عبادات

کچھ مسلمان مختلف وجوہات کی بناء پر گمنام طور پر مالی عطیات جیسے اچھے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وجوہات اکثر اسلامی تعلیمات اور اقدار سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہاں چند اہم وجوہات ہیں:

  1. اخلاص اور ریا سے اجتناب: اسلام کسی کے اعمال میں اخلاص کی اہمیت پر زور دیتا ہے، خاص طور پر اچھے کام کرتے وقت۔ گمنام طور پر اچھے کام کرنے سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ عمل صرف اور صرف اللہ (خدا) کے لیے کیا گیا ہے، دوسروں کی تعریف یا پہچان کی خواہش کے بغیر۔ یہ "ریا” کے خلاف حفاظت کرتا ہے، جو اللہ کی رضا کے بجائے دوسروں کو دکھانے کے لیے دکھاوے یا اچھے کام کرنے کا عمل ہے۔ ریا کو معمولی "شرک” (اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا) کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے اور اسلام میں اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
  2. وصول کنندہ کے وقار کا تحفظ: گمنام طور پر دینے سے امداد حاصل کرنے والے شخص کے وقار اور عزت نفس کی حفاظت میں مدد ملتی ہے، کیونکہ وہ عطیہ دہندگان کی سخاوت سے مقروض یا شرمندہ نہیں ہوں گے۔ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا ہمدردی اور ہمدردی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا ایک اہم پہلو ہے۔
  3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی مثال پر عمل کرتے ہوئے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اکثر گمنام طور پر نیک اعمال اور خیرات کے کام انجام دیتے تھے۔ مسلمان اپنے اعمال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی مثال کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بشمول صدقہ اور احسان کے اعمال۔
  4. عمل کی اہمیت پر زور دینا، نہ کہ کرنے والے: گمنام طور پر دے کر، مسلمان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عمل کرنے والے کی شناخت پر توجہ دینے کی بجائے خود نیک عمل اور اس کے مثبت اثرات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس سے کمیونٹی کے اندر سخاوت اور مہربانی کے اجتماعی جذبے کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔
  5. اللہ کے اجر و عنایات کی تلاش: مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گمنام طور پر اچھے کام انجام دینے سے اللہ کی طرف سے زیادہ انعامات اور برکتیں حاصل ہو سکتی ہیں، کیونکہ یہ اخلاص اور بے لوثی کی اعلیٰ سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلام میں کسی عمل کے پیچھے نیت اس کی خوبی اور فرد کو ملنے والے اجر کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مسلمان اپنے اعمال کے اخلاص کو یقینی بنانے، وصول کنندہ کے وقار کی حفاظت کرنے، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی مثال کی پیروی کرنے، عمل کی اہمیت کو کرنے والے پر زور دینے کے لیے نیک اعمال انجام دینے یا گمنام طور پر مالی عطیات دینے کا انتخاب کر سکتے ہیں، اور اللہ سے زیادہ سے زیادہ انعامات اور برکتیں مانگیں۔

