مضامین

قربانی حضرت ابراہیم کی سنت اور حج کے باب میں ایک واجب عمل ہے جسے حضرت محمد(ص) کی امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم کوبھی اللہ تعالی کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (ترجمہ: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو) [1] قربانی کرنا حج پر جانے والے ہر مسلمان پر واجب ہے جس کے مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ حجاج کے علاوہ باقی مسلمان بھی اپنے اپنے ملکوں میں 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے دن اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی
لغوی اعتبار سے "قربانی” لفظ "قربان” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے خداوند متعال کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعے ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعے۔

اصطلاح میں عید قربان کے دن جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام منا میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کی کسی بھی حگہ پر انجام دیں۔

قربانی کا فلسفہ
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس کے بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

نیازمندوں کی مدد: پیامبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ نادار لوگ اس کے گوشت سے استفادہ کرسکیں”اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے: فَکُلُواْ مِنْهَا وَ أَطْعِمُواْ الْقَانِع َ وَ الْمُعْتَرَّ (ترجمہ: اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ)۔

گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔” قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (ترجمہ: خدا تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون … اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو)

موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے)۔

قرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔”

قربانی کے احکام
حج تمتع میں اونٹ، گائے اور گوسفند یا بکري میں سے کسی ایک کو قرباني کرنا واجب ہے۔ قربانی کے جانور ميں نر یا مادہ میں کوئی فرق نہیں البتہ اونٹ کی قربانی کرنا بہتر ہے۔ مذکورہ جانوروں کے علاوہ ديگر حيوانات کی قربانی کرنا کافي نہيں ہيں۔

حج میں قربانی کے شرائط
قرباني کرنا ايک عبادت ہے اس بنا پر اس میں بھی دوسرے شرائط کے ساتھ نيت بھی شرط ہے۔
قرباني کے جانور میں درج ذیل شرائط اور خصوصیات ہونا ضروری ہیں۔
عمر، بنابر احتیاط واجب اونٹ چھٹے سال ميں داخل ہوچکا ہو اور گائے اور بکری تيسرے سال ميں اور گوسفند دوسرے سال ميں داخل ہوئے ہوں اور مذکورہ عمر کی حد بندی، جانور کی کمترین عمر کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے لیکن زیادہ عمر کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے اور قربانی کی عمر اس سے زیادہ ہو تو بھی کافی ہے اس شرط پر کہ جانور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔
جانور صحيح و سالم ہو۔
بہت دبلا اور کمزور نہ ہو۔
اسکے اعضا پورے ہوں۔ پس ناقص حیوان کی قربانی کرنا کافي نہيں ہے جيسے آختہ شدہ یا جس جانور کے بيضے نکالے گئے ہوں۔ لیکن جس کے بيضے کوٹ ديئے جائيں لیکن خصی کی حد کو نہ پہنچ جائے تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دم کٹا، آدھا، مفلوج، کان کٹا اور وہ حیوان جس کّے اندر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہو یا پیدائشی طور پر ہی معذور ہو تو اس کی قربانی کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے حيوان کی قربانی کافی نہيں ہے کہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف کے جانوروں ميں عام طور پر پایا جاتا ہے اور ایسے عضو کا نہ ہونا نقص شمار ہوتا ہے۔ لیکن جس جانور کے باہر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے اور جس جانور کا کان پھٹا ہوا ہو يا اسکے کان ميں سوراخ ہو تو اس ميں بھی کوئي حرج نہيں ہے۔

