مضامین

سہم سادات خمس کا ایک حصہ ہے جو نسل بنی ہاشم کے ضرورت مند سادات کو دیا جاتا ہے۔

شیعہ فقہا آیت خمس سے استدلال کرتے ہوئے خمس کا ایک حصہ ضرورت مند سادات سے مخصوص سمجھتے ہیں۔ اس حصے کو سہم سادات کہتے ہیں۔[نوٹ 1]؛ اور جان لو کہ جو چیز بھی تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے، (اور رسول کے) قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ (یہ واجب ہے) [1] اس آیت میں يَتامىٰ، مساكين اور ابن السبيل سے مراد نسل بنی ہاشم کے ایتام، مساکین اور مسافر ہیں۔[2] صاحب جواہر کے مطابق مشہور شیعہ فقہا معتقد ہیں کہ سہم سادات صرف ان سادات سے تعلق رکھتا ہے جن کا نسب باپ کی طرف سے ہاشم بن عبد مناف تک پہنچتا ہو اور جن کی والدہ سیده ہو سہم سادات اس سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔[3]

سادات کو ان کا سہم دینے کے متعلق فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض قائل ہیں کہ سہم سادات بھی حاکم شرع یا مرجع کو دیا جائے یا اس کی اجازت سے ضرورتمند سادات تک پہنچایا جائے جبکہ بعض مراجع سہم سادات کی ادائیگی میں مرجع کی اجازت معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق سادات سہم سادات خود انہیں دے سکتے ہیں۔[4]

خمس میں سے ایک حصے کے سادات سے مخصوص ہونے کے فلسفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غیر سادات کی طرف سے سادات کو صدقہ دینے کی ممنوعیت کا جبران اس سہم سادات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مذہب

سَہمَیْن کا مطلب دو سہم ہیں جس سے مراد سہم امام اور سہم سادات ہے۔[1] لغت میں سہم کے معنی حصّہ[2] کے ہوتے ہیں۔

فقہائے شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ایک سہم امام اور دوسرا سہم سادات۔[3]

  • سہم امام، مجتہد جامع الشرائط کو یا اس کی اجازت سے سید فقیر یا سید یتیم اور وہ سید جو ابن سبیل (سفر میں ضرورتمند ہو اور وطن واپس پلٹنے کا خرچ نہ رکھتا ہو) ہو اسے دیا جاتا ہے۔
  • سہم امام، غیبت امام کے زمانہ میں مجتہد جامع الشرائط کو دیا جاتا ہے یا جہاں اس نے خرچ کرنے کی اجازت دی ہو وہاں مصرف کیا جاتا ہے۔[4]

فقہائے شیعہ مثلا شیخ طوسی نے اپنی کتاب المبسوط،[5] شہید اول نے لمعہ دمشقیہ[6] اور شہید ثانی نے شرح لمعہ[7] میں خمس کو آیہ خمس کی بنا پر چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اسی کو شیعوں کا مشہور قول جانا ہے؛[8] البتہ یہ چھ حصے دو حصوں کی طرف پلٹتے ہیں جن میں سے تین حصۃ یعنی سہم خدا، رسول اور ذی القربی، امام کے لئے ہے اور تین حصہ یعنی سہم یتیم، فقیر اور ابن سبیل پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک والوں یعنی سادات کے لئے ہوتا ہے جسے سہم سادات کہتے ہیں۔[9]

خمس کی دو تقسیم روایات سے اخذ کی گئی ہے۔[10] امام موسی کاظمؑ نے خمس کے سلسلہ میں ایک روایت میں توضیح فرماتے ہوئے ایک سہم کو حاکم (امام) کے لئے اور دوسرے سہم کو یتیم، فقیر اور ابن سبیل جو پیغمبر اکرمؐ سے نزدیک ہیں، کے لئے قرار دیا۔