عباداتمذہب

خمس کے معاملات جن میں خمس کھرچ کیا جاسکتا ہے، ہر مرجع تقلید کے تحریر کے مطابق درج ذیل ہیں۔ اس کے اصول کے اصولوں پر مبنی، ان معاملات کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  1. آیت اللہ سید علی الحسینی السیستانی: آیت اللہ سید علی الحسینی السیستانی کے اسلامی قوانین کے تحریر کے مطابق، خمس درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جاسکتا ہے:
    • نیازمند سیدوں کی حمایت جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے خاندان کے نسل ہیں۔
    • محتاج افراد کی حمایت جو غریب، بے گھر یا قرض میں پڑے ہوں۔
    • اسلام کی ترویج اور اسلامی علم کے علماء اور طلباء کی تربیت کی حمایت کرنا۔
    • اسلامی شرائط اور عبادتگاہوں کی حفاظت اور ترمیم کی حمایت کرنا۔
    • راہ اللہ میں محنت کرنے والوں جیسے ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کررہے ہیں۔
  2. آیت اللہ علی خامنہ‌ای: آیت اللہ علی خامنہ‌ای کے اسلامی قوانین کے تحریر کے مطابق، خمس درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جاسکتا ہے:
    • اسلامی سمیناریوں، حوزہ جات اور دینی مدارس کے اخراجات کی حمایت کرنا۔
    • غریب اور نیازمند کی مدد کرنا۔
    • اسلامی ترویج اور ثقافتی سرگرمیوں کی حمایت کرنا۔
    • جوان جو شادی کے لئے اس قابل نہیں کہ وہ خود اس کی تقریبات کی تقریب کریں، ان کے مالی امداد کرنا۔
    • یتیموں اور نیازمند بچوں کی تعلیم کی مدد کرنا۔
  3. آیت اللہ محمد تقی المدرسی: آیت اللہ محمد تقی المدرسی کے اسلامی قوانین کے تحریر کے مطابق، خمس درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جاسکتا ہے:
    • نیازمند سیدوں کی حمایت جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے خاندان کے نسل ہیں۔
    • اسلام کی ترویج اور اسلامی علماء اور طلباء کی تربیت کی حمایت کرنا۔
    • غریب اور نیازمند، شامل ہوکر یتیموں اور بیوہوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلامی شرائط اور عبادتگاہوں کی حفاظت اور ترمیم کی حمایت کرنا۔
    • راہ اللہ میں محنت کرنے والوں جیسے ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کررہے ہیں۔
  4. آیت اللہ بشیر النجفی: آیت اللہ بشیر النجفی کے اسلامی قوانین کے تحریر کے مطابق، خمس درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جاسکتا ہے:
    • نیازمند سیدوں کی حمایت جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے خاندان کے نسل ہیں۔
    • اسلام کی ترویج اور اسلامی علماء اور طلباء کی تربیت کی حمایت کرنا۔
    • غریب اور نیازمند، شامل ہوکر یتیموں اور بیوہوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلامی شرائط اور عبادتگاہوں کی حفاظت اور ترمیم کی حمایت کرنا۔
    • راہ اللہ میں محنت کرنے والوں جیسے ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کررہے ہیں۔
  5. آیت اللہ محمد الفیاض: آیت اللہ محمد الفیاض کے اسلامی قوانین کے متعلق مضامین کے مطابق، خمس کی استعمال کی مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:
    • حضرت محمد ﷺ کے نسلوں سے تعلق رکھنے والے نیڈی سیدوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلام کے ترویج اور اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے عالموں اور طلباء کی حمایت کرنا۔
    • غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی شرائح اور عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کی حمایت کرنا۔
    • اللہ کی راہ میں حضرت جنگ کرنے والوں جیسے افراد کی ضروریات کی حمایت کرنا۔ 
  6. آیت اللہ مکارم شیرازی: آیت اللہ مکارم شیرازی کے اسلامی قوانین کے متعلق مضامین کے مطابق، خمس کی استعمال کی مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:
    • حضرت محمد ﷺ کے نسلوں سے تعلق رکھنے والے نیڈی سیدوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلام کے ترویج اور اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے عالموں اور طلباء کی حمایت کرنا۔
    • غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی شرائح اور عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کی حمایت کرنا۔
    • اللہ کی راہ میں حضرت جنگ کرنے والوں جیسے افراد کی ضروریات کی حمایت کرنا۔ 
  7. آیت اللہ محمد سعید الحکیم: آیت اللہ محمد سعید الحکیم کے اسلامی قوانین کے متعلق مضامین کے مطابق، خمس کی استعمال کی مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:
    • حضرت محمد ﷺ کے نسلوں سے تعلقرکھنے والے نیڈی سیدوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلام کے ترویج اور اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے عالموں اور طلباء کی حمایت کرنا۔
    • غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی شرائح اور عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کی حمایت کرنا۔
    • اللہ کی راہ میں حضرت جنگ کرنے والوں جیسے افراد کی ضروریات کی حمایت کرنا۔ 
  8. آیت اللہ محمد الیعقوبی: آیت اللہ محمد الیعقوبی کے اسلامی قوانین کے متعلق مضامین کے مطابق، خمس کی استعمال کی مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:
    • حضرت محمد ﷺ کے نسلوں سے تعلق رکھنے والے نیڈی سیدوں کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
    • اسلام کے ترویج اور اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے عالموں اور طلباء کی حمایت کرنا۔
    • غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات کی حمایت کرنا، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی شرائح اور عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کی حمایت کرنا۔
    • اللہ کی راہ میں حضرت جنگ کرنے والوں جیسے افراد کی ضروریات کی حمایت کرنا۔
  9. آیت اللہ شیخ محمد حسن اختری: آیت اللہ شیخ محمد حسن اختری کے اسلامی قوانین کی رسالے کے مطابق، خمس کو درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جا سکتا ہے:
    • نیازمند صدیقین کی ضروریات کی حمایت جیسے نبی محمد ﷺ اور ان کے خاندان کے اولاد کے نسلوں کے لئے۔
    • اسلام کی تشہیر اور اسلامی علم کے علماء اور طلبہ کی تربیت کی حمایت کیلئے۔
    • غریب اور ناداروں کے نیاز کی حمایت کیلئے، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی روضہ اور عبادت گاہوں کے حفاظت اور نگہداشت کی حمایت کیلئے۔
    • اسلام کی حفاظت کے لئے جن لوگوں کو اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
  10. آیت اللہ حسین وحید خراسانی: آیت اللہ حسین وحید خراسانی کے اسلامی قوانین کی رسالے کے مطابق، خمس کو درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جا سکتا ہے:
    • نیازمند صدیقین کی ضروریات کی حمایت جیسے نبی محمد ﷺ اور ان کے خاندان کے اولاد کے نسلوں کے لئے۔
    • اسلام کی تشہیر اور اسلامی علم کے علماء اور طلبہ کی تربیت کی حمایت کیلئے۔
    • غریب اور ناداروں کے نیاز کی حمایت کیلئے، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی روضہ اور عبادت گاہوں کے حفاظت اور نگہداشت کی حمایت کیلئے۔
    • اسلام کی حفاظت کے لئے جن لوگوں کو اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
  11. آیت اللہ محقق کابلی: آیت اللہ محقق کابلی کے اسلامی قوانین کی رسالے کے مطابق، خمس کو درج ذیل طریقوں سے خرچ کیا جا سکتا ہے:
    • نیازمند صدیقین کی ضروریات کی حمایت جیسے نبیمحمد ﷺ اور ان کے خاندان کے اولاد کے نسلوں کے لئے۔
    • اسلام کی تشہیر اور اسلامی علم کے علماء اور طلبہ کی تربیت کی حمایت کیلئے۔
    • غریب اور ناداروں کے نیاز کی حمایت کیلئے، جن میں یتیم اور بیوہ شامل ہیں۔
    • اسلامی روضہ اور عبادت گاہوں کے حفاظت اور نگہداشت کی حمایت کیلئے۔
    • اسلام کی حفاظت کے لئے جن لوگوں کو اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
  12. یہ ضروری ہے کہ خمس کی صرفہ جات مختلف مرجع تقلید کے درمیان مختلف ہوسکتے ہیں، جو اسلامی قوانین کی تفسیر اور ان کی خصوصی جماعتوں کی ضروریات پر منحصر ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے، شیعہ مسلمان علماء اور فقہاء کے درج ذیل خرچ کرنے کے عمومی زمرے بالکل یکساں ہیں۔
خمسمذہب

