہ ہونے کی صورت میس فطرہ سنی مستحق کو دینا جائز ہے۔
- مالک فطرہ کو براہ راست مستحق کو ادا کر سکتا ہے اگرچہ امام یا نائب امام کو دینا افضل ہے۔
- قول مشہور کی بنا پر کسی پ فقیر کو ایک صاع سے کم مقدار میں زکات کے عنوان سے دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ فقراء بہت زیادہ ہوں اور سب کو ایک ایک صاع دینا ممکن نہ ہو اس صورت میں بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک صاع سے زیادہ دینا یہاں تک کہ اس کا فقر دور ہو جائے جائز ہے۔
- مستحب ہے پہلے اپنے رشتہ دار فقراء کو فطرہ دی جائے پھر ہمسایوں میں سے جو فقیر ہوں انہیں دیا جائے اسی طرح اہل علم فقراء کو دوسروں پر ترجیح دینا بھی مستحب ہے۔
- سید غیر سید سے زکات مال اور فطرہ نہیں لے سکتا لیکن خمس اور دوسری وجوہات اگر اس کی زندگی کے اخراجات پورا نہ کرسکے اور زکات لینے پر محبور ہو تو غیر سید کا فطرہ بھی لے سکتا ہے۔
صدقہ، عربی لفظ الصَدَقَة سے ماخوذ ہے، سے مراد رضاکارانہ طور پر پیسے یا جائیداد کو ضرورت مندوں کو دینا ہے، صرف اللہ کی رضا کے لیے۔ یہ صدقے کا عمل اسلامی مالیاتی اخلاقیات کا ایک سنگ بنیاد ہے، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دولت کو صحیح طریقے سے حاصل کیا جائے اور خرچ کیا جائے۔ اگرچہ ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرنا ممنوع ہے، لیکن اسے ایسے طریقوں سے خرچ کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جو اللہ کو پسند ہوں۔ صدقہ دینا اسلام میں سب سے زیادہ مستحسن اخراجات میں سے ایک ہے۔ قرآن کی تعلیمات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت (احادیث) کی روایات صدقے کی دو مختلف اقسام کو نمایاں کرتی ہیں: فرض اور مستحب۔ یہ مقدس متون صدقات کی تقسیم کے مخصوص طریقوں کی بھی تفصیل دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس طرح کا صدقہ دینے سے کسی کے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ، حیرت انگیز طور پر، اس میں اضافہ اور برکتیں ہوتی ہیں۔
صدقہ کو سمجھنا: ایک الہی معاملہ
بنیادی طور پر، صدقہ اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کا عمل ہے۔ جبکہ وسیع تر اصطلاح "صدقات” اسلام میں خیرات کی مختلف اقسام کو شامل کرتی ہے، "صدقہ” عام طور پر مستحب، رضاکارانہ خیرات کے طور پر دیے گئے مال کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال دینے کے مخصوص عمل کو "تصدق” (التصدق) کہا جاتا ہے، اور اس طریقے سے تقسیم کیے گئے مال کو "صدقہ” کہتے ہیں۔
زکوٰۃ اور صدقہ میں کیا فرق ہے؟
صدقہ کو زکوٰۃ سے ممتاز کرنا بہت ضروری ہے۔ زکوٰۃ ایک مسلمان کے مال پر ایک سالانہ فرض محصول ہے، جو بعض شرائط کے تحت ایک مخصوص مذہبی فریضے کو پورا کرتا ہے، جس کی مقداریں مقرر ہیں اور وصول کنندگان بھی مقرر ہیں۔ فرض صدقات کی مثالوں میں زکوٰۃ، خمس (بعض کمائی کا پانچواں حصہ)، اور فطرانہ (رمضان کے اختتام پر دیا جانے والا صدقہ) شامل ہیں۔ اس کے برعکس، صدقہ، جب اپنے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے، تو ایک رضاکارانہ عمل ہے۔ اس کی کوئی مقررہ مقدار نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے وصول کنندگان سختی سے متعین ہیں، جو اسے عقیدت اور سخاوت کا ایک لچکدار اظہار بناتا ہے۔ یہ فرق اسلامی خیرات کی جامع نوعیت کو اجاگر کرتا ہے، جس میں لازمی سماجی بہبود کی شراکتیں اور خود بخود ہونے والے احسان کے اعمال دونوں شامل ہیں۔
الہی وصول کنندہ