مذہب

زکات دین اسلام کے عملی احکام میں سے ایک ہے جسکا تعلق مال سے ہے۔ اس حکم کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے اموال میں سے 9 چیزوں کا ایک معین حصہ غریبوں کی مدد اور دوسرے فلاحی کاموں میں جنہیں شریعت نے مشخص کی ہے، صرف کرے۔ وہ 9 چیزیں جن پر زکات واجب ہے ان میں نقدین (سونا اور چاندی)، انعام ثلاثہ ( گائے، بھیڑ اور اونٹ) اور غلات اربعہ (گیہوں، جو، کشمش اور کھجور) شامل ہیں۔ ان چیزوں میں سے ہر ایک میں زکات کی مقدار اور شرایط متفاوت ہے جسے فقہ میں مشخص کیا گیا ہے۔

زکات کا شمار فروع دین کے اہم ارکان میں سے ہوتا ہے جس پر دین اسلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور نماز اور جہاد کے ساتھ اس کا بھی ذکر ملتا ہے یہاں تک کہ اسے دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ تقریبا 59 آیات اور 2000 احادیث زکات کے بارے موجود ہیں اور قرآن کریم میں اکثر موقعوں پر لفظ صدقہ کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فقہ میں بھی زکات کو واجب صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

زکات دو طرح کی ہے: بدن کی زکات جسے زکات فطرہ کہا جاتا ہے جسے عید فطر کے موقع پر ادا کرنا واجب ہے۔ مال کی زکات جو درج بالا 9 چیزوں پر اپنے مخصوص شرایط کے ساتھ واجب ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

زکات لغوی اعتبار سے "ز ک و” کے مادے سے نشو و نما اور زیادہ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔[1] خلیل بن احمد زکات کے لغوی معنی کے بارے میں کہتے ہیں: زکات مال سے مراد اسے پاک کرنا ہے۔ اور "زکا الزرع یزکو زکاء” سے مراد کھیتی باڑی کا نشو و نما ہے۔[2] راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ زکات اصل میں اس نشو و نما کو کہتے ہیں جو خدا کی جانب سے ہو۔[3] اور علامہ طباطبایی زکات کے لغوی معنی کو تطہیر سے تعبیر کرتے ہیں۔[4]

دین اسلام میں بعض مخصوص شرایط کے ساتھ 9چیزوں کے معین اور مشخص حصے کو وجوب کی نیت سے ادا کرنے کو زکات کہتے ہیں۔ اس حکم کو زکات اس وجہ کہا جاتا ہے کہ خداوند عالم اس مال میں برکت عطا کرتا ہے یا یہ کہ زکات دینے کی وجہ سے انسان کا نفس گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ [5]

زکات ایک عمومی مفہوم بھی رکھتی ہے جس سے مراد وہ تمام واجب یا مستحب مالی امداد ہے جو انسان دوسروں کی مدد کیلئے انجام دیتا ہے۔

چوں کہ قرآن میں زکات کو صدقہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اسلئے واجب زکات کو مستحب زکات سے جدا کرنے کیلئے اسےصدقہ واجب کہا جاتا ہے ۔

قرآن اور احادیث کی روشنی میں

زکات اسلام کے اہم ترین اقتصادی احکام میں سے ہے۔ یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ تقریبا 59 مرتبہ قرآن کی 56 آیتوں میں ذکر ہوا ہے جن میں سے 27 مرتبہ نماز کے ساتھ ساتھ آیا ہے: وَالَّذِينَ ہمْ لِلزَّكَاة فَاعِلُونَ [6]الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاہمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاة وَآتَوُا الزَّكَاة…[7] …وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاة ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاة وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّـہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيہمْ أَجْرًا عَظِيمًا [8] رِجَالٌ لَّا تُلْہيہمْ تِجَارَة وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـہ وَإِقَامِ الصَّلَاة وَإِيتَاءِ الزَّكَاة ۙ…[9]

