عبادات

جب ہر ذرہ اہمیت رکھتا ہے: سورہ الزلزالہ (آیات 7-8) پر ایک گہرا غور و فکر

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے اعمال بھی- چاہے اچھے ہوں یا برے- کیسے ریکارڈ کیے جاتے ہیں؟ ہم اکثر اپنے معمولی اعمال کو کم سمجھتے ہیں- ایک مسکراہٹ، ایک مہربان لفظ، یا یہاں تک کہ غفلت کا ایک لمحہ- مگر اللہ کی نظر میں ہر عمل وزن رکھتا ہے۔ سورہ الزلزالہ، خاص طور پر آیات 7 اور 8، ہمیں اس گہری حقیقت کی یاد دلاتی ہیں:

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًۭا يَرَهُۥ ۝ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ شَرًّۭا يَرَهُۥ
تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا

قرآن کی یہ دو مختصر آیات معانی کا ایک جہان رکھتی ہیں۔ یہ ہمارے دلوں کو بیدار کرتی ہیں اور ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اسلام میں، کوئی بھی چیز نظر انداز نہیں ہوتی۔ اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم ان آیات کو اپنے مشن کے قریب رکھتے ہیں، کیونکہ یہ اللہ کے سامنے ایمان، اخلاص اور جوابدہی کے جوہر کی عکاسی کرتی ہیں۔

اللہ کی نظر میں ایک عمل کا وزن

ہماری دنیاوی نظر میں، ایک ذرہ بے معنی لگ سکتا ہے۔ لیکن اللہ کی نظر میں، یہ بے پناہ قدر رکھتا ہے۔ یہ آیات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کوئی بھی عمل اس کے علم سے بچ نہیں سکتا۔ ہر لفظ، ہر نیت، اور مہربانی کا ہر خاموش عمل- یہ سب لکھے ہوئے ہیں۔

جب اللہ فرماتا ہے، "جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا،” تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ ایک چھوٹا سا عمل بھی، جیسے کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، ایک سکہ صدقہ کرنا، یا کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، قیامت کے دن ہمارے سامنے آئے گا۔ یہ ایک تسلی بخش یاد دہانی ہے کہ آپ کی کوششیں- چاہے ظاہر ہوں یا پوشیدہ- کبھی خاموشی میں غائب نہیں ہوتیں۔

اسی وقت، اللہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی نظر انداز نہیں کی جائے گی۔ ہمارے کہے گئے تکلیف دہ الفاظ سے لے کر ان لمحات تک جب ہم دوسروں کی مدد کرنے سے منہ موڑتے ہیں، ہر چیز مکمل انصاف کے ساتھ پیش کی جائے گی۔ جتنا آپ اس کے بارے میں سوچیں گے، اتنا ہی آپ کو احساس ہوگا کہ یہ آیت کس طرح ایک مومن کے پورے طرز زندگی کو تشکیل دیتی ہے- ہمیں ہوش مندی سے، ہر قدم کے ادراک کے ساتھ جینے کی رہنمائی کرتی ہے۔

نیک اعمال کبھی بہت چھوٹے نہیں ہوتے

ان آیات میں کچھ ناقابل یقین حد تک دل کو چھو لینے والا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہیں کہ نیکی کا کوئی بھی عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کا صدقہ چھوٹا ہے- شاید چند سکے، یا کسی ضرورت مند کے لیے ایک مختصر دعا- لیکن اللہ کی نظر میں، یہ سونے سے زیادہ چمکتا ہے۔

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم اس سچائی کو ہر روز زندہ ہوتا دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی، ایک چھوٹا سا عطیہ ایک بچے کو کھانا کھلاتا ہے، ایک نیکی ایک خاندان کو بچاتی ہے، یا ایک دعا کسی کے حوصلے کو بلند کرتی ہے۔ یہ دنیاوی اعتبار سے بڑے اشارے نہیں ہیں، لیکن اللہ کے سامنے، ان کا ابدی وزن ہے۔

ہمارا مشن غریبوں کی مدد کرنے سے آگے بڑھ کر اس یقین کو اپنائے ہوئے ہے کہ ہر حصہ اہمیت رکھتا ہے، اور یہ کہ آپ کا اخلاص ہی آپ کے صدقے کو اس کی حقیقی قدر دیتا ہے۔ افریقہ میں فقراء کی مدد کرنے سے لے کر فلسطین میں بچوں کی تعلیم کی حمایت تک، آپ کے چھوٹے اعمال رحمت کی لہریں پیدا کرنے کے لیے ملتے ہیں جو آپ کی نظر سے کہیں زیادہ دور تک پہنچتی ہیں۔

لہذا جب آپ کچھ دیتے ہیں- چاہے وہ مال ہو، وقت ہو، یا ہمدردی ہو- یاد رکھیں کہ آپ صرف دوسروں کی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ آپ اپنی آخرت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جہاں نیکی کا ہر ذرہ آپ کو ایسے طریقوں سے واپس ملے گا جو تصور سے بھی باہر ہیں۔

احتساب کا آئینہ

یہ آیات صرف اجر کے بارے میں نہیں- یہ غور و فکر کے بارے میں بھی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمیں مسلسل دیکھا جا رہا ہے، دوسروں کے ذریعے نہیں، بلکہ اس ذات کے ذریعے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ اس کا مقصد خوف پیدا کرنا نہیں، بلکہ ہوش مندی کو بیدار کرنا ہے۔

قیامت کے دن کا تصور کریں، جب ہر عمل، چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو، آپ کے سامنے آئے گا۔ اس دن، لوگ اللہ کے ریکارڈ کی درستگی پر حیران رہ جائیں گے۔ نہ مسکراہٹ اور نہ آہ- کوئی چیز غائب نہیں ہوگی۔ یہ الہی انصاف ہے- مطلق، رحیم، اور مکمل۔

یہ آگاہی عاجزی پیدا کرتی ہے۔ یہ ہمیں اپنی نیتوں کو صاف کرنے، نیک کام صرف اللہ کے لیے کرنے، نہ کہ تعریف کے لیے، کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ دل کی پاکیزگی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنا خود عمل۔ جیسا کہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا، "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔”

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم اس اصول کو مجسم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا کام اعداد یا پہچان سے نہیں، بلکہ اخلاص سے رہنمائی پاتا ہے۔ ہم صرف بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے؛ ہم ہر عمل میں اللہ کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں ملنے والا ہر عطیہ، ہمارے ذریعے تقسیم کیا جانے والا ہر کھانا، عمل میں ایمان کی عکاسی ہے- ان آیات کی ایک زندہ تشریح۔

دنیاوی اعمال سے ابدی انعامات تک

اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ظاہر کو باطن سے جوڑتا ہے۔ آپ کی روزمرہ کی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے- آپ کا صدقہ، صبر، ایمانداری، اور ہمدردی- یہ سب آخرت میں گونجتے ہیں۔ اس دنیا سے اگلی دنیا تک، ہر نیک عمل ایک روحانی نشان چھوڑتا ہے۔

سورہ الزلزالہ کی یہ آیات ہمیں آہستہ سے یاد دلاتی ہیں کہ زندگی بے ترتیب نہیں ہے۔ ہر لمحہ اہم ہے۔ ہر عمل آپ کی روح کی کہانی میں ایک سطر لکھتا ہے۔ اور جب ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تو ہم بالآخر دیکھیں گے جو ہم نظر انداز کرتے تھے۔

جب ہم دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنی ہی خدمت کر رہے ہوتے ہیں- اپنے ایمان کی پرورش اور ابدیت کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم دیتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اللہ ہمیں برکت دیتا ہے۔ جتنا زیادہ ہم معاف کرتے ہیں، اتنی ہی زیادہ ہمارے دلوں میں سکون بھرتا ہے۔

اسی لیے اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم آپ کو ایسے اعمال میں حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں جو کبھی ماند نہیں پڑتے۔ چاہے آپ کی دعاؤں کے ذریعے، آپ کی زکوٰۃ کے ذریعے، یا آپ کے صدقے کے ذریعے، ہر عمل ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ یہ اب چھوٹا لگ سکتا ہے، لیکن اس دن جب تمام اعمال ظاہر کیے جائیں گے، تو آپ اسے اپنے ابدی انعامات کے درمیان چمکتا ہوا دیکھیں گے۔

ہم مسلمانوں کے لیے قرآن کی آیات کی تفاسیر (تفسیر) وقفے وقفے سے لکھتے ہیں۔ مزید پڑھنے کے لیے، اس لنک پر کلک کریں: سورہ البقرہ کی آیات 183 اور 184 کی تفسیر

ہوش مندی سے جئیں، خلوص سے عمل کریں

سورہ الزلزالہ (آیات 7-8) ایک یاد دہانی ہے کہ زندگی انتخاب کا ایک سلسلہ ہے، ہر ایک کو سب سے زیادہ عادل ذات نے ریکارڈ کیا ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا- نہ ہماری مہربانی اور نہ ہماری غلطیاں۔

تو آئیے ارادے سے جئیں۔ آئیے جب تک ہم کر سکتے ہیں نیکی کریں، ضرورت مندوں کی مدد کریں، اور اپنے دلوں کو اخلاص سے پاک کریں۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا عمل- ایک مہربان لفظ، ایک سکہ، ایک دعا- اللہ کی رحمت کے دروازے کھول سکتا ہے۔

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم ہر قدم پر اس آیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ مل کر، ہم چھوٹے اعمال کو دیرپا تبدیلی میں بدل سکتے ہیں، اس دنیا اور آخرت دونوں میں۔ کیونکہ جب آپ اللہ کی خاطر دیتے ہیں، تو کوئی بھی نیک عمل کبھی بہت چھوٹا نہیں ہوتا۔

عباداتمذہب

غزہ کے لیے امید: بے گھر افراد کے لیے زندگی کو ایک حقیقت بنانا

آخر کار امن کی بات ہوئی ہے غزہ اور رفح میں، اور اکتوبر 2025 میں پہلا معاہدہ ہوا۔ اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں ہمارے لیے یہ محض خبر نہیں تھی، یہ امید تھی۔ یہ وہ روشنی تھی جس کے لیے کئی سالوں کی تباہی کے دوران بے شمار خاندانوں نے دعا کی تھی۔ لیکن آئیے ایماندار بنیں: امن تو محض آغاز ہے۔ ایک معاہدے پر دستخط کرنا ایک بات ہے، ایک تباہ شدہ معاشرے کی تعمیر نو دوسری بات ہے۔ تو اب غزہ کا مستقبل کیسا نظر آتا ہے؟ اور زندگی کو دوبارہ معمول پر آنے میں کتنا وقت لگے گا؟

تباہی اور تعمیر نو کا ڈومینو اثر

آئیے اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ یہ مثال بالکل بھی حقیقی نقل نہیں ہے کیونکہ غزہ میں، انسانی جانیں اور زندگی کے حالات بقا کے لیے واقعی خطرے میں ہیں لیکن یہ صرف بہتر تفہیم کے لیے ہے۔

کیا آپ نے کبھی ڈومینو کا کھیل دیکھا ہے؟ ہزاروں ڈومینو کو کامل درستگی کے ساتھ ترتیب دینے میں مہینے، کبھی کبھی تو سال بھی لگ جاتے ہیں۔ پھر، چند ہی سیکنڈز میں، سب کچھ گر کر تباہ ہو جاتا ہے۔ یہی آج کا غزہ ہے۔ دو سال کی جنگ نے تقریباً 1.9 ملین افراد کو بے گھر کیا۔ جن خاندانوں کے گھر، دکانیں، اسکول اور یادیں تھیں، وہ اب خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ دہائیوں میں جو کچھ بھی بنایا گیا تھا وہ پلک جھپکتے ہی تباہ ہو گیا۔

تباہی تیزی سے ہوئی، لیکن تعمیر نو سست ہوگی۔ آپ اور میں جانتے ہیں کہ جب کوئی گھر تباہ ہوتا ہے، تو صرف اینٹیں اور سیمنٹ ہی غائب نہیں ہوتے۔ یہ ایک گھر ہوتا ہے، ایک یاد، تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ غزہ کی تعمیر نو کا مطلب صرف سڑکوں اور ہسپتالوں کی مرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے وقار بحال کرنا اور اعتماد دوبارہ قائم کرنا۔

امن کے بعد ہم کہاں سے آغاز کریں؟

جب امن کا اعلان ہوا، تو ہم نے اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں رفح کراسنگ کے ذریعے دوبارہ امداد پہنچانے کی فوری تیاری کی۔ کھانے، پانی، طبی سامان، اور عارضی پناہ گاہوں سے لدے ٹرک حرکت میں آنے لگے، کیونکہ امن کے بعد سب سے پہلا قدم بقا ہے۔ لوگوں کو نقشوں سے پہلے روٹی، یادگاروں سے پہلے دوا کی ضرورت ہے۔

پانی کی پائپ لائنوں سے لے کر بجلی کے نیٹ ورکس تک، ڈیزل ایندھن سے لے کر ٹوٹی ہوئی سڑکوں تک، عوامی انفراسٹرکچر وہ بنیاد ہے جسے پہلے بحال کرنا ضروری ہے۔ پانی کے بغیر زندگی نہیں۔ بجلی کے بغیر ہسپتال اور اسکول کام نہیں کر سکتے۔ ایک بار جب بنیادی چیزیں اپنی جگہ پر آ جائیں، تو ہم دوسرے مرحلے پر منتقل ہوتے ہیں: گھروں، اسکولوں، اور کلینکس کی تعمیر نو۔

یہ صرف کنکریٹ اور اسٹیل کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایسی جگہیں بنانے کے بارے میں ہے جہاں بچے دوبارہ ہنس سکیں، جہاں مائیں خود کو محفوظ محسوس کریں، اور جہاں باپ وقار کے ساتھ کام کر سکیں اور اپنے خاندانوں کو پال سکیں۔ یا تو ہم صرف عمارتوں پر توجہ دیں، یا ہم سمجھیں کہ حقیقی بحالی جسمانی اور روحانی دونوں ہے۔ ہمارا مشن صرف امداد فراہم کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے، یہ ایسے معاشرے کی تعمیر کا احاطہ کرتا ہے جہاں امید زندہ رہے۔

غزہ کی تعمیر نو میں کتنا وقت لگے گا؟

ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ہے: کتنا وقت لگے گا؟ تباہی دو سال میں ہوئی، لیکن تعمیر نو میں دہائیاں لگیں گی۔ ماہرین اکثر جسمانی تعمیر نو کے لیے 10 سے 20 سال کی بات کرتے ہیں، اور وہ بھی پرامید حالات میں۔ کچھ اس سے بھی زیادہ کہتے ہیں، اس بات پر منحصر ہے کہ عالمی برادری کتنی مدد فراہم کرتی ہے۔

لیکن یاد رکھیں: بحالی صرف دوبارہ کھڑی ہونے والی عمارتوں سے نہیں ماپی جاتی۔ اسے دوبارہ کھلنے والے اسکولوں، پیدا ہونے والی ملازمتوں اور ہنستے ہوئے بچوں سے ماپا جاتا ہے۔ دل کے زخموں کو بھرنے میں شہر کے زخموں کو بھرنے سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ہم جتنا زیادہ تعاون کریں گے، یہ عمل اتنا ہی تیز ہو سکتا ہے۔ دنیا جتنی کم پرواہ کرے گی، یہ اتنا ہی سست ہوتا جائے گا۔ آپ، پیارے پڑھنے والے، اس کمیونٹی اور امت کا حصہ ہیں۔ آپ بھی اس جنگ زدہ پناہ گزینوں کی امداد کا حصہ بنیں۔

غزہ کے لیے امید

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم حقیقت پسند ہیں لیکن کبھی ہمت نہیں ہارتے۔ ہم نے یہ شام، یمن، اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں دیکھا ہے۔ ہم صرف امداد فراہم کرنے سے کہیں زیادہ کرتے ہیں، ہم مظلوموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ غزہ کو فراموش نہیں کیا گیا۔

آپ کیا کر سکتے ہیں؟

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اتنی بڑی تباہی کے عالم میں میری مدد کیا فرق ڈال سکتی ہے؟ جواب سادہ ہے: ہر عمل شمار ہوتا ہے۔ جیسے ہر ڈومینو کا ٹکڑا مکمل تصویر کے لیے ضروری ہے، اسی طرح غزہ کے لیے ہر عطیہ، ہر دعا، ہر اٹھائی گئی آواز اس زنجیر کا ایک ٹکڑا ہے۔

آپ عطیہ کر سکتے ہیں، خاص طور پر کرپٹو کرنسی عطیہ کے اختیارات کے ذریعے جو ہمیں فنڈز کو تیزی سے منتقل کرنے اور بغیر رکاوٹوں کے امداد فراہم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ چاہے آپ بٹ کوائن، ایتھریم، یا اسٹیبل کوائنز میں دیں، آپ غزہ کی تعمیر نو کا حصہ ہیں۔ اور آپ کی آج کی سخاوت کل کے لیے امن کے بیج بوتی ہے۔

ایک نئے راستے کا آغاز

اکتوبر 2025 کا امن معاہدہ غزہ کی مصیبتوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ یہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ ان شاء اللہ، یہ امن برقرار رہے گا۔ رفح کے راستے ہم ہر ٹرک بھیجتے ہیں، ہر خاندان جس کی ہم مدد کرتے ہیں، ہم غزہ میں دوبارہ زندگی کی روح پھونکتے ہیں۔

غزہ کے لوگوں کو مت بھولیں۔ ان کی آواز بنیں۔ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، کیونکہ غزہ کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم آج کیا کرتے ہیں۔ مل کر، ہم ملبے کو امید میں، مایوسی کو عزم میں، اور بکھر جانے کو استقامت میں بدل سکتے ہیں۔

انسانی امدادرپورٹزکوٰۃصدقہعباداتہم کیا کرتے ہیں۔

عالمی فارم اینیمل ڈے اور اسلام: قربانی میں احترام کا حقیقی مفہوم

2 اکتوبر کو عالمی فارم اینیمل ڈے منایا جاتا ہے، یہ ایک ایسا دن ہے جو بنی نوع انسان کو خوراک اور کام کے لیے پالے جانے والے جانوروں کے وقار اور قدر کی یاد دلاتا ہے۔ جبکہ جدید دنیا اکثر جانوروں کے حقوق، حد سے زیادہ استعمال، اور صنعتی کاشتکاری پر بحث کرتی ہے، اسلام نے پہلے ہی ایسے اصول وضع کر رکھے ہیں جو ہمیں جانوروں کی زندگیوں کا احترام اور عزت کرنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہمارا ماننا ہے کہ یہ دن ہمارے لیے بطور مسلمان ایک موقع ہے کہ ہم غور کریں کہ قربانی اور اسلامی قوانین کس طرح جانوروں کے تئیں ہمدردی، شکر گزاری، اور ذمہ داری سکھاتے ہیں۔

اسلام میں جانوروں کا احترام کیوں ضروری ہے

اسلام میں، جانور محض اشیاء نہیں ہیں۔ وہ اللہ کی زندہ مخلوق ہیں، جو ہمیں حقوق اور تحفظات کے ساتھ سپرد کی گئی ہیں۔ قربانی کے اصول صرف قربانی کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ رحم، مہربانی، اور احترام دکھانے کے بارے میں ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں، قربانی سے پہلے جانور کو پانی پلایا جائے، اور تیز ترین بلیڈ استعمال کیا جائے تاکہ عمل تیز اور تکلیف دہ نہ ہو۔

یہ اعمال ثقافتی عادات نہیں بلکہ روحانی فرائض ہیں جو رحم کی عکاسی کرتے ہیں۔

جب آپ اور میں دیکھتے ہیں کہ دنیا فارم کے جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، تو ہم بڑے پیمانے پر پیداوار پر مبنی صنعتیں دیکھتے ہیں، جہاں جانوروں کو اکثر بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں، یہاں تک کہ جب کسی جانور کی قربانی دی جاتی ہے، تو یہ انتہائی وقار، شکر گزاری، اور تعظیم کے ساتھ کی جاتی ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہم کبھی بھی اس کی جان بلا مقصد نہ لیں۔

قربانی کا گہرا مفہوم

اسلام میں قربانی محض گوشت فراہم کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، ضرورت مندوں کے ساتھ نعمتیں بانٹنے، اور عاجزی پر عمل کرنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کھانے کا ہر لقمہ ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ جب آپ قربانی کا گوشت کھاتے ہیں، تو آپ کو شکر گزار ہونے، لی گئی جان کا احترام کرنے، اور غریبوں میں فیاضی سے تقسیم کرنے کی یاد دلائی جاتی ہے۔

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہمارا ماننا ہے کہ قربانی عبادت اور خیرات کا ایک طاقتور امتزاج ہے۔ قربانی کیے گئے جانور کا گوشت ان لوگوں کے لیے رزق بن جاتا ہے جو اسے خرید نہیں سکتے، ایک مقدس عمل کو بھوکے افراد کے لیے خوراک میں تبدیل کر دیتا ہے۔ آج، کرپٹو کرنسی کے عطیات ہمیں اس رسائی کو بڑھانے میں مدد کرتے ہیں، مزید خاندانوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں اور بانٹنے کے مقدس فریضے کو پورا کرتے ہیں۔

دنیا کو اب بھی جانوروں کی قربانی کی ضرورت کیوں ہے

کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ انسانیت کو جانوروں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے سبزی خوری کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگرچہ نیت عمدہ لگ سکتی ہے، حقیقت بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ تین ناقابل تردید وجوہات ہیں کہ جانور انسانی بقا کے لیے کیوں ضروری ہیں:

  1. محدود نباتاتی خوراک کے وسائل: زمین فی الحال ہر شخص کے لیے کافی نباتاتی خوراک پیدا نہیں کر سکتی، بغیر تباہ کن ماحولیاتی نتائج کے۔ اور عملی طور پر اگر دنیا کے تمام لوگ سبزی خور بننا چاہیں، تو ہمیں زندگی کے چکر کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور عام طور پر زمین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہم قابل کاشت زمین یا گرین ہاؤسز بنا سکیں۔
  2. صحت کی ضروریات: گوشت ایسے اہم غذائی اجزاء فراہم کرتا ہے جو پودوں سے مکمل طور پر تبدیل کرنا مشکل ہے۔
  3. قدرتی غذائی سلسلہ: انسان زندگی کے چکر کا حصہ ہیں۔ ہماری غذا سے جانوروں کو مکمل طور پر ہٹانے کا مطلب فطرت کے توازن کو ہی تبدیل کرنا ہوگا۔

اگر انسانیت کو جانوروں کا استعمال کرنا ہی ہے، تو اسلام ہمیں ایسا کرنے کا سب سے باعزت اور رحمدل طریقہ سکھاتا ہے۔ ذبح کے اسلامی قوانین دکھ کو کم کرنے، شکر گزاری کو زیادہ سے زیادہ کرنے، اور تقسیم میں انصاف کو یقینی بنانے پر مبنی ہیں۔

جانور کا احترام: ایک مقدس امانت

اسلام میں جب بھی کسی جانور کی قربانی کی جاتی ہے، یہ عمل میز پر کھانا فراہم کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ زندگی مقدس ہے، ایک زندگی دوسری کو قائم رکھتی ہے، اور ہمارا فرض ہے کہ اس امانت کو مہربانی کے ساتھ عزت دیں۔ جب ہم بسم اللہ کہہ کر قربانی کرتے ہیں، تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی صرف اللہ کی ہے، اور ہم محض اس کے عارضی نگہبان ہیں۔

یہ میدان ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں ہم اپنے سخی حامیوں کے عطیہ کردہ اونٹ خریدتے ہیں۔ جانوروں کو ایک نیک مسلمان احمد نامی شخص فراہم کرتا ہے، جن کی ان کے تئیں دیکھ بھال اور مہربانی ہمیں ان کی فلاح و بہبود پر مکمل اعتماد دیتی ہے۔

عالمی فارم اینیمل ڈے اور قربانی اسلامی قوانین کے مطابق اسلامک ریلیف 100 فیصد عطیہ پالیسی کرپٹو کرنسی خیرات

عالمی فارم اینیمل ڈے لوگوں کو ظلم اور بدسلوکی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بطور مسلمان، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہمیں پہلے ہی نقصان سے بچنے، جانوروں کی عزت کرنے، اور گہرے احترام کے ساتھ قربانی کے عمل کو انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ قربانی کے اصول: جانور کو پانی پلانا، تیز چھری کا استعمال کرنا، ایک تیز اور رحمدل عمل کو یقینی بنانا یہ اہم ہدایات ہیں جو جانور کے آخری سانس تک اس کے وقار کو برقرار رکھتی ہیں۔

اس ذمہ داری کو نبھانے میں ہمارے ساتھ شامل ہوں

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم اسلامی اصولوں کا مکمل احترام کرتے ہوئے قربانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کے تعاون سے، ہم یقینی بناتے ہیں کہ ہر جانور کی قربانی برکت کا ذریعہ بنے، نہ صرف اس کے لیے جو اسے پیش کرتا ہے بلکہ ان خاندانوں کے لیے بھی جو اس کا گوشت حاصل کرتے ہیں۔

قربانی کی سرگرمیاں تین اہم شعبوں میں منظم کی جاتی ہیں: عید الاضحیٰ، سال بھر ضرورت مندوں کے لیے قربانیاں، اور نوزائیدہ بچوں کے لیے عقیقہ۔ عمل کا ہر مرحلہ ایک اسلامی عالم اور ایک مستند ویٹرنری ڈاکٹر کی مشترکہ نگرانی میں انجام دیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قربانی کا عمل شریعت کے عین مطابق انجام دیا جائے، عطیہ دہندہ کی نیت کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے محفوظ رکھا جائے، اور ساتھ ہی صحت، حفظان صحت، اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے اعلیٰ ترین معیارات کی ضمانت بھی دی جائے۔

اسلامی قوانین کے مطابق قربانی

آج، آپ میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے۔ کرپٹو کرنسی کے ذریعے عطیہ دے کر، آپ براہ راست قربانی اور دیگر فلاحی کاموں میں حصہ لے سکتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ آپ کی سخاوت بھوکوں کو کھانا کھلائے، جانوروں کی عزت کرے، اور اللہ کے تئیں آپ کے فرض کو پورا کرے۔

آئیں ہم ایک ساتھ کھڑے ہوں، ایک کمیونٹی کے طور پر، جانوروں کا احترام کریں، اپنی نعمتیں بانٹیں، اور اسلام کے خوبصورت اصولوں پر عمل کریں۔

پروجیکٹسرپورٹزکوٰۃصدقہعباداتمذہبہم کیا کرتے ہیں۔

عالمی یوم تشکر: شکریہ کہنا پہلے سے کہیں زیادہ کیوں اہمیت رکھتا ہے

شکرگزاری صرف ایک مہربان لفظ سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو دلوں کو نرم کرتی ہے، رشتوں کو مضبوط بناتی ہے، اور ہماری زندگیوں میں برکتیں لاتی ہے۔ ہر سال 21 ستمبر کو، دنیا بھر کے لوگ عالمی یوم تشکر مناتے ہیں۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم رکیں، غور کریں، اور ان نعمتوں کی قدر کریں جو ہمارے پاس ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو ہماری زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں۔

لیکن شکرگزاری صرف "شکریہ” کہنے کا نام نہیں ہے۔ یہ اس بات کا نام ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے لیے شکر سے بھرپور دل کے ساتھ زندگی گزاریں اور ان لوگوں کا اعتراف کریں جو پس منظر میں خاموشی سے خدمت انجام دیتے ہیں۔

عالمی یوم تشکر کی تاریخ اور اہمیت

عالمی یوم تشکر کا آغاز شکر گزاری اور قدردانی کے عالمی جشن کے طور پر ہوا۔ اس کا مقصد ہر سال ایک دن انسانیت کو شکر گزار ہونے کی اہمیت یاد دلانا تھا۔ ان چیزوں کے لیے شکر گزار ہوں جو ہمارے پاس ہیں، اس کے لیے جو ہم ہیں، اور ان لوگوں کے لیے جو ہماری زندگیوں کو چھوتے ہیں۔

اس دن، لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اندر کی اچھی خوبیوں کو پہچانیں اور پھر اس شکرگزاری کو اپنے خاندان، دوستوں، ساتھیوں اور کمیونٹیز تک پھیلائیں۔ ہمارے لیے، ایک اسلامی فلاحی ادارے کے طور پر، یہ اسلام میں شکرگزاری کی گہری قدر پر غور کرنے کا بھی ایک موقع ہے، جہاں اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کے لیے مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے۔

ہمارے عطیہ دہندگان اور حامیوں کا شکریہ

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم اس پیغام کو ہر روز اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ ہم اپنے عطیہ دہندگان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں، خواہ وہ جو اپنے نام ظاہر کرتے ہیں اور خواہ وہ جو گمنام طور پر عطیہ دیتے ہیں۔ کئی بار، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ عطیہ کس نے بھیجا یا دنیا کے کس کونے سے آیا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہر نیک عمل کو دیکھتا ہے۔

جب آپ اپنا کرپٹو کرنسی کا عطیہ، اپنی زکوٰۃ، یا اپنا صدقہ دینے کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ غریبوں اور ضرورت مندوں کی زندگیوں میں امید، محبت، اور عزت منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم کبھی نہیں بھولتے کہ ہماری فلاحی باورچی خانوں میں پیش کیے جانے والے ہر کھانے کے پیچھے، ایک بھوکے بچے کے سامنے رکھے گئے ہر گرم پلیٹ کے پیچھے، آپ جیسا کوئی ہے جس نے کھلے دل سے عطیہ دیا۔

ہمارے فلاحی باورچی خانوں کے گمنام ہیرو

آج، عالمی یوم تشکر پر، ہم ایک اور ایسے گروہ کو بھی نمایاں کرنا چاہتے ہیں جسے شاذ و نادر ہی توجہ ملتی ہے: ہمارے وہ رضاکار جو پس منظر میں انتھک محنت کرتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو ہمارے فلاحی باورچی خانوں میں صفائی، حفظان صحت اور برتن دھونے کے ذمہ دار ہیں۔

ذرا سوچیں: ضرورت مند خاندان کو دیا جانے والا ہر پلیٹ کھانا محتاط ہاتھوں سے گزرا ہے۔ ایک برتن دھونے والے نے اسے رگڑ کر صاف کیا ہے، ایک رضاکار نے اس کی صفائی کو یقینی بنایا ہے، اور کسی نے خاموشی سے اس کھانے کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کیا ہے۔ ان کا کام ہمیشہ دیکھا نہیں جاتا، لیکن یہ انتہائی ضروری ہے۔

صاف برتنوں کے بغیر، خوراک کی محفوظ تقسیم ممکن نہیں ہوگی۔ محتاط صفائی کے بغیر، پہلے سے ہی کمزور خاندانوں میں بیماری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یہ گمنام ہیرو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صحت بخش اور گرم کھانے فراہم کرنے کا ہمارا مشن مضبوط اور قابل اعتماد رہے۔

شکرگزاری ہم سب کے لیے نعمت کیوں ہے

شکرگزاری صرف دوسروں کے فائدے کے لیے نہیں ہے، یہ ہمیں بھی بدل دیتی ہے۔ جب ہم قدردانی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، تو ہم چھوٹی چیزوں میں خوبصورتی اور دوسروں کی پوشیدہ قربانیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ہم یاد رکھتے ہیں کہ خیرات کا کوئی بھی عمل، خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں رہتا۔

تو آج، ہم سب غور کریں۔ ہم اپنی میزوں پر موجود کھانے، ہماری صحت، ہمارے پیارے خاندانوں اور ہماری مشترکہ کمیونٹی کے لیے شکر گزار ہوں۔ اور آئیے ہم ان لوگوں کا شکریہ ادا کریں جو دوسروں کے لیے زندگی آسان بناتے ہیں: عطیہ دہندگان، رضاکاروں، باورچیوں، صفائی کرنے والوں، اور ہاں، ان برتن دھونے والوں کا بھی جو ہماری باورچی خانوں کو چلانے کے لیے خاموشی سے کام کرتے ہیں۔

ہماری طرف سے آپ کے لیے ایک آخری بات

عالمی یوم تشکر پر، ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی موجودگی، آپ کی حمایت، اور آپ کی مہربانی اہمیت رکھتی ہے۔ خواہ آپ کرپٹو کرنسی عطیہ کریں، ہمارے خوراک امداد کے منصوبوں میں حصہ ڈالیں، یا صرف ہمارے مشن کو دوسروں کے ساتھ بانٹیں، آپ شکرگزاری کے ایک ایسے دائرے کا حصہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہم مختلف ممالک میں مختلف فلاحی منصوبے بھی نافذ کرتے ہیں جہاں آپ اسلامی خیرات کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں۔

ہر گرم کھانا، ہر صاف برتن، ایک ضرورت مند بچے کی ہر مسکراہٹ آپ کی سخاوت کا عکاس ہے۔ ایک ساتھ مل کر، ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ شکرگزاری محض ایک احساس نہیں ہے، یہ عمل ہے، یہ خدمت ہے، اور یہ محبت کا اظہار ہے۔

تو ہم سب اسلامک ڈونیٹ چیریٹی کی طرف سے، آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر اس مہربانی کے عمل کا بھرپور اجر عطا فرمائے جو آپ نے دکھائی ہے۔

خوراک اور غذائیترپورٹصحت کی دیکھ بھالعباداتہم کیا کرتے ہیں۔

شراب حرام کیوں ہے؟ ایک عقلی اور قرآنی نقطہ نظر

شراب ہمیشہ سے ایک متنازعہ موضوع رہا ہے۔ کچھ لوگ اس کے فوائد پر بحث کرتے ہیں، جبکہ دوسرے اس کے نقصانات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کے لیے، یہ سوال صرف صحت یا سائنس کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ سچائی، عقل اور رہنمائی کے بارے میں ہے۔ قرآن ہمیں سب سے واضح اور منطقی جواب دیتا ہے۔ آئیے مل کر جائزہ لیں کہ شراب ممنوع کیوں ہے، نہ صرف ایک مذہبی حکم کے طور پر بلکہ ایک عقلی ضرورت کے طور پر جو ہمارے وقار اور انسانیت کی حفاظت کرتی ہے۔

شراب کی حرمت کے پیچھے قرآنی حکمت

جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شراب کو یکدم ممنوع نہیں کیا گیا بلکہ مراحل میں کیا گیا۔ پہلے، اسے ایسی چیز کے طور پر متعارف کرایا گیا جس میں نفع اور نقصان دونوں ہیں، لیکن اس کا نقصان نفع سے زیادہ ہے۔ بعد میں، مومنین کو نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی تنبیہ کی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شراب کس طرح فیصلے کو دھندلا دیتی ہے۔ آخر میں، فیصلہ کن حکم آیا، جس میں نشہ آور اشیاء کو شیطان کا گندہ عمل قرار دیا گیا اور ہمیں ان سے مکمل طور پر بچنے کا حکم دیا۔