صدقہ کی بے پناہ اہمیت قرآن میں، خاص طور پر سورہ توبہ، آیت 104 میں زور دیا گیا ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
"کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات وصول کرتا ہے، اور یہ کہ اللہ ہی بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا رحم والا ہے؟”
یہ آیت، جیسا کہ تفسیر نمونہ میں بیان کیا گیا ہے، صدقہ کی اہمیت کو گہرا کرتی ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے صدقہ دینے کی ایک مضبوط ترغیب کا کام کرتی ہے اور انہیں ہدایت دیتی ہے کہ وہ اپنے صدقہ کے وصول کنندگان کے ساتھ انتہائی احترام سے پیش آئیں، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ عطیات بالآخر خود اللہ ہی وصول کرتا ہے۔ امام سجاد (ع)، جو اسلامی تاریخ میں ایک معزز شخصیت ہیں، کی ایک گہری حدیث اس تصور کو مزید واضح کرتی ہے: "صدقہ ضرورت مند کے ہاتھ میں اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اللہ کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔” یہ تعلیم صدقہ کی روحانی گہرائی پر زور دیتی ہے، اسے اللہ کو براہ راست پیشکش کے طور پر پیش کرتی ہے۔
اسلام میں صدقات کی اقسام
اسلامی تعلیمات صدقات کو ان کی فرضیت کی سطح کی بنیاد پر دو اہم اقسام میں تقسیم کرتی ہیں:
1) فرض صدقات: یہ خیرات کی مخصوص اقسام ہیں جو ایک مسلمان پر بعض شرائط کے تحت مذہبی طور پر فرض ہوتی ہیں۔
- زکوٰۃ: مخصوص قسم کے مال (مثلاً سونا، چاندی، فصلیں، مویشی، تجارتی سامان) پر ایک سالانہ فرض صدقہ جب وہ کم از کم نصاب تک پہنچ جائیں اور ایک مکمل قمری سال تک ملکیت میں رہیں۔
- خمس: آمدنی یا مال کی مخصوص اقسام پر ایک پانچواں مذہبی ٹیکس، خاص طور پر شیعہ اسلام میں رائج ہے۔
- فطرانہ: جسے زکوٰۃ الفطر بھی کہا جاتا ہے، یہ رمضان کے روزے کے مہینے کے اختتام پر دیا جانے والا ایک خاص صدقہ ہے، جو عام طور پر بنیادی خوراک کی ایک چھوٹی سی مقدار یا اس کے مالی مساوی ہوتا ہے، جسے عید الفطر کی نمازوں سے پہلے تقسیم کیا جاتا ہے۔
2) مستحب صدقات (صدقہ): یہ صدقات کی قسم خالصتاً رضاکارانہ ہے اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ بے پناہ روحانی اجر رکھتا ہے لیکن اس کی کوئی مقررہ مقدار نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے مستحقین عام ضرورت سے ہٹ کر مخصوص زمروں تک سختی سے محدود ہیں۔ کوئی بھی مقدار، بڑی یا چھوٹی، کسی بھی ضرورت مند شخص کو اللہ کی رضا کے لیے دی جائے، اس زمرے میں آتی ہے۔
خصوصیات اور شرائط
احادیث اور قرآن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدقہ کے درست ہونے کے لیے کچھ شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے:
- یہ کسی کے جائز مال اور جائیداد سے ہونا چاہیے۔
- صدقہ پوشیدہ طور پر دینا بہتر ہے۔
- صدقہ دینے والے کو ملامت کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔
- یہ خالص اللہ کی نیت سے ہونا چاہیے۔
- یہ ان اموال میں سے ہونا چاہیے جو انسان کو پسند ہوں (نہ کہ وہ جن سے چھٹکارا پانا چاہتا ہو)۔
- صدقہ دینے والے کو کبھی بھی خود کو حقیقی مالک نہیں سمجھنا چاہیے؛ بلکہ انہیں خود کو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ سمجھنا چاہیے۔
صدقہ کے اہل مستحقین کون ہیں؟
قرآن نے لوگوں کی آٹھ اقسام بیان کی ہیں جو صدقات کے مستحق ہیں، خاص طور پر فرض صدقات جیسے کہ زکوٰۃ، لیکن یہ اقسام رضاکارانہ صدقہ کے لیے بھی رہنمائی کا کام کرتی ہیں:
- غریب لوگ (فقراء): وہ لوگ جن کے پاس بہت کم یا کچھ بھی نہیں ہے، جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