وسایل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں ۱۹۸۰ احادیث زکات کے بارے میں موجود ہیں جو اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ احادیث میں زکات کے بعض آثار کا تذکرہ آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • انسانی روح کی تطہیر اور تزکیہ کا سبب بنتی ہے [10]
  • اسلام کے پانج ستون میں سے ایک ہے[11]
  • خداوندعالم کے غضب کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے [12]
  • نماز قبول ہونے کی شرط ہے [13]
  • زکات کی ادائیگی خدا کا انسان کے ساتھ دوستی کی علامت ہے۔ [14]
  • خدا کے نزدیک محبوبیت کا سبب ہے [15]
  • سخت‌ترین واجب ہے [16]
  • سماج اور معاشرے کی سعادت کا سبب بنتی ہے[17]
  • مال و دولت کی حفاظت کا ضامن ہے[18]
  • گناہوں کی بخشش کا سبب بنتی ہے[19]
  • رزق و روزی میں اضافہ ہوتا ہے اور مال میں کبھی بھی کمی نہیں ہوتی [20] [21]
  • تزکیہ نفس اور مال میں اضافہ کا باعث ہے[22]
  • بیماروں کا علاج ہے[23]
  • زکات دینے والے اور دوسرں سے بلاء کو دفع کرتی ہے [24]
  • مالداروں کیلئے امتحان اور غریبوں کیلئے امداد ہے۔ [25]
  • بخل کا علاج ہے[26]
  • مردوں کی بخشش کا باعث ہے۔ [27]
  • فقر کو ختم کرتی ہے[28]

زکات نہ دینے والے پر اسکے جو برے اثرات مترتب ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • مال کا تلف ہونا [29]
  • دوگنی خسارت [30]
  • ظلم اور گناہ کی راہ میں خرج ہونا [31]
  • خدا کی رحمت سے محروم ہونا [32]
  • چوری کی ایک قسم ہے [33]
  • محتاج اور نیاز مند ہونا [34]
  • نماز مورد قبول واقع نہ ہونا [35]
  • وہ مال جس کا زکات نہ دیا گیا ہو وہ قیامت کے دن آگ میں تبدیل ہوتی ہے [36]
  • زکات نہ دینا موت کے وقت بے ایمان ہو کر مرنے کا باعث بنتا ہے [37]
  • زکات نہ دینا زمین میں برکت کے خاتمے کا باعث ہے [38]

دوسری نعمتوں کی زکات

زکات کے وسیع معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام میں ہر نعمت کے اوپر مخصوص زکات تعیین کی گئی ہے جس کے ادا کرنے سے اس نعمت میں نشو و نما اور برکت آتی ہے۔ مصباح الشریعہ نامی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں بدن کے اعضاء کی زکات کے بارے میں آیا ہے:

  • آنکھ کی زکات: عبرت کی نگاہ سے دیکھنا اور شہوتوں سے چشم پوشی کرنا۔
  • کان کی زکات: علم، حکمت، قرآن اور ہر اس چیز کا سننا جس میں انسانی روح کو تسکین ملتی ہو اور ان چیزیں کے سننے سے پرہیز کرنا جو روح کی گرفتاری کا سبب بنتی ہے جیسے جھوٹ اور غیبت وغیرہ۔
  • زبان کی زکات: مسلمانوں کی خیرخواہی چاہنا، غافلوں کو بیدار کرنا، ہمیشہ تسبیح اور ذکر میں مشغول رہنا۔
  • ہاتھوں کی زکات: خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے دوسروں کو عطا کرنا، علم کے لکھنے میں اس سے کام لینا، ہر اس کام کو انجام دینا جس میں مسلمانوں کی بلائی اور خدا کی بندگی ہو اور ہر برے کام سے پرہز کرنا۔
  • ٹانگوں کی زکات: حقوق اللہ کی ادائگی، اللہ کے نیک بندوں سے ملاقات، ذکر اور دعا کے محافل میں شرکت، لوگوں کے امور کی اصلاح، صلہ رحم، جہاد اور ہر اس چیز کیلئے قدم اٹھانا جس میں دین اور دنیا کی سعادت اور خوشبختی ہو۔

غرر الحکم میں امیرالمؤمنین علی(ع) سے بعض نعمتوں کی زکات کے بارے میں یوں منقول ہے:

  • علم کی زکات: اہل لوگوں میں اس کی نشر و اشاعت اور اپنے نفس کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا۔
  • مقام و منصب کی زکات: کار خیر میں اسے بروئے کار لانا ہے۔
  • بردباری کی زکات: تحمل اور صبر ہے۔
  • مال کی زکات: بخشش اور جود و سخاوت ہے۔
  • قدرت کی زکات: عدل و انصاف ہے۔
  • خوبصورتی کی زکات: عفت و پاکدامنی ہے۔
  • کامیابی کی زکات: احسان ہے۔
  • بدن کی زکات: جہاد اور روزہ ہے۔
  • مال و دولت کی زکات: ہمسایوں سے نیکی اور صلہ رحم ہے۔
  • تدرستی کی زکات: خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں سعی و تلاش کرنا ہے۔
  • شجاعت کی زکات: خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔
  • حاکم کی زکات: بے یار و مددگاروں کی امداد کرنا ہے۔
  • خدا کی نعمتوں کی زکات: نیک کاموں کی انجام دہی ہے۔

