قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، میم، ص۔(1) یہ ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔لہٰذا تمہارے دل میں اس کی وجہ سے کوئی تنگی نہیں ہونا چاہیے۔(یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے) تاکہ آپ اس کے ذریعہ سے (لوگوں کو خدا کے عذاب سے) ڈرائیں اور اہلِ ایمان کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہو۔(2) (اے لوگو) جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔اور اس (پروردگار) کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں (حوالی موالی) کی پیروی نہ کرو۔تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔(3) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا پس ہمارا عذاب ان پر راتوں رات آیا یا جب وہ دن میں قیلولہ کر رہے تھے (سو رہے تھے)۔(4) جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو اس کے سوا ان کی اور کوئی پکار نہ تھی کہ بے شک ہم ظالم تھے۔(5) بے شک ہم ان لوگوں سے بھی باز پرس کریں گے۔جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے۔اور خود رسولوں سے بھی پوچھ گچھ کریں گے۔(6) پھر ہم پورے علم کے ساتھ ان کے سامنے سب (حالات و واقعات) بیان کریں گے آخر ہم غیر حاضر تو تھے نہیں۔(7) اور اس دن وزن (اعمال کا تولا جانا) بالکل حق ہے پس جس کے پلے بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے۔(8) اور جس کے پلے ہلکے ہوں گے۔وہ اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ناانصافی کرتے تھے۔(9) اور ہم نے تمہیں زمین میں تمکین دی (اقتدار و اختیار دیا) اور اس میں تمہارے لئے زندگی گزارنے کے سامان فراہم کئے۔مگر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔(10) بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا اور پھر تمہاری صورت گری کی اس کے بعد فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔(11) (خدا نے) فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو تجھے کس چیز نے روکا؟ کہا میں اس (آدمؑ) سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔(12) ارشاد ہوا۔تو پھر تو یہاں سے نیچے اتر جا۔کیونکہ تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو یہاں رہ کر تکبر و غرور کرے۔بس یہاں سے نکل جا۔یقینا تو ذلیلوں میں سے ہے۔(13) کہا۔مجھے اس دن تک مہلت دے جب سب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔(14) فرمایا: اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے۔(15) کہا چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو اب میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھوں گا۔(16) پھر میں ان کے آگے کی طرف سے اور ان کے پیچھے کی جانب سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا (اور انہیں ورغلاؤں گا) اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔(17) فرمایا: ذلیل اور راندہ ہوکر یہاں سے نکل جا میں تجھے اور اسے جو ان میں سے تیری پیروی کرے گا تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔(18) اور اے آدمؑ! تم اور تمہاری بیوی دونوں اس بہشت میں رہو۔اور جہاں سے چاہو (اور جو چیز دل چاہے) کھاؤ۔مگر اس درخت کے پاس نہ جانا۔ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤگے۔(19) تو شیطان نے جھوٹی قسم کھا کر ان دونوں کو وسوسہ میں ڈالا۔تاکہ ان کے وہ ستر والے مقام جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھے ظاہر کر دے اور کہا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں صرف اس لئے اس درخت سے روکا ہے کہ کہیں فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔(20) اور اس نے دونوں سے قسم کھائی کہ میں تمہارے سچے خیرخواہوں میں سے ہوں۔(21) اس طرح اس نے ان دونوں کو فریب سے مائل کر دیا (اور اس طرح جنت) کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں تک پہنچا دیا۔پس جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا۔تو ان کے جسم کے چھپے ہوئے حصے نمودار ہوگئے اور وہ جنت کے پتوں کو جوڑ کر اپنے یہ مقام (ستر) چھپانے لگے تب ان کے پروردگار نے ان کو ندا دی۔کیا میں نے تمہیں اس درخت کے پاس جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔(22) اس وقت ان دونوں نے کہا۔اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔اور اگر تو درگزر نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔(23) ارشاد ہوا! تم دونوں (بہشت سے) نیچے اترو۔تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت معلوم تک تمہارا زمین میں ہی ٹھکانہ اور سامانِ زیست ہے۔(24) (یہ بھی فرمایا) اسی زمین میں تم نے جینا ہے اور وہیں مرنا ہے اور پھر اسی سے دوبارہ نکالے جاؤگے۔(25) اے اولادِ آدمؑ! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے قابلِ ستر حصوں کو چھپاتا ہے اور (باعث) زینت بھی ہے۔اور تقویٰ و پرہیزگاری کا لباس یہ سب سے بہتر ہے یہ (لباس بھی) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔(26) اے اولادِ آدم! (ہوشیار رہنا) کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا۔اور ان کے جسم سے کپڑے تک اتروا دیئے تھے تاکہ ان کے جسم کے قابلِ ستر حصے ان کو دکھا دے یقینا وہ (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمہیں جس طرح اور جہاں سے دیکھتا ہے تم انہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتے بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔(27) اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور خدا نے (بھی) ہمیں یہی حکم دیا ہے اے رسول کہیئے کہ یقینا کبھی اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ پر ایسی بات کی تہمت لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے؟ (28) اے رسولؑ کہو! میرے پروردگار نے مجھے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ اپنے چہرہ کو سیدھ پر رکھو ہر نماز کے وقت اور اسی کو پکارو دین کو اسی کے لئے خالص کرکے جس طرح اس نے پہلی بار تمہیں پیدا کیا تھا اسی طرح تم (اس کے حضور پلٹ) کر جاؤگے۔(29) ایک گروہ کو تو اس نے ہدایت دے دی ہے اور ایک گروہ پر گمراہی ثبت ہوگئی ہے۔انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور پھر وہ (اپنے متعلق) خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔(30) اے اولادِ آدم! ہر نماز کے وقت زینت کرو اور کھاؤ پیو۔اور اسراف (فضول خرچی) نہ کرو۔کیونکہ وہ بے شک اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔(31) (اے رسول ان لوگوں سے) کہو کہ اللہ کی زیب و زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہے کس نے حرام کیا ہے؟ اور کھانے کی اچھی اور پاکیزہ غذاؤں کو (کس نے حرام کیا ہے؟)! وہ تو دراصل ہیں ہی اہلِ ایمان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور خاص کر قیامت کے دن تو خالص انہی کے لئے ہیں۔اسی طرح ہم اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔(32) تم کہہ دو! میرے پروردگار نے صرف بے حیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے خواہ ظاہری ہوں یا باطنی۔اور اثم (ہر گناہ یا شراب) کو اور کسی پر ناحق زیادتی کو اور یہ کہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جس کا تمہیں علم و یقین نہ ہو۔(33) اور ہر امت (قوم) کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔پس جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو نہ وہ ایک ساعت کے لیے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ ایک ساعت آگے بڑھ سکتے ہیں۔(34) اے اولادِ آدم اگر تمہارے پاس تم ہی سے میرے کچھ رسول آئیں جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں (اور میرے احکام تم تک پہنچائیں) تو جو شخص پرہیزگاری اختیار کرے گا۔اور اپنی اصلاح کرے گا۔ان کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(35) اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں تکبر کریں گے وہی لوگ جہنم والے ہوں گے جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(36) اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے (خود جھوٹی باتیں گھڑ کر اس کی طرف منسوب کرے) یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے، ایسے لوگوں کو نوشتۂ کتاب (اپنے مقدر) کا حصہ تو ملے گا۔لیکن جب ان کے پاس ہمارے فرستادہ (فرشتے) ان کی روحوں کو قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو وہ ان سے کہیں گے۔(آج) وہ کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ وہ تو ہم سے غائب ہوگئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ بے شک وہ کافر تھے۔(37) ارشاد ہوگا تم بھی اسی جہنم میں داخل ہو جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے جن و انس کے گروہ داخل ہو چکے ہیں (اور) جب بھی کوئی (جہنم میں) داخل ہوگا تو اپنے ساتھ (پیش رو) گروہ پر لعنت کرے گا۔یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے (سب واصلِ جہنم ہو جائیں گے) تو بعد والا گروہ پہلے گروہ کے بارے میں کہے گا اے پروردگار! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا اس لئے انہیں دوزخ کا دوگنا عذاب دے۔ارشاد ہوگا ہر ایک کے لئے دونا عذاب ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔(38) اور ان کا پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا۔کہ (اگر ہم مستوجبِ الزام تھے) تو پھر تم کو ہم پر کوئی فضیلت تو نہ ہوئی؟ بس (ہماری طرح) تم بھی اپنے کئے کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔(39) یقینا جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر و غرور کیا۔ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔اور اس وقت تک وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہیں گزر جائے گا ہم اسی طرح مجرموں کو بدلہ دیا کرتے تھے۔(40) ان کا بچھونا بھی جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی جہنم کا ہم اسی طرح ظالموں کو بدلہ دیتے ہیں۔(41) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے یہی لوگ جنتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(42) اور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔جو تم انجام دیا کرتے تھے۔(43) اور جنتی لوگ دوزخیوں کو ندا دیں گے کہ ہمارے پروردگار نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے تو سچا پا لیا ہے کیا تم نے بھی اس وعدہ کو جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا سچا پایا ہے؟ وہ (جواب میں) کہیں گے ہاں تب ایک منادی ان کے درمیان ندا کرے گا کہ خدا کی لعنت ان ظالموں پر۔(44) جو اللہ کے راہ سے (لوگوں کو) روکتے رہے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے رہے ہیں۔اور وہ آخرت کا انکار کرتے رہے ہیں۔(45) اور ان دونوں (بہشت و دوزخ) کے درمیان پردہ ہے (حدِ فاصل ہے) اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچان لیں گے۔اور وہ بہشت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلام ہو اور یہ لوگ (ابھی) اس میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔حالانکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں گے۔(46) اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔(47) اور پھر اعراف والے لوگ (دوزخ والے چند آدمیوں کو) آواز دیں گے جنہیں وہ علامتوں سے پہچانتے ہوں گے۔کہ آج تمہاری جمعیت اور تمہارا غرور و پندار کچھ کام نہ آیا اور تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔(48) (پھر کچھ مستحقین جنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہیں گے) کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اللہ ان تک اپنی کچھ بھی رحمت نہیں پہنچائے گا۔(پھر ان مستحقین جنت سے کہیں گے) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ۔نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم مغموم ہوگے۔(49) اور دوزخ والے بہشت والوں کو پکاریں گے کہ تھوڑا سا پانی یا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھانے کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ ہماری طرف انڈیل دو وہ (جواب میں) کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔(50) جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا لیا تھا اور جنہیں زندگانئ دنیا نے دھوکہ دیا تھا آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح انہوں نے آج کے اس دن کی حاضری کو بھلا دیا تھا۔اور جیسے وہ ہماری آیتوں کو برابر جھٹلاتے رہے تھے۔(51) اور بے شک ہم ان کے پاس ایک ایسی کتاب لائے ہیں جسے ہم نے پورے علم کے ساتھ خوب واضح کر دیا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لئے برابر ہدایت و رحمت ہے۔(52) کیا یہ لوگ اس (قرآن کی دھمکی) کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں؟ (کہ سامنے آئے) حالانکہ جس دن اس کا انجام (سامنے) آئے گا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اس کو بھلایا ہوگا کہیں گے بے شک ہمارے پروردگار کے رسول ہمارے پاس سچائی کے ساتھ آئے تھے تو کیا آج ہمارے لئے کچھ سفارشی ہیں؟ جو ہماری سفارش کریں یا (یہ ممکن ہے کہ) ہمیں دوبارہ واپس بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم (پہلے) کیا کرتے تھے اس کے خلاف کچھ اور (نیک عمل) کریں؟ یقینا انہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور وہ افترا پردازیاں جو وہ کیا کرتے تھے آج ان سے گم ہوگئیں۔(53) بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔پھر عرش کی جانب متوجہ ہوا (اور کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض ہوا) جو رات سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے۔کہ اسے تیزی کے ساتھ جا پکڑتی ہے۔اور جس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔کہ وہ سب طبعی طور پر اس کے حکم کے تابع ہیں خبردار! پیدا کرنا اور حکم دینا اس سے مخصوص ہے۔بابرکت ہے اللہ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔(54) اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرو۔بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔(55) اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو۔اور خدا سے خوف اور امید کے ساتھ دعا کرو۔بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں سے قریب ہے۔(56) وہ وہی (خدا) ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری کے لئے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ بستی کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں اور پھر وہاں پانی برسا دیتے ہیں۔اور پھر ہم اس کے ذریعہ سے طرح طرح کے پھل نکالتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو (بھی زندہ کرکے) باہر نکالیں گے شاید کہ تم عبرت اور نصیحت حاصل کرو۔(57) اور جو زمین عمدہ و پاکیزہ ہوتی ہے خدا کے حکم سے اس کی نبات (پیداوار) خوب نکلتی ہے اور جو خراب اور ناکارہ ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی خراب اور بہت کم نکلتی ہے ہم اسی طرح شکر گزار قوم کے لیے اپنی نشانیاں الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں۔(58) ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا۔تو انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی اللہ نہیں ہے۔یقینا مجھے تمہاری نسبت ایک بڑے سخت دن (قیامت) کے عذاب کا اندیشہ ہے۔(59) ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔ہم تو تم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔(60) نوح نے کہا اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں تو سارے جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(61) تمہیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں (اور تمہاری خیر خواہی کے لیے) تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔(62) کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس وعظ و نصیحت کا پیغام آیا ہے۔تاکہ وہ تمہیں (خدا کے عذاب سے) ڈرائے! اور تاکہ تم پرہیزگار بنو۔اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(63) (مگر) ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا۔(جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ہم نے انہیں اور جو کشتی میں ان کے ساتھ تھے ان کو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کر دیا بے شک وہ اندھے (بے بصیرت) لوگ تھے۔(64) اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہود کو بھیجا۔انہوں نے کہا! اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔آخر تم پرہیزگاری کیوں اختیار نہیں کرتے؟ (65) ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہم تمہیں حماقت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔(66) ہود نے کہا! اے میری قوم، مجھ میں کوئی حماقت نہیں ہے بلکہ میں تو سارے جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(67) تمہارے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔اور تمہارا امانتدار ناصح ہوں۔(68) کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس وعظ و نصیحت کا پیغام آیا ہے تاکہ وہ تمہیں (خدا کے عذاب سے) ڈرائے اور یاد کرو (خدا کے اس احسان کو) کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا۔اور (تمہاری) خلقت میں یعنی قوت و طاقت اور قد و قامت میں زیادتی اور وسعت عطا کی پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم (ہر طرح) فلاح پاؤ۔(69) انہوں نے کہا (اے ہود ؑ) کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے چلے آئے ہیں اگر تم سچے ہو تو۔ہمارے پاس لاؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔(70) اس (ہود) نے کہا (سمجھ لو کہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب نازل ہوگیا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (از خود) رکھ لئے ہیں۔جن کے متعلق اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی۔اچھا تو پھر تم (خدا کے عذاب کا) انتظار کرو مَیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔(71) پس (آخرکار) ہم نے اپنی رحمت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی (بچا لیا) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہیں تھے ان کی جڑ ہی کاٹ دی۔(72) اور قومِ ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح کو بھیجا۔انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے پروردگار کی طرف سے (میری صداقت کا) ایک خاص معجزہ آچکا ہے جو یہ اللہ کی خاص اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک (قدرتی) نشانی (معجزہ) ہے اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چَرتی پھرے۔اور (خبردار) اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا (اسے تکلیف نہ پہنچانا) ورنہ دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔(73) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قومِ عاد کا جانشین بنایا۔اور تمہیں زمین میں رہنے کے لئے ٹھکانا دیا کہ تم نرم اور ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔اور زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو۔(74) قوم کے بڑے لوگوں نے جو متکبر تھے۔ان کمزور لوگوں سے کہا جو ایمان لائے تھے۔کیا تم جانتے ہو صالح واقعی اپنے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں انہوں نے کہا بے شک ہم تو اس (پیغام) پر ایمان لائے جسے دے کر ان کو بھیجا گیا ہے۔(75) (یہ سن کر) متکبر مزاج بڑے کہنے لگے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے کافر و منکر ہیں۔(76) پھر انہوں نے اس اونٹنی کو پئے کر دیا (اس کی کونچیں کاٹ دیں) اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی و سرتابی کی اور کہا اے صالح! اگر تم رسولوں میں سے ہو تو پھر ہمارے پاس لاؤ وہ (عذاب) جس کی ہمیں دھمکی دیتے ہو۔