عقیقہ، بچے کی ولادت کے ساتویں دن بلا اور مصیبت سے اس کی حفاظت کی غرض سے کی جانے والی قربانی کو کہا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق، عقیقہ آئمہ معصومینؑ کی طرف سے تاکید شدہ سنت اور سیرت میں سے ایک ہے۔ عقیقہ کے حیوان کے انتخاب، ذبح کرنے، اور گوشت کے استعمال کرنے کے خاص آداب اور احکام ہیں.
معنی
عقیقہ فقہ کی اصطلاح میں، اس حیوان کو کہتے ہیں جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن قربانی ہوتا ہے. کیونکہ اس دن، بچے کے سر کے بال بھی اتارے جاتے ہیں، اس دن کی قربانی کو عقیقہ کہتے ہیں.
عقیقہ اور آئمہ معصومین کی سیرت
کلینی نے کتاب الکافی میں عقیقہ کے بارے میں 50 کے قریب روایات بیان کی ہیں. روایات میں، عقیقہ کا فلسفہ بچے کو مصیبتوں اور بلاؤں سے بچانے کو کہا ہے. حسنینؑ کا عقیقہ کرنے کے بارے میں رسول اللہؐ سے متعدد روایات بیان ہوئی ہیں یہ کہ پیغمبرؐ نے آپ کی تولد کی ساتویں دن آپکے بالوں کو اتارا اور ان کے وزن جتنی چاندی صدقہ دیا اور ایک بھیڑ صدقے میں ذبح کی. بعض روایت میں حسنینؑ کے سر کے بال اتارنے اور عقیقہ کرنے کو حضرت زہراءؑ سے نسبت دی گئی ہے. بعض روایات میں ملتا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپؐ نے اپنے لئے عقیقہ کیا تھا. محمد بن مسلم نقل کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے زید بن علی کو حکم دیا کہ اپنے دوبیٹوں کے لئے جو کہ اکھٹے (جوڑوں) دنیا میں آئے تھے، انکے عقیقہ کے لئے دو حیوان خریدے، لیکن مہنگائی اور حیوان نہ ملنے کی وجہ سے زید نے ایک حیوان خریدا اور دوسرا خریدنا اس کے لئے مشکل ہو گیا. اسی وجہ سے اس نے امام باقرؑ سے سوال کیا کہ آیا دوسرے حیوان کی قیمت صدقے میں دے سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: حیوان خریدنے کی جستجو کرو کیونکہ خداوند عزوجل خون بہانے (حیوان کا سر کاٹنے) اور بخشش طعام کو پسند فرماتا ہے شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے ایک ذبح شدہ گائے کسی شخص کے لئے بھیجی اور فرمایا: یہ میرے فرزند محمد کا عقیقہ ہے.
عقیقہ کے آداب
مستحب ہے کہ لڑکے کے لئے نر حیوان اور لڑکی کے لئے مادہ حیوان کی قربانی کی جائے.
اگر بالغ ہونے تک عقیقہ نہ کیا ہو تو انسان پر مستحب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنا عقیقہ کرے.
اہل تشیع کا مشہور عقیدہ ہے کہ عقیقہ مستحب عمل ہے. لیکن سید مرتضی نے صاحب جواھر ابن جنید اسکافی کے قول کے مطابق عقیقہ کو واجب عمل کہا ہے. اس کے واجب ہونے کے بارے میں احادیث بھی وارد ہوئی ہیں. لیکن دوسرے فقھا کی نظر میں ایسا مستحب عمل ہے کہ جس کے بارے میں تاکید کی گئی ہے.
بعض احادیث میں آیا ہے کہ قربانی عقیقہ کی جگہ کافی ہے. یہاں پر قربانی سے مراد حج والی قربانی ہے.
عقیقہ کے احکام اور شرائط
عقیقہ، چار پاؤں والے حیوان جیسے گائے، بکری، اونٹ کا ہونا چاہئے.
مستحب ہے کہ اس میں قربانی کی شروط کی رعایت کی جائے.
قربانی کی جگہ پیسے صدقہ دینا کافی نہیں ہیں.