وجوب

زکات کا وجوب دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار کفر اور ارتداد کا موجب ہے۔ [39] چونکہ زکات ایک عبادت ہے اس بنا پر اس کی ادائیگی میں نیت (قصد قربت) شرط ہے۔[40]

قرآن کی مختلف آیات من جملہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 156 ، سورہ نمل کی آیت نمبر3 ، سورہ لقمان کی آیت نمبر4، اور سورہ فصلت کی آیت نمبر4 جو کہ سب کے سب مکّی سورتیں ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات پیغمبر اکرم کی مکی زندگی میں واجب ہوئی تھی۔ لیکن جب پیفمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوئی تو خدا کی طرف سے لوگوں سے باقاعدہ طور پر زکات وصول کرنے پر مامور ہوئے۔ نہ یہ کہ خود لوگ اپنی صوابدید پر خرچ کرے۔ آیہ شریفہ "خُذْ مِنْ أَمْوالِہمْ صَدَقَة…” (ترجمہ: اے رسول! ان لوگوں کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لیں…)[41] اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ مشہور ہے کہ یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی اس کے بعد سورہ توبہ کی آیت نمبر60 میں زکات کے مصارف کو بیان کیا گیا ہے۔ [42]

سابقہ امتوں میں

دین اسلام کے علاوہ گذشتہ امتوں میں بھی زکات کا حکم تھا، لھذا زکات اور نماز کو تمام آسمانی اور الہی ادیان کے مشترکہ اعمال اور عبادات میں شکار کئے جاتے ہیں جس پر قرآن کی بہت ساری آیات دلالت کرتی ہیں۔[43]

آیات اور احادیث میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں زکات کا حکم دوسری امتوں کی طرح صرف ایک اخلاقی سفارش اور وصیت کے طور پر نہیں بلکہ اسلام میں زکات ایک اہم الہی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ زکات کو اہمیت نہ دینے والے پر فسق اور اسکے وجوب کے منکر پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے۔[44]

جن چیزوں پر زکات واجب ہے

زکات 9چیزوں پر واجب ہے:

۱- گیہوں، ۲- جو، ۳- کھجور، ۴- کشمش، ۵- سونا، ۶- چاندی، ۷- اونٹ، ۸- گائے، ۹- بھیڑ۔

بعض حضرات سرمایہ کو بھی درج بالا موارد کے ساتھ ملحق کرتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ سرمایہ پر زکات واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔[45] [46]

جو شخص مذکورہ بالا اشیاء میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور بقیہ شرایط بھی پائے جاتے ہوں تو اس شخص پر واجب ہے اس چیز کا ایک معین مقدار جسے شریعت نے معین کی ہے کو بہ عنوان زکات ادا کرے۔

زکات کی ادائیگی میں نیت شرط ہے چونکہ زکات ایک واجب عمل ہے اور ہر واجب عمل کیلئے نیت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اس عمل کو قصد قربت اور خدا کے حکم کی تعمیل کی نیت سے انجام دینا ضروری ہے۔

زکات کے وجوب اور اس کے نصاب کے حوالے سے مجتہدین نے مختلف احکام بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل کیلئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس حوالے سے مشہور فقہا کا نظریہ کچھ یوں ہے:

غلات میں زکات کی شرایط

غلات (گیہوں، جو، کھجو اور کشمش) پر زکات واجب ہونے کیلئے دو بنیادی شرایط کا ہونا ضروری ہے:

۱. شخص کھیتی باڑی کا مالک ہو۔

۲. محصول حد نصاب تک پہنچ جائے، جو تقریبا۸۴۷ کیلوگرم ہے۔

غلات میں آبپاشی کے مختلف ہونے سے ان پر زکات کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے یعنی اگر آبپاشی بارش، نہر یا زمین کی تری کے ذریعے ہوتی ہے تو اس صورت میں محصول کا دسواں حصہ زکات کے عنوان سے دینا ضروری ہے لیکن اگر آبپاشی کنویں کے پانی کے ذریعے ہو تو اس صورت میں محصول کا اکیسواں حصہ بہ عنوان زکات ادا کرنا واجب ہے۔ [47]

سونے اور چاندی میں زکات کی شرایط

سونا اور چاندی پر درج ذیل شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:

۱. سونے اور چاندی پر اس وقت زکات واجب ہوتی ہے جب انہیں رائج الوقت سکے کی صورت میں ہو اور ان کے ذریعے باقاعدہ لین دین اور خرید و فروخت کی جاتی ہو۔

۲. مکلف کی ملکیت میں پورا سال گذر جائے۔

۳. حد نصاب تک پہنچ جائے۔ سونا اور چاندی میں سے ہر ایک کیلئے شریعت میں دو دو نصاب معین ہے۔

پہلا نصاب: 20 مثقال شرعی جو تقریبا(۶۹ گرام) ہے، سونے کیلئے جبکہ 200درہم جو تقریبا(۶۰۰ گرام) ہے، چاندی کیلئے۔ دوسرا نصاب: 4مثقال شرعی سونے کیلئے جبکہ 21 مثقال چاندی کیلئے۔ [48]

حیوانوں میں زکات کی شرایط

حیوانات(اونٹ، گائے، بھیڑ) پر چار شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:

۱. ایک سال گذر جائے۔

۲. بیابان میں چرے۔

۳. پورا سال ان سے کوئی کام جیسے بابرداری وغیرہ نہ لیا جائے۔

۴. حد نصاب تک پہنچے۔ مجموعی طور پر اونٹ کے بارہ گائے کے دو اور بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں۔ اونٹ کا پہلا نصاب 5 اونٹ ہے پانج سے کم اونٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔ گائے کا پہلا نصاب 30 گائیں اور 30 سے کم پر زکات واجب نہیں نیز بھیڑ کا پہلا نصاب 40 بھیڑیں ہیں اور اس سے کم پر زکات واجب نہیں ہوتی۔ [49]

زکات کا مصرف

مصرف زکات کی تعیین میں مفسرین جس ایت سے استناد کرتے ہیں وہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 ہے۔انَّما الصَّدقاتُ للفُقَراء و المَساکین و العاملین عَلَیها وَ المُؤلَّفَة قُلُوبُهم وَ فی الرّقاب و الغارمین و فی سبیل الله و ابن السبیل فریضَة مِنَ الله و الله عَلیمٌ حکیم جس میں آٹھ موارد بیان ہوئے ہیں جن پر زکات صرف کی جاتی ہے:

  1. فقراء؛
  2. مساکین؛
  3. خو شخص امام یا آپ کے نمائندے کی جانب سے زکات جمع آوری، حفاظت، حساب و کتاب یا زکات کو آپ تک پہنچانے یا آپ کی اجازت سے اسے مختلف کاموں میں صرف کرنے کیلئے ؛
  4. کمزور ایمان افراد جنہیں مالی معاونت کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ (مؤلفة قلوبهم)
  5. غلاموں اور کنیزوں کی خریداری اور آزادی کیلئے۔
  6. مقروض افراد جو اپنا قرضہ ادا نہ کر سکتے ہوں۔
  7. فی سبیل اللہ یعنی ایسے کام جس سے عام طور پر دینی امور میں منفعت ملتی ہو۔
  8. ابن سبیل، یعنی وہ افراد جو سفر میں تہی دست ہوگئے ہوں چاہے اپنے وطن میں مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ »[50]

مستحقین زکات کی شرایط

  1. خدا، رسول اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہو۔
  2. زکات دینے سے گناہ میں معاونت نہ ہوتی ہو۔ البتہ عدالت اور گناہگار نہ ہونا شرط نہیں ہے۔
  3. زکات لینے والا زکات دینے والے کا واجب النفقہ افراد میں سے نہ ہو۔
  4. اگر زکات دینے والا غیر سید ہو تو زکات لینے والا سید نہ ہو لیکن اگر زکات دینے والا بھی سید ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

