(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
پاک ہے وہ (خدا) جو اپنے بندہ (خاص) کو رات کے ایک حصہ میں مسجد الحرام سے اس مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) کچھ نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (1) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعۂ ہدایت بنایا کہ (دیکھو) میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ (2) اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کر لیا تھا بے شک وہ (نوح) ایک شکر گزار بندہ تھا۔ (3) اور ہم نے اس کتاب (توراۃ) میں بنی اسرائیل کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی کروگے۔ (4) چنانچہ جب ان دونوں میں سے پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے (تمہاری سرکوبی کیلئے) اپنے کچھ ایسے سخت جنگجو بندے بھیج دیئے جو تمہاری آبادیوں کے اندر گھس گئے اور (خدا) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ (5) اور پھر ہم نے گردشِ زمانہ کو تمہارے حق میں دشمن کے خلاف کر دیا (تمہیں ان پر غلبہ دے دیا) اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں کثیر التعداد بنا دیا۔ (6) (دیکھو) اگر تم اچھے کام کروگے تو اپنے لئے ہی کروگے اور اگر برے کام کروگے تو وہ بھی اپنے لئے کروگے پس جب دوسرا وعدہ آگیا (تو ہم نے اور بندوں کو مسلط کر دیا) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح (جبراً) داخل ہو جائیں جس طرح پہلی بار (حملہ آور) داخل ہوئے تھے اور تاکہ جس جس چیز پر وہ قابو پائیں اسے تباہ و برباد کر دیں۔ (7) ہو سکتا ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر (فساد و سرکشی کی طرف) لوٹے تو پھر ہم بھی اسی طرح لوٹیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا دیا ہے۔ (8) یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے اور خوشخبری دیتا ہے ان اہلِ ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ (9) اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (10) اور انسان برائی کی دعا اسی طرح کرتا ہے جس طرح اچھائی کی دعا کرتا ہے (دراصل) انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔ (11) اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا ہے سو ہم نے رات کی نشانی کو دھندلا بنایا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل و کرم (رزق) تلاش کرو اور تاکہ برسوں کی گنتی اور (ہر طرح کا) حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر (ضروری) چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ (12) اور ہم نے ہر انسان کا (نامہ) عمل اس کی گردن میں ڈال دیا ہے اور قیامت کے دن ہم ایک کتاب (نوشتہ) نکالیں گے جسے وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا۔ (13) (ہم حکم دیں گے کہ) اپنا نامۂ عمل پڑھ آج تو خود ہی اپنے حساب کے لئے کافی ہے۔ (14) جو راہِ راست اختیار کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے ہی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے جب تک (اتمامِ حجت کی خاطر) کوئی رسول بھیج نہیں دیتے۔ (15) اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہم وہاں کے خوشحال لوگوں کو (انبیاء کے ذریعہ سے اپنی اطاعت کا) حکم دیتے ہیں اور وہ (اطاعت کی بجائے) نافرمانی کرنے لگتے ہیں تب اس پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے اور ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ (16) اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو (ان کے گناہوں کی پاداش میں) ہلاک کیا اور آپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونے اور دیکھنے کی حیثیت سے کافی ہے۔ (17) جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو تو ہم جسے جتنا دینا چاہتے ہیں اسی (دنیا) میں جلدی دے دیتے ہیں پھر اس کے لئے دوزخ قرار دیتے ہیں جس میں وہ ملامت زدہ اور راندہ ہوا داخل ہوگا (اور اسے تاپے گا)۔ (18) اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی کہ کرنی چاہیئے درآنحالیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش مشکور ہوگی۔ (19) ہم ہر ایک کی امداد کرتے ہیں اِن کی بھی اور اُن کی بھی آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔ (20) (دیکھو) ہم نے (یہاں) کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے۔ (21) اللہ کے ساتھ کوئی الٰہ (معبود) نہ ٹھہراؤ۔ ورنہ ملامت زدہ ہوکر اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھے رہوگے۔ (22) اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ (23) اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔ (24) تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح اور نیک کردار ہوئے تو وہ توبہ و انابہ کرنے والوں کے لئے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ (25) اور (دیکھو) قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے دو اور مسکین و مسافر کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو۔ (26) بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ (27) اور اگر تمہیں ان لوگوں سے پہلوتہی کرنی پڑے اس انتظار میں کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رحمت (کشائش) آئے جس کے تم امیدوار ہو تو ان سے نرم انداز میں بات کرو۔ (28) اور (دیکھو) نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ (اور) تہی دست ہو کر بیٹھ جاؤگے۔ (29) تمہارا پروردگار جس کسی کی چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کے حال سے بڑا باخبر ہے اور بڑا نگاہ رکھنے والا ہے۔ (30) اور فقر و فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتے ہیں بے شک انہیں قتل کرنا بڑا جرم ہے۔ (31) اور زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا وہ بہت بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔ (32) اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہ کرو۔ مگر حق کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔ (33) اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سوائے احسن طریقہ کے یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کے سن و سال (جوانی) تک پہنچ جائے اور (اپنے عہد) کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں تم سے بازپرس کی جائے گی۔ (34) اور جب ناپو تولو تو ناپ پوری پوری رکھا کرو اور جب تولو تو صحیح ترازو سے تولو یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے۔ (35) اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں (تم سے) بازپرس کی جائے گی۔ (36) اور زمین میں اکڑتے ہوئے نہ چلو کیونکہ تم (اس طرح چلنے سے) نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔ (37) ان سب باتوں میں سے ہر بری بات اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ (38) یہ سب باتیں حکمت و دانائی کی ان باتوں میں سے ہیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر وحی کی گئی ہیں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ (خدا) قرار نہ دو ورنہ اس حال میں جہنم میں ڈالے جاؤگے کہ تم ملامت زدہ اور راندۂ بارگاہ ہوگے۔ (39) کیا تمہارے پروردگار نے تمہیں تو بیٹوں کے لئے منتخب کر لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا؟ اس میں شک نہیں ہے کہ تم بڑی سخت بات کہتے ہو۔ (40) اور بے شک ہم نے (مطالبِ حقہ کو) اس قرآن میں مختلف انداز میں بار بار بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر (اس تکرار) نے ان کی نفرت میں اضافہ کیا ہے۔ (41) (اے پیغمبر(ص)!) آپ کہہ دیجیے کہ اگر اس (خدا) کے ساتھ اور خدا بھی ہوتے جیساکہ یہ (کافر) کہتے ہیں تو وہ ضرور مالکِ عرش تک پہنچنے کا کوئی راستہ تلاش کرتے (اور مقابلہ تک نوبت پہنچ جاتی)۔ (42) وہ پاک ہے اور کہیں برتر و بالا ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ (43) ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں موجود ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو بے شک وہ بڑا بردبار، بڑا بخشنے والا ہے۔ (44) (اے پیغمبر(ص)!) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں۔ (45) اور (ان کے پیہم انکار کی وجہ سے گویا) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ اسے نہ سمجھیں اور کانوں میں گرانی (پیدا کر دیتے ہیں) اور جب آپ قرآن میں اپنے واحد و یکتا پروردگار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ لوگ نفرت کرتے ہوئے پچھلے پاؤں پلٹ جاتے ہیں۔ (46) ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (ہم خوب جانتے ہیں) جب یہ ظالم سرگوشیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو۔ (47) دیکھیے یہ کیسی کیسی مثالیں آپ کے لئے بناتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسے گمراہ ہوگئے ہیں کہ راستہ پا ہی نہیں سکتے۔ (48) اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور چُورا ہو جائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (49) کہہ دیجیے! کہ تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔ (50) یا کوئی اور ایسی چیز (جس کا دوبارہ پیدا ہونا) تمہارے خیال میں بڑا (مشکل) ہو (بہرحال تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا) وہ (یہ سن کر) ضرور کہیں گے کہ کون ہمیں دوبارہ (زندہ کرکے) لائے گا؟ کہہ دیجیے! وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا پس وہ اپنے سر جھکا کر کہیں گے کہ کب ایسا ہوگا؟ کہہ دیجئے! کہ شاید بالکل قریب ہو۔ (51) وہی دن کہ جب (خدا) تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ لبیک کہوگے اور خیال کروگے تم بہت تھوڑی مدت (عالمِ برزخ میں) رہے ہو۔ (52) (اے رسول) میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ (لوگوں سے) ایسی بات کریں جو بہترین ہو۔ بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (53) تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں سزا دے۔ (اے رسول(ص)) ہم نے آپ کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ (54) آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض بندوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ (55) (اے رسول(ص)) ان لوگوں سے کہہ دو کہ جنہیں تم اللہ کے سوا (کارساز) سمجھتے ہو۔ ذرا انہیں پکار کر دیکھو۔ وہ نہ تو تم سے تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی (اسے) بدل سکتے ہیں۔ (56) جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ قرب رکھنے والا ہے؟ اور وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔ (57) کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب میں مبتلا کر دیں یہ بات کتاب (نوشتۂ تقدیر) میں لکھی ہوئی ہے۔ (58) اور (منکرین کی مطلوبہ) نشانیاں بھیجنے سے ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا۔ مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کیلئے بھیجتے ہیں۔ (59) (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا تھا۔ اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ ڈرانا ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔ (60) (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا آدم(ع) کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟ (61) نیز اس نے کہا بھلا مجھے بتا تو سہی یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے (آخر کیوں افضل ہے) اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں چند افراد کے سوا اس کی پوری اولاد کی بیخ کنی کر ڈالوں گا۔ (62) ارشاد ہوا چل نکل جا! ان میں سے جو کوئی بھی تیری پیروی کرے گا تو بے شک جہنم تم سب کی پوری پوری سزا ہے۔ (63) اور ان میں سے جس پر تیرا قابو چلتا ہے اپنی پکار سے اسے ورغلا اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں سے چڑھائی کر اور ان کے مالوں اور اولاد میں شریک ہو جا۔ اور ان سے وعدے کر۔ اور شیطان تو دھوکے اور فریب کے سوا ان سے کوئی وعدہ کرتا ہی نہیں ہے۔ (64) بے شک جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی قابو نہیں ہے اور کارسازی کیلئے آپ کا پروردگار کافی ہے۔ (65) تمہارا پروردگار وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لئے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (مال) تلاش کرو یقینا وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ (66) اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ تو اس کے سوا جس جس کو تم پکارتے ہو وہ سب غائب ہو جاتے ہیں اور جب وہ تمہیں (خیریت سے) خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم روگردانی کرنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (67) کیا تم اس بات سے بے فکر ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کے کسی گوشے میں زمین کے اندر دھنسا دے یا تم پر کوئی پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے۔ پھر تم کسی کو بھی اپنا کارساز نہیں پاؤگے۔ (68) کیا تم اس بات سے بے فکر ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اسی (سمندر) میں پہنچائے اور پھر تم پر طوفانی ہوا چلا کر تمہیں ناشکرے پن کی پاداش میں غرق کر دے۔ پھر تم اس کی ہم سے بازپرس کرنے والا کوئی نہیں پاؤگے۔ (69) بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔ (70) اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے) تمام انسانوں کو انکے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے پس جس کسی کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا صحیفۂ اعمال (خوش خوش) پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (71) اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا اور بڑا راہ گم کردہ ہوگا۔ (72) (اے رسول(ص)) یہ (کافر) اس بات میں کوشاں تھے (اور اس کا ارادہ کر لیا تھا کہ) آپ کو اس (کتاب) سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بذریعۂ وحی بھیجی ہے تاکہ آپ اس کے خلاف کوئی بات گڑھ گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اور اس صورت میں وہ ضرور آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔ (73) اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ضرور ان کی طرف جھک جاتے۔ (74) اور اگر آپ ایسا کرتے تو ہم آپ کو دنیا میں عذاب کا مزہ چکھاتے اور مرنے پر بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی یار و مددگار نہ پاتے۔ (75) اور یہ لوگ اس بات میں بھی کوشاں تھے کہ اس سر زمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں اور اس طرح آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ خود بھی آپ کے بعد زیادہ دیر نہیں ٹھہریں گے۔ (76) یہی ہمارا دستور رہا ہے ان رسولوں کے بارے میں جنہیں ہم نے پہلے بھیجا ہے اور آپ ہمارے اس دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (77) (اے پیغمبر(ص)) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ اور نمازِ صبح بھی۔ کیونکہ صبح کی نماز حضوری کا وقت ہے (اس وقت شب و روز کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں)۔ (78) اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا۔ (79) اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ اور میرے لئے اپنی جانب سے ایسی قوت قرار دے جو مددگار ہو۔ (80) اور کہیئے! کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل تو تھا ہی مٹنے والا۔ (81) اور ہم تنزیلِ قرآن کے سلسلہ میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو اہلِ ایمان کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ (82) اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ (83) کہہ دیجیے! ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ اب یہ تو تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ ٹھیک راہ پر کون ہے؟ (84) (اے رسول(ص)!) لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ (85) اور اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ سلب کر لیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے۔ اور پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی وکیل (حمایتی) بھی نہ پائیں (جو اسے واپس دلا سکے)۔ (86) مگر یہ آپ کے پروردگار کی خاص رحمت ہے (کہ وہ ایسا نہیں کرتا) بے شک آپ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔ (87) کہہ دیجئے کہ اگر سارے انسان اور جن اکٹھے ہو جائیں (اور چاہیں) اس جیسا قرآن لے آئیں تو جب بھی اس جیسا نہیں لا سکیں گے۔ اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔ (88) اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں (بار بار) ادل بدل کر بیان کی ہیں لوگوں کے لئے (تاکہ وہ سمجھیں) مگر اکثر لوگ انکار کئے بغیر نہ رہے۔ (89) اور انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک آپ یہ کام کرکے نہ دکھا دیں (مثلاً) ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کریں۔ (90) یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور آپ اس کے درمیان بہت سی نہریں جاری کریں۔ (91) یا جیساکہ آپ کا خیال ہے آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں یا پھر خدا اور فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے سامنے لے آئیں۔ (92) یا آپ کا خالص سونے کا ایک گھر ہو۔ یا پھر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ایک (لکھی لکھائی) کتاب اتار کے نہ لے آئیں جسے ہم خود پڑھیں۔ کہہ دیجئے پاک ہے میرا پروردگار میں پیغام پہنچانے والا انسان کے سوا کیا ہوں؟ (93) جب کبھی لوگوں کے پاس ہدایت پہنچی تو ان کو ایمان لانے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ (94) کہہ دیجئے! کہ اگر زمین میں (انسان کی بجائے) فرشتے ہوتے جو اطمینان و آرام سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول(ص) بنا کر بھیجتے۔ (95) (اے رسول(ص)!) کہہ دیئے! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ ہی کافی ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔ (اور) خوب دیکھتا ہے۔ (96) اور جس کو اللہ ہدایت دے دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے (وہ اپنی توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دے تو تم اللہ کے سوا اس کا کوئی حامی و مددگار نہیں پاؤگے اور قیامت کے دن ہم ایسے لوگوں کو منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب بھی وہ بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔ (97) یہ ان کی سزا ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا۔ اور کہا کہ جب ہم (گل سڑ کر) ہڈیاں اور چورہ ہو جائیں گے تو کیا ہم ازسرِنو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (98) کیا انہوں نے (اس بات پر) غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر بھی ضرور قادر ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے اور اس نے ان کے (حشر کے) لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اس امر میں ظالم انکار کئے بغیر نہ رہے۔ (99) کہہ دیجئے! کہ اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تو تم ان کے خرچ ہو جانے کے خوف سے (ہاتھ) روک لیتے اور انسان بڑا بخیل ہے۔ (100) اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب کہ وہ (موسیٰ) ان کے پاس آئے تھے! تو فرعون نے اس سے کہا۔ اے موسیٰ! میں تو تمہیں سحر زدہ (یا ساحر) خیال کرتا ہوں۔ (101) موسیٰ نے کہا (اے فرعون) تو (دل میں تو) یقیناً جانتا ہے کہ یہ نشانیاں آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے بصیرت کا سامان بنا کر نازل کی ہیں۔ اور اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ تو ایک ہلاکت زدہ آدمی ہے۔ (102) اس (فرعون) نے ارادہ کیا کہ وہ (موسیٰ اور بنی اسرائیل) کو اس سر زمین سے نکال باہر کرے لیکن ہم نے اسے اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ (103) اور اس (واقعہ) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس سر زمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم (سب) کو (اپنے حضور) سمیٹ لائیں گے۔ (104) اور ہم نے اس (قرآن) کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اور ہم نے آپ کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (105) اور ہم نے قرآن کو متفرق طور پر (جدا جدا کرکے) نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے (موقع بموقع) بتدریج نازل کیا ہے۔ (106) کہہ دیجیے! کہ تم (لوگ) اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ۔ لیکن جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب اسے ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ (107) اور کہتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار! بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ (108) اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔ (109) کہہ دیجیے! کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی اسے پکارو۔ اس کے سارے نام اچھے ہیں اور نہ ہی اپنی نماز زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ ہی بالکل آہستہ سے بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ (110) اور کہہ دیجئے! سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی کسی کو شریک بنایا ہے اور نہ ہی درماندگی اور عاجزی کی وجہ سے اس کا کوئی مددگار ہے اور اس کی کبریائی اور بڑائی کا بیان کرو جس طرح بڑائی بیان کرنی چاہیئے۔ (111)