- محتاج لوگ (مساکین): وہ لوگ جو مشکل حالات میں ہیں اور اپنے آپ کو آرام سے برقرار رکھنے کے لیے ناکافی وسائل رکھتے ہیں۔
- زکوٰۃ جمع کرنے پر مامور افراد: اسلامی حکام کے ذریعہ زکوٰۃ کے فنڈز کا انتظام اور تقسیم کرنے کے لیے مقرر کردہ افراد۔
- وہ لوگ جن کے دل اسلام سے (حال ہی میں) مانوس کیے گئے ہیں (المؤلفة قلوبهم): نئے مسلمان یا وہ لوگ جن کی حمایت اسلام کے مقصد کے لیے مطلوب ہو۔
- غلاموں کی آزادی: لوگوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز۔ اگرچہ غلامی بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، یہ زمرہ افراد کو ظالمانہ قرضوں یا حالات سے آزاد کرانے تک پھیل سکتا ہے۔
- مقروض افراد: قرض سے لدے افراد، بشرطیکہ انہوں نے جائز وجہ سے قرض لیا ہو اور وہ اسے ادا کرنے میں واقعی ناکام ہوں۔
- اللہ کی راہ میں: اسلام کو فروغ دینے، اس کی اقدار کا دفاع کرنے، یا اس کے اداروں اور منصوبوں کی حمایت کے لیے وقف فنڈز جو وسیع پیمانے پر مسلم کمیونٹی کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
- مسافر (ابن السبیل): ایسے مسافر جو خود کو پھنسے ہوئے یا اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے ناکافی فنڈز کے بغیر پاتے ہیں، چاہے وہ اپنی سرزمین میں امیر ہوں۔
صدقہ دینے کے عملی طریقے
صدقہ کیسے ادا کریں:
اللہ نے صدقہ دینے کے ممنوع اور قابل تعریف دونوں طریقے بیان کیے ہیں۔ ان رہنما اصولوں کو سمجھنا مسلمانوں کو یہ یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے کہ ان کے خیراتی اعمال روحانی طور پر اجر والے ہوں۔
ممنوع طریقے:
- دکھاوے کے لیے دینا: خیرات کا کوئی بھی عمل جو صرف لوگوں سے تعریف، پہچان، یا ستائش حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، نہ کہ اللہ کی رضا کے لیے، صدقہ کو باطل اور الہی اجر سے محروم کر دیتا ہے۔
- احسان جتا کر دینا: اگر کوئی صدقہ دیتا ہے اور پھر وصول کنندہ کو اپنی سخاوت یاد دلاتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے، یا اسے حقارت سے دیکھتا ہے، تو اس خیرات کا اجر ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایسے اعمال وصول کنندہ کے وقار کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور مخلص خیرات کے لیے درکار خالص نیت کو دھوکہ دیتے ہیں۔
یہ دو قسم کے صدقات باطل ہیں کیونکہ وہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں دیے جاتے، یا اگر وہ اس کی رضا کے لیے دیے گئے تھے، تو دینے والے کی نیت خالص اللہ کے لیے برقرار نہیں رہی۔
قابل تعریف طریقے:
دوسری طرف، صدقہ دینے کے دو طریقے ایسے ہیں جن کی اللہ نے تعریف کی ہے اور انہیں پسند کیا ہے:
- خفیہ صدقہ: "اگر تم صدقات کو پوشیدہ رکھو، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے،” قرآن (2:271) میں بیان کیا گیا ہے۔ صدقہ خفیہ طور پر دینا کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی با فضیلت ہے: یہ دینے والے کو دکھاوے سے بچاتا ہے، نیت کی پاکیزگی کو یقینی بناتا ہے، اور وصول کنندہ کے وقار کو ممکنہ شرمندگی یا ذلت سے بچاتا ہے۔ یہ طریقہ دینے والے اور اللہ کے درمیان براہ راست تعلق پر زور دیتا ہے۔
اگر تم صدقات کو پوشیدہ رکھو، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے،” قرآن 2:271
- ظاہر صدقہ: اگرچہ خفیہ طور پر دینا بہتر ہے، لیکن کھلے عام صدقہ دینے میں بھی فضیلت ہے۔ اس کی تعریف اس لیے کی جاتی ہے کہ یہ دوسروں کے لیے خیراتی اعمال میں شامل ہونے کی عوامی حوصلہ افزائی کا کام کرتا ہے، کمیونٹی کے اندر سخاوت کی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو بھی راحت اور امید دلاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے ساتھی کمیونٹی اراکین کے درمیان ہمدردی اور حمایت کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو مایوسی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
آپ یہاں سے اپنے صدقات (صدقہ) گمنام طور پر ادا کر سکتے ہیں۔
صدقہ کی مقدار کا تعین
مجھے کتنا صدقہ دینا چاہیے؟ مستحب صدقہ کی مقدار مقرر نہیں ہے، جو انفرادی مالی صلاحیت کی بنیاد پر لچک کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم، اسلامی تعلیمات اعتدال پر زور دیتی ہیں۔ انسان کو نہ تو بہت زیادہ کنجوس ہونا چاہیے، اور نہ ہی اتنا زیادہ دینا چاہیے کہ اس سے خود کے لیے یا اپنے زیر کفالت افراد کے لیے مالی مشکل پیدا ہو جائے۔ صدقہ کی کم سے کم مقدار انسان کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلامی روایات سکھاتی ہیں کہ خیرات کا سب سے چھوٹا عمل بھی اللہ کے نزدیک تسلیم کیا جاتا ہے؛ بعض احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاص کے ساتھ دیا گیا ایک گلاس پانی بھی صدقہ شمار ہو سکتا ہے۔ زور تسلسل اور خالص نیت پر ہے، نہ کہ عطیہ کی محض مقدار پر۔
کیا آن لائن صدقہ دینا جائز ہے؟
جدید دور میں، صدقہ دینے کے طریقے وسیع ہو گئے ہیں۔ بہت سی اسلامی خیراتی تنظیمیں اور ادارے آن لائن پلیٹ فارم پیش کرتے ہیں جہاں افراد محفوظ طریقے سے عطیہ کر سکتے ہیں۔ اس میں براہ راست بینک ٹرانسفر، کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی، اور یہاں تک کہ تصدیق شدہ اسلامی خیراتی اداروں کے ذریعے کرپٹو کرنسی کے عطیات جیسے ابھرتے ہوئے اختیارات بھی شامل ہیں۔ یہ جدید طریقے موثر اور اکثر گمنام صدقہ کی اجازت دیتے ہیں، جو پلیٹ فارم کی خصوصیات اور عطیہ دہندہ کے انتخاب کے لحاظ سے خفیہ اور ظاہر صدقات دونوں کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔
صدقہ دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
صدقہ دینے کا بہترین طریقہ خالص نیت کو ایسے طریقوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو وصول کنندہ کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں جبکہ ان کے وقار کو بھی محفوظ رکھیں۔ اس کا مطلب اکثر خفیہ طور پر، براہ راست ضرورت مندوں کو، یا قابل اعتماد تنظیموں کے ذریعے دینا ہوتا ہے جو یقینی بناتی ہیں کہ فنڈز مطلوبہ مستحقین تک مؤثر اور احترام کے ساتھ پہنچیں۔
صدقہ کی بے پناہ برکات
صدقہ دینے سے وابستہ فضائل اور برکات کو متعدد احادیث میں وسیع پیمانے پر اجاگر کیا گیا ہے، جو دنیاوی اور اخروی دونوں اجر کا وعدہ کرتے ہیں:
- آفات اور بری موت سے حفاظت:
امام باقر (ع)، ایک معزز امام نے فرمایا: "صدقہ 70 قسم کی آفات کے ساتھ ساتھ بری موت سے بھی حفاظت کرتا ہے۔ جو شخص صدقہ دیتا ہے وہ کبھی بری موت کا شکار نہیں ہوگا۔” یہ غیر متوقع بدقسمتیوں کے خلاف خیرات کی حفاظتی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔
- طویل عمر:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ اور صلہ رحمی (رشتے داریوں کو جوڑنا) شہروں کو آباد کرتے ہیں اور طویل عمر لاتے ہیں۔” یہ صحت مند کمیونٹیوں کو پروان چڑھانے اور زندگی کو طول دینے میں خیرات کے کردار پر زور دیتا ہے۔
- جسمانی شفاء:
ایک حدیث کے مطابق، یہ سفارش کی جاتی ہے کہ "اپنے بیمار رشتہ داروں کو صدقہ دے کر شفا دو۔” ایک اور روایت خاص طور پر یہ تجویز کرتی ہے کہ ایک بیمار شخص اپنے ہاتھ سے صدقہ دے، جو اس کی روحانی اور جسمانی شفا کی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے۔
- غربت کا خاتمہ:
امام باقر (ع) کی ایک حدیث کے مطابق، احسان اور صدقہ غربت کو دور کرتے ہیں۔
روحانی بلندی اور الہی اجر:
صدقہ دینے کے روحانی اجر کیا ہیں؟ قرآن اللہ کی راہ میں صدقہ دینے کو اللہ کے ساتھ ایک انتہائی فائدہ مند معاملہ قرار دیتا ہے۔ یہ بے شمار الہی اجر کی ضمانت دیتا ہے، افراد کو یوم قیامت کی پریشانیوں سے بچاتا ہے اور انہیں الہی عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔
- بدقسمتی کو دور کرنا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی: "جب بھی تم رات سے صبح میں جاؤ، ایک صدقہ دو تاکہ اس دن کی بدقسمتیاں تم سے دور ہو جائیں، اور جب بھی تم دن سے رات میں جاؤ، ایک صدقہ دو تاکہ اس رات کی بدقسمتی تم سے دور ہو جائے۔” یہ صدقہ کو الہی حفاظت حاصل کرنے اور روزانہ کی بنیاد پر بدقسمتیوں کو ٹالنے کے ایک ذریعہ کے طور پر زور دیتا ہے۔
- پل صراط عبور کرنے میں مدد: امام صادق (ع)، ایک اور عظیم امام نے فرمایا: "میں نے پل صراط عبور کرنے کا راستہ تلاش کیا اور مجھے وہ صدقہ میں ملا۔” پل صراط ایک ایسا راستہ ہے جس کے بارے میں مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ انہیں جنت تک پہنچنے کے لیے یوم قیامت کو عبور کرنا ہوگا۔ اس طرح صدقہ کو اس خطرناک سفر میں ایک روشنی اور مددگار سمجھا جاتا ہے۔
- جنت کی ضمانت: امام علی (ع)، اسلام میں ایک مرکزی شخصیت، نے فرمایا: "میں چھ قسم کے لوگوں کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں: وہ شخص جو کچھ صدقہ الگ رکھتا ہے لیکن وہ مر جاتا ہے؛ یہ شخص جنت میں جائے گا۔” یہ پرزور بیان صدقہ کو جنت کی طرف ایک براہ راست راستہ کے طور پر اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ کر سکنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ جنت کی ضمانت والے دیگر زمروں میں وہ لوگ شامل ہیں جو کسی مریض کی عیادت کرتے ہوئے، جہاد پر جاتے ہوئے، حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے، جمعہ کی نماز میں شریک ہوتے ہوئے، یا جنازے میں جاتے ہوئے فوت ہو جاتے ہیں۔
- دیگر زمرے یہ ہیں: وہ شخص جو کسی مریض کی عیادت کرتا ہے، وہ جو جہاد پر جاتا ہے، وہ شخص جو حج کے مناسک ادا کرتا ہے، وہ شخص جو جمعہ کی نماز میں جاتا ہے، اور وہ شخص جو جنازے میں جاتا ہے۔ اگر وہ فوت ہو جاتے ہیں اور کبھی گھر واپس نہیں آتے، تو انہیں جنت میں جانے کی ضمانت دی جائے گی۔
لہٰذا، صدقہ محض ایک مالی لین دین نہیں بلکہ عبادت کا ایک گہرا عمل، مال کی پاکیزگی، اور روحانی ترقی و سماجی فلاح کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ ہمدردی، سخاوت، اور الہی اجر پر پختہ یقین کو مجسم کرتا ہے، جس کی وجہ سے یہ اسلام میں سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال میں سے ایک ہے۔
کرپٹو کرنسی کے ذریعے آن لائن صدقہ دیں
رَدِّ مَظالِم انسان کے ذمے موجود دوسروں کے ناحق اموال کے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک رد مظالم ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق رد مظالم واجب ہے۔
رد مظالم میں مجہول المالک اموال کو مرجع تقلید کی اجازت سے محتاجوں اور فقیروں کو صدقہ دے سکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں خمس، امر بہ معروف، میّت کے احکام، وصیت اور غصب کے ابواب میں رد مظالم سے متعلق بحث کی گئی ہے۔
تعریف
ردّ مظالم سے مراد انسان کے ذمے موجود دوسروں کے اموال اور قرضوں کو ادا کرنا ہے؛ لیکن ان اموال کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
اسداللہ شوشتری (تیرہویں صدی ہجری) لکھتے ہیں: مَظالِم مَظلِمَہ کا جمع ہے جس سے مراد دوسروں کے وہ اموال اور حقوق ہیں جو انسان کے ذمے باقی ہیں؛ مثلا وہ اموال جو غصب یا چوری کے ذریعے انسان کے پاس موجود ہو۔ آیت اللہ مکارم شیرازی ان حرام اموال کو مظالم قرار دیتے ہیں جو انسان کے پاس موجود ہو لیکن ان کے مالک کو نہ پہنچانتے ہو۔
آقا محمد علی کرمانشاہی فرزند وحید بہبہانی کے مطابق مظالم ان اموال اور حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کے اموال سے مخلوط ہو گئے ہوں لیکن نہ ان کی مقدار معلوم ہو اور نہ ان کا مالک۔ آیت اللہ سیستانی مظالم ان اموال کو قرار دیتے ہیں جنہیں انسان نے ظلم کے ساتھ دوسروں سے لیا ہو یا انہیں ضایح کیا ہو؛ چاہے ان کا مالک معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔
آیت اللہ صافی گلپایگانی مظالم کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ مظالم ان اموال کو کہا جاتا ہے جن کی مقدار تو معلوم ہے لیکن ان کا مالک مشخص نہ ہو۔
فقہ اور احادیث میں اس کی اہمیت
شیعہ احادیث میں ردّ مظالم کو توبہ کی قبولیت میں شرائط قرار دیتے ہوئے اسے ترک کرنے کو گناہان کبیرہ اور موجب نزول بلا جانا جاتا ہے۔ حدیثی منابع میں امر بہ معروف اور فقہی کتابوں میں احکام طہارت (احکام میت)، خمس، غصب، وصیت اور امر بہ معروف کے ابواب میں رد مظالم سے بحث کی گئی ہے۔
حکم شرعی
شیعہ فقہاء ردّ مظالم کو خمس اور زکات کی طرح واجب مانتے ہیں۔ بعض فقہاء مانند آیت اللہ فیاض اسے واجب فوری قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اس وقت اسے فورا ادا کرنا واجب ہے۔
طریقہ
مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر انسان کے ذمے دوسروں کا مال ہو چاہے وہ مجہول المالک ہو یا ان کے مالک تک رسائل ممکن نہ ہو، انہیں یا ان کی قیمت (اس صورت میں کہ جب عین مال تلف ہوئی ہو) کو حاکم شرع یا مرجع تقلید کی احازت سے فقیروں کو صدقہ دے دیں۔ بعض فقہاء من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی رد مظالم کو صرف غیر سید کو دینا چاہئے۔
مذکورہ مال کو صدقہ دینے کے بعد اگر اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اس تک رسائل ممکن ہو جائے تو اس صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پابا جاتا ہے۔ امام خمینی کے فتوے کے مطابق احتیاط واجب کی بنا پر اس مال کے برابر اس کے مالک کو بھی دینا واجب ہے؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ آیت اللہ خویی کے مطابق صدقہ دینے کے بعد دوبارہ اس کے مالک کو بھی دینا واجب نہیں ہے۔
مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق رد مظالم میں اگر مال کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مالک کے ساتھ صلح کرنا چاہئے؛ یعنی ایک دوسرے کو راضی کریں؛ لیکن اگر صاحب مال راضی نہ ہو جائے تو اس صورت میں صرف اس مقدار کو دینا کافی ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو۔ البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مقدار سے کچھ اضافہ بھی دے دیا جائے۔
مونوگرافی
آقا محمد علی کرمانشاہی نے "رد مظالم کے مصرف” کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب لکھی ہیں۔