عقیقہ کے گوشت کی ہڈی کو توڑنا مکروہ ہے.
قربانی اور بچے کے سر کے بال ایک جگہ پر اتارے جائیں.
بچے کے سر کے بال اتارنے کے بعد، حیوان کو ذبح کرنا چاہئے.
استعمال کے موارد
مستحب ہے کہ حیوان کی ایک ٹانگ یا اس کا چوتھا حصہ بچے کی (دایا) کو دیا جائے ، اور اگر وہ نہ ہو تو بچے کی ماں یہ صدقہ دے.
اس گوشت کا کھانا بچے کے والدین کے لئے مکروہ ہے.
مستحب ہے کہ اس گوشت کو پکائیں اور تقریباً ١٠ افراد فقیر، ہمسائے، اور شیعہ کو اس کھانے پر دعوت دی جائے.
عقیقہ کی دعا
« بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ اللَّهُمَّ عَقِیقَةٌ عَنْ فُلَانٍ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیا جائے) لَحْمُهَا بِلَحْمِهِ وَ دَمُهَا بِدَمِهِ وَ عَظْمُهَا بِعَظْمِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ وِقَاءً لآِلِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه و آله»
اس بارے میں ایک اور دعا بھی وارد ہوئی ہے: يا قَوْمِ اِنّى بَرىٌ مِمّا تُشْرِكُونَ اِنّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذى فَطَرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ حَنيفاً مُسْلِماً وَ ما اَنَا مِنَ الْمُشْرِكينَ اِنَّ صَلوتى وَ نُسُكى وَ مَحْياىَ وَ مَماتى لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمينَ لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمينَ اَللّهُمَّ مِنْكَ وَ لَكَ بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَاللَّهُ اَكْبَرُ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ تَقَبَّلْ مِنْ …. اور اس کے بعد بچے کا نام لیں اور پھر ذبح کریں.
قربانی حضرت ابراہیم کی سنت اور حج کے باب میں ایک واجب عمل ہے جسے حضرت محمد(ص) کی امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم کوبھی اللہ تعالی کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (ترجمہ: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو) [1] قربانی کرنا حج پر جانے والے ہر مسلمان پر واجب ہے جس کے مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ حجاج کے علاوہ باقی مسلمان بھی اپنے اپنے ملکوں میں 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے دن اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
لغوی اعتبار سے "قربانی” لفظ "قربان” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے خداوند متعال کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعے ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعے۔
اصطلاح میں عید قربان کے دن جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام منا میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کی کسی بھی حگہ پر انجام دیں۔
قربانی کا فلسفہ
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس کے بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
نیازمندوں کی مدد: پیامبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ نادار لوگ اس کے گوشت سے استفادہ کرسکیں”اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے: فَکُلُواْ مِنْهَا وَ أَطْعِمُواْ الْقَانِع َ وَ الْمُعْتَرَّ (ترجمہ: اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ)۔
گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔” قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (ترجمہ: خدا تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون … اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو)
موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے)۔
قرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔”
قربانی کے احکام
حج تمتع میں اونٹ، گائے اور گوسفند یا بکري میں سے کسی ایک کو قرباني کرنا واجب ہے۔ قربانی کے جانور ميں نر یا مادہ میں کوئی فرق نہیں البتہ اونٹ کی قربانی کرنا بہتر ہے۔ مذکورہ جانوروں کے علاوہ ديگر حيوانات کی قربانی کرنا کافي نہيں ہيں۔
حج میں قربانی کے شرائط
قرباني کرنا ايک عبادت ہے اس بنا پر اس میں بھی دوسرے شرائط کے ساتھ نيت بھی شرط ہے۔
قرباني کے جانور میں درج ذیل شرائط اور خصوصیات ہونا ضروری ہیں۔
عمر، بنابر احتیاط واجب اونٹ چھٹے سال ميں داخل ہوچکا ہو اور گائے اور بکری تيسرے سال ميں اور گوسفند دوسرے سال ميں داخل ہوئے ہوں اور مذکورہ عمر کی حد بندی، جانور کی کمترین عمر کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے لیکن زیادہ عمر کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے اور قربانی کی عمر اس سے زیادہ ہو تو بھی کافی ہے اس شرط پر کہ جانور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔
جانور صحيح و سالم ہو۔
بہت دبلا اور کمزور نہ ہو۔
اسکے اعضا پورے ہوں۔ پس ناقص حیوان کی قربانی کرنا کافي نہيں ہے جيسے آختہ شدہ یا جس جانور کے بيضے نکالے گئے ہوں۔ لیکن جس کے بيضے کوٹ ديئے جائيں لیکن خصی کی حد کو نہ پہنچ جائے تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دم کٹا، آدھا، مفلوج، کان کٹا اور وہ حیوان جس کّے اندر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہو یا پیدائشی طور پر ہی معذور ہو تو اس کی قربانی کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے حيوان کی قربانی کافی نہيں ہے کہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف کے جانوروں ميں عام طور پر پایا جاتا ہے اور ایسے عضو کا نہ ہونا نقص شمار ہوتا ہے۔ لیکن جس جانور کے باہر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے اور جس جانور کا کان پھٹا ہوا ہو يا اسکے کان ميں سوراخ ہو تو اس ميں بھی کوئي حرج نہيں ہے۔
چند فرعی مسائل
اگر ايک جانور کو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح کرے پھر اس کے مريض يا ناقص ہونے کا انکشاف ہو تو مالی توان کي صورت ميں دوسري قرباني کو ذبح کرنا واجب ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکرياں مارنے کے بعد قربانی کی جائے۔
احتیاط کی بنا پر قربانی کے ذبح کرنے کو اختیاری حالت میں روز عيد سے زیادہ تاخیر نہ کرے پس اگر جان بوجھ کر ، بھول کر، لاعلمي کي وجہ سے، کسي عذر کي خاطر يا کسی اور سبب کی وجہ سےذبح کو تاخیر میں ڈال دےتو احتیاط واجب کی بنا پر ، ممکن ہوتو اسے ايام تشريق ميں ذبح کرے ورنہ ذي الحجہ کے مہینے کے ديگر دنوں ميں ذبح کرے اور علی الظاہرذبح کو دن ميں انجام دے یا رات میں اس میں کوئی فرق نہيں ہے ۔
ذبح کرنے کي جگہ مني، ہے پس اگر مني ميں ذبح کرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح کرنے کيلئے جو جگہ تيار کي گئي ہے اس ميں ذبح کرنا کافي ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ اثنا عشری ہو ہاں اگر نيت خود کرے اور نائب کو صرف رگيں کاٹنے کيلئے وکيل بنائے تو شیعہ اثنا عشری کي شرط کا نہ ہونا بعيد نہيں ہے۔