(77) پس انہیں زلزلہ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔(78) پس وہ (صالح) یہ کہتے ہوئے وہاں سے منہ موڑ کر نکل گئے اے میری قوم! میں نے تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تم کو نصیحت کی مگر تم نصیحت کرنے والے خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔(79) اور ہم نے لوط کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسا بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ ایسا کام تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔(80) یعنی تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو؟ تم بڑے حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو۔(81) ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے کہ انہیں اس بستی سے نکال دو۔یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔(82) تو ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سوا ان کی بیوی کے نجات دی (بچا لیا) ہاں البتہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔(83) اور ہم نے ان پر (پتھروں) کی بارش برسائی تو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا؟ (84) اور ہم نے مدین کی طرف ان کے (قومی) بھائی شعیب کو بھیجا۔انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو۔اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔یقینا تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلا نشان بھی آچکا ہے۔پس ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی (خرید کردہ) چیزیں کم نہ دیا کرو۔اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو۔(85) اور ہر راستے پر اس طرح نہ بیٹھو کہ تم (راہ گیروں) کو ڈراؤ دھمکاؤ اور ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے روکو۔اور اس راہ میں کجی تلاش کرو۔اور وہ وقت یاد کرو۔جب تم تھوڑے تھے تو اس (خدا) نے تمہیں بڑھا دیا اور دیکھو کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوتا رہا ہے۔(86) اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس پر ایمان نہیں لایا تو صبر کرو۔یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(87) اور ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا۔اے شعیب ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم لوگ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ۔شعیب نے کہا اگرچہ ہم اسے ناپسند ہی کرتے ہوں؟ (88) جب اللہ نے ہمیں تمہارے مذہب سے نجات دے دی ہے۔اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے مذہب میں واپس آجائیں تو پھر تو ہم نے اللہ پر جھوٹا بہتان باندھا۔اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ جو ہمارا پروردگار ہے چاہے ہمارا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ہمارا اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔اے ہمارے پروردگار! تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(89) اور ان کی قوم کے ان سرداروں نے جو کافر تھے آپس میں کہا کہ اگر تم شعیب کی پیروی کروگے تو نقصان اٹھاؤگے۔(90) سو زلزلہ نے انہیں آپکڑا جس کے بعد وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔(91) جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہ (اس طرح برباد ہوئے کہ) گویا کبھی ان گھروں میں بستے ہی نہ تھے۔جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا وہی نقصان اٹھانے والے ثابت ہوئے۔(92) (اس وقت) وہ ان سے منہ موڑ کر چلے اور کہا اے میری قوم! میں نے تو یقیناً اپنے پروردگار کے پیغامات تمہیں پہنچا دیئے تھے اور تمہیں نصیحت بھی کی تھی تو (اب) کافر قوم (کے عبرتناک انجام) پر کیونکر افسوس کروں؟ (93) اور ہم نے کبھی کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے باشندوں کو (ان کی تکذیب پر پہلے) سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ تضرع و زاری کریں۔(94) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب بڑھے (اور پھلے پھولے) اور کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی کبھی تکلیف اور کبھی راحت یونہی پہنچتی رہی ہے۔تو ایک دم ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو سکا۔(95) اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔لیکن انہوں نے جھٹلایا۔لہٰذا ہم نے ان کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔(96) آیا ان بستیوں والے اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آجائے جبکہ وہ سو رہے ہوں؟ (97) یا کیا بستیوں والے اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے (چاشت کے وقت) آجائے جبکہ وہ کھیل کود رہے ہوں؟ (98) کیا یہ لوگ اللہ کے عذاب یا اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہوگئے ہیں۔حالانکہ اللہ کے عذاب یا اس کی خفیہ تدبیر سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو گھاٹا اٹھانے والے ہوں۔(99) کیا ان لوگوں پر جو پہلے اہل زمین کی تباہی کے بعد زمین کے وارث بنے ہیں یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کو گناہوں کی وجہ سے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگا دیتے کہ وہ سن (سمجھ) نہ سکیں۔(100) یہ وہ بستیاں ہیں کہ جن کی کچھ خبریں ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں بے شک ان کے پاس ان کے رسول کھلے ہوئے نشان (معجزے) لے کر آئے۔مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ اس بات پر ایمان لاتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے۔اللہ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے۔(101) اور ہم نے ان کی اکثریت میں عہد و پیمان کی پاسداری نہیں پائی اور ہم نے اکثر کو فاسق و فاجر پایا ہے۔(102) پھر ہم نے ان (نبیوں) کے بعد موسیٰ کو اپنی نشانیاں (معجزے) دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔مگر انہوں نے ان (نشانیوں) کے ساتھ ظلم کیا (انکار کر دیا) دیکھو مفسدین کا کیا برا انجام ہوا؟ (103) اور موسیٰ نے کہا اے فرعون میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔(104) میرے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہوں میں تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں۔پس تو بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) میرے ساتھ بھیج دے۔(105) فرعون نے کہا اگر تم کوئی معجزہ لائے ہو تو اگر تم سچے ہو تو اسے پیش کرو۔(106) پس انہوں نے اپنا عصا پھینک دیا اور وہ یکایک کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔(107) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا۔تو وہ ایک دم دیکھنے والوں کے لیے سفید اور روشن تھا۔(108) قومِ فرعون کے سرداروں نے (یہ منظر دیکھ کر) کہا کہ یہ شخص (موسیٰ) بڑا ماہر جادوگر ہے۔(109) (اس پر فرعون نے کہا) یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دینا چاہتا ہے تو تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ (110) ان لوگوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے بھائی کو روک رکھیے۔اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے۔(111) جو ہر بڑے ماہر جادوگر کو لے آئیں۔(112) چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو یقینا ہم ایک بڑے معاوضے کے حقدار ہوں گے۔(113) فرعون نے کہا ہاں۔اور اس کے علاوہ تم ہمارے مقرب بارگاہ لوگوں میں سے ہو جاؤگے۔(114) انہوں نے کہا اے موسیٰ یا تم (پہلے) پھینکو یا پھر ہم ہی پھینکتے ہیں۔(115) انہوں نے (جواب میں) کہا تم ہی پھینکو! پھر جب انہوں نے (اپنی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا (ان کی نظر بندی کر دی) اور انہیں خوف زدہ کر دیا اور انہوں نے بڑا زبردست جادو پیش کیا۔(116) ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا پھینکو۔تو یکایک وہ (اژدھا بن کر) ان کے طلسموں (جادو کے جھوٹے سانپوں) کو نگلنے لگا۔(117) (نتیجہ یہ نکلا کہ) حق ثابت ہوگیا۔اور جو جھوٹے کاروائی کر رہے تھے وہ باطل ہوگئی۔(118) اس طرح وہ (فرعون اور فرعونی) مغلوب ہوئے اور ذلیل و رسوا ہوکر رہ گئے۔(119) اور تمام جادوگر (کسی غیبی طاقت سے) سجدہ میں گرا دیئے گئے۔(120) اور کہنے لگے ہم سارے جہانوں کے پروردگار پر ایمان لائے۔(121) جو موسیٰ و ہارون کا پروردگار ہے۔(122) فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے ہو اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش ہے جو تم لوگوں نے کی ہے۔تاکہ تم شہر کے باشندوں کو اس سے باہر نکالو۔عنقریب تمہیں (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا۔(123) میں تمہارے ہاتھ پاؤں کو مختلف سمتوں سے کاٹ دوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔(124) انہوں نے کہا (ہمیں کیا پروا ہے) ہم لوگ بہرحال اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔(125) اور تم ہم سے صرف اس بات کا انتقام لینا چاہتے ہو کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئی ہیں۔(پھر یوں دعا کی) اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے سچے مسلمان (فرمانبردار) ہوں۔(126) قومِ فرعون کے سرداروں نے کہا! تو موسیٰ اور اس کی قوم کے آدمیوں کو اس لئے چھوڑے رکھے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلاتے رہیں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کو چھوڑتے رہیں۔اس (فرعون) نے (چین بجبین ہوکر) کہا ہم عنقریب ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم (پوری طرح) ان پر غالب ہیں۔(127) موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا! تم اللہ سے مدد طلب کرو۔اور صبر و تحمل سے کام لو بے شک زمین اللہ کی ہے۔وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور اچھا انجام تو پرہیزگاروں کا ہی ہے۔(128) ان لوگوں (بنی اسرائیل) نے کہا ہم آپ کے آنے سے پہلے بھی ستائے جاتے رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔انہوں نے کہا! عنقریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنائے گا (تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا) تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ (129) اور ہم نے فرعونیوں کو قحط اور پھلوں کی پیداوار کی کمی میں گرفتار کیا کہ شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔(130) (مگر ان کی حالت یہ تھی کہ) جب خوش حالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے اور جب بدحالی آتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست اور فالِ بد قرار دیتے۔حالانکہ ان کی نحوست اور بدشگونی خدا کے ہاں ہے لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔(131) اور انہوں نے (موسیٰ سے) کہا تم جو بھی نشانی (معجزہ) ہمارے سامنے لے آؤ اور اس سے ہمیں مسحور کرنا چاہو ہم پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔(132) پھر ہم نے بھیجا ان پر عذاب، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کی صورت میں) یہ کھلی ہوئی نشانیاں تھیں مگر وہ پھر بھی تکبر اور سرکشی ہی کرتے رہے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔(133) اور جب کبھی ان پر کوئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا کرو۔جس کا اس نے تم سے وعدہ کر رکھا ہے۔اگر تم نے یہ عذاب ہم سے ٹلوا دیا۔تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔(134) تو جب ہم وہ عذاب ایک مقررہ مدت تک ہٹا دیتے جس تک وہ بہرحال پہنچنے والے تھے۔تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ دیتے۔(135) تب ہم نے ان سے اس طرح انتقام لیا کہ انہیں سمندر میں غرق کر دیا۔کیونکہ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کی طرف سے غفلت برتتے تھے۔(136) اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو وارث (اور مالک) بنایا جن کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔اور وارث بھی اس مشرق و مغرب کا بنایا جس میں ہم نے برکت دی ہے اور اسی طرح آپ کے پروردگار کا وہ اچھا وعدہ پورا ہوگیا جو اس نے بنی اسرائیل سے کیا تھا کیونکہ انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا تھا اور ہم نے اسے مٹا دیا جو کچھ فرعون اور اس کی قوم والے کرتے تھے اور برباد کر دیئے وہ اونچے مکان جو وہ تعمیر کرتے تھے۔(137) اور جب ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے اس پار اتار دیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا جو اپنے (خود ساختہ) معبودوں کی پرستش میں مگن بیٹھی تھی۔انہوں نے کہا اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک الٰہ بنا دیں جیسے ان کے الٰہ ہیں۔موسیٰ نے کہا تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔(138) جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ یقینا تباہ ہو کر رہے گا۔اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ باطل ہوکر رہے گا۔(139) کہا: کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی (اور) خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں تمام جہانوں کی قوموں پر فضیلت دی۔(140) اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات عطا کی۔جو تمہیں بدترین عذاب کا مزہ چکھاتے تھے تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔(141) اور ہم نے موسیٰ سے (توراۃ دینے کے لیے) تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا اور اسے مزید دس (راتوں) سے مکمل کیا۔اس طرح ان کے پروردگار کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوگئی اور جناب موسیٰ نے (کوہ طور پر جاتے وقت) اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میرے جانشین بن کر رہو۔اور اصلاح کرتے رہو اور (خبردار) مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا۔(142) اور جب جنابِ موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آگئے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا۔تو انہوں نے کہا پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کر سکوں۔ارشاد ہوا تم مجھے کبھی نہیں دیکھ سکوگے۔مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو۔اگر یہ (تجلئِ حق کے وقت) اپنی جگہ پر برقرار رہا تو پھر امید کرنا کہ مجھے دیکھ سکوگے پس جب ان کے پروردگار نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر گئے۔اور جب ہوش میں آئے تو بولے پاک ہے تیری ذات! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں (کہ تو نظر نہیں آتا)۔(143) ارشاد ہوا اے موسیٰ میں نے تمہیں اپنی پیغمبری اور ہمکلامی کے لیے تمام لوگوں سے منتخب کیا ہے پس جو چیز (توراۃ) میں نے تمہیں عطا کی ہے اسے لو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔(144) اور ہم نے موسیٰ کے لیے ان تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ہے۔پس اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو لے لیں (اس کے احکام پر کاربند ہو جائیں) میں عنقریب تم لوگوں کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھا دوں گا۔(145) جو لوگ ناحق خدا کی زمین میں سرکشی کرتے ہیں میں اپنی نشانیوں سے ان کی نگاہیں پھرا دوں گا۔وہ اگر ہر معجزہ بھی دیکھ لیں۔تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔اور اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھ بھی لیں تو اسے اپنا راستہ نہیں بنائیں گے۔اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو (فوراً) اسے (اپنا) راستہ بنا لیں گے ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا اور ان سے غفلت برتتے رہے۔(146) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے پس انہیں جزا یا سزا نہیں دی جائے گی مگر انہی اعمال کی جو وہ (دار دنیا میں) کرتے تھے۔(147) اور موسیٰ کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر چلے جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے (ان کو گلا کر) ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا (نہ سوچا) کہ وہ نہ ان سے بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی راہنمائی کر سکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (معبود) بنا لیا اور وہ (اپنے اوپر) سخت ظلم کرنے والے تھے۔(148) پھر جب وہ نادم ہوئے اور کفِ افسوس مَلنے لگے اور محسوس کیا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں۔تو کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔(149) اور جب موسیٰ خشمناک اور افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے۔تو فرمایا: اے قوم! تم نے میرے بعد بہت ہی بری جانشینی کی۔کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کر لی (وعدہ خداوندی چالیس راتوں کے پورا ہونے کی انتظار بھی نہ کی) اور پھر (للہی جوش میں آخر تورات کی) تختیاں (ہاتھ سے) پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کا سر ہاتھ میں لے کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔انہوں نے کہا اے میرے ماں جائے! قوم نے مجھے کمزور اور بے بس کر دیا تھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں پس تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔اور نہ ہی مجھے ظالم گروہ کے ساتھ شامل کرو۔(150) تب موسیٰ نے کہا۔پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔(151) بے شک جن لوگوں نے گو سالہ کو (اپنا معبود) بنایا۔عنقریب ان پر ان کے پروردگار کا غضب نازل ہوگا۔اور وہ دنیاوی زندگی میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور ہم بہتان باندھنے والوں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔(152) اور جو لوگ برے کام کریں اور پھر توبہ کر لیں۔اور ایمان لے آئیں تو یقینا تمہارا پروردگار اس (توبہ و ایمان) کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔(153) اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا۔تو انہوں نے تختیاں اٹھا لیں تو ان کی کتابت (تحریر) میں اپنے پروردگار سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی۔(154) ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہونے کے لیے موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا پھر جب ایک سخت زلزلہ نے انہیں آپکڑا (اور وہ ہلاک ہوگئے) تو موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو پہلے ہی ہلاک کر دیتا اور مجھے بھی۔کیا تو ایسی بات کی وجہ سے جو ہمارے چند احمقوں نے کی ہے ہم سب کو ہلاک کرتا ہے؟ یہ نہیں ہے مگر تیری طرف سے ایک آزمائش! اس کی وجہ سے تو جسے چاہتا ہے (توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے تو ہی ہمارا ولی و سرپرست ہے۔ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین مغفرت کرنے والا ہے۔(155) اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں (ہم نے تجھ سے لو لگائی ہے) ارشاد ہوا (میرے عذاب کا یہ حال ہے کہ) جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت (کا یہ حال ہے کہ وہ) ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔پس میں رحمت ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کریں گے (برائیوں سے بچیں گے) اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور ہماری آیتوں (نشانیوں) پر ایمان لے آئیں گے۔(156) جو اس پیغمبرؑ کی پیروی کریں گے جو نبیِ امی ہے جسے وہ اپنے ہاں توراۃ و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے جو ان کے لیے پاک و پسندیدہ چیزوں کو حلال اور گندی و ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔پس جو لوگ اس (نبیِ امی) پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی مدد و نصرت کی اور اس نور (روشنی) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے یہی لوگ فوز و فلاح پانے والے ہیں۔(157) اے پیغمبر! (لوگوں سے) کہو اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔جس کے لیے سارے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے پس اللہ پر ایمان لاؤ۔