چند فرعی مسائل

اگر ايک جانور کو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح کرے پھر اس کے مريض يا ناقص ہونے کا انکشاف ہو تو مالی توان کي صورت ميں دوسري قرباني کو ذبح کرنا واجب ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکرياں مارنے کے بعد قربانی کی جائے۔
احتیاط کی بنا پر قربانی کے ذبح کرنے کو اختیاری حالت میں روز عيد سے زیادہ تاخیر نہ کرے پس اگر جان بوجھ کر ، بھول کر، لاعلمي کي وجہ سے، کسي عذر کي خاطر يا کسی اور سبب کی وجہ سےذبح کو تاخیر میں ڈال دےتو احتیاط واجب کی بنا پر ، ممکن ہوتو اسے ايام تشريق ميں ذبح کرے ورنہ ذي الحجہ کے مہینے کے ديگر دنوں ميں ذبح کرے اور علی الظاہرذبح کو دن ميں انجام دے یا رات میں اس میں کوئی فرق نہيں ہے ۔
ذبح کرنے کي جگہ مني، ہے پس اگر مني ميں ذبح کرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح کرنے کيلئے جو جگہ تيار کي گئي ہے اس ميں ذبح کرنا کافي ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ اثنا عشری ہو ہاں اگر نيت خود کرے اور نائب کو صرف رگيں کاٹنے کيلئے وکيل بنائے تو شیعہ اثنا عشری کي شرط کا نہ ہونا بعيد نہيں ہے۔
قربانی کو خود انجام دے یا اس کی طرف سے وکالت حاصل کر کے کوئی دوسرا انجام دے ليکن اگر کوئي اور شخص بغیر اسکی ہماہنگی اور وکیل بنانے کے اسکی طرف سے ذبح کرے تو يہ محل اشکال ہے اور بنابر احتیاط اسی پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔
ذبح کرنے کے آلے ميں شرط ہے کہ وہ لوہے کا ہو اور سٹيل (وہ فولاد جسے ايک ايسے مادہ کے ساتھ ملايا جاتا ہے تاکہ زنگ نہ لگے) لوہے کے حکم ميں ہے۔ ليکن اگر شک ہو کہ يہ آلہ لوہے کا ہے يا نہيں تو جب تک یہ واضح نہ ہو کہ يہ لوہے کا ہے یا نہیں اسکے ساتھ ذبح کرنا کافي نہيں ہے۔

دعائے قربانی
قربانی کو ذبح کرتے وقت بہتر ہے اس دعا کو پڑھی جائے: بِسمِ الله الرّحمن الرّحیم، یا قَومِ اِنّی بَریءٌ مِمّا تُشرِکون اِنّی وَجَّهتُ وَجهی لَلَّذی فَطَرَالسَّمواتِ وَالاَرضَ حَنیفاً مُسلِماً وَما اَنَا مِنَ المُشرِکینَ اِنَّ صَلاتی وَ نُسُکی وَ مَحیایَ وَ مَماتی لِلّه رَبِّ العالَمینَ لا شَریکَ لَهُ وَ بِذالِکَ اُمِرتُ وَ اَنا مِنَ المُسلِمینَ اَللّهمَّ مِنکَ وَلَکَ بِسمِ الله وَ بِاللهِ وَ اللهُ اَکبَرُ اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

اس دعا کے بعد ذبح کرے اگر ذبح کرنے والا خود اپنی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو یہ کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِنّی

لیکن اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِن فُلانِ بنِ فُلان فلان بن فلان کی جگہ اس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے۔

البتہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اور ذبح کر رہا ہے اور ممکن ہو تو صاحب قربانی ذبح کرنے والے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اور مذکورہ دعا کو خود پڑھے۔

مذہب

نَذْر کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر واجب کرے کہ کوئی نیک کام خدا کیلئے انجام دے گا یا ایسا کام جس کو انجام نہ دینا بہتر ہے اسے خدا کیلئے ترک کرے گا۔ شریعت کی نظر میں نذر اس وقت واجب العمل ہو گا کہ انسان اس کا صیغہ عربی یا کسی اور زبان میں ادا کرے۔ نذر تمام انبیائے کرام کا مورد پسند ایک سنت حسنہ ہے اور گذشتہ امتوں میں بھی تھی اور اسلام میں بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ ائمہ اطہار(ع) کیلئے نذر کرنا نذر کی مؤثرترین اقسام میں سے ہے۔