”اے ایمان والو! بے شک شراب، جوا، بتوں کے تھان اور فال نکالنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہیں۔ لہٰذا تم ان سے پرہیز کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم باز نہیں آؤ گے؟“
(سورۃ المائدہ 5:90-91)

پیغام بالکل واضح ہے۔ نشہ آور اشیاء نہ صرف جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ دماغ کی شفافیت کو بھی متاثر کرتی ہیں۔

ہمیں حقیقی معنوں میں انسان کیا چیز بناتی ہے؟ یہ ہماری سوچنے، غور و فکر کرنے اور انتخاب کرنے کی صلاحیت ہے۔ جب شراب یہ صلاحیت چھین لیتی ہے تو ہم اس بنیادی جوہر کو کھو دیتے ہیں جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

ہم نے پہلے جوئے کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے کہ جوئے کو اسلامی قانون کے مطابق کیوں حرام قرار دیا گیا ہے، جسے آپ یہاں مکمل پڑھ سکتے ہیں۔

شراب انسانی دماغ کو متاثر کرتی ہے

آپ اور میں دونوں جانتے ہیں کہ شراب دماغ کو کمزور کرتی ہے۔ بہت سے ممالک میں جدید قوانین بھی اس کے زیر اثر گاڑی چلانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ فیصلے کو متاثر کرتا ہے اور جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ شراب کے زیر اثر بے شمار جرائم، جھگڑے اور حادثات رونما ہوتے ہیں۔ عدالتیں اکثر نشے میں دھت شخص کو عارضی طور پر پاگل قرار دیتی ہیں۔ لیکن خود سے پوچھیں: کوئی بھی کیوں رضاکارانہ طور پر ایسی حالت کا انتخاب کرے گا جہاں اس کا دماغ صحیح طریقے سے کام نہ کر رہا ہو؟

قرآن کی حکمت یہاں واضح ہو جاتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ نشہ آور اشیاء ہمیں نماز، اللہ کے ذکر اور صحیح فیصلے سے ہٹاتی ہیں۔ اور جب ہمارا دماغ اس طرح کام نہیں کرتا جیسا اسے کرنا چاہیے، تو ہم اپنی انسانیت سے محروم ہو جاتے ہیں، ایسے رویے پر اتر آتے ہیں جسے کوئی بھی عقلمند شخص منظور نہیں کرے گا۔

ہمیں حقیقی معنوں میں انسان کیا بناتا ہے؟

ہم نے خود کو ہومو سیپینز (عقلمند انسان) کا نام دیا ہے۔ دوسری مخلوقات سے ہمارا فرق جسمانی طاقت یا جبلت میں نہیں بلکہ سوچ کی قوت میں ہے۔ دماغ انسانی وجود کا تاج ہے، وہ تحفہ جو ہمیں انتخاب کرنے، تہذیبیں بنانے اور اپنے خالق سے جڑنے کی اجازت دیتا ہے۔

اب ذرا سوچیں۔ اگر ہم رضاکارانہ طور پر شراب سے اپنی سوچنے کی صلاحیت کو تباہ کر دیں، تو ہم میں کیا باقی رہ جائے گا؟ وہ حکمت کہاں ہے جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتی ہے؟ نشہ آور اشیاء کا استعمال کرکے، ہم اس آلے کو ناکارہ بنا دیتے ہیں جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ عقل اور ایمان دونوں ایسی خود تباہی کو مسترد کرتے ہیں۔

اپنے وقار کی حفاظت کا ایک پیغام

اسلامک ڈونیٹ چیریٹی میں، ہم خود کو اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یاد دلاتے ہیں کہ شراب کی حرمت صرف قوانین کی پیروی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دماغ کے تحفے کی حفاظت، وقار کو برقرار رکھنے اور اعلیٰ راستہ چننے کے بارے میں ہے۔ جب آپ شراب کو "نہ” کہتے ہیں، تو آپ وضاحت، حکمت اور ذمہ داری کو "ہاں” کہتے ہیں۔ آپ اپنی انسانیت کی تصدیق کرتے ہیں اور اللہ کی رہنمائی کا احترام کرتے ہیں۔

تو، آئیے خود سے پوچھیں: کیا ہم عقل، روشنی اور حکمت والے انسانوں کے طور پر جینا چاہتے ہیں؟ یا ہم اس خاصیت کو ترک کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں تمام مخلوقات میں منفرد بناتی ہے؟ انتخاب ہمارا ہے، اور قرآن ہمیں پہلے ہی راستہ دکھا چکا ہے۔

✨شراب حرام ہے کیونکہ یہ دماغ کو خراب کرتی ہے، نقصان کو بڑھاتی ہے، اور اس خاص تحفے کو مٹا دیتی ہے جو ہمیں انسان کے طور پر متعین کرتا ہے۔ جب ہم اس سے پرہیز کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف قرآن کی پیروی کرتے ہیں بلکہ منطق، عقل اور وقار کو بھی اپناتے ہیں۔

عباداتمذہب