مسلمانی مدد، جسے زکوٰة یا صدقہ بھی کہا جاتا ہے، اسلام میں اہم تصور ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے دینی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ نے مدد کی قسموں، دینے کی شرائط اور مدد کے مستحقین کے بارے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ زکوٰة اور صدقہ کے علاوہ، اسلام میں دیگر قسم کی مسلمانی مدد بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مثلاً، مسلمانوں کو اللہ کے راستے (فی سبیل اللہ) دینے کی ترغیب دی جاتی ہے، جو مساجد، اسلامی اسکول اور دیگر دینی اداروں کی حمایت شامل ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کو بھی آپس میں کسی بھی پیشہ وار کی ضرورت کے دوران، جیسے طبعی آفات یا دوسرے امدادی صورتحالات میں مدد دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

قرآنِ کریم میں زکوٰة کو کئی آیات میں صریحاً ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ البقرۃ، آیت 177 میں آیا ہے: "صُوۡرَتُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوٰلَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ”.

اسی طرح، سورۃ التوبۃ، آیت 60 میں اللہ نے مسلمانوں کو آٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰة دینے کا حکم دیا ہے: "اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِینِ وَ الۡعَامِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قلُوۡبُہُمۡ وَ الرِّقَابِ وَ الۡغَارِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ”.

اسلامی فقہ نے مسلمانی مدد کے تصور کو زکوٰة کے طور پر ذمہ داری سمجھا ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے واجب ہے، جبکہ صدقہ ایک اختیاری خیرات کا عمل ہے جو زکوٰة کے علاوہ دیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر، زکوٰة کو مسلمان کی دولت کے 2.5٪ کے حساب سے نکالا جاتا ہے اور اسے قرآن میں ذکر کی گئی ٹھیک وہی مستحقین کے لئے تقسیم کیا جاتا ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ان مستحقین میں غریب، محتاج، مالیت کے انتظام کے لئے ملازمین، حقیقت کی پیشرفت کے حال میں قریبی دلوں والے، بندے بندوں میں مبتلا، اللہ کے راستے میں، اور مسافروں شامل ہیں۔

دوسری طرف، صدقہ ایک اختیاری خیرات کا عمل ہے جو کسی بھی مستحق کیلئے دیا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم مسلمانوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دیتا ہے اور سورۃ البقرۃ، آیت 261 میں اس کے فوائد کا ذکر کرتا ہے: "مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوٰلَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ”.

مسلمانی مدد، بشمول زکوٰۃ اور صدقہ، اسلام میں ایک اہم تصور ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ قرآن امداد کی ضرورتوں، دینے کی شرائط اور امداد وصول کرنے والوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور اسلامی فقہ ان تصورات کو مزید وسعت دیتی ہے۔