قربانی کو خود انجام دے یا اس کی طرف سے وکالت حاصل کر کے کوئی دوسرا انجام دے ليکن اگر کوئي اور شخص بغیر اسکی ہماہنگی اور وکیل بنانے کے اسکی طرف سے ذبح کرے تو يہ محل اشکال ہے اور بنابر احتیاط اسی پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔
ذبح کرنے کے آلے ميں شرط ہے کہ وہ لوہے کا ہو اور سٹيل (وہ فولاد جسے ايک ايسے مادہ کے ساتھ ملايا جاتا ہے تاکہ زنگ نہ لگے) لوہے کے حکم ميں ہے۔ ليکن اگر شک ہو کہ يہ آلہ لوہے کا ہے يا نہيں تو جب تک یہ واضح نہ ہو کہ يہ لوہے کا ہے یا نہیں اسکے ساتھ ذبح کرنا کافي نہيں ہے۔
دعائے قربانی
قربانی کو ذبح کرتے وقت بہتر ہے اس دعا کو پڑھی جائے: بِسمِ الله الرّحمن الرّحیم، یا قَومِ اِنّی بَریءٌ مِمّا تُشرِکون اِنّی وَجَّهتُ وَجهی لَلَّذی فَطَرَالسَّمواتِ وَالاَرضَ حَنیفاً مُسلِماً وَما اَنَا مِنَ المُشرِکینَ اِنَّ صَلاتی وَ نُسُکی وَ مَحیایَ وَ مَماتی لِلّه رَبِّ العالَمینَ لا شَریکَ لَهُ وَ بِذالِکَ اُمِرتُ وَ اَنا مِنَ المُسلِمینَ اَللّهمَّ مِنکَ وَلَکَ بِسمِ الله وَ بِاللهِ وَ اللهُ اَکبَرُ اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ
اس دعا کے بعد ذبح کرے اگر ذبح کرنے والا خود اپنی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو یہ کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِنّی
لیکن اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِن فُلانِ بنِ فُلان فلان بن فلان کی جگہ اس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے۔
البتہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اور ذبح کر رہا ہے اور ممکن ہو تو صاحب قربانی ذبح کرنے والے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اور مذکورہ دعا کو خود پڑھے۔
اسلام میں نذر کی روحانی اہمیت: اللہ کے ساتھ وابستگی کا ایک عقیدت مندانہ عہد
النذر (عربی: النذر) کا مطلب ہے کہ ایک شخص اللہ کی رضا کے لیے کچھ اچھے کام کرنا یا اللہ کی رضا کے لیے کچھ برے کاموں کو ترک کرنا اپنے اوپر واجب کر لے۔ اسلام میں نذر سے مراد ایک گہرا روحانی عمل ہے جہاں ایک فرد رضاکارانہ طور پر اللہ کی رضا کے لیے نیک اعمال کرنے یا منفی اعمال سے پرہیز کرنے کا عہد کرتا ہے۔ یہ عہد ایک معمولی وعدہ نہیں ہے بلکہ جب اسے ایک مخصوص زبانی فارمولے کے ذریعے، خواہ وہ عربی میں ہو یا کسی دوسری زبان میں اس کے مساوی معنی میں، بیان کیا جائے تو مذہبی طور پر لازم ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر، یہ اپنے آپ پر کسی چیز کو واجب کرنا ہے، جو عقیدت اور اللہ کے قریب ہونے کی خواہش سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ عمل کافی قانونی حیثیت رکھتا ہے اور اسلام سمیت مختلف آسمانی روایات میں دیکھا گیا ہے، جہاں اسے ایک قابل تعریف عمل سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں، خاص طور پر اہل بیت کی پیروی کرنے والوں کے درمیان، ائمہ کے لیے نذر ماننا اس عقیدت مندانہ عہد کی ایک خاص طور پر مؤثر شکل سمجھا جاتا ہے، جو ان کی قابل احترام حیثیت کی عکاسی کرتی ہے۔
اسلام میں نذر کو سمجھنا: ایک خود عائد کردہ روحانی وابستگی