زکات فطرہ

اصلی مضمون: زکات فطرہ

زکات فطره اس مال کو کہا جاتا ہے جسے مخصوص شرایط کے ساتھ رمضان المبارک کی اختتام اور عید فطر کے وقت واجب ہوتا ہے۔ زکات فطرہ کی مقدار اپنے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر فرد جو اس کے گھر سے کھانا کھانے والا شمار ہوتا ہو، کے بدلے میں ایک ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) گیہوں یا جو یا کجھور یا کشمش دینا واجب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی بجائے اس کی قیمت بھی دے سکتا ہے۔

مذہب

خُمس ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا اطلاق فقہ میں مذکور مخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اور بعض دوسری چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ خمس، فروع دین میں سے ہے جس کا تذکرہ سورہ انفال کی آیت نمبر 41 اور کتب احادیث میں 110 سے زیادہ احادیث میں ملتا ہے۔

خمس کے وجوب کو کم و بیش اسلام کے تمام مذاہب قبول کرتے ہیں لیکن مذہب امامیہ میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس کی بنا پر خمس کی ادائگی کو اہل تشیع ایک اہم شرعی ذمہ داری اور عبادت کے طور پر خاص اہمیت دیتے ہیں۔

خمس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں سے ایک حصہ سہم سادات کہلاتا ہے جسے پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے فقیر سادات جو اپنی زندگی کے اخراجات پوری نہیں کر سکتے، کو دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ سہم امام جسے امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کے توسط سے مختلف دینی امور میں خرچ کیا جاتا ہے۔

خمس سے حاصل ہونے والی وجوہات دینی مدارس اور اسلامی معاشرے میں دینی معارف کی تروج میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

قرآنی دلیل

قرآن مجید میں سورہ انفال کی آیت نمبر 41 میں خداوند عالم نے خمس کی ادائگی کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقانِترجمہ= اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔

شأن نزول: یہ آیت خمس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کیونکہ یہ آیت جنگ بدر کے مجاہدین سے مخاطب ہے اور انکی حقیقی ایمان کو خمس کی ادائگی کے ساتھ مشروط فرما رہے ہیں۔

غنیمت کے معنی

لغوی اعتبار سے "غُنم” اس منفعت کو کہا جاتا ہے جسے انسان حاصل کرتا ہے فرق نہیں یہ منفعت تجارت وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو یا جنگ کے ذریعے حاصل ہو یا کسی اور طریقے سے۔ راغب اصفہانی ، مفردات القرآن میں کہتا ہے کہ "غنم” اصل میں بھیڑ کے معنی سے لیا گیا ہے جسے بعد میں ہر اس منفعت پر اطلاق کیا گیا جو انسان دشمن یا غیر دشمن سے حاصل کرتا ہے۔ طبرسی نے بھی غُنم کو منفعت کے معنی میں لیا ہے نہ فقط جنگی غنیمت میں جس طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 94 میں "غنائم” سے مراد بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو غنیمت کو صرف جنگی غنائم کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں وہ بھی غنیمت کے اصلی معنی کی وسعت سے انکار نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کا اصلی معنی انسان کو حاصل ہونے والی ہر منفعت ہے۔

احادیث خمس

وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں تقریبا 110 احادیث خمس کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ روایات میں خمس کیلئے جو آثار بیان ہوئے ہیں ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:

  • نسل کی پاکیزگی [1]
  • دین کی تقویت [2]
  • اہل بیت(علیہ السلام)کا مددگار [3]
  • مال و دولت کی پاکیزگی [4]
  • دشمنوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں عزت و آبرو کی حفاظت [5]
  • اہل بیت (علیہم السلام) کی ذریت سے فقر اور تنگدستی کا خاتمہ [6]
  • گناہوں کا کفارہ اور قیامت کیلئے ذخیرہ [7]
  • بہشت کی ضمانت [8]
  • امام کی دعا [9]
  • رزق کی کنجی [10]

