قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
طا۔ سین۔ یہ قرآن واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ (1) جو ان ایمان والوں کیلئے (سراسر) ہدایت و بشارت ہیں۔ (2) جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (3) جو لوگ ایمان نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کے اعمال (ان کی نظر میں) خوشنما بنا دیئے ہیں پس وہ سرگردان پھر رہے ہیں۔ (4) یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے (دنیا میں) بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (5) (اے رسول(ص)) بےشک آپ کو یہ قرآن ایک بڑے حکمت والے، بڑے علم والے کی طرف سے عطا کیا جا رہا ہے۔ (6) (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے تو میں ابھی وہاں سے کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارہ لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔ (7) پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو (انہیں) ندا دی گئی کہ مبارک ہے وہ جس کا جلوہ آگ میں ہے۔ اور جس کا جلوہ اس کے اردگرد ہے اور پاک ہے اللہ جو پروردگارِ عالمیان ہے۔ (8) اے موسیٰ! بلاشبہ یہ میں اللہ ہوں، بڑا غلبہ والا، بڑا حکمت والا۔ (9) اور تم اپنا عصا پھینکو۔ پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ حرکت کر رہا ہے جیسے کہ وہ ایک سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر مڑے اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے آواز دی) اے موسیٰ خوف نہ کرو۔ میں وہ ہوں کہ میرے حضور پیغمبر خوف نہیں کرتے۔ (10) سوائے اس کے جو کوئی زیادتی کرے پھر وہ برائی کو اچھائی سے بدل دے تو بےشک میں بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہوں۔ (11) اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو تو وہ کسی بیماری کے بغیر چمکتا ہوا نکلے گا (یہ دو معجزے ہیں) ان نو معجزات میں سے جنہیں لے کر آپ نے فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانا ہے۔ وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں۔ (12) سو جب ان کے پاس ہمارے واضح معجزات پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (13) اور ان لوگوں نے ظلم و تکبر کی راہ سے ان (معجزات) کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے نفوس (دلوں) کو ان کا یقین تھا۔ اب دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ (14) اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو (خاص) علم عطا فرمایا۔ اور ان دونوں نے کہا کہ ہر قِسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ (15) اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ بےشک یہ (اللہ کا) کھلا ہوا فضل و کرم ہے۔ (16) اور سلیمان کے لئے جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے لشکر جمع کئے گئے۔ پس ان کی ترتیب وار صف بندی کی جاتی تھی۔ (17) یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ (18) وہ (سلیمان) اس کی بات پر مسکرا کر ہنس پڑے۔ اور کہا اے میرے پروردگار! مجھے ہمیشہ توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔ (19) اور سلیمان (ع) نے (ایک دن) پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے کہ میں ہُدہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہے؟ (20) (اگر ایسا ہی ہے) تو میں اسے سخت سزا دوں گا۔ یا اسے ذبح کر دوں گا۔ یا پھر وہ کوئی واضح دلیل (عذر) میرے سامنے پیش کرے۔ (21) پس کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہد ہد نے آکر کہا کہ میں نے وہ بات معلوم کی ہے جو آپ کو معلوم نہیں ہے۔ اور میں (ملک) سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ (22) میں نے ایک عورت کو پایا ہے جو ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا ایک بڑا تخت (سلطنت) ہے۔ (23) میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے عملوں کو ان کی نظر میں خوشنما بنا دیا ہے۔ پس اس نے انہیں اصل (سیدھے) راستہ سے ہٹا دیا ہے۔ سو وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (24) وہ کیوں اس خدا کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ چیزوں کو باہر لاتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔ (25) اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ (26) سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ (27) میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا۔ پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں؟ (28) اس (ملکہ) نے کہا اے (دربار کے) سردارو! مجھے ایک معزز خط پہنچایا گیا ہے۔ (29) وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (30) تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور فرمانبردار ہوکر میرے پاس آجاؤ۔ (31) چنانچہ ملکہ نے کہا: اے سردارانِ قوم! تم مجھے میرے اس معاملہ میں رائے دو (کیونکہ) میں کبھی کسی معاملہ کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ میرے پاس موجود نہ ہو۔ (32) انہوں نے کہا ہم طاقتور اور سخت لڑنے والے ہیں لیکن اختیار آپ کو ہی ہے۔ آپ دیکھ لیں (غور کریں) کہ کیا حکم دیتی ہیں؟ (33) ملکہ نے کہا بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور ایسا ہی (یہ لوگ) کریں گے۔ (34) (لہٰذا جنگ مناسب نہیں البتہ) میں ان کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں۔ اور پھر دیکھتی ہوں کہ میرے فرستادے (قاصد) کیا جواب لاتے ہیں؟ (35) سو جب وہ فرستادہ (یا ملکہ کا سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ تو اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے البتہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو سکتے ہو۔ (36) (اے سفیر) تو ان لوگوں کے پاس واپس لوٹ جا (اور ان کو بتا کہ) ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر آرہے ہیں جن کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ ہوگی اور ہم ان کو وہاں سے اس طرح ذلیل کرکے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو چکے ہوں گے۔ (37) آپ نے کہا اے عمائدین سلطنت! تم میں سے کون ہے؟ جو اس (ملکہ سبا) کا تخت میرے پاس لائے قبل اس کے کہ وہ مسلمان ہوکر میرے پاس آئیں؟ (38) جنات میں سے ایک شریر و چالاک جن نے کہا کہ میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ بےشک میں اس کی طاقت رکھتا ہوں (اور میں) امانت دار بھی ہوں۔ (39) اور اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ جھپکے پھر جب سلیمان نے اسے اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو وہ (اپنا نقصان کرتا ہے) میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے۔ (40) آپ نے کہا اس (ملکہ) کے تخت کی صورت بدل دو تاکہ ہم دیکھیں کہ آیا وہ صحیح بات تک راہ پاتی ہے یا وہ ان لوگوں میں سے ہے جو صحیح بات تک راہ نہیں پاتے۔ (41) الغرض جب ملکہ آئی تو اس سے کہا گیا کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے اور ہمیں تو پہلے ہی سے حقیقت معلوم ہوگئی تھی۔ اور ہم تو مسلمان (مطیع و فرمانبردار) ہو چکے ہیں۔ (42) اور سلیمان نے اس (ملکہ) کو غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا جو وہ کیا کرتی تھی کیونکہ وہ کافر قوم میں سے تھی۔ (43) اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو (بلوریں فرش کو گہرا) پانی خیال کیا اور (گزرنے کیلئے اس طرح پائیچے اٹھائے کہ) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ آپ نے کہا یہ (پانی نہیں ہے بلکہ) شیشوں سے مرصع محل ہے (اور بلوریں فرش ہے) ملکہ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔ (44) اور بےشک ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ تو وہ دو فریق (مؤمن و کافر) ہوگئے جو آپس میں جھگڑنے لگے۔ (45) آپ نے کہا اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کیلئے کیوں جلدی کرتے ہو؟ تم اللہ سے کیوں بخشش طلب نہیں کرتے؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (46) انہوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو برا شگون سمجھتے ہیں آپ (ع) نے کہا تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے بلکہ تم وہ لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔ (47) اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ (48) انہوں نے کہا کہ آپس میں خدا کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم رات کے وقت صالح اور اس کے گھر والوں کو ہلاک کر دیں گے اور پھر ان کے وارث سے کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔ (49) اور (اس طرح) انہوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ (50) تو دیکھو ان کی چال کا انجام کیا ہوا؟ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ (51) سو یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کی وجہ سے ویران پڑے ہیں۔ بےشک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں۔ (52) اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے۔ (53) اور ہم نے لوط کو بھی (رسول بنا کر بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کا کام کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ رہے ہو (جانتے بوجھتے ہو)۔ (54) کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو؟ بلکہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔ (55) ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کوئی نہ تھا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ (56) پس ہم نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نجات دی سوائے آپ کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ (57) اور ہم نے ان پر ایک خاص (پتھروں کی) بارش برسائی سو کیسی بری بارش تھی ان لوگوں کیلئے جن کو ڈرایا جا چکا تھا۔ (58) آپ کہئے! ہر قِسم کی تعریف اللہ کیلئے ہے اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جنہیں اس نے منتخب کیا ہے (ان سے پوچھو) کیا اللہ بہتر ہے یا وہ (معبود) جنہیں وہ (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہیں؟ (59) (ان مشرکین سے پوچھو) بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر ہم نے اس (پانی) سے خوش منظر (بارونق) باغات اگائے۔ ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہیں تھا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ بلکہ یہ (راہِ حق سے) انحراف کرنے والے لوگ ہیں۔ (60) بھلا وہ کون ہے جس نے زمین کو قرارگاہ بنایا؟ اور اس کے درمیان نہریں (ندیاں) جاری کیں اور اس کیلئے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان پردہ حائل کر دیا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (61) کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ نہیں – بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (62) جو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنی (باران) رحمت سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ اللہ برتر و بالا ہے ان چیزوں سے جنہیں وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ (63) وہ کون ہے جو خلقت کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔ (64) آپ کہہ دیجئے! کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے؟ (65) بلکہ آخرت کی منزل میں رفتہ رفتہ انہیں پورا علم ہوگا۔ بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے بالکل اندھے ہیں۔ (66) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے تب ہم (دوبارہ قبروں سے) نکالے جائیں گے۔ (67) اس کا وعدہ ہم سے بھی کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا یہ تو محض اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (68) آپ کہئے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا؟ (69) اور (اے رسول(ص)) آپ ان (کے حال) پر غمزدہ نہ ہوں۔ اور جو چالیں یہ چل رہے ہیں اس سے دل تنگ نہ ہوں۔ (70) اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ وعید کب پورا ہوگا؟ اگر تم سچے ہو؟ (71) آپ کہئے! بہت ممکن ہے کہ جس (عذاب) کیلئے تم جلدی کر رہے ہو اس کا کچھ حصہ تمہارے پیچھے آ لگا ہو(قریب آگیا ہو)۔ (72) اور بےشک آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (73) اور یقیناً آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے اسے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (74) اور آسمانوں و زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ چیز نہیں ہے۔ جو ایک واضح کتاب میں موجود نہ ہو۔ (75) بےشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کیا کرتے ہیں۔ (76) اور بلاشبہ وہ (قرآن) مؤمنین کیلئے سراپا ہدایت اور رحمت ہے۔ (77) اور بےشک آپ کا پروردگار اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ وہ بڑا غالب اور بڑا جاننے والا ہے۔ (78) سو آپ اللہ پر بھروسہ کریں۔ بےشک آپ واضح حق پر ہیں۔ (79) آپ مُردوں کو (آواز) نہیں سنا سکتے۔ اور نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر چل دیں۔ (80) اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (ہٹا کر) راستہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ تو صرف انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ بس یہی لوگ ماننے والے ہیں۔ (81) اور جب ان لوگوں پر وعدہ پورا ہونے کو ہوگا تو ہم زمین سے چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا۔ (اس بناء پر) کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔ (82) اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔ (83) یہاں تک کہ جب وہ (سب) آجائیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا کیا تم نے میری آیتوں کو اس حالت میں جھٹلایا تھا کہ تم نے ان کا علمی احاطہ بھی نہ کیا تھا؟ یا وہ کیا تھا جو تم کیا کرتے تھے؟ (84) اور ان لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر (وعدۂ عذاب کی) بات پوری ہو جائے گی تو اب وہ نہیں بولیں گے۔ (85) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات (تاریک) اس لئے بنائی کہ وہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن اس لئے بنایا (تاکہ اس میں کام کریں) بےشک اس میں ایمان لانے والوں کیلئے (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔ (86) اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب گھبرا جائیں گے سوائے ان کے جن کو خدا (بچانا) چاہے گا اور سب ذلت وعاجزی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ (87) (اس وقت) تم پہاڑوں کو دیکھوگے تو خیال کروگے کہ وہ ساکن و برقرار ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی مانند رواں دواں ہوں گے۔ یہ خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر شئے کو محکم و پائیدار بنایا ہے۔ بیشک وہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (88) جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ (89) اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کو اوندھے منہ آتش (دوزخ) میں پھینک دیا جائے گا۔ کیا تمہیں تمہارے عمل کے علاوہ کوئی بدلہ مل سکتا ہے؟ (جیسا کروگے ویسا بھروگے)۔ (90) (اے رسول(ص)۔ کہو) مجھے تو بس یہی حکم ملا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے رہوں۔ (91) اور یہ کہ قرآن پڑھ کر سناؤں سو اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے لئے ہدایت اختیار کرے گا۔ اور جو کوئی گمراہی اختیار کرے گا تو آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ (92) اور آپ کہہ دیجئے! کہ سب تعریف اللہ کیلئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم انہیں پہچان لوگے اور تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (93)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
طا، سین، میم۔ (1) یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ (2) شاید آپ (اس غم میں) جان دے دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (3) اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتاریں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔ (4) اور جب بھی ان کے پاس خدائے رحمن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ (5) بےشک یہ جھٹلا چکے ہیں تو عنقریب ان کے سامنے اس چیز کی خبریں آئیں گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ (6) کیا انہوں نے زمین کی طرف (غور سے) نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی کثرت سے عمدہ نباتات اگائی ہیں۔ (7) بےشک اس کے اندر ایک بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ (8) اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (9) (اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔ (10) یعنی فرعون کی قوم کے پاس۔ کیا وہ نہیں ڈرتے؟ (11) موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔ (12) اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو ہارون کے پاس (وحی) بھیج (کہ وہ میرا ساتھ دے)۔ (13) اور ان لوگوں کا میرے ذمہ ایک جرم بھی ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ (14) ارشاد ہوا ہرگز نہیں! تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ (سب کچھ) سن رہے ہیں۔ (15) پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ اور اس سے کہو کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار کے رسول ہیں۔ (16) کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ (17) فرعون نے کہا (اے موسیٰ) کیا تمہارے بچپن میں ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی ہے؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گزارے ہیں۔ (18) اور تو نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی اور تو ناشکروں میں سے ہے۔ (19) موسیٰ نے کہا: ہاں میں نے وہ کام اس وقت کیا تھا جب میں راستہ سے بھٹکا ہوا تھا۔ (20) تو جب میں تم سے ڈرا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد میرے پروردگار نے مجھے علم و حکمت عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے قرار دے دیا۔ (21) اور یہی (پرورش وغیرہ کا) وہ احسان ہے جو تو مجھے جتا رہا ہے جب کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔ (22) فرعون نے کہا اور یہ رب العالمین کیا چیز ہے۔ (23) موسیٰ نے کہا وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ (24) فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کیا تم سنتے نہیں ہو؟ (25) موسیٰ نے کہا وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے آباء و اجداد کا بھی پروردگار۔ (26) فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو بالکل دیوانہ ہے۔ (27) موسیٰ نے کہا کہ وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل سے کام لو۔ (28) فرعون نے کہا کہ اگر تو نے میرے سوا کوئی معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔ (29) موسیٰ نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی واضح نشانی بھی لے کر آؤں؟ (30) فرعون نے کہا: اچھا تو لے آ۔ اگر تو سچا ہے۔ (31) اس پر موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا تو ایک دم وہ کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔ (32) اس نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ایک دم دیکھنے والوں کیلئے چمک رہا تھا۔ (33) فرعون نے اپنے اردگرد کے عمائدین سے کہا کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے۔ (34) یہ اپنے جادو (کے زور) سے تمہیں اپنے ملک سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ اب تم کیا رائے دیتے ہو؟ (35) انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجئے اور تمام شہروں میں جمع کرنے والے آدمی (ہرکارے) بھیجئے۔ (36) جو ہر بڑے جادوگر کو تمہارے پاس لے آئیں۔ (37) چنانچہ تمام جادوگر ایک خاص مقررہ وقت پر جمع کر لئے گئے۔ (38) اور عام لوگوں سے کہا گیا۔ کیا تم لوگ بھی (مقابلہ دیکھنے کیلئے) جمع ہوگے؟ (39) تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم سب ان کی پیروی کریں۔ (40) تو جب جادوگر (میدان میں) آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کچھ صلہ تو ملے گا۔ (41) فرعون نے کہا: ہاں ضرور! اور تم اس وقت مقرب بارگاہ ہو جاؤگے۔ (42) موسیٰ نے ان سے کہا کہ تم پھینکو جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے۔ (43) چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں پھینک دیں اور کہا کہ فرعون کے جلال و اقبال کی قَسم ہم ہی غالب آئیں گے۔ (44) پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک دم ان کے بنائے ہوئے جھوٹ کو نگلنے لگا۔ (45) (یہ معجزہ دیکھ کر) سب جادوگر سجدہ میں گر پڑے۔ (46) اور کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے۔ (47) جو موسیٰ و ہارون کا رب ہے فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یقیناً یہ تمہارا بڑا (جادوگر) ہے۔ (48) جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کو مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا۔ اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ (49) انہوں نے کہا کوئی جرم نہیں ہم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں لوٹ جائیں گے۔ (50) ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لا رہے ہیں۔ (51) اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔ (52) پس فرعون نے تمام شہروں میں (لشکر) جمع کرنے والے (ہرکارے) بھیجے۔ (53) (اور کہلا بھیجا کہ) یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ (54) اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔ (55) اور بےشک ہم پورے محتاط اور چوکنا ہیں۔ (56) پھر ہم نے انہیں (مصر کے) باغوں اور چشموں (57) اور خزانوں اور شاندر عمدہ مکانوں سے نکال باہر کیا۔ (58) ایسا ہی ہوا اور ہم نے ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔ (59) چنانچہ صبح تڑکے وہ لوگ (فرعونی) ان کے تعاقب میں نکلے۔ (60) پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں (آمنے سامنے ہوئیں) تو موسیٰ کے ساتھیوں نے (گھبرا کر) کہا کہ بس ہم تو پکڑے گئے۔ (61) موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں! یقیناً میرا پروردگار میرے ساتھ ہے جو ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ (62) سو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ چنانچہ وہ دریا پھٹ گیا اور (پانی کا) ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ (63) اور ہم وہاں دوسرے فریق کو بھی نزدیک لائے۔ (64) اور ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (65) اور پھر ہم نے دوسرے فریق کو غرق کر دیا۔ (66) بےشک اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ (67) اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (68) اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (ع) کا قصہ بیان کیجئے۔ (69) جب انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا) اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو؟ (70) انہوں نے کہا کہ ہم تو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ (71) ابراہیم نے کہا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری آواز سنتے ہیں۔ (72) یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟ (73) انہوں نے کہا بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسے ہی کرتے پایا ہے۔ (74) ابراہیم نے کہا کیا تم نے ان چیزوں کی (اصل حقیقت) دیکھی ہے کہ جن کی تم (75) اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں؟ (کہ وہ کیا ہے؟) (76) بہرکیف یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے۔ (77) جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ پھر وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔ (78) اور وہ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا بھی۔ (79) اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔ (80) اور جو مجھے موت دے گا اور پھر مجھے (دوبارہ) زندہ کرے گا۔ (81) اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جزا و سزا کے دن میری خطا معاف کر دے گا۔ (82) اے میرے پروردگار! مجھے (علم و حکمت) عطا فرما۔ اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔ (83) اور آئندہ آنے والوں میں میرا ذکرِ خیر جاری رکھ۔ (84) اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ (85) اور میرے باپ (یعنی چچا) کی مغفرت فرما۔ بےشک وہ گمراہوں میں سے تھا۔ (86) اور جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے اس دن مجھے رسوا نہ کر۔ (87) جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔ (88) اور سوائے اس کے جو اللہ کی بارگاہ میں قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوگا۔ (89) اور جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی۔ (90) اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔ (91) اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟ (92) کیا وہ (آج) تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں یا وہ اپنا ہی بچاؤ کر سکتے ہیں؟ (93) پھر وہ معبود اور (یہ) گمراہ لوگ۔ (94) اور ابلیس اور اس کے سارے لشکر اس (دوزخ) میں اندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے۔ (95) اور وہ دوزخ میں باہم جھگڑتے ہوئے کہیں گے۔ (96) خدا کی قَسم ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ (97) جب تمہیں رب العالمین کے برابر قرار دیتے تھے۔ (98) اور ہم کو تو بس (بڑے) مجرموں نے گمراہ کیا تھا۔ (99) نہ اب ہمارا کوئی سفارشی ہے۔ (100) اور نہ کوئی مخلص دوست۔ (101) کاش! ہم دوبارہ (دنیا میں) بھیجے جاتے تو ضرور ہم اہلِ ایمان سے ہو جاتے۔ (102) بےشک اس میں بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ (103) اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (104) نوح(ع) کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ (105) جب کہ ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ ۔ (106) بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (107) سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (108) اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (109) پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (110) انہوں نے کہا ہم کس طرح تجھے مان لیں (اور اطاعت کریں) جبکہ رذیل لوگ تمہاری پیروی کر رہے ہیں۔ (111) آپ نے کہا مجھے اس کی کیا خبر (اور کیا غرض؟) جو وہ کرتے رہے ہیں؟ (112) ان کا حساب کتاب کرنا تو میرے پروردگار ہی کا کام ہے کاش تم شعور سے کام لیتے۔ (113) اور میں اہلِ ایمان کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔ (114) میں تو صرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ (115) ان لوگوں نے کہا اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تم ضرور سنگسار کر دیئے جاؤگے۔ (116) آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو مجھے جھٹلایا دیا ہے۔ (117) پس اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دے۔ (118) پس ہم نے انہیں اور جو اس بھری ہوئی کشتی میں ان کے ساتھ تھے سب کو نجات دی۔ (119) پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔ (120) بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے (مگر) ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لانے والے ہیں۔ (121) اور آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (122) (اسی طرح قوم) عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔ (123) جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ (124) بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (125) سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (126) اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (127) کیا تم ہر بلندی پر بے فائدہ ایک یادگار تعمیر کرتے ہو؟ (128) اور تم بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو شاید کہ تم ہمیشہ زندہ رہوگے۔ (129) اور جب تم کسی پر حملہ کرتے ہو تو جبار و سرکش بن کر حملہ کرتے ہو؟ (130) پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (131) اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی ہے جنہیں تم جانتے ہو۔ (132) (یعنی) اس نے مویشیوں اور اولاد سے تمہاری مدد فرمائی۔ (133) اور باغات اور چشموں سے۔ (134) میں تمہارے متعلق ایک بہت بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (135) ان لوگوں نے کہا کہ تم نصیحت کرو یا نہ کرو۔ ہمارے لئے برابر ہے۔ (136) یہ (ڈراوا) تو بس اگلے لوگوں کی عادت ہے۔ (137) اور ہم کبھی عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔ (138) پس انہوں نے اس (ہود) کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لائے نہیں تھے۔ (139) اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (140) قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (141) جبکہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ (142) میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (143) سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (144) اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (145) کیا تمہیں ان چیزوں میں جو یہاں ہیں امن و اطمینان سے چھوڑ دیا جائے گا۔ (146) (یعنی) باغوں اور چشموں میں۔ (147) اور ان کھجوروں میں جن کے خوشے نرم اور خوب بھرے ہوئے ہیں۔ (148) اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے ہوئے (یا مہارت سے) مکانات بناتے ہو۔ (149) پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (150) اور ان حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔ (151) جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (152) ان لوگوں نے کہا: (اے صالح) تم ان لوگوں میں سے ہو جن پر سخت (یا بار بار) جادو کر دیا گیا ہے۔ (153) (اور) تم تو بس ہمارے جیسے ایک بندہ ہو۔ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ لاؤ۔ (154) صالح نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن اس کے پانی پینے کا ہوگا اور ایک مقررہ دن کا پانی تمہارے پینے کیلئے ہوگا۔ (155) اور خبردار اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں ایک بڑے دن کا عذاب آپکڑے گا۔ (156) پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر پشیمان ہوئے۔ (157) پھر ان کو عذاب نے آپکڑا بےشک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ (158) اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (159) قومِ لوط نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (160) جبکہ ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔ (161) میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (162) پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (163) اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (164) کیا تم دنیا جہان والوں میں سے (بدفعلی کیلئے) مَردوں کے پاس ہی جاتے ہو۔ (165) اور تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو۔ بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ (166) ان لوگوں نے کہا: اے لوط (ع)! (اگر تم ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تمہیں ضرور باہر نکال دیا جائے گا۔ (167) آپ نے کہا میں تمہارے (اس) کردار سے سخت نفرت کرنے والوں میں سے ہوں۔ (168) اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس عمل (کے وبال) سے جو یہ کرتے ہیں نجات عطا فرما۔ (169) چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو نجات عطا کی ہے۔ (170) سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ (171) پھر ہم نے دوسرے سب لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ (172) اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ سو کیا بڑی بارش تھی جو ڈرائے ہوؤوں پر برسی۔ (173) بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ (174) اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (175) ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (176) جبکہ ان کے بھائی شعیب (ع) نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ (177) بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (178) سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (179) میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (180) (دیکھو) پورا ناپا کرو (پیمانہ بھرا کرو) اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہو۔ (181) اور صحیح ترازو سے تولا کرو (ڈنڈی سیدھی رکھا کرو)۔ (182) اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (183) اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ (184) ان لوگوں نے کہا کہ تم تو بس سخت سحر زدہ آدمی ہو۔ (185) اور تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو اور ہمیں تو جھوٹے بھی معلوم ہوتے ہو۔ (186) اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔ (187) آپ نے کہا میرا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (188) پس ان لوگوں نے ان (شعیب (ع)) کو جھٹلایا تو سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ بےشک وہ ایک بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔ (189) بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ (190) اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (191) اور بےشک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ (192) جسے روح الامین (جبرائیل) نے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ (193) تاکہ آپ (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔ (194) یہ کھلی ہوئی عربی زبان میں ہے۔ (195) اور یہ پہلے لوگوں کی کتابوں میں (بھی) ہے۔ (196) کیا یہ نشانی اس (اہل مکہ) کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس (قرآن) کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔ (197) اور اگر ہم اسے کسی عجمی (غیر عرب) پر نازل کرتے۔ (198) پھر وہ اسے پڑھ کر ان کو سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔ (199) اسی طرح ہم نے اس (انکار) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیا ہے۔ (200) یہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے۔ (201) چنانچہ وہ (عذاب) اس طرح اچانک ان پر آجائے گا کہ انہیں احساس بھی نہ ہوگا۔ (202) تب وہ کہیں گے کیا ہمیں مہلت مل سکتی ہے؟ (203) کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کیلئے جلدی کر رہے ہیں۔ (204) کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر ہم انہیں کئی سال تک فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ (205) پھر ان پر وہ عذاب آجائے جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا۔ (206) تو وہ سب ساز و سامان جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔ (207) اور ہم نے کبھی کسی بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جب تک اس کے پاس عذاب الٰہی سے ڈرانے والے نہ آچکے ہوں۔ (208) نصیحت اور یاد دہانی کیلئے! اور ہم کبھی ظالم نہیں تھے۔ (209) اور اس (قرآن) کو شیطانوں نے نہیں اتارا۔ (210) اور نہ ہی یہ ان کیلئے مناسب ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ (211) وہ تو اس (وحی) کے سننے سے بھی معزول کئے جا چکے ہیں۔ (212) پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ (213) اور (اے رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈراؤ۔ (214) اور جو اہلِ ایمان آپ کی پیروی کریں ان کیلئے اپنا بازو جھکاؤ (ان کے ساتھ تواضع و فروتنی سے پیش آؤ)۔ (215) اور اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں اس سے بیزار ہوں جو کچھ تم کرتے ہو۔ (216) اور اس (پروردگار) پر بھروسہ کیجئے جو غالب ہے اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (217) جو آپ کو اس وقت دیکھتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں۔ (218) اور جب آپ سجدہ کرنے والوں میں نشست و برخاست کرتے ہیں تب بھی دیکھتا ہے۔ (219) بےشک وہ بڑا سننے والا، بڑا علم والا ہے۔ (220) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ (221) وہ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (222) جو ان (شیاطین) کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ (223) اور جو شعراء ہیں ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ (224) کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرا کرتے ہیں۔ (225) اور وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں ہیں۔ (226) سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا انہوں نے بدلہ لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹ کر جا رہے ہیں؟ (227)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے (خاص) بندہ پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈرانے والا بن جائے۔ (1) جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے کسی کو اولاد نہیں بنایا۔ اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کا ایک اندازہ (پیمانہ) مقرر کیا ہے۔ (2) اور ان (مشرکوں) نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے خدا بنائے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں اور وہ خود اپنے لئے نقصان یا نفع کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مرے ہوئے کو دوبارہ اٹھا سکتے ہیں۔ (3) اور جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے جسے اس شخص نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے (یہ بات کہہ کر) خود یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ (4) اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوائی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں (یا اس سے لکھوائی جاتی ہیں)۔ (5) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اس (قرآن) کو اس (خدا) نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جانتا ہے۔ بےشک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (6) اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا؟ (7) یا اس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کے لئے کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ کھاتا؟ اور ظالموں نے تو (یہاں تک) کہہ دیا کہ تم ایک ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔ (8) دیکھئے! یہ لوگ آپ کے متعلق کیسی کیسی (کٹ حجتیاں) باتیں بیان کرتے ہیں سو وہ گمراہ ہوگئے ہیں سو اب وہ راہ نہیں پا سکتے۔ (9) بڑا بابرکت ہے وہ خدا جو اگر چاہے تو آپ کو اس (کفار کی بیان کردہ چیزوں) سے بہتر دے دے۔ یعنی ایسے باغات کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں۔ اور آپ کیلئے (عالیشان) محل بنوا دے۔ (10) بلکہ یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ہم نے ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (11) اور وہ (آگ) جب انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سنیں گے۔ (12) اور جب انہیں زنجیروں میں جکڑ کر آتش (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں (اپنی) ہلاکت کو پکاریں گے۔ (13) (ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔ (14) آپ ان سے کہیے کہ آیا یہ (آتش دوزخ) اچھی ہے یا وہ دائمی جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ ان (کے اعمال) کا صلہ ہے اور (آخری) ٹھکانا۔ (15) اس میں ان کیلئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ایک وعدہ جو آپ کے رب کے ذمہ ہے جس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (16) اور جس دن اللہ ان لوگوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پوجتے رہے ہیں۔ اکٹھا کرے گا تو اللہ ان (معبودوں) سے پوچھے گا کہ آیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود ہی (سیدھے) راستہ سے بھٹک گئے تھے؟ (17) وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو خوب آسودگی اور آسائش عطا کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے (تیری) یاد بھلا دی۔ اور اس طرح تباہ و برباد ہوگئے۔ (18) (اے کافرو) اس طرح وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جھٹلا دیں گے جو تم کرتے ہو۔ پھر نہ تو تم (عذاب کو) ٹال سکوگے اور نہ ہی اپنی کوئی مدد کر سکوگے۔ اور تم میں سے جو ظلم کرے گا ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (19) (اے رسول) ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں وہ جو سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کیلئے ذریعہ آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کروگے؟ اور آپ کا پروردگار بڑا دیکھنے والا ہے۔ (20) اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ (21) یہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کیلئے کوئی بشارت نہیں ہوگی اور وہ کہیں گے پناہ ہے پناہ (یا حرام ہے حرام)۔ (22) اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کئے ہوں گے۔ اور انہیں پراگندہ غبار بنا دیں گے۔ (23) اس دن بہشت والوں کا ٹھکانہ بہترین ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہوگی۔ (24) اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان شق ہو جائے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔ (25) اس دن حقیقی بادشاہی (خدائے) رحمن کی ہوگی اور وہ دن کافروں کیلئے بڑا سخت ہوگا۔ (26) اور اس دن ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسول(ص) کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (27) ہائے میری بدبختی! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ (28) اس نے نصیحت (یا قرآن) کے میرے پاس آجانے کے بعد مجھے اس کے قبول کرنے سے بہکا دیا اور شیطان تو ہے ہی (مشکل وقت میں) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا (دغا باز)۔ (29) اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔ (30) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔ (31) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہاں اس طرح اس لئے کیا کہ ہم تمہارے دل کو ثبات و تقویت دیں اور (اسی لئے) اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔ (32) اور یہ لوگ جب بھی کوئی (نیا) اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ تشریح آپ کے سامنے لاتے ہیں۔ (33) وہ لوگ جو اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے وہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور راستہ کے اعتبار سے گمراہ تر ہیں۔ (34) بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر مقرر کیا۔ (35) پھر ہم نے ان سے کہا کہ تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب انہوں نے نہ مانا) تو ہم نے ان کو بالکل ہلاک و برباد کر دیا۔ (36) اور نوح(ع) کی قوم کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور انہیں لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (37) اور (اسی طرح) ہم نے قومِ عاد و ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیان، بہت سی نسلوں (اور) قوموں کو بھی ہلاک کیا۔ (38) اور ہم نے ہر ایک کیلئے (پہلے برباد ہونے والوں) کی مثالیں بیان کیں اور (آخرکار) ہم نے سب کو نیست و نابود کر دیا۔ (39) اور (یہ لوگ) اس بستی سے گزرے ہیں! جس پر (پتھروں کی) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا (وہاں سے گزرتے ہوئے) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ (دراصل بات یہ ہے کہ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے۔ (40) اور وہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہ وہ ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ (41) وہ تو قریب تھا کہ یہ شخص ہمارے معبودوں سے ہمیں بہکا دے۔ اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے تو عنقریب جب وہ عذاب (الٰہی) کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟ (42) (اے رسول(ص)) کیا آپ نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ (43) کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔ (44) کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔ (45) پھر ہم اس (سایہ) کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔ (46) اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو (باعث) راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ (47) اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔ (48) اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔ (49) اور اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک ڈرانے والا بھیجتے۔ (50) (اے نبی(ص)) آپ کافروں کی پیروی نہ کریں اور اس (قرآن) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کریں۔ (51) اور وہ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا ہے یہ شیریں و خوشگوار ہے اور یہ سخت کھاری و تلخ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔ (52) اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔ (53) اور وہ (مشرک) اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کافر تو (ہمیشہ) اپنے پروردگار کے مقابلے میں (مخالفوں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔ (54) اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ (55) اور آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس (کار رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔ (56) (اے رسول(ص)) آپ اس زندہ (خدا) پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے موت نہیں ہے۔ اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کیلئے خود کافی ہے۔ (57) وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اقتدار قائم کیا۔ وہی (خدائے) رحمن ہے اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھو۔ (58) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ رحمن کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے بارے میں تم ہمیں حکم دو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔ (59) بڑا بابرکت ہے وہ (خدا) جس نے آسمان میں (بارہ) برج بنائے اور ان میں ایک چراغ (سورج) اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا۔ (60) اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے۔ (61) اور (خدائے) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ آہستہ (فروتنی کے ساتھ) چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم پر سلام۔ (62) اور جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔ (63) اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھ۔ (64) بےشک اس کا عذاب پوری ہلاکت ہے۔ (65) وہ (جہنم) بہت برا ٹھکانا ہے اور بہت بری جگہ ہے۔ (66) اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی (بلکہ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے۔ (67) اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے اور جس جان (کے مارنے) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ گناہ کی سزا پائے گا۔ (68) قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ (69) سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے کہ اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (70) اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے۔ (71) اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔ (72) اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (73) اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔ (74) یہ وہ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں بہشت میں بالاخانہ عطا کیا جائے گا۔ اور وہاں ان کا تحیہ و سلام سے استقبال کیا جائے گا۔ (75) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام۔ (76) آپ کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے سو اب جبکہ تم نے (رسول کو) جھٹلا دیا ہے تو یہ (تکذیب) عنقریب (تمہارے لئے) وبال جان بن کر رہے گی۔ (77)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور ہم نے (ہی) اس (کے احکام) کو فرض کیا ہے۔ اور ہم نے ہی اس میں کھلی ہوئی آیتیں نازل کی ہیں۔ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (1) زناکار عورت اور زناکار مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے لگاؤ۔ اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں ان پر ترس نہ آئے۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے۔ (2) زناکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر زناکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ اور زناکار عورت نکاح نہیں کرتی مگر زناکار مرد یا مشرک مرد کے ساتھ اور یہ (زنا) اہلِ ایمان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ (3) اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں اسّی (۰۸) کوڑے لگاؤ اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ فاسق ہیں۔ (4) سوائے ان کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں۔ تو بےشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (5) اور جو (خاوند) اپنی بیویوں پر تہمت (زنا) لگائیں اور (ثبوت کیلئے) ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے کسی کی گواہی اس طرح معتبر ہوگی کہ وہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے کہ وہ (اپنے دعویٰ میں) سچا ہے۔ (6) اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے دعویٰ میں) جھوٹا ہے۔ (7) اور اس عورت سے یہ صورت شرعی حد کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ (خاوند) جھوٹا ہے۔ (8) اور پانچویں بار یوں قسم کھائے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ (مرد) سچا ہے۔ (9) اگر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ (بات نہ ہوتی) کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، بڑا حکمت والا ہے (تو اس الزام تراشی کا انجام بڑا دردناک ہوتا)۔ (10) بےشک جو لوگ جھوٹا بہتان گھڑ کر لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو۔ بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس (گروہ) میں سے ہر آدمی کیلئے اتنا حصہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا ہے۔ اور جو ان میں سے اس (گناہ) کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کیلئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔ (11) ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے یہ (بہتان) سنا تھا تو مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اپنوں کے حق میں نیک گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان ہے۔ (12) وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے؟ سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو یہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہی ہیں۔ (13) اور اگر تم پر دنیا و آخرت میں خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات میں تم پڑ گئے تھے (اور اس کا چرچا کیا تھا) تمہیں سخت عذاب پہنچتا۔ (14) جب تم لوگ اس (بہتان) کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا خود تمہیں علم نہیں تھا۔ اور تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ (15) اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ (افواہ) سنی تھی تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے زیبا نہیں ہے کہ یہ بات منہ سے نکالیں۔ سبحان اللہ! یہ تو بڑا بہتان ہے۔ (16) اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم مؤمن ہو تو آئندہ کبھی اس قسم کی بات نہ کرنا۔ (17) اور اللہ تمہارے لئے (اپنی) آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (18) اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی و برائی کی اشاعت ہو (اور اس کا چرچا ہو) ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (19) اور اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ بڑا شفقت والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (تو تم دیکھ لیتے کہ اس بہتان تراشی کا کیا انجام ہوتا)۔ (20) اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے تو وہ اسے بے حیائی اور ہر طرح کی برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے پاک و صاف کر دیتا ہے اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (21) اور جو لوگ تم میں سے مال و دولت اور وسعت والے ہیں وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابتداروں، مسکینوں اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ چاہئے کہ یہ لوگ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (22) جو لوگ پاکدامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (23) جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ان کے اعمال کے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے۔ (24) اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا جس کے وہ حقدار ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے جو نمایاں ہے (اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے)۔ (25) ناپاک باتیں، ناپاک لوگوں کے لئے (زیبا) ہیں اور ناپاک آدمی ناپاک باتوں کیلئے موزوں (مناسب) ہیں اور اچھی اور ستھری باتیں اچھے آدمیوں کیلئے (مناسب) ہیں۔ اور اچھے اور ستھرے آدمی اچھی اور ستھتری باتوں کے (لائق) ہیں اور یہ ان باتوں سے بری الذمہ ہیں جو لوگ (ان کے بارے میں) کہتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور باعزت روزی۔ (26) اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اور گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔ (27) پھر اگر ان (گھروں) میں کسی (آدمی) کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ یہ (طریقہ کار) تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (28) (ہاں البتہ) ایسے گھروں میں داخل ہونے میں تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے جن میں کوئی رہائش نہیں رکھتا۔ جبکہ ان میں تمہارا کچھ سامان ہو اور اللہ اسے بھی خوب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور اسے بھی جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ (29) (اے رسول(ص)) آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ (طریقہ) ان کیلئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ بےشک لوگ جو کچھ کیا کرتے ہیں اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ (30) اور (اے رسول(ص)) آپ مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کریں اور اپنی زینت و آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زیبائش و آرائش ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ داداؤں کے، یا اپنے شوہروں کے باپ داداؤں کے، یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے (ہم مذہب) عورتوں کے یا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے یا اپنے نوکروں چاکروں کے جو جنسی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کی پردہ والی باتوں سے واقف نہیں ہیں اور وہ اپنے پاؤں (زمین پر) اس طرح نہ ماریں کہ جس سے ان کی وہ زیبائش و آرائش معلوم ہو جائے جسے وہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اے اہل ایمان! تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (31) اور تم میں جو (مرد و زن) بے نکاح ہیں ان کا نکاح کرو۔ نیز اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے بھی جو (نکاح کے) قابل ہوں۔ ان کا بھی نکاح کرو۔ اگر وہ غریب و نادار ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل و کرم سے مالدار بنا دے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔ (32) اور جو لوگ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ عفت اور ضبط نفس سے کام لیں۔ یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور تمہارے مملوکہ غلاموں اور کنیزوں میں سے جو مکاتب بننے کے خواہشمند ہوں۔ تو اگر تمہیں ان میں کوئی بھلائی معلوم ہو تو ان سے مکاتبہ کرلو۔ اور تم اللہ کے مال میں سے انہیں عطا کرو اور اپنی جوان کنیزوں کو محض دنیوی رنگ کا کچھ سامان حاصل کرنے کیلئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اگر کوئی انہیں مجبور کرے تو بیشک ان کو مجبور کرنے کے بعد بھی اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (33) بےشک ہم نے تم لوگوں کی طرف واضح آیتیں نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی مثالیں بھی اور پرہیزگاروں کیلئے پند و نصیحت بھی۔ (34) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (35) (یہ ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں خدا کا نام لیا جائے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ (36) جنہیں کوئی تجارت اور (خرید) فروخت اللہ کی یاد سے نماز پڑھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی (کیونکہ) وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ (37) تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے مزید نوازے اور اللہ جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ (38) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے اعمال سراب کی مانند ہیں جو ایک چٹیل میدان میں ہو۔ جسے آدمی پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس جاتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے۔ جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا۔ اور اللہ بہت جلدی حساب لینے والا ہے۔ (39) یا پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے گہرے سمندر میں اندھیرا۔ کہ اسے ایک موج ڈھانپ لے پھر اس (موج) کے اوپر ایک اور موج ہو۔ اور پھر اس کے اوپر بادل ہو۔ الغرض اندھیروں پر اندھیرا کہ اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے دیکھ نہ پائے اور جسے اللہ نور (ہدایت) نہ دے تو اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے۔ (40) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی ہر ایک اپنی اپنی (مخصوص) نماز و تسبیح کو جانتا ہے۔ (41) اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ ہی کی طرف (سب کی) بازگشت ہے۔ (42) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے۔ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم ملاتا ہے۔ پھر اسے تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلواتا ہے اور وہ (اللہ) آسمان سے پہاڑوں کی شکل کے بادلوں سے برف یعنی اولے برساتا ہے پھر ان کو جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں (کی بینائی) کو لے جائے۔ (43) اللہ رات دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ بےشک اس میں آنکھوں والوں کیلئے (سامان) عبرت ہے۔ (44) اور اللہ ہی نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو (ایک خاص) پانی سے پیدا کیا ہے تو ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے۔ اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ بےشک اللہ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (45) یقیناً ہم نے حقیقت واضح کرنے والی آیتیں نازل کر دی ہیں اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔ (46) اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے ہیں۔ اور ہم نے اطاعت بھی کی۔ مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ منہ پھر لیتا ہے اور ایسے لوگ (ہرگز) مؤمن نہیں ہیں۔ (47) اور جب انہیں خدا اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ایک دم ان میں سے ایک گروہ روگردان ہو جاتا ہے۔ (48) اور اگر حق ان کے موافق ہو (اس میں ان کا فائدہ) تو پھر سر تسلیم خم کئے اس (رسول) کی طرف آجاتے ہیں۔ (49) ان کے دلوں میں (نفاق وغیرہ) کی کوئی بیماری ہے یا (اسلام کے متعلق) شک میں مبتلا ہیں یا پھر ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ زیادتی کریں گے؟ (نہیں) بلکہ یہ لوگ خود ظلم و زیادتی کرنے والے ہیں۔ (50) اہلِ ایمان کو جب خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے کہ وہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (51) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری اختیار کرے (اس کی نافرمانی سے بچے) تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (52) اور یہ (منافق) اپنے مقدور بھر اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ (اپنے گھروں سے بھی) نکل کھڑے ہوں گے آپ کہیئے کہ تم قسمیں نہ کھاؤ۔ پس معروف و معلوم فرمانبرداری مطلوب ہے۔ بےشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ (53) آپ کہہ دیجئے! کہ تم اللہ کی اطاعت کرو۔ اور رسول کی اطاعت کرو اور اگر تم روگردانی کروگے تو اس (رسول) کے ذمہ وہی ہے جو بار اس پر ڈالا گیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو بار تم پر ڈالا گیا ہے۔ اور تم اگر اس کی اطاعت کروگے تو خود ہی ہدایت پاؤگے۔ ورنہ رسول کے ذمہ واضح طور پر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (54) جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح جانشین بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنایا تھا۔ اور جس دین کو اللہ نے پسند کیا ہے وہ انہیں ضرور اس پر قدرت دے گا۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ پس وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک نہ بنائیں۔ اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے وہی لوگ فاسق ہیں۔ (55) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (56) جو لوگ کافر ہیں ان کے بارے میں خیال نہ کرو کہ وہ زمین میں (خدا کو) عاجز کر دیں گے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ (57) اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھی حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے (گھروں میں داخل ہوتے وقت) تین بار تم سے اجازت طلب کریں۔ نمازِ صبح سے پہلے، اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد۔ یہ تین وقت (آرام کرنے کیلئے) تمہارے لئے پردے کے وقت ہیں ان اوقات کے علاوہ تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں ہے تم لوگ ایک دوسرے کے پاس بار بار چکر لگاتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (58) اور جب تمہارے لڑکے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جس طرح ان سے پہلے لوگ (اپنے بڑوں سے) اجازت لیتے رہے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (59) اور وہ عورتیں جو (بڑھاپے کی وجہ سے) خانہ نشین ہوگئی ہوں جنہیں نکاح کی کوئی آرزو نہ ہو ان کیلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اپنے (پردہ کے) کپڑے اتار کر رکھ دیں بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں۔ اور اگر اس سے بھی باز رہیں (اور پاکدامنی سے کام لیں) تو یہ اور بہتر ہے۔ اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (60) اور اندھے کیلئے کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی لنگڑے کیلئے کوئی مضائقہ ہے اور نہ بیمار کیلئے اور نہ خود تمہارے لئے کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ۔ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اکٹھے ہوکر کھاؤ۔ یا الگ الگ (ہاں البتہ) جب گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے لوگوں کو سلام کر لیا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے پاکیزہ اور بابرکت ہدیہ ہے اللہ اسی طرح آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔ (61) مؤمن تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کسی اجتماعی معاملہ میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہیں لیتے کہیں نہیں جاتے۔ بےشک جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کیلئے اجازت مانگیں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کیلئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (62) اے ایمان والو! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لے کر کھسک جاتے ہیں۔ جو لوگ حکمِ خدا سے انحراف کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ (63) خبردار! جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے تم جس حال میں ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اس دن کو بھی جب لوگ اس کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے تو وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (64)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
یقیناً وہ اہلِ ایمان فلاح پاگئے۔ (1) جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔ (2) اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں۔ (3) اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (4) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (5) سوائے اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہیں کہ اس صورت میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (6) اور جو اس (دو طرح) کے علاوہ کوئی خواہش کرے تو ایسے ہی لوگ (حد سے) تجاوز کرنے والے ہیں۔ (7) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں۔ (8) اور جو اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ (9) یہی لوگ وارث ہیں۔ (10) جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (11) یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (12) پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔ (13) پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ (14) پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ (15) پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے۔ (16) اور یقیناً ہم نے تمہارے اوپر سات راستے (آسمان) پیدا کئے ہیں اور ہم (اپنی) مخلوق سے غافل نہیں تھے۔ (17) اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقیناً ہم اسے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔ (18) پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات اگائے ان باغوں میں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ (19) اور (ہم نے) ایک درخت ایسا بھی (پیدا کیا) جو طور سینا سے نکلتا ہے (زیتون کا درخت) جو کھانے والوں کیلئے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔ (20) اور تمہارے لئے چوپایوں میں بڑا سامانِ عبرت ہے ہم تمہیں اس سے (دودھ) پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے اور تمہارے لئے ان میں اور بہت سے فائدے ہیں اور انہی کے (گوشت) سے تم کھاتے بھی ہو۔ (21) اور ان پر اور کشتیوں پر تمہیں سوار کیا جاتا ہے۔ (22) اور بےشک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف ہدایت کیلئے بھیجا۔ تو آپ نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی سے) نہیں ڈرتے؟ (23) تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ یہ (نوح(ع)) نہیں ہے مگر تم ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے جو تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر خدا (یہی) چاہتا تو وہ فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم نے تو یہ بات اپنے پہلے باپ داداؤں سے نہین سنی۔ (24) بس یہ ایک آدمی ہے۔ جسے کچھ جنون ہوگیا ہے۔ پس تم اس کے بارے میں کچھ مدت تک انتظار کرو۔ (25) آپ نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (26) سو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ پس جب ہمارا عذاب آجائے۔ اور تنور سے پانی ابلنے لگے تو ہر قسم کے نر اور مادہ (جانوروں) میں سے جوڑا جوڑا (اس میں) داخل کرلو۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی سوا ان کے جن کے خلاف پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کیونکہ یہ اب یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔ (27) اور جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہنا۔ الحمدﷲ۔ سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے۔ جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی ہے۔ (28) اور کہنا اے میرے پروردگار! مجھے بابرکت، اتار تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔ (29) بےشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانیاں ہیں اور ہم (لوگوں کی) آزمائش کیا کرتے ہیں۔ (30) پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور نسل پیدا کی۔ (31) پھر ہم نے انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا (جس نے ان سے کہا) اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی) سے ڈرتے نہیں ہو؟ (32) اور اس کی قوم کے وہ سردار جو کافر تھے اور آخرت کی حاضری کو جھٹلاتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیوی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ یہ نہیں ہے مگر تمہارے ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے یہ وہی (خوراک) کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی (مشروب) پیتا ہے۔ جو تم پیتے ہو۔ (33) اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہوگے۔ (34) کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤگے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤگے تو پھر تم (قبروں سے) نکالے جاؤگے؟ (35) (حاشا و کلا) بہت بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ (36) کوئی اور زندگی نہیں سوائے اس دنیوی زندگی کے جس میں ہمیں مرنا بھی ہے اور جینا بھی۔ اور ہمیں (دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا۔ (37) وہ نہیں ہے مگر ایک ایسا شخص جس نے خدا پر جھوٹا بہتان باندھا ہے اور ہم تو (اس کو) ماننے والے نہیں ہیں۔ (38) اس (رسول) نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر! کیونکہ ان لوگوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (39) ارشاد ہوا کہ عنقریب یہ لوگ (اپنے کئے پر) پشیمان ہوں گے۔ (40) چنانچہ بجاطور پر انہیں ایک سخت آواز نے آپکڑا اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا دیا سو ہلاکت ہے ظالم قوم کیلئے۔ (41) پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کیں۔ (42) کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ (43) پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے۔ اور ہم نے انہیں قصہ پارینہ (اور افسانہ) بنا دیا۔ پس تباہی ہو اس قوم کیلئے جو ایمان نہیں لاتے۔ (44) پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی ہوئی دلیل کے ساتھ۔ (45) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ بڑے سرکش لوگ تھے۔ (46) چنانچہ وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں حالانکہ ان کی قوم ہماری خدمت گزار ہے۔ (47) پس ان لوگوں نے ان دونوں کو جھٹلایا (نتیجہ یہ نکلا کہ) وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئے۔ (48) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تاکہ وہ لوگ ہدایت پائیں۔ (49) اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل بھی تھا اور جہاں چشمے جاری تھے۔ (50) اے (میرے) پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں۔ (51) اور یہ تمہاری امت (جماعت) ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں سو تم مجھ ہی سے ڈرو۔ (52) مگر ان لوگوں نے اپنے (دینی) معاملہ کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا پس ہر گروہ کے پاس جو (دین) ہے وہ اس پر خوش ہے۔ (53) پس (اے رسول(ص)) آپ ان کو ایک خاص وقت تک اپنی غفلت و مدہوشی میں پڑا رہنے دیجئے۔ (54) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد (کی فراوانی) سے ان کی امداد کر رہے ہیں۔ (55) تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں جلدی کر رہے ہیں؟ (ایسا نہیں) بلکہ انہیں (اصل حقیقت کا) شعور نہیں ہے۔ (56) بےشک جو لوگ اپنے پروردگار کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ (57) اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ (58) اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ (59) اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں (پھر بھی) ان کے دل اس خیال سے ترساں رہتے یں کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (60) یہی لوگ بھلائیاں کرنے میں جلدی کیا کرتے ہیں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ (61) ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (62) بلکہ ان کے دل اس (دینی) معاملہ میں غفلت و سرشاری میںپڑے ہیں اور اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ (برے) عمل ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں۔ (63) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب کی گرفت میں لیتے ہیں تو وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ (64) آج کے دن چیخو چلاؤ نہیں (آج) ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (65) (وہ وقت یاد کرو جب) میری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم (سنتے ہی) الٹے پاؤں پلٹ جایا کرتے تھے۔ (66) تکبر کرتے ہوئے داستان سرائی کرتے ہوئے (اور) بے ہودہ بکتے ہوئے۔ (67) کیا ان لوگوں نے اس کلام میں کبھی غور نہیں کیا یا ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے والے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟ (68) یا کیا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں ہے؟ اس لئے منکر ہوگئے۔ (69) یا وہ کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہے؟ بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔ (70) اور اگر حق لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور جو ان کے اندر ہے سب درہم برہم ہو جاتے۔ بلکہ ہم تو ان کے پاس نصیحت لے کر آئے مگر وہ اپنی نصیحت سے ہی روگردانی کرتے ہیں۔ (71) کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں؟ تمہارے لئے تو تمہارے پروردگار کا معاوضہ بہت بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ (72) اور بےشک آپ ان لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ (73) اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ (74) اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جس تکلیف میں مبتلا ہیں وہ بھی دور کر دیں تو بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں اندھا دھند بڑھتے جائیں گے۔ (75) اور ہم نے انہیں سزا میں گرفتار بھی کیا مگر وہ پھر بھی اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ تضرع و زاری کی۔ (76) یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو وہ ایک دم ناامید ہو جائیں گے۔ (77) اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے جان، آنکھیں اور دل بنائے (لیکن) تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (78) وہ وہی ہے جس نے تمہیں روئے زمین پر (پیدا کرکے) پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤگے۔ (79) وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور رات اور دن کی آمد و رفت اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (80) ان لوگوں نے وہی بات کہی ہے جو ان کے پہلے (کافر) کہتے رہے ہیں۔ (81) کہتے ہیں کہ جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (82) ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ داداؤں سے بھی یہ وعدہ ہوتا آیا ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں صرف پہلے عہدوں کے افسانے ہیں۔ (83) آپ کہہ دیجیے اگر تم جانتے ہو تو (بتاؤ) کہ زمین اور جو اس میں رہتے ہیں کس کیلئے ہیں؟ (84) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کیلئے ہیں۔ تو کہئے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے؟ (85) آپ کہئے کہ سات آسمانوں اور اس بڑے تخت سلطنت کا پروردگار کون ہے؟ (86) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ہے! کہئے کیا تم پھر بھی پرہیزگار نہیں بنتے (اس سے نہیں ڈرتے؟)۔ (87) آپ کہئے کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضہ میں ہے۔ جو سب کو پناہ دیتا ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں پناہ نہیں دی جا سکتی۔ (88) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کے! تو کہئے! کہ پھر تم پر کہاں سے جادو کیا جا رہا ہے؟ (89) بلکہ ہم ان کے سامنے حق لے آئے ہیں۔ اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ (90) اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر ایک خدا دوسرے خدا پر چڑھ دوڑتا۔ پاک ہے خدا اس سے جو لوگ بیان کرتے ہیں۔ (91) وہ غیب و شہادت یعنی پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے۔ اور وہ اس شرک سے بلند و بالا ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ (92) (اے رسول(ص)) آپ کہئے کہ اے میرے پروردگار اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کی ان لوگوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ (93) تو اے میرے پروردگار! مجھے ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ (94) اور ہم اس عذاب کے آپ کو دکھانے پر قادر ہیں جس کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ (95) (اے رسول(ص)) آپ برائی کو احسن طریقہ سے دفع کریں۔ ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (آپ کی نسبت) بیان کرتے ہیں۔ (96) اور آپ کہئے! اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (97) اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ (شیطان) میرے پاس آئیں۔ (98) (کافروں کی یہی حالت رہتی ہے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آکھڑی ہوتی ہے تو (تب) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے (ایک بار) اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ (99) تاکہ میں نیک عمل کر سکوں (ارشاد ہوگا) ہرگز نہیں! یہ محض ایک (فضول) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے (مرنے کے) بعد برزخ کا زمانہ ہے ان کے (دوبارہ) اٹھائے جانے تک۔ (100) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ تو ان کے درمیان رشتے ناطے رہیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ (101) (ہاں البتہ) جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہوں گے۔ (102) اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا (اور) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (103) آگ ان کے چہروں کو جھلسا رہی ہوگی اور ان کی شکلیں اس میں بگڑ گئی ہوں گی۔ (104) (ان سے کہا جائے گا) کیا تمہارے سامنے ہماری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں اور تم انہیں جھٹلاتے تھے؟ (105) (وہ اس وقت) کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی۔ اور واقعی ہم گمراہ لوگ تھے۔ (106) اے ہمارے پروردگار! (ایک بار) ہمیں اس سے نکال دے۔ پھر اگر ہم ایسا کریں گے تو بےشک ہم سراسر ظالم ہوں گے۔ (107) ارشاد ہوگا اور مجھ سے کوئی بات نہ کرو۔ (108) (تمہیں یاد ہے) کہ بےشک میرے بندوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں! پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (109) تو تم ان کا مذاق اڑاتے تھے یہاں تک کہ (گویا) انہوں نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی اور تم ان پر ہنستے تھے۔ (110) (دیکھو) آج میں نے انہیں ان کے صبر کی جزا دی ہے۔ وہی کامران ہیں۔ (111) ارشاد ہوگا تم کتنے برس تک زمین میں رہے ہو؟ (112) وہ کہیں گے: ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ عرصہ۔ سو تو گننے والوں سے پوچھ لے۔ (113) ارشاد ہوگا: تم نہیں رہے۔ مگر تھوڑا عرصہ کاش تم نے یہ بات سمجھی ہوتی۔ (114) کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم نے کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے؟ (115) اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے (ایسی بات سے) بلند و برتر ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ وہ عزت و عظمت والے عرش کا مالک ہے۔ (116) اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے (خود ساختہ) الہ (خدا) کو پکارتا ہے تو اس کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کا حساب و کتاب پروردگار کے پاس ہے۔ اور جو کافر ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ (117) اور (اے رسول(ص)) آپ کہئے! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما۔ اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (118)

قرآن