لفظ "نذر” کا براہ راست ترجمہ "اپنے لیے کسی چیز کو واجب کرنا” ہے۔ اسلامی فقہ کے تناظر میں، یہ اس عمل کو مجسم کرتا ہے جہاں ایک شخص شعوری طور پر اپنے آپ پر اللہ کی رضا کے لیے مثبت اعمال کرنے یا نقصان دہ کاموں سے باز رہنے کا عہد کرتا ہے۔ نذر کے فارمولے کی ایک عام مثال یہ ہے کہ جب کوئی کہتا ہے، "میں نذر مانتا ہوں کہ اگر، مثال کے طور پر، میرا بیمار عزیز صحت یاب ہو جاتا ہے، تو اللہ کی رضا کے لیے، مجھ پر یہ واجب ہو گا کہ میں ایک غریب شخص کو دس ڈالر دوں۔” یہ واضح طور پر ان نذروں سے منسلک مشروط نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، جو ایک مطلوبہ نتیجے کو کسی مخصوص نیک عمل سے جوڑتا ہے۔ اسلام میں نذر کیا ہے اس کو سمجھنے میں اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خود عائد کردہ روحانی معاہدہ تسلیم کرنا شامل ہے۔
اسلام میں نذر کے روحانی ورثے اور اہمیت کو سمجھنا
نذر کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ تمام الٰہی پیغمبروں اور پچھلی قوموں کی روایات میں پھیلی ہوئی ہے، جو اسے ایک لازوال روایت بناتی ہے جسے اسلام نے تسلیم کیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ قرآن مجید، جو اسلام کا مرکزی مذہبی متن ہے، نذر ماننے اور اسے پورا کرنے کی کئی طاقتور مثالیں فراہم کرتا ہے۔ ایک قابل ذکر واقعہ عمران کی بیوی کا ہے، جو حضرت مریم کی محترم والدہ تھیں۔ قرآن ان کی عقیدت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے، "جب عمران کی بیوی نے کہا، ‘اے میرے رب، میں نے تیرے نام پر وہ چیز نذر کی جو میرے پیٹ میں ہے، خالص کرتے ہوئے۔ اسے مجھ سے قبول فرما؛ یقیناً تو ہی سب سننے والا، سب جاننے والا ہے۔'” (قرآن 3:35)۔ یہ آیت ایک اسلامی نذر میں شامل گہرے ایمان اور پیشگی عقیدت کو اجاگر کرتی ہے۔
ایک اور دل چھو لینے والی مثال سورہ مریم سے ملتی ہے، جہاں حضرت عیسیٰ کے قصے کے بعد، اللہ تعالیٰ حضرت مریم کو ہدایت دیتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ کسی سے بھی ملاقات پر، انہیں اشاروں کی زبان میں بات کرنی چاہیے، یہ کہتے ہوئے، "یقیناً میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھنے کی نذر مانی ہے، لہٰذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔” (قرآن 19:24)۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نذر عقیدت اور نظم و ضبط کی ایک شکل ہے، جس میں خود پر قابو پانے کی منفرد شکلیں بھی شامل ہیں۔ یہ تاریخی روایات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ نذر کوئی نیا تصور نہیں بلکہ روحانی ورثے میں گہرا پیوست ایک عمل ہے۔ لہٰذا، اسلام میں نذر ماننے کا عمل نبوی روایت اور الٰہی وحی میں جڑا ہوا ہے۔
قرآن مجید، اللہ کے سچے بندوں کی ایک صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے،
"وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہو گی۔” (قرآن 76:7)
یہ آیت نذر پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، اسے نیک لوگوں کی ایک خصوصیت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ امام صادقؑ کی ایک اہم روایت، اسی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے، نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت کی زندگی سے اس اصول کی ایک طاقتور مثال پیش کرتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب امام حسن اور امام حسین بیمار ہو گئے، تو نبی اکرم ﷺ نے امام علیؑ کو مشورہ دیا، "یہ اچھا ہے کہ نذر مانو تاکہ تمہارے بچے صحت یاب ہو جائیں۔” امام علیؑ نے یہ عہد کر کے جواب دیا، "اگر وہ صحت یاب ہو گئے، تو میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے تین دن روزے رکھوں گا۔” بعد میں، حضرت فاطمہؑ اور فدہ، ان کی خادمہ، نے بھی اسی طرح کی نذریں مانیں۔ دونوں ائمہ کی صحت یابی پر، ان سب نے اپنی نذر کے روزے بڑی مستعدی سے ادا کیے۔ یہ روایت خوبصورتی سے ظاہر کرتی ہے کہ نذر، الٰہی وحدانیت، قناعت، یا تسلیم کے خلاف ہونے کے بجائے، اللہ، اس کی وحدانیت کی مخلصانہ توجہ کو فعال طور پر مجسم کرتی ہے، اور اس کے قریب ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اہل بیت اور اہل ایمان کے ذریعہ کی جانے والی نذر پر یہ وابستگی، بندگی اور شکر گزاری کا ایک گہرا اظہار ہے۔