قرآن
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اللہ کا حکم (عذاب) آگیا ہے پس تم اس کے لئے جلدی نہ کرو وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ (1) وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ نازل کر دیتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کر دو (ڈراؤ) کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس مجھ ہی سے ڈرو۔ (2) اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ جن چیزوں کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ ان سے بلند و بالا ہے۔ (3) اس نے انسان کو نطفہ (پانی کی ایک بوند) سے پیدا کیا پھر وہ ایک دم کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا۔ (4) اور اسی نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور دوسرے فائدے بھی اور انہی سے بعض کا تم گوشت کھاتے ہو۔ (5) اور ان (چوپاؤں) میں تمہارے لئے زیب و زینت بھی ہے جب شام کو واپس لاتے ہو اور صبح جب (چراگاہ کی طرف) لے جاتے ہو (اس وقت ان کا منظر کیسا خوش آئند ہوتا ہے)۔ (6) اور یہ (جانور) تمہارے بوجھوں کو اٹھاتے ہیں۔ اور ان (دور دراز) شہروں تک پہنچاتے ہیں جن تک تم بڑی جانکاہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے بے شک تمہارا پروردگار تمہارا شفیق و بڑا مہربان ہے۔ (7) اور اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور اپنے لئے انہیں زینت بناؤ اور خدا وہ کچھ پیدا کرتا ہے (اور کرے گا) جو تم نہیں جانتے۔ (8) اور سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور ان میں کچھ راستے کج بھی ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ (زبردستی) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (9) وہ وہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے لئے) آسمان سے پانی برسایا جس سے تم پیتے بھی ہو اور جس سے وہ درخت (اور سبزے اگتے ہیں) جن میں تم (اپنے جانور) چراتے ہو۔ (10) اسی (پانی) سے وہ (خدا) تمہارے لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔ (11) اور اسی نے تمہارے لئے رات، دن، سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے (تمہارے کام میں لگا دیا ہے) اور ستارے بھی مسخّر ہیں (یہ سب تسخیر) اسی کے حکم سے ہے بے شک اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ (12) اور اس نے تمہارے لئے زمین میں جو رنگ برنگ کی چیزیں پیدا کی ہیں اور مسخر کی ہیں اس میں سوچنے سمجھنے اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔ (13) اور وہ وہی ہے جس نے سمندر (کو تمہارا) مسخر کر دیا تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور کی چیزیں (موتی وغیرہ) نکالو جنہیں تم (آرائش کیلئے) پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ اس میں کشتیاں پانی کو چیرتی پھاڑتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ (14) اور اس (خدا) نے زمین میں بھاری بھر کم پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ تمہیں لے کر کہیں ڈھلک نہ جائے اور اس نے نہریں رواں دواں کر دیں اور راستے بنائے تاکہ تم (خشکی و تری میں) راہ پاؤ (اور منزل مقصود تک پہنچ جاؤ)۔ (15) اور اس نے (قطعِ مسافت اور راستہ بتانے کے لئے) مختلف علامتیں مقرر کیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ پاتے ہیں۔ (16) کیا وہ (خدا) جو پیدا کرتا ہے، اس کی مانند ہے جو کچھ پیدا نہیں کرتا؟ کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے اور نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ (17) اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے بےشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ (18) اللہ وہ (سب کچھ) جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔ (19) اور اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ (مشرک) لوگ پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے (بلکہ) وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں۔ (20) وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں۔ انہیں تو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ انہیں یا ان کے پجاریوں کو (دوبارہ) کب اٹھایا جائے گا؟ (21) تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے سو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ بڑے مغرور ہیں۔ (22) یقینا اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو وہ (دلوں میں) چھپاتے ہیں اور اسے بھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں بے شک وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (23) اور جب ان سے کہا (پوچھا) جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں (کچھ بھی نہیں) بس اگلے لوگوں کی (فرسودہ) داستانیں ہیں۔ (24) اس کا انجام یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ اپنے گناہوں کا بھی پورا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور کچھ بوجھ ان کا بھی اٹھائیں گے جنہیں یہ بے سمجھے گمراہ کر رہے ہیں (دیکھو) کیا ہی برا بوجھ ہے وہ جو یہ اٹھا رہے ہیں؟ (25) جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بھی (دعوتِ حق کے خلاف) مکاریاں کی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی (مکاریوں والی) عمارت بنیاد سے اکھیڑ دی اور اس کی چھت اوپر سے ان پر آپڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آیا جدھر سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ (26) پھر قیامت کے دن وہ (اللہ) انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور کہے گا کہ (بتاؤ) کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کے بارے میں تم (اہلِ حق سے) لڑا جھگڑا کرتے تھے (اس وقت) وہ لوگ کہیں گے جن کو (حقیقت کا) علم دیا گیا تھا کہ آج کے دن رسوائی اور برائی ان کافروں کے لئے ہے۔ (27) کہ جن کی روحیں فرشتوں نے اس حال میں قبض کی تھیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے اس وقت انہوں نے (سپر ڈال دی تھی اور) صلح کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے (ان سے کہا گیا) ہاں (تم نے ضرور برائی کی تھی) تم لوگ جو کچھ کرتے رہے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے۔ (28) پس اب جہنم کے دروازوں میں سے (جہنم میں) داخل ہو جاؤ اب تمہیں ہمیشہ کے لئے اسی میں رہنا ہے پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔ (29) اور جب صاحبانِ تقویٰ سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ سراسر خیر و خوبی نازل کی ہے جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی ان کے لئے یہاں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو یقیناً اور بھی بہتر ہے اور متقیوں کا گھر کیا ہی خوب ہے؟ (30) (یعنی) وہاں ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہاں وہ جو کچھ چاہیں گے ان کو مل جائے گا خدا اسی طرح پرہیزگاروں کو جزا دیتا ہے۔ (31) وہ متقی جن کی روحیں اس حال میں فرشتے قبض کرتے ہیں کہ وہ (کفر و شرک) سے پاک و صاف ہوتے ہیں (اس وقت) فرشتے کہتے ہیں تم پر سلام ہو بہشت میں داخل ہو جاؤ ان اعمال کی بدولت جو تم کیا کرتے تھے۔ (32) (اے رسول) یہ (منکرین) صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس (عذاب والے) فرشتے آجائیں یا آپ کے پروردگار کا حکم (عذاب) آجائے؟ ایسا ہی ان لوگوں نے کیا تھا جو ان سے پہلے خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔ (33) آخرکار ان کے کرتوتوں کی برائیاں ان تک پہنچ گئیں اور انہیں اس (عذاب) نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (34) اور مشرک لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد اس کے سوا نہ کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ ہی ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے ایسا ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے (بتاؤ) پیغمبروں کے ذمے کھلا پیغام دینے کے سوا اور کیا ہے؟ (35) اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی پس تم زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ (36) (اے رسول) آپ ان کے ہدایت پانے کے کتنے ہی حریص ہوں مگر (یہ ہدایت پانے والے نہیں) کیونکہ اللہ جس کو (اس کے کفر و سرکشی کی وجہ سے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اس کو ہدایت نہیں کرتا اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔ (37) وہ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر گیا خدا اسے ہرگز (دوبارہ) نہیں اٹھائے گا۔ ہاں (ضرور اٹھائے گا) یہ اس کا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے۔ (38) (یہ دوبارہ اٹھانا اس لئے ضروری ہے) تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کے سامنے ان کی حقیقت کھول دے اور تاکہ کافروں کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ (39) ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔ (40) اور جن لوگوں نے خدا کے واسطے ہجرت کی اس کے بعد کہ (ایمان لانے کی وجہ سے) ان پر ظلم کئے گئے ہم ان کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش یہ لوگ جان لیتے۔ (41) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (42) (اے رسول) ہم نے آپ سے پہلے مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا، کھلی ہوئی دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔ (43) اور ہم نے آپ پر الذکر (قرآن مجید) اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لئے (وہ معارف و احکام) کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (44) کیا وہ لوگ جو (پیغمبر(ص) کے خلاف) بری تدبیریں اور ترکیبیں کر رہے ہیں وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آجائے جہاں سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟ (45) یا انہیں اپنے کاروبار میں ان کے چلتے پھرتے وقت آپکڑے پس وہ اپنی چالبازیوں سے اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ (46) یا انہیں اس وقت پکڑے جب وہ اس سے خوف زدہ ہوں بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق اور بڑا مہربان ہے۔ (47) کیا ان لوگوں نے کبھی اللہ کی پیدا کی ہوئی مختلف چیزوں میں غور نہیں کیا کہ ان کے سائے کس طرح اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں بائیں جھکتے ہیں اس طرح وہ سب اپنے عجز کا اظہار کر رہے ہیں۔ (48) اور جو (جاندار) چیزیں آسمانوں میں ہیں اور زمین میں جتنے جانور ہیں اور فرشتے سب اللہ کے لئے سربسجود ہیں اور وہ سرکشی نہیں کرتے۔ (49) وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان پر بالادست ہے اور انہیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔ (50) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو اِلٰہ (خدا) نہ بناؤ۔ الٰہ (خدا) تو صرف ایک ہی ہے سو تم صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ (51) اور اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اسی کا دین دائمی اور واجب الاطاعت ہے تو کیا تم اللہ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو؟ (52) اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی جناب میں داد و فریاد کرتے ہو۔ (53) پھر جب وہ تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو ایک دم تم میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ (54) تاکہ جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس کا کفران کریں سو (اے ناشکرو) چند روزہ فائدہ اٹھا لو۔ عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ (55) یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان (بتوں وغیرہ) کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو یہ جانتے بھی نہیں ہیں خدا کی قسم تم سے ضرور پوچھا جائے گا کہ تم کیسی افترا پردازیاں کرتے تھے۔ (56) اور یہ اللہ کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہیں پاک ہے اس کی ذات اور خود ان کے لئے وہ ہے جس کے یہ خواہشمند ہیں۔ (57) اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ رنج و غم سے بھر جاتا ہے۔ (58) وہ اس بری خبر سے جو اسے دی گئی ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اسے لئے رہے یا اسے مٹی کے تلے گاڑ دے؟ کیا ہی بُرا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔ (59) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی حالت بری ہے اور اللہ کے لئے اعلیٰ صفت ہے وہ زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔ (60) اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا مگر وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو اس سے وہ ایک گھڑی پیچھے آگے نہیں ہو سکتے۔ (61) اور وہ اللہ کے لئے وہ چیزیں (بیٹیاں) قرار دیتے ہیں جن کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں غلط بیانی کرتی ہیں کہ ان کے لئے (بہرحال) بھلائی ہی بھلائی ہے (نہیں) ہاں البتہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے اور بے شک یہ سب سے پہلے اس میں پہنچائے (جھونکے) جائیں گے۔ (62) خدا کی قسم! ہم نے آپ سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے ہیں پس شیطان نے ان کے (برے) اعمال خوشنما کرکے انہیں دکھائے سو وہی آج ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (63) اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان باتوں کو کھول کر بیان کر دیں جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ (کتاب) ایمان لانے والوں کے لئے سراسر ہدایت اور رحمت ہے۔ (64) اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا ہے اور اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ (بنجر) ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں آوازِ حق سننے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔ (65) اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت کا سامان موجود ہے ہم ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے نکال کر تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔ (66) اور ہم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بھی (تمہیں اس حالت میں) جن سے تم نشہ آور عرق بھی بنا لیتے ہو اور بہترین رزق بھی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (67) اور آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کو یہ وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھپروں میں جن پر لوگ بیلیں چڑھاتے ہیں گھر (چھتے) بنایا کر۔ (68) پھر ہر قسم کے پھلوں (اور پھولوں) کا رس چوسا کر پس اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ شہد کی ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا وہ مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (69) اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر وہی تمہیں وفات دے گا اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کو (بڑھاپے کی) بدترین عمر تک لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد کچھ بھی نہ جانیں بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا قدرت والا ہے۔ (70) اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق کے معاملہ میں فضیلت (برتری) دی ہے پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں (اور زیر دستوں) کو لوٹا دینے والے نہیں ہیں تاکہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟ (71) اور اللہ نے ہی تمہاری جنس سے تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور پھر ان بیویوں سے بیٹے اور پوتے عنایت فرمائے اور تمہاری روزی کیلئے تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ باطل کو مانتے رہیں گے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے رہیں گے؟ (72) اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت (پرستش) کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے روزی پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ (73) پس تم اللہ کے لئے مثالیں نہ دیا کرو بے شک اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (74) اللہ ایک مثال پیش کرتا ہے کہ ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا اور ایک دوسرا ہے جسے ہم نے بہترین رزق عطا کر رکھا ہے اور وہ اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ بھی کرتا ہے کیا وہ سب برابر ہو سکتے ہیں؟ الحمد ﷲ (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں) مگر اکثر لوگ (اتنی سیدھی بات بھی) نہیں جانتے۔ (75) اور اللہ دو آدمیوں کی مثال پیش کرتا ہے جن میں سے ایک گونگا ہے کسی بات پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے وہ اسے جدھر بھی بھیجے وہ کسی بھلائی کے ساتھ واپس نہیں آتا اور دوسرا وہ ہے جو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہِ راست پر قائم ہے کیا وہ (پہلا) اور یہ (دوسرا) برابر ہو سکتے ہیں؟ (76) آسمان و زمین کا سارا غیب اللہ ہی کے لئے ہے اور قیامت کا حکم تو صرف ایک پل جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی قریب تر ہے اور یقینا اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (77) اور اللہ ہی نے تمہیں شکمِ مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اسی نے تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل قرار دیئے ہیں کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔ (78) کیا ان لوگوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح فضائے آسمان میں مسخر ہیں کہ اللہ کے علاوہ انہیں کوئی روکنے والا اور سنبھالنے والا نہیں ہے بے شک اس میں بھی اس قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھنے والی قوم ہے۔ (79) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو وجہِ سکون بنایا ہے اور تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں سے ایسے گھر بنا دیئے ہیں جن کو تم روزِ سفر بھی ہلکا سمجھتے ہو اور روزِ اقامت بھی ہلکا محسوس کرتے ہو اور پھر ان کے اون، روئیں اور بالوں سے مختلف سامانِ زندگی اور ایک مدت کے لئے کارآمد چیزیں بنا دیں۔ (80) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے مخلوقات کا سایہ قرار دیا ہے اور پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائی ہیں اور ایسے پیراہن بنائے ہیں جو گرمی سے بچا سکیں اور پھر ایسے پیراہن بنائے جو ہتھیاروں کی زد سے بچا سکیں۔ وہ اسی طرح اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کر دیتا ہے کہ شاید تم اطاعت گزار بن جاؤ۔ (81) پھر اس کے بعد بھی اگر یہ ظالم منہ پھیر لیں تو آپ کا کام صرف واضح پیغام کا پہنچا دینا ہے اور بس۔ (82) یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور پھر انکار کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کافر ہے۔ (83) اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اللہ کو راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی۔ (84) اور جب ظالم لوگ (ایک بار) عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ (85) اور جن لوگوں نے (دنیا میں) شرک کیا تھا جب وہ (قیامت کے دن) اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہ ہیں ہمارے وہ شرکاء جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے تو وہ (شرکاء) یہ بات ان کی طرف پھینک دیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (86) اور اس دن سب اللہ کے سامنے جھک جائیں گے اور وہ ساری افتراء پردازیاں غائب ہو جائیں گی جو وہ کیا کرتے تھے۔ (87) جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔ تو ہم ان کے فساد پھیلانے کی پاداش میں ان کے عذاب پر ایک اور عذاب کا اضافہ کر دیں گے۔ (88) اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان کے بالمقابل گواہی دے گا اور آپ کو ان سب کے بالمقابل گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے اور سرِ تسلیم خم کرنے والوں کے لئے سراسر ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ (89) بے شک اللہ عدل، احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ (90) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب بھی تم کوئی عہد کرو اور اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو ضامن بنا چکے ہو بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (91) خبردار تم اس عورت کی مانند نہ ہو جانا جس نے بڑی مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو۔ تاکہ ایک گروہ دوسرے سے زیادہ فائدہ حاصل کرے اور اللہ اس بات سے تمہاری آزمائش کرتا ہے اور یقیناً قیامت کے دن وہ تمہارے لئے وہ حکمت ظاہر کر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے ہو۔ (92) اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور سوال کیا جائے گا۔ (93) اور تم اپنے درمیان اپنی قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ۔ کہیں کوئی قدم جم جانے کے بعد پھسل نہ جائے اور اس طرح تمہیں اللہ کی راہ سے روکنے کی پاداش میں برائی کا مزہ چکھنا پڑے اور تمہارے لئے عذابِ عظیم ہے۔ (94) اور اللہ کے عہد و پیمان کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت نہ کرو۔ بے شک جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (95) جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور ہم یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔ (96) جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔ (97) پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو مردود شیطان سے خدا کی پناہ مانگ لیا کریں۔ (98) جو لوگ ایماندار ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر اس (شیطان) کا کوئی تسلط نہیں ہے۔ (99) اس کا قابو تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کی وجہ سے شرک کرتے ہیں۔ (100) اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم (یہ کلام) اپنے دل سے گھڑ لیا کرتے ہو حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ (حقیقتِ حال کو) نہیں جانتے۔ (101) آپ کہہ دیجیے کہ اس (قرآن) کو تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ثابت قدم رکھے اور اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت اور نجات کی خوشخبری ثابت ہو۔ (102) اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (قرآن کے بارے میں) کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبر) کو ایک آدمی سکھاتا ہے حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) تو فصیح عربی زبان میں ہے۔ (103) جو لوگ آیاتِ الٰہی پر ایمان نہیں لاتے اللہ کبھی انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (104) جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔ (105) جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے) لیکن جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے (زبان سے کفر کرے اور اس کا دل اس کفر پر رضامند ہو) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (106) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کیا کرتا۔ (107) یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور یہی لوگ بالکل غافل ہیں۔ (108) اور یقیناً یہی لوگ آخرت میں نقصان و زیاں اٹھانے والے ہیں۔ (109) پھر آپ کا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے (سخت) آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا یقیناً (آپ کا) پروردگار ان اعمال کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (110) (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنی ذات کی خاطر جھگڑا کرتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر (کسی طرح بھی) کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (111) اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے جو امن و اطمینان سے (آباد) تھی اس کی روزی فراغت سے آرہی تھی پس اس نے کفرانِ نعمت شروع کیا تو اللہ نے اس کے باشندوں کے کرتوتوں کی پاداش میں اسے یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کو اس کا اوڑھنا بنا دیا۔ (112) اور پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان کے پاس آیا مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا پس عذاب نے انہیں اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے۔ (113) (اے لوگو) خدا نے تمہیں جو حلال (اور) پاک و پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ (پیو) اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نعمت کا شکر بھی ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (114) اس نے تم پر صرف مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام بلند کیا گیا ہو حرام کیا ہے۔ پس جو (ان کے کھانے پر) مجبور ہو جائے نہ باغی ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا (تو کوئی مضائقہ نہیں) بے شک خدا بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (115) (خبردار) تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے (اور وہ جھوٹے احکام لگائیں) ان کے متعلق نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام! اس طرح تم اللہ پر جھوٹا افترا باندھوگے بے شک جو لوگ خدا پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔ (116) اس افترا پردازی کا چند روزہ فائدہ ہے (آخرکار) ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (117) اور ہم نے یہودیوں پر وہ چیزیں حرام کر دیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے (سورہ انعام میں) آپ سے کر چکے ہیں اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (118) بے شک آپ کا پروردگار ان لوگوں کے لئے جو جہالت و نادانی سے برائی کر گزرتے ہیں اور پھرا س کے بعد توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کر لیتے ہیں یقیناً آپ کا پروردگار اس کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (119) بے شک ابراہیم(ع) (اپنی ذات میں) ایک پوری امت تھے اللہ کے مطیع فرمان تھے (سب سے کٹ کر) یکسوئی سے (خدا کی طرف) مائل تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ (120) وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں منتخب کر لیا تھا اور انہیں سیدھے راستہ پر لگا دیا تھا۔ (121) ہم نے انہیں دنیا میں بھی بھلائی دی اور آخرت میں تو وہ صالحین میں سے ہی ہیں۔ (122) اے رسول(ص) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو ہوکر ابراہیم کی ملت (طریقہ) کی پیروی کریں جو یقیناً مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ (123) (باقی رہا) سبت (کے احترام کا معاملہ) تو یہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا گیا تھا جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا اور اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں کے بارے میں جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔ (124) (اے پیغمبر(ص)) آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف (لوگوں کو) بلائیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے بہترین انداز میں بحث و مباحثہ کریں۔ آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے؟ (125) اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اس قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہے اور اگر تم صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔ (126) اور (اے پیغمبر) آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا تو محض اللہ کی توفیق سے ہے اور آپ ان لوگوں کے حال پر غم نہ کیجئے اور نہ ہی ان کی مکاریوں سے دل تنگ ہو جایئے۔ (127) بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو (خلقِ خدا سے) حسنِ سلوک کرتے ہیں۔ (128)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، را۔ یہ کتاب (الٰہی) یعنی روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔ (1) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ بہت تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ (2) (اے رسول(ص)) انہیں چھوڑ دو کہ وہ کھائیں (پئیں) اور عیش و آرام کریں اور (بے شک جھوٹی) امید انہیں غفلت میں رکھے عنقریب انہیں (سب کچھ) معلوم ہو جائے گا۔ (3) اور ہم نے کبھی کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر یہ کہ اس کے لئے وقتِ معلوم لکھا ہوا تھا۔ (4) کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ (5) اور وہ (کفار) کہتے ہیں: اے وہ جس پر ذکر (قرآن) اتارا گیا ہے یقینا تم دیوانہ ہو۔ (6) اگر تم سچے ہو تو پھر ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتے؟ (7) ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر (صحیح موقع پر فیصلہ) حق کے ساتھ اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (8) بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (9) اور ہم نے آپ سے پہلے مختلف جماعتوں میں رسول بھیجے۔ (10) اور ان کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے مذاق نہ کیا ہو۔ (11) اسی طرح ہم اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ (12) (مگر) وہ اس (ذکر) پر ایمان نہیں لاتے اور جو پہلے گزر چکے ہیں ان کا طریقہ بھی یہی رہ چکا ہے۔ (13) اور اگر ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ کھول دیں جس سے وہ دن دہاڑے چڑھنے لگیں۔ (14) تو پھر بھی وہ یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو مدہوش کر دیا گیا ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔ (15) اور بے شک ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنا دیئے اور اس (آسمان) کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کر دیا ہے۔ (16) اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کر دیا۔ (17) مگر یہ کہ کوئی (شیطان) چوری چھپے کچھ سن لے تو (اس صورت میں) ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (18) اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔ (19) اور ہم نے اس میں تمہارے لئے بھی معاش کے وسائل بنائے اور ان کیلئے بھی جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ (20) اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معیّن مقدار میں۔ (21) اور ہم ہواؤں کو باردار بنا کر بھیجتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی ہم تمہیں پلاتے ہیں حالانکہ تم اسکے خزانہ دار نہیں ہو۔ (22) اور بلاشبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہم ہی (سب کے) وارث ہیں۔ (23) اور یقیناً ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزرے اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔ (24) بے شک تمہارا پروردگار (بروزِ قیامت) سب کو جمع کرے گا وہ بڑا حکمت والا، بڑا علم والا ہے۔ (25) اور بلاشبہ ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (26) اور اس سے پہلے ہم نے جان کو بے دھواں تیز گرم آگ سے پیدا کیا۔ (27) (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ (28) پس جب میں اسے مکمل کر لوں اور اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (29) چنانچہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ (30) سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کیا۔ (31) ارشاد ہوا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ (32) اس نے کہا میں ایسا نہیں ہوں کہ ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (33) ارشاد ہوا (یہاں سے) نکل جا کہ تو مردود (راندہ ہوا) ہے۔ (34) اور روزِ جزا (قیامت) تک تجھ پر لعنت ہے۔ (35) اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (36) فرمایا بے شک تو مہلت پانے والوں میں سے ہے۔ (37) (جنہیں) وقتِ معلوم تک مہلت دی گئی ہے۔ (38) اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔ (39) سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ (40) فرمایا یہ سیدھا راستہ ہے مجھ تک پہنچنے والا۔ (41) جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی قابو نہ ہوگا سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیروی کریں گے۔ (42) اور بے شک جہنم ان سب کی وعدہ گاہ ہے۔ (43) اس کے سات دروازے ہیں (اور) ہر دروازے کے لئے ان (لوگوں) میں سے ایک حصہ ہے۔ (44) بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (45) (ان سے کہا جائے گا) کہ تم سلامتی اور امن و امان کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔ (46) اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (47) ان کے اندر انہیں کوئی تکلیف و زحمت چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ (48) (اے رسول) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہوں۔ (49) اور یہ بھی (بتا دو) کہ میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔ (50) اور انہیں ابراہیم(ع) کے مہمانوں کا واقعہ بھی سنا دو۔ (51) جبکہ وہ ان کے پاس آئے اور سلام کیا اور انہوں نے (جوابِ سلام کے بعد) کہا ہم کو تم سے ڈر لگ رہا ہے۔ (52) (مہمانوں) نے کہا کہ ڈرئیے نہیں ہم آپ کو ایک صاحبِ علم بچہ کی (ولادت کی) بشارت دیتے ہیں۔ (53) ابراہیم(ع) نے کہا تم مجھے اس حال میں بشارت دیتے ہو کہ مجھ پر بڑھاپا آچکا ہے یہ کس چیز کی بشارت ہے جو تم مجھے دیتے ہو؟ (54) انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی بشارت دے رہے ہیں تو آپ ناامید ہونے والوں میں سے نہ ہوں۔ (55) ابراہیم(ع) نے کہا اپنے پروردگار کی رحمت سے تو گمراہوں کے سوا کون مایوس ہوتا ہے؟ (56) (پھر) کہا اے اللہ کے فرستادو آخر تمہیں کیا مہم درپیش ہے؟ (57) انہوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (58) سوا لوط(ع) کے گھر والوں کے کہ ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ (59) بجز اس کی بیوی کے اس کی نسبت ہم نے یہ طے کیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ (60) پس جب اللہ کے فرستادہ خاندانِ لوط (ع) کے پاس آئے۔ (61) تو لوط نے کہا کہ تم تو اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہو۔ (62) انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ ہم تمہارے پاس وہ چیز (عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں (یہ) لوگ شک کیا کرتے تھے۔ (63) اور ہم آپ کے پاس حق (عذاب) لے کر آئے ہیں اور بلاشبہ ہم بالکل سچے ہیں۔ (64) تو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جائیں اور خود آپ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ادھر ہی چلے جائیں۔ (65) اور ہم نے ان (لوط(ع)) کو بذریعۂ وحی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان کی جڑ بالکل کاٹ دی جائے گی۔ (66) اور شہر والے (نوجوان اور خوبصورت مہمانوں کو دیکھ کر) خوشیاں مناتے ہوئے آگئے۔ (67) (لوط(ع) نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو۔ (68) اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (69) انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے آپ کو دنیا بھر کے لوگوں (کو مہمان کرنے) سے منع نہیں کر دیا تھا۔ (70) آپ نے کہا اگر تم نے کچھ کرنا ہے تو پھر یہ میری (قوم کی) بیٹیاں موجود ہیں۔ (71) آپ کی جان کی قسم! یہ لوگ اپنے نشہ میں بالکل اندھے ہو رہے تھے۔ (72) آخرکار سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک ہولناک آواز (چیخ) نے آلیا۔ (73) پس ہم نے اس (بستی) کو تہہ و بالا کر دیا (اوپر کا طبقہ نیچے کر دیا)۔ اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش کر دی۔ (74) بے شک اس (واقعہ) میں حقیقت کی پہچان رکھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (75) اور وہ (بستی) ایک عام گزرگاہ پر واقع ہے جو اب تک قائم ہے۔ (76) بے شک اس (واقعہ) میں اہلِ ایمان کے لئے بڑی نشانی ہے۔ (77) اور بے شک ایک (گھنے جنگل) والے بڑے ظالم تھے۔ (78) ہم نے ان سے انتقام لیا اور یہ دونوں (بستیاں) شارعِ عام پر واقع ہیں۔ (79) اور بے شک حجر کے لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (80) اور ہم نے انہیں نشانیاں عطا کیں مگر وہ ان سے روگردانی ہی کرتے رہے۔ (81) اور وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے تاکہ امن و اطمینان سے رہیں۔ (82) پس صبح کے وقت انہیں ایک ہولناک آواز نے آپکڑا۔ (83) سو جو کچھ انہوں نے کمایا تھا وہ ان کے کام نہ آیا۔ (84) اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو نیز جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو پیدا نہیں کیا مگر حق و حکمت کے ساتھ اور قیامت یقینا آنے والی ہے پس (اے رسول) آپ شائستہ طریقہ سے درگزر کریں۔ (85) بے شک آپ کا پروردگار ہی بڑا پیدا کرنے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (86) اور بلاشبہ ہم نے آپ کو دہرائی جانے والی سات آیتیں عطا کی ہیں اور قرآنِ عظیم بھی۔ (87) آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کی طرف نہ دیکھیں جن سے ہم نے مختلف قسم کے لوگوں (کافروں) کو بہرہ مند کیا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں غمگین ہوں اور اہلِ ایمان کے لئے اپنے بازو پھیلا دیں (ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں)۔ (88) اور کہہ دیجیے کہ میں تو عذاب سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ (89) (اے رسول) جس طرح ہم نے تقسیم کرنے والوں پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔ (اسی طرح) آپ پر بھی نازل کیا ہے۔ (90) (لیکن یہ وہ لوگ تھے) جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ (91) آپ کے پروردگار کی قسم ہم ان سے اس کی بابت ضرور سوال کریں گے۔ (92) جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ (93) پس جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کا واضح اعلان کر دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں (ان کی کچھ پروا نہ کریں)۔ (94) جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ہم ان کے لئے کافی ہیں۔ (95) جو خدا کے ساتھ دوسرا الٰہ قرار دیتے ہیں انہیں عنقریب (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ (96) اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ (یہ لوگ) کہتے رہتے ہیں اس سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ (97) تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ (98) اور اس وقت تک برابر اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیں جب تک کہ تمہارے پاس موت نہ آجائے۔ (99)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، را۔ (اے رسول(ص)) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لئے نازل کی ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی کی طرف لائیں (یعنی) اس خدا کے راستہ کی طرف جو غالب (اور) قابل تعریف ہے۔ (1) وہ اللہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور تباہی و بربادی ہے سخت عذاب کی وجہ سے ان کافروں کیلئے۔ (2) جو دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) روکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے ٹیڑھا بنا دیں یہ لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (3) اور ہم نے (دنیا میں) جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے تو اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کیلئے (پیغامِ خداوندی) کھول کر بیان کرے پس اللہ جسے چاہتا ہے (توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے وہ (سب پر) غالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔ (4) اور بے شک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو (کفر کے) اندھیروں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لائے اور انہیں اللہ کے مخصوص دن یاد دلاؤ یقینا اس (یاددہانی) میں ہر بڑے صبر و شکر کرنے والے کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (5) اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا یعنی اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں سخت عذاب پہنچاتے تھے اور وہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ (6) اور یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تمہیں مطلع کر دیا تھا کہ اگر (میرا) شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفرانِ نعمت (ناشکری) کروگے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ (7) اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور روئے زمین کے سب لوگ کفر اختیار کریں تو اللہ کو اس کی کیا پروا ہے وہ یقیناً بے نیاز (اور) قابلِ ستائش ہے۔ (8) کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے (یعنی) قومِ نوح(ع) اور عاد و ثمود(ع) اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ جب ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں (معجزے) لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لئے اور کہا کہ جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور تم جس (دین) کی طرف ہمیں دعوت دیتے ہو ہم اس کی طرف سے تردد آمیز شک میں ہیں۔ (9) ان کے رسولوں نے کہا کیا (تمہیں) اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناہ بخش دے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے اس پر ان لوگوں نے کہا تم نہیں ہو مگر ہمارے جیسے بشر (اور انسان) تم چاہتے ہو کہ جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے آئے ہیں ہمیں ان کی عبادت سے روکو! سو ہمارے پاس کوئی کھلا ہوا (ہمارا مطلوبہ) معجزہ لاؤ۔ (10) ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ بے شک ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر (اور انسان) مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا احسان فرماتا ہے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم تمہیں کوئی کھلی ہوئی دلیل (معجزہ) پیش کریں مگر اللہ کے حکم سے اور اللہ پر ہی اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیئے۔ (11) آخر ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اسی نے ہمیں ہماری (زندگی کی) راہوں کی راہنمائی کی ہے اور تم ہمیں جو ایذائیں پہنچا رہے ہو ہم ان پر صبر کریں گے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیئے۔ (12) اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ اور تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔ (13) اور ان کے بعد ہم تمہیں اس سر زمین میں آباد کریں گے یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لئے ہے جو میری بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری تہدید سے خائف ہو۔ (14) اور انہوں (رسولوں) نے (ہم سے) فتح مندی طلب کی (جو قبول ہوئی) اور ہر سرکش ضدی (حق کی مخالفت کرنے والا) نامراد ہوا۔ (15) اس (نامرادی) کے پیچھے جہنم ہے اور اسے کچ لہو قسم کا پانی پلایا جائے گا۔ (16) جسے وہ گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا اور ہر طرف سے اس کے پاس موت آئے گی مگر وہ مرے گا نہیں اور (مزید برآں) اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا۔ (17) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی حالت اس راکھ جیسی ہے جسے سخت آندھی والے دن ہوا اڑا لے جائے جو کچھ انہوں نے کیا (کمایا) اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آئے گا یہی بہت بڑی گمراہی ہے۔ (18) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو حق (و حکمت) کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے۔ (فنا کر دے) اور نئی مخلوق کو لے آئے۔ (19) اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ (20) اور (قیامت کے دن) وہ سب ایک ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ تو جو کمزور (پیروکار) ہوں گے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے (سردار) بنے ہوئے تھے کہ ہم تو (زندگی بھر) تمہارے پیروکار تھے تو تم آج ہمیں اللہ کے عذاب سے کچھ بچا سکتے ہو؟ وہ (بڑے) کہیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت دیتے اب ہمارے لئے برابر ہے جزع فزع کریں یا صبر کریں۔ آج ہمارے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ (21) اور جب (ہر قسم کا) فیصلہ ہو جائے گا تو اس وقت شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی تسلط (زور) تو تھا نہیں سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (کفر اور گناہ کی) دعوت دی اور تم نے میری دعوت قبول کر لی پس تم مجھے ملامت نہ کرو (بلکہ) خود اپنے آپ کو ملامت کرو (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو اس سے پہلے (دنیا میں) جو تم نے مجھے (خدا کا) شریک بنایا تھا میں اس سے بیزار ہوں بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (22) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہ ان بہشتوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اپنے پروردگار کے حکم سے ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اس میں ان کی باہمی دعا (بوقت ملاقات) سلام ہوگا۔ (سلامٌ علیکم تم پر سلامتی ہو)۔ (23) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح اچھی مثال بیان کی ہے کہ کلمۂ طیبہ (پاک کلمہ) شجرۂ طیبہ (پاکیزہ) درخت کی مانند ہے۔ جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔ (24) جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں پیش کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (اور سمجھیں)۔ (25) اور کلمۂ خبیثہ (ناپاک کلمہ) کی مثال شجرۂ خبیثہ (ناپاک درخت) کی سی ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا جائے اور اس کے لئے ثبات و قرار نہ ہو۔ (26) اللہ ایمان والوں کو قولِ ثابت پر ثابت قدم رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اور ظالموں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ (27) کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کو کفرانِ نعمت سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں یعنی دوزخ میں جا اتارا۔ (28) جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ (کیسا) برا ٹھکانا ہے۔ (29) اور انہوں نے اللہ کے لئے کچھ ہمسر (شریک) بنا لئے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اس کے راستے سے بھٹکائیں (اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ (چندے) عیش کر لو آخر یقینا تمہاری بازگشت آتش دوزخ کی طرف ہے۔ (30) آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیجیے جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ مخلصانہ دوستی ہوگی۔ (31) اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر کشتی کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے اور دریاؤں کو بھی تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ (32) اور تمہارے لئے سورج و چاند کو (بھی) مسخر کر دیا جو برابر چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ (33) اور جس نے تمہیں ہر چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے بے شک انسان بڑا ظالم اور بڑا ناشکرا ہے۔ (34) اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم نے (بارگاہ ایزدی میں) دعا کی تھی اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو امن کی جگہ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔ (35) اے میرے پروردگار ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے سو جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے تو یقیناً تو بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (36) اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس بے زراعت میدان میں آباد کیا ہے اے ہمارے مالک تاکہ (وہ یہاں) نماز قائم کریں اب تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں اور ان کو پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں۔ (37) اے ہمارے پروردگار! بے شک جو کچھ ہم چھپاتے ہیں تو اسے بھی جانتا ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں اسے بھی اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ (38) ساری ستائش اللہ کے لئے ہے جس نے باوجود بڑھاپے کے مجھے اسماعیل(ع) و اسحاق(ع) (دو بیٹے) عطا فرمائے بے شک میرا پروردگار دعا کا بڑا سننے والا ہے۔ (39) اے میرے پروردگار! مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے پروردگار اور میری دعا کو قبول فرما۔ (40) اے ہمارے پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا (لیا جائے گا)۔ (41) (اے رسول(ص)) جو کچھ (یہ) ظالم لوگ کر رہے ہیں تم اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھو۔ وہ تو انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (شدتِ خوف و حیرت سے) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ (42) وہ تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے اپنے سر اوپر اٹھاتے ہوئے اس عالم میں کہ ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہیں پلٹے گی اور ان کے دل (خوف و دہشت کے سوا ہر خیال سے) خالی ہو رہے ہوں گے۔ (43) (اے رسول) لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے اے ہمارے رب تھوڑی سی مدت کے لئے ہمیں مہلت دے دے ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور (تیرے) رسولوں کی پیروی کریں گے (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا تم نے اس سے پہلے قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تمہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ (44) حالانکہ تم انہی لوگوں کے مسکنوں میں آباد تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور تم پر واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اور ہم نے (تمہیں سمجھانے کے لئے) مثالیں بھی بیان کر دیں تھیں۔ (45) اور انہوں نے اپنی ساری تدبیریں کیں (اور چالیں چلیں) اور اللہ کے پاس ان کی ہر تدبیر اور چال (کا جواب) ہے اگرچہ ان کی تدبیریں و ترکیبیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔ (46) خبردار! یہ خیال نہ کرنا کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے جو وعدہ کیا ہے وہ اس کے خلاف کرے گا بے شک اللہ (سب پر) غالب ہے (اور) انتقام لینے والا ہے۔ (47) (اور یہ اس دن ہوگا) جس دن یہ زمین دوسری قسم کی زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل جائیں گے) اور سب لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے جو ایک ہے اور سب پر غالب ہے۔ (48) اور تم اس دن مجرموں کو دیکھوگے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ (49) ان کے کرتے تارکول کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہوگی۔ (50) یہ اس لئے ہوگا کہ اللہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (51) یہ سب انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے تاکہ انہیں اس کے ذریعہ سے ڈرایا جائے اور یہ کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ الٰہ بس ایک ہی ہے نیز یہ کہ عقل والے لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ (52)
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، میم، را۔ یہ الکتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب بالکل حق ہے لیکن اکثر لوگ (اس پر) ایمان نہیں لاتے۔ (1) اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا ہے بغیر ایسے ستونوں کے جو تم کو نظر آتے ہوں پھر وہ عرش (اقتدار) پر متمکن ہوا۔ اور سورج و چاند کو (اپنے قانون قدرت کا) پابند بنایا (چنانچہ) ہر ایک معینہ مدت تک رواں دواں ہے وہی (اس کارخانۂ قدرت کے) ہر کام کا انتظام کر رہا ہے اور اپنی قدرت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یقین کرو۔ (2) اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ بنا دیے اور نہریں جاری کر دیں اور اس میں ہر ایک پھل کے جوڑے دو قسم کے پیدا کر دیئے وہ رات (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو ڈھانپ دیتا ہے بے شک ان سب چیزوں میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (3) اور خود زمین میں مختلف ٹکڑے آس پاس واقع ہیں (پھر ان میں) انگوروں کے باغ ہیں (غلہ کی) کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں کچھ ایسے جو ایک ہی جڑ سے کئی درخت نکلے ہیں اور کچھ وہ جو ایسے نہیں ہیں سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں مگر ہم (ذائقہ میں) بعض کو بعض پر برتری دیتے ہیں۔ یقیناً ان امور میں ان لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (4) (اے مخاطب) اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل ان (کفار) کا یہ قول ہے کہ جب ہم (مر کر) خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا اور یہ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی جہنمی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (5) اور (اے رسول(ص)) یہ لوگ آپ سے نیکی (مغفرت) سے پہلے برائی (عذاب) کے لئے جلدی کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (ایسے لوگوں پر) خدائی سزاؤں کے نمونے گزر چکے ہیں اور آپ کا پروردگار لوگوں کو ان کے ظلم و زیادتی کے باوجود بڑا بخشنے والا ہے اور یقیناً آپ کا پروردگار سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ (6) اور کافر لوگ کہتے ہیں ان (پیغمبر اسلام(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (ہماری مرضی کے مطابق) کیوں نہیں اتاری جاتی؟ حالانکہ تم تو بس (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے۔ (7) اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر عورت (اپنے پیٹ میں) کیا اٹھائے پھرتی ہے؟ اور اس کو بھی (جانتا ہے) جو کچھ رحموں میں کمی یا بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقدار مقرر ہے۔ (8) وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر سب چیزوں کا جاننے والا ہے وہ بزرگ ہے (اور) عالی شان ہے۔ (9) تم میں سے کوئی چپکے سے کوئی بات کرے یا اونچی آواز میں کرے اور جو رات کے وقت چھپا رہتا ہے یا دن کے وقت (صاف ظاہر) چلتا ہے اس کے علم میں سب یکساں (برابر) ہیں۔ (10) انسان کے آگے اور پیچھے (خدا کے مقرر کردہ) نگہبان ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب خدا کسی قوم کو (اس کے عمل کی پاداش میں) کوئی تکلیف پہنچانا چاہتا ہے تو وہ ٹل نہیں سکتی (پہنچ کر ہی رہتی ہے)۔ اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی و مددگار ہے۔ (11) وہ وہی (خدا) ہے جو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی (کی چمک) دکھاتا ہے اور (دوش ہوا پر) بوجھل بادل پیدا کرتا ہے۔ (12) بادل کی گرج اور فرشتے بھی اس کے خوف سے اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ آسمانی بجلیاں گراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان کی زد میں لاتا ہے درآنحالیکہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ بڑا زبردست قوت والا ہے۔ (13) (تکلیف کے وقت) اسی کو پکارنا برحق ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی (پیاسا) اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ وہ (پانی) اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی دعا و پکار گمراہی میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ (14) اور جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں وہ سب خوشی یا ناخوشی سے اللہ کو ہی سجدہ کر رہے ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام (اسی کو سجدہ کناں ہیں)۔ (15) (اے رسول) ان سے کہو (پوچھو) آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (خود ہی) بتائیے کہ اللہ (نیز) ان سے کہو۔ کیا تم نے اللہ کو چھوڑ کر کچھ کارساز بنا لئے ہیں؟ جو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہیں اور کیا نور و ظلمت (اندھیرا اور اجالا) یکساں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے اللہ کے کچھ ایسے شریک بنائے ہیں جنہوں نے اللہ کی طرح کچھ مخلوق خلق کی ہے؟ جس کی وجہ سے تخلیق کا یہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا ہے؟ کہہ دیجیئے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے وہ یگانہ ہے اور سب پر غالب ہے۔ (16) اسی (اللہ) نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ندی نالے اپنی مقدار کے مطابق بہنے لگے اور (میل کچیل سے جھاگ اٹھا تو) سیلاب کی رو نے اس ابھرے ہوئے جھاگ کو اٹھا لیا اور جن چیزوں (دھاتوں) کو لوگ زیور یا کوئی اور چیز (برتن وغیرہ) بنانے کے لیے آگ کے اندر تپاتے ہیں ان سے بھی ایسا ہی جھاگ اٹھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے پس جو جھاگ ہے وہ تو رائیگاں چلا جاتا ہے اور جو چیز (پانی اور دھات) لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ (17) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہا (اسے قبول کیا) ان کے لئے بھلائی (ہی بھلائی) ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ تو اگر ان کو روئے زمین کی سب دولت مل جائے اور اس کے ساتھ اتنی ہی اور ان کے اختیار میں آجائے تو یہ لوگ اسے اپنے بدلے (عذاب سے بچنے کے لیے) بطور فدیہ دے دیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا سخت حساب ہوگا۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور (وہ) کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ (18) اے (رسول(ص)) کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے؟ نصیحت تو بس وہی قبول کرتے ہیں جو دانشمند ہوتے ہیں (اور وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں)۔ (19) وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے۔ (20) اور جو ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے (صلہ رحمی کرتے ہیں) اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور سخت حساب سے خائف و ترساں رہتے ہیں۔ (21) اور جو اپنے پروردگار کی خوشنودی کی طلب میں صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر( ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور جو برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں عاقبت کا گھر انہی کیلئے ہے۔ (22) یعنی ہمیشگی کے باغ ہیں۔ جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے۔ اور ان کے آباء و اجداد، بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح اور نیکوکار ہوں گے۔ وہ بھی (ان کے ہمراہ داخل ہوں گے) اور فرشتے ہر دروازہ سے ان کے پاس آئیں گے۔ (23) (اور کہیں گے) سلام علیکم اس دار آخرت کا انجام کیسا اچھا ہے؟ (24) اور جو لوگ اللہ کے عہد و پیمان کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں یہ وہ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر (جہنم) ہے۔ (25) اللہ جس کے رزق کو چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے اور یہ (کافر) لوگ دنیوی زندگی سے خوش ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں صرف ناپائیدار فائدہ ہے۔ (26) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ (اگر یہ نبی برحق ہیں) تو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر (ہماری پسند کی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ کہہ دیجیئے! اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت کرتا ہے۔ (27) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہوتے ہیں یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ (28) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کے لئے خوش حالی اور خوش انجامی ہے۔ (29) اسی طرح ہم نے آپ کو ایک ایسی قوم میں رسول بنا کر بھیجا جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ انہیں وہ (کلام و پیغام) پڑھ کر سنائیں جو ہم نے بطور وحی آپ پر اتارا ہے حالانکہ وہ لوگ اپنے مہربان خدا کا انکار کر رہے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے! وہی میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔ (30) اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعہ سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین (کی مسافتیں) جلدی طے ہو جاتیں یا مردوں سے کلام کیا جا سکتا (تو وہ یہی قرآن ہوتا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لاتے) بلکہ یہ سب کام اللہ کے اختیار میں ہیں۔ کیا ایمان لانے والے اس بات سے مایوس نہیں ہوگئے اگر خدا (زبردستی) چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کر دیتا! اور کافروں پر ان کے کرتوتوں کی پاداش میں کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہے گی۔ یا ان کے گھروں کے آس پاس آتی رہے گی۔ یہاں تک کہ اللہ کے وعدہ کے (ظہور) کا وقت آجائے بے شک اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (31) (اے رسول(ص)) آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے مگر میں نے کافروں کو (کچھ مدت تک) ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑ لیا۔ تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا تھا؟ (32) کیا وہ ذات جو ہر نفس کے (نیک و بد) اعمال پر نگران ہے کہ اس نے کیا کمایا ہے؟ (وہ ان کے خود ساختہ معبودوں جیسا ہے؟) ان لوگوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لئے ہیں؟ اے رسول ان سے کہو کہ آخر ان کے نام تو بتاؤ یا تم اس (اللہ) کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ (ہمہ دان ہو کر بھی) زمین میں نہیں جانتا کہ کہاں ہے؟ یا یونہی یہ ظاہری الفاظ ہیں (جن کا کوئی مصداق نہیں ہے) بلکہ کافروں کے لئے ان کا مکر و فریب خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ راہ (راست) سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے (اور اسے ہدایت نہ دے) تو اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔ (33) ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور بھی زیادہ سخت ہے اور کوئی نہیں ہے جو انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچائے۔ (34) جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ بھی (لازوال) ہے یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آتشِ دوزخ ہے۔ (35) اور (اے رسول) جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی ہے وہ اس (کتاب) سے خوش ہوتے ہیں جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے اور ان جماعتوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کتاب کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے۔ (36) اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی فرمان کی شکل میں نازل کیا ہے اور اگر آپ اپنے پاس علم (قرآن) کے آجانے کے بعد بھی انکی خواہشات کی پیروی کریں گے تو اللہ کے مقابلہ میں آپ کا نہ کوئی سرپرست و کارساز ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔ (37) اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں اور ان کے لئے بیوی بچے قرار دیئے اور کسی رسول کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے ہر وقت کے لیے ایک کتاب (نوشتہ) ہے۔ (38) اللہ جو چاہتا ہے وہ (لکھا ہوا) مٹا دیتا ہے اور (جو چاہتا ہے) برقرار رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (اصل کتاب یعنی لوح محفوظ) ہے۔ (39) اور اگر ہم آپ کو کچھ وہ باتیں آنکھوں سے دکھا دیں جن کا ہم ان (کفار) سے وعدہ وعید کر رہے ہیں یا ہم (ان کے ظاہر ہونے سے پہلے) آپ کو اٹھا لیں بہرحال (ہمارا پیغام) پہنچانا آپ کا کام ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (40) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے اطراف و جوانب سے برابر گھٹاتے چلے آتے ہیں اللہ ہی حکم دینے والا (اور فیصلہ کرنے والا) ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (41) جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بڑی مخفی تدبیریں کیں سو ہر قسم کی تدبیریں اور ترکیبیں اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں وہی جانتا ہے کہ ہر شخص کیا کمائی کر رہا ہے اور بہت جلد کافروں کو معلوم ہو جائے گا کہ اس گھر کا انجام (بخیر) کس کا ہے؟ (42) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان بطور گواہ اللہ کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ (43)