عباداتمذہب

زکوٰة کے مسائل جن پر ہر مرجع تقلید کے مصنف کی رسالہ کے مطابق خرچ کیا جاسکتا ہے درج ذیل ہیں۔ ان کے رسائل کے اصول پر مبنی یہ مسائل جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  1. آیت اللہ سید علی الحسینی السیستانی: آیت اللہ سید علی الحسینی السیستانی کی اسلامی شریعت کے مسائل کے رسالے کے مطابق، زکوٰة درج ذیل طریقوں سے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • قرضداروں کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • پھنسے ہوئے مسافروں یا مدد کی ضرورت ہونے والوں کی ضروریات کے لئے۔
    • اسلام کی معرفت حاصل کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
    • اہل اللہ کی راہ میں جیسے ایمان کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
  2. آیت اللہ علی خامنہ ای: آیت اللہ علی خامنہ ای کی اسلامی شریعت کے مسائل کے رسالے کے مطابق، زکوٰة درج ذیل طریقوں سے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • قرضداروں کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • پھنسے ہوئے مسافروں یا مدد کی ضرورت ہونے والوں کی ضروریات کے لئے۔
    • اسلام کی معرفت حاصل کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
    • اہل اللہ کی راہ میں جیسے ایمان کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
  3. آیت اللہ محمد تقی المدرسی: آیت اللہ محمد تقی المدرسی کی اسلامی شریعت کے مسائل کے رسالے کے مطابق، زکوٰة درج ذیل طریقوںسے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • فقراء اور مساکین کی مدد کے لئے۔
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • قرضداروں کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • اسلام کی معرفت حاصل کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
    • اہل اللہ کی راہ میں جیسے ایمان کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
  4. آیت اللہ محمد صادق الحسینی الروحانی: آیت اللہ محمد صادق الحسینی الروحانی کی اسلامی شریعت کے مسائل کے رسالے کے مطابق، زکوٰة درج ذیل طریقوں سے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • فقراء اور مساکین کی مدد کے لئے۔
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • قرضداروں کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • سید ، شریف اور علماء کی مدد کے لئے۔
    • اسلام کی معرفت حاصل کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
  5. مفتی محمد تقی عثمانی: مفتی محمد تقی عثمانی کی اسلامی شریعت کے مسائل کے رسالے کے مطابق، زکوٰة درج ذیل طریقوں سے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • فقراء اور مساکین کی مدد کے لئے۔
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • قرضداروں کی ضروریات کے حمایت کے لئے۔
    • سید ، شریف اور علماء کی مدد کے لئے۔
    • اسلام کی معرفت حاصل کرنے والوں کی ضروریات کے لئے۔
  6. آیت اللہ مکارم شیرازی: آیت اللہ مکارم شیرازی کے اسلامی قوانین کے مضامین کے مطابق، زکوٰۃ کے مندرجہ ذیل اہداف کے لئے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • قرض میں مبتلا افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • پھنسے ہوئے یا مدد کی ضرورت ہونے والے مسافروں کے لئے۔
    • اسلام کی علم طلب کرنے والوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔
  7. آیت اللہ محمد سعید الحکیم: آیت اللہ محمد سعید الحکیم کے اسلامی قوانین کے مضامین کے مطابق، زکوٰۃ کے مندرجہ ذیل اہداف کے لئے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • قرض میں مبتلا افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • پھنسے ہوئے یا مدد کی ضرورت ہونے والے مسافروں کے لئے۔
    • اسلام کی علم طلب کرنے والوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔
  8. آیت اللہ محمد الیعقوبی: آیت اللہ محمد الیعقوبی کے اسلامی قوانین کے مضامین کے مطابق، زکوٰۃ کے مندرجہ ذیل اہداف کے لئے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • قرض میں مبتلا افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • پھنسے ہوئےیا مدد کی ضرورت ہونے والے مسافروں کے لئے۔
    • اسلام کی علم طلب کرنے والوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔
  9. آیت اللہ شیخ محمد حسن اختری: آیت اللہ شیخ محمد حسن اختری کے اسلامی قوانین کے مضامین کے مطابق، زکوٰۃ کے مندرجہ ذیل اہداف کے لئے خرچ کی جاسکتی ہے:
    • غریب اور محتاج افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • قرض میں مبتلا افراد کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • پھنسے ہوئے یا مدد کی ضرورت ہونے والے مسافروں کے لئے۔
    • اسلام کی علم طلب کرنے والوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے۔
    • ایسے لوگوں کی ضروریات کی حمایت کرنے کے لئے جو ایمان کی حفاظت کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔
  10. آیت اللہ حسین وحید خراسانی: براساس رسالۀ قوانین اسلامی آیت اللہ حسین وحید خراسانی، زکات را می توان به صورت زیر هزینه کرد:
    • حمایت از نیازهای افراد فقیر و نیازمند
    • حمایت از نیازهای بدهکاران
    • حمایت از نیازهای مسافرانی که در گرفتاری یا نیاز به کمک هستند
    • حمایت از نیازهای کسانی که به دنبال دانش اسلامی هستند
    • حمایت از نیازهای کسانی که در راه خدا هستند، مانند کسانی که در دفاع از ایمان می جنگند.
  11. آیت اللہ محقق کابلی: براساس رسالۀ قوانین اسلامی آیت اللہ محقق کابلی، زکات را می توان به صورت زیر هزینه کرد:
    • حمایت از نیازهای افراد فقیر و نیازمند
    • حمایت از نیازهای بدهکاران
    • حمایت از نیازهای مسافرانی که در گرفتاری یا نیاز به کمک هستند
    • حمایت از نیازهای کسانی که به دنبال دانش اسلامی هستند
    • حمایت از نیازهای کسانی که در راه خدا هستند، مانند کسانی که در دفاع از ایمان می جنگند.لازم به ذکر است که شیوه های هزینه کردن زکات ممکن است بین مرجع تقلید های مختلف کمی متفاوت باشد و بسته به تفسیر قوانین اسلامی و نیازهای جامعه خاص خود، تغییر کند. با این حال، دسته های عمومی هزینه کردن زکات که در بالا ذکر شده، در بین محققین و فقها شیعه رایج است.
زکوٰۃمذہب

اسلام میں معاشی بااختیاریت سماجی انصاف کے حصول اور افراد اور کمیونٹیز کے مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات غربت کو کم کرنے، خود کفالت بڑھانے اور مساوی مواقع کو فروغ دینے کے ذریعہ معاشی بااختیار بنانے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ اسلام میں معاشی بااختیار بنانے کے چند اہم پہلوؤں میں شامل ہیں:

دولت کی تقسیم: اسلام معاشرے کے تمام افراد کے درمیان دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ زکوٰۃ کے واجب عمل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جہاں مسلمانوں کو اپنی دولت کا ایک حصہ (عام طور پر 2.5%) ضرورت مندوں کو دینا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف دولت کو امیر سے غریبوں میں تقسیم کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ سماجی ذمہ داری اور ہمدردی کے احساس کو بھی فروغ ملتا ہے۔

سود کی ممانعت (ربا): اسلام قرضوں یا مالیاتی لین دین پر سود وصول کرنے یا وصول کرنے کے عمل سے منع کرتا ہے۔ یہ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکنے اور منصفانہ اور منصفانہ معاشی طریقوں کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ اسلامی فنانس متبادل مالیاتی آلات فراہم کرتا ہے، جیسے منافع کی تقسیم اور رسک شیئرنگ ماڈل، جو اخلاقی اور مساوی معاشی لین دین کو فروغ دیتے ہیں۔

کاروبار اور ملازمت کی تخلیق: اسلام مسلمانوں کو کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے اور دوسروں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سے معاشی ترقی کو تیز کرنے، بے روزگاری کو کم کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک کامیاب تاجر تھے، اور ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے اپنی معاشی سرگرمیوں میں پیروی کرنے کے لیے ایک مثال ہے۔

تعلیم اور ہنر کی ترقی: اسلام علم حاصل کرنے اور اپنے معاشی امکانات کو بہتر بنانے کے لیے مہارتوں کو فروغ دینے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف شعبوں میں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی ملازمت کو بڑھانے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ضرورت مندوں اور کمزوروں کی مدد: اسلام مسلمانوں کو ضرورت مندوں جیسے غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور معذور افراد کی مدد کرنے کی ترغیب دے کر سماجی بہبود کو فروغ دیتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے صدقہ (صدقہ) اور سماجی پروگراموں کے ذریعے کیا جاتا ہے جس کا مقصد ضروری خدمات جیسے خوراک، رہائش، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم فراہم کرنا ہے۔

اقتصادی تعاون اور تعاون: اسلام اقتصادی سرگرمیوں میں افراد، کاروبار اور قوموں کے درمیان تعاون اور تعاون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ باہمی فائدے، مشترکہ خوشحالی کو فروغ دیتا ہے اور مختلف پس منظر اور عقائد کے لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے۔

ان اصولوں پر عمل کر کے مسلمان اپنے اور اپنی برادریوں کے لیے معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ یہ، بدلے میں، زیادہ سے زیادہ سماجی انصاف، کم غربت، اور سب کے لیے بہتر معیار زندگی میں معاون ہے۔

پروجیکٹسعباداتمعاشی بااختیار بنانا