تعریف
یہ لفظ لغت میں کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنے کو کہتے ہیں اور فقہی اصطلاح میں نذر یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے کسی نیک کام کو انجام دینے یا کسی برے کام کو ترک کرنے کو اپنے اوپر واجب کرے۔  مثال کے طور پر نذر یہ ہے کہ انسان ان الفاظ میں نذر کا صیغہ پڑھے: میں نذر کرتا ہوں کہ اگر میری بیماری ٹھیک ہو جائے تو میں اپنے اوپر واجب کرتا ہوں کہ خدا کیلئے ایک لاکھ تومان کسی فقیر کو دوں گا۔

نذر کی تاریخ
نذر ایک پسندیدہ سنت ہے جو تمام انبیاء الہی اور گذشتہ امتوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اسلام میں اس کی مشروعیت کافی پرانی ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عمران کی بیوی یعنی حضرت حضرت مریم(س) کی ماں کے نذر کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اس وقت کو یاد کرو جب عمران علیھ السّلام کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے”۔

سورہ مریم میں حضرت عیسی(ع) کی پیدائش کا واقعہ بیان کرتے ہوئے خداوند متعال حضرت مریم(س) سے فرماتے ہیں: ” پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی۔” اس آسمانی کتاب میں "عباد الرحمن” کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یہ بندے نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔”

امام صادق(ع) ایک روایت میں آیت "یوفون بالنذر” کی شأن نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) بیمار تھے ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرات حسنین (ع) سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے اور حضرت علی(ع) سے فرمایا: بہتر ہے اپنے فرزندوں کی صحت و سلامتی کیلئے کوئی نذر کی جائے۔ حضرت علی(ع) نے فرمایا میں نذر کرتا ہوں اگر یہ دونوں صحت یاب ہو جائے تو شکرانے میں خدا کیلئے تین دن روزہ رکھوں گا۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ(س) اور آپ کی کنیز فضّہ نے بھی اس نذر کو تکرار کئے اور نتیجے میں خدا نے حسنین شریفین(ع) کو صحت و سلامتی عنایت فرمائی اور خود ان دو ہستیوں نے بھی ساتھ روزہ رکھے۔

بنابراین "نذر” نہ صرف توحید، رضا، تسلیم اور خدا کے مقابلے میں ادب و احترام کے منافی نہیں ہے بلکہ اس نذر پر عمل پیرا ہونا اور اس عہد کو پورا کرنا حق تعالی پر ایمان اور خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور خالق حقیقی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہونے کا سبب ہے اور یہ چیز اہل بیت(ع) عصمت و طہارت اور مؤمنین کے درمیان رائج اور مرسوم ہے۔

شرائط

نذر حقیقت میں خدا کے ساتھ عہد و پیمان ہے، تا کہ بندے کی طرف سے اپنے اوپر واجب کرنے والے نیک کام کے انجام دینے کے نتیجے میں خداوندعالم اس بندے کی حاجب پوری کرتا ہے۔ نذر کے مخصوص آداب اور شرائط ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

صیغہ نذر
شریعت کی رو سے نذر اس وقت واجب العمل ہو جاتا ہے کہ اس کا صیغہ عربی میں پڑھا گیا ہو یا کسی اور زبان میں پڑھا جائے لیکن شرط یہ ہے کہ اس مضمون کا حامل ہو: اگر میری فلان حاجت پوری ہو جائے تو میں خدا کیلئے فلان نیک کام انجام دوں گا۔ بنا بر این اگر انسان اس مطلب کو اپنے ذهن میں مرور کرے لیکن اسے زبان پر نہ لائے اور مذکورہ صیغہ کو جاری نہ کرے تو یہ نذر واجب العمل نہیں ہو گا البتہ اس پر عمل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

متعلق نذر
جس کام کو انجام دینے کی نذر کی جاتی ہے اس کا پسندیدہ ہونا ضروری ہے۔ پس اگر کسی حرام یا مکروہ کام کو انجام دینے کی نذر کرے یا کسی واجب یا مستحب کو ترک کرنے کی نذر کرے تو نذر صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی مباح کام کو جس کا انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہے، کو انجام دینے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس مباح کام کو کسی جہت سے انجام دینا پسندیدہ ہو اور نذر کرنے والا اسی جہت کو مد نظر رکھ کر نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔(مثلا نذر کرے کہ ایک ایسی غذا کھاؤں گا جس سے عبادت انجام دینے کی توانائی حاصل ہو جاتی ہے) اسی طرح اگر اس مباح کام کو ترک کرنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو اور انسان اسی جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ترک کرنے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔ اگر انسان اپنی واجب نماز کو ایک ایسی جگہ پڑھنے کی نذر کرے جہاں پر نماز پڑھنا ذاتا تو کوئی اضافی ثواب کا باعث نہ ہو مثلا کمرے میں نماز پڑھنے کی نذر کرے۔ لیکن وہاں نماز پڑھنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو مثلا یہ کہ شور و غل نہ ہونے کی وجہ سے انسان حضور قلب پیدا ہوتی ہو تو اس جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔

اس کام کو انجام دینا امکان پذیر ہو
انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا امکان پذیر ہو بنابراین اگر کوئی شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اس کے باوجود پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔

نذر کرنے والا
نذر کے صحیح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ نذر کرنے والے میں درج ذیل شرائط پائی جاتے ہوں:

  • مکلف ہو: نذر صحیح ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا مکلف ہو بنابراین اگر کوئی مکلف نہ ہو تو اس نذر پر عمل کرنا واجب نہیں ہے۔
  • عاقل ہو: نذر کی دوسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا عاقل ہو۔ بنابراین جو شخص بے وقوف ہو جو اپنے اموال کو بے ہودہ کاموں میں خرچ کرتا ہو یا حاکم شرع اسے اپنے اموال میں تصرف کرنے سے منع کیا ہو تو اس کے اموال سے متعلق نذر صحیح نہیں ہے۔
  • مختار ہو: تیسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا اپنے ارادے اور اختیار سے نذر کرے، بنابراین اس شخص کا نذر صحیح نہیں ہے جسے نذر کرنے پر مجبور کیا گیا ہو یا غصے کی وجہ سے بے اختیار کوئی نذر کیا ہو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔
  • نذر کا ارادہ ہو: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت نذر کا ارادہ رکھتا ہو بنابراین صرف ذہن میں خطور کرنے یا صرف صیغہ پڑھنے یا مستی کی حالت میں نذر واجب نہیں ہو جاتا ہے۔
  • قصد قربت: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت قصد قربت رکھتا ہو پس کافر اور ریاکاری کیلئے اگر کوئی نذر کرے تو یہ نذر منعقد نہیں ہوگا۔
  • امکان پذیر ہو: جس چیز کی نذر کی ہے وہ نذر کرنے والے کی قدرت میں ہو یعنی نذر کرنے والے کی استطاعت میں ہو کہ وہ نذر کو انجام دے۔ بنابراین نذر محال عرضی پر تعلق نہیں پکڑتا ہے۔
  • معصیت انجام دینے کی نذر کرنا: جس چیز کی نذر کی گئی ہے وہ ایک عبادت یا مباح کام ہو بنابراین کسی معصیت کی انجام دہی کی نذر کرنا صحصح نہیں ہے۔

نذر پر عمل کرنا امکان پذیر نہ ہو
نذر پر عمل کرنا ممکن نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

یہ کہ شروع سے ہی نذر پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا۔
یہ کہ جس وقت نذر کر رہا تھا اس پر عمل کرنا امکان پذیر تھا، لیکن نذر کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا نا ممکن ہوا ہو۔
پہلی صورت میں مراجع تقلید فرماتے ہیں: انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا اس کیلئے ممکن ہو بنابراین جو شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اگر پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔

دوسری صورت میں فقہاء فرماتے ہیں: اگر روزہ کے علاوہ کسی اور کام کی نذر کی ہو تو یہ نذر باطل ہے اور اس کی گردن پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ ولى اگر روزہ‏‌ رکھنے کی نذر کی ہو اور کسی پیشگی اطلاع کے روزہ رکھنا اس کیلئے ممکن نہ ہو تو اس کی قضا رکھنا واجب ہے اور اگر قضا بھی ممکن نہ ہو تو ایک مدّ کھانا کسی فقیر کو بطور صدقہ دے دیں۔

نذر کی اقسام
نذر کرنے والے کی قصد کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کی دو قسم ہے:

معلق اور مشروط نذر
نذر کرنے والا اپنے نذر کو کسی کام کے ساتھ معلق اور مشروع کر دیتا ہے، مثلاً یہ کہ اگر میری فلان حاجب پوری ہوئی تو میں خدا کی خشنودی کیلئے فلان کام کرنگا۔

نذر کی یہ قسم خود دو قسموں میں تقسم ہوتی ہے:

نذر شکرانہ: یہ کہ کسی حاجت کے پوری ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے کی خاطر نذر کرنا، مثلا یہ کہے کہ اگر مجھے فلان بیماری سے نجات مل جائے اور صحت و سلامتی دوبارہ بحال ہو جائے تو فلان کام کرنے کی نذر کرتا ہوں۔
نذر مجازاتی: کسی معصیت کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو تنبیہ کرنے کی خاطر کوئی نذر کرے مثلا یہ کہے کہ اگر میں فلان گناہ کا مرتکب ہوا تو فلان کام انجام دینے کو اپنے اوپر لازم قرار دیتا ہوں۔
نذر تبرّعی
نذر تبرّعی سے مراد یہ ہے کہ نذر کرنے والا نذر کو کسی کام سے مشروع نہیں کرتا مثلا یہ کہ کوئی شخص کسی کام کو اپنے اوپر واجب قرار دے۔

احکام نذر
نذر کی مخالفت
اگر نذر تمام احکام و شرائط کے ساتھ منعقد ہو تو عمدا اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں اس شخص پر كفارہ واجب ہوتی ہے۔

نذر کی نوعیت میں تبدیلی
اگر کوئی شخص شرعی صیغہ پڑھ کر کسی چیز کی نذر کرے تو اسے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اکثر لوگ صیغہ نہیں پڑھتے اس بنا پر نذر شرعی منعقد نہیں ہوتا اس بنا پر اس کو تبدیل کرنے یا سرے سے اسے ترک کرنے میں آزاد ہے۔

عین منذروہ کو تبدیل کرنا
اگر نذر شرعا منعقد ہوئی ہو یعنی صیغہ پڑھ کر نذر کی ہو تو جس چیز کی نذر کی ہے اسے اسی کام میں مصرف کرنا واجب ہے مثلا اگر شخص کسی مشخص گوسفند کی قربانی کی نذر کرے تو کسی اور کو اس کی جگہ قربانی نہیں کر سکتا ہے۔

متعلق نذر کو معین نہ کرنا
عبیداللہ بن علی حلبی، امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام(ع) نے اس شخص کے بارے میں جو متعلق نذر کو معین کئے بغیر کوئی نذر کرتا ہے، فرمایا: "اگر متعلق نذر کو معين کیا ہو تو وہی معین ہے لیکن اگر معین نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔”

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی نذر
چنانچہ اگر بیوی اپنے شوہر کی غیر موجودگی یا اس سے پوچھے بغیر یا اس کی رضایت کے بغیر کوئی نذرکرے تو اس کی نذر صحیح نہیں ہے چاہے مال منذور شوہر کا ہو یا دونوں کا مشترک مال ہو یا خود بیوی کا مال ہو تینوں صورتوں میں نذر باطل ہے۔

نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے میں والدين کی رضامندی
ماں باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتے لیکن متعلق نذر ان کی رضایت مؤثر ہے مثلا یہ کہ ماں باپ اپنی اولاد کو نذر کرنے سے تو منع نہیں کر سکتے لیکن وہ یہ کام کر سکتے ہیں کہ اولاد سے کہے کہ روزے رکھنے کی نذر نہ کرے یعنی متعلق نذر کو روزہ قرار دینے سے منع کر سکتے ہیں۔

ذریعہ

مذہب