اسلام میں نذر کے درست ہونے کے لیے ضروری شرائط
اسلام میں ایک درست نذر ماننا بنیادی طور پر اللہ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے، جہاں خود عائد کردہ نیک اعمال کے ذریعے، ایک شخص کسی ضرورت کی تکمیل کی امید کرتا ہے یا شکر ادا کرتا ہے۔ تاہم، نذر کے مذہبی طور پر واجب اور درست ہونے کے لیے، کچھ شرائط پوری ہونی ضروری ہیں۔ نذر کے عہد کے لیے یہ تقاضے اس کی خلوص، عملیت اور اسلامی اصولوں کے ساتھ مطابقت کو یقینی بناتے ہیں۔
اسلام میں نذر کے صیغے کی تلاوت کے لیے ضروری رہنما اصول
ایک اہم شرط نذر کے صیغے کی تلاوت ہے۔ نذر کے شرعی طور پر واجب ہونے کے لیے، ایک مخصوص صیغہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ عربی یا کسی دوسری زبان میں ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا معنی واضح ہو: "اللہ کی رضا کے لیے، مجھ پر یہ واجب ہے کہ اگر میری ایسی درخواست اور میری خواہش پوری ہو جائے، تو میں ایسا کام کروں گا۔” محض ذہن یا دل میں نیت رکھنا اس صیغے کو زبان سے ادا کیے بغیر نذر کو واجب نہیں بناتا، اگرچہ مطلوبہ عمل انجام دینا پھر بھی قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ یہ اسلام میں نذر مانتے وقت ایک واضح، ارادی زبانی عہد کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
صحیح نذر کے رہنما اصول: اسلام میں مطلوبہ اور جائز نذروں کو یقینی بنانا
نذر کا موضوع ایک اور اہم پہلو ہے۔ نذر کیا گیا عمل یا پرہیز اسلامی قانون کے مطابق مطلوبہ یا جائز ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص حرام یا مکروہ عمل کرنے کی، یا واجب یا مستحب عمل کو ترک کرنے کی نذر مانتا ہے، تو اس کی نذر باطل سمجھی جائے گی۔ مثال کے طور پر، چوری کرنے (حرام) یا نماز چھوڑنے (واجب) کی نذر باطل کر دے گی۔ اگر نذر کسی جائز عمل سے متعلق ہے، تو یہ صرف اسی صورت میں درست ہے جب اس عمل کو کسی نقطہ نظر سے بہتر سمجھا جائے، اور وہی نقطہ نظر نذر کی وجہ ہو۔ مثال کے طور پر، نماز کے لیے طاقت حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص کھانا کھانے کی نذر ماننا درست ہے کیونکہ عبادت کے لیے خود کو مضبوط کرنا ایک مطلوبہ نتیجہ ہے۔ اسی طرح، اگر کسی جائز عمل کو ترک کرنا کسی نقطہ نظر سے بہتر ہے، جیسے سگریٹ نوشی ترک کرنے کی نذر ماننا کیونکہ یہ نقصان دہ ہے، تو نذر درست ہے۔ یہاں تک کہ ایک واجب نماز کے لیے بھی، اگر کوئی شخص اسے کسی ایسی مخصوص جگہ پر ادا کرنے کی نذر مانتا ہے جو inherently کوئی اضافی ثواب نہیں بڑھاتی (جیسے اپنا کمرہ)، تو نذر باطل ہے جب تک کہ وہ جگہ کوئی خاص فائدہ نہ دے، جیسے تنہائی کی وجہ سے بہتر توجہ۔ یہ معیار یقینی بناتا ہے کہ نذر نیکی کو فروغ دے اور اسلامی اخلاقی رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہو۔
نذر کی درستگی کو سمجھنا: اپنی صلاحیت کے اندر عہد پورے کرنا
