قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، را۔ یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ (1) بے شک ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔ (2) (اے رسول(ص)) ہم اس قرآن کے ذریعہ سے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ اس سے پہلے آپ غافلوں میں سے تھے۔ (3) (اس وقت کو یاد کرو) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا ہے کہ میرے سامنے سجدہ کر رہے ہیں (جھک رہے ہیں)۔ (4) آپ (ع) نے کہا اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا کہیں وہ (تمہیں تکلیف پہنچانے کے لئے) کوئی سازش نہ کرنے لگ جائیں بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (5) اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا اور تمہیں تعبیرِ خواب کا علم عطا فرمائے گا اور تم پر نیز یعقوب(ع) کے خانوادہ پر اسی طرح اپنی نعمت پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم و اسحاق پر اپنی نعمت پوری کر چکا ہے بے شک آپ کا پروردگار بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (6) بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے (غیب کی) بڑی نشانیاں ہیں۔ (7) جب انہوں (یوسف کے سوتیلے بھائیوں) نے آپس میں کہا کہ باوجودیکہ ہم پوری جماعت ہیں مگر یوسف اور اس کا (سگا) بھائی (بن یامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں بے شک ہمارے باپ کھلی ہوئی غلطی پر ہیں۔ (8) یوسف کو قتل کر دو یا کسی اور سرزمین پر پھینک دو۔ تاکہ تمہارے باپ کا رخ (توجہ) صرف تمہاری طرف ہو جائے اس کے بعد تم بھلے آدمی ہو جاؤگے (تمہارے سب کام بن جائیں گے)۔ (9) ان (برادرانِ یوسف) میں سے ایک نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو البتہ اگر کچھ کرنا ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو۔ مسافروں کا کوئی قافلہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ (10) (اس قرارداد کے بعد) انہوں نے کہا اے ہمارے والد! کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم تو اس کے بڑے خیرخواہ ہیں۔ (11) وہ کچھ کھائے پیئے اور کھیلے کودے ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ (12) آپ (ع) نے کہا تمہارا اسے اپنے ہمراہ لے جانا مجھے غمگین کرتا ہے اور مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تم غفلت کرو اور اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے۔ (13) انہوں نے کہا کہ اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جبکہ ہماری پوری جماعت (حفاظت کے لئے) موجود ہے تو پھر تو ہم گھاٹا اٹھانے والے (اور بالکل گئے گزرے) ہوں گے۔ (14) پھر جب وہ (اصرار کرکے) اسے لے گئے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں (چنانچہ ایسا ہی کیا)۔ اور ہم نے (اس وقت) اس (یوسف) کی طرف وحی کی کہ (ایک وقت آئے گا کہ) تم ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتاؤگے جبکہ انہیں اس کا شعور نہیں ہوگا۔ (15) اور وہ شام کے وقت اپنے والد کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (16) اور کہا اے ہمارے والد! ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے بس ایک بھیڑیا آیا اور اسے کھا گیا۔ اور اگرچہ ہم سچے ہی ہوں مگر آپ تو ہماری بات کا یقین نہیں کرتے۔ (17) اور وہ اس (یوسف (ع)) کے کُرتے پر جھوٹا خون لگا کر لائے۔ آپ (ع) نے کہا (یہ جھوٹ ہے) بلکہ تمہارے نفسوں نے (اپنے بچاؤ کیلئے) یہ بات گھڑ کر تمہیں خوشنما دکھا دی ہے (بہرحال اس سانحہ پر) صبر کرنا ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اس سلسلہ میں اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ (18) اور ایک قافلہ آیا (اور وہاں اترا) تو انہوں نے (پانی لانے کیلئے) اپنا سقا بھیجا۔ پس اس نے جونہی اپنا ڈول ڈالا۔ (تو یوسف اس میں بیٹھ گئے جب ڈول کھینچا) تو پکار اٹھا۔ مبارک باد یہ تو ایک لڑکا ہے اور ان لوگوں نے اسے سرمایۂ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا اور وہ لوگ جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس سے خوب واقف تھا۔ (19) اور (ادھر برادرانِ یوسف بھی آپہنچے اور یوسف کو اپنا غلام ظاہر کرکے) بالکل کم قیمت پر یعنی گنتی کے چند درہموں کے عوض بیج ڈالا۔ اور ان (بھائیوں) کو اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی (بلکہ اس سے بیزار تھے)۔ (20) اور پھر (اس قافلہ والوں سے) مصر کے جس شخص (عزیزِ مصر) نے اسے (دوبارہ) خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا اسے عزت کے ساتھ رکھنا ہو سکتا ہے کہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں! اور اسی طرح (حکمتِ عملی سے) ہم نے اس (یوسف (ع)) کو سر زمینِ مصر میں تمکین دی (زمین ہموار کی تاکہ اسے اقتدار کیلئے منتخب کریں) اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کریں اور اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے (اور اس کے انجام دینے پر قادر ہے) لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے۔ (21) اور جب وہ (یوسف) پوری جوانی کو پہنچا۔ تو ہم نے اس کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ (22) اور پھر وہ (یوسف) جس عورت کے گھر میں تھا وہ اپنی مطلب براری کے لئے اس پر ڈورے ڈالنے لگی (چنانچہ) ایک دن سب دروازے بند کر دیے اور کہا بس آجاؤ! یوسف نے کہا معاذ اللہ! (اللہ کی پناہ) وہ (تیرا شوہر) میرا مربی و محسن ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے (اپنے گھر میں) ٹھہرایا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی امانت میں خیانت کروں؟ (اے معاذ اللہ) بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ (23) اس عورت (زلیخا) نے گناہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اور وہ مرد (یوسف) بھی اس کا ارادہ کرتا اگر اپنے پروردگار کا برہان نہ دیکھ لیتا ایسا ہوا تاکہ ہم اس (یوسف) سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں بے شک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔ (24) اور وہ دونوں ایک دوسرے سے پہلے دروازہ تک پہنچنے کے لئے دوڑے اور اس عورت نے اس مرد (یوسف) کا کرتہ پیچھے سے (کھینچ کر) پھاڑ دیا اور پھر دونوں نے اس عورت کے خاوند کو دروازے کے پاس (کھڑا ہوا) پایا۔ اسے دیکھتے ہی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس عورت نے بات بنائی اور کہا جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کرنے کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا کوئی دردناک عذاب دیا جائے۔ (25) یوسف (ع) نے کہا (حقیقت یہ ہے کہ) خود اسی نے اپنی مطلب برآری کے لئے مجھ پر ڈورے ڈالے اور مجھے پھسلانا چاہا اس پر اس عورت کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا۔ (26) اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچا۔ (27) پس جب اس (خاوند) نے یوسف کا کرتہ دیکھا کہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سے کہا یہ تمہاری مکاریوں سے ایک مکاری ہے بے شک تمہاری مکاریاں بڑی سخت ہوتی ہیں۔ (28) پھر یوسف (ع) سے کہا اے یوسف! اس بات سے درگزر کر (اسے جانے دے) اور بیوی سے کہا اپنے گناہ کی معافی مانگ یقینا تو خطاکاروں میں سے ہے۔ (29) پھر (جب اس واقعہ کا چرچا ہوا تو) شہر کی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان پر اپنی مطلب براری کے لئے ڈورے ڈال رہی ہے اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی ہے ہم تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتی ہیں۔ (30) جب زلیخا نے ان عورتوں کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اس نے انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مسندیں لگا دیں اور ہر ایک کو (پھل کاٹنے کیلئے) ایک چھری دے دی۔ (پھر جب وہ پھل کاٹ کر کھانے لگیں تو) اس نے یوسف (ع) سے کہا ذرا ان کے سامنے نکل آ پس جب انہوں نے دیکھا تو (حسن و جمال میں) انہیں بڑھا ہوا پایا (لہٰذا حیران رہ گئیں اور پھل کی بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں (اور احساس تک نہ ہوا) اور (بے ساختہ) کہہ اٹھیں ماشاء اللہ۔ یہ انسان نہیں ہے بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے۔ (31) عزیز کی بیوی نے کہا یہی وہ ہے جس کے بارے میں تم میری ملامت کرتی تھیں بے شک میں نے اس پر ڈورے ڈالے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ مگر وہ بچا ہی رہا۔ (ہاں البتہ اب برملا کہتی ہوں کہ) اگر اس نے وہ نہ کیا جس کا میں اسے حکم دیتی ہوں تو پھر اسے ضرور قید کر دیا جائے گا۔ اور ضرور ذلیل بھی ہوگا۔ (32) یوسف (ع) نے (بات سن کر کہا) اے میرے پروردگار! اس کام کی نسبت جس کی یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں مجھے قیدخانہ پسند ہے اور اگر تو مجھ سے ان کے مکر و فریب کو دور نہ کرے تو ہو سکتا ہے کہ میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں اور اس طرح جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ (33) پس اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس سے ان عورتوں کے مکر و فریب کو دور کر دیا بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (34) پھر ایسا ہوا کہ باوجودیکہ وہ (یوسف کی پاکدامنی کی) نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ تاہم انہیں یہی مناسب معلوم ہوا کہ ایک مدت تک اسے قید کر دیں۔ (35) اور یوسف (ع) کے ساتھ دو اور جوان آدمی بھی قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے لیے انگور کا رس) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوں۔ جن میں سے پرندے کھا رہے ہیں ہمیں ذرا اس کی تعبیر بتائیے ہم تمہیں نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں۔ (36) یوسف (ع) نے کہا جو (مقررہ) کھانا تمہیں دیا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں تمہارے خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ (تعبیرِ خواب) بھی منجملہ ان علوم کے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم دیے ہیں۔ میں ان لوگوں کا دین و مذہب چھوڑے ہوئے ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔ (37) اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم (ع)، اسحاق(ع) اور یعقوب(ع) کے مذہب کا پیرو ہوں۔ ہمیں یہ زیبا نہیں ہے کہ ہم کسی چیز کو بھی خدا کا شریک ٹھہرائیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جو اس نے ہم اور سب لوگوں پر کیا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (38) اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو (یہ بتاؤ) آیا بہت سے جدا جدا خدا اچھے ہیں یا اللہ جو یگانہ بھی ہے اور سب پر غالب بھی؟ (39) اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی پرستش کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا اور کیا ہے؟ کہ وہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نہیں اتاری ہے حکم و حکومت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی دینِ مستقیم (سیدھا دین) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (40) اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک (پہلا) تو وہ ہے جو اپنے مالک (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا اور جو دوسرا ہے اسے سولی پر لٹکایا جائے گا اور پرندے اس کے سر کو (نوچ نوچ کر) کھائیں گے اس بات کا فیصلہ ہو چکا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو۔ (41) اور یوسف (ع) نے اس شخص سے کہا جس کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان دنوں میں سے رہا ہو جائے گا۔ کہ اپنے مالک سے میرا تذکرہ بھی کر دینا لیکن شیطان نے اسے اپنے مالک سے یہ تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ پس یوسف کئی سال قید خانہ میں پڑا رہا۔ (42) (کچھ مدت کے بعد) بادشاہ نے کہا میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی اے سردارو (درباریو) اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو پھر مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔ (43) انہوں نے کہا یہ تو پریشان خواب و خیالات ہیں (جن کی کوئی خاص تعبیر نہیں ہوتی) اور ہم خوابہائے پریشان کی تعبیر نہیں جانتے۔ (44) اس وقت وہ شخص جو ان دو قیدیوں میں رہا ہوا تھا اور مدت کے بعد اسے (یوسف (ع) کا پیغام) یاد آیا تھا بولا میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں ذرا مجھے (ایک جگہ) بھیج تو دو۔ (45) (چنانچہ وہ سیدھا قید خانہ گیا اور کہا) اے یوسف! اے بڑے سچے! ذرا ہمیں اس خواب کی تعبیر بتاؤ کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری ہیں اور سات سوکھی تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں (اور انہیں جا کر بتاؤں) شاید وہ (تمہاری قدر و منزلت یا تعبیر) جان لیں۔ (46) یوسف (ع) نے کہا (اس خواب کی تعبیر یہ ہے) کہ تم متواتر سات سال کاشتکاری کروگے پھر جو فصل کاٹو اسے اس کی بالی میں رہنے دو ہاں البتہ تھوڑا سا حصہ نکال لو جسے تم کھاؤ۔ (47) پھر اس کے بعد سات بڑے سخت سال آئیں گے جو وہ سب کچھ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لئے ذخیرہ کیا تھا مگر تھوڑا سا بچے گا جسے تم محفوظ کر لوگے۔ (48) پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس کے ذریعہ سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ اور جس میں وہ (پھلوں کا رس) نچوڑیں گے۔ (49) (یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے کہا اس شخص (یوسف) کو میرے پاس لاؤ۔ پس جب قاصد اس کے پاس آیا تو اس نے کہا اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کے معاملہ کی حقیقت کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بے شک میرا پروردگار ان کے مکر و فریب سے خوب واقف ہے۔ (50) (چنانچہ بادشاہ نے ان سب عورتوں کو بلایا اور) پوچھا۔ تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے اپنی مطلب براری کے لئے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے اور اسے پھسلانا چاہا تھا؟ سب نے (بیک زبان) کہا حاشا ﷲ! ہمیں تو اس کی ذرا بھر کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی (اس وقت) عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا اب جبکہ حق ظاہر ہوگیا (اور حقیقتِ حال بالکل آشکارا ہوگئی) تو وہ میں تھی جس نے اس (یوسف) پر ڈورے ڈالے تھے بے شک وہ سچے لوگوں میں سے ہے۔ (51) (یوسف نے کہا) یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ وہ عزیز مصر کو (مزید) علم ہو جائے کہ میں نے اس کی پس پشت (اس کی امانت میں) خیانت نہیں کی اور یقینا اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ (52) میں اپنے نفس کو (بھی) بری قرار نہیں دیتا بے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا (اور اس پر اکسانے والا) ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار (کسی کے حال پر) رحم کرے یقینا میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا۔ (53) اور بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس بلاؤ تاکہ میں اسے اپنے (ذاتی کاموں کی انجام دہی) کے لیے مخصوص کر لوں۔ پس جب (یوسف آئے اور) بادشاہ نے اس سے گفتگو کی تو (متاثر ہوکر) کہا آج سے تم ہمارے ہاں صاحب مرتبہ اور امانت دار ہو۔ (54) آپ (ع) نے کہا مجھے (اس) زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے میں یقیناً (مال کی) حفاظت کرنے والا اور اس کام کا جاننے والا بھی ہوں۔ (55) اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اختیار و اقتدار دیا کہ وہ اس میں جہاں چاہے رہے ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ (56) اور البتہ جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے آخرت کا اجر و ثواب یقیناً (اس سے) بہتر ہے۔ (57) اور (قحط سالی کے دنوں میں غلہ خریدنے) یوسف کے بھائی (مصر) آئے اور (یوسف) کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا جبکہ وہ اسے نہ پہچان سکے۔ (58) اور جب یوسف نے ان کی (خوراک) کا سامان تیار کروا دیا تو (جاتے وقت) کہا (اب کی بار) اپنے (سوتیلے) پدری بھائی کو بھی میرے پاس لیتے آنا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا پورا ناپ (تول) کر (غلہ) دیتا ہوں اور میں کتنا اچھا مہمان نواز ہوں۔ (59) اور اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو پھر تمہارے لئے نہ میرے پاس تولنے کے لئے (غلہ) ہوگا اور نہ ہی میرے قریب آنا۔ (60) ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے باپ پر ڈورے ڈالیں گے کہ وہ (آمادہ ہو جائیں) اور ہم ضرور ایسا کریں گے۔ (61) اور یوسف نے اپنے جوانوں (غلاموں) سے کہا کہ ان کی پونجی (جس کے عوض غلہ خریدا ہے) ان کے سامان میں رکھ دو۔ تاکہ جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جائیں تو اسے پہچانیں (اور) شاید دوبارہ آئیں۔ (62) اور جب وہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہا اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (ناپ تول کر) غلہ دیا جانا بند کر دیا گیا ہے (جب تک بھائی کو ہمراہ نہ لے جائیں) اس لئے ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ ہم غلہ لا سکیں اور ہم یقیناً اس کی (پوری) حفاظت کریں گے۔ (63) آپ (ع) نے کہا کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا؟ بہرحال اللہ سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (64) اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی ہے تو کہنے لگے ابا جان! ہمیں اور کیا چاہیئے؟ (دیکھے) یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں واپس کر دی گئی ہے (اب کی بار جو بھائی کو اپنے ساتھ لے جائیں گے) تو جہاں اپنے گھر والوں کے لیے رسد لائیں گے اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے (وہاں) ایک اونٹ کا بار اور زیادہ بھی لائیں گے اور یہ غلہ (جو اب کی بار ہم لائے ہیں) بہت تھوڑا ہے۔ (65) آپ (ع) نے کہا میں اسے کبھی تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک اللہ کی قسم کھا کر مجھ سے عہد و پیمان نہ کرو کہ تم اسے ضرور اپنے ساتھ لاؤگے سوا اس کے کہ تم سب ہی گھیر لئے جاؤ (اور بے بس ہو جاؤ) پھر جب انہوں نے قسم کھا کر اپنا قول و قرار دے دیا تو آپ نے کہا اللہ ہمارے قول قرار پر نگہبان ہے۔ (66) اور آپ (ع) نے کہا اے میرے بیٹو (جب مصر پہنچو) تو ایک دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں اللہ (کی مشیت اور اس کی قضا و قدر) سے بچا تو نہیں سکتا (ہر قسم کا) حکم (اور فیصلہ) اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی پر سب بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیئے (میں نے تو صرف احتیاط کے طور پر یہ تدبیر بنائی ہے)۔ (67) اور جب وہ لوگ (مصر میں) اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا ان کا اس طرح داخل ہونا انہیں خدا (کی مشیت اور اس کی تقدیر) سے بچا تو نہیں سکتا تھا مگر یہ (احتیاطی تدبیر) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے پورا کر لیا بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحبِ علم تھا لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔ (68) اور جب یہ لوگ یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے (حقیقی) بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اور آہستگی سے) کہا میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں بس تو اس پر غمگین نہ ہو جو کچھ یہ لوگ سلوک کرتے رہے ہیں۔ (69) پھر جب اس (یوسف) نے ان کا سامان تیار کرایا تو پانی پینے کا کٹورا اپنے (سگے) بھائی کے سامان میں رکھوا دیا پھر ایک منادی نے ندا دی کہ اے قافلہ والو! تم چور ہو۔ (70) وہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور (پریشان ہوکر) کہا تم نے کون سی چیز گم کی ہے؟ (71) انہوں نے کہا کہ ہم نے بادشاہ کے پینے کا (قیمتی) کٹورا گم کیا ہے اور جو اسے لائے گا اسے ایک بار شتر (غلہ) انعام دیا جائے گا اور میں (منادی) اس بات کا ضامن ہوں۔ (72) انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہم اس لئے نہیں آئے کہ زمین میں فساد برپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیں۔ (73) انہوں (ملازمین) نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے تو اس (چور) کی سزا کیا ہے؟ (74) انہوں نے کہا اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان سے مل جائے وہ خود ہی اس کی سزا ہے ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں۔ (75) تب یوسف (ع) نے اپنے (سگے) بھائی کی خرجین سے پہلے دوسروں کی خرجینوں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اپنے بھائی کی خرجین سے وہ گم شدہ کٹورا نکال لیا ہم نے اس طرح (بنیامین کو اپنے پاس رکھنے) کیلئے یوسف کے لیے تدبیر کی کیونکہ وہ (مصر کے) بادشاہ کے قانون میں اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا ہم جس کے چاہتے ہیں مرتبے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک عالم ہوتا ہے۔ (76) ان لوگوں (برادرانِ یوسف(ع)) نے کہا اگر اس نے چوری کی ہے تو اس پر کیا تعجب اس سے پہلے اس کے ایک حقیقی بھائی نے بھی چوری کی تھی یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا (البتہ صرف اتنا) کہا تم بہت ہی برے لوگ ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (77) انہوں نے کہا اے عزیز (مصر) اس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے (وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکے گا) اس لئے اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں سے دیکھتے ہیں۔ (78) یوسف (ع) نے کہا معاذ اللہ (اللہ کی پناہ) کہ ہم اس آدمی کے سوا جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے کسی اور شخص کو پکڑیں اس صورت میں تو ہم ظالم قرار پائیں گے۔ (79) پھر جب وہ لوگ اس (یوسف) سے مایوس ہوگئے تو علیٰحدہ جاکر باہم سرگوشی (مشورہ) کرنے لگے جو ان میں (سب سے) بڑا تھا اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ (بنیامین کے بارے میں) خدا کے نام پر تم سے عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف(ع) کے بارے میں جو تقصیر تم کر چکے ہو (وہ بھی تم جانتے ہو) اس لئے میں تو اس سر زمین کو نہیں چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا پھر اللہ میرے لئے کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (80) لہٰذا تم لوگ اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ۔ اور جاکر کہو اے ہمارے باپ! آپ کے بیٹے (بنیامین) نے چوری کی ہے اور ہم نے اسی بات کی گواہی دی ہے۔ جس کا ہمیں علم ہے اور ہم غیب کی نگہبانی کرنے والے نہیں ہیں (غیبی باتوں کی ہمیں خبر نہیں ہے)۔ (81) اور آپ اس بستی (مصر) کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جس میں ہم تھے اور قافلہ والوں سے دریافت کیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور بے شک ہم سچے ہیں۔ (82) آپ (ع) نے (یہ قصہ سن کر) کہا (ایسا نہیں ہے) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے گھڑ لی ہے (اور خوشنما کرکے سجھائی ہے) تو اب (میرے لئے) صبرِ جمیل ہی اولیٰ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو میرے پاس لائے گا بے شک وہ بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (83) (یہ کہہ کر) ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف (ہائے یوسف) اور رنج و غم (کی شدت) سے (رو رو کر) ان کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں اور وہ (باوجود مصیبت زدہ ہونے) کے بڑے ضبط کرنے والے اور خاموش تھے۔ (84) ان لوگوں (بیٹوں) نے کہا خدا کی قسم معلوم ہوتا ہے کہ آپ برابر یوسف (ع) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ سخت بیمار ہو جائیں گے یا ہلاک ہو جائیں گے۔ (85) آپ (ع) نے کہا کہ میں اپنے رنج و غم کی شکایت بس اللہ ہی سے کر رہا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (86) اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر) جاؤ اور یوسف (ع) اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (87) (چنانچہ حسب الحکم) جب یہ لوگ (مصر گئے) اور یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے اے عزیزِ مصر! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف پہنچی ہے (اس لئے اب کی بار) ہم بالکل حقیر سی پونجی لائے ہیں (اسے قبول کریں اور) ہمیں پیمانہ پورا ناپ کر دیجیئے (بھرپور غلہ دیجئے) اور (مزید برآں) ہم کو صدقہ و خیرات بھی دیجئے بے شک اللہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو جزاءِ خیر دیتا ہے۔ (88) آپ (ع) نے کہا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے (سگے) بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جبکہ تم جاہل و نادان تھے؟ (89) اس پر وہ لوگ چونکے اور کہا کیا تم یوسف ہو؟ کہا ہاں میں یوسف (ع) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اختیار کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے (وہ بالآخر ضرور کامیاب ہوتا ہے کیونکہ) اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (90) انہوں (بھائیوں) نے (شرمسار ہوکر) کہا بے شک اللہ نے تمہیں ہم پر برتری عطا فرمائی ہے اور بے شک ہم خطاکار ہیں۔ (91) آپ (ع) نے کہا آج تم پر کوئی الزام (اور لعنت ملامت) نہیں ہے اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ بڑا رحم کرنے والا (مہربان) ہے۔ (92) (بعد ازاں) کہا میری قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو ان کی بینائی پلٹ آئے گی (وہ بینا ہو جائیں گے) اور پھر اپنے سب اہل و عیال کو (یہاں) میرے پاس لے آؤ۔ (93) اور جب (مصر سے) قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا اگر تم مجھے مخبوط الحواس نہ سمجھو تو میں یوسف (ع) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ (94) ان (گھر والوں) نے کہا خدا کی قسم آپ اپنی پرانی غلطی میں مبتلا ہیں۔ (95) پھر جب خوشخبری دینے والا آیا (اور) وہ قمیص ان کے چہرہ پر ڈالی تو وہ فوراً بینا ہوگئے اور کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (96) انہوں (بیٹوں) نے کہا اے ہمارے باپ (خدا سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں یقینا ہم خطاکار تھے۔ (97) آپ (ع) نے کہا میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (98) جب وہ سب لوگ کنعان سے روانہ ہو کر یوسف (ع)کے پاس (مصر میں) پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا (اب) مصر میں داخل ہو خدا نے چاہا تو یہاں امن و اطمینان سے رہوگے۔ (99) اور (دربار میں پہنچ کر) اپنے ماں باپ کو تختِ شاہی پر (اونچا) بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدہ (شکر) میں جھک گئے (اس وقت) یوسف (ع) نے کہا اے بابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو (بہت عرصہ) پہلے میں نے دیکھا تھا جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے اور اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھے قید خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحراء (گاؤں) سے یہاں (شہر میں) لایا۔ بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان اختلاف و فساد ڈال دیا تھا بے شک میرا پروردگار جو کام کرنا چاہتا ہے اس کی بہترین تدبیر کرنے والا ہے بلاشبہ وہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (100) اے میرے پروردگار! تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی ہے اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی تو نے ہی مجھے بخشا ہے اے آسمانوں اور زمین کے خالق تو دنیا و آخرت میں میرا سرپرست اور کارساز ہے میرا خاتمہ (حقیقی) اسلام اور فرمانبرداری پر کر اور مجھے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل فرما۔ (101) (اے پیغمبر(ص)) یہ (داستان) غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اور آپ ان (برادرانِ یوسف (ع)) کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جب کہ وہ آپس میں اتفاق کرکے یوسف کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ (102) اور آپ کتنا ہی حرص کریں (اور کتنا ہی چاہیں) مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ (103) حالانکہ آپ اس بات (تبلیغِ رسالت) پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے یہ (قرآن) تو تمام جہانوں کے لئے یاددہانی اور پند و موعظہ ہے۔ (104) اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کے وجود اور اس کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں موجود ہیں مگر یہ لوگ ان سے روگردانی کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں (اور کوئی توجہ نہیں کرتے)۔ (105) اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں تو اس حالت میں کہ (عملی طور پر) برابر شرک بھی کئے جاتے ہیں۔ (106) کیا وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر کوئی عذابِ الٰہی آجائے اور چھا جائے یا اچانک ان کے سامنے اس حال میں قیامت آجائے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔ (107) (اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے! کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور جو میرا (حقیقی) پیروکار ہے ہم اللہ کی طرف بلاتے ہیں اس حال میں کہ ہم واضح دلیل پر ہیں اور اللہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (108) (اے رسول(ص)) ہم نے آپ سے پہلے جن کو بھی رسول بنا کر بھیجا وہ مرد تھے اور آبادیوں کے باشندے تھے جن کی طرف ہم وحی کیا کرتے تھے کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے یقینا آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (109) یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی پس جسے ہم نے چاہا وہ نجات پا گیا اور مجرموں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔ (110) یقیناً ان لوگوں کے (عروج و زوال کے) قصہ میں صاحبانِ عقل کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے وہ (قرآن) کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے موجود ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے (سراسر) ہدایت و رحمت ہے۔ (111)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔ (1) (اس کا خلاصہ یہ ہے کہ) اللہ کے سوا کسی کی عبادت (بندگی) نہ کرو بلاشبہ میں اس کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ (2) اور یہ کہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) وہ تمہیں مقررہ مدت (تک زندگی کے) اچھے فوائد سے بہرہ مند کرے گا۔ اور ہر صاحبِ فضل (زیادہ عمل کرنے والے) کو اس کے درجہ کے مطابق عطا فرمائے گا اور اگر تم نے روگردانی کی تو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (3) تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ (4) آگاہ ہو جاؤ یہ (منافق) لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کر رہے ہیں تاکہ اس (اللہ یا رسول) سے چھپ جائیں مگر یاد رکھو جب یہ لوگ اپنے (سارے) کپڑے اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں تو (تب بھی) وہ (اللہ) وہ بھی جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں (کیونکہ) بے شک وہ تو ان رازوں سے بھی خوف واقف ہے جو سینوں کے اندر ہیں۔ (5) اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جانور نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رزق خدا کے ذمے ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے اور اس کے سونپے جانے (کم رہنے) کی جگہ کہاں ہے؟ سب کچھ ایک واضح کتاب میں محفوظ ہے۔ (6) اور وہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس سے پہلے) اس کا عرش پانی پر تھا (یہ سب کچھ کیوں پیدا کیا؟) تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے؟ اور (اے رسول(ص)) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم مرنے کے بعد (دوبارہ) اٹھائے جاؤگے تو کافر لوگ ضرور کہیں گے۔ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (7) اور اگر ہم ان پر عذاب نازل کرنے میں ایک مقررہ مدت تک تاخیر بھی کر دیں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ کون سی چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ یاد رکھو جس دن ان پر وہ (عذاب) آئے گا تو پھر اسے پھیرا نہ جا سکے گا۔ اور انہیں وہ (عذاب) گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (8) اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (کسی نعمت سے نوازیں) اور پھر اسے اس سے چھین لیں تو وہ بڑا مایوس اور بڑا ناشکرا ہو جاتا ہے۔ (9) اور اگر ہم کسی سختی و تکلیف کے پہنچنے کے بعد کسی نعمت و راحت کا مزہ چکھائیں تو (غافل ہوکر) کہہ اٹھتا ہے کہ میری تمام برائیاں چلی گئیں (دکھ درد دور ہوگئے)۔ بالیقین وہ (انسان) بڑا خوش ہونے والا، بڑا اترانے والا ہے۔ (10) مگر ہاں جو لوگ صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں (وہ ایسے نہیں ہیں بلکہ) یہی وہ ہیں جن کے لئے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔ (11) (اے پیغمبر(ص)) آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے تو کیا آپ (کفار کی باتوں سے متاثر ہوکر) اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں گے اور کیا آپ کا سینہ تنگ ہو جائے گا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ (آپ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیئے کیونکہ) آپ تو بس (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (12) یا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس شخص (آپ) نے یہ (قرآن) خود گھڑ لیا ہے؟ آپ فرمائیے اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ۔ اور بے شک اللہ کے سوا جس کو (اپنی مدد کیلئے) بلانا چاہتے ہو بلا لو۔ (13) (اے مسلمانو) اب اگر وہ (کفار) تمہاری دعوت پر لبیک نہ کہیں تو پھر سمجھ لو کہ جو کچھ (قرآن) نازل کیا گیا ہے وہ اللہ کے علم و قدرت سے اتارا گیا ہے اور یہ بھی (سمجھ لو) کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے (اے کفار بتاؤ) کیا اب اسلام لاؤگے۔ اور یہ حقیقت تسلیم کروگے؟ (14) اور جو صرف دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتے ہیں تو ہم انہیں ان کی سعی و عمل کی پوری پوری جزا دیتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ (15) یہ وہ (بدنصیب) لوگ ہیں جن کیلئے آخرت (کی زندگی) میں دوزخ کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور انہوں نے اس (دنیا) میں جو کچھ کیا تھا وہ سب اکارت ہو جائے گا اور وہ جو کچھ کرتے تھے وہ سب باطل ہو جائے گا۔ (16) کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) کھلی ہوئی دلیل رکھتا ہے اور جس کے پیچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی کا جزء ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توراۃ) بھی رحمت و راہنمائی کے طور پر آچکی ہے (اور اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے) یہ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور جو مختلف گروہوں میں سے اس کا انکار کرے گا اس کی وعدہ گاہ آتشِ دوزخ ہے خبردار تم! اس کے بارے میں شک میں نہ پڑنا وہ آپ کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے مگر اکثر لوگ (حق پر) ایمان نہیں لاتے۔ (17) اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے ایسے لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے۔ اور گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹا بہتان باندھا۔ خبردار ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (18) جو اللہ کی راہ سے (اس کے بندوں کو) روکتے ہیں اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ (19) یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں تھے اور نہ خدا کے علاوہ ان کا کوئی مددگار اور کارساز تھا۔ ان کو دوگنا عذاب ہوگا۔ (کیونکہ) یہ نہ (حق بات) سن سکتے ہیں۔ اور نہ (حقیقت) دیکھ سکتے تھے۔ (20) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کیا اور وہ (خلافِ حق) جو افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے گم ہوگئیں۔ (21) بلاشبہ یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والے ہوں گے۔ (22) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور عجز و نیاز کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور جھک گئے یہی لوگ جنتی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (23) ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا، بہرا ہو اور دوسرا آنکھ و کان والا۔ (بتاؤ) یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے (اور نصیحت حاصل نہیں کرتے؟) (24) بے شک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے کہا لوگو!) میں تمہیں کھلا ہوا (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والا ہوں۔ (25) اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو (ورنہ) میں تمہارے بارے میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (26) اس پر ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ (اے نوح) ہم تو تمہیں اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتے کہ تم ہم جیسے ایک انسان ہو۔ اور ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے وہ ہم میں سے بالکل رذیل لوگ ہیں اور انہوں نے بھی بے سوچے سمجھے سرسری رائے سے کی ہے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی برتری نہیں دیکھتے بلکہ تم لوگوں کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ (27) نوح(ع) نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے (اس بات پر) غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں؟ اور اس نے مجھے اپنی رحمت بھی عطا فرمائی ہے۔ جو تمہیں سجھائی نہیں دیتی۔ تو کہا ہم زبردستی اسے تمہارے اوپر مسلط کر سکتے ہیں۔ جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ (28) اے میری قوم! میں اس (تبلیغِ حق) پر تم سے کوئی مالی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ میرا معاوضہ اللہ کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہ میں جس قدر پست ہوں) میں ان کو اپنے پاس سے نکال نہیں سکتا۔ بے شک وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری دینے والے ہیں البتہ میں دیکھتا ہوں کہ تم جہالت سے کام لینے والے لوگ ہو۔ (29) اے میری قوم! اگر میں ان کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا۔ کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے (اور نصیحت قبول نہیں کرتے؟) (30) اور (دیکھو) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو کہ اللہ انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کرے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اگر میں ایسا کہوں تو ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔ (31) ان لوگوں نے کہا اے نوح! تم نے ہم سے بحث و تکرار کی ہے اور بہت کر لی (اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے) اگر تم سچے ہو تو وہ (عذاب) ہمارے پاس لاؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔ (32) نوح(ع) نے کہا وہ (عذاب) تو اللہ ہی لائے گا جب چاہے گا اور تم اسے عاجز نہیں کر سکتے۔ (33) اگر اللہ تمہیں گمراہی میں چھوڑ دینا چاہے (اور اس طرح تمہیں ہلاک کرنا چاہے تو) میں جس قدر تمہیں نصیحت کرنا چاہوں میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (34) کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ (آپ) نے (یہ قرآن) خود گھڑ لیا ہے۔ تو کہیئے! اگر میں نے یہ گھڑا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے اور جو جرم تم کر رہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔ (35) اور نوح(ع) کی طرف وحی کی گئی کہ ان لوگوں کے سوا جو ایمان لا چکے ہیں تمہاری قوم میں سے اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ پس تم اس پر غمگین نہ ہو جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ (36) اور ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بناؤ۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات (سفارش) نہ کرنا (کیونکہ) یقینا یہ سب لوگ غرق ہو جانے والے ہیں۔ (37) چنانچہ نوح(ع) کشتی بنانے لگے اور جب بھی ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے وہ (نوح) کہتے اگر (آج) تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو (کل کلاں) ہم بھی تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جس طرح تم اڑا رہے ہو۔ (38) عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔ (39) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا۔ اور تنور نے جوش مارا (ابل پڑا) تو ہم نے (نوح(ع) سے) کہا کہ ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو (نر و مادہ) کو اس (کشتی) میں سوار کر لو۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی بجز ان کے جن کی (ہلاکت کی) بات پہلے طئے ہو چکی ہے نیز ان کو بھی (سوار کر لو) جو ایمان لا چکے ہیں اور بہت ہی تھوڑے لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ (40) نوح(ع) نے کہا (کشتی میں) سوار ہو جاؤ اللہ کے نام کے سہارے اس کا چلنا بھی ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (41) اور وہ (کشتی) انہیں ایسی موجوں (لہروں) میں سے لئے جا رہی تھی جو پہاڑوں جیسی تھیں اور نوح(ع) نے اپنے بیٹے کو آواز دی جوکہ الگ ایک گوشہ میں (کھڑا) تھا۔ اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ (کشتی میں) سوار ہو جا۔ اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ (42) اس نے کہا میں ابھی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچائے گا نوح(ع) نے کہا (بیٹا) آج اللہ کے امر (عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ سوائے اس کے جس پر وہ (اللہ) رحم فرمائے۔ اور پھر (اچانک) ان کے درمیان موج حائل ہوگئی پس وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا۔ (43) اور ارشاد ہوا اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی اتر گیا اور معاملہ طئے کر دیا گیا اور کشی کوہِ جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ہلاکت ہو ظلم کرنے والوں کے لئے۔ (44) اور نوح(ع) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا اے میرے پروردگار میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (45) ارشاد ہوا۔ اے نوح وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے وہ تو مجسم عملِ بد ہے پس جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جانا۔ (46) عرض کیا اے میرے پروردگار! میں اس بات سے تیری بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔ (47) ارشاد ہوا۔ اے نوح(ع) اترو۔ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں تم پر اور ان گروہوں پر جو تمہارے ساتھ ہیں (یا بالفاظ مناسب تمہارے ساتھ والوں سے پیدا ہونے والی نسلوں پر) اور تمہارے بعد کچھ ایسے گروہ بھی ہوں گے جنہیں ہم کچھ مدت کیلئے (دنیاوی) فائدہ اٹھانے کا موقع دیں گے پھر (انجامِ کار) انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔ (48) (اے رسول) یہ (قصہ) ان غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم وحی کے ذریعہ سے آپ تک پہنچا رہے ہیں اس سے پہلے نہ آپ کو ان کا (تفصیلی) علم تھا اور نہ آپ کی قوم کو۔ آپ صبر کریں۔ بے شک (اچھا) انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (49) اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے تم محض افترا پردازی کر رہے ہو۔ (50) اے میری قوم! میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتا۔ میرا معاوضہ تو اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے تم کیوں عقل سے کام نہیں لیتے۔ (51) اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو۔ اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا۔ اور تمہاری (موجودہ) قوت میں مزید اضافہ کر دے گا۔ اور (میری دعوت سے) جرم کرتے ہوئے منہ نہ موڑو۔ (52) انہوں نے کہا اے ہود(ع) تم ہمارے پاس کوئی کھلی ہوئی دلیل لے کر نہیں آئے۔ اور ہم تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ہم آپ کی بات تسلیم کرنے والے ہیں۔ (53) ہم تو بس یہی کہتے ہیں کہ ہمارے خداؤں میں سے کسی خدا نے آپ کو کچھ (دماغی) نقصان پہنچا دیا ہے۔ انہوں (ہود) نے ان لوگوں کو کہا کہ میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں۔ اور تم بھی گواہ رہو۔ کہ میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم نے (حقیقی خدا کو چھوڑ کر) اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ (54) تم سب مل کر میرے خلاف اپنی تدبیریں کرلو۔ اور مجھے (ذرا بھی) مہلت نہ دو۔ (55) میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی۔ کوئی بھی چلنے پھرنے والا ایسا جاندار نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضۂ قدرت میں نہ ہو یقینا میرا پروردگار (عدل و انصاف کی) سیدھی راہ پر ہے۔ (56) اس پر بھی اگر تم روگردانی کرو تو جو (پیغام) دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے (اور حجت تمام کر دی ہے) اب اگر تم نے یہ پیغام قبول نہ کیا تو میرا پروردگار تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لائے گا۔ اور تم اس کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان و نگران ہے۔ (57) اور جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے اپنی خاص رحمت سے ہود(ع) کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور انہیں ایک سخت عذاب سے بچا لیا۔ (58) اور یہ ہے قومِ عاد جس نے جان بوجھ کر اپنے پروردگار کی آیتوں (نشانیوں) کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش اور دشمن (حق) کی اطاعت کی۔ (59) (اس کی پاداش میں) اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور آخرت میں بھی آگاہ ہو جاؤ کہ قومِ عاد نے اپنے پروردگار کا انکار کیا۔ سو ہلاکت و بربادی ہے ہود کی قومِ عاد کے لئے۔ (60) اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح(ع) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی نے تمہیں اس میں آباد کیا لہٰذا اس سے مغفرت طلب کرو۔ اور اس کی جناب میں توبہ کرو بے شک میرا پروردگار قریب بھی ہے اور مجیب (دعاؤں کا قبول کرنے والا) بھی۔ (61) انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو تو ہمارے اندر ایک ایسا شخص تھا جس سے (بڑی) امیدیں وابستہ تھیں کیا تم ہمیں اس سے روکتے ہو کہ ہم ان (معبودوں) کی پرستش نہ کریں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے؟ اور ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو۔ (62) صالح(ع) نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی خاص رحمت بھی عطا فرمائی ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اس کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا؟ تم تو میرے خسارے میں اضافہ کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔ (63) اور اے میری قوم! یہ اللہ کی خاص اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک خاص نشانی (معجزہ) ہے پس اسے آزاد چھوڑ دو۔ تاکہ اللہ کی زمین سے کھائے اور خبردار اسے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچانا۔ ورنہ بہت جلد عذاب تمہیں آپکڑے گا۔ (64) پس ان لوگوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں (اسے مار ڈالا) تب صالح(ع) نے کہا کہ اب تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو (کھا پی لو) یہ وہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے۔ (65) پس جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دے دی اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا بے شک پروردگار بڑا طاقتور، بڑا زبردست ہے۔ (66) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک زوردار کڑک نے آپکڑا وہ اس طرح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (67) کہ گویا وہ کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے آگاہ ہو جاؤ قومِ ثمود(ع) نے اپنے پروردگار کا انکار کیا آگاہ ہو کہ ہلاکت و بربادی ہے قوم ثمود کے لئے۔ (68) بے شک ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم(ع) کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور کہا تم پر سلام انہوں نے (جواب میں) کہا تم پر بھی سلام پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ (69) مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں اجنبی خیال کیا اور دل ہی دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں۔ ہم تو (اللہ کی طرف سے) قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (70) اور ان کی بیوی (سارہ) پاس کھڑی ہوئی تھیں وہ ہنس پڑیں بس ہم نے انہیں اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب(ع) کی۔ (71) (اس پر) وہ کہنے لگیں۔ ہائے میری مصیبت! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔ اور یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔ (72) انہوں (فرشتوں) نے کہا کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے (ابراہیم(ع) کے) گھر والو بے شک وہ بڑا ستائش کیا ہوا ہے، بڑی شان والا ہے۔ (73) جب ابراہیم (ع) کا خوف دور ہوگیا اور انہیں خوشخبری مل گئی تو قومِ لوط(ع) کے بارے میں ہم سے جھگڑنے لگے۔ (74) بے شک ابراہیم(ع) بڑے بردبار، بڑے نرم دل اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والے تھے۔ (75) (ہم نے کہا) اے ابراہیم(ع) اس بات کو چھوڑ دیں تمہارے پروردگار کا حکم (عذاب) آچکا ہے یقینا ان لوگوں پر وہ عذاب آکے رہے گا۔ جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔ (76) اور جب ہمارے فرستادے لوط(ع) کے پاس آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے اور تنگدل ہوگئے اور کہا بڑا سخت دن ہے۔ (77) ان کی قوم کے لوگ (نوخیز مہمانوں کی آمد کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے وہ پہلے سے ہی ایسی بدکاریوں کے عادی ہو رہے تھے لوط(ع) نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے مناسب اور پاکیزہ ہیں سو اللہ سے ڈرو۔ اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلامانس نہیں ہے۔ (78) ان لوگوں نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ (79) لوط نے کہا کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی یا یہ کہ میں کسی مضبوط پایہ کا سہارا لے سکتا۔ (80) تب انہوں (مہمانوں) نے کہا اے لوط(ع) ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں یہ لوگ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے تم رات کے کسی حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جاؤ۔ سوائے اپنی بیوی کے اور خبردار تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ کیونکہ اس (بیوی) پر وہی عذاب نازل ہونے والا ہے جو ان لوگوں پر نازل ہونے والا ہے اور ان (کے عذاب) کا مقرر وقت صبح ہے کیا صبح (بالکل) قریب نہیں ہے؟ (81) پھر جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا۔ تو ہم نے اس سرزمین کو تہہ و بالا کر دیا اور اس پر سنگِ گِل یعنی پکی ہوئی مٹی کے پتھر مسلسل برسائے۔ (82) جن میں سے ہر کنکر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان زدہ تھا اور یہ (پتھر) ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں۔ (83) اور ہم نے اہلِ مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ میں تمہیں اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (کفرانِ نعمت اور غلط کاری سے) عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب کو گھیر لے۔ (84) اور اے میری قوم! عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول پورا کیا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ اور زمین میں شر و فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ (85) اللہ کا بقیہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایماندار ہو؟ اور میں تم پر نگران و نگہبان نہیں ہوں۔ (86) ان لوگوں نے کہا اے شعیب(ع)! کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے یا اپنے اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں؟ بس تم ہی عاقل و بردبار اور نیکوکار آدمی ہو؟ (87) آپ(ع) نے کہا میری قوم! مجھے غور کرکے بتاؤ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) روشن دلیل رکھتا ہوں اور پھر اس نے اپنی بارگاہ سے مجھے اچھی روزی بھی دی ہو (تو پھر کس طرح تبلیغِ حق نہ کروں؟) اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ جن چیزوں سے تمہیں روکتا ہوں۔ خود ان کے خلاف چلوں۔ میں تو صرف اصلاح (احوال) چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے۔ اور میری توفیق تو صرف اللہ کی طرف سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف (اپنے تمام معاملات میں) رجوع کرتا ہوں۔ (88) اور اے میری قوم! میری مخالفت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ایسے کام کرو کہ جن کی پاداش میں تم پر بھی وہی آفت آپڑے جو نوح(ع) یا ہود(ع) یا صالح(ع) کی قوم پر آئی تھی۔ اور قومِ لوط(ع) تو تم سے کچھ دور نہیں ہے۔ (89) اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو اور پھر اس کی جناب میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) بے شک میرا پروردگار بڑا رحم کرنے والا، بڑا محبت کرنے والا ہے۔ (90) ان لوگوں نے کہا اے شعیب! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے درمیان ایک کمزور آدمی دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔ اور تم ہم پر غالب نہیں ہو۔ (91) آپ نے کہا! اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے نزدیک اللہ سے زیادہ معزز ہے؟ (اللہ سے زیادہ طاقتور ہے) جسے تم نے پسِ پشت ڈال دیا ہے (یاد رکھو) تم جو کچھ کر رہے ہو میرا پروردگار اس کا (علمی) احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (92) اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ (اور اپنے طریقہ) پر عمل کئے جاؤ میں اپنی جگہ (اور اپنے طریقہ) پر عمل کر رہا ہوں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا؟ اور کون جھوٹا ہے؟ اور تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (93) اور جب ہمارا حکم (عذاب) آیا تو ہم نے اپنی خاص رحمت سے شیعب کو اور ان کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک خوفناک کڑک نے آپکڑا۔ پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (94) گویا وہ ان میں کبھی آباد ہوئے ہی نہ تھے۔ آگاہ ہو۔ ہلاکت و بربادی ہے مدین کیلئے جس طرح ہلاکت تھی قومِ ثمود کے لیے۔ (95) اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو واضح نشانیوں (معجزات) اور واضح سند (عصا) کے ساتھ بھیجا۔ (96) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم درست نہ تھا (بلکہ بالکل غلط تھا)۔ (97) قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا۔ اور اس طرح انہیں آتشِ دوزخ میں پہنچا دے گا کیا ہی اترنے کی بری ہے وہ جگہ جہاں وہ اتارے جائیں گے۔ (98) اس دنیا میں لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن (دوزخ) کیا ہی برا عطیہ ہے جو انہیں عطا کیا جائے گا۔ (99) اے رسول(ص) یہ ان بستیوں کی چند خبریں ہیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔ ان (بستیوں) میں سے کچھ تو اب تک قائم ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے (بالکل اجڑ گئی ہیں)۔ (100) اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اور جب آپ کے پروردگار کا حکم (عذاب) آگیا تو انہیں ان کے ان خداؤں نے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اور انہوں نے ان کی ہلاکت میں اضافہ کے سوا اور کچھ نہ کیا۔ (101) اور آپ کا پروردگار جب ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے (یعنی ان کے باشندوں کو ان کے ظلم و تعدی کی وجہ سے پکڑتا ہے) تو اس کی پکڑ ایسی ہوتی ہے بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک (اور) سخت ہوتی ہے۔ (102) بے شک اس بات میں (عبرت کی) نشانی ہے اس شخص کے لئے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور وہ (سب کے) پیش ہونے کا دن ہے۔ (103) اور ہم اسے صرف ایک مدت (کے پورا ہونے) تک مؤخر کر رہے ہیں۔ (104) تو اس (خدا) کی اجازت کے بغیر کوئی متنفس بات نہیں کر سکے گا (اس دن) کچھ لوگ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ (105) جب وہ دن آئے گا تو جو بدبخت ہیں وہ آتشِ دوزخ میں ہوں گے ان کیلئے وہاں چیخنا چلانا ہوگا۔ (106) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا پروردگار (کچھ اور) چاہے بے شک آپ کا پروردگار (قادرِ مختار ہے) جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ (107) اور جو نیک بخت ہیں وہ بہشت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا پروردگار (کچھ اور) چاہے (یہ وہ) عطیہ ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔ (108) (اے رسول(ص)) جن کی یہ (مشرک لوگ) عبادت کرتے ہیں آپ ان کے (باطل پرست ہونے) میں کسی شک میں نہ رہیں یہ اسی طرح (کورکورانہ) عبادت کر رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے اور ہم ان کو ان (کے نتائجِ اعمال) کا پورا پورا حصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (109) اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے سے طئے نہ کر دی گئی ہوتی (کہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرنی) تو کبھی کا ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور وہ اس (عذاب) کے بارے میں تردد انگیز شک میں مبتلا ہیں۔ (110) اور یقیناً آپ کا پروردگار ان سب کو ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا پورا دے گا بے شک جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (111) پس (اے رسول(ص)) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ خود اور وہ لوگ بھی جنہوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں اور حد سے نہ بڑھیں (یقین کرو کہ) تم جو کچھ کرتے ہو وہ (اللہ) اسے دیکھ رہا ہے۔ (112) اور خبردار! ظالموں کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ (ان کی طرح) تمہیں بھی آتشِ دوزخ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہوگا اور نہ ہی تمہاری کوئی مدد کی جائے گی۔ (113) (اے نبی) دن کے دونوں کناروں (صبح و شام) اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کریں بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے ان لوگوں کیلئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (114) اور آپ صبر کیجئے! بے شک اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (115) ان قوموں اور نسلوں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں معدودے چند افراد کے سوا جن کو ہم نے نجات دی تھی ایسے سمجھدار اور نیکوکار لوگ کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے اور ظالم لوگ تو اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھی اور یہ سب لوگ مجرم تھے۔ (116) اور آپ کا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ وہ ظلم کرکے (ناحق) بستیوں کو ہلاک کر دے جبکہ ان کے باشندے نیکوکار اور اصلاح کرنے والے ہوں۔ (117) اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت (گروہ) بنا دیتا مگر اپنی حکمتِ کاملہ سے اس نے ایسا نہیں کیا لہٰذا یہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے۔ (118) سوائے اس کے جس پر آپ کا پروردگار رحم فرمائے اور اسی (رحمت) کے لئے تو ان کو پیدا کیا ہے۔ اور آپ کے پروردگار کی بات پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو تمام جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ (119) اور (اے رسول) پیغمبروں کے قصوں میں سے یہ سب قصے جو ہم آپ کو سناتے ہیں (یہ اس لئے ہے کہ) ہم آپ کے دل کو مضبوط کر دیں اور پھر ان (قصوں) کے اندر تمہارے پاس حق آگیا۔ اور اہلِ ایمان کیلئے پند و موعظہ اور نصیحت و یاددہانی ہے۔ (120) اور (اے پیغمبر(ص)) جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجیے! تم اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کرو (اور ہم) اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔ (121) تم بھی (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ (122) اور آسمانوں اور زمین کا علمِ غیب اللہ ہی سے مخصوص ہے اور اسی کی طرف تمام معاملات کی بازگشت ہے تو آپ(ص) اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ کریں اور آپ کا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (123)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، را۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (1) کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہے کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (بے ایمان اور بدکردار لوگوں کو) ڈراؤ۔ اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا مقام و مرتبہ ہے (لیکن) کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۔ (2) بے شک تمہارا پروردگار اللہ ہے۔ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔ پھر عرش پر غالب ہوا وہی (کائنات کے) ہر کام کی تدبیر اور اس کا بندوبست کرتا ہے اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی نہیں ہو سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد۔ یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی عبادت کرو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے (اور نصیحت قبول نہیں کرتے)۔ (3) تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے بے شک وہی مخلوق کی پیدائش کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی دوبارہ اسے زندہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جنہوں نے کفر کیا انہیں ان کے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (4) وہ وہی ہے جس نے سورج کو چمکدار اور چاند کو نور (روشن) بنایا اور پھر چاند کے لئے مختلف منزلیں قرار دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور دوسرے حساب معلوم کر سکو اللہ نے یہ سب کچھ حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو سمجھنا اور جاننا چاہیں اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ (5) بے شک رات اور دن کی ادل بدل اور الٹ پھیر میں اور ان چیزوں میں جو خدا نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں پرہیزگاروں کے لیے (خدا کی قدرت و حکمت کی) نشانیاں ہیں۔ (6) بے شک جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری بارگاہ میں حاضری کی امید نہیں رکھتے اور صرف دنیوی زندگی میں مگن ہیں اور اس پر مطمئن ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ (7) یہ وہ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کرتوتوں کی پاداش میں جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔ (8) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ ان کا پروردگار ان کے ایمان کی بدولت انہیں اس منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ یعنی وہ نعمتِ الٰہی کے ان باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ (9) وہاں ان کی دعا و صدا یہ ہوگی۔ اے اللہ! پاک ہے تیری ذات اور ان کی صاحب سلامت سلام سے ہوگی اور ان کی آخری دعا و پکار یہ ہوگی کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ (10) اگر خدا لوگوں کو نقصان پہنچانے میں اس طرح جلدی کرتا جس طرح یہ لوگ اپنی بھلائی کے لئے جلدی کرتے ہیں یعنی اگر ہر برائی کا برا نتیجہ فوراً سامنے آجاتا تو ان کی مدت (عمر) کبھی کی پوری ہو چکی ہوتی مگر ہمارے قانون (سزا میں ڈھیل ہے) اس لئے ہم تو ان لوگوں کو بھی اپنی سرکشیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو مرنے کے بعد ہماری بارگاہ میں حضوری کی امید نہیں رکھتے۔ (11) جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ کے بل لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح (منہ موڑ کے) چل دیتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے وہ عمل خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (12) اور بالیقین ہم تم سے پہلے (بہت سی) نسلوں کو ہلاک کر چکے ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ و روش اختیار کی۔ اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں (معجزے) لے آئے مگر وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔ (13) پھر ہم نے ان (نسلوں) کے بعد تمہیں روئے زمین پر ان کا جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو؟ (14) اور جب انہیں ہماری آیاتِ بینات (واضح آیتیں) پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ مرنے کے بعد ہماری بارگاہ میں حاضری کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں رد و بدل کر دو۔ آپ کہہ دیجیے! کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کچھ رد و بدل کر دوں! میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (15) (اے رسول(ص)) کہہ دیجیے! اگر خدا چاہتا تو میں تمہیں قرآن پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی وہ تمہیں اس پر مطلع فرماتا۔ آخر میں تو اس سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (16) پھر اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو خدا پر جھوٹا افترا باندھے؟ یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے یقینا مجرم کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ (17) یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں (اے رسول(ص)) تم کہو۔ کیا تم اللہ کو اس چیز کی اطلاع دیتے ہو جو خود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں۔ پاک ہے اس کی ذات اور بلند و بالا ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ (18) اور (ابتداء میں) سب انسان ایک ہی امت تھے (دینِ فطرت پر تھے) پھر آپس میں اختلاف کیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک طئے شدہ بات نہ ہوتی (کہ اعمال کی جزا و سزا آخرت میں ہوگی) تو جن باتوں میں یہ لوگ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا گیا ہوتا۔ (19) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے (ان کی مطلوبہ) کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوتی؟ کہہ دیجیئے کہ غیب کا علم اللہ سے مخصوص ہے سو تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (20) اور جب ہم لوگوں کو تکلیف اور دکھ درد کے بعد (اپنی) رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ فوراً ہماری آیتوں میں چال بازی و حیلہ سازی کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دیجیئے کہ اللہ تدبیر و ترکیب میں (تم سے) زیادہ تیز ہے بے شک ہمارے فرستادہ (فرشتے) تمہاری سب چالبازیاں اور مکاریاں برابر لکھتے جا رہے ہیں۔ (21) وہ (خدا) وہی ہے جو تمہیں خشکی و تری میں سیر و سفر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ موافق ہوا کے مطابق مسافروں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ خوش و خرم ہوتے ہیں تو پھر اچانک بادِ مخالف کا تھپیڑ آجاتا ہے اور ہر طرف سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہم بالکل گھر گئے ہیں (اور زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی) تو اس وقت دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے یعنی بڑے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں کہ (یا اللہ) اگر تو ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔ (22) اور جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو (اپنا سب عہد و پیمان بھول کر) زمین میں ناحق بغاوت اور سرکشی کرنے لگتے ہیں اے لوگو! تمہاری اس بغاوت کا وِزر و وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑ رہا ہے یہ (چند روزہ) زندگی کے مزے ہیں (سو لوٹ لو) پھر تمہاری بازگشت ہماری ہی طرف ہے اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو؟ (23) دنیاوی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا اور زمین سے وہ نباتات پیدا ہوئیں جن کو انسان اور مویشی سب کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین اپنی زیب و زینت کو لے چکی اور فصل کے سبزہ زار سے آراستہ ہوگئی۔ اور اس کے مالک سمجھے کہ انہیں اس (فصل) پر قابو حاصل ہے (جب چاہیں گے کاٹیں گے) تو ایک دم رات یا دن کو ہمارا حکم آگیا۔ تو ہم نے اسے اس طرح بیخ و بن سے کاٹ کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ ہم غور و فکر کرنے والوں کیلئے اسی طرح کھول کھول کر اپنی آیتیں پیش کرتے ہیں۔ (24) اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ (25) جن لوگوں نے (دنیا میں) بھلائی کی ہوگی ان کیلئے (آخرت میں) بھلائی ہوگی اور اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے چہروں پر نہ غبار چھائے گا اور نہ ذلت و رسوائی (نمایاں ہوگی) یہی لوگ جنتی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (26) اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں تو برائی کی سزا بھی ویسی ہی برائی ہے اور ان پر ذلت و خواری چھا جائے گی ان کو اللہ (کے قانون مکافاتِ عمل) سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا (ان کے چہرے سیاہ ہوں گے کہ) گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے یہی لوگ دوزخی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (27) جس دن ہم سب کو (اپنے حضور) محشور (اکھٹا) کریں گے پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا تھا کہیں گے کہ تم اور جو تمہارے بنائے ہوئے شریک ہیں اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ۔ پھر ہم ان میں امتیاز پیدا کر دیں گے (الگ الگ کر دیں گے) (اس وقت) ان کے خود ساختہ شریک کہیں گے کہ (اے مشرکو) تم ہماری عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے۔ (28) آج ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ کافی ہے کہ ہم تمہاری عبادت سے بالکل غافل و بے خبر تھے۔ (29) اس موقع پر ہر شخص اسے جانچ لے گا جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے (کہ اس کا نتیجہ کیا ہے؟) اور سب اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے جو ان کا حقیقی مالک ہے اور جو (شریک) انہوں نے گھڑ رکھے تھے وہ سب غائب ہو جائیں گے (اور ان کے کچھ کام نہ آئیں گے) (30) اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو (پوچھو) وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جو سمع و بصر (سننے اور دیکھنے کی طاقت) کا مالک ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور وہ کون ہے جو کائنات کا انتظام کر رہا ہے؟ اس سوال پر وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ پس تم کہو (کہ اگر حقیقت حال یہی ہے) تو تم کیوں نہیں ڈرتے۔ (31) یہی اللہ ہے جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے؟ تمہیں (حق سے) کدھر (غلط سمت) موڑا جا رہا ہے۔ (32) اسی طرح تمہارے پروردگار کی بات فاسقوں (نافرمانوں) پر سچی ثابت ہو کر رہی کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (33) (اے پیغمبر(ص)) آپ کہیے۔ تمہارے ساختہ پرداختہ شریکوں میں سے کوئی ہے جو تخلیقِ کائنات کا آغاز بھی کرے اور (فنا کے بعد) اسے دوبارہ زندہ کرے؟ کہیے! اللہ وہ ہے جو کائنات کو پہلے پیدا بھی کرتا ہے اور پھر اسے دوبارہ زندہ بھی کرے گا تم کدھر الٹے جا رہے ہو؟ (34) (اے پیغمبر(ص)) ان سے کہیے (پوچھئے) کہ تمہارے بنائے ہوئے (خدا کے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو؟ کہئے! وہ اللہ ہی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے پھر (بتاؤ) جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اس وقت تک راہ نہیں پا سکتا جب تک اسے راہ نہ دکھائی جائے؟ تمہیں کیا ہوگیا تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ (35) لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ گمان حق کی پہچان اور اس تک رسائی حاصل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا (اور نہ ہی یہ حق و یقین سے بے نیاز کرتا ہے) بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے جو کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ (36) اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے گھڑ لیا جائے بلکہ یہ تو تمام سابقہ کتابوں اور وحیوں کی تصدیق ہے اور الکتاب کی تفصیل ہے (یعنی اس میں آسمانی کتابوں کی تعلیم کی تفصیل ہے) اس میں کچھ شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (37) کیا یہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبرِ اسلام(ص)) نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ آپ کہیے! اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو تم اللہ کے سوا اپنی مدد کے لئے جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لو اور پھر قرآن کی مانند ایک ہی سورہ لے آؤ۔ (38) بلکہ یہ لوگ اس چیز کو جھٹلا دیتے ہیں جس کا علمی احاطہ نہیں کر سکتے اور جس کی تاویل ابھی ان کے سامنے نہیں آئی ہے اسی طرح ان لوگوں نے بھی (حقائق کو) جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے تو دیکھو کہ ظلم کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟ (39) ان لوگوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور آپ کا پروردگار مفسدین کو خوب جانتا ہے۔ (40) اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجیے! میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا تمہارے لئے جو کچھ میں کرتا ہوں اس سے تم بری الذمہ ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔ (41) اور (اے رسول) ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتوں کی طرف کان لگاتے ہیں (حالانکہ سنتے نہیں ہیں) تو کیا آپ بہروں کو سنائیں گے اگرچہ وہ عقل سے کام نہ لیتے ہوں؟ (42) اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں (جو بظاہر) آپ کی طرف دیکھتے ہیں (حالانکہ وہ دیکھتے نہیں ہیں) تو کیا آپ اندھوں کو راہ دکھائیں گے چاہے وہ کچھ نہ دیکھتے ہوں؟ (43) یقینا اللہ لوگوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ مگر لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (44) جس دن اللہ لوگوں کو اپنی بارگاہ میں جمع کرے گا (اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ) جیسے دن کی ایک گھڑی آپس میں جان پہچان کے لئے ٹھہرے ہوں۔ بے شک وہ لوگ گھاٹے میں ہیں جنہوں نے (مرنے کے بعد) خدا کی بارگاہ میں حضوری کو جھٹلایا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھے۔ (45) اور (اے رسول(ص)) خواہ ہم آپ کو ابھی بعض وہ باتیں (برے اعمال کے نتائج) دکھا دیں جن کا ان (منکرین) سے وعدہ کیا ہے یا اس سے پہلے آپ کو (دنیا سے) اٹھا لیں بہرحال انہیں لوٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے پھر اللہ گواہ ہے اس پر جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔ (46) اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوتا ہے تو جب ان کا رسول ان کے پاس آجاتا ہے تو پورے انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ (47) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو پھر بتاؤ (عذابِ الٰہی کا) وہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ (48) (اے رسول) کہہ دیجیے! (یہ معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے) میں تو خود اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) ہر امت (قوم) کیلئے (مہلت کی) ایک مدت ہوتی ہے جب وہ مدت پوری ہو جاتی ہے (اور مقررہ وقت آجاتا ہے) تو پھر ایک گھڑی کی بھی نہ تاخیر ہو سکتی ہے اور نہ تقدیم۔ (49) (اے رسول) ان لوگوں سے کہیے کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر اس کا عذاب (اچانک) رات کے وقت تم پر آجائے یا دن دہاڑے (تو تم کیا کروگے؟) آخر وہ کون سی چیز ہے جس کی مجرم جلدی کر رہے ہیں؟ (50) کیا جب وہ (عذاب) واقع ہو جائے گا تو تب اس پر تم ایمان لاؤگے؟ (اس پر یقین کروگے؟) (اس وقت تو کہا جائے گا) اب؟ (اس پر یقین کرکے اس سے بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم ہی اس کی جلدی کر رہے تھے۔ (51) پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔ تم جو کچھ (کرتوت) کیا کرتے تھے اس (دائمی عذاب) کے سوا تمہیں اور کیا بدلہ دیا جا سکتا ہے؟ (52) اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے؟ (جو آپ کہتے ہیں؟) کہیے ہاں خدا کی قسم یہ بالکل سچ ہے اور تم (خدا کو) عاجز و بے بس نہیں بنا سکتے۔ (53) جو کچھ روئے زمین پر موجود ہے اگر وہ ہر ظالم شخص کے قبضہ میں آجائے تو (وہ عذاب اس قدر سخت ہے) کہ وہ یہ سب کچھ بطور فدیہ دے دے۔ جب یہ لوگ عذابِ الٰہی کو دیکھیں گے تو ندامت و پشیمانی کو دل میں چھپائیں گے (اور اندر ہی اندر پچھتائیں گے) لیکن پورے انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (54) یاد رکھو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت نہیں جانتے)۔ (55) وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔ (56) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (قرآن کی شکل میں) پند و موعظہ، دلوں کی بیماریوں کی شفا اور اہلِ ایمان کے لئے ہدایت و رحمت کا مجموعہ آگیا ہے۔ (57) (اے رسول) کہیے کہ (یہ سب کچھ) خدا کے خاص فضل اور اس کی خصوصی رحمت کا نتیجہ ہے اس لئے چاہیے کہ لوگ خوشی منائیں یہ چیز اس دولتِ دنیا سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ (58) (اے رسول(ص)) کہیے! لوگو ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم نے غور کیا ہے کہ خدا نے تمہارے لئے جو رزق اتارا ہے تو تم نے خود (اپنی خواہشِ نفس سے) کسی کو حرام اور کسی کو حلال قرار دے دیا ہے ان سے پوچھئے! کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو؟ (59) جو لوگ خدا پر افترا پردازی کرتے ہیں ان کا قیامت کے دن کے بارے میں کیا گمان ہے؟ بے شک اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔ (60) (اے رسول(ص)) آپ جس حال میں بھی ہوں اور قرآن میں سے جو کچھ بھی پڑھ کر سنائیں اور (اے لوگو) تم بھی جو کوئی کام کرتے ہو ہم ضرور تم پر ناظر و نگران ہوتے ہیں جب تم اس (کام) میں مشغول و منہمک ہوتے ہو۔ اور آپ کے پروردگار سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اور کوئی چیز خواہ ذرہ سے چھوٹی ہو یا اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔ (61) آگاہ ہو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (62) یہ (اللہ کے دوست) وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا۔ (63) ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی بڑی کامیابی ہے۔ (64) اور (اے رسول) ان (کافروں) کی (معاندانہ) باتیں آپ کو غمزدہ نہ کریں۔ یقینا تمام کی تمام عزت اللہ کے لئے ہے (وہ جسے چاہے عزت و ذلت دے) وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (65) آگاہ ہو جاؤ وہ تمام ہستیاں جو آسمان میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں اللہ ہی کے مملوک اور اسی کے تابعِ فرمان ہیں۔ اور جو (مشرک) لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کاہے کی پیروی کر رہے ہیں؟ وہ محض اپنے گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور صرف اپنی اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔ (66) وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور دیکھنے کے لئے دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں کام کرو) بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے (قدرتِ خدا کی) نشانیاں ہیں جو (کلامِ حق) سنتے ہیں۔ (67) یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنا کوئی بیٹا بنایا ہے حالانکہ وہ پاک و بے نیاز ہے اور اس کیلئے زمین و آسمان کی ساری کائنات ہے۔ تمہارے پاس تو تمہاری بات کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ کیا تم لوگ خدا پر وہ الزام لگاتے ہو جس کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔ (68) (اے رسول) کہہ دیجئے جو لوگ خدا پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ (69) (ان کے لئے صرف) دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کی بازگشت ہماری طرف ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کی پاداش میں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (70) اور (اے رسول(ص)) انہیں (کفار کو) نوح کا حال سنائیں جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! اگر (تمہارے درمیان) میرا قیام کرنا اور آیاتِ الٰہیہ کا یاد دلانا (اور ان کے ساتھ پند و نصیحت کرنا) شاق گزرتا ہے تو میرا بھروسہ صرف اللہ پر ہے تو تم (میرے خلاف) اپنے خود ساختہ شریکوں کو بھی ساتھ ملا کر کوئی متفقہ فیصلہ کرلو اور (پھر خوب سوچ سمجھ لو تاکہ) تمہارا فیصلہ تم پر پوشیدہ نہ رہے اور تمہیں اس میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کرنا ہے کر گزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو۔ (71) اب اگر (اس کے باوجود) تم روگردانی کرتے ہو (تو تمہارا ہی نقصان ہے میرا کیا نقصان ہے) میں نے تم سے کوئی اجر تو نہیں مانگا۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے فرمانبردار بندوں سے ہو کر رہوں۔ (72) (بایں ہمہ) ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا پس ہم نے انہیں اور جو کشتی میں ان کے ساتھ سوار تھے نجات دی اور انہیں (غرق ہونے والوں کا) جانشین بنایا اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان سب کو غرق کر دیا تو دیکھو جن کو متنبہ کیا گیا تھا اور ڈرایا گیا تھا (مگر وہ نہ مانے) ان کا کیا انجام ہوا؟ (73) پھر ہم نے ان (نوح(ع)) کے بعد متعدد رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں (معجزے) لے کر آئے اس پر بھی وہ تیار نہ تھے کہ جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے ہیں (اب معجزے دیکھ کر) اس پر ایمان لائیں۔ ہم یونہی ظلم و تعدی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ (74) پھر ہم نے ان (رسولوں) کے بعد موسیٰ (ع)و ہارون (ع)کو اپنی نشانیوں (معجزوں) کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ (عادی) مجرم تھے۔ (75) اور جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا (اور حقیقت واضح ہوگئی) تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ (76) موسیٰ (ع) نے کہا کیا تم حق کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے پاس آیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر کبھی فلاح و کامیابی نہیں پا سکتے۔ (77) انہوں نے (جواب میں) کہا کہ کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ اور اس سر زمین میں تم دونوں (بھائیوں) کی بڑائی (سرداری) قائم ہو جائے اور ہم تم دونوں کی بات تسلیم کرنے والے نہیں ہے۔ (78) اور فرعون نے کہا (میرے ملک کے) تمام ماہر جادوگروں کو میرے پاس لاؤ۔ (79) اور جب جادوگر آگئے تو موسیٰ نے ان سے کہا (جادو کے سامان سے) تمہیں جو کچھ پھینکنا ہے پھینکو۔ (80) جب وہ (رسیاں وغیرہ) پھینک چکے۔ تو موسیٰ نے کہا جو کچھ تم لائے ہو یہ جادو ہے (نہ وہ جو میں لایا ہوں) یقینا اللہ اسے بھی ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ اللہ مفسدین کے کام کو بننے نہیں دیتا۔ (81) اور اللہ حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ سے ضرور حق ثابت کر دکھاتا ہے اگرچہ مجرموں کو ناپسند ہی ہو۔ (82) پس موسیٰ پر ان کی قوم کے چند نوجوانوں کے ایک گروہ کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لایا اور وہ (ایمان لانے والے) بھی فرعون اور اپنی قوم کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے ایمان لائے۔ کہ کہیں وہ انہیں آزمائش (اور مصیبت) میں نہ ڈال دے اور بے شک فرعون بڑا سرکش (بادشاہ) تھا اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔ (83) اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان لائے ہو تو پھر اسی پر بھروسہ کرو۔ اگر تم فی الحقیقت مسلمان ہو۔ (84) انہوں نے (جواب میں) کہا ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں (اور دعا کرتے ہیں) اے ہمارے پروردگار ہمیں ظالم لوگوں کیلئے آزمائش کا موجب نہ بنا (ان کے ظلم کا تختہ مشق نہ بنا)۔ (85) اور ہمیں اپنی رحمت سے ظالموں (کے پنجۂ ظلم) سے نجات عطا فرما۔ (86) اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ہارون) کی طرف وحی کی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے چند گھر مہیا کرو (بناؤ) اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنائیں (یا اپنے گھروں کو ہی قبلہ بنائیں) اور نماز قائم کریں اور (اے موسیٰ اہلِ ایمان کو) کامیابی کی بشات دیں۔ (87) اور موسیٰ نے (دعا مانگتے ہوئے) کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی میں زیب و زینت (کی چیزوں) اور بہت سے مال و دولت سے نوازا ہے۔ اے پروردگار! اس کا نتیجہ اور انجام یہ ہے کہ وہ (تیرے بندوں کو) تیرے راستہ سے بہکاتے ہیں۔ اے ہمارے مالک، ان کے مالوں کو نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں (اور اس وقت ایمان کا لانا سودمند نہ ہوگا)۔ (88) اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے سو تم ثابت قدم رہو۔ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو۔ جو (حق و حقیقت کا) علم نہیں رکھتے۔ (89) اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) (دریا میں) غرق ہونے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں (مانتا ہوں) کہ اس ہستی کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔ (90) (اس سے کہا گیا) اب؟ (ایمان لاتا ہے؟) حالانکہ اس سے پہلے تو مسلسل نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فسادیوں میں سے ایک (بڑا) مفسد تھا۔ (91) پس آج ہم صرف تیرے بدن (لاش) کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے (قدرت و عبرت کی) ایک نشانی بن جائے (اگرچہ) لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے۔ (92) اور ہم نے (حسب الوعدہ) بنی اسرائیل کو (رہنے کے لئے) بہت اچھا ٹھکانا دیا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا انتظام کیا پس جب تک ان کے پاس توراۃ وغیرہ کی شکل میں علم نہیں آگیا تب تک انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا۔ (پھر جان بوجھ کر اختلاف کیا)۔ یقینا آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ (93) اگر (بالفرض) آپ کو اس (قرآن میں) کچھ شک ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تو پھر ان لوگوں (اہل کتاب) سے پوچھ لو جو آپ سے پہلے کتابیں (توراۃ و انجیل وغیرہ) پڑھتے رہتے ہیں۔ بے شک آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کے پاس حق آیا ہے لہٰذا ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (94) اور نہ ہی ان لوگوں میں سے ہونا جنہوں نے آیاتِ الٰہیہ کو جھٹلایا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ (95) بے شک وہ لوگ جن پر آپ کے پروردگار کی بات ثابت ہو چکی ہے۔ (96) سو اگرچہ دنیا جہاں کی تمام نشانیاں (معجزات) ان کے سامنے آجائیں مگر وہ جب تک دردناک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں تب تک وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (97) قومِ یونس کے سوا کیوں کوئی ایسی بستی نہیں ہوئی جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان نے اسے فائدہ بھی پہنچایا ہو؟ جب وہ (قومِ یونس والے) ایمان لائے تو ہم نے اس دنیاوی زندگی میں ان سے رسوائی والا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کے سرو سامان سے فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دی۔ (98) اگر آپ کا پروردگار (جبراً) چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ مؤمن ہو جائیں۔ (99) کوئی بھی متنفس ایسا نہیں ہے جو اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لے آئے اور اللہ ان لوگوں پر (کفر و شرک) کی نجاست ڈال دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (100) (اے رسول(ص)) کہیئے۔ (اے لوگو) غور سے دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (عجائبات قدرت) موجود ہیں (اور کس بات کی گواہی دے رہے ہیں؟) مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نہ نشانیاں کوئی فائدہ دیتی ہیں اور نہ ڈرانے والوں کی تنبیہیں۔ (101) کیا یہ لوگ ان جیسے (عذاب کے) دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان لوگوں پر آئے جو ان سے پہلے تھے (کہ ایسے ہی ان پر بھی آئیں؟) ان سے کہہ دیجیئے کہ پھر تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (102) پھر (جب ایسے دن آتے ہیں) تو ہم اپنے رسولوں کو اور ایمان لانے والوں کو نجات دے دیتے ہیں اسی طرح ہمارے ذمہ حق ہے کہ ہم اہلِ ایمان کو نجات دیا کریں۔ (103) کہیے! اے لوگو اگر تمہیں میرے دین (اسلام) کے بارے میں کچھ شک ہے تو (سن لو) میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روح قبض کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہلِ ایمان کے زمرہ میں سے ہوں۔ (104) نیز (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ) ہر طرف سے اپنا رخ موڑ کر سیدھا دین کی طرف رکھوں اور مشرکوں میں سے نہ ہوں۔ (105) نیز (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ) اللہ کے سوا کسی ایسی ہستی کو نہ پکاریں جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکے اور نہ نقصان اور اگر ایسا کیا تو پھر ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ (106) اور اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا فضل و کرم فرمائے وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (107) (اے رسول) کہہ دیجئے! اے لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے حق آچکا ہے پس جو ہدایت حاصل کرے گا تو وہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا اور جو گمراہ ہوگا اس کا نقصان بھی اسی کو ہوگا میں تم پر نگہبان و نگران نہیں ہوں۔ (108) اور (اے رسول) آپ اس وحی کی پیروی کریں جو آپ کی طرف کی جاتی ہے اور (مخالفین کی ایذا رسانیوں پر) صبر کریں یہاں تک کہ اللہ (آپ کے اور ان کے درمیان) فیصلہ کر دے۔ جو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (109)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(اے مسلمانو) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ برأت ہے ان مشرکین سے جن سے تم نے (صلح کا) معاہدہ کیا تھا۔ (1) (اے مشرکو) اب تم صرف چار ماہ تک اس سر زمین پر چل پھر لو اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ (2) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو حجِ اکبر والے دن اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری و بیزار ہیں۔ اب اگر تم (کفر و شرارت سے) توبہ کرلو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم نے اس سے روگردانی کی تو پھر جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور (اے نبی) کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ (3) سوا ان مشرکوں کے کہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا اور انہوں نے (اپنا قول و قرار نبھانے میں) کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی امداد کی سو تم ان سے کیا ہوا معاہدہ اس کی مقررہ مدت تک پورا کرو۔ بے شک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (4) پس جب محترم مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں گرفتار کرو۔ اور ان کا گھیراؤ کرو اور ہر گھات میں ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (5) اور اے رسول(ص) اگر مشرکین میں سے کوئی آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے اور پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو۔ یہ (حکم) اس لئے ہے کہ یہ لوگ (دعوتِ حق کا) علم نہیں رکھتے۔ (6) بھلا ان مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ہاں کس طرح کوئی عہد و پیمان ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس (بمقامِ حدیبیہ) معاہدہ کیا تھا سو جب تک وہ لوگ تم سے سیدھے رہیں (معاہدہ پر قائم رہیں) تو تم بھی ان سے سیدھے رہو (قائم رہو)۔ بے شک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (7) (ان کے سوا دوسرے) مشرکین سے کس طرح کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اگر وہ تم پر غلبہ پا جائیں تو وہ تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت کا پاس کریں اور نہ کسی عہد و پیمان کی ذمہ داری کا۔ وہ صرف تمہیں اپنے منہ (کی باتوں) سے راضی کرنا چاہتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔ (8) انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر آیاتِ الٰہی فروخت کر دی ہیں اور (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکنے لگے۔ بہت ہی برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔ (9) وہ کسی مؤمن کے بارے میں نہ قرابت کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی عہد و پیمان کی ذمہ داری کا اور یہی لوگ ہیں جو ظلم و تعدی کرنے والے ہیں۔ (10) (بہرحال اب بھی) اگر یہ لوگ توبہ کر لیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔ (11) اور اگر یہ لوگ اپنے عہد و پیمان کے بعد اپنی قَسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعن و تشنیع کریں تو تم کفر کے ان سرغنوں سے جنگ کرو، ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ یہ باز آجائیں۔ (12) تم ان لوگوں سے کیوں جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنی قَسموں کو توڑ ڈالا پیغمبر(ص) کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی کی۔ تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔ (13) ان سے جنگ کرو۔ اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے سزا دلوائے گا۔ اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور جماعتِ مؤمنین کے دلوں کو شفا دے گا (ان کے سارے دکھ دور کر دے گا)۔ (14) اور ان کے دلوں کے غم و غصہ کو دور کرے گا اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا (اور اس کی توبہ کو قبول کرے گا) اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (15) (اے مسلمانو) کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤگے حالانکہ ابھی تک اللہ نے (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو معلوم ہی نہیں کیا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور خدا و رسول اور اہل ایمان کو چھوڑ کر کسی کو اپنا جگری دوست اور (محرمِ راز) نہیں بنایا۔ اور اللہ اس سے باخبر ہے جو کچھ تم کر تے ہو۔ (16) اور مشرکین کے لئے روا نہیں ہے کہ وہ مسجدوں کو آباد کریں جبکہ وہ خود اپنے اوپر اپنے کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ آتشِ دوزخ میں رہیں گے۔ (17) درحقیقت مسجدوں کو آباد وہ کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، نماز قائم کرتا ہے اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتا۔ انہی کے متعلق یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔ (18) کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کے آباد رکھنے کو اس شخص (کے کام کے) برابر قرار دیا ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (19) جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور راہ خدا میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا، اللہ کے نزدیک وہ درجہ میں بہت بڑے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ (20) ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمتِ خاص اور خوشنودی اور ایسے بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں دائمی نعمت ہوگی۔ (21) ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے بے شک اللہ ہی کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ (22) اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو ترجیح دیں تو پھر ان کو اپنا رفیق و کارساز نہ بناؤ۔ اور جو کوئی ان کو رفیق و کارساز بنائے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (23) (اے رسول) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا وہ مال جو تم نے کمایا ہے۔ اور تمہاری وہ تجارت جس کے مندا پڑ جانے سے ڈرتے ہو اور تمہارے وہ رہائشی مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو۔ تم کو اللہ، اس کے رسول اور راہِ خدا میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں۔ تو پھر انتظار کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ (تمہارے سامنے) لے آئے اور اللہ فاسق و فاجر قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (24) بے شک اللہ نے بہت سے مقامات پر تمہاری مدد فرمائی ہے۔ اور حنین کے موقع پر بھی جب تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں مغرور کر دیا تھا مگر اس (کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ (25) پھر اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور اہلِ ایمان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور ایسے لشکر نازل کئے جو تمہیں نظر نہیں آئے۔ اور اللہ نے کافروں کو سزا دی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔ (26) اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے (اور اسے توفیقِ توبہ دیتا ہے) اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (27) اے ایمان والو! مشرکین سراسر نجس و ناپاک ہیں سو وہ اس سال (سنہ ۹ ہجری) کے بعد مسجد الحرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔ اور اگر تمہیں ان کی آمد و رفت کے بند ہونے سے تنگدستی کا اندیشہ ہے تو عنقریب خدا اپنے فضل و کرم سے تمہیں تونگر بنا دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (28) (اے مسلمانو!) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا و رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں جانتے اور دینِ حق (اسلام) کو اختیار نہیں کرتے ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر (ذلیل ہوکر) ہاتھ سے جزیہ دیں۔ (29) یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی باتیں ہیں (بغیر سوچے سمجھے) ان کے منہ سے نکالی ہوئی۔ یہ لوگ بھی ان جیسی باتیں کرنے لگے ہیں جو ان سے پہلے کفر کر چکے ہیں اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔ (30) انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں (علماء و مشائخ) کو پروردگار بنا لیا ہے، اور مریم کے فرزند مسیح کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک ہی معبودِ برحق کی عبادت کریں۔ اللہ کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ پاک ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ (31) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے ہر بات سے سوا اس کے کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں۔ (32) وہ (اللہ) وہی ہے جس نے ہدایت اور دینِ حق دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔ (33) اے ایمان والو! بہت سے عالم اور راہب لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھاتے ہیں اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔ (34) یہ (واقعہ) اس دن ہوگا جب کہ اس (سونے چاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور انہیں بتایا جائے گا کہ) یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کرکے رکھا تھا تو اب مزا چکھو اس کا جو تم نے جمع کرکے رکھا تھا۔ (35) بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد نوشتہ خداوندی میں جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے بارہ ہے، جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی دینِ مستقیم ہے۔ پس ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تمام مشرکین سے اسی طرح جنگ کرو جس طرح کہ وہ تم سب سے کرتے ہیں اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ (36) سوا اس کے نہیں ہے کہ نسیئی (حرمت والے مہینوں کو مؤخر کرنا) کفر میں زیادتی کا موجب ہے۔ اس سے وہ لوگ گمراہ کئے جاتے ہیں جو کافر ہیں۔ وہ اسے ایک سال حلال قرار دیتے ہیں اور اسی کو دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں تاکہ ان مہینوں کی گنتی پوری کریں جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے تاکہ اس (حیلے) سے اللہ کی حرام کردہ کو اپنے لئے حلال قرار دیں۔ ان کے برے اعمال ان کے لئے آراستہ کر دیے گئے ہیں اور اللہ کافروں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (37) اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) نکلو تو تم بوجھل ہوکر زمین گیر ہو جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟ (اگر ایسا ہی ہے تو یاد رکھو کہ) دنیا کا ساز و سامان آخرت کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہے۔ (38) اگر تم نہیں نکلوگے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب کے ساتھ سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا۔ اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکوگے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (39) اور اگر تم ان (رسول(ص)) کی نصرت نہیں کروگے (تو نہ کرو) اللہ نے ان کی اس وقت نصرت کی جب کافروں نے ان کو (وطن سے) نکال دیا تھا۔ اور آپ دو میں سے دوسرے تھے۔ جب دونوں غار میں تھے اس وقت وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غمگین نہ ہو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ سو اللہ نے ان (رسول(ص)) پر اپنی تسکین نازل کی اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔ اور اللہ نے کافروں کے بول کو نیچا کر دیا اور اللہ کا بول ہی بالا ہے۔ اور اللہ زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔ (40) (اے مسلمانو!) ہلکے پھلکے اور بھاری بوجھل نکل پڑو۔ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ (41) (اے رسول(ص)) اگر فائدہ قریب اور سفر آسان ہوتا تو یہ (منافق) ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن انہیں راہ دور کی دکھائی دی (اس لئے قطعِ مسافت دشوار ہوگئی) وہ عنقریب اللہ کے نام کی قَسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم مقدور رکھتے تو ضرور آپ کے ساتھ نکلتے۔ یہ لوگ (جھوٹی قَسمیں کھا کر) اپنے کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹے ہیں۔ (42) (اے رسول(ص)) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دے دی۔ جب تک آپ پر واضح نہ ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور معلوم نہ ہو جاتا کہ جھوٹے کون؟ (43) جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی آپ سے اجازت طلب نہیں کریں گے کہ وہ اپنے مال و جان سے (اللہ کی راہ میں) جہاد کریں۔ اور اللہ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔ (44) اس قسم کی اجازت وہی لوگ طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور ان کے دل شک میں پڑ گئے ہیں اور وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔ (45) اگر ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے لیکن (حقیقت الامر تو یہ ہے کہ) اللہ کو ان کا اٹھنا اور نکالنا ناپسند تھا۔ اس لئے اس نے ان کو کاہل (اور سست) کر دیا۔ اور (گویا ان سے) کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ (46) اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہاری خرابی میں اضافہ ہی کرتے اور فتنہ پردازی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے اندر (ہنوز) ایسے لوگ (جاسوس) موجود ہیں جو ان کی باتوں پر کان دھرنے والے ہیں (جاسوسی کرتے ہیں)۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (47) وہ لوگ اس سے پہلے بھی فتنہ پردازی میں کوشاں رہے ہیں اور آپ کے معاملات کو درہم برہم اور الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق (سامنے) آگیا (نمایاں ہوگیا) اور اللہ کا حکم غالب ہوا۔ جبکہ وہ ناپسند کرتے تھے۔ (48) اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے (گھر میں بیٹھے رہنے کی) اجازت دے دیں۔ اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالیں خبردار! وہ فتنہ میں تو خود پڑ ہی چکے ہیں اور بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (49) اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آجائے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ اور وہ (یہ کہہ کر) خوش خوش واپس لوٹ جاتے ہیں۔ (50) (اے پیغمبر(ص)) کہہ دیجیے! کہ ہمیں ہرگز کوئی (بھلائی یا برائی) نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے وہی ہمارا مولیٰ و سرپرست ہے۔ اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو توکل (بھروسہ) کرنا چاہیے۔ (51) اے پیغمبر(ص) کہہ دیجیے! کہ تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک کے سوا اور کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمہیں سزا دے۔ خواہ اپنی طرف سے دے یا ہمارے ہاتھوں سے؟ سو تم انتظار کرو۔ اور ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔ (52) کہہ دیجیے! کہ تم خوشی سے (اپنا مال) خرچ کرو یا ناخوشی سے۔ بہرحال وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ تم فاسق (نافرمان) لوگ ہو (انما یتقبل اللّٰہ من المتقین یعنی اللہ تو صرف متقیوں کا عمل قبول کرتا ہے)۔ (53) اور ان کی خیرات کے قبول کئے جانے میں اس کے سوا اور کوئی امر مانع نہیں ہے کہ انہوں نے خدا و رسول کے ساتھ کفر کیا ہے (ان کا انکار کیا ہے) اور نماز کی طرف نہیں آتے مگر کاہلی اور سستی سے اور خیرات نہیں کرتے مگر بادلِ ناخواستہ۔ (54) سو ان کے مال و اولاد تمہیں حیرت و تعجب میں نہ ڈالیں۔ (اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ) ان کو یہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے دنیاوی زندگی میں سزا دے۔ اور ان کی جانیں ایسی حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ (55) اور وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ (تم سے) خوف زدہ ہیں۔ (56) اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی غار یا گھس بیٹھنے کی کوئی جگہ تو فوراً ادھر کا رخ کریں منہ زوری کرتے ہوئے (اور رسیاں تڑاتے ہوئے)۔ (57) اور (اے نبی) ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صدقات (کی تقسیم) کے بارے میں آپ(ص) پر عیب لگاتے ہیں۔ پھر اگر اس سے کچھ (معقول مقدار) انہیں دے دی جائے تو راضی ہو جاتے ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو وہ ایک دم ناراض ہو جاتے ہیں۔ (58) اور (کیا اچھا ہوتا ہے) اگر وہ اس پر راضی رہتے جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دیا تھا اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ وہ عنقریب ہمیں اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی۔ ہم تو بس اللہ کی طرف ہی رغبت کرنے والے ہیں۔ (59) صدقات (مالِ زکوٰۃ) تو اور کسی کے لئے نہیں صرف فقیروں کے لئے ہے مسکینوں کے لئے ہے اور ان کارکنوں کے لئے ہے جو اس کی وصولی کے لئے مقرر ہیں۔ اور ان کے لئے ہے جن کی (دلجوئی) مطلوب ہے۔ نیز (غلاموں اور کنیزوں کی) گردنیں (چھڑانے) کے لئے ہے اور مقروضوں (کا قرضہ ادا کرنے) کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے اور مسافروں (کی مدد) کے لئے ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (60) اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو بس کان ہیں (یعنی کان کے کچے ہیں) کہہ دیجیے! وہ تمہارے لئے بہتری کا کان ہیں (ان کے ایسا ہونے میں تمہارا ہی بھلا ہے) جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتے ہیں اور جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے سراپا رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (61) وہ تمہارے سامنے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں۔ حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو راضی کریں۔ اگر وہ ایمان لائے ہیں۔ (62) کیا انہیں (یہ بات) معلوم نہیں ہے کہ جو شخص خدا و رسول کی مخالفت کرے گا۔ اس کے لئے آتشِ دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ (63) منافق لوگ ڈرتے رہتے ہیں کہ مبادا ان کے بارے میں کوئی ایسی سورہ نہ نازل ہو جائے جو انہیں بتلا دے جو کچھ ان کے دلوں میں (چھپا ہوا) ہے آپ کہہ دیجیے! کہ تم مذاق اڑاؤ۔ یقینا (اب) اللہ اس بات کا ظاہر کرنے والا ہے جس کے شکار ہونے سے تم ڈرتے ہو۔ (تمہارے نفاق کا پردہ چاک ہونے والا ہے)۔ (64) (اے رسول(ص)) اگر آپ ان سے پوچھ گچھ کریں تو وہ ضرور کہیں گے کہ ہم تو صرف بحث کر رہے تھے اور تفریح طبعی کر رہے تھے۔ کیا تم اللہ، اس کے رسول اور اس کی آیات سے تمسخر کرتے ہو؟ (65) اب عذر نہ تراشو! تم نے (اظہارِ) ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ سے درگزر بھی کریں گے تو دوسرے گروہ کو تو ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ (حقیقی) مجرم ہیں۔ (66) منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں برائی کا حکم دیتے ہیں اور اچھائی سے روکتے ہیں اور (راہِ حق پر خرچ کرنے سے) اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں (دراصل) انہوں نے خدا کو بھلا دیا ہے اور خدا نے (گویا) ان کو بھلا دیا ہے اور انہیں (نظر انداز کر دیا ہے) بے شک منافق ہی بڑے فاسق (نافرمان) ہیں۔ (67) اللہ نے منافق مردوں منافق عورتوں اور کافروں سے آتشِ دوزخ (میں داخل کرنے) کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ ان کے لئے کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ (68) (اے منافقو! تمہاری حالت) ان لوگوں جیسی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے۔ جو تم سے زیادہ طاقتور تھے اور مال و اولاد بھی تم سے زیادہ رکھتے تھے پس انہوں نے اپنے (دنیوی) حصہ سے فائدہ اٹھایا اور تم نے بھی اپنے (دنیوی) حصہ سے اسی طرح فائدہ اٹھایا جس طرح تم سے پہلے گزرے ہوؤں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اور تم بھی ویسے ہی لغو بحثوں میں پڑے جیسے وہ پڑے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں اکارت ہوئے اور یہی لوگ ہیں جو گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔ (69) کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں ملی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (جیسے) نوح کی قوم، اور عاد و ثمود اور ابراہیم کی قوم! اور مدین والے اور وہ جن کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں (قومِ لوط) ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلی ہوئی نشانیاں (معجزات) لے کر آئے تھے۔ (مگر وہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے)۔ اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (70) اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں یہ سب باہم دگریکرنگ و ہم آہنگ ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم فرمائے گا۔ یقینا اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے۔ (71) اللہ نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں سے ان بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لئے ان ہمیشگی کے بہشتوں (سدا بہار باغوں) میں پاک و پاکیزہ مکانات ہوں گے۔ اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔ (72) اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں۔ اور ان پر سختی کریں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔ (73) وہ تمہارے سامنے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (وہ بات) نہیں کہی۔ حالانکہ انہوں نے یقینا کفر کا کلمہ کہا ہے۔ اور اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کیا ہے اور انہوں نے وہ کام کرنے کا قصد کیا ہے جسے وہ کر نہ سکے ان کی یہ سب خشمناکی اور عیب جوئی صرف اس وجہ سے ہے کہ خدا و رسول نے (مالِ غنیمت دے کر) ان کو تونگر کر دیا ہے۔ سو اگر وہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہے اور اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا۔ اور تمام روئے زمین پر ان کا کوئی حامی اور یار و مددگار نہ ہوگا۔ (74) اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے (کچھ مال و دولت) سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ضرور نیکوکار بندوں میں سے ہو جائیں گے۔ (75) پھر جب اللہ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور روگردانی کرتے ہوئے (اپنے عہد سے) پھر گئے۔ (76) پس (اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ) خدا نے ان کی وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے یومِ لقا (قیامت) تک ان کے دلوں میں نفاق قائم کر دیا۔ (77) کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے دلی راز اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور وہ غیب کی تمام باتوں کو بڑا جاننے والا ہے۔ (78) یہ ایسے ہیں کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے مؤمنین پر ریاکاری کا عیب لگاتے ہیں۔ اور جو اپنی محنت مزدوری کے سوا اور کچھ نہیں رکھتے (اس لئے راہِ خدا میں تھوڑا مال دیتے ہیں) یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ ان کا مذاق اڑائے گا۔ (اس کی سزا دے گا) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (79) (اے رسول(ص)) آپ ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور خواہ نہ کریں اگر (بالفرض) آپ ان کے لئے ستر بار بھی مغفرت طلب کریں جب بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا۔ اور خدا فاسق (نافرمان) لوگوں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (80) جو (منافق جنگ تبوک میں) پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ رسولِ خدا(ص) کے پیچھے (ان کی خواہش کے خلاف) اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے کو ناپسند کیا۔ اور (دوسروں سے بھی) کہا کہ گرمی میں سفر نہ کرو۔ کہہ دیجیے! کہ دوزخ کی آگ (اس سے) زیادہ گرم ہے کاش وہ یہ بات سمجھتے۔ (81) ان (برے) کاموں کے بدلہ میں جو یہ لوگ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اب وہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔ (82) (اے نبی(ص)) اگر اللہ آپ کو واپس لائے ان کے کسی گروہ کی طرف۔ اور وہ آپ سے جہاد کے لیے نکلنے کی اجازت مانگے تو کہہ دیجیے کہ اب تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکل سکتے۔ اور میرے ہمراہ ہو کر کبھی دشمن سے جنگ نہیں کر سکتے تم نے پہلی بار (گھر میں) بیٹھ رہنا پسند کیا۔ تو اب بھی بیٹھے رہو پیچھے رہ جانے والوں (بچوں اور عورتوں) کے ساتھ۔ (83) اور ان میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بلاشبہ انہوں نے خدا و رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ فسق و نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔ (84) اور ان کے مال و اولاد آپ کو حیرت و تعجب میں نہ ڈالیں خدا چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے انہیں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں جب کوئی اس قسم کی سورت نازل ہوتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو۔ تو ان میں سے جو مقدور والے ہیں وہ آپ سے رخصت مانگتے ہیں۔ (85) اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیں تاکہ ہم گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ (86) ان لوگوں نے یہ بات پسند کی کہ گھر میں پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہیں اور (ان کے نفاق و کفر کی وجہ سے) ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے۔ بس یہ کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ (87) لیکن اللہ کے رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں انہوں نے اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ جہاد کیا اور یہی وہ ہیں جن کے لئے ساری بھلائیاں ہیں۔ اور یہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ (88) اللہ نے ان کے لئے ایسے بہشت (باغات) تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (89) اور صحرائی بَدوؤں میں عذر کرنے والے (آپ کے پاس) آئے کہ انہیں پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اور جنہوں نے (اسلام کا اظہار کرکے) خدا و رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ (بلا اجازت) گھروں میں بیٹھے رہے۔ ان میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔ (90) کمزوروں، بیماروں پر اور ان ناداروں پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں رکھتے کوئی گناہ نہیں ہے (اگر جہاد میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ وہ خلوصِ دل سے اللہ اور رسول کے وفادار ہوں۔ نیکوکاروں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (91) اور نہ ہی ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کے لئے سواری کا کوئی انتظام کریں۔ اور آپ نے کہا کہ میرے پاس سواری کے لئے کچھ نہیں ہے۔ تو وہ اس حال میں مجبوراً واپس گئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس رنج میں کہ ان کے پاس (راہِ خدا میں) خرچ کرنے کے لیے کچھ میسر نہیں ہے۔ (92) ہاں البتہ الزام (اور اعتراض) ان لوگوں پر ہے کہ باوجود دولت مند ہونے کے آپ سے (بیٹھے رہنے کی) اجازت مانگتے ہیں انہوں نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لئے وہ کچھ جانتے بوجھتے نہیں ہیں۔ (93) جب تم لوگ (جہاد سے) لوٹ کر ان کے پاس جاؤگے۔ تو وہ (منافقین) طرح طرح کے عذر پیش کریں گے۔ (اے رسول(ص)) تم کہہ دو بہانے نہ بناؤ۔ ہم ہرگز تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیئے ہیں۔ اب آئندہ اللہ تمہارا طرزِ عمل دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم غائب اور حاضر کے جاننے والے (خدا) کی طرف لوٹائے جاؤگے وہ تمہیں بتلائے گا جو کچھ تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو۔ (94) جب تم ان کے پاس لوٹ جاؤگے تو وہ ضرور تمہارے سامنے اللہ کی قَسمیں کھائیں گے۔ تاکہ تم ان سے درگزر کرو۔ سو تم ان سے رخ پھیر ہی لو۔ یہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ ان کے کئے کی سزا ہے۔ جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (95) یہ لوگ تمہارے سامنے قَسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ۔ سو تم اگر ان سے راضی بھی ہو جاؤ تو اللہ تو کبھی فاسق (نافرمان) قوم سے راضی ہونے والا نہیں ہے۔ (96) صحرائی عرب کفر و نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ ان احکام کے حدود و قیود کو نہ سمجھیں جو خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل کئے ہیں اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (97) صحرائی عربوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ (راہ خدا میں) جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے جرمانہ سمجھتے ہیں اور تمہارے بارے میں زمانہ کی گردشوں کے منتظر ہیں۔ (کہ تم پر کوئی گردش آجائے اور وہ اسلام سے گلو خلاصی کرائیں) حالانکہ بڑی گردش انہی (منافقین) کے لیے ہے۔ خدا سب کچھ جاننے والا ہے۔ (98) اور انہی بدوؤں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔ اسے اللہ کے تقرب اور رسول کی دعاؤں کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ بے شک وہ (خرچ کرنا) ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے۔ اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (99) اور مہاجرین اور انصار میں سے جو ایمان لانے میں سبقت کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے حسنِ عمل میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے۔ اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے بہشت مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (100) اور جو تمہارے اردگرد صحرائی عرب بستے ہیں ان میں کچھ منافق ہیں۔ اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی (منافق موجود ہیں) جو نفاق پر اڑ گئے ہیں (اس میں مشاق ہوگئے ہیں) (اے رسول(ص)) آپ انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں۔ ہم ان کو (دنیا میں) دوہری سزا دیں گے۔ پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (101) دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ہے (مگر) انہوں نے نیک اور بدعمل خلط ملط کر دیے ہیں بہت ممکن ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے۔ (اور ان پر رحمت کی نظر ڈالے) بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (102) اے رسول! ان لوگوں کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لیں اور اس کے ذریعہ سے انہیں پاک و پاکیزہ کریں۔ اور (برکت دے کر) انہیں بڑھائیں نیز ان کے لیے دعائے خیر کریں کیونکہ آپ کی دعا ان کے لیے تسکین کا باعث ہے اور خدا بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (103) کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول کرتا ہے یقینا اللہ ہی توبہ کا بڑا قبول کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (104) (اے رسول(ص)) ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کیے جاؤ اللہ، اس کا رسول اور مؤمنین تمہارے عمل کو دیکھیں گے (کہ تم کیسے عمل کرتے ہو) اور پھر غائب اور حاضر کے جاننے والے (خدا) کی طرف لوٹائے جاؤگے بس وہ تمہیں بتلائے گا تم کیا عمل کرتے ہو۔ (105) اور کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جن کا معاملہ خدا کے حکم پر موقوف ہے وہ انہیں سزا دے یا ان کی توبہ کرے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (106) اور (منافقین میں سے) وہ لوگ بھی ہیں۔ جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنائی کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں اور مؤمنین میں تفرقہ ڈالیں۔ اور ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا و رسول سے جنگ کر چکے ہیں وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ بھلائی کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ (107) (اے رسول(ص)) تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ بے شک وہ مسجد جس کی اول دن سے تقویٰ و پرہیزگاری پر بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں (مسجد قبا و مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک و صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک و صاف رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے (108) آیا وہ شخص بہتر ہے جو اپنی عمارت کی بنیاد خوفِ خدا اور اس کی خوشنودی پر رکھے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر رکھی اور پھر وہ اسے لے کر دوزخ کی آگ میں جاگری اور اللہ ظالموں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (109) یہ عمارت جو ان لوگوں نے بنائی ہے (مسجدِ ضرار) یہ ہمیشہ ان کے دلوں کو مضطرب رکھے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں بلاشبہ خدا بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (110) بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ (111) (ان لوگوں کے اوصاف یہ ہیں کہ) یہ توبہ کرنے والے (اللہ کی عبادت کرنے والے (اس کی) حمد و ثنا کرنے والے (اس کی راہ میں) سیر و سیاحت کرنے والے (یا روزہ رکھنے والے) رکوع و سجود کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی مقررہ حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مؤمنوں کو خوشخبری دے دو (اور یہی وہ مؤمن ہیں)۔ (112) نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں یہ زیبا نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔ (113) اور ابراہیم نے جو اپنے باپ (تایا) کے لیے دعائے مغفرت کی تھی تو وہ ایک وعدہ کی بنا پر تھی جو وہ کر چکے تھے۔ مگر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ اس سے بیزار ہوگئے بے شک جناب ابراہیم بڑے ہی دردمند اور غمخوار و بردبار انسان تھے۔ (114) اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اس وقت تک گمراہ نہیں قرار دیتا جب تک ان پر یہ واضح نہ کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ (115) اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی حکومت ہے اور وہی حیات و موت کا دینے والا ہے اس کے علاوہ تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔ (116) بیشک خدا نے پیغمبر اور ان مہاجرین و انصار پر رحم کیا ہے جنہوں نے تنگی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا ہے جب کہ ایک جماعت کے دلوں میں کجی پیدا ہو رہی تھی پھر خدا نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا کہ وہ ان پر بڑا ترس کھانے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ (117) اور اللہ نے ان تینوں پر بھی رحم کیا جو جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین جب اپنی وسعتوں سمیت ان پر تنگ ہوگئی اور ان کے دم پر بن گئی اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے تو اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کر لیں اس لئے کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ (118) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (119) مدینہ کے باشندوں اور صحرائی عربوں کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ پیغمبر خدا کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے بیٹھیں۔ اور ان کی جان کی پرواہ نہ کرکے اپنی جانوں کی فکر میں لگ جائیں یہ اس لیے ہے کہ ان (مجاہدین) کو راہ خدا میں (جو بھی مصیبت پیش آتی ہے۔ وہ خواہ) پیاس ہو، جسمانی زحمت و مشقت ہو، بھوک ہو۔ یا کسی ایسے راستہ پر چلنا جو کافروں کے غم و غصہ کا باعث ہو یا دشمن کے مقابلہ میں کوئی کامیابی حاصل کرنا مگر یہ کہ ان تمام تکلیفوں کے عوض ان کے لیے ان کے نامۂ اعمال میں نیک عمل لکھا جاتا ہے یقینا اللہ نیکوکاروں کا اجر و ثواب ضائع نہیں کرتا۔ (120) اسی طرح وہ راہِ خدا میں کوئی تھوڑا یا بہت مال خرچ نہیں کرتے اور نہ کوئی وادی (میدان) طئے کرتے ہیں مگر یہ کہ ان کے لئے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ خدا ان کی کار گزاریوں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔ (121) اور یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوں تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کہ ہر جماعت میں سے کچھ لوگ نکل آئیں تاکہ وہ دین میں تفقہ (دین کی سمجھ بوجھ) حاصل کریں اور جب (تعلیم و تربیت کے بعد) اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئیں۔ تو اسے (جہالت بے ایمانی اور بد عملی کے نتائج سے) ڈرائیں تاکہ وہ ڈریں۔ (122) اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ جنگ میں تمہارے اندر سختی محسوس کریں۔ اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ (123) اور جب کوئی سورہ نازل ہوتی ہے تو ان (منافقوں) میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو (طنزیہ طور پر کہتے ہیں) کہ اس نے تم لوگوں میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے؟ (اس کا جواب یہ ہے) کہ جو لوگ ایمان والے ہیں اس نے ان کا ایمان تو زیادہ کر دیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ (124) اور جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے تو یہ سورہ ان کی موجودہ نجاست و خباثت میں اور اضافہ کر دیتی ہے اور وہ کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں۔ (125) کیا (یہ لوگ) نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (126) اور جب کوئی سورہ نازل ہوتی ہے( جس میں منافقوں کا تذکرہ ہوتا ہے) تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور (آنکھوں کے اشارہ سے) کہتے ہیں تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ (پھر چپکے سے) پلٹ جاتے ہیں دراصل اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ بالکل ناسمجھ لوگ ہیں۔ (127) (اے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ (128) (اے رسول(ص)) اگر اس پر بھی یہ لوگ روگردانی کرتے ہیں تو کہہ دیجیے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ (129)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ انفال اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہیں۔ پس اگر تم مؤمن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ اور اپنے باہمی تعلقات و معاملات کی اصلاح کرو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (1) (کامل) ایمان والے تو بس وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہر ایک حال میں اپنے پروردگار پر توکل (بھروسہ) رکھتے ہیں۔ (2) جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (3) بے شک ایسے لوگ حقیقی مؤمن ہیں۔ ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں مرتبے ہیں۔ اور بخشش ہے اور بہترین روزی ہے۔ (4) (یہ انفال کا معاملہ ایسا ہی ہے) جیساکہ آپ کے پروردگار نے (جنگِ بدر میں) حق کے ساتھ آپ کو آپ کے گھر سے نکالا اور اہلِ ایمان کا ایک گروہ اس کو ناپسند کر رہا تھا۔ (5) باوجودیکہ حق واضح ہوگیا تھا مگر وہ گروہ آپ سے اس امرِ حق میں یوں جھگڑ رہا تھا۔ کہ گویا اسے موت کی طرف ہانک کر لے جایا جا رہا ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے موت کو دیکھ رہا ہے۔ (6) اور (یاد کرو وہ وقت) کہ جب خدا نے تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہارے لئے ہے (تمہارے ہاتھ آئے گا) اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام و احکام کے ذریعہ سے حق کو ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ (7) تاکہ حق کو حق کرکے اور باطل کو باطل کرکے دکھا دے اگرچہ مجرم لوگ اس بات کو کتنا ہی ناپسند کریں (یعنی خدا چاہتا تھا کہ تمہاری مسلح گروہ سے مڈبھیڑ ہو)۔ (8) (اس وقت کو یاد کرو) جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد سن لی (اور فرمایا) کہ تمہاری مدد کے لیے یکے بعد دیگرے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ (9) اور اللہ نے ایسا اس لئے کیا کہ تمہارے لئے خوشخبری ہو اور تمہارے مضطرب دلوں کو اطمینان ہو ورنہ فتح و فیروزی تو بہرحال اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ یقینا اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ (10) اور وہ وقت (بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ) جب اللہ نے تمہیں غنودگی سے ڈھانپ دیا تھا تاکہ اس کی طرف سے تمہیں امن و سکون حاصل ہو۔ اور آسمان سے تم پر پانی برسا رہا تھا۔ تاکہ تمہیں پاک صاف کرے اور تم سے شیطان کی نجاست و ناپاکی دور کرے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے (تمہاری ڈھارس بندھائے) اور تمہارے قدموں کو جمائے۔ (11) اور وہ وقت بھی (یاد رکھنے کے قابل ہے) جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو۔ میں عنقریب کافروں کے دلوں میں (مؤمنوں کا) رعب ڈال دوں گا سو (اے مسلمانو) تم کافروں کی گردنوں پر ضرب لگاؤ اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔ (12) یہ اس لئے ہے کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول(ص) کی مخالفت کی۔ یاد رکھو کہ جو کوئی بھی خدا اور رسول کی مخالفت کرے گا تو اللہ (مکافاتِ عمل میں) سخت سزا دینے والا ہے۔ (13) (اے مخالفینِ حق) دنیا میں تمہاری یہ سزا ہے۔ پس اس کا مزہ چکھو۔ اور (آخرت میں) آتشِ دوزخ کا عذاب بھی ہے۔ (14) اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہاری مڈبھیڑ ہو جائے تو خبردار! ان کے مقابلہ میں ان کو پیٹھ نہ دکھانا (بلکہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جم کر لڑنا)۔ (15) اور جو ایسے (جنگ والے) موقع پر ان کو پیٹھ دکھائے گا۔ سوا اس کے جو جنگی چال کے طور پر ہٹ جائے۔ یا کسی (اپنے) فوجی دستہ کے پاس جگہ لینے کے لیے ایسا کرے (کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے) تو وہ خدا کے قہر و غضب میں آجائے گا۔ اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ اور وہ بہت بری جائے بازگشت ہے۔ (16) (اے مسلمانو) تم نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا اور (اے رسول(ص)) وہ سنگریزے تو نے نہیں پھینکے جبکہ تو نے پھینکے بلکہ خدا نے پھینکے (یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ) خدا اہلِ ایمان پر خوب احسان فرمائے (یا اللہ اس کے ذریعہ سے ایمان والوں کو بہترین آزمائش میں ڈال کر آزمائے) یقینا اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (17) یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہو چکا ہے اور (کفار کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ) اللہ ان کی مخفی تدبیروں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (18) اور (اے کفارِ مکہ) اگر تم فتحمندی کے طلبگار ہو (کہ جو حق پر ہے اس کی فتح ہو) تو (مسلمانوں کی) فتح تمہارے سامنے آگئی! اور اگر تم اب بھی (جنگ و جدال) سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر پلٹ کر پھر وہی (شرارت) کروگے تو ہم بھی وہی کریں گے (مسلمانوں کی نصرت کریں گے اور تمہیں سزا دیں گے) اور تمہاری جمعیت چاہے کتنی ہی زیادہ ہو تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ بے شک اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ (19) اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم (آوازِ حق) سن رہے ہو۔ (20) اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ (دراصل) وہ کچھ بھی سنتے (سناتے) نہیں ہیں۔ (21) بے شک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر جانور وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ (22) اگر اللہ جانتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو ضرور انہیں سنوا دیتا اور اگر (اس بھلائی کے بغیر) انہیں سنواتا۔ تو وہ بے رخی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر دیتے۔ (23) اے ایمان والو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو۔ جب کہ وہ (رسول) تمہیں بلائیں۔ اس چیز کی طرف جو تمہیں (روحانی) زندگی بخشنے والی ہے۔ اور جان لو۔ کہ اللہ (اپنے مقررہ اسباب کے تحت) انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور (یہ بھی جان لو کہ) تم سب اسی کے حضور جمع کئے جاؤگے۔ (24) اور اس فتنہ سے بچو جو صرف انہی تک محدود نہیں رہے گا جنہوں نے تم میں سے ظلم و تعدی کی (بلکہ سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے) اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (25) اور وہ وقت یاد کرو۔ جب تم تھوڑے تھے اور ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اللہ نے تمہیں (مدینہ میں) پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاک و پاکیزہ چیزیں دے کر رزق کا سامان مہیا کر دیا۔ تاکہ تم شکر گزار ہو۔ (26) اے ایمان والو! سمجھتے بوجھتے ہوئے اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔ (27) اور جان لو۔ کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لئے) ایک آزمائش ہیں اور یہ بھی کہ اللہ ہی کے پاس بڑا اجر ہے۔ (28) اے ایمان والو اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کرو۔ تو خدا تمہیں حق و باطل میں تفرقہ کرنے کی قوت و صلاحیت عطا فرمائے گا۔ اور تمہاری برائیوں کو ڈھانپ لے گا (پردہ پوشی کرے گا) اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا فضل (و کرم) والا ہے۔ (29) اور (اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو جب کافر آپ کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں۔ یا قتل کریں۔ یا شہر بدر کر دیں وہ بھی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (30) اور جب ان کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہاں ہم نے سن لیا۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام پیش کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں ہیں مگر گزرے ہوئے لوگوں کی داستانیں۔ (31) (اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو۔ جب انہوں نے کہا۔ اے اللہ! اگر یہ (اسلام) تیری طرف سے برحق ہے۔ تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب لا۔ (32) اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور اللہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ استغفار کر رہے ہیں۔ (33) لیکن اللہ کیوں نہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد الحرام سے (مسلمانوں کو) روک رہے ہیں حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہیں اس کے متولی تو صرف پرہیزگار لوگ ہیں۔ لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ (34) اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز نہیں تھی۔ مگر سیٹیاں اور تالیاں بجانا۔ سو اب عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ تمہارے کفر کی پاداش ہے جو تم کیا کرتے تھے۔ (35) بے شک جو لوگ کافر ہیں وہ اس لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکیں یہ آئندہ بھی اسی طرح خرچ کریں گے اور پھر انجام کار یہ (مال خرچ کرنا) ان کے لئے حسرت اور پچھتاوے کا باعث بن جائے گا۔ اور بالآخر وہ مغلوب ہو جائیں گے۔ اور جو کافر ہیں وہ گھیر گھار کر جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے۔ (36) اور یہ سب کچھ اس لئے ہوگا کہ اللہ ناپاک (لوگوں) کو پاک لوگوں سے جدا کر دے اور جو ناپاک ہیں ان کو ایک دوسرے پر تہہ بہ تہہ رکھ کر ڈھیر بنائے اور پھر اس سارے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ (نقصان) اٹھانے والے ہیں۔ (37) (اے رسول(ص)) کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ اب بھی (شرارت سے) باز آجائیں۔ تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنی سابقہ روش کا اعادہ کریں گے تو پھر گزشتہ (نافرمان) قوموں کے ساتھ (خدا کی روش) بھی گزر چکی ہے (ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا)۔ (38) (اے مسلمانو) ان (کفار) سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ و فساد ختم ہو جائے اور دین پورے کا پورا صرف اللہ کے لئے ہو جائے پھر اگر وہ (کفر و فتنہ پردازی سے) باز آجائیں تو وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (39) تو پھر جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست و کارساز ہے وہ کیا ہی اچھا سرپرست ہے۔ کیا ہی اچھا یار و مددگار ہے۔ (40) اور جان لو کہ جو چیز بھی تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے، (اور رسول کے) قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (یہ واجب ہے) اگر تم اللہ پر اور اس (غیبی نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندۂ خاص پر حق و باطل کا فیصلہ کر دینے والے دن نازل کی تھی جس دن (مسلمانوں اور کافروں کی) دو جمعیتوں میں مڈبھیڑ ہوئی تھی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (41) جس وقت تم قریب کے ناکہ پر تھے اور وہ دور کے ناکہ پر اور قافلہ تم سے ادھر نیچے (ساحل سمندر پر) تھا اگر تم ایک دوسرے سے وقت مقرر بھی کر لیتے تو بھی تم میں اختلاف ہو جاتا۔ لیکن خدا نے تو اس بات کو پورا کرنا تھا جو (مڈبھیڑ) ہونے والی تھی۔ تاکہ جو ہلاک ہو وہ اتمامِ حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو وہ بھی اتمام حجت کے بعد زندہ رہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (42) (اور اے نبی) وہ وقت یاد کرو۔ جب اللہ نے خواب میں آپ کو ان (کفار) کی تعداد تھوڑی کرکے دکھائی تھی اور اگر وہ انہیں زیادہ کرکے دکھاتا تو تم ہمت ہار جاتے۔ اور آپس میں جھگڑنے لگتے۔ لیکن اللہ نے اس سے بچایا۔ بے شک اللہ سینوں کے اندر والی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ (43) وہ وقت یاد کرو۔ کہ جب اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں میں کم کرکے دکھایا۔ اور تمہاری تعداد کو ان کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ اللہ اس کو پورا کرے جو ہو کر رہنا تھا۔ اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔ (44) اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہا کرو۔ اور اللہ کو یاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ (45) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اور آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ ورنہ کمزور پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور (ہر قسم کی مصیبت و تکلیف میں) صبر سے کام لو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (46) اور ان لوگوں کی مانند نہ ہو جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان و شوکت دکھاتے ہوئے نکلے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ (اپنے علم و قدرت سے) اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (47) اور وہ وقت یاد کرو جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کر دیئے (انہیں خوشنما کرکے دکھایا) اور کہا آج کے دن لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے۔ اور میں تمہارا حامی ہوں۔ پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو وہ الٹے پاؤں واپس ہوا اور کہا میں تم سے بری الذمہ ہوں۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اور اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ (48) اور (وہ وقت بھی قابل یاد ہے) جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کو ان کے دین نے فریب اور خبط میں مبتلا کر دیا ہے اور جو کوئی اللہ پر توکل (بھروسہ) کرتا ہے سو اللہ بڑا زبردست، بڑا حکمت والا ہے۔ (49) اور کاش تم وہ موقع دیکھو کہ جب فرشتے کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب عذابِ آتش کا مزہ چکھو۔ (50) (اے دشمنانِ حق!) یہ سزا ہے اس کی جو تمہارے ہاتھ پہلے بھیج چکے ہیں۔ اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (51) ان کا حال قومِ فرعون اور ان لوگوں جیسا ہے۔ جو ان سے پہلے گزر چکے جنہوں نے آیاتِ الٰہی کا انکار کیا اور خدا نے انہیں گناہوں پر پکڑ لیا۔ بے شک اللہ بڑا طاقتور ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ (52) یہ اس بنا پر ہے کہ اللہ کبھی اس نعمت کو تبدیل نہیں کرتا جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہے جب تک وہ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر دیں اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (53) (کفارِ مکہ کا) حال قومِ فرعون اور ان سے پہلے گزرے ہوئے (سرکشوں) کا سا ہے جنہوں نے آیاتِ الٰہی کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا اور فرعونیوں کو (سمندر میں) غرق کر دیا۔ اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔ (54) بے شک زمین پر چلنے والی سب مخلوق میں سے بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں اور اب وہ کسی طرح بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ (55) (اے رسول(ص)) جن لوگوں سے آپ نے (کئی بار صلح کا) معاہدہ کیا اور انہوں نے ہر بار اسے توڑا۔ اور وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے۔ (56) پس اگر وہ جنگ میں آپ کے ہاتھ آجائیں تو (انہیں ایسی عبرتناک سزا دیں کہ) جو ان کے بعد والے ہیں (ان کے پشت پناہ ہیں) ان کو منتشر کر دیں۔ تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ (57) اور اگر آپ کو کسی جماعت کی طرف سے خیانت (عہد شکنی کا) اندیشہ ہو تو پھر ان کا معاہدہ اس طرح ان کی طرف پھینک دیں کہ معاملہ برابر ہو جائے۔ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (58) اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے گئے (بچ گئے)۔ یقینا وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ (59) (اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لئے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔ تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔ جن کو تم نہیں جانتے البتہ اللہ ان کو جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ (جہاد) میں خرچ کروگے تمہیں اس کا پورا پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کسی طرح ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (60) اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھیں بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا علم والا ہے۔ (61) اور اگر ان کا ارادہ یہ ہو کہ آپ کو دھوکہ دیں۔ تو (فکر نہ کریں) اللہ تمہارے لئے کافی ہے وہ وہی ہے جس نے اپنی نصرت اور مؤمنین کی جماعت سے آپ کی تائید کی۔ (62) اور اسی نے ان (اہلِ ایمان) کے دلوں میں الفت پیدا کی۔ اگر آپ تمام روئے زمین کی دولت بھی خرچ کر دیتے تو ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اللہ نے (اپنی قدرتِ کاملہ سے) ان کے درمیان الفت پیدا کر دی بے شک وہ غالب اور بڑا حکمت والا ہے۔ (63) اے نبی! آپ کے لئے اللہ اور وہ اہلِ ایمان کافی ہیں جو آپ کے پیروکار ہیں۔ (64) اے نبی(ص)! اہلِ ایمان کو جنگ پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس صابر (ثابت قدم) آدمی ہوئے تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو ہوئے تو کافروں کے ایک ہزار پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ (65) اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کر دیا اور اسے معلوم ہوگیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ تو اب اگر تم میں سے ایک سو صابر (ثابت قدم) ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے۔ اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (66) اور یہ بات نبی کے شایانِ شان نہیں ہے کہ اس کے لیے قیدی ہوں۔ جب تک وہ زمین میں خوب خون ریزی نہ کرے (فتنہ کو کچل نہ دے) تم دنیا کا مال و متاع چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ (67) اگر خدا کی جانب سے پہلے ایک نوشتہ موجود نہ ہوتا۔ تو تم نے جو کچھ کیا ہے اس کی پاداش میں ضرور تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔ (68) بہرکیف جو کچھ تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اسے حلال اور پاکیزہ سمجھ کر کھاؤ اور اللہ (کی نافرمانی سے) ڈرو۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (69) اے نبی! ان قیدیوں سے کہو جو آپ کے قبضہ میں ہیں کہ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی اور بھلائی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔ اور تمہیں بخش بھی دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (70) اور اگر انہوں نے آپ کو فریب دینا چاہا۔ تو وہ اس سے پہلے خدا کو فریب دے چکے ہیں اور (اس کی پاداش میں) اللہ نے (آپ کو) ان پر قابو دے دیا کیونکہ خدا بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (71) یقینا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور امداد کی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہیں۔ اور وہ لوگ جو ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہجرت کریں۔ اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا فرض ہے۔ سوا اس صورت کے کہ یہ مدد اس قوم کے خلاف مانگیں جس سے تمہارا معاہدۂ امن ہو۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھنے والا ہے۔ (72) اور جو کافر ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہیں اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد پھیل جائے گا۔ (73) جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور امداد کی یہی لوگ سچے مؤمن ہیں۔ ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ (74) اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں اور جو صاحبانِ قرابت ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں (میراث کے سلسلہ میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (75)

قرآن