اور اس کے نبیِ امی رسول پر۔جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات (کتابوں) پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔(158) اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کو حق کے راستہ پر چلاتا ہے اور حق کے ساتھ منصفانہ فیصلہ کرتا ہے۔(159) اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی جب ان کی قوم نے ان سے پینے کے لیے پانی مانگا کہ ایک (خاص) چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔اور ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان پر ابر کا سایہ کیا اور (غذا کے لیے) ان پر من و سلویٰ نازل کیا (اور ان سے کہا) کھاؤ ان پاک اور پسندیدہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں۔انہوں نے (نافرمانی و ناشکری کرکے) ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے ہی اوپر ظلم و زیادتی کرتے رہے۔(160) (وہ وقت یاد کرو) جب ان (بنی اسرائیل) سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں جاکر آباد ہو جاؤ اور وہاں جہاں سے تمہارا جی چاہے (غذا حاصل کرکے) کھاؤ اور حطۃ حطۃ کہتے ہوئے سجدہ ریز ہوکر (عاجزی سے جھکے ہوئے) شہر کے دروازہ میں داخل ہو جاؤ۔تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔اور جو نیک کردار ہیں ان کو مزید اجر سے نوازیں گے۔(161) مگر ان میں سے جو ظالم تھے انہوں نے وہ کلمہ بدل دیا ایسے کلمہ سے جو مختلف تھا اس کلمہ سے جو ان سے کہا گیا تھا (اور حطۃ کی جگہ حنطہ حنطہ کہنا شروع کیا، ان کی اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا۔اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔(162) اور (اے پیغمبر) ان سے اس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔جبکہ وہ (بنی اسرائیل) ہفتہ کے دن خدا کی مقرر کردہ حد سے باہر ہو جاتے تھے۔جبکہ ہفتہ کے دن مچھلیاں ابھر ابھر کر سطح آب پر تیرتی ہوئی آجاتی تھیں اور جس دن ہفتہ نہیں ہوتا ہے (باقی دنوں میں) تو نہیں آتی تھیں۔ان کی نافرمانی کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے اس طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے۔(163) اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا (ان لوگوں سے جو ہفتہ کے دن شکار کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے) کہ تم ایسے لوگوں کو (بے فائدہ) کیوں نصیحت کرتے ہو۔جن کو خدا ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے؟ انہوں نے (جواب میں) کہا کہ ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت پیش کر سکیں (کہ ہم نے اپنا فریضۂ امر و نہی ادا کر دیا ہے) اور اس لئے کہ شاید یہ لوگ اس روش سے پرہیز اختیار کریں۔(164) آخرکار جب ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو ان کو کی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے رہتے تھے اور باقی سب ظالموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے سخت عذاب میں گرفتار کیا۔(165) (جب یہ عذاب بھی ان کو سرکشی سے باز نہ رکھ سکا) اور وہ برابر سرکشی کرتے چلے گئے ان چیزوں کے بارے میں جن سے ان کو روکا گیا تھا تو ہم نے کہا بندر ہو جاؤ ذلیل اور راندے ہوئے۔(166) اور (اے پیغمبرؑ) یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا تھا (کہ اگر یہ لوگ اپنی سیاہ کاریوں سے باز نہ آئے) تو خدا ان پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کرے گا جو انہیں بدترین عذاب میں گرفتار کریں گے یقینا تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے۔(167) اور ہم نے ان کو زمین میں مختلف فرقوں کی صورت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ان میں سے ناپائیدار ہوگا کچھ لوگ تو نیک ہیں اور کچھ اس کے خلاف اور طرح کے (بدکار) ہیں۔اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات میں مبتلا کرکے آزماتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔(168) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے اور کتابِ الٰہی کے وارث بنے جو (دین فروشی کرکے) دنیائے دوں کے مال و متاع اور ساز و سامان جمع کرتے اور سمیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امید ہے کہ ہم بخش دیے جائیں گے اور اگر اتنا ہی اور عارضی ساز و سامان ان کے ہاتھ لگ جائے تو اسے بھی بے دریغ لے لیتے ہیں۔کیا ان سے کتاب (توراۃ) والا یہ عہد و پیمان نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی نسبت حق کے سوا اور کوئی بات نہیں کہیں گے؟ اور یہ خود کتاب میں پڑھ چکے ہیں جو اس میں لکھا ہے اور آخرت والا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (169) اور جو لوگ کتابِ الٰہی سے تمسک رکھتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں۔بے شک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر و ثواب ضائع نہیں کریں گے۔(170) اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ہلا کر (اور جڑ سے اکھاڑ کر)۔اس طرح ان کے اوپر بلند کیا۔کہ گویا سائبان ہے اور انہوں نے گمان کیا کہ یہ ان پر گرا ہی چاہتا ہے ( اور ان سے کہا کہ) جو کچھ (کتاب) ہم نے تمہیں عطا کی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ لو۔اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو۔تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(171) اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا (جو نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والی تھی) اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا ہاں بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے (یہ کاروائی اس لئے کی تھی کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔(172) یا کہو کہ (خدایا) شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا۔اور ہم تو ان کے بعد ان کی نسل سے تھے (اس لئے لاچار ان کی روش پر چل پڑے) تو کیا تو ہمیں اس (شرک) کی وجہ سے ہلاک کرے گا جو باطل پرستوں نے کیا تھا۔(173) اسی طرح ہم اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (حق کی طرف) رجوع کریں۔(174) (اے رسولؑ) ان لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان کرو جس کو ہم نے اپنی بعض نشانیاں عطا کی تھیں مگر وہ ان سے عاری ہوگیا (وہ جامہ اتار دیا) پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔اور آخرکار وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔(175) اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کی وجہ سے اس کا مرتبہ بلند کرتے۔مگر وہ تو زمین (پستی) کی طرف جھک گیا۔اور اپنی خواہشِ نفس کا پیرو ہوگیا۔تو اب اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی ہانپتا ہے اور یونہی چھوڑ دو تب بھی ایسا کرتا ہے۔(زبان لٹکائے ہانپتا ہے) یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (اے رسول) تم یہ قصص و حکایات سناتے رہو شاید وہ غور و فکر کریں۔(176) کیا بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔اور جو خود اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔(177) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہی میں چھوڑ دے وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔(178) اور کتنے جن و انسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے (یعنی ان کا انجامِ کار جہنم ہے) ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں۔ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (اور گئے گزرے) ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو بالکل غافل و بے خبر ہیں۔(179) اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں اسے انہی کے ذریعہ سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں۔عنقریب انہیں ان کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔(180) ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتا ہے اور اسی کے مطابق (لوگوں کا) فیصلہ کرتا ہے۔(181) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا ہم انہیں بتدریج (آہستہ آہستہ ان کے انجام بد کی طرف) لے جائیں گے کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔(182) اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں بے شک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔(183) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ ان کے ساتھی (پیغمبر اسلامؑ) میں ذرا بھی جنون نہیں ہے۔وہ تو بس کھلم کھلا (خدا کے عذاب سے) ڈرانے والا ہے۔(184) کیا ان لوگوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی میں اور ان چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں کبھی غور و فکر نہیں کیا؟ اور کبھی نظر اٹھا کر ان کو نہیں دیکھا؟ اور اس بات پر کہ شاید ان کا (مقررہ) وقت آگیا ہو۔تو اب وہ اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟ (185) جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کو کوئی ہدایت نہیں کر سکتا اور وہ (خدا) انہیں چھوڑ دیتا ہے تاکہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔(186) (اے رسول) لوگ آپ سے قیامت کی گھڑی کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار کے ہی پاس ہے اسے اس کا وقت آنے پر وہی ظاہر کرے گا۔وہ گھڑی آسمانوں اور زمین میں بڑی بھاری ہے (وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو ان میں رونما ہوگا) وہ نہیں آئے گی تمہارے پاس مگر اچانک۔لوگ اس طرح آپ سے پوچھتے ہیں جیسے آپ اس کی تحقیق اور کاوش میں لگے ہوئے ہیں؟ کہہ دو۔کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے۔لیکن اکثر لوگ یہ حقیقت جانتے نہیں ہیں۔(187) (اے رسولؑ) کہہ دو۔کہ میں اپنے نفع و نقصان پر کوئی قدرت و اختیار نہیں رکھتا۔مگر جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور (زندگی میں) مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔میں تو بس (نافرمانوں کو) ڈرانے والا اور ایمانداروں کو خوشخبری دینے والا ہوں۔(188) اللہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک متنفس (جاندار) سے پیدا کیا۔اور پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا (شریک حیات) بنایا۔تاکہ وہ (اس کی رفاقت میں) سکون حاصل کرے۔پھر جب مرد عورت کو ڈھانک لیتا ہے۔تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے جسے لئے وہ چلتی پھرتی رہتی ہے اور جب وہ بوجھل ہو جاتی ہے (وضعِ حمل کا وقت آجاتا ہے) تو دونوں (میاں بیوی) اپنے اللہ سے جو ان کا پروردگار ہے دعا مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں صحیح و سالم اولاد دے دی تو ہم تیرے بڑے شکر گزار ہوں گے۔(189) مگر جب وہ ان دونوں کو صحیح و سالم فرزند عطا کر دیتا ہے۔تو یہ دونوں اس کی عطا کردہ چیز (اولاد) میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔اللہ اس سے بہت برتر ہے جو مشرک کرتے ہیں۔(190) آیا یہ ان کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود کسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔(191) اور وہ نہ ان کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی مدد پر قادر ہیں۔(192) اور اگر تم ان کو سیدھے راستہ کی طرف بلاؤ تو وہ تمہارے پیچھے قدم نہیں اٹھا سکتے۔تمہارے لئے برابر ہے کہ ان کو بلاؤ یا خاموش رہو (دونوں باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے)۔(193) (اے کافرو) یقینا وہ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر (اور خدا سمجھ کر) پکارتے ہو وہ تمہاری ہی طرح (خدا کے) بندے ہیں۔اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو (کہ ان میں مافوقِ بشریت طاقتیں ہیں) تو انہیں پکارو۔پھر تو انہیں چاہیے کہ تمہاری دعا و پکار کا جواب دیں۔(194) آیا ان (بتوں) کے پاؤں ہیں کہ جن سے وہ چلتے ہوں آیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہوں کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں اور کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں۔(اے پیغمبرؑ) کہو کہ تم اپنے تمام شریکوں کو پکارو۔پھر میرے خلاف سب تدبیریں کرو اور مجھے بالکل مہلت نہ دو۔(195) میرا ولی و سرپرست وہ اللہ ہے جس نے (یہ) کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کا سرپرست اور کارساز ہے۔(196) اور جنہیں تم اللہ کے سوا خدا پکارتے ہو۔وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔(197) اور اگر انہیں سیدھے راستہ کی دعوت دو تو وہ تمہاری بات سنتے نہیں ہیں اور تم انہیں دیکھوگے کہ گویا وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھتے نہیں ہیں۔(198) (اے نبیؑ) عفو و درگزر سے کام لو۔اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے روگردانی کریں (ان سے نہ الجھیں)۔(199) اور اگر شیطان کی طرف سے جوش دلانے کی کوئی کوشش ہو تو خدا سے پناہ مانگیں۔یقینا وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔(200) جو لوگ پرہیزگار ہیں جب انہیں کوئی شیطانی خیال چھو بھی جائے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور یادِ الٰہی میں لگ جاتے ہیں اور ان کی بصیرت تازہ ہو جاتی ہے (اور حقیقتِ حال کو دیکھنے لگتے ہیں)۔(201) اور جو شیطانوں کے بھائی بند ہیں تو وہ (شیاطینِ انسی و جنی) ان کو گمراہی میں کھینچتے لئے جاتے ہیں اور (انہیں گمراہ کرتے ہیں) کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔(202) (اے پیغمبرؑ) جب تم ان کے سامنے (ان کا کوئی مطلوبہ) معجزہ لے کر نہ جاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے خود کوئی معجزہ کیوں نہ منتخب کر لیا؟ (یعنی اپنی مرضی سے کیوں نہ بنا لیا؟) کہہ دیجیے کہ میں تو صرف اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے (اس میں میری پسند کا کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سامانِ ہدایت اور سراسر رحمت ہے۔(203) اور (اے مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر (توجہ سے) سنو اور خاموش ہو جاؤ تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔(204) اور (اے پیغمبرؑ) صبح و شام اپنے پروردگار کو یاد کرو۔اپنے دل میں عجز و انکساری اور خوف و ہراس کے ساتھ۔اور زبان سے بھی چِلائے بغیر (یعنی دھیمی آواز کے ساتھ) اور (یادِ خدا سے) غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔(205) جو تمہارے پروردگار کے خاص مقرب ہیں وہ کبھی اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں (اس کی پاکی بیان کرتے ہیں)اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتے ہیں۔(206)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی جو کافر ہیں وہ دوسروں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ (1) وہ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر (زندگی کی) ایک مدت مقرر کی اور ایک مقررہ مدت اور بھی ہے جو اسی کے پاس ہے پھر بھی تم شک کرتے ہو۔ (2) اور وہی (ایک) اللہ ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، جو تمہارے باطن و ظاہر اور جو کچھ تم بھلائی و برائی کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔ (3) ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان کے پاس نہیں آتی مگر یہ کہ وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ (4) چنانچہ انہوں نے اس حق (قرآن) کو بھی جھٹلایا جب وہ ان کے پاس آیا۔ سو عنقریب ان باتوں کی خبریں ان کے پاس آجائیں گی جن کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ (5) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنے دوروں کے لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیا جنہیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں بھی نہیں دیا ہے اور ہم نے ان پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائی۔ اور ہم نے ان کے نیچے نہریں بہائیں (انجامِ کار) ہم نے ان کے گناہوں (اور کفرانِ نعمت) کی پاداش میں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسرے دور کی نسلیں پیدا کیں۔ (6) (اے رسول(ص)) اگر ہم کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی آپ پر اتارتے جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے۔ جب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ نہیں ہے مگر کھلا ہوا جادو۔ (7) اور وہ کہتے ہیں کہ اس (نبی(ص)) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ حالانکہ اگر ہم (کھلم کھلا) فرشتہ اتارتے تو پھر فیصلہ ہو چکا ہوتا پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ (8) اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو اسے بھی آدمی کی شکل میں اتارتے اور اس طرح گویا ہم انہیں وہ شبہ کرنے کا موقع دیتے جو اب وہ کر رہے ہیں۔ (9) آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے تو (آخرکار) ان کا مذاق اڑانے والوں کو اسی عذاب نے آکر گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (10) اے رسول(ص) ان سے کہیے کہ زمین میں چلو پھرو اور پھر دیکھو۔ کہ جھٹلانے والوں کا کیا (بھیانک) انجام ہوا۔ (11) (اے رسول(ص)) ان سے کہیے (پوچھئے) کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کا ہے؟ کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے اس نے مخلوق پر رحمت کرنا اپنے اوپر لازم کر لی ہے (اس لئے جلدی سزا نہیں دیتا) وہ قیامت تک جس میں کوئی شک نہیں ہے تم سب کو اکٹھا کرتا رہے گا (پھر یکجا کرکے لائے گا) جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے اور نقصان میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (12) اور اسی (اللہ تعالیٰ) کا ہے جو کچھ رات اور دن میں سکونت پذیر ہے وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (13) (اے رسول(ص)) کہو کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا سرپرست بناؤں؟ جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے جو (ساری مخلوق کو) روزی دیتا ہے (کھلاتا ہے) مگر اس کو کوئی روزی نہیں دیتا (اسے کوئی نہیں کھلاتا)۔ کہو۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان (خدا کے سامنے سر تسلیم جھکانے والا) بن کر رہوں اور یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ شرک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (14) کہیے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں۔ تو میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (15) اس دن جس شخص سے عذاب ٹال دیا گیا اس پر اس (خدا) نے بڑا رحم کیا ہے۔ اور یہ بڑی نمایاں کامیابی ہے۔ (16) اگر خدا تمہیں کوئی ضرر و زیاں پہنچانا چاہے تو اس کے پاس اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (17) وہ اپنے بندوں پر مکمل اختیار اور قابو رکھنے والا ہے اور وہ بڑا حکمت والا بڑا باخبر ہے۔ (18) (اے رسول(ص)) کہو کہ گواہی میں سب سے بڑھ کر کون سی چیز ہے؟ کہہ دیجیے کہ اللہ! جو میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور یہ قرآن بذریعہ وحی میری طرف بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ سے تمہیں اور جس تک یہ پہنچے سب کو ڈراؤں۔ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہیں؟ کہیے کہ میں تو یہ گواہی نہیں دیتا۔ کہو وہ واحد و یکتا ہے۔ اور میں تمہارے شرک سے بری و بیزار ہوں۔ (19) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (پیغمبر(ص)) کو اس طرح پہنچاتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہنچاتے ہیں۔ مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے و نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (20) اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ یقینا ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ (21) اور جس دن ہم سب کو (میدانِ حشر میں) اکٹھا کریں گے۔ اور جو لوگ (دنیا میں) شرک کرتے رہے ہیں ان سے کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جن کو تم خدا کا شریک گمان کرتے تھے۔ (22) اس وقت ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی عذر نہ ہوگا کہ وہ کہیں گے ہمیں اپنے پروردگار اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے۔ (23) دیکھو وہ کس طرح اپنے ہی برخلاف جھوٹ بولنے لگے؟ اور ان کی وہ تمام افترا پردازیاں گم ہوگئیں جو وہ کیا کرتے تھے۔ (24) اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ کی بات غور سے سنتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھتے نہیں ہیں اور کانوں میں گرانی ڈال دی ہے کہ سنتے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ سارے کے سارے معجزے دیکھ لیں جب بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے بھی بحث و تکرار کرتے ہیں اور جو کافر ہیں (اور جنہوں نے بہرحال نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے) وہ سب کچھ سن کر بھی کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) نہیں ہے مگر اگلے لوگوں کی (جھوٹی) داستانیں۔ (25) یہ ایسے (ناہنجار) ہیں کہ دوسروں کو بھی اس (پیغمبرِ اسلام یا قرآن) سے روکتے ہیں۔ اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں اور وہ (اپنی اس روش سے کسی اور کو نہیں) اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ (26) اور کاش تم (ان کی وہ حالت) دیکھو جب وہ آتشِ دوزخ پر کھڑے کئے جائیں گے۔ اور وہ کہیں گے کہ کاش ہم واپس (دنیا میں) بھیج دیئے جائیں اور اپنے پروردگار کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں سے ہو جائیں۔ (27) (یہ اسے لئے کہیں گے کہ) ان پر وہ بات واضح و عیاں ہوگئی ہے جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (وہ ایسے ناہنجار ہیں کہ) اگر انہیں واپس بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہی کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقینا وہ باکل جھوٹے ہیں۔ (28) اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی تو بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم (قبروں سے) دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ (29) اور کاش تم وہ منظر دیکھو جب وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اور وہ ان سے پوچھے گا کیا یہ (قیامت) حق نہیں ہے؟ یہ کہیں گے ہاں حق ہے ہمیں اپنے رب کی قسم فرمائے گا تو اب اپنے کفر و انکار کی وجہ سے عذاب کا مزا چکھو۔ (30) بے شک ان لوگوں نے گھاٹا اٹھایا ہے جنہوں نے اللہ کی بارگاہ میں حاضری کو جھٹلایا۔ یہاں تک کہ جب اچانک قیامت آجائے گی تو وہ لوگ کہیں گے ہائے افسوس ہم سے اس کے بارے میں کیسی کوتاہی ہوئی؟ اور وہ اپنے (گناہوں کے) بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائے ہوں گے۔ کیا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائے ہوئے ہیں؟ ۔ (31) اور دنیا کی زندگی نہیں ہے مگر کھیل تماشا اور بے شک آخرت والا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہت اچھا ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (32) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں وہ بے شک آپ کو رنج پہنچاتی ہیں۔ (لیکن امر واقع یہ ہے کہ) یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم لوگ (دراصل) اللہ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں۔ (33) بے شک آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کو جھٹلایا گیا۔ تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہنچائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ہماری مدد ان کے پاس آئی اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے اور پیغمبروں کی کچھ خبریں تو آپ کو پہنچ ہی چکی ہیں۔ (34) اور اگر حق سے ان کی روگردانی کرنا آپ پر بہت گراں ہے تو پھر اگر ہو سکتا ہے تو زمین میں کوئی سرنگ لگا کر یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگا کر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ مگر وہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے اور اگر اللہ (زبردستی) چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ لہٰذا آپ ناواقف لوگوں میں سے نہ بنیں۔ (35) دعوتِ حق صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور جو مردے ہیں ان کو بس اللہ ہی (قیامت کے دن) اٹھائے گا پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (36) اور وہ کفار کہتے ہیں کہ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کہہ دیجیے کہ بے شک اللہ تو کوئی بھی معجزہ نازل کرنے پر قادر ہے لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔ (37) کوئی زمین میں چلنے والا جانور اور اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر تمہاری ہی طرح مختلف اقسام اور گروہ ہیں ہم نے کتاب میں کوئی کمی و کوتاہی نہیں کی ہے پھر وہ سب کے سب اپنے رب کے پاس محشور (جمع) کئے جائیں گے۔ (38) بہرے اور گونگے ہیں جوکہ طرح طرح کے اندھیروں میں پڑے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے اسے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔ (39) اے رسول(ص) کہو کہ تم غور کرکے بتاؤ کہ اگر تمہارے پاس اللہ کا عذاب آجائے یا (اچانک) قیامت آجائے تو اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے؟ بتاؤ اگر سچے ہو۔ (40) بلکہ اسی کو ہی پکاروگے اور اگر وہ چاہے گا تو (مصیبت) کو دور کر دے گا جس کے لئے تم نے اسے پکارا ہے اور تم انہیں بھول جاؤگے جن کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ (41) بلکہ اے رسول(ص) بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور ان کی نافرمانی پر پہلے تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا۔ تاکہ تضرع و زاری کریں۔ (42) جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تو آخر انہوں نے تضرع و زاری کیوں نہ کی؟ لیکن ان کے دل تو اور بھی سخت ہوگئے اور شیطان نے (ان کی نظروں میں) ان کاموں کو جو وہ کرتے تھے آراستہ کرکے پیش کیا۔ (43) اور جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے (ابتلا و امتحان کے طور پر) ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ عطا کردہ چیزوں (نعمتوں) سے خوب خوش ہوگئے اور اترانے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا۔ تو وہ ایک دم مایوس ہوگئے۔ (44) پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی (ان کی نسل قطع ہوگئی) اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ (45) اے رسول کہیے غور کرکے بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے (یعنی قوت شنوائی اور بینائی چھین لے) اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو اللہ کے سوا اور کون خدا ہے جو تمہیں یہ چیزیں لا دے؟ دیکھئے ہم کس طرح الٹ پلٹ کر اپنی توحید کی نشانیاں واضح کرتے ہیں پھر بھی وہ روگردانی کرتے ہیں۔ (46) کہیے ذرا غور کرکے بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ آجائے تو ظالم لوگوں کے سوا اور کون ہلاک و برباد ہوگا؟ (47) اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے مگر نیکوکاروں کو خوشخبری دینے والا اور بدکاروں کو ڈرانے والا بنا کر جو ایمان لے آئیں اور اپنی اصلاح کر لیں نیک عمل کریں۔ تو نہ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (48) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب پہنچے گا۔ (49) اے رسول کہہ دیجیے میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے کی جاتی ہے آپ کہیے! کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہے؟ تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ (50) اور آپ اس (وحی شدہ قرآن) کے ذریعہ سے ان لوگوں کو ڈرائیں۔ جنہیں خوف (اندیشہ) ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے کہ اس (اللہ) کے سوا ان کا نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی شاید کہ وہ متقی و پرہیزگار بن جائیں۔ (51) (اے رسول(ص)) ان لوگوں کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو۔ جو اپنے پروردگار کی رضا جوئی کی خاطر صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ ان کا کچھ بھی حساب کتاب آپ کے ذمہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ کا کچھ بھی حساب کتاب ان کے ذمہ ہے اور اگر آپ نے پھر بھی انہیں دھتکار دیا تو آپ بے انصافی کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (52) اس طرح ہم نے بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ وہ کہیں کہ کیا یہی وہ ہیں جن کو ہم میں سے اللہ نے اپنے (خاص) احسان سے نوازا ہے؟ کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو (ان سے) زیادہ نہیں جانتا ہے؟ (53) اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں تو ان سے کہو سلامٌ علیکم (تم پر سلامتی ہو)۔ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دی ہے (لہٰذا) اگر تم میں سے کوئی شخص جہالت و نادانی کی وجہ سے کوئی برائی کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو بےشک وہ (اللہ) بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (54) اور اسی طرح ہم اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ بالکل واضح ہو جائے۔ (55) اے رسول(ص) کہہ دیجیے! کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان (معبودانِ باطل) کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا خدا کہہ کر پکارتے ہو میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا۔ اس صورت میں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا۔ اور ہدایت یافتہ لوگوں سے نہ رہوں گا۔ (56) کہہ دیجیے! کہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر قائم ہوں۔ اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے جس (عذاب) کی تم جلدی کرتے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہ حق بیان کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (57) کہہ دیجیے! کہ جس عذاب کے لئے تم جلدی کرتے ہو اگر وہ میرے پاس ہوتا تو میرے اور تمہارے درمیان کب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ اور اللہ ظالموں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ (58) اور اس (اللہ) کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، جنہیں اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو خشکی میں ہے۔ اور اسے بھی جانتا ہے جو تری میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے۔ اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ نہیں ہے اور نہ کوئی تر ہے اور نہ کوئی خشک ہے مگر یہ کہ وہ کتابِ مبین میں موجود ہے۔ (59) وہی (اللہ) ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے۔ اور تم دن میں جو کچھ کرتے ہو اسے جانتا ہے پھر تمہیں اس (دن) میں اٹھاتا ہے۔ تاکہ (زندگی کی) مقررہ مدت پوری ہو پھر تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ (بھلا یا برا) تم کرتے تھے۔ (60) اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے (اور پوری قدرت رکھتا ہے) اور وہ تم پر حفاظت (نگرانی) کرنے والے (فرشتے) بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ (61) پھر وہ اللہ کے پاس جو ان کا حقیقی مالک ہے لوٹائے جاتے ہیں۔ خبردار فیصلہ کرنے کا اختیار اسی کو حاصل ہے اور وہ سب سے زیادہ جلدی حساب لینے والا ہے۔ (62) (اے رسول(ص)) کہیے کہ تمہیں صحرا و سمندر کے اندھیروں سے (مصیبتوں سے) کون نجات دیتا ہے؟ جب تم اسے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو۔ (اور دل میں کہتے ہو) کہ اگر وہ ہمیں ان (خطرات) سے نجات دے دے تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ (63) (اے رسول(ص)) کہیئے اللہ تمہیں ان سے اور ہر رنج و غم سے نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔ (64) کہہ دو وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب نازل کرے تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (بھیج دے)۔ یا تمہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے اور باہم خلط ملط کرکے ٹکرا دے اور تم میں سے بعض کو بعض کی طاقت و سختی کا مزا چکھا دے۔ دیکھیے ہم کس طرح الٹ پھیر کرکے اپنی آیات (دلیلوں) اور نشانیوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔ (65) اور آپ کی قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا حالانکہ وہ حق ہے کہہ دیجیے کہ میں تمہارا وکیل (نگہبان) نہیں ہوں۔ (66) اور ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت مقرر ہے۔ اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ (67) اور جب دیکھو کہ لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں نکتہ چینی اور بے ہودہ بحث کر رہے ہیں تو تم ان سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں اور (اے مخاطب) اگر کبھی شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھ۔ (68) ان (غلط کار لوگوں) کے حساب و کتاب کی ذمہ داری پرہیزگار لوگوں پر نہیں ہے (جو ان برے کاموں سے بچتے رہتے ہیں) ہاں البتہ (ان کے ذمہ صرف) نصیحت کرنا ہے تاکہ وہ (برے لوگ) پرہیزگاری اختیار کریں۔ (69) چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین و مذہب کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ و فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور ان کو اس (قرآن) کے ذریعہ سے نصیحت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے کئے کے وبال میں پھنس جائے حالانکہ اللہ کے سوا اس کا نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی۔ اور اگر وہ اپنے چھٹکارے کے لیے معاوضہ دینا چاہے گا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کرتوتوں کے وبال میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے کفر کی وجہ سے ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا گرم پانی ہوگا اور دردناک عذاب۔ (70) کہیے! کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور بعد اس کے کہ خدا ہم کو سیدھا راستہ دکھا چکا ہے ہم الٹے پاؤں پھر جائیں اس شخص کی طرح جسے شیطانوں (بھوتوں پریوں) نے (کہیں) زمین میں بے راہ اور سرگردان کر دیا جبکہ اس کے کچھ ساتھی اسے سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہماری طرف آؤ مگر اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہو ہدایت و راہنمائی تو بس اللہ کی ہدایت و راہنمائی ہے۔ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ (71) اور (ہم سے کہا گیا ہے کہ) نماز ادا کرو۔ اور اس سے (اس کی نافرمانی سے) ڈرو اور وہی وہ ہے جس کی بارگاہ میں تم محشور ہوگے۔ (72) وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا۔ جس دن وہ کہے گا کہ ہوجا بس وہ ہو جائے گا۔ اس کا قول حق اور سچ ہے اسی کی حکومت ہوگی جس دن صور پھونکا جائے گا وہ غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے اور وہ بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔ (73) (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (ع) نے اپنے باپ (یعنی چچا) آزر سے کہا۔ کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔ (74) اور اسی طرح ہم ابراہیم(ع) کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت دکھا رہے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ (75) چنانچہ جب ان (ابراہیم) پر رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ کو دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے؟ تو جب وہ ڈوب گیا تو کہا۔ میں ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ (76) اور جب چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا تو کہا یہ میرا پروردگار ہے؟ لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا۔ تو کہا کہ اگر میرا پروردگار میری ہدایت و راہنمائی نہ کرتا رہا تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ (77) پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا یہ میرا پروردگار ہے؟ یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا اے میری قوم! میں اس شرک سے بری و بیزار ہوں جو تم کرتے ہو۔ (78) میں ہر طرف سے ہٹ کر اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (79) اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی۔ فرمایا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو؟ حالانکہ وہ مجھے ہدایت دے چکا ہے اور میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار کوئی بات چاہے میرا پروردگار علم کے اعتبار سے ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے؟ (80) اور میں بھلا ان سے کس طرح ڈروں جن کو تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ جب کہ تم اس سے نہیں ڈرتے کہ تم نے ایسی چیزوں کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے۔ جن کے متعلق اس نے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں بھیجی ہے۔ سو دونوں گروہوں میں سے کون امن و اطمینان کا زیادہ حقدار ہے (بتاؤ) اگر تم کچھ علم رکھتے ہو؟ (81) جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہی کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ (82) یہ تھی ہماری وہ دلیل جو ہم نے ابراہیم (ع) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں آپ کا پروردگار بڑا حکمت والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (83) اور ہم نے انہیں اسحاق جیسا (بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا فرمایا۔ ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی۔ اور ان (نوح یا ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون کو (بھی ہدایت دی) اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ (84) اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو (بھی ہم نے ہدایت دی) جو سب صالحین میں سے تھے۔ (85) اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو (بھی ہدایت دی) اور ان سب کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ (86) اور ان کے آباء و اجداد اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی (کچھ کو ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کیا اور سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ (87) یہ اللہ کی خاص ہدایت ہے جس کے ذریعے سے وہ بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کے وہ سب عمل برباد ہو جاتے جو وہ کیا کرتے تھے۔ (88) یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب کا حکم اور نبوت عطا کی اب اگر یہ (مکہ والے) لوگ ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں تو کوئی پروا نہیں ہے ہم نے ان چیزوں کا ذمہ دار ان لوگوں کو بنایا ہے جو انکار کرنے والے نہیں ہیں۔ (89) یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے سو آپ بھی ان کے راستہ اور طریقہ پر چلیں۔ کہہ دیجئے کہ میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا وہ (قرآن) تو تمام عالمین کے لئے نصیحت ہے۔ (90) ان لوگوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنے کا حق تھا۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی ان سے کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے؟ جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت (کا ذریعہ) تھی؟ جسے تم نے ورق ورق کر رکھا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو تم ظاہر کرتے ہو (مگر) بہت سا حصہ چھپاتے ہو۔ حالانکہ تمہیں وہ باتیں سکھائی گئیں ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو کہیے اللہ نے (وہ کتاب نازل کی تھی)۔ پھر ان کو چھوڑ دیجیے کہ وہ اپنی بے ہودہ نکتہ چینی میں کھیلتے رہیں۔ (91) اور یہ وہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے جو اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے (اس لئے نازل کی ہے) کہ تم مکہ اور اس کے اطراف و جوانب والے لوگوں کو ڈراؤ۔ اور جو لوگ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں (اسے برحق) مانتے ہیں وہ اس (قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں پر پابندی کرتے ہیں۔ (92) اور اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو خدا پر جھوٹا بہتان باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہ کی گئی ہو اور (اس سے بڑا ظالم کون ہے) جو کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے ایسا میں بھی نازل کروں گا۔ (یعنی نازل کر سکتا ہوں) اے کاش! تم وہ منظر دیکھو جب کہ ظالم لوگ موت کے سکرات (سختیوں) میں ہوں گے اور موت والے فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے (اور کہیں گے) اپنی روحوں کو ان (سکرات) سے نکالو۔ آج تمہیں ذلت آمیز عذاب کیا جائے گا تمہارے خدا کے بارے میں غلط باتیں کرنے اور اس کی آیتوں کے مقابلہ میں تکبر کرنے کی پاداش میں۔ (93) اور تم اسی طرح ہماری بارگاہ میں تن تنہا آئے ہو جس طرح ہم نے پہلی بار تمہیں پیدا کیا تھا۔ اور اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو کچھ ساز و سامان ہم نے تمہیں عطا کیا تھا۔ اور (آج) ہم تمہارے ساتھ وہ سفارشی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں ہمارے شریک ہیں؟ (آج) تمہارے باہمی تعلقات منقطع ہوگئے اور جو تمہارا گمان فاسد تھا وہ غائب ہوگیا۔ (94) بے شک اللہ ہی ہے جو دانہ اور گھٹلی کو شگافتہ کرنے والا ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے یہ ہے اللہ تم کدھر بہکے جاتے ہو؟ (95) وہ (رات کے اندھیرے سے) صبح کا برآمد کرنے والا ہے۔ اور اسی نے رات کو سکون و راحت کے لئے بنایا اور سورج و چاند کو (ماہ و سال کے) حساب کے لئے بنایا۔ یہ غالب اور بڑے علم والے (خدا) کا مقرر کردہ نظام ہے۔ (96) اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعہ سے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کرو۔ بے شک ہم نے علم رکھنے والوں کے لئے دلائل کھول کر بیان کر دیے ہیں۔ (97) اور وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے تم (سب) کو ایک شخص (آدم(ع)) سے پیدا کیا ہے پھر ہر ایک کے لیے ایک قرارگاہ ہے (باپ کی پشت) اور ایک سونپے جانے کا مقام ہے (رحم مادر) اور ہم نے سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں تفصیل سے بیان کر دی ہیں۔ (98) وہ وہی تو ہے جس نے آسمان کی (بلندی) سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات اگائے پھر اس سے ہری بھری شاخیں نکالیں کہ ہم اس سے تہہ بہ تہہ (گھتے ہوئے) دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے شگوفوں سے گچھے نکالتے ہیں جو زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ہم نے انگور، زیتون اور انار کے باغات پیدا کئے جو باہم مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی اور اس کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے (پکنے کی کیفیت) کو دیکھو اور بے شک اس میں ایمان لانے والوں کے لئے (اللہ کی توحید و قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (99) اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہے حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور انہوں نے اس کے لئے جہالت کی وجہ سے بیٹے اور بیٹیاں تراش کر رکھی ہیں۔ وہ پاک ہے اور برتر ہے اس سے جو وہ اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ (100) وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کے لئے اولاد کیونکر ہو سکتی ہے حالانکہ اس کی کوئی بیوی ہی نہیں ہے۔ اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ (101) یہ ہے اللہ جو تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اور وہ ہر چیز کا وکیل و کفیل ہے۔ (102) نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ لطیف (جسم و جسمانیات سے مبرا ہے) اور خبیر (بڑا باخبر) ہے۔ (103) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرتیں (روشن دلیلیں) آچکیں اب جو بصیرت سے کام لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا۔ اور جو اندھا بنا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا۔ اور میں تمہارے اوپر نگران نہیں ہوں۔ (104) اور ہم اپنی آیتیں یونہی الٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں کہ آپ نے (کسی سے) پڑھا ہے اور تاکہ ہم اسے علم رکھنے والوں کے لئے واضح کر دیں۔ (105) آپ اس وحی کی پیروی کریں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کو کی جاتی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور مشرکوں سے بےتوجہی اختیار کریں۔ (106) اور اگر خدا (زبردستی) چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگہبان مقرر نہیں کیا اور نہ ہی آپ ان کے ذمہ دار ہیں۔ (107) اور (خبردار) تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ یہ لوگ اپنی جہالت و ناسمجھی کی بنا پر حد سے گزر کر اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو (اس کی نظروں میں) آراستہ کیا ہے۔ پھر ان کی بازگشت ان کے پروردگار کی طرف ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ (108) اور انہوں نے اللہ کے نام کی بڑی سخت قسمیں کھائی ہیں کہ اگر ان کی مرضی کے مطابق کوئی معجزہ ان کے پاس آجائے تو وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ کہہ دیجیے کہ معجزہ تو بس اللہ ہی کے پاس ہے جب کوئی ایسا معجزہ آبھی جائے گا تو یہ جب بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (109) (تمہیں کیا خبر کہ) ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر دیں گے (تہہ و بالا کر دیں گے) لہٰذا جس طرح وہ اس قرآن پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تھے اب بھی نہیں لائیں گے اور ہم انہیں چھوڑ دیں گے تاکہ یہ اپنی سرکشی میں اندھے بنے پھرتے رہیں۔ (110) اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے بھی نازل کر دیں اور ان سے مردے بھی کلام کریں اور خواہ ہم ہر چیز کو ان کے سامنے لاکھڑا کر دیں تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اللہ (اپنی قدرتِ قاہرہ سے) چاہے۔ لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (111) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو دھوکہ و فریب دینے کے لیے بناوٹی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں اور اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا، تو یہ ایسا نہ کرتے پس آپ انہیں اور جو کچھ وہ افترا کر رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ (112) تاکہ ان (بناوٹی باتوں) کی طرف ان لوگوں کے دل مائل ہوں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ ان (برائیوں) کا ارتکاب کریں جن کے یہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ (113) کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو فیصل اور منصف تلاش کروں؟ حالانکہ وہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل اور واضح کتاب نازل کی ہے۔ اور ہم نے جن کو (آسمانی) کتاب دی وہ (اہل کتاب) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوا ہے پس آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (114) اور آپ کے پروردگار کی بات صدق و سچائی اور عدل و انصاف کے لحاظ سے مکمل ہے اور اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ہے اور وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (115) (اے رسول(ص)) اگر آپ زمین کے رہنے والوں کی اکثریت کی اطاعت کریں گے (ان کا کہنا مانیں گے) تو وہ آپ کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ محض تخمینے لگاتے اور اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔ (116) بے شک آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ سے بھٹکا ہوا کون ہے؟ اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت یافتہ لوگوں کو۔ (117) پس جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس میں سے کھاؤ۔ اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔ (118) اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) میں سے نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے؟ حالانکہ اس نے جن (جانوروں) کو تم پر حرام قرار دیا ہے ان کو تمہارے لئے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ سوائے اس کے جس کے کھانے کی طرف تم مضطر و مجبور ہو جاؤ (تو پھر حرام بھی کھا سکتے ہو) اور یقیناً بہت سے لوگ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں بے شک آپ کا پروردگار حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ (119) اور (اے لوگو) تمام گناہوں کو چھوڑ دو خواہ علانیہ ہوں اور خواہ خفیہ بے شک جو لوگ گناہ کما (کر) رہے ہیں عنقریب ان کو بدلہ دیا جائے گا اس کا جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔ (120) اور اس (جانور) کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کہ یہ (کھانا) فسق (نافرمانی) ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کو خفیہ اشارے کرتے ہیں (پٹی پڑھاتے ہیں) تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کر لی (ان کا کہنا مانا) تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے۔ (121) اور کیا وہ شخص جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہے اور ان سے نکل نہیں سکتا۔ جس طرح مؤمن کی نگاہ میں ایمان آراستہ کیا گیا ہے اسی طرح کافروں کی نگاہ میں ان کے اعمال آراستہ کر دیئے گئے ہیں۔ (122) اور (جس طرح ہم نے مکہ کے فاسقوں کو بڑا بنایا) اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرمین کو بڑا سردار بنایا ہے تاکہ وہ وہاں مکر و فریب کیا کریں حالانکہ وہ فریب نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ (123) اور جب ان کے پاس کوئی معجزہ آتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے؟ (اس کا اہل کون ہے؟) عنقریب مجرموں کو اللہ کے یہاں ذلت نصیب ہوگی اور سخت عذاب بھی ہوگا ان کی ان مکاریوں کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ (124) پس جب اللہ کسی کو ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو تنگ کر دیتا ہے جیسے کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے (اس کی طرف اونچا ہو رہا ہے) اسی طرح اللہ ان لوگوں پر کثافت مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (125) یہ تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۔ ہم نے نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے آیتوں کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ (126) ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے ان کے پروردگار کے ہاں اور ان کے اچھے اعمال کی وجہ سے جو وہ کرتے ہیں اللہ ان کا سرپرست ہے۔ (127) اور (وہ دن یاد کرو) جس دن وہ (اللہ) سب (جن و انس) کو محشر میں جمع کرے گا (اور جنات سے خطاب کرکے فرمائے گا) کہ اے گروہِ جن! تم نے بہت انسانوں کو گمراہ کیا (اس وقت) وہ آدمی جو ان (جنات) کے دوست و رفیق ہوں گے کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم سب نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا اور اب ہم اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لئے مقرر کی تھی۔ اللہ فرمائے گا اب تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں تم ہمیشہ رہوگے۔ سوائے اس کے جسے اللہ (بچانا) چاہے گا۔ بے شک تمہارا پروردگار حکیم و علیم ہے (بڑی حکمت اور بڑے علم والا ہے)۔ (128) اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کو ان کے اعمال (کرتوتوں) کی وجہ سے بعض کا سرپرست بناتے ہیں (یا ایک دوسرے پر مسلط کرتے ہیں)۔ (129) اے گروہِ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے (میرے) کچھ رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں سناتے تھے۔ اور تمہیں اس دن کی پیشی سے ڈراتے تھے؟ وہ جواب میں کہیں گے کہ ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں ان کو دنیوی زندگی نے دھوکہ میں مبتلا کر دیا تھا اور اب وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ بے شک کافر تھے۔ (130) یہ (رسولوں کا بھیجنا) اس لئے ہے کہ تمہارا پروردگار بستیوں کو ظلم و جور سے ہلاک نہیں کرتا۔ جبکہ ان کے رہنے والے بے خبر ہوں۔ (131) اور ہر ایک کے لیے اس کے عمل کے مطابق درجے ہیں۔ اور جو کچھ لوگ کرتے رہتے ہیں آپ کا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے۔ (132) آپ کا پروردگار بے نیاز ہے، رحمت والا ہے، وہ اگر چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ تمہارے بعد جن کو چاہے لے آئے جس طرح اس نے تمہیں پیدا کیا اور لوگوں کی نسل سے۔ (133) بے شک جو کچھ تم سے وعدہ وعید کیا گیا ہے وہ بے شک آکر رہے گا۔ اور تم (خدا کو) عاجز نہیں کر سکتے۔ (134) (اے رسول(ص)) کہہ دیجئے! اے میری قوم تم اپنے مرتبہ و مقام کے مطابق عمل کرتے رہو میں بھی اپنے مرتبہ کے مطابق عمل کر رہا ہوں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجامِ کار کس کے حق میں بہتر ہے جو ظالم ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ (135) ان لوگوں نے اللہ کے لیے اسی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے اور اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں (دیوتاؤں) کا ہے۔ جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا اور جو حصہ اللہ کا ہے وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے یہ لوگ کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔ (136) اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو خوشنما بنا رکھا ہے تاکہ (انجامِ کار) انہیں تباہ کریں اور ان کے دین و مذہب کو ان پر مشتبہ کریں اگر اللہ (اپنی قدرتِ قاہرہ سے) چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے لہٰذا انہیں چھوڑیے اور ان کی افترا پردازیوں کو۔ (تاکہ وہ ان میں لگے رہیں) (137) اور وہ اپنی خام خیالی سے کہتے ہیں کہ یہ چوپائے اور کھیت ممنوع ہیں انہیں کوئی نہیں کھا سکتا مگر وہ جسے ہم چاہیں اور جو کچھ چوپائے ہیں جن کی پشت پر سواری اور باربرداری کو حرام قرار دے دیا گیا ہے اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا پردازی کرتے ہوئے کیا ہے عنقریب اللہ انہیں ان کی افترا پردازی کا بدلہ دے گا۔ (138) اور وہ کہتے ہیں کہ جو ان چوپاؤں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر وہ مردار ہوں تو وہ سب اس میں شریک ہیں عنقریب اللہ ان کو اس بات بنانے کا بدلہ دے گا۔ (139) یقینا وہ لوگ بڑے گھاٹے میں ہیں جنہوں نے علم کے بغیر محض جہالت اور حماقت کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کیا۔ اور اللہ پر افترا پردازی کرکے اللہ کے دیے ہوئے رزق کو حرام قرار دیا بے شک وہ گمراہ ہوئے اور ہدایت یافتہ اور راہ یاب نہیں ہیں۔ (140) اور وہ (اللہ) وہی ہے۔ جس نے طرح طرح کے باغات پیدا کیے (ٹیٹوں پر) چڑھائے ہوئے بھی اور بغیر چڑھائے ہوئے بھی اور کھجور کے درخت اور طرح طرح کی کھیتی جس کے مزے مختلف ہیں اور زیتون اور انار جو مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی اس کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو اور اسراف مت کرو کیونکہ وہ (خدا) اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (141) اور اللہ وہی ہے جس نے چوپاؤں میں سے کچھ ایسے پیدا کیے ہیں جن سے سواری اور باربرداری کا کام لیا جاتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو (کھانے اور) بچھانے کے کام آتے ہیں جو کچھ اللہ نے تمہیں روزی عطا کی ہے اس سے کھاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (142) (خدا نے) آٹھ قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں دو قسمیں بھیڑ سے اور دو قسمیں بکری سے آپ کہیے کہ آیا اس نے ان دونوں قسم کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں قسم کے ماداؤں کو؟ یا جو دونوں، ماداؤں کے پیٹ میں ہے؟ مجھے علم کی بنیاد پر بتاؤ۔ اگر تم سچے ہو۔ (143) اور اس طرح دو قسمیں اونٹ سے اور دو قسمیں گائے سے۔ کہو اس (اللہ) نے دونوں قسموں کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں قسم کی ماداؤں کو؟ یا جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہے؟ کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا تھا؟ تو اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹا الزام لگائے تاکہ کسی علم کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرے بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا (اسے منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔ (144) کہہ دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے میں اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو سوا اس کے کہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو یہ سب رجس اور گندگی ہے یا پھر فسق ہو (نافرمانی کا ذریعہ ہو یعنی) جو اللہ کے سوا کسی اور نام پر ذبح کیا گیا ہو (یا غیر اللہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو) ہاں البتہ اگر کوئی مجبور ہو جائے جبکہ وہ نہ باغی و سرکش ہو اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو یقینا تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (145) اور جو لوگ یہودی ہوئے ہم نے ان پر تمام کھر والے جانور حرام کر دیئے تھے۔ اور گائے بیل اور بھیڑ بکری کی چربی بھی حرام کر دی۔ سوا اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتڑیوں سے لگی ہوئی یا ہڈی سے ملی ہوئی ہو ہم نے ان کو بغاوت و سرکشی کی سزا دی تھی اور یقینا ہم بالکل سچے ہیں۔ (146) سو اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ کہہ دیجئے! کہ آپ کا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے اور مجرموں سے اس کا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔ (147) عنقریب مشرک لوگ کہیں گے کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے پاس کوئی علمی دلیل ہے تو اسے ہمارے سامنے ظاہر کرو۔ تم تو محض گمان کی پیروی کر رہے ہو اور صرف اٹکل پچو باتیں کرتے ہو۔ (148) کہہ دیجئے! کہ اللہ کی دلیل زبردست ہے۔ اگر اللہ (اپنی مشیت قاہرہ سے) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (149) کہہ دیجئے! لاؤ اپنے ان گواہوں کو جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے اس کو حرام کیا ہے؟ اور اگر وہ (جھوٹی) گواہی دے بھی دیں تو آپ نہ ان کے ساتھ گواہی دیجئے اور نہ ہی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کیجئے۔ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے۔ اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ اپنے پروردگار کے برابر دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ (150) (اے رسول) ان سے کہو۔ آؤ میں تمہیں سناؤں وہ چیزیں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں: (۱) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (۲) اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (۳) اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔ (۴) اور بے شرمی و بے حیائی کے کاموں (جیسے جنسی غلط کاری) کے قریب بھی نہ جاؤ۔ خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ۔ (۵) اور نہ قتل کرو کسی ایسی جان کو جس کے قتل کو خدا نے حرام قرار دیا ہے مگر (شرعی) حق (جیسے قصاص وغیرہ) کے ساتھ۔ یہ وہ ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے۔ تاکہ تم عقل سے کام لو۔ (151) (۶) اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رشد و کمال تک پہنچ جائے۔ (۷) اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ (۸) اور جب کوئی بات کہو تو عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگرچہ وہ (شخص) تمہارا قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ (۹) اور اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ یہ وہ ہے جس کی اس (اللہ) نے تمہیں وصیت کی ہے شاید کہ تم عبرت حاصل کرو۔ (152) (۱۰) اور (یہ بھی کہو) یہ ہے میرا سیدھا راستہ اسی کی پیروی کرو۔ اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستہ سے جدا کر دیں گے یہ ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے شاید کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (153) پھر ہم نے موسیٰ کو وہ کتاب عطا کی جو نیک عمل کرنے والے پر نعمت کی تکمیل ہے۔ اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور (لوگوں کے لیے) سراسر ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری و حضوری پر ایمان لائیں۔ (154) اور یہ (قرآن) بڑی بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔ (155) (اور اس لیے بھی نازل کی ہے کہ) تم یہ (نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں (یہود و نصاریٰ) پر تو کتاب (تورات و انجیل) نازل کی گئی۔ اور ہم تو (عرب ہونے کی وجہ سے) ان کے پڑھنے پڑھانے سے غافل و بے خبر تھے۔ (156) یا یہ (نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان لوگوں سے زیادہ راہِ راست پر ہوتے۔ تو اب (تمہارے تمام عذر بہانے قطع کرنے کے لیے) تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیل اور ہدایت و رحمت (قرآن کی صورت میں) آگئی ہے سو اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو آیاتِ الٰہی کو جھٹلائے اور ان سے روگردانی کرے۔ ہم عنقریب ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے روگردانی کرتے ہیں۔ بڑے عذاب کی سزا دیں گے۔ (157) کیا یہ لوگ اب صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں؟ یا تمہارا پروردگار بذات خود آجائے یا تمہارے پروردگار کی بعض خاص نشانیاں آجائیں۔ یہ تب (ایمان لائیں گے)۔ تو پھر (یاد رکھو) جس دن تمہارے پروردگار کی بعض مخصوص نشانیاں آجائیں گی تو اس دن ایسے شخص کو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا جو پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اور اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہوگی۔ ان سے کہو کہ تم بھی انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ (158) بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ بس اللہ کے حوالہ ہے۔ پھر وہ انہیں بتلائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے؟ (159) جو شخص ایک نیکی لے کر (اللہ کی بارگاہ میں) آئے گا اس کو دس گنا (اجر) ملے گا۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (160) آپ کہیں! بے شک میرے پروردگار نے مجھے بڑے سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کر دی ہے یعنی اس صحیح اور راست دین کی طرف جو باطل سے ہٹ کر صرف حق کی طرف راغب ابراہیم (ع) کی ملت ہے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ (161) (اے رسول(ص)) کہو میری نماز اور میری تمام (مختلف) عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت صرف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ (162) اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سرِ تسلیم خم کرنے والا ہوں۔ (163) (اے رسول(ص)) کہہ دیجیے! کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں؟ حالانکہ وہ ہر چیز کا پروردگار ہے اور ہر نفس جو کچھ کماتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کی بازگشت تمہارے پروردگار کی طرف ہے سو وہی تمہیں بتائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (164) وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں (پہلوں) کا خلیفہ اور جانشین بنایا اور تم سے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے بلندی عطا فرمائی تاکہ جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے۔ (165)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو تمہارے لئے چوپائے، مویشی حلال کر دیئے گئے ہیں۔ سوائے ان کے جن کا ذکر تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا۔ ہاں جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ سمجھو۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے وہ حکم دیتا ہے۔ (1) اے ایمان والو! خدا کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔ اور نہ حرمت والے مہینہ کی اور نہ قربانی والے جانور کی اور نہ گلے میں پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کی اور نہ ان لوگوں کی (بے حرمتی کرو) جو اپنے پروردگار کا فضل و کرم اور اس کی رضامندی کے طلبگار بن کر بیت الحرام (مقدس گھر) کی طرف جا رہے ہیں اور جب احرام ختم ہو جائے (یا حرم سے باہر نکل جاؤ) تو شکار کر سکتے ہو۔ اور خبردار، تمہیں کسی قوم سے عداوت کہ اس نے تمہیں مسجد الحرام سے روک دیا تھا۔ اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (اس پر) ظلم و زیادتی کرو۔ اور نیکی و پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (2) تم پر حرام کیا گیا ہے۔ مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر خدا کا نام لیا جائے۔ اور گلا گھوٹا ہوا، یا جو چوٹ لگنے سے یا بلندی سے گر کر، یا سینگ لگنے سے مر جائے یا جسے کسی درندہ نے کھایا ہو۔ سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا ہو۔ اور وہ (بھی حرام ہے) جو قربان کیا جائے بتوں پر (یا کسی آستانے پر) نیز (وہ بھی حرام ہے) جو قرعہ کے تیروں سے تقسیم کیا جائے۔ یہ سب کام فسق (گناہ) ہیں۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے ہاں جو بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے (اور حرام چیزوں سے کوئی کھا لے) جبکہ گناہ کی طرف راغب نہ ہو تو اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (3) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیزیں حلال کی گئی ہیں؟ کہہ دیجیئے کہ تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق (شکار پکڑنے کا) طریقہ سکھایا ہو تو جسے وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں۔ اس میں سے بھی کھا سکتے ہو۔ اور اس پر (شکار پر چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لو۔ اور اللہ سے (اس کی معصیت کاری سے) ڈرو۔ بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (4) آج تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اور اہل کتاب کا طعام (اناج) تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام (اناج) ان کے لئے حلال ہے اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں (اہل کتاب) کی پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے۔ (وہ تمہارے لئے حلال ہیں) بشرطیکہ تم ان کی اجرتیں (حق مہر) دے دو۔ اور وہ بھی اپنی پاکدامنی کے تحفظ کی خاطر نہ کہ آزاد شہوت رانی کی خاطر اور نہ ہی چوری چھپے ناجائز تعلقات قائم کرنے کے لیے۔ اور جو ایمان کا انکار کرے (اور کفر اختیار کرے) تو اس کے سب عمل اکارت ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ (5) اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔ اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پھر غسل کرو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے آیا ہو۔ یا تم نے عورتوں سے مقاربت کی ہو۔ اور پھر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو (مَل لو) اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی سختی کرے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف رکھے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ (6) اور یاد کرو اللہ کا وہ احسان جو اس نے تم پر کیا۔ اور اس کے عہد و پیمان کو جو اس نے تم سے لیا۔ جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور مانا۔ اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ دلوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے۔ (7) اے ایمان والو! اللہ کے لیے پوری پابندی کرنے والے اور راستی پر قائم رہنے والے۔ اور عدل و انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو (خبردار) کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ اور عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو۔ کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈرو بے شک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (8) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر و ثواب ہے۔ (9) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا یہی دوزخ والے ہیں۔ (10) اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے اس وقت تم پر کیا جب ایک گروہ نے ارادہ کیا تھا کہ وہ تمہاری طرف دست درازی کرے مگر اللہ نے (اپنی قدرت کاملہ سے) ان کو تم سے روک دیا۔ اللہ سے ڈرو۔ اور اہل ایمان کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (11) اور بلاشبہ اللہ نے بنی اسرائیل سے عہدوپیمان لیا تھا اور ہم نے بھی بارہ نقیب (سردار) مقرر کئے تھے۔ اور اللہ نے (ان سے) کہا تھا کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تو اگر تم نماز قائم رکھوگے، اور زکوٰۃ دیتے رہوگے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہوگے، اور ان کی مدد کرتے رہوگے اور اللہ کو قرضہ حسنہ دیتے رہوگے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا۔ (معاف کر دوں گا) اور تمہیں ان بہشتوں میں داخل کروں گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی مگر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر اختیار کیا وہ ضرور سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ (12) ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی (اپنی رحمت سے دور کر دیا) اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ وہ اب کلامِ (الٰہی) کو اس کی اصلی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں (تحریف کرتے ہیں) اور جس چیز کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے ہیں (اے پیغمبر(ص)) ان کے معدودے چند آدمیوں کے سوا برابر ان کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہیں گے لہٰذا انہیں معاف کر دیجیے اور ان سے درگزر کیجیے بے شک اللہ معاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (13) اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ان سے بھی پختہ عہد لیا تھا۔ سو جو کچھ بھی انہیں نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اس کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے۔ تو ہم نے (بطورِ سزا) قیامت تک ان کے درمیان بغض و عناد ڈال دیا۔ اور عنقریب اللہ ان کو بتائے گا کہ وہ (دنیا میں کیا کرتے تھے)۔ (14) اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارا وہ پیغمبر آگیا ہے جو بہت سی ان باتوں کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔ جنہیں تم اس کتاب میں سے چھپاتے رہے ہو اور بہت سی باتوں کو نظر انداز بھی کر دیتا ہے۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور (روشنی) اور واضح کتاب آگئی ہے۔ (15) جس کے ذریعہ سے خدا ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر چلاتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع و پیروی کرتے ہیں اور ان کو تاریکیوں (گمراہی) سے اپنے اذن و توفیق سے نور (ہدایت) کی طرف لاتا ہے اور انہیں سیدھے راستہ پر لگاتا ہے۔ (16) یقینا وہ لوگ (نصرانی) کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ مسیح مریم کو ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کرنا چاہے۔ تو اس کے آگے کس کا ذرا بھی بس چل سکتا ہے (کہ اسے روک دے) آسمانوں پر، زمین پر اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ ان سب پر، اللہ ہی کی حکومت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (17) یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ان سے کہو (پوچھو) پھر خدا تمہیں تمہارے گناہوں پر سزا کیوں دیتا ہے؟ (نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے محض بشر (انسان) ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے، بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے۔ سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہے، سلطنت آسمانوں کی، زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کی اور سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ (18) اے اہلِ کتاب، ہمارا رسول جو کھول کر (ہمارے احکام) بیان کرتا ہے۔ ایسے وقت تمہارے پاس آیا کہ جب کچھ عرصہ سے رسولوں کی آمد کا سلسلہ بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا، تو لو تمہارے پاس بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (19) وہ وقت یاد کرو۔ جب جناب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم اللہ کا وہ احسان یاد کرو۔ جو اس نے تم پر کیا۔ اس نے تم میں نبی بنائے اور تمہیں فرمانروا اور خودمختار بنایا۔ اور تمہیں وہ کچھ دیا جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ (20) اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور (مقابلہ کے وقت) پیٹھ دکھا کر نہ بھاگنا۔ ورنہ نقصان اٹھا کر لوٹو گے۔ (21) انہوں نے (جواب میں) کہا: اے موسیٰ اس زمین میں تو بڑے زبردست (جابر) لوگ رہتے ہیں اور ہم وہاں ہرگز داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں البتہ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو پھر ہم ضرور داخل ہو جائیں گے۔ (22) اس وقت دو شخصوں نے جو (اللہ سے) ڈرنے والوں میں سے تھے۔ جنہیں اللہ نے (خصوصی) نعمت سے نوازا تھا۔ کہا۔ کہ تم ان (جباروں) پر چڑھائی کرکے دروازہ کے اندر گھس جاؤ اور جب تم اس کے اندر داخل ہوگے (تو وہ بھاگ کھڑے ہوں گے اور) تم غالب آجاؤگے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان دار ہو۔ (23) انہوں نے کہا موسیٰ! ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ جب تک وہ اس میں ہیں۔ لہٰذا آپ اور آپ کا خدا دونوں چلے جائیں اور جا کر لڑیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ (24) موسیٰ نے کہا پروردگار! میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر کوئی قابو (اختیار) نہیں رکھتا۔ پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان فیصلہ کر دے۔ (25) ﷲ نے فرمایا! پھر اب وہ (زمین) چالیس سال تک حرام ہے وہ لق و دق صحراء میں سرگردان پھرتے رہیں گے پس آپ اس نافرمان قوم پر افسوس نہ کریں۔ (26) (اے رسول(ص)) آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا سچا قصہ پڑھ کر سنائیے۔ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے) نے کہا میں تمہیں ضرور قتل کروں گا۔ پہلے نے کہا اللہ تو صرف متقیوں (پرہیزگاروں) کا عمل قبول کرتا ہے۔ (27) اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ بڑھائے گا۔ تو میں تمہیں قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ (کیونکہ) میں تو ڈرتا ہوں اس اللہ سے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ (28) میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنا گناہ سمیٹ لے جائے اور پھر دوزخیوں میں سے ہو جائے کہ ظالموں کی یہی سزا ہے۔ (29) تو (بالآخر) اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کو اس کے لئے آسان بنا دیا۔ چنانچہ اس نے اسے قتل کر دیا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔ (30) پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودتا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے اس پر اس نے کہا، ہائے افسوس! کیا میں اس کوے سے بھی زیادہ گیا گزرا ہوں؟ کہ اپنے بھائی کی لاش چھپاؤں اب وہ پشیمان ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ (31) اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک جان کو بچا لیا، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا اور بے شک ان (بنی اسرائیل) کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے۔ پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں ظلم و تعدی کرنے والے ہی رہے۔ (32) بے شک جو لوگ خدا اور رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ (۱) انہیں قتل کر دیا جائے۔ (۲) یا سولی پر چڑھا دیا جائے۔ (۳) یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں۔ (۴) یا جلا وطن کر دیئے جائیں۔ یہ تو ہوئی ان کی رسوائی دنیا میں اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (33) مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ تو جان لو کہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ (34) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ (35) بے شک وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا اور بھی ہو، تاکہ اسے بطور فدیہ دیں اور قیامت کے دن عذاب سے بچ جائیں، تو وہ بھی ان سے قبول نہ کیا جائے گا۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (36) وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں، مگر وہ اس سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ (37) اور چور مرد ہو یا چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ ان کے کرتوتوں کے عوض میں اللہ کی طرف سے بطور عبرتناک سزا کے اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے۔ (38) پھر جو شخص توبہ کرلے اپنے ظلم سے اور (اپنی) اصلاح کر لے، تو یقینا اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (39) کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت ہے۔ جسے چاہتا ہے، سزا دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (40) اے رسول! وہ لوگ آپ کو غمگین نہ کریں جو کفر کی طرف تیزگامی سے بڑھ رہے ہوں۔ خواہ یہ ان لوگوں میں سے ہوں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے اور یا ان میں سے ہوں جو یہودی ہیں جھوٹ کے بڑے سننے والے ہیں اور سن گن لیتے ہیں دوسرے لوگوں کے لئے جو آپ کے پاس نہیں آئے۔ وہ (کتاب خدا کے) کلمات کو ان کے صحیح موقعوں سے ہٹا دیتے ہیں اور (تحریف کرنے کے بعد) کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو قبول کرو۔ اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرو۔ اور اللہ جسے عذاب کرنا چاہے، تو آپ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ اللہ کے ہاں یہ وہ ہیں کہ اللہ نے (زبردستی) ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ ہی نہیں کیا۔ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔ (41) جھوٹ کے بڑے سننے والے ہیں، حرام مال کے بڑے کھانے والے ہیں اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو (آپ کو اختیار ہے) خواہ ان کا فیصلہ کریں یا ان سے روگردانی کریں اور اگر آپ ان سے روگردانی کریں۔ تو وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر فیصلہ کریں تو پھر انصاف کے ساتھ کریں کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (42) اور یہ لوگ آپ کو کس طرح حَکَم (ثالث) بناتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ (آپ کے فیصلہ کے) بعد اس سے منہ موڑ لیتے ہیں (بات دراصل یہ ہے کہ) یہ مؤمن ہی نہیں ہیں (ہرگز ماننے والے نہیں ہیں)۔ (43) ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور نور (روشنی) تھی اس کے مطابق یہودیوں کے لئے فیصلے کرتے تھے۔ وہ تمام نبی جو اللہ کے مطیع و فرمانبردار تھے اللہ والے علماء و احبار بھی اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے جس کی حفاظت کے وہ ذمہ دار بنائے گئے تھے اور جس کے وہ گواہ تھے۔ پس تم لوگوں سے نہ ڈرو۔ بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اور میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت نہ کرو اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ کافر ہیں۔ (44) اور ہم نے اس (توراۃ) میں ان (یہودیوں) پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کا بدلہ جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بھی برابر کا بدلہ ہے۔ پھر جو (قصاص) معاف کر دے، تو وہ اس کے لئے کفارہ ہوگا اور جو قانونِ خدا کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ ظالم ہیں۔ (45) ہم نے ان (انبیاء) کے نقش قدم پر عیسیٰ کو بھیجا اپنے سے پہلے موجود کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت ہے اور نور بھی جو تصدیق کرنے والی تھی۔ اپنے سے پہلے موجود کتاب یعنی تورات کی اور یہ (انجیل) صحیح رہنمائی اور نصیحت تھی پرہیزگاروں کے لیے۔ (46) چاہیے کہ انجیل والے (نصرانی) اس (قانون) کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے اس (انجیل) میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ (قانون) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی فاسق (نافرمان) ہیں۔ (47) اور (اے رسول(ص)) ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے۔ جو تصدیق کرتی ہے۔ ان (آسمانی) کتابوں کی جو اس سے پہلے موجود ہیں اور ان کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا آپ ان کے درمیان وہی فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور اس حق سے منہ موڑ کر جو آپ کے پاس آگیا ہے۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کی ہے اور اگر خدا (زبردستی) چاہتا، تو تم سب کو ایک ہی (شریعت) کی ایک ہی امت بنا دیتا۔ مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزمائے (ان احکام میں) جو (مختلف اوقات میں) تمہیں دیتا رہا ہے بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا۔ ان باتوں سے جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ (48) اور ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں وہ آپ کو اللہ کے نازل کردہ کسی حکم سے بھٹکا نہ دیں اور اگر وہ روگردانی کریں، تو جان لیجیے کہ اللہ بس یہ چاہتا ہے کہ وہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے۔ بے شک زیادہ تر لوگ فاسق (نافرمان ہیں)۔ (49) کیا وہ دورِ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ حالانکہ یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ (50) اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ بے شک خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (51) (اے رسول(ص)) آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے۔ وہ دوڑ دوڑ کر ان (یہود و نصاریٰ) کی طرف جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش زمانہ نہ آجائے سو قریب ہے کہ اللہ (تمہیں) فتح سے ہمکنار کر دے یا (کامیابی کی) کوئی اور صورت اپنی طرف سے ظاہر کر دے، تو پھر وہ اس پر جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے نادم و پشیمان ہوں گے۔ (52) اور جو ایمان والے ہیں۔ وہ (حیرت سے) کہیں گے کیا یہ وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے بڑی سخت قسمیں کھائی تھیں کہ بے شک وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے سب عمل ضائع ہوگئے اور وہ نقصان اٹھانے والے ہوگئے۔ (53) اے ایمان والو! جو تم میں سے اپنے دین سے مرتد ہو جائے (پھر جائے) تو خدا کو کیا پروا؟ ﷲ عنقریب ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ وہ مؤمنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا بڑا جاننے والا ہے۔ (54) اے ایمان والو! تمہارا حاکم و سرپرست اللہ ہے۔ اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں۔ جو نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (55) اور جو تولاّ رکھے، اللہ سے، اس کے رسول سے اور صاحبانِ ایمان سے (وہ اللہ کا گروہ ہے) اور بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔ (56) اے ایمان والو! وہ لوگ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور انہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے۔ ان کو اور دوسرے عام کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم مؤمن ہو۔ (57) اور جب تم (اذان دے کر لوگوں کو) نماز کی طرف بلاتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بناتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ بے وقوف ہیں، عقل سے کام نہیں لیتے۔ (58) (اے رسول(ص)) کہیے! اے اہل کتاب تم ہم پر کیا عیب لگاتے ہو؟ یہی کہ ہم اللہ پر، جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے۔ اس پر اور جو اس سے پہلے اتارا گیا، اس پر ایمان لائے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) تم میں سے زیادہ تر فاسق (نافرمان) ہیں۔ (59) کہیئے! کیا میں بتاؤں؟ کہ اللہ کے نزدیک انجام کے اعتبار سے زیادہ بُرا کون ہے؟ وہ ہے جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر وہ غضبناک ہے۔ اور جس میں سے اس نے بعض کو بندر اور بعض کو سور بنایا ہے اور جس نے شیطان (معبود باطل) کی عبادت کی ہو یہی وہ لوگ ہیں جوکہ درجہ کے لحاظ سے بدترین ہیں اور راہِ راست سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (60) اور وہ جب آپ لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ یہاں داخل ہوئے تو بھی کفر کے ساتھ اور یہاں سے نکلے تو بھی کفر کے ساتھ اور وہ لوگ جو (نفاق) چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (61) تم ان میں سے بہتوں کو دیکھوگے کہ وہ گناہ، ظلم و تعدی کرنے اور حرام خوری میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں، کتنا برا ہے، وہ کام جو یہ کرتے ہیں۔ (62) خدا والے فضلاء اور علماء ان کو گناہ کی بات کرنے (جھوٹ بولنے) اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ کتنا برا ہے وہ کام جو یہ (علماء) کر رہے ہیں۔ (63) یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (کچھ نہیں کر سکتا) ان کے ہاتھ بندھیں اور اس (بے ادبانہ) قول کی وجہ سے ان پر لعنت ہو۔ بلکہ اس کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے۔ وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرتا ہے اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک دشمنی اور بغض و کینہ ڈال دیا ہے۔ وہ جب بھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ زمین میں فساد برپا کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (64) اور اگر اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان کی برائیاں دور کر دیتے اور انہیں نعمت و راحت والے بہشتوں میں داخل کرتے۔ (65) اور اگر وہ (اہلِ کتاب) تورات، انجیل اور جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان کی طرف نازل کیا گیا تھا کو قائم رکھتے، تو وہ اپنے اوپر اور نیچے سے کھاتے پیتے۔ ان میں سے ایک گروہ تو میانہ رو ہے۔ مگر ان میں سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو بہت برا کر رہے ہیں۔ (66) اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (67) اے اہلِ کتاب تم کسی راہ (حق) پر نہیں ہو جب تک کہ تورات، انجیل کو اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کو قائم نہ رکھو اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے (قرآن) وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا آپ کافروں پر افسوس نہ کریں۔ (68) بے شک جو لوگ مؤمن، یہودی، نصرانی اور صابی (ستارہ پرست) کہلاتے ہیں (غرض) جو کوئی بھی واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان (سب) کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر و ثواب (محفوظ) ہے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے۔ اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (69) ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے تھے جب بھی کوئی رسول ان کے پاس کوئی ایسی بات لے کر آتا جسے ان کے نفوس پسند نہیں کرتے تھے تو بعضوں کو جھٹلا دیتے تھے اور بعضوں کو قتل کر دیتے تھے۔ (70) اور خیال کرتے تھے کہ (انہیں) کوئی سزا نہیں ملے گی۔ اس لئے وہ اندھے اور بہرے ہوگئے پھر توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی (لیکن) اس کے بعد پھر ان میں سے بہت سے لوگ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں۔ اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ (71) یقینا وہ لوگ کافر ہیں۔ جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے حالانکہ خود عیسیٰ نے یہ کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو۔ جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے۔ بے شک جو شخص کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا۔ تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ (72) یقینا وہ لوگ (بھی) کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر یہ لوگ ان باتوں سے باز نہ آئے تو جو ان میں سے کفر پر برقرار رہیں گے تو انہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا۔ (73) یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ کیوں نہیں کرتے اور اس سے (اپنے گناہوں کی) معافی کیوں نہیں مانگتے؟ درآنحالیکہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (74) مسیح گزر چکے ہیں ان کی ماں صدیقہ (راست باز خاتون) تھیں وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے واضح دلائل بیان کر رہے ہیں۔ پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں۔ (75) (اے رسول(ص)) ان سے کہیئے! کیا تم اللہ کو کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان (نہ سود نہ زیاں؟) اور اللہ وہ ہے جو ہر بات کا سننے والا ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (76) کہیئے! اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔ اور ان لوگوں کی خواہشات اور ذاتی خیالات کی پیروی نہ کرو جو پہلے خود گمراہ ہو چکے ہیں۔ اور بہت سوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور راہ راست سے بھٹک گئے ہیں۔ (77) بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ انہوں نے برابر نافرمانی کی اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔ (78) جو برائی وہ کرتے تھے۔ اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ کیسا برا تھا۔ وہ کام جو وہ کرتے تھے۔ (79) آپ ان میں سے بہتوں کو دیکھیں گے کہ وہ اہلِ اسلام کے بالمقابل کافروں سے دوستی رکھتے ہیں بہت ہی برا ہے وہ (سامان) جو ان کے نفسوں نے ان کے لئے آگے بھیجا ہے۔ (جس سے) اللہ ان پر غضبناک ہوگیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ (80) اور اگر وہ خدا پر، رسول(ص) پر اور جو کچھ اس (رسول(ص)) پر نازل کیا گیا ہے۔ اس پر ایمان لاتے، تو ان کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے۔ لیکن (بات دراصل یہ ہے کہ) ان میں سے زیادہ تر لوگ فاسق و فاجر (نافرمان) ہیں۔ (81) اے پیغمبر(ص)! آپ اہل ایمان سے دشمنی کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ سخت ترین دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور اہل ایمان سے دوستی کرنے میں آپ سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادری اور تارک الدنیا عابد پائے جاتے ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ (82) اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو (ہمارے) پیغمبر پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھوگے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی ہوتی ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے وہ کہتے ہیں پروردگار ہم ایمان لائے سو تو ہم کو (صداقتِ اسلام کی) گواہی دینے والوں میں درج فرما۔ (83) اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے ایمان نہ لائیں حالانکہ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں (اپنے) نیک بندوں میں شامل کرے۔ (84) اللہ نے ان کو ان کے اس قول کے صلہ میں ایسے بہشت عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ نیکوکاروں کا معاوضہ ہے۔ (85) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو وہی دوزخ والے ہیں۔ (86) اے ایمان والو! (اپنے اوپر) حرام نہ کرو ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور (حد سے) تجاوز نہ کرو بے شک اللہ (حد سے) تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (87) اور اللہ نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ اور اسی اللہ سے ڈرو (اس کی نافرمانی سے بچو) جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ (88) اللہ تم سے تمہاری لایعنی قَسموں پر مواخذہ (بازپرس) نہیں کرے گا۔ مگر جو قسمیں تم نے قصداً کھائی ہیں (اور اس طرح مضبوط کی ہیں) تو ان پر ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ اور (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے: (۱)دس مسکینوں کو کھانا کھلانا اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔ (۲) یا انہیں کپڑے پہناؤ۔ (۳) یا پھر ایک غلام آزاد کرو۔ اور جس کو اس کا مقدور نہ ہو تو وہ تین روزہ رکھے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفارہ ہے جب تم قَسم کھاؤ اور اپنی قَسموں کی حفاظت کرو (خیال رکھو) اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے آیات و احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ (89) اے ایمان والو! شراب، جوا، بت (یا آستانے، اور پانسے) سب گندے اور شیطانی کام ہیں ان سے اجتناب کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (90) شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعہ سے بغض و عداوت ڈالے۔ اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے باز رکھے (روکے)۔ کیا اب تم (ان چیزوں سے) باز آؤگے؟ ۔ (91) اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور (نافرمانی سے) بچتے رہو اور اگر تم نے روگردانی کی تو پھر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف واضح طور پر (ہمارا پیغام) پہنچا دینا ہے اور بس۔ (92) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ جو وہ (پہلے) کھا پی چکے ہوں۔ جبکہ (اب) پرہیز کریں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ اور پھر اس ایمان و پرہیز پر قائم و ثابت قدم بھی رہیں اور پھر تمام برے کاموں سے پرہیز کرتے رہیں اور نیکیاں کرتے رہیں اور اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (93) اے ایمان والو! خدا تمہیں ضرور اس شکار کے ذریعہ سے آزمائے گا جسے تمہارے یہ ہاتھ اور نیزے پا جائیں (تمہاری زد میں ہو) تاکہ وہ (حسب ظاہر) یہ دیکھے کہ غائبانہ طور پر کون اس سے ڈرتا ہے؟ اور جس نے تنبیہ کے بعد بھی حد سے تجاوز کیا تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (94) اے ایمان والو! شکار کو نہ مارو جبکہ تم احرام باندھے ہوئے ہو اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے گا تو اس کا جرمانہ مویشیوں سے کوئی جانور ہوگا۔ جو اس جانور کا ہم پلہ ہو جو اس نے مارا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل شخص کریں گے اور یہ جرمانہ بطور قربانی و نذرانہ خانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ اس کا کفارہ چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا پھر اس کے برابر روزے رکھے جائیں گے۔ تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا کا مزہ چکھے۔ تو پہلے جو ہو چکا اسے تو اللہ نے معاف کر دیا۔ اور جو پھر ایسا کرے گا تو اس سے اللہ انتقام (بدلہ) لے گا۔ اور اللہ غالب ہے (زبردست ہے) اور بدلہ لینے والا ہے۔ (95) تمہارے لئے سمندری شکار (تری والا) اور اس کا کھانا اور قافلہ والوں (مسافروں) کے فائدہ کے لئے حلال قرار دیا گیا ہے اور جب تک تم حالت احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کیا گیا ہے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو۔ جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے۔ (96) خدا نے کعبہ کو جو حرمت والا گھر ہے۔ حرمت والے مہینوں کو اور قربانی کے جانوروں کو اور گلے میں پٹہ بندھے جانوروں کو لوگوں کی بقاء و فلاح کا سبب اور مرکز بنایا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور یہ کہ اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (97) جان لو کہ اللہ (مقامِ عقاب میں) سخت سزا دینے والا بھی ہے اور مقامِ عفو و صفح میں بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے۔ (98) پیغمبر کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے اور بس۔ اور اللہ اسے بھی جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور اسے بھی جسے تم چھپاتے ہو۔ (99) کہہ دیجیے کہ خبیث (ناپاک) اور طیب (پاک) برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث (ناپاک) کی کثرت اور بہتات تمہیں تعجب میں بھی ڈال دے (تمہیں بھلی لگے) اے عقل والو! خدا کی نافرمانی سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (100) اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو۔ کہ جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر ان کے متعلق ایسے وقت میں سوال کروگے جبکہ قرآن اتر رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے (یا اللہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے) اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔ (101) تم سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے اس قسم کے سوال (اپنے نبیوں سے) کئے تھے۔ پھر انہیں کی وجہ سے کافر (منکر) ہوگئے۔ (102) اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام مقرر نہیں کیا مگر کافر اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر عقل و شعور نہیں رکھتے۔ (103) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (قرآن) کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ پیغمبر(ص) کی طرف تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے تو وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے اگرچہ ان کے باپ دادا نہ علم رکھتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں (تو بھی وہ انہی کے طریقہ کو کافی جانیں گے؟) (104) اے ایمان والو! تم پر لازم ہے کہ اپنی جانوں کی فکر کرو۔ جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو (راہِ راست پر ہو) تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کرتے تھے؟ ۔ (105) اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے جبکہ وہ وصیت کر رہا ہو تو تمہارے درمیان گواہی کا ضابطہ یہ ہے کہ تم مسلمانوں میں سے دو عادل گواہ ہونے چاہئیں۔ ہاں البتہ اگر تم سفر میں ہو اور تم پر موت کی مصیبت آپڑے (اور مسلمان گواہ نہ مل سکیں) تو پھر دو گواہ غیروں میں سے ہی لے لئے جائیں۔ اور اگر تمہیں شک پڑ جائے تو ان دونوں کو نماز کے بعد روک رکھو اور وہ دونوں ان الفاظ کے ساتھ اللہ کی قَسم کھائیں کہ ہم اس قَسم کے عوض کوئی قیمت (فائدہ) حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور ہم اللہ واسطے کی گواہی نہیں چھپائیں گے ورنہ یقینا ہم گنہگاروں میں سے ہوں گے۔ (106) اور اگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ (جھوٹی گواہی دے کر) گناہ کے مستوجب ہوئے ہیں تو پھر ان کی جگہ دو اور گواہ کھڑے ہوں (جو مرنے والے کے زیادہ) قریبی رشتہ دار ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہے اور اللہ کی قَسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان (پہلے) دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی ورنہ ہم ظالموں میں سے ہوں گے۔ (107) یہ طریقہ کار زیادہ قریب ہے اس کے کہ گواہ ٹھیک طریقہ پر گواہی دیں گے یا کم از کم وہ اس بات کا خوف تو کریں گے کہ ان کی قَسموں کے بعد کہیں اور قَسموں سے ان کی تردید نہ ہو جائے (یا انہیں یہ اندیشہ تو ہوگا کہ ان کی قَسموں کے بعد دوسرے گواہوں سے بھی قَسمیں لی جا سکتی ہیں) اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور سنو۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ (108) (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ تمام رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں (اپنی امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تھا تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں تو کچھ علم نہیں ہے۔ تو ہی غیب کی تمام باتوں کا بڑا جاننے والا ہے۔ (109) (اور وہ وقت یاد کرو) جب خدا فرمائے گا اے مریم کے فرزند عیسیٰ میرا وہ انعام یاد کرو۔ جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا۔ جب میں نے روح القدس سے تمہاری تائید کی (جس کی وجہ سے) تم گہوارے میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے (یکساں) باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب (لکھنے) حکمت (دانائی)، توراۃ اور انجیل کی تعلیم دی تم میرے حکم سے مٹی سے پرندہ کی شکل (پتلا) بناتے تھے اور پھر اس میں پھونک مارتے تھے اور وہ میرے حکم سے (سچ مچ) پرندہ بن جاتا تھا۔ اور تم میرے حکم سے پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے اور تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کرکے قبروں سے) نکالا کرتے تھے۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روکا تھا۔ جب تم ان کے پاس بینات و معجزات لائے تھے تو ان میں سے جو کافر (منکر حق) تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ نہیں ہے، مگر کھلا ہوا جادو۔ (110) اور وہ وقت قابل ذکر ہے جب میں نے حواریون کو الہام کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہنا کہ ہم مسلمان (تیرے فرمانبردار بندے) ہیں۔ (111) (حواریوں) کے بارے میں یہ قصہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ انہوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم(ع) کیا آپ کا پروردگار اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتارے عیسیٰ نے کہا اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اگر تم مؤمن ہو؟ ۔ (112) کہنے لگے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہمیں یقین ہو جائے کہ آپ نے ہم سے سچ کہا تھا۔ اور ہم اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں۔ (113) عیسیٰ بن مریم(ع) نے (دعا کرتے ہوئے) کہا اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے قدرتی نشانی بن جائے۔ اور ہمیں روزی عطا فرما تو بہترین روزی عطا کرنے والا ہے۔ (114) اللہ تعالیٰ نے فرمایا بے شک میں وہ (خوان) تم پر اتارنے والا ہوں اب اس کے بعد جو کفر اختیار کرے گا تو میں اسے ایسی سزا دوں گا جیسی دنیا جہان میں کسی کو بھی نہیں دی ہوگی۔ (115) وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو۔ عیسیٰ کہیں گے پاک ہے تیری ذات بھلا میں وہ بات کس طرح کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا۔ کیونکہ تو وہ سب کچھ جانتا ہے جو میرے دل میں ہے مگر میں تیرے اسرارِ نہانی کو نہیں جانتا۔ بلاشبہ تو غیب کی تمام باتوں کا بڑا جاننے والا ہے۔ (116) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا تھا سوائے اس بات کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے اور میں اس وقت تک ان پر گواہ تھا جب تک ان میں تھا پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (117) اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تُو غالب ہے اور بڑا حکمت والا ہے۔ (118) ارشادِ قدرت ہوگا یہ وہ دن ہے کہ جس میں سچوں کی سچائی ان کو فائدہ پہنچائے گی۔ ان کے لئے ایسے بہشت ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی (دونوں ایک دوسرے سے خوش) یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (119) اللہ ہی کے لئے ہے حکومت آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ ان میں ہے اس سب کی اور وہ ہر شی پر قادر ہے۔ (120)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(اے انسانو!) اپنے اس پروردگار سے ڈرو۔ جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بھی اسی سے (اس کی جنس سے) پیدا کیا اور پھر انہی دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ اور رشتہ قرابت کے بارے میں بھی ڈرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر حاضر و ناظر ہے۔ (1) اور یتیموں کے مال ان کے سپرد کرو۔ اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال حاصل نہ کرو۔ اور ان کے مالوں کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (2) اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکوگے۔ تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو دو دو، تین تین، چار چار سے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ (ان کے ساتھ) عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی (بیوی) کرو۔ یا جو تمہاری ملکیت میں ہوں (ان پر اکتفا کرو) یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ بے انصافی نہ کرو۔ (ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ)۔ (3) اور عورتوں کے حق مہر خوشدلی سے ادا کرو اور اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے تمہیں بخش دیں تو تم اسے شوق سے کھا سکتے ہو۔ (4) اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہاری زندگی کا سامان اور اسے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ناسمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ ہاں البتہ ان کو (کھانا و طعام) کھلاؤ اور (کپڑا) پہناؤ اور ان سے اچھی گفتگو کرو۔ (5) اور یتیموں کی جانچ پڑتال کرتے رہو۔ یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں اور تم ان میں اہلیت و سمجھداری بھی پاؤ تو پھر ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔ اور فضول خرچی سے کام لے کر اور اس جلد بازی میں کہ وہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں ان کا مال مت کھاؤ۔ اور جو سرپرست مالدار ہو تو اسے تو بہرحال ان کے مال سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ اور جو نادار ہو اسے معروف (مناسب) طریقہ سے کھانا چاہیے۔ پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرو۔ تو ان لوگوں کو گواہ بنا لو۔ اور یوں تو حساب کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ (6) مردوں کے لیے اس ترکہ سے حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس ترکہ سے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں خواہ وہ (ترکہ) تھوڑا ہو یا زیادہ یہ حصہ (خدا کی طرف سے) لازمی مقرر ہے۔ (7) اور جب تقسیم کے موقع پر رشتہ دار، یتیم اور مسکین موجود ہوں تو انہیں بھی اس (مال) میں سے کچھ دے دو اور ان سے درست اور مناسب طریقہ سے بات کرو۔ (8) اور ترکہ تقسیم کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس و کمزور بچے چھوڑ جاتے۔ تو انہیں ان کی کس قدر فکر ہوتی۔ لہٰذا وہ دوسروں کے یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈریں اور بالکل درست اور سیدھی بات کریں (9) بے شک جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے (واصل جہنم ہوں گے۔) (10) اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ برابر ہے دو لڑکیوں کے اب اگر لڑکیاں ہی وارث ہوں اور ہوں بھی دو سے اوپر تو ان کو دو تہائی ترکہ دیا جائے گا اور ایک لڑکی (وارث) ہو تو اسے آدھا ترکہ دیا جائے گا۔ اور اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے ترکہ کا چھٹا حصہ ہوگا (اور باقی اولاد کا) اور اگر بے اولاد ہو۔ اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا (باقی ۳/۲ باپ کو ملے گا) اور اگر اس (مرنے والے) کے بھائی (بہن) ہوں تو پھر اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (باقی ۶/۵ بہن بھائیوں کو ملے گا) مگر یہ تقسیم اس وقت ہوگی، جب میت کی وصیت پوری کر دی جائے۔ جو وہ کر گیا ہو اور اس کا قرضہ ادا کر دیا جائے گا جو اس پر ہو۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ یا تمہاری اولاد میں سے نفع رسانی کے لحاظ سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔ (11) اور جو ترکہ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں سے آدھا تمہارے لئے ہوگا اگر ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کے اولاد ہو تو پھر تمہیں ان کے ترکہ کا چوتھا حصہ ملے گا۔ یہ تقسیم اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد ہوگی، جو انہوں نے کی ہو اور اس قرضہ کی ادائیگی کے بعد جو ان کے ذمہ ہو۔ اور وہ (بیویاں) تمہارے ترکہ میں سے چوتھے حصہ کی حقدار ہوں گی۔ اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔ اور اگر تمہارے اولاد ہو تو پھر ان کا آٹھواں حصہ ہوگا اور (یہ تقسیم) اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد ہوگی جو تم نے کی ہو اور اس قرض کو ادا کرنے کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔ اور اگر میت (جس کی وراثت تقسیم کی جانے والی ہے) کلالہ ہو یعنی مرد ہو یا عورت بے اولاد ہو اور اس کے ماں باپ نہ ہوں۔ مگر بھائی بہن ہوں تو اگر اس کا صرف ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی یا بہن کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو پھر وہ کل ترکہ کی ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ مگر (یہ تقسیم) اس وصیت کو پورا کرنے اور قرضہ کے ادا کرنے کے بعد ہوگی جو کی گئی (جبکہ وصیت کرنے والا وارثوں کو) ضرر پہنچانے کے درپے نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے لازمی ہدایت ہے، اور اللہ بڑے علم و حلم والا ہے۔ (12) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان بہشتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (13) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے گا۔ تو اللہ اسے آتش دوزخ میں داخل کرے گا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ (14) اور جو تمہاری عورتوں میں سے بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو۔ اور اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کر دو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راستہ مقرر کرے۔ (15) اور تم میں سے جو دو شخص (مرد و عورت) بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کو اذیت پہنچاؤ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ تو انہیں چھوڑ دو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ (16) توبہ قبول کرنے کا حق اللہ کے ذمہ صرف انہی لوگوں کا ہے جو جہالت (نادانی) کی وجہ سے کوئی برائی کرتے ہیں پھر جلدی توبہ کر لیتے ہیں یہ ہیں وہ لوگ جن کی توبہ خدا قبول کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ (17) ان لوگوں کی توبہ (قبول) نہیں ہے۔ جو (زندگی بھر) برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، تو وہ کہتا ہے، اس وقت میں توبہ کرتا ہوں۔ اور نہ ہی ان کے لیے توبہ ہے۔ جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (18) اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔ کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور نہ یہ جائز ہے۔ کہ ان پر سختی کرو اور روکے رکھو تاکہ جو کچھ تم نے (جہیز وغیرہ) انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ لے اڑو مگر یہ کہ وہ صریح بدکاری کا ارتکاب کریں (کہ اس صورت میں سختی جائز ہے) اور عورتوں کے ساتھ عمدہ طریقہ سے زندگی گزارو۔ اور اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو۔ مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ (19) اور اگر تم ایک بیوی کو بدل کر اس کی جگہ دوسری لانا چاہو اور تم ان میں سے ایک کو (جسے فارغ کرنا چاہتے ہو) بہت سا مال دے چکے ہو۔ تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو کیا تم جھوٹا الزام لگا کر اور صریح گناہ کرکے (واپس) لینا چاہتے ہو۔ (20) اور بھلا تم وہ (مال) کیسے واپس لے سکتے ہو۔ جبکہ تم (مقاربت کرکے) ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو؟ اور وہ تم سے پختہ عہد و پیمان لی چکی ہیں۔ (21) جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں۔ ان سے شادی (نکاح) نہ کرو۔ سوا اس کے جو پہلے ہو چکا۔ بے شک یہ کھلی بے حیائی اور (خدا کی) ناراضی کی بات ہے اور بہت برا طریقہ ہے۔ (22) تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے۔ اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (خوشدامنیں) اور تمہاری ان بیویوں کی جن سے تم نے مباشرت کی ہے وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں پرورش پا رہی ہیں اور اگر صرف نکاح ہوا ہے مگر مباشرت نہیں ہوئی ہے۔ تو پھر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں (بہوؤیں) اور یہ بھی حرام قرار دیا گیا کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں اکھٹا کرو۔ مگر جو پہلے ہو چکا ہے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (23) اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں، جو شوہردار ہوں۔ مگر وہ ایسی عورتیں جو (شرعی جہاد میں) تمہاری ملکیت میں آئیں۔ یہ آئین ہے، اللہ کا جو تم پر لازم ہے۔ اور ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمہارے لئے حلال ہیں کہ اپنے مال (حق مہر) کے عوض ان سے شادی کرلو۔ بدکاری سے بچنے اور پاکدامنی کو قائم رکھنے کے لیے اور ان عورتوں میں سے جن سے تم متعہ کرو۔ تو ان کی مقررہ اجرتیں ادا کر دو۔ اور اگر زرِ مہر مقرر کرنے کے بعد تم آپس میں (کم و بیش پر) راضی ہو جاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بے شک اللہ بہت جاننے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ (24) اور تم میں سے جو شخص مالی حیثیت سے اس کی قدرت نہ رکھتا ہو کہ وہ (خاندانی) مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح کر سکے۔ تو وہ ان مسلمان لونڈیوں سے (نکاح کرلے) جو تمہاری ملکیت میں ہوں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم (اسلام کی حیثیت سے) سب ایک دوسرے سے ہو۔ پس ان (لونڈیوں) کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو۔ اور بھلائی کے ساتھ ان کے حق مہر ادا کرو۔ تاکہ وہ (قید نکاح میں آکر) پاکدامن رہیں۔ اور شہوت رانی نہ کرتی پھریں۔ اور نہ ہی چوری چھپے آشنا بناتی پھریں۔ سو جب وہ قید نکاح میں محفوظ ہو جائیں تو اگر اب بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لئے آزاد عورتوں کی نصف سزا ہوگی۔ یہ رعایت (کہ خاندانی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت نہ ہو تو کنیز سے نکاح کرنے کا جواز) اس شخص کے لئے ہے جسے (نکاح نہ کرنے سے) بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اگر ضبط سے کام لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (25) اللہ چاہتا ہے کہ (تم سے اپنے احکام) کھول کر بیان کر دے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں پر چلائے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تمہاری توبہ قبول کرے اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ (26) اور اللہ تو چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے مگر وہ لوگ جو خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم (راہ راست سے بھٹک کر) بہت دور نکل جاؤ۔ (27) اللہ چاہتا ہے کہ تمہارا بوجھ ہلکا کرے (کیونکہ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (28) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔ مگر یہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارتی معاملہ ہو۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ (29) اور جو شخص ظلم و تعدی سے ایسا کرے گا۔ تو ہم عنقریب اسے آتش (دوزخ) میں ڈالیں گے۔ اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ (30) اگر تم ان بڑے (گناہوں) سے بچتے رہو، جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے۔ تو ہم تمہاری (چھوٹی) برائیاں دور کر دیں گے (معاف کر دیں گے) اور تمہیں ایک معزز (جنت) میں داخل کریں گے۔ (31) اور اللہ نے تم سے بعض کو دوسرے بعض پر جو زیادتی (بڑائی) عطا کی ہے۔ تم اس کی تمنا نہ کرو۔ مردوں کا حصہ ہے (مال و اعمال وغیرہ سے) جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کا حصہ ہے جو کچھ انہوں نے کمایا۔ اور اللہ سے اس کے فضل (مال اور اعمال وغیرہ کا) سوال کرو بے شک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (32) اور ہم نے ہر شخص کے لئے وارث مقرر کر دیئے ہیں، جو کچھ ماں، باپ اور قریب ترین رشتہ دار اور جن سے تم نے عہدوپیمان کر رکھا ہے۔ چھوڑ جائیں انہیں (وارثوں کو) ان کا حصہ دو۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ (مطلع) ہے۔ (33) مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں (ایک) اس لئے کہ اللہ نے بعض (مردوں) کو بعض (عورتوں) پر فضیلت دی ہے اور (دوسرے) اس لئے کہ مرد (عورتوں پر) اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ سو نیک عورتیں تو اطاعت گزار ہوتی ہیں اور جس طرح اللہ نے (شوہروں کے ذریعہ) ان کی حفاظت کی ہے۔ اسی طرح پیٹھ پیچھے (شوہروں کے مال اور اپنی ناموس کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور وہ عورتیں جن کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو انہیں (نرمی سے) سمجھاؤ (بعد ازاں) انہیں ان کی خواب گاہوں میں چھوڑ دو اور (آخرکار)۔ انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اور اقدام کرنے کے راستے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ (اپنی کبریائی میں) سب سے بالا اور بڑا ہے۔ (34) اور اگر تمہیں دونوں (میاں بیوی) کی ناچاقی کا خوف دامنگیر ہو تو ایک ثالث مرد کے کنبے سے اور ایک ثالث عورت کے کنبے سے مقرر کرو۔ اگر دونوں اصلاح کا ارادہ کریں گے تو خدا ان دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا بڑا باخبر ہے۔ (35) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پہلو میں بیٹھنے والے رفیق اور مسافر، اپنے مملوکہ (غلاموں کنیزوں) کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ بے شک اللہ مغرور و متکبر اور شیخی بگھارنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (36) جو خود کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کرنے کا حکم (ترغیب) دیتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے دیا ہے وہ اسے چھپاتے ہیں ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (37) اور جو اپنے مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں دراصل وہ خدا اور روزِ جزا پر ایمان و یقین نہیں رکھتے (اللہ ایسے لوگوں کو دوست نہیں رکھتا)۔ اور جس کا مصاحب شیطان ہو۔ وہ اس کا بہت بُرا مصاحب ہے۔ (38) اور ان کا کیا نقصان ہوتا اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتے اور اللہ ان سے خوب واقف ہے۔ (39) بے شک اللہ ذرہ برابر (کسی پر) ظلم نہیں کرتا اور اگر وہ (ذرہ برابر) نیکی ہو تو اسے دوگنا (بلکہ چوگنا) کر دیتا ہے اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔ (40) اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (41) اس دن کافر اور پیغمبر کے نافرمان تمنا کریں گے کہ کاش وہ زمین کے برابر کر دیئے جاتے۔ اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔ (42) اے ایمان والو۔ نماز کے قریب مت جاؤ جبکہ نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ (نشہ اتر جائے اور) تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور نہ ہی جنابت کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ) یہاں تک کہ غسل کر لو۔ الا یہ کہ تم راستے سے گزر رہے ہو (سفر میں ہو)۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کے آئے۔ یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پھر پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ کہ (اس سے) اپنے چہروں اور ہاتھوں کے کچھ حصہ پر مسح کرلