(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اے لوگو! اپنے پروردگار (کی ناراضی) سے ڈرو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شے ہے۔ (1) جس دن تم اسے دیکھوگے کہ ہر دودھ پلانے والی (ماں) اس (بچہ) سے غافل ہو جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی ہے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ اور تم لوگوں کو نشہ میں مدہوش دیکھوگے۔ حالانکہ وہ نشہ میں مدہوش نہیں ہوں گے۔ مگر اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوگا۔ (2) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر کج بحثی کرتے ہیں اور سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ (3) جس (مردود) کے بارے میں لکھا جا چکا ہے کہ جو کوئی اس کو دوست بنائے گا وہ ضرور اسے گمراہ کرے گا۔ اور اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا راستہ دکھائے گا۔ (4) اے لوگو! اگر تمہیں (دوبارہ) اٹھائے جانے میں شک ہے تو (اس میں تو کوئی شک نہیں کہ) ہم نے تمہیں مٹي سے پیدا کیا ہے پھر نطفہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو متشکل (مکمل تخلیق والا) بھی ہوتا ہے اور غیر متشکل (نامکمل تخلیق والا) بھی۔ اور یہ اس لئے ہے کہ ہم تم پر (اپنی قدرت کی کار فرمائی) واضح کریں اور ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں بچے کی صورت میں باہر نکالتے ہیں پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ اپنی پوری قوت کی منزل (جوانی) تک پہنچو۔ پھر تم میں سے بعض کو تو (بڑھاپے سے پہلے) اٹھا لیا جاتا ہے اور بعض کو پست ترین عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے تو جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ لہلہانے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔ (5) یہ (سب کچھ) اس لئے ہے کہ اللہ ہی کی ذات حق ہے۔ اور بےشک وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (6) اور قیامت ضرور آنے والی ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں ہے اور یقیناً اللہ انہیں زندہ کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ (7) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم کے، بغیر کسی راہنمائی کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے کج بحثی کرتے ہیں۔ (8) (غرور سے) اپنے شانے کو موڑے ہوئے (اور گردن اکڑائے ہوئے) تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے گمراہ کریں ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن ہم انہیں جلانے والی آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (9) تب اسے بتایا جائے گا کہ یہ سب کچھ سزا ہے اس کی جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور خدا ہرگز اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (10) اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو کنارہ پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے۔ سو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پیش آجائے (یا کوئی مصیبت پہنچ جائے) تو فوراً (اسلام سے) منہ موڑ لیتا ہے۔ اس نے دنیا و آخرت کا گھاٹا اٹھایا اور یہ کھلا ہوا خسارہ ہے۔ (11) وہ اللہ کو چھوڑ کر اس کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچاتا ہے اور نہ نفع۔ یہی تو انتہائی گمراہی ہے۔ (12) وہ ایسے کو پکارتا ہے جس کا ضرر اس کے فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ کیا ہی برا ہے آقا اور کیا ہی برا ہے ساتھی۔ (13) بےشک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ بیشک اللہ وہ کرتا ہے جو کچھ وہ چاہتا ہے۔ (14) جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔ (15) اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو نازل کیا ہے روشن دلیلوں کی صورت میں اور بےشک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (16) بےشک جو اہلِ ایمان ہیں، جو یہودی ہیں، جو صابی ہیں، جو عیسائی ہیں، جو مجوسی ہیں اور جو مشرک ہیں یقیناً قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (17) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہر چیز اللہ کو سجدہ کر رہی ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہے یا زمین میں۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سارے انسان بھی اور بہت سے انسان وہ ہیں جن پر عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جس کو اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں ہے بیشک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ (18) یہ دو فریق ہیں جو اپنے پروردگار کے بارے میں باہم جھگڑ رہے ہیں تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے آگ کے کپڑے کاٹے جا چکے ہیں ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔ (19) (اور) جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور کھالیں گل جائیں گی۔ (20) اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے۔ (21) جب بھی چاہیں گے کہ اس (جہنم) سے نکل کر رنج و غم سے چھٹکارا پائیں تو پھر اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور (ان سے کہا جائے گا کہ) جلانے والی آگ کا مزہ چکھو۔ (22) جو لوگ ایمان لائے اور اس کے ساتھ نیک عمل بھی کئے بےشک اللہ ان کو ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی (کے ہار) پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ (23) (یہ اس لئے ہے کہ) انہیں پاکیزہ گفتگو کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ کی طرف راہنمائی کی گئی۔ (24) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں) کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور اس مسجد سے جسے ہم نے (بلا امتیاز) سب لوگوں کیلئے (عبادت گاہ) بنایا ہے جس میں وہاں کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں ظلم و زیادتی کے ساتھ غلط روی کا ارادہ کرے تو ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (25) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم (ع) کیلئے خانہ کعبہ کی جگہ معین کر دی۔ (اور حکم دیا کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک رکھنا۔ (26) اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔ کہ لوگ (آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے) آپ کے پاس آئیں گے۔ پیادہ پا اور ہر لاغر سواری پر کہ وہ سواریاں دور دراز سے آئی ہوں گی۔ (27) تاکہ وہ اپنے فائدوں کیلئے حاضر ہوں اور مقررہ (دنوں میں خدا کا نام لیں) ان چوپایوں پر (ذبح کے وقت) جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے۔ پس خود بھی ان سے کھاؤ اور حاجت مند فقیر کو بھی کھلاؤ۔ (28) پھر لوگوں کو چاہیئے کہ اپنی میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کریں۔ (29) یہ ہے حج اور اس کے مناسک کی بات! جو اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم کرتا ہے۔ تو یہ اس کے پروردگار کے ہاں بہتر ہے اور تمہارے لئے چوپائے حلال ہیں۔ بجز ان کے جو تم سے بیان کئے جاتے رہتے ہیں۔ پس تم بتوں کی گندگی سے پرہیز کرو۔ اور راگ گانے کی مجلس سے اجتناب کرو۔ (30) صرف اللہ ہی کیلئے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گرا تو اسے کسی پرندہ نے اچک لیا یا ہوا نے اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دیا۔ (31) یہ ہے حقیقت حال! اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ (32) تمہارے ان جانوروں میں ایک مقررہ مدت تک فائدے ہیں۔ پھر ان کے ذبح کرنے کا مقام اسی قدیم گھر کی طرف ہے۔ (33) اور ہم نے ہر قوم کیلئے قربانی کا ایک طور طریقہ مقرر کیا ہے۔ تاکہ وہ ان چوپایوں پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، جو اس نے انہیں عطا کئے ہیں (الغرض) تمہارا اللہ ایک ہی ہے لہٰذا تم اس کی بارگاہ میں سر جھکاؤ اور ان عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ (34) کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں۔ اور جو ان مصائب و آلام پر صبر کرنے والے ہیں جو انہیں پہنچتے ہیں اور جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے رہتے ہیں۔ (35) اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو تمہارے لئے شعائر اللہ سے قرار دیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم ان کو صف بستہ کھڑا کرکے خدا کا نام لو۔ اور جب وہ کروٹ کے بل گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بے سوال اور سوالی کو بھی کھلاؤ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکرگزار (بندے) بن جاؤ۔ (36) نہ ان کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون ہاں البتہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم اس کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی و بڑائی بیان کرو۔ اور (اے رسول) احسان کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ (37) بےشک اللہ اہلِ ایمان کی طرف سے دفاع کرتا ہے۔ یقیناً اللہ کسی خیانت کار کفرانِ نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ (38) ان مظلوموں کو (دفاعی جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس بناء پر کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ (39) یہ وہ (مظلوم) ہیں جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے صرف اتنی بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو نصرانیوں کی خانقاہیں اور گرجے اور (یہود کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں بکثرت ذکر خدا ہوتا ہے۔ سب گرا دی جاتیں جو کوئی اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک وہ طاقت والا (اور) غالب آنے والا ہے۔ (40) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ (اختیار) میں ہے۔ (41) (اے رسول(ص)) اگر لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں ہے) ان سے پہلے (کئی قومیں اپنے نبیوں کو جھٹلا چکی ہیں جیسے) قوم نوح نے، عاد و ثمود نے۔ (42) اور قوم ابراہیم (ع) نے اور قوم لوط نے (جھٹلایا)۔ (43) اور اہل مدین نے بھی۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا۔ سو پہلے میں نے کافروں کو (کچھ) مہلت دی اور پھر انہیں پکڑ لیا۔ تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا تھا؟ (44) غرض کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ و برباد کر دیا کیونکہ وہ ظالم تھیں (چنانچہ) وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں ہیں جو بیکار پڑے ہیں اور کتنے مضبوط محل ہیں (جو کھنڈر بن گئے ہیں)۔ (45) کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ( یہ منظر دیکھ کر) ان کے دل ایسے ہو جاتے کہ جن سے وہ (حق کو) سمجھ سکتے اور کان ایسے ہو جاتے جن سے (آواز حق) سن سکتے۔ مگر (حقیقت یہ ہے کہ) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (46) (اے رسول(ص)) یہ لوگ آپ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی کر رہے ہیں اور اللہ کبھی اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور آپ کے پروردگار کے نزدیک ایک دن تم لوگوں کے شمار کئے ہوئے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ (47) اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی۔ حالانکہ وہ ظالم تھیں۔ پھر میں نے انہیں پکڑ لیا اور (آخرکار) میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (48) (اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تو صرف تمہیں ایک کھلا ہوا (عذاب خدا سے) ڈرانے والا ہوں۔ (49) سنو جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کیلئے (گناہوں کی) بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔ (50) اور جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں (ہمیں) عاجز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی لوگ (دوزخی) ہیں۔ (51) اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیںبھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے اور اپنی نشانیوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (52) (یہ سب اس لئے ہے) تاکہ اللہ شیطانوں کی خلل اندازی کو ان لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنائے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں بےشک ظالم لوگ بڑی گہری مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔ (53) اور اس میں (یہ مصلحت بھی ہے) کہ وہ لوگ جنہیں علم عطا کیا گیا ہے۔ جان لیں کہ یہ (وحی) آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دلوں میں اس کیلئے عجز و نیاز پیدا ہو جائے۔ بےشک اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھے راستہ تک پہنچانے والا ہے۔ (54) اور جو کافر ہیں وہ تو ہمیشہ اس کی طرف سے شک میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ اچانک قیامت ان پر آجائے۔ یا پھر منحوس دن کا عذاب ان پر آجائے۔ (55) اس دن بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہوگی (لہٰذا) وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ نعمتوں والے بہشتوں میں ہوں گے۔ (56) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کیلئے رسوا کن عذاب ہے۔ (57) اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کر دیئے گئے۔ یا اپنی موت مر گئے (دونوں صورتوں میں) اللہ ضرور انہیں اچھی روزی عطا فرمائے گا (کیونکہ) وہ بہترین روزی عطا کرنے والا ہے۔ (58) (اور) وہ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے۔ بےشک وہ بڑا جاننے والا، بڑا بردبار ہے۔ (59) یہ بات تو ہو چکی۔ اور جو شخص ویسی ہی سزا دے جیسی اسے سزا ملی ہے پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بےشک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا بخشنے والا ہے۔ (60) یہ اس لئے ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور بےشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (61) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ہی حق ہے۔ اور اس کے علاوہ جسے وہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔ اور بےشک اللہ ہی بلند (مرتبہ والا) بزرگ ہے۔ (62) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی برساتا ہے تو (خشک) زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ بےشک اللہ بڑا لطف و کرم کرنے والا (اور) بڑا خبر رکھنے والا ہے۔ (63) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور بےشک اللہ سب سے بے نیاز (اور) ہر تعریف کا حقدار ہے۔ (64) کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ زمین میں ہے۔ اللہ نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور کشتی کو بھی جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔ اور وہی آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ اس کے حکم کے بغیر زمین پر نہ گر پڑے۔ بےشک اللہ لوگوں پر بڑا شفقت والا، بڑا رحمت والا ہے۔ (65) وہ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا۔ اور پھر (دوبارہ) زندہ کرے گا۔ بےشک انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (66) (اے رسول(ص)) ہم نے ہر قوم کیلئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کے مطابق وہ عبادت کر رہی ہے۔ اس لئے انہیں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور آپ اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے! یقیناً آپ ہدایت کے سیدھے راستہ پر ہیں۔ (67) اور اگر وہ لوگ (خواہ مخواہ) آپ سے بحث کریں تو آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ (68) قیامت کے دن اللہ تمہارے درمیان ان باتوں کے بارے میں فیصلہ کر دے گا جن میں تم باہم اختلاف کرتے ہو۔ (69) کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے۔ بےشک یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اور یہ بات اللہ پر آسان ہے۔ (70) اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جن کیلئے نہ تو اللہ نے کوئی دلیل (سند) نازل کی ہے اور نہ ہی انہیں ان کے بارے میں کوئی علم ہے اور (ان) ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہیں ہے۔ (71) اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں پر ناگواری کے آثار واضح محسوس کرتے ہو۔ قریب ہے وہ ان پر حملہ کر دیں جو ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بڑھ کر ناگوار چیز کیا ہے؟ وہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اور وہ بڑا برا ٹھکانہ ہے۔ (72) اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب اس کام کے لئے اکٹھے ہو جائیں۔ اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس (مکھی) سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب و مطلوب دونوں ہی کمزور و ناتواں ہیں۔ (73) (آہ) ان لوگوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنی چاہیے۔ بےشک اللہ بڑا طاقتور ہے (اور) سب پر غالب ہے۔ (74) اللہ پیغام پہنچانے والے فرشتوں میں سے منتخب کر لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ بیشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (75) وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور سب معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔ (76) اے ایمان والو! رکوع و سجود کرو۔ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ اور نیک کام کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (77) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔ اور دین کے معاملہ میں اس نے تمہارے لئے کوئی تنگی روا نہیں رکھی۔ اپنے باپ (مورث اعلیٰ) ابراہیم (ع) کی ملت کی پیروی کرو۔ اسی (اللہ) نے اس سے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں۔ اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس تم نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہی تمہارا مولا ہے سو کیسا اچھا مولا ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔ (78)
قرآن
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
لوگوں کے حساب کتاب (کا وقت) قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں پڑے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ (1) ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی یاددہانی ان کے پاس آتی ہے۔ تو وہ اسے کھیل کود میں لگے ہوئے سنتے ہیں۔ (2) ان کے دل بالکل غافل ہیں اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص (رسول) اس کے سوا کیا ہے؟ تمہاری ہی طرح کا ایک بشر ہے کیا تم آنکھیں دیکھتے ہوئے (اور سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے) جادو (کی بات) سنتے جاؤگے؟ (3) (پیغمبر اسلام(ص)) نے کہا کہ میرا پروردگار آسمان اور زمین کی ہر بات کو جانتا ہے (کیونکہ) وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (4) بلکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) خواب ہائے پریشان ہیں (نہیں) بلکہ یہ اس نے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تو ایک شاعر ہے (اور اگر ایسا نہیں ہے) تو پھر ہمارے پاس کوئی معجزہ لائے جس طرح پہلے رسول (معجزات کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔ (5) ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا وہ تو ایمان لائی نہیں تو کیا یہ ایمان لائیں گے؟ (6) (اے رسول) اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف وحی کیا کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ (7) اور ہم نے ان رسولوں کو کبھی ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں۔ اور نہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے۔ (8) پھر ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کر دکھایا اور انہیں اور ان کے ساتھ جن کو چاہا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و برباد کردیا۔ (9) بےشک ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (نہیں سمجھتے؟)۔ (10) اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو ہم نے بریاد کر دیں۔ کیونکہ وہ ظالم تھیں (ان کے باشندے ظالم تھے) اور ان کی جگہ اور قوم کو پیدا کر دیا۔ (11) جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا تو ایک دم وہاں سے بھاگنے لگے۔ (12) (ان سے کہا گیا) بھاگو نہیں (بلکہ) اپنی آسائش کی طرف لوٹو جو تمہیں دی گئی تھی۔ اور اپنے گھروں کی طرف لوٹو۔ تاکہ تم سے پوچھ گچھ کی جائے۔ (13) ان لوگوں نے کہا ہائے ہماری بدبختی بےشک ہم ظالم تھے۔ (14) وہ برابر یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح (اور) بجھی ہوئی آگ کی طرح کر دیا۔ (15) اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ (16) اگر ہم کوئی دل بستگی کا سامان چاہتے تو اپنے پاس سے ہی کر لیتے مگر ہم ایسا کرنے والے نہیں ہیں۔ (17) بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا بھیجا نکال دیتی ہے (سر کچل دیتی ہے) پھر یکایک باطل مٹ جاتا ہے۔ افسوس ہے تم پر ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ (18) جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین ہے سب اسی کیلئے ہے اور جو اس کی بارگاہ میں ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر و سرکشی نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ (19) وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں کبھی ملول ہوکر وقفہ نہیں کرتے۔ (20) کیا انہوں نے زمینی (مخلوق) سے ایسے معبود بنائے ہیں جو مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔ (21) اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو دونوں کا نظام برباد ہو جاتا پس پاک ہے اللہ جو عرش کا مالک ہے ان باتوں سے جو لوگ بناتے ہیں۔ (22) وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے بازپرس نہیں کی جا سکتی اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے۔ (23) کیا ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ اور خدا بنائے ہیں؟ کہئے کہ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ (قرآن) میرے ساتھ والوں کی (کتاب) ہے اور مجھ سے پہلے والوں کی (کتابیں بھی) ہیں (ان سے کوئی بات میرے دعویٰ کے خلاف نکال کر لاؤ) بلکہ اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے (اس لئے) اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ (24) اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔ (25) اور وہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے اولاد بنا رکھی ہے وہ (اس سے) پاک ہے بلکہ وہ فرشتے تو اس کے بندے ہیں۔ (26) جو بات کرنے میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اور اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ (27) اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ کسی کی شفاعت نہیں کرتے سوائے اس کے جس سے خدا راضی ہو۔ اور وہ اس کے خوف و خشیہ سے لرزتے رہتے ہیں۔ (28) اور جو (بالفرض) ان میں سے یہ کہہ دے کہ اللہ کے علاوہ میں خدا ہوں۔ تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (29) کیا کافر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین پہلے آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو جدا کیا۔ اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟ (30) اور ہم نے زمین میں پہاڑ قرار دیئے تاکہ وہ لوگوں کو لے کر ڈھلک نہ جائے اور ہم نے ان (پہاڑوں) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راہ پائیں (اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں)۔ (31) اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا مگر یہ لوگ پھر بھی اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ (32) اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے) دائرہ (مدار) میں تیر رہے ہیں۔ (33) اور ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشگی نہیں دی۔ تو اگر آپ انتقال کر جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ (یہاں) رہیں گے؟ (34) ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں برائی اور اچھائی کے ساتھ آزماتے ہیں (آخرکار) تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے۔ (35) اور (اے رسول(ص)) جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں تو بس وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جو (برائی سے) تمہارے خداؤں کا ذکر کرتا ہے؟ حالانکہ وہ خود خدائے رحمن کے ذکر کے منکر ہیں۔ (36) انسان جلد بازی سے پیدا ہوا ہے میں عنقریب تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھلاؤں گا۔ پس تم مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔ (37) اور وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہوگا؟ (38) کاش ان کافروں کو اس کا کچھ علم ہوتا۔ جب یہ لوگ آگ کو نہیں روک سکیں گے نہ اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔ (39) بلکہ وہ (گھڑی) اچانک ان پر آجائے گی۔ اور انہیں مبہوت کر دے گی پھر نہ تو وہ اسے ہٹا سکیں گے اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ (40) بےشک ان پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا جو آپ سے پہلے تھے تو اسی (عذاب) نے ان مذاق اڑانے والوں کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (41) (اے رسول(ص)) کہہ دیجئے! کون ہے جو رات میں یا دن میں خدائے رحمن (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت کر سکتا ہے؟ بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (42) کیا ہمارے علاوہ ان کے ایسے خدا ہیں جو ان کی حفاظت کر سکیں؟ وہ (خود ساختہ) خدا تو خود اپنی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کو پناہ دی جائے گی (اور نہ تائید کی جائے گی)۔ (43) بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے آباء و اجداد کو (زندگی کا) سر و سامان دیا یہاں تک کہ ان کی لمبی لمبی عمریں گزر گئیں (عرصہ دراز گزر گیا) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے برابر گھٹاتے چلے آرہے ہیں تو کیا وہ غالب آسکتے ہیں؟ (44) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تمہیں صرف وحی کی بناء پر (عذاب سے) ڈراتا ہوں مگر جو بہرے ہوتے ہیں وہ دعا و پکار نہیں سنتے جب انہیں ڈرایا جائے۔ (45) اور جب انہیں تمہارے پروردگار کے عذاب کا ایک جھونکا بھی چھو جائے تو وہ کہہ اٹھیں گے کہ ہائے افسوس بےشک ہم ظالم تھے۔ (46) ہم قیامت کے دن صحیح تولنے والے میزان (ترازو) قائم کر دیں گے۔ پس کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی (عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے (وزن میں) لے آئیں گے اور حساب لینے والے ہم ہی کافی ہیں۔ (47) بےشک ہم نے موسیٰ و ہارون کو فرقان، روشنی اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت نامہ عطا کیا۔ (48) جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں نیز جو قیامت سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔ (49) اور یہ (قرآن) بابرکت نصیحت نامہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ کیا تم اس کا انکار کرتے ہو؟ (50) اور یقیناً ہم نے اس (عہد موسوی) سے پہلے ابراہیم (ع) کو (ان کے مقام کے مطابق) سوجھ بوجھ عطا فرمائی تھی اور ہم ان کو خوب جانتے تھے۔ (51) جب آپ نے (منہ بولے) باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن (کی عبادت) پر تم جمے بیٹھے ہو۔ (52) انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ (53) آپ نے کہا تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ (54) انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس کوئی حق بات (سچا پیغام) لے کر آئے ہو یا صرف دل لگی کر رہے ہو؟ (55) آپ نے کہا (دل لگی نہیں) بلکہ تمہارا پروردگار وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں۔ (56) اور بخدا میں تمہارے بتوں کے ساتھ (کوئی نہ کوئی) چال ضرور چلوں گا جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ (57) چنانچہ آپ نے ان کے ایک بڑے بت کے سوا باقی سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (58) انہوں نے کہا ہمارے خداؤں کے ساتھ کس نے یہ سلوک کیا ہے؟ بےشک وہ ظالموں میں سے ہے۔ (59) (بعض) لوگ کہنے لگے کہ ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے جو ان کا ذکر (برائی سے) کیا کرتا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ (60) انہوں نے کہا تو پھر اسے (پکڑ کر) سب لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔ (61) (چنانچہ آپ لائے گئے) ان لوگوں نے کہا اے ابراہیم (ع)! کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ (62) ابراہیم (ع)نے کہا: بلکہ ان کے بڑے بت نے یہ سب کاروائی کی ہے ان بتوں سے ہی پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہیں؟ (63) وہ لوگ (ابراہیم کا یہ جواب سن کر) اپنے دلوں میں سوچنے لگے اور آپس میں کہنے لگے واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔ (64) پھر انہوں نے (خجالت سے) سر جھکا کر کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہ (بت) بات نہیں کرتے۔ (65) آپ نے کہا تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ (66) تف ہے تم پر اور ان (بتوں) پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (67) ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اسے آگ میں جلا دو۔ اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔ (68) (چنانچہ انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو) ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوکر اور ابراہیم کے لئے سلامتی کا باعث بن جا۔ (69) ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ چالبازی کرنا چاہی تھی مگر ہم نے انہیں ناکام کر دیا۔ (70) اور ہم نے انہیں اور لوط کو نجات دی اور اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جسے ہم نے دنیا جہان والوں کیلئے بابرکت بنایا ہے۔ (71) اور ہم نے اسحاق (جیسا بیٹا) اور مزید یعقوب (جیسا پوتا) عطا فرمایا اور سب کو صالح بنایا۔ (72) اور ہم نے انہیں ایسا امام (پیشوا) بنایا جو ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے انہیں نیک کاموں کے کرنے، نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ (73) اور ہم نے لوط (ع) کو حکمت اور علم عطا کیا۔ اور انہیں اس بستی سے نجات دی جس کے باشندے گندے کام کیا کرتے تھے واقعی وہ قوم بڑی بری اور نافرمان تھی۔ (74) اور ہم نے اس (لوط(ع)) کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بےشک وہ بڑے نیکوکاروں میں سے تھے۔ (75) اور نوح(ع) (کا ذکر کیجئے) جب انہوں نے (ان سب سے) پہلے پکارا اور ہم نے ان کی دعا و پکار قبول کی اور انہیں اور ان کے اہل کو سخت غم و کرب سے نجات دی۔ (76) اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ان کی مدد کی بےشک وہ بڑے برے لوگ تھے۔ پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔ (77) اور داؤد (ع) اور سلیمان (ع) (کا تذکرہ کیجئے) جب وہ کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جب ایک گروہ کی بکریاں رات کے وقت اس میں گھس گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ (78) اور ہم نے اس کا فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا تھا اور ہم نے ہر ایک کو حکمت اور علم عطا کیا تھا اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اور (یہ کام) کرنے والے ہم ہی تھے۔ (79) اور ہم نے انہیں تمہارے فائدہ کیلئے زرہ بنانے کی صنعت سکھائی تھی تاکہ وہ تمہیں تمہاری لڑائی میں ایک دوسرے کی زد سے بچائے۔ کیا تم اس (احسان) کے شکرگزار ہو؟ (80) اور ہم نے تیز و تند ہوا کو سلیمان کیلئے مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت قرار دی ہے اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ (81) اور ہم نے کچھ شیطانوں (جنات) کو ان کا تابع بنا دیا تھا جو ان کے لئے غوطہ زنی کرتے تھے۔ اور اس کے علاوہ اور کام بھی کرتے تھے اور ہم ہی ان کے نگہبان تھے۔ (82) اور ایوب (کا ذکر کیجئے) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا مجھے (بیماری کی) تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے (میرے حال پر رحم فرما)۔ (83) ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کر دی اور اپنی خاص رحمت سے ہم نے ان کو ان کے اہل و عیال عطا کئے اور ان کے برابر اور بھی اور اس لئے کہ یہ عبادت گزاروں کیلئے یادگار ہے۔ (84) اور اسماعیل (ع)، ادریس (ع) اور ذوالکفل (کا تذکرہ کیجئے) یہ سب (راہ حق میں) صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (85) اور ہم نے ان سب کو اپنی (خاص) رحمت میں داخل کر لیا تھا۔ یقیناً وہ نیکوکار بندوں میں سے تھے۔ (86) اور ذوالنون (مچھلی والے) کا (ذکر کیجئے) جب وہ خشمناک ہوکر چلے گئے اور وہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ پاک ہے تیری ذات بےشک میں زیاں کاروں میں سے ہوں۔ (87) ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ (88) اور زکریا (ع) کا (ذکر کیجئے) جب انہوں نے پکارا اے میرے پروردگار! مجھے (وارث کے بغیر) اکیلا نہ چھوڑ۔ جبکہ تو خود بہترین وارث ہے۔ (89) ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ (جیسا بیٹا) عطا کیا اور ان کی بیوی کو ان کیلئے تندرست کر دیا۔ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو شوق و خوف (اور امید و بیم) کے ساتھ پکارتے تھے اور وہ ہمارے لئے (عجز و نیاز سے) جھکے ہوئے تھے۔ (90) اور اس خاتون (کا ذکر کیجئے) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی۔ اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو دنیا جہان والوں کیلئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا۔ (91) (اے ایمان والو) یہ تمہاری (ملت) ہے جو درحقیقت ملت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں۔ بس تم میری ہی عبادت کرو۔ (92) لیکن لوگوں نے اپنے (دینی) معاملہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا (انجام کار) سب ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والے ہیں۔ (93) پس جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہوگی اور ہم اسے لکھ رہے ہیں۔ (94) اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس کیلئے حرام ہے۔ یعنی وہ (دنیا میں) دوبارہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (95) یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے تو وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے نکل پڑیں گے۔ (96) اور (جب) اللہ کا سچا وعدہ (قیامت کا) قریب آجائے گا تو ایک دم کافروں کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی (اور کہیں گے) ہائے افسوس! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم ظالم تھے۔ (97) بےشک تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں اس میں تم سب کو داخل ہونا ہے۔ (98) اگر یہ چیزیں برحق خدا ہوتیں تو جہنم میں نہ جاتیں اب تم سب کو اس میں ہمیشہ رہنا ہے۔ (99) ان کی اس میں چیخ و پکار ہوگی اور وہ اس میں کچھ نہیں سنیں گے۔ (100) ہاں البتہ وہ لوگ جن کیلئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقدر ہو چکی ہوگی وہ اس سے دور رہیں گے۔ (101) وہ اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے اور وہ اپنی من پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ (102) ان کو بڑی گھبراہٹ بھی غمزدہ نہیں کر سکے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے (اور بتائیں گے کہ) یہ ہے آپ کا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ (103) جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح طومار میں خطوط لپیٹے جاتے ہیں جس طرح ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے یقیناً ہم اسے (پورا) کرکے رہیں گے۔ (104) اور ہم نے ذکر (توراۃ یا پند و نصیحت) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ (105) بےشک اس میں عبادت گزار لوگوں کیلئے بڑا انعام ہے۔ (106) (اے رسول) ہم نے آپ کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (107) آپ کہہ دیجئے! کہ میری طرف جو کچھ وحی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک الہ ہے۔ تو کیا تم اس کے آگے سر جھکاتے ہو؟ (108) پس اگر وہ اس سے روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجئے! کہ میں نے برابر آپ کو خبردار کر دیا ہے اب مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور؟ (109) بےشک وہ (اللہ) بلند آواز سے کہی گئی بات کو بھی جانتا ہے اور اسے بھی جسے تم چھپاتے ہو۔ (110) اور میں کیا جانوں؟ کہ یہ تاخیر) تمہارے لئے آزمائش ہے یا ایک خاص وقت تک زندگی کا لطف اٹھانے کی مہلت ہے۔ (111) (آخرکار رسول(ص) نے) کہا اے میرے پروردگار! تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔ (اے لوگو) ہمارا پروردگار وہی خدائے رحمن ہے جس سے ان باتوں کے خلاف مدد مانگی جاتی ہے جو تم بنا رہے ہو۔ (112)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
طا۔ ھا۔ (1) ہم نے اس لئے آپ پر قرآن نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔ (2) بلکہ (اس لئے نازل کیا ہے کہ) جو (خدا سے) ڈرنے والا ہے اس کی یاددہانی ہو۔ (3) (یہ) اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ (4) وہ خدائے رحمن ہے جس کا عرش پر اقتدار قائم ہے۔ (5) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔ (6) اگر تم پکار کر بات کرو (تو تمہاری مرضی) وہ تو راز کو بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے۔ (7) وہ الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔ (8) کیا آپ(ص) تک موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے؟ (9) جب انہوں نے آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم (یہیں) ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے شاید تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ کے پاس راستہ کا کوئی پتّہ پاؤں؟ (10) تو جب اس کے پاس گئے تو انہیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ! (11) میں ہی تمہارا پروردگار ہوں! پس اپنی جوتیاں اتار دو (کیونکہ) تم طویٰ نامی ایک مقدس وادی میں ہو۔ (12) اور میں نے تمہیں (پیغمبری کیلئے) منتخب کیا ہے۔ پس (تمہیں) جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ (13) بےشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس میری عبادت کرو اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔ (14) یقیناً قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کی سعی و کوشش کا معاوضہ مل جائے۔ (15) پس (خیال رکھنا) کہیں وہ شخص جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش نفس کا پیرو ہے تمہیں اس کی فکر سے روک نہ دے ورنہ تم تباہ ہو جاؤگے۔ (16) اور اے موسیٰ! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ (17) کہا وہ میرا عصا ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کیلئے (درختوں سے) پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لئے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ (18) ارشاد ہوا اے موسیٰ! اسے پھینک دو۔ (19) چنانچہ موسیٰ نے اسے پھینک دیا تو وہ ایک دم دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔ (20) ارشاد ہوا اسے پکڑ لو۔ اور ڈرو نہیں ہم ابھی اسے اس کی پہلی حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔ (21) اور اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنے بازو کے نیچے (بغل میں) کر لو وہ کسی برائی و بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا یہ دوسری نشانی ہوگی۔ (22) تاکہ ہم آپ کو اپنی بڑی نشانیوں سے کچھ دکھائیں۔ (23) جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ (24) موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔ (25) اور میرے کام کو میرے لئے آسان کر۔ (26) اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ (27) تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ (28) اور میرے خاندان میں سے میرے بھائی۔ (29) ہارون کو میرا وزیر بنا۔ (30) اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط بنا۔ (31) اسے میرے کام (رسالت) میں میرا شریک بنا۔ (32) تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔ (33) اور کثرت سے تیرا ذکر کریں۔ (34) بےشک تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ (35) خدا نے فرمایا اے موسیٰ! تمہاری درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ (36) اور ہم ایک مرتبہ اور بھی تم پر احسان کر چکے ہیں۔ (37) جب ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی بھیجی جو بھیجنا تھی (جو اب بذریعہ وحی تمہیں بتائی جا رہی ہے)۔ (38) کہ اس (موسیٰ) کو صندوق میں رکھ اور پھر صندوق کو دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارہ پر پھینک دے گا (اور) اسے وہ شخص (فرعون) اٹھائے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (موسیٰ) کا بھی دشمن ہے میں نے تم پر اپنی محبت کا اثر ڈال دیا۔ (جو دیکھتا وہ پیار کرتا) اور اس لئے کہ تم میری خاص نگرانی میں پرورش پائے۔ (39) اور وہ وقت یاد کرو جب تمہاری بہن چل رہی تھی اور (فرعون کے اہل خانہ سے) کہہ رہی تھی کہ کیا میں تم لوگوں کو ایسی (دایہ) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے؟ اور اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور رنجیدہ نہ ہو اور تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا تو ہم نے تمہیں اس غم سے نجات دی اور ہم نے تمہاری ہر طرح آزمائش کی۔ پھر تم کئی برس تک مدین کے لوگوں میں رہے اور پھر اے موسیٰ! تم اپنے معین وقت پر (یہاں) آگئے۔ (40) اور میں نے تمہیں اپنی ذات کیلئے منتخب کر لیا۔ (41) (سو اب) تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ (فرعون کے پاس) جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ (42) تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ (43) اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ (44) ان دونوں نے کہا اے ہمارے پروردگار! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے؟ (45) ارشاد ہوا تم ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ (46) تم (بے دھڑک) اس کے پاس جاؤ۔ اور کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں۔ سو تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ روانہ کر اور ان کو تکلیف نہ پہنچا۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس کے لئے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ (47) بےشک ہماری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس کیلئے ہے جو (آیات اللہ کو) جھٹلائے اور (اس کے احکام سے) روگردانی کرے۔ (48) (چنانچہ وہ گئے) اور فرعون نے کہا اے موسیٰ! تمہارا پروردگار کون ہے؟ (49) موسیٰ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت بخشی پھر راہنمائی فرمائی۔ (50) فرعون نے کہا پھر ان نسلوں کا کیا ہوگا جو پہلے گزر چکی ہیں؟ (51) موسیٰ نے کہا ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میں ہے میرا پروردگار نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (52) وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا۔ تو ہم نے اس سے مختلف اقسام کے نباتات کے جوڑے پیدا کئے۔ (53) خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ۔ بےشک اس (نظام قدرت) میں صاحبانِ عقل کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (54) اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے۔ (55) اور ہم نے اس (فرعون) کو اپنی سب نشانیاں دکھائیں مگر اس پر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ (56) اور کہا اے موسیٰ! کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکال دو؟ (57) سو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ویسا ہی جادو لائیں گے لہٰذا تم (مقابلہ کیلئے) ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدہ گاہ مقرر کرو۔ جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں گے اور نہ تم۔ اور وہ وعدہ گاہ ہو بھی ہموار اور کھلے میدان میں۔ (58) موسیٰ نے کہا تمہارے لئے وعدہ کا دن جشن والا دن ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کر لئے جائیں۔ (59) اس کے بعد فرعون واپس چلا گیا اور اپنے سب مکر و فریب (داؤ) جمع کئے اور پھر (مقابلہ کیلئے) آگیا۔ (60) موسیٰ نے (فرعونیوں سے) کہا افسوس ہے تم پر۔ اللہ پر جھوٹا بہتان نہ باندھو۔ ورنہ وہ کسی عذاب سے تمہارا قلع قمع کر دے گا۔ اور جو کوئی بہتان باندھتا ہے وہ ناکام و نامراد ہوتا ہے۔ (61) پھر وہ اپنے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں کرنے لگے۔ (62) (آخرکار) انہوں نے کہا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دیں اور تمہارے اعلیٰ و مثالی طریقہ کار کو مٹا دیں۔ (63) لہٰذا تم اپنی سب تدبیریں (داؤ پیچ) جمع کرو۔ اور پرا باندھ کر (مقابلہ میں) آجاؤ۔ یقیناً فلاح وہی پائے گا جو غالب آئے گا۔ (64) ان لوگوں (جادوگروں) نے کہا اے موسیٰ تم پہلے پھینکوگے یا پہلے ہم پھینکیں؟ (65) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں۔ بلکہ تم ہی (پہلے) پھینکو! پس اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ (66) (یہ منظر دیکھ کر) موسیٰ نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا۔ (67) ہم نے کہا (اے موسیٰ) ڈرو نہیں بےشک تم ہی غالب رہوگے۔ (68) اور جو تمہارے دائیں ہاتھ میں (عصا) ہے اسے پھینک دو۔ یہ ان کی سب بناوٹی چیزوں کو نگل جائے گا۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کہیں بھی آئے (جائے) کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (69) چنانچہ (ایسا ہی ہوا کہ) سب جادوگر (بے ساختہ) سجدے میں گرا دیئے گئے (اور)کہنے لگے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لائے ہیں۔ (70) فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہی تمہارا وہ بڑا (جادوگر) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤن مخالف سمت سے کٹواتا ہوں اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دیتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے؟ (71) جادوگروں نے کہا ہمارے پاس جو کھلی نشانیاں آچکی ہیں ہم ان پر اور اس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ کبھی تجھے ترجیح نہیں دیں گے بےشک تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ تو (زیادہ سے زیادہ) اسی دنیاوی زندگی (کے ختم کرنے) کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ (72) ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو اور اس جادوگری کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا معاف کر دے۔ ہمارے لئے اللہ ہی بہتر ہے اور وہی زیادہ دیرپا ہے۔ (73) بےشک جو کوئی مجرم بن کر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوگا اس کیلئے وہ جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیئے گا۔ (74) اور جو کوئی مؤمن بن کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جب کہ اس نے نیک عمل بھی کئے ہوں گے ان کے لئے بڑے بلند درجے ہیں۔ (75) (اور) ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس کی جزاء ہے جو پاکباز رہا۔ (76) اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو لے کر نکل جاؤ پھر (عصا مار کر) ان کیلئے سمندر سے خشک راستہ بناؤ۔ نہ تمہیں پیچھے سے ان کے پکڑے جانے کا خطرہ ہو اور نہ ہی (غرق وغیرہ کا) کوئی اندیشہ۔ (77) پھر فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انہیں سمندر نے ڈھانپ لیا جیساکہ ڈھانپنے کا حق تھا۔ (78) اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا کوئی راہنمائی نہیں کی۔ (79) اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں جانب توریت دینے کا قول و قرار کیا۔ اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔ (80) تم سے کہا گیا کہ جو پاکیزہ روزی تمہیں دی گئی ہے اس سے کھاؤ اور اس کے بارے میں سرکشی نہ کرو (حد سے نہ گزرو) ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ ہلاک ہی ہوگیا۔ (81) اور جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور پھر راہِ راست پر قائم رہے تو میں اس کو بہت ہی بخشنے والا ہوں۔ (82) اے موسیٰ! اپنی قوم سے پہلے کیا چیز تمہیں جلدی لے آئی؟ (83) موسیٰ نے کہا: وہ لوگ میرے نقش قدم پر آرہے ہیں۔ اور اے میرے پروردگار! میں اس لئے جلدی تیری بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں کہ تو خوش ہو جائے۔ (84) ارشاد ہوا۔ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔ (85) پس موسیٰ غصہ میں افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے (اور) کہا اے میری قوم! کیا تمہارے پروردگار نے تم سے بڑا اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ تو کیا تم پر (وعدہ سے) زیادہ مدت گزر گئی؟ یا تم نے چاہا کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو؟ اس لئے تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟ (86) قوم نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے تو آپ سے وعدہ خلافی نہیں کی (البتہ بات یوں ہوئی) کہ ہمیں اس جماعت کے زیورات جمع کرکے لانے پر آمادہ کیا گیا اور یہ سامری ایک (سنہرا) بچھڑا نکال کر لایا۔ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ (87) تو لوگوں سے کہا یہی تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا بھی جسے وہ بھول گئے ہیں۔ (88) کیا وہ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ (گؤ سالہ) ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ ہی وہ ان کو نقصان یا نفع پہنچانے کا کوئی اختیار رکھتا ہے۔ (89) اور ہارون نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! تم اس (گو سالہ) کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو۔ اور یقیناً تمہارا پروردگار خدائے رحمن ہے سو تم میری پیروی کرو۔ اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ (90) مگر قوم نے کہا کہ ہم تو برابر اس کی عبادت پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف آجائیں۔ (91) موسیٰ نے کہا اے ہارون! جب تم نے دیکھا کہ یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں۔ (92) تو تمہیں کس چیز نے میری پیروی کرنے سے روکا؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے؟ (93) ہارون نے کہا: اے میرے ماں جائے! میری ڈاڑھی اور میرا سر نہ پکڑئیے! مجھے تو یہ ڈر تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا۔ اور میری بات کا خیال نہیں کیا (یا میرے حکم کا انتظار نہ کیا؟)۔ (94) (بعد ازاں) کہا اے سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟ (95) اس نے کہا کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جو اور لوگوں نے نہیں دیکھی تو میں نے (خدا کے) فرستادہ کے نقش قدم سے ایک مٹھی (خاک) اٹھا لی۔ اور اسے (اس گو سالہ میں) ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے یہ بات سجھائی (اور میرے لئے آراستہ کر دی)۔ (96) موسیٰ نے کہا جا چلا جا! تیرے لئے اس زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ تو کہتا رہے گا کہ مجھے کوئی نہ چھوئے (کہ میں اچھوت ہوں) اور تیرے لئے (آخرت میں عذاب) کا ایک وعدہ ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے۔ اور اب دیکھ اپنے اس معبود کو جس کی پرستش پر تو جما بیٹھا رہا۔ ہم (پہلے) اسے جلائیں گے اور پھر اس کی راکھ کو اڑا کر سمندر میں بہائیں گے۔ (97) اے لوگو! تمہارا الٰہ تو بس اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (98) (اے رسول) ہم اسی طرح گزرے ہوئے واقعات کی کچھ خبریں آپ سے بیان کرتے ہیں اور ہم نے اپنی طرف سے آپ کو ایک نصیحت نامہ (قرآن) عطا کیا ہے۔ (99) جو کوئی اس سے روگردانی کرے گا تو وہ قیامت کے دن (اپنے اس جرم کا) بوجھ خود اٹھائے گا۔ (100) ایسے لوگ ہمیشہ اسی حالت میں گرفتار رہیں گے اور قیامت کے دن یہ بوجھ بڑا برا بوجھ ہوگا۔ (101) جس دن صور پھونکا جائے گا تو ہم مجرموں کو اس طرح محشور کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی۔ (102) وہ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ تم (دنیا و برزخ میں) کوئی دس دن ہی رہے ہوگے۔ (103) ہم خوب جانتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان کا سب سے زیادہ صائب الرائے یہ کہتا ہوگا کہ تم تو بس ایک دن رہے ہو۔ (104) (اے رسول(ص)) لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ (قیامت کے دن کہاں جائیں گے)؟ تو آپ کہہ دیجئے! کہ میرا پروردگار ان کو (ریزہ ریزہ کرکے) اڑا دے گا۔ (105) پھر ان کی جگہ زمین کو اس طرح چٹیل میدان بنا دے گا۔ (106) کہ تم اس میں نہ کوئی ناہمواری دیکھوگے اور نہ بلندی۔ (107) اس روز لوگ ایک پکارنے والے (اسرافیل) کے پیچھے اس طرح سیدھے آئیں گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی اور خدا کے سامنے اور سب آوازیں دب جائیں گی پس تم قدموں کی آہٹ کے سوا کچھ نہیں سنوگے۔ (108) اس دن کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی سوائے اس کے جس کو خدا اجازت دے گا اور اس کے بولنے کو پسند کرے گا۔ (109) جو کچھ لوگوں کے آگے ہے (آنے والے حالات) اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (گزرے ہوئے واقعات) وہ سب کچھ جانتا ہے مگر لوگ اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ (110) سب کے چہرے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو شخص ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ ناکام و نامراد ہو جائے گا۔ (111) اور جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو اسے نہ ظلم و زیادتی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کمی و حق تلفی کا۔ (112) اور اس طرح ہم نے اس (کتاب) کو عربی زبان میں قرآن بنا کر نازل کیا ہے اس میں وعید و تہدید بیان کی ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں یا وہ ان میں نصیحت پذیری پیدا کر دے۔ (113) بلند و برتر ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے اور (اے پیغمبر(ص)) جب تک قرآن کی وحی آپ پر پوری نہ ہو جائے اس (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کیجئے۔ اور دعا کیجئے کہ (اے پروردگار) میرے علم میں اور اضافہ فرما۔ (114) اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم و ثبات نہ پایا۔ (115) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (ع) کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (چنانچہ) ابلیس کے سوا سب سجدے میں گر گئے۔ (116) سو ہم نے کہا اے آدم (ع)! یہ آپ کا اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے یہ کہیں آپ دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے؟ ورنہ مشقت میں پڑ جائیں گے۔ (117) بیشک تم اس میں نہ کبھی بھوکے رہوگے اور نہ ننگے۔ (118) اور نہ یہاں پیاسے رہوگے اور نہ دھوپ کھاؤگے۔ (119) پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا اے آدم! کیا میں تمہیں بتاؤں ہمیشگی والا درخت اور نہ زائل ہونے والی سلطنت؟ (120) پس ان دونوں نے اس (درخت) میں سے کچھ کھایا۔ تو ان پر ان کے قابل ستر مقامات ظاہر ہوگئے اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار (کے امر ارشادی) کی خلاف ورزی کی اور (اپنے مقصد میں) ناکام ہوئے۔ (121) اس کے بعد ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا (چنانچہ) ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت بخشی۔ (122) فرمایا (اب) تم زمین پر اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہوکر پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبخت ہوگا۔ (123) اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔ (124) وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ (125) ارشاد ہوگا اسی طرح ہماری آیات تیرے پاس آئی تھیں اور تو نے انہیں بھلا دیا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا اور نظر انداز کر دیا جائے گا۔ (126) اور جو کوئی حد سے تجاوز کرے اور اپنے پروردگار کی بات پر ایمان نہ لائے تو ہم اسے اسی طرح (دنیا میں) سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا سخت اور پائیدار ہے۔ (127) کیا (اس بات سے بھی) انہیں ہدایت نہ ملی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلیں (ان گناہوں کی پاداش میں) ہلاک کر دیں جن کے مکانوں میں (آج) یہ چلتے پھرتے ہیں بےشک اس میں صاحبان عقل کیلئے خدا کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ (128) اور (اے رسول(ص)) اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور ایک (مہلت کی) مدت معین نہ ہو چکی ہوتی تو (عذاب) لازمی طور پر آچکا ہوتا۔ (129) سو آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اول و آخر میں بھی اپنے پروردگار کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کیجئے تاکہ آپ راضی ہو جائیں۔ (130) اور جو کچھ ہم نے مختلف لوگوں کو آزمائش کیلئے دنیا کی زیب و زینت اور آرائش دے رکھی ہے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور آپ کے پروردگار کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور زیادہ پائیدار ہے۔ (131) اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر قائم و برقرار رہیں ہم آپ سے روزی طلب نہیں کرتے۔ ہم تو خود آپ کو روزی دیتے ہیں اور انجام بخیر تو پرہیزگاری کا ہی ہے۔ (132) اور یہ لوگ (اہل مکہ) کہتے ہیں کہ یہ (رسول) ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتے۔ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کا کھلا ہوا ثبوت نہیں آیا؟ (133) اور اگر ہم اس (رسول) سے پہلے انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ کہتے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے۔ (134) آپ کہہ دیجئے! کہ ہر ایک اپنے (انجام کا) انتظار کر رہا ہے سو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں؟ اور ہدایت یافتہ کون ہیں۔ (135)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد۔ (1) (اے رسول (ص)) آپ کے پروردگار نے اپنے (خاص) بندے زکریا(ع) پر جو (خاص) رحمت کی تھی یہ اس کا تذکرہ ہے۔ (2) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا۔ (3) کہا اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر میں بڑھاپے کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ (بال سفید ہوگئے ہیں) اور میرے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا ہوں۔ (4) اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ (5) جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا۔ (6) (ارشاد ہوا) اے زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جس کا اس سے پہلے ہم نے کوئی ہمنام نہیں بنایا۔ (7) زکریا نے (از راہ تعجب) کہا اے میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوں۔ (8) ارشاد ہوا: ایسا ہی ہوگا۔ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور میں نے ہی اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔ (9) زکریا (ع) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔ ارشاد ہوا تمہارے لئے علامت یہ ہے کہ تم تندرست ہوتے ہوئے بھی برابر تین رات (دن) تک لوگوں سے بات نہیں کر سکوگے۔ (10) پس وہ عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام (خدا کی) تسبیح و تقدیس کرو۔ (11) (جب حکم خدا کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا اور بڑھا تو ہم نے کہا) اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں علم و حکمت سے نوازا۔ (12) اور وہ اپنے والدین سے نیکی کرنے والا تھا وہ سرکش اور نافرمان نہ تھا۔ (13) اور ہم نے خاص اپنے پاس سے (اسے) رحمدلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ پرہیزگار تھا۔ (14) سلام ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وفات پائے گا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ (15) (اے رسول(ص)) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہوکر ایک مشرقی مکان میں گئیں۔ (16) پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کر لیا پس ہم نے اس کی طرف اپنی جانب سے روح (یعنی فرشتہ) کو بھیجا تو وہ اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں نمودار ہوا۔ (17) مریم نے (گھبرا کر) کہا کہ اگر تو پرہیزگار آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ (18) اس (فرشتہ) نے کہا میں تو تمہارے پروردگار کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ (19) مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں۔ (20) فرشتہ نے کہا یونہی ہے (مگر) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے وہ کام میرے لئے آسان ہے۔ اور یہ اس لئے بھی ہے کہ ہم اسے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی قرار دیں اور اپنی طرف سے رحمت اور یہ ایک طے شدہ بات ہے۔ (21) پس وہ اس (لڑکے) کے ساتھ حاملہ ہوگئی پھر وہ اس حمل کو لئے ہوئے دور جگہ چلی گئی۔ (22) اس کے بعد دردِ زہ اسے کھجور کے درخت کے تنا کے پاس لے گیا (اور) کہا کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور بالکل نسیاً منسیاً (بھول بسری) ہوگئی ہوتی۔ (23) اور ایک منادی نے اس کے نیچے سے آواز دی کہ (اے مریم) رنجیدہ نہ ہو۔ تیرے پروردگار نے تیرے نیچے ایک چھوٹی سی نہر جاری کر دی ہے۔ (24) اور کھجور کے تنا کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تم پر تر و تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔ (25) پس تو (خرمے) کھا اور (نہر کا پانی) پی اور (بیٹے کو دیکھ کر) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کسی آدمی کو دیکھے اور (وہ تم سے کچھ پوچھے) تو (اشارہ سے) کہہ دینا کہ میں نے خدائے رحمن کے لئے (چپ کے) روزہ کی منت مانی ہے تو میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ (26) اس کے بعد وہ بچہ کو (گود میں) اٹھائے اپنی قوم کے پاس لائی۔ انہوں نے کہا اے مریم تو نے بڑا برا کام کیا ہے۔ (27) اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔ (28) مریم نے (نومولود) بچہ کی طرف اشارہ کیا (کہ اس سے پوچھو کہ کہاں سے آیا؟) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم اس سے کس طرح بات کریں گے جو ابھی گہوارہ میں (کمسن) بچہ ہے؟ (29) (مگر) وہ بچہ بولا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ (30) اور اس نے مجھے نماز (پڑھنے) اور زکوٰۃ (دینے) کا حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔ (31) اور اس نے مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ (32) سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔ (33) یہ ہے عیسیٰ بن مریم (اور یہ ہے) اس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ (34) یہ بات اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ پاک ہے اس کی ذات جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ (کام) ہو جاتا ہے۔ (35) (عیسیٰ نے کہا) بےشک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے پس تم اس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (36) پھر مختلف گروہ آپ کے بارے میں اختلاف کرنے لگے تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ہلاکت ہے جب وہ ایک بہت بڑے سخت دن کا سامنا کریں گے۔ (37) جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے تو اس دن ان کے کان کیسے سننے والے اور آنکھیں کیسی دیکھنے والی ہوں گی۔ مگر آج یہ ظالم کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (38) اور (اے رسول(ص)) انہیں حسرت و ندامت کے دن سے ڈرائیں جبکہ ہر بات کا (آخری) فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ (39) (آخرکار) ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ (40) اور قرآن میں ابراہیم (ع) کا ذکر کیجئے۔ بےشک وہ بڑے راست باز تھے۔ (41) جب انہوں نے اپنے (منہ بولے) باپ (حقیقی چچا) آذر سے کہا کہ اے باپ! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ (42) اے باپ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ آپ میری پیروی کیجئے میں آپ کو سیدھا راستہ دکھا دوں گا۔ (43) اے باپ! شیطان کی پرستش نہ کیجئے (کیونکہ) بےشک خدائے رحمن کا وہ نافرمان ہے۔ (44) اے باپ! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ پر خدائے رحمن کا عذاب نازل نہ ہو جائے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ (45) آزر نے کہا: اے ابراہیم کیا تم میرے خداؤں سے روگردانی کرتے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا۔ اور تم ایک مدت تک مجھ سے دور ہو جاؤ۔ (46) ابراہیم نے کہا: (اچھا خدا حافظ) آپ پر میرا سلام! میں عنقریب اپنے پروردگار سے آپ کے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ بےشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ (47) اور میں آپ لوگوں سے اور ان سے جنہیں آپ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کنارہ کرتا ہوں۔ میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکاروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کی دعا و پکار کی برکت سے نامراد نہیں رہوں گا۔ (48) پس جب وہ ان لوگوں کے اور ان کے خداؤں سے کنارہ کش ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق و یعقوب جیسی اولاد عنایت فرمائی اور ہم نے سب کو نبی بنایا۔ (49) اور ہم نے ان ہستیوں کو اپنی (خاص) رحمت سے حصہ عطا کیا اور ان کے لئے سچائی کی زبان کو بلند قرار دیا۔ (یعنی آئندہ نسلوں میں ان کے ذکر جمیل کی آواز بلند کی)۔ (50) اور (اے رسول) کتاب (قرآن) میں موسیٰ کا ذکر کیجئے! بےشک وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی مرسل تھے۔ (51) اور ہم نے کوہِ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کیلئے انہیں اپنا مقرب بنایا۔ (52) اور ہم نے انہیں اپنی خاص رحمت سے آواز دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لئے اپنا مقرب بنایا اور (بطور وزیر) ان کو ان کا بھائی ہارون عطا کیا جو نبی تھا۔ (53) اور (اے پیغمبر(ص)) آپ کتاب (قرآن) میں اسماعیل (ع) کا ذکر کیجئے جو وعدہ کے سچے اور نبی مرسل تھے۔ (54) اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔ (55) اور (اے رسول(ص)) کتاب (قرآن) میں ادریس کا ذکر کیجئے بےشک وہ بڑے سچے نبی تھے۔ (56) اور ہم نے انہیں بڑے ہی اونچے مقام تک بلند کیا تھا۔ (57) یہ وہ نبی ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ آدم (ع) کی نسل سے اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور ابراہیم و اسرائیل (یعقوب) کی نسل سے اور (یہ سب) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں ہم نے راہ رست دکھائی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتین پڑھی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ (58) پھر ان کے بعد کچھ وہ ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔ (59) ہاں البتہ جو توبہ کر لیں، ایمان لائیں اور نیک عمل بجا لائیں تو یہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (60) وہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کا خدائے رحمن نے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے۔ بےشک اس کا وعدہ (سامنے) آنے والا ہے۔ (61) وہ وہاں سلامتی کی صداؤں کے سوا کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے اور ان کا مقررہ رزق انہیں صبح و شام ملتا رہے گا۔ (62) یہ ہے وہ بہشت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو پرہیزگار ہوگا۔ (63) (اے رسول(ص)) ہم (فرشتے) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (زمین پر) نازل نہیں ہوتے جو کچھ ہمارے آگے ہے یا جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔ (64) وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو کیا تم اس کا کوئی ہمنام و ہمسر جانتے ہو؟ (65) اور (غافل) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟ (66) کیا انسان کو یاد نہیں رہا کہ ہم ہی نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ (67) تو قسم ہے تمہارے پروردگار کی کہ ہم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل حاضر کریں گے۔ (68) پھر ہم ہر گروہ میں سے اس شخص کو جدا کریں گے جو خدائے رحمن کے مقابلہ میں زیادہ سرکش تھا۔ (69) پھر ہم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون اس (جہنم) میں داخل ہونے کا زیادہ سزاوار ہے؟ (70) اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو (جو وہاں سے نہ گزرے) یہ حتمی طے شدہ فیصلہ ہے جس کا پورا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمہ ہے۔ (71) پھر جو پرہیزگار ہوں گے ہم انہیں نجات دے دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑ دیں گے۔ (72) جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ (دیکھو ہم) دونوں گروہوں میں سے رہائش گاہ کس کی اچھی ہے اور محفل کس کی زیادہ شاندار ہے؟ (73) حالانکہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ساز و سامان اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں۔ (74) آپ کہہ دیجئے! کہ جو کوئی گمراہی میں مبتلا ہو تو خدائے رحمن اسے برابر ڈھیل دیتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب یہ لوگ اسے دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ وعید ہوا ہے خواہ وہ (یہاں کا) عذاب ہو یا قیامت کی گھڑی! تب انہیں معلوم ہوگا کہ مکان کے لحاظ سے زیادہ برا کون ہے اور لاؤ لشکر کے اعتبار سے زیادہ کمزور کون ہے؟ (75) اور اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اور اضافہ کرتا ہے اور جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں وہ تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ (76) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال ضرور دیا جائے گا اور اولاد بھی۔ (77) کیا وہ غیب پر مطلع ہوگیا ہے؟ یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد و پیمان حاصل کر لیا ہے؟ (78) ہرگز ایسا نہیں ہے جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے۔ اور اس کے عذاب میں برابر اضافہ کرتے جائیں گے۔ (79) وہ جو کہتا ہے (کہ اس کے پاس مال و اولاد ہے) اس کے وارث ہم ہی ہوں گے۔ اور یہ تو اکیلا ہماری بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ (80) اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کیلئے عزت و قوت کا باعث ہوں۔ (81) ہرگز ایسا نہیں ہے وہ عنقریب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے مخالف ہوں گے۔ (82) اے (رسول(ص)) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں۔ (83) آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کیجئے ہم تو اچھی طرح ان کے دن گن رہے ہیں۔ (84) جس دن ہم پرہیزگاروں کو اپنے حضور مہمانوں کی طرح لائیں گے۔ (85) اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے۔ (86) انہیں شفاعت کا کوئی اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس نے اللہ سے عہد لے لیا ہوگا۔ (87) اور وہ (نصاریٰ) کہتے ہیں کہ خدا نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ (88) تم نے یہ ایسی سخت بُری بات کہی ہے۔ (89) کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ (90) کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ خدائے رحمن کا بیٹا ہے۔ (91) اور یہ بات رحمن کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ (92) آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ خدائے رحمن کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والے ہیں۔ (93) اس (اللہ) نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں اچھی طرح شمار کر رکھا ہے۔ (94) اور قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک تنہا تنہا اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ (95) بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں میں) محبت قرار دے گا۔ (96) اے (رسول(ص)) ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں آسان کر دیا ہے تاکہ آپ پرہیزگاروں کو خوشخبری سنائیں اور جھگڑالو قوم کو ڈرائیں۔ (97) اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کی ہیں کیا آپ ان میں سے کسی کو بھی محسوس کرتے ہیں یا ان کی کوئی بھنک بھی سنتے ہیں۔ (98)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندہ (خاص) پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رکھی۔ (1) بالکل سیدھی اور ہموار تاکہ وہ (مکذبین کو) اللہ کی طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اور ان اہل ایمان کو خوشخبری دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہترین اجر ہے۔ (2) جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (3) اور تاکہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ (4) اس بارے میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادوں کو کوئی علم تھا۔ یہ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ یہ لوگ بالکل جھوٹ بولتے ہیں۔ (5) (اے پیغمبر(ص)!) شاید آپ ان کے پیچھے اس رنج و افسوس میں اپنی جان دے دیں گے کہ وہ اس کلام پر ایمان نہیں لائے۔ (6) بے شک جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے۔ تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔ (7) اور جو کچھ زمین پر ہے ہم اسے (ایک دن) چٹیل میدان بنانے والے ہیں۔ (8) کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ کہف و رقیم (غار اور کتبے) والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے؟ (9) جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی اور کہا اے ہمارے پروردگار! اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے اس کام میں ہدایت کا سامان مہیا فرما۔ (10) تو ہم نے غار میں کئی برسوں تک ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔ (11) پھر ہم نے انہیں اٹھایا۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ ان دو گروہوں میں سے کون اپنے ٹھہرنے کی مدت کا زیادہ ٹھیک شمار کر سکتا ہے۔ (12) (اے رسول(ص)) ہم آپ کو ان کا اصل قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا۔ (13) اور ہم نے ان کے دل اس وقت اور مضبوط کر دیئے جب وہ کھڑے ہوکر کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ ہم اس کے سوا اور کسی کو معبود ہرگز نہیں پکاریں گے۔ ورنہ ہم بالکل ناحق بات کے مرتکب ہوں گے۔ (14) یہ ہماری قوم ہے جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور خدا اپنا لئے ہیں، یہ لوگ ان کی خدائی پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ پس اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ (15) اور (پھر آپس میں کہنے لگے) اب جب کہ تم نے ان لوگوں سے اور ان کے ان معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں علیٰحدگی اختیار کر لی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت (کا سایہ) تم پر پھیلائے گا۔ اور تمہارے اس کام کے لئے سروسامان مہیا کر دے گا۔ (16) اور (وہ غار اس طرح واقع ہوئی ہے کہ) تم دیکھوگے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں طرف مڑ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے۔ اور وہ ایک کشادہ جگہ پر (سوئے ہوئے) ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک (نشانی) ہے جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہی میں چھوڑ دے تو تم اس کے لئے کوئی یار و مددگار اور راہنما نہیں پاؤگے۔ (17) اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلواتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اور تمہارے دل میں دہشت سما جائے۔ (18) اور (جس طرح انہیں اپنی قدرت سے سلایا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ آپس میں سوال و جواب کریں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنی دیر ٹھہرے ہوگے؟ دوسروں نے کہا ہم ایک دن ٹھہرے ہوں گے یا دن کا کچھ حصہ (پھر) بولے تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا ٹھہرے؟ اچھا اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو۔ وہ (جا کر) دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاک و پاکیزہ ہے۔ تو وہ اس میں سے کچھ کھانا تمہارے لئے لائے۔ اور اسے چاہیے کہ ہوش و تدبر سے کام لے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔ (19) یقیناً اگر ان لوگوں کو تمہاری اطلاع ہوگئی تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا پھر (زبردستی) تمہیں اپنے دین کی طرف واپس لے جائیں گے اور اس طرح تم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکوگے۔ (20) اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان پر مطلع کیا تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچھا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ (بستی والے) لوگ ان (اصحافِ کہف) کے معاملہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے (کہ کیا کیا جائے؟) تو (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان پر (یعنی غار پر) ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے۔ (21) عنقریب کچھ لوگ کہہ دیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ کہہ دیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ (اے رسول(ص)) کہہ دیجیئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ اور بہت کم لوگوں کو ان کا علم ہے۔ سو ان کے بارے میں سوائے سرسری گفتگو کے لوگوں سے زیادہ بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ پوچھیں۔ (22) اور آپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔ (23) مگر یہ کہ خدا چاہے (یعنی اس کے ساتھ انشاء اللہ کہا کرو) اور جب بھی بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں۔ اور آپ کہہ دیجئے! کہ امید ہے کہ میرا پروردگار ایسی بات کی مجھے راہنمائی کرے جو رشد و ہدایت میں اس سے بھی زیادہ قریب ہو۔ (24) اور وہ لوگ غار میں رہے نو برس اوپر تین سو سال۔ (25) کہہ دیجئے! کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنا رہے؟ تمام آسمانوں اور زمین کا (علمِ) غیب اسی کے لئے ہے وہ کتنا بڑا دیکھنے والا اور کتنا بڑا سننے والا ہے۔ اللہ کے سوا ان لوگوں کا کوئی سرپرست نہیں ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے حکم میں شریک کرتا ہے۔ (26) (اے رسول) آپ کے پروردگار کی طرف کتاب (قرآن) کے ذریعہ سے جو وحی کی گئی ہے۔ اسے پڑھ سنائیں۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور آپ اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔ (27) (اے رسول(ص)!) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں آپ ان کی معیت پر صبر کریں۔ اور دنیا کی زینت کے طلبگار ہوتے ہوئے ان کی طرف سے آپ کی آنکھیں نہ پھر جائیں۔ اور جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل چھوڑ رکھا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے اس کی اطاعت نہ کریں۔ (28) اور آپ کہہ دیجئے کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ بے شک ہم نے ظالموں کیلئے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناطیں انہیں گھیر لیں گی اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا۔ جو چہروں کو بھون ڈالے گا کیا بری چیز ہے پینے کی۔ اور کیا بری آرام گاہ ہے۔ (29) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ یقینا ہم نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ (30) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہمیشگی کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی انہیں ان میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سبز ریشم کے باریک اور دبیز کپڑے پہنیں گے اور وہ ان میں مسندوں پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہے ان کا ثواب اور کیا ہی اچھی ہے ان کی آرام گاہ۔ (31) (اے رسول(ص)!) ان لوگوں کے سامنے ان دو شخصوں کی مثال پیش کریں کہ ہم نے ان میں سے ایک کو انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور انہیں کھجور کے درختوں سے گھیر رکھا تھا۔ اور ان کے درمیان کھیتی اگا دی تھی۔ (32) یہ دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان (آبپاشی کیلئے) ایک نہر بھی جاری کر دی تھی۔ (33) اور اس کے پاس اور بھی تمول کا سامان تھا۔ (ایک دن گھمنڈ میں آکر) اس نے اپنے (غریب) ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ (مالدار) ہوں اور نفری کے لحاظ سے بھی تجھ سے زیادہ طاقتور ہوں۔ (34) اور وہ (ایک دن) اپنے باغ میں داخل ہوا جبکہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا تھا (اور) کہنے لگا کہ میں خیال نہیں کرتا کہ یہ (باغ) کبھی تباہ ہو جائے گا۔ (35) اور میں خیال نہیں کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور اگر (بالفرض) میں کبھی اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا گیا تو اس (باغ) سے بہتر ٹھکانہ پاؤں گا۔ (36) اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے پہلے مٹی سے اور پھر نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے اچھا خاصا مرد بنایا۔ (37) لیکن میں! تو میرا پروردگار تو وہی اللہ ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (38) اور تو جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا؟ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور خدا کی قوت کے بغیر کوئی قوت نہیں ہے)۔ اور اگر تو مجھے مال و اولاد میں (اپنے سے) کمتر دیکھتا ہے۔ (39) تو قریب ہے کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر (باغ) عطا فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں بھیج دے جس سے وہ چٹیل چکنا میدان بن کر رہ جائے۔ (40) یا اس کا پانی اس طرح نیچے اتر جائے کہ تو کسی طرح بھی اسے حاصل نہ کر سکے۔ (41) (چنانچہ) اس کے پھلوں کو گھیرے میں لے لیا گیا (ان پر آفت آگئی) تو اس نے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا اس پر کفِ افسوس ملتا تھا اور وہ (باغ) اپنے چھپروں پر گرا پڑا تھا۔ اور وہ کہتا تھا کہ اے کاش کہ میں نے کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بنایا ہوتا۔ (42) اب اس کے پاس کوئی ایسا گروہ بھی نہیں تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ ہی وہ غالب اور بدلہ لینے کے قابل تھا۔ (43) (ثابت ہوا) کہ ہر قسم کا اختیار خدائے برحق کیلئے ہے۔ وہی بہتر ثواب دینے والا اور وہی بہترین انجام والا ہے۔ (44) اور آپ ان لوگوں کے سامنے زندگانئ دنیا کی (ایک اور) مثال پیش کریں کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا تو اس سے زمین کی نباتات مل گئی (اور خوب پھلی پھولی) پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (45) مال اور اولادِ زندگانی دنیا کی (ہنگامی) زیب و زینت ہیں اور (دراصل) باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے پروردگار کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے بھی اور امید کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ہیں۔ (46) اور وہ دن (یاد کرو) جب ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو دیکھوگے کہ وہ کھلا ہوا میدان ہے اور ہم اس طرح سب لوگوں کو جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ (47) اور وہ تمہارے پروردگار کے حضور صفیں باندھے پیش کئے جائیں گے (تب ان سے کہا جائے گا) آخر تم اسی طرح ہمارے پاس آگئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ ہاں البتہ تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے (دوبارہ پیدا کرنے کا) کوئی وعدہ گاہ مقرر نہیں کیا ہے۔ (48) اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیا جائے گا اور تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہتے ہوں گے۔ ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسا نامۂ عمل ہے؟ جس نے (ہمارا) کوئی چھوٹا بڑا (گناہ) نہیں چھوڑا مگر سب کو درج کر لیا ہے۔ اور جو کچھ ان لوگوں نے کیا تھا وہ سب اپنے اپنے سامنے پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (49) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا۔ اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی سرتابی کی۔ کیا تم (اے منکرینِ حق) مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست و کارساز بناتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ظالموں کیلئے کیا ہی برا بدل ہے۔ (50) اور میں نے انہیں آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت حاضر نہیں کیا اور نہ ہی ان کی اپنی خلقت کے وقت اور میں ایسا نہیں ہوں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناؤں۔ (51) اور وہ دن (یاد رکھو) جب وہ (اللہ مشرکین سے) فرمائے گا کہ بلاؤ میرے ان شریکوں کو جن کو تم میرا شریک خیال کرتے تھے۔ چنانچہ وہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں کوئی جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک آڑ مقرر کر دیں گے کہ وہ ایک دوسرے کی بات نہیں سن سکتے۔ (52) اور جب مجرم لوگ (دوزخ کی) آگ دیکھیں گے تو وہ خیال کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں پائیں گے۔ (53) اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ہر قسم کی مثالیں الٹ پلٹ کر بیان کر دی ہیں۔ (مگر) انسان ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔ (54) اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی ہے تو ان کو ایمان لانے اور مغفرت طلب کرنے سے منع نہیں کیا۔ مگر اس چیز نے کہ اگلی قوموں کا معاملہ انہیں بھی پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آئے۔ (55) اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے۔ مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور جو کافر ہیں وہ باطل کے (ہتھیار سے) جھگڑتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے حق کو باطل کر دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس چیز (عذاب) سے انہیں ڈرایا گیا تھا اس کو مذاق بنا رکھا ہے۔ (56) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کے پروردگار کی نشانیوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے مگر وہ ان سے روگردانی کرے اور اپنے ان (گناہوں) کو بھول جائے۔ جو وہ اپنے ہاتھوں پہلے بھیج چکا ہے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے۔ کہ اس کو سنیں (یہ حق سے اعراض کرنے کی سزا ہے) اور اگر انہیں ہدایت کی طرف بلائیں تو وہ اس حالت میں کبھی راہِ راست پر نہیں آئیں گے۔ (57) اور آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا، رحمت والا ہے اگر وہ لوگوں سے ان کے کئے (گناہوں) کا مواخذہ کرتا تو جلدی ہی میں ان پر عذاب نازل کر دیتا مگر ان کے لئے ایک میعاد ٹھہرا دی گئی ہے اس سے ادھر (پہلے) کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔ (58) اور یہ بستیاں ہیں جب (ان کے باشندوں نے) ظلم و زیادتی کی تو ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک میعاد مقرر کر دی تھی۔ (59) اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ (ع) نے اپنے جوان سے کہا کہ میں برابر سفر جاری رکھوں گا یہاں تک کہ اس جگہ پہنچوں جہاں دو دریا اکٹھے ہوتے ہیں یا پھر (یونہی چلتے چلتے) سالہا سال گزار دوں گا۔ (60) تو جب وہ دونوں ان دونوں دریاؤں کے اکٹھا ہونے کی جگہ پر پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے اور اس نے دریا میں داخل ہونے کے لئے سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا۔ (61) جب وہ دونوں وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا ہمارا صبح کا کھانا (ناشتہ) لاؤ۔ یقینا ہمیں اس سفر میں بڑی مشقت اٹھانا پڑی ہے۔ (ہم بہت تھک گئے ہیں)۔ (62) اس (جوان) نے کہا کیا آپ نے دیکھا تھا؟ کہ جب ہم اس چٹان کے پاس (سستانے کیلئے) ٹھہرے ہوئے تھے تو میں مچھلی کو بھول گیا۔ اور شیطان نے مجھے ایسا غافل کیا کہ میں (آپ سے) اس کا ذکر کرنا بھی بھول گیا اور اس نے عجیب طریقہ سے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ (63) موسیٰ نے کہا یہی تو وہ (مقام) تھا جس کی ہمیں تلاش تھی (اور جسے ہم چاہتے تھے) چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کا نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔ (64) سو انہوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندہ کو پایا۔ جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا۔ اور اسے اپنی طرف سے (خاص) علم عطا کیا تھا۔ (65) موسیٰ نے اس سے کہا! کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں بشرطیکہ رشد و ہدایت کا وہ خصوصی علم جو آپ کو سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں۔ (66) اس نے (جواب میں) کہا کہ آپ میرے ساتھ (رہ کر) صبر نہیں کر سکتے۔ (67) اور بھلا اس بات پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو تمہارے علمی دائرہ سے باہر ہے؟ (68) موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ (69) اس نے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کریں۔ جب تک میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ کروں۔ (70) اس کے بعد دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوگئے تو خضر (ع) نے اس میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ نے کہا۔ آپ نے اس لئے کشتی میں سوراخ کیا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں؟ آپ نے بڑی عجیب حرکت کی ہے۔ (71) خضر نے کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے؟ (72) موسیٰ نے کہا جو بھول ہوگئی اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کریں اور اس معاملہ میں مجھ سے زیادہ سختی نہ کریں۔ (73) چنانچہ پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ایک لڑکے سے ملے تو اس بندہ نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے ایک پاکیزہ نفس (بے گناہ) کو قصاص کے بغیر قتل کر دیا۔ یہ تو آپ نے سخت برا کام کیا۔ (74) خضر (ع) نے کہا کیا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔ (75) موسیٰ (ع) نے کہا (اچھا) اگر اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں۔ بےشک آپ میری طرف سے عذر کی حد تک پہنچ گئے ہیں (اب آپ معذور ہیں)۔ (76) اس کے بعد وہ دونوں آگے چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ مگر انہوں نے ان کی مہمانداری کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی۔ تو خضر (ع) نے اسے (بنا کر) سیدھا کھڑا کر دیا۔ (اس پر) موسیٰ (ع) نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی (ان لوگوں سے) کچھ اجرت ہی لے لیتے۔ (77) خضر (ع) نے کہا بس (ساتھ ختم ہوا) اب میری اور تمہاری جدائی ہے اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ (78) جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا پر کام کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ادھر ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (بے عیب) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا تھا۔ (79) اور جہاں تک اس بچے کا معاملہ ہے تو اس کے ماں باپ مؤمن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (بڑا ہوکر) ان کو بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔ (80) تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کے عوض انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر ہو اور مہر و محبت میں اس سے بڑھ کر ہو۔ (81) باقی رہا دیوار کا معاملہ تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان بچوں کا خزانہ (دفن) تھا۔ اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں اور یہ سب کچھ پروردگار کی رحمت کی بناء پر ہوا ہے۔ اور میں نے جو کچھ کیا ہے اپنی مرضی سے نہیں کیا (بلکہ خدا کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ (82) (اے رسول(ص)) لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب ان کا کچھ حال تمہیں سناتا ہوں۔ (83) ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔ (84) پھر اس نے (ایک مہم کیلئے) ساز و سامان کیا۔ (85) یہاں تک کہ وہ (چلتے چلتے) غروبِ آفتاب کے مقام پر پہنچ گیا تو اسے ایک سیاہ چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا۔ (محسوس کیا) اور اس کے پاس ایک قوم کو (آباد) پایا۔ ہم نے کہا اے ذوالقرنین! (تمہیں اختیار ہے) خواہ انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو۔ (86) ذوالقرنین نے کہا کہ (ہم بے انصافی نہیں کریں گے) جو ظلم و سرکشی کرے گا ہم اسے ضرور سزا دیں گے اور پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت سزا دے گا۔ (87) اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اس کیلئے اچھی جزا ہے۔ (88) اور ہم بھی اس کے ساتھ معاملہ میں نرم بات کریں گے۔ (89) پھر اس نے (دوسری مہم کیلئے) ساز و سامان کیا۔ (90) یہاں تک کہ (چلتے چلتے) وہ طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچا۔ تو اسے ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہوا پایا کہ جس کیلئے ہم نے سورج کے سامنے کوئی پردہ نہیں رکھا ہے۔ (91) ایسا ہی تھا اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا اس کی ہم کو پوری خبر ہے۔ (92) پھر (ایک اور مہم کی) تیاری کی۔ یہاں تک کہ (جب چلتے چلتے) وہ (دو پہاڑوں کی) دیواروں کے درمیان میں پہنچا تو ان کے ادھر ایک ایسی قوم کو پایا۔ جو (ان کی) کوئی بات نہیں سمجھتی تھی۔ (93) انہوں نے (اشاروں سے) کہا اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج اس سر زمین میں فساد کرنے والے ہیں تو کیا (یہ ممکن ہے کہ) ہم آپ کیلئے خرچ کا کچھ انتظام کر دیں اکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار تعمیر کر دیں۔ (94) ذوالقرنین نے کہا جو طاقت میرے پروردگار نے مجھے دے رکھی ہے وہ (تمہارے سامان سے) بہتر ہے۔ تم بس اپنی (بدنی) قوت سے میری مدد کرو۔ تو میں تمہارے اور ان کے درمیان بند باندھ دوں گا۔ (95) میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ (چنانچہ وہ لائے) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے (درمیانی خلا کو پُر کرکے) دونوں کے سروں کے درمیان کو برابر کر دیا۔ تو کہا آگ پھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس (آہنی دیوار) کو بالکل آگ بنا دیا تو کہا اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ اس پر انڈیل دوں۔ (96) (چنانچہ یہ دیوار اتنی مضبوط بن گئی کہ) یاجوج و ماجوج نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں سرنگ لگا سکتے تھے۔ (97) ذوالقرنین نے کہا یہ میرے پرورگار کی رحمت ہے تو جب میرے پروردگار کے وعدے کے وقت آجائے گا تو وہ اسے ڈھا کر زمین کے برابر کر دے گا۔ اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے۔ (98) اور ہم اس (قیامت کے) دن ہم اس طرح ان کو چھوڑ دیں گے کہ دریا کی لہروں کی طرح گڈمڈ ہو جائیں گے۔ اور صور پھونکا جائے گا۔ اور پھر ہم سب کو پوری طرح جمع کر دیں گے۔ (99) اور اس دن ہم دوزخ کو کافروں کے سامنے پیش کر دیں گے۔ (100) جن کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا (کہ میری آیات نہیں دیکھتے تھے) اور وہ سن نہیں سکتے تھے۔ (101) کیا کافروں کا یہ خیال ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز اور سرپرست بنا لیں گے۱ (اور ہم باز پرس نہیں کریں گے) بےشک ہم نے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ (102) (اے پیغمبر(ص)) آپ کہہ دیجئے (اے لوگو) کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون ہیں۔ (103) جن کی دنیا کی زندگی کی تمام سعی و کوشش اکارت ہوگئی حالانکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔ (104) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کا اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا پس ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ اس لئے ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (105) یہ ان کی سزا ہے جہنم۔ ان کے کفر کرنے اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑانے کی پاداش میں۔ (106) بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے تو ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغ ہیں۔ (107) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہاں سے منتقل ہونا پسند نہیں کریں گے۔ (108) کہہ دیجئے! کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کیلئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے گا قبل اس کے کہ میرے پروردگار کے کلمات ختم ہوں اگرچہ ہم اس کی مدد کیلئے ویسا ہی ایک سمندر لے آئیں۔ (109) (اے رسول(ص)) کہہ دیجئے! کہ میں (بھی) تمہاری طرح ایک بشر (انسان) ہوں البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے پس جو کوئی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔ (110)