نذر کی ادائیگی کی اہلیت ایک ناقابل تردید شرط ہے۔ کسی کو ایسے عمل کے لیے نذر ماننی چاہیے جسے وہ انجام دینے کے قابل ہو۔ لہٰذا، اگر کوئی شخص کربلا پیدل جانے کی نذر مانتا ہے لیکن جسمانی طور پر ایسا کرنے سے قاصر ہے، تو اس کی نذر شروع سے ہی باطل ہے۔ یہ عملی غور و فکر افراد کو ایسے عہد کرنے سے روکتا ہے جنہیں وہ معقول حد تک پورا نہیں کر سکتے۔
نذر کو سمجھنا: جب نااہلی عہد کی تکمیل پر اثر انداز ہوتی ہے
متن نذر اور عمل انجام دینے کی نااہلی کو دو مختلف حالات میں بھی بیان کرتا ہے۔
- پہلا اس شخص سے متعلق ہے جو نذر ماننے سے پہلے عمل انجام دینے سے قاصر تھا۔ ایسے حالات میں، مذہبی حکام بیان کرتے ہیں کہ نذر باطل ہے کیونکہ یہ ایک ناممکن عمل کے لیے کی گئی تھی۔ مثال کے طور پر، ایک شخص جو کربلا پیدل جانے کی نذر مانتا ہے لیکن لمبی دوری تک چلنے سے جسمانی طور پر معذور ہے، اس نے ایک باطل نذر مانی ہو گی۔
- دوسرا منظر اس شخص سے متعلق ہے جو نذر مانتے وقت عمل انجام دینے کے قابل تھا، لیکن بعد میں اسے پورا کرنے کی صلاحیت کھو دی۔ یہاں، حکم نذر کی نوعیت پر منحصر ہے۔ اگر نذر روزے کے علاوہ کسی اور عمل کے لیے تھی، اور وہ شخص نااہل ہو جاتا ہے، تو نذر باطل ہو جاتی ہے، اور مزید کوئی ذمہ داری نہیں رہتی۔ تاہم، اگر نذر روزہ رکھنے کی تھی اور فرد غیر متوقع طور پر نااہل ہو جاتا ہے (مثلاً بیماری کی وجہ سے)، تو اسے کسی اور وقت، جب وہ قابل ہو، روزہ رکھنا چاہیے۔ اگر وہ مستقل طور پر روزہ رکھنے سے قاصر رہتا ہے، تو اسے ایک "مد” کھانا (تقریباً 750 گرام آٹا، چاول، یا کھجور) ایک غریب شخص کو بطور صدقہ دینا ضروری ہے، جو نامکمل نذر کا کفارہ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اگر میں اپنی نذر پوری نہیں کر سکتا تو کیا ہوتا ہے، مختلف حالات کے لیے مخصوص رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اسلام میں نذر کی اقسام کو سمجھنا: مشروط اور غیر مشروط عہد
نذر کو نذر ماننے والے شخص کی نیت اور مشروطیت کی بنیاد پر مختلف اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان اقسام کو سمجھنا مختلف اسلامی نذروں کی نوعیت اور مقصد کو واضح کرنے میں مدد کرتا ہے۔ نذر ماننے والے کی نیت کے لحاظ سے، یہ دو قسم کی ہو سکتی ہے:
- نذر مجازاتی
ایک قسم نذر مجازاتی ہے، جو ایک مشروط نذر ہوتی ہے۔ اس شکل میں، نذر کی تکمیل ایک مخصوص واقعے کے وقوع پذیر ہونے پر منحصر ہوتی ہے۔ شخص بنیادی طور پر کہتا ہے، "اگر ایسا ہوتا ہے، تو میں ایسا کروں گا۔” نتیجتاً، اس نذر کو پورا کرنے کی ذمہ داری تبھی پیدا ہوتی ہے جب بیان کردہ شرط پوری ہو جائے۔ نذر مجازاتی خود مزید دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
1.نذر شکر: یہ ایک نذر ہے جو کسی درخواست یا خواہش کی تکمیل پر شکر گزاری کے اظہار کے طور پر مانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، کوئی کہہ سکتا ہے، "اگر میرا بیمار عزیز صحت یاب ہو جائے، تو میں اللہ کی رضا کے لیے ایسا کروں گا۔” اس قسم کا عہد اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
2.نذر زجر: یہ نذر خود انضباطی یا برے کام کرنے کے خلاف ایک رکاوٹ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ ایک مثال یہ ہو گی کہ کوئی کہے، "اگر میں ایسا برا کام کرتا ہوں، تو میں اللہ کی رضا کے لیے ایسا اچھا کام کروں گا۔” یہ ایک احتیاطی تدبیر یا توبہ اور خود اصلاح کی ایک شکل کے طور پر کام کرتا ہے۔ کیا آپ اسلام میں مشروط نذر مان سکتے ہیں؟ ہاں، نذر مجازاتی بالکل یہی ہے، جو ایک عمل کو ایک مخصوص نتیجے سے جوڑتی ہے۔ - نذر تبرعی
دوسری اہم قسم نذر تبرعی ہے، جو ایک غیر مشروط نذر ہوتی ہے۔ اس نذر کی تکمیل کسی بیرونی واقعے یا شرط پر منحصر نہیں ہوتی۔ یہ ایک خودساختہ عہد ہے جہاں کوئی شخص اپنے اوپر بغیر کسی پیشگی شرط کے ایک اچھا عمل کرنا واجب کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص صرف یہ فیصلہ کر سکتا ہے، "اللہ کی رضا کے لیے، مجھ پر یہ واجب ہے کہ میں ہر پیر کو روزہ رکھوں۔” یہ قسم خالص عقیدت اور نیک اعمال کے لیے فعال وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ نذر تبرعی براہ راست، غیر مشروط عقیدت کو نمایاں کرتی ہے۔
نذر کو سمجھنا: اسلامی احکام اور عہد توڑنے کے نتائج
کئی اہم احکام نذر کو کنٹرول کرتے ہیں، جو اسلام میں اس کی سنگین نوعیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک درست نذر مانتا ہے اور پھر جان بوجھ کر اسے پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو اس پر ایک مذہبی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو توڑنے کا گناہ مول لیتا ہے، بلکہ اسے کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کفارہ، یا کفارہ، توبہ کا ایک مقررہ عمل ہے، جو اسلامی نذر توڑنے کے لیے عام طور پر دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، انہیں لباس پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا (اگرچہ غلام آزاد کرنا آج کل شاذ و نادر ہی قابل اطلاق ہے) شامل ہے۔ اگر کوئی ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کر سکتا، تو اسے تین مسلسل روزے رکھنے ہوں گے۔ یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر آپ نذر توڑتے ہیں تو کیا ہوتا ہے اور اس کے نتائج، بشمول اسلامی نذر توڑنے کا کفارہ۔
نذر کے موضوع کو تبدیل کرنے کے قواعد: ذمہ داریاں اور روحانی دیانت داری
ایک اور اہم حکم نذر کے موضوع کو تبدیل کرنے سے متعلق ہے۔ ایک بار جب نذر صحیح طریقے سے مان لی جاتی ہے، تو نذر کے بالکل وہی موضوع کو استعمال کرنا واجب ہے جس کا ارادہ کیا گیا تھا یا مخصوص کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کسی خاص بھیڑ کو قربان کرنے کی نذر مانتا ہے اور اسی مخصوص جانور کا ارادہ کرتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے، تو اسے بالکل وہی بھیڑ قربان کرنی ہوگی۔ وہ اسے کسی دوسری بھیڑ سے تبدیل نہیں کر سکتا، چاہے اس کی قیمت برابر یا زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ عہد کی درستگی اور پابند کن نوعیت پر زور دیتا ہے، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نذر ماننے کے بعد اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عہد مخصوص عمل یا چیز کے لیے ہے جس کی نذر مانی گئی تھی، نہ کہ صرف ایک عام زمرے کے لیے۔ یہ روحانی معاہدے کی سالمیت کو یقینی بناتا ہے۔
جس طرح نذر اللہ کی رضا کے لیے نیکی کرنے کا ایک دلی عہد ہے، اسی طرح آپ بھی ضرورت مندوں کی مدد کرکے اپنے ارادے کو عمل میں بدل سکتے ہیں۔ IslamicDonate پر، ہم آپ کی سخاوت کو کم خوش قسمت لوگوں کے لیے ٹھوس مدد میں بدلتے ہیں، عقیدت اور ہمدردی کے حقیقی جذبے کو مجسم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹی سی رقم عطیہ کرکے، آپ ایک ایسی کمیونٹی میں شامل ہوتے ہیں جو ایک معنی خیز فرق پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اپنی مہربانی کے عہد کو الفاظ سے آگے بڑھائیں اور رحم کا ایک پائیدار عمل بنائیں: IslamicDonate.com
کرپٹو کرنسی کے ساتھ اسلامی خیرات کی حمایت کریں