اسلام کی تاریخ میں خمس

فقہا اور مفسرین کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال، جنگ بدر کے دوران خمس واجب ہوا۔ اس جنگ میں نصیب ہونے والی کثیر غنیمت‌ نے اسے جمع کرنے والوں کے درمیان اس کی تقسم کے حوالے سے تنازعات اور اختلاف پیدا کئے۔ اسللام سے پہلے عربوں میں یہ رواج تھا کہ اس طرح کے مواقع پر جنگ کا سپہ سالار غنیمت کے چوتھے خصے کا مالک بنتا تھا اور بقیہ تین حصے دیگر جنگجؤوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ [11]

آیت انفال کے نازل ہونے کے ساتھ انفال کل کا کل رسول خدا سے مختص ہوا۔ اس کے بعد آیہ خمس نے 1/5 حصہ بہ عنوان خمس کم کرنے کے بعد غنیمت کو جمع کرنے والوں کی ملکیت قرار دے دی۔ طبری نے پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے پہلی مرتبہ خمس کے دریافت کرنے کو غزوہ بنی قینقاع کی طرف نسبت دی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین سے مختلف احادیث اور خطوط خمس کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں جو خمس کے فقہی احکام کیلئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ائمہ معصومین کے بعض شاگردوں نیز غیبت صغری کے دوران شیعہ فقہاء جیسے حسین بن سعید اہوازی، علی بن مہزیار اہوازی، محمد بن اورمہ قمی اور محمد بن حسن صفار نے بھی خمس کے بارے میں مختلف رسالے اور کتابیں لکھی ہیں۔ اسکے علاوہ بعد کے ادوار میں بھی اس حوالے سے رسالوں اور کتابوں کی تالیف شیعہ فقہاء اور علماء کی سیرت میں شامل رہی ہے۔[12]

خمس کا مصرف

سہم امام اور سہم سادات

خمس سے مربوط آیت میں صاحبان خمس کو چھ گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱.خداوند (لِلہ)، ۲.رسول خدا (لِلرّسولِ)، ۳.ذی القُربی، ۴.ایتام، ۵.مساکین، ۶.وہ لوگ جو سفر میں تنگدستی کا شکار ہو گئے ہوں(ابن سبیل)۔

"ذی القُربی” لغت میں انسان کے ہر قسم کی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ لیکن احادیث کی روشنی میں اس آیت میں ذوی القربی سے مراد ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ [13]

سہم امام: جس میں مذکروہ بالا گروہ میں سے ” خدا” و ” پیامبر” اور "ذی القربی” شامل ہے، احادیث کے مطابق اسلامی حکومت کے حاکم اعلی (پیغمبر یا امام معصوم) سے مختص ہے جو "سَہم امام” کے نام سے معروف ہے۔ غیبت کبرا کے زمانے میں جامع الشرایط مجتہدین امام زمان(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے سہم امام دریافت کرتے ہیں اور معصومین کے فرامین کے تحت مختلف دینی امور میں صرف کرتے ہیں۔
سہم سادات: خمس کے حوالے سے دوسری بحث یہ ہے کہ آیا خمس سے مربوط آیت میں یتیم، مسکین، اور ابن سبیل سے مراد ہر وہ شخس ہے جس پر یتیم، مسکین، اور ابن سبیل صدق آتا ہے یا یہ کہ اس سے مراد صرف وہ فقیر، مسکین اور ابن سبیل مراد ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے ہو؟
شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ سے ایسے فراد ہیں جن پر یہ عناوین صدق آتے ہیں۔[14] اسی بنا پر اس حصے کو "سہم سادات” کہا جاتا ہے

جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے

مشہور شیعہ فقہا کے مطابق ائمہ معصومین کے فرامین کی روشنی میں جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. کار و بار یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والے منافع میں سے سال کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچ جائے۔ (احکام)
  2. مال غنیمت، کافر حربی کے ساتھ جنگ سے حاصل ہونے والی غینمت، منقول یا غیر منقول۔ (احکام)
  3. معدنیات، جس میں سونا، چاندی، لوہا، تانبہ، پیتل، پتھر کا کوئلہ، تیل، گندھگ، فیروزہ، نمک اور دوسری چیزیں جو کان کھود کر نکالی جاتی ہیں ۔(احکام)
  4. خزانہ (گنج) یعنی وہ مال جو زمین، پہاڑ، دیوار، یا درخت وغیرہ کے اندر چھپایا گیا ہو۔ (احکام)
  5. جواہرات، غوطہ خوری کے ذریعے سمندر یا دریا سے جو موتی، مونگے وغیرہ ملتی ہیں (احکام)
  6. مال مخلوط بہ حرام، حلال مال کا حرام مال کے ساتھ اس طرح مخلوط ہونا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہ ہو اور مال حرام کی مقدار اور اس کے مالک کا بھی کوئی علم نہ ہو ۔( احکام)
  7. جو زمین کافر ذمی کسی مسلمان سے خریدے ۔ (احکام)

خمس کا محاسبہ اور اس کی ادائیگی

  • خمس کی ادائیگی میں تأخیر جائز نہیں ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خمس کی ادئیگی تاخیر سے کام لے اور اپنے آپ کو خمس کا مقروض قرار دے۔
  • بیوی بچوں کے مال دولت کا خمس ان کے اپنے ذمہ ہیں۔
  • خمس کو مجتہد تک پہنچانا واجب ہے یا اس کی اجازت سے خرچ کرے لہذا مجتہد کی اجازت کے بغیر خمس کو کسی کام میں خرچ کرنا چائز نہیں ہے۔
  • خمس ایک عبادت ہے اس بنا پر قصد قربت کی ضرورت ہے۔

خمس کا سال

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزہ رکھنا چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ سال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے ہوئے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتداء:

  • کسان کے لئے………………. پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔
  • ملازم کے لئے………………. پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • مزدورکے لئے ……………… پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • دوکاندار کے لئے…………… پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔
  • اگر کسی نے اب تک خمس کا سال معین نہ کیا ہو تو بہترین کام یہ ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کرتا ہے ان کے دفتر یا ان کے وکیل سے رجوع کیا جائے۔

خمس کے احکام

  • اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔
  • اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب کے طور پر اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • جو شخس کسی پیشے سے وابستہ نہ ہو اور اتفاقا کوئی کاروبار انجام دے اور اس میں اسے منافع حاصل ہو تو ایک سال گذرنے کے بعد سال کے اخراجات کو کسر کرنے کے بعد مابقی کا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا کرنا واجب ہے۔ [15]
  • بعض آمدنیوں(جیسے بخشی گئی چیزیں، انعامات اور عیدی وغیرہ) کے اوپر خمس واجب ہونے اور نہ ہونے میں مجتہدین کا اختلاف ہے ۔
  • اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر شک کریں کہ میزبان خمس ادا کرتا ہے یا نہیں تو تحقیق کرنا واجب نہیں ہے اور کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سال کا خرچہ

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔ اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کا پانچواں حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی اپنے لئے بچت کرے۔ لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیں جو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

  • خوارک و پوشاک
  • گھریلو سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔
  • گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔
  • مہانوں کا خرچہ۔
  • شادی بیاہ کا خرچ۔
  • ضروری اور لازم کتابیں۔
  • زیارت کا خرچ
  • انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔
  • ادا کیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔

اہل سنت میں خمس کا نظریہ

اہل سنت کے فقہی منابع میں خمس کا موضوع بنیادی طور پر جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت کے باب میں مورد بحث قرار پاتا ہے۔ اہل سنت فقہاء، شیعہ فقہاء کی طرح خمس سے مربوط آیت اور متواتراحادیث کی روشنی میں خمس کے وجوب پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ خمس کے باب میں عمدہ اختلاف موارد وجوب خمس اور خمس کے مصرف میں ہے۔ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں وجوب خمس کے اہم ترین موارد جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت ہے۔ اس حوالے سے ان کا اصلی مدرک خمس سے مربوط آیت ہے جس کا شأن نزول مفسرین کے نظریے کے مطابق جنگ بدر سے مربوط ہے۔ اس کے باوجود اہل سنت فقہاء گنج(خزانہ/ دفینہ) کو بھی خاص شرایط کے ساتھ وجوب خمس کے موارد میں شمار کیا ہے۔ فیء اسی طرح معدنیات کے مختلف اقسام اور کافر ذمی کا مسلمان سے خردی ہوئی زمین کے بارے میں بھی وجوب خمس کے حوالے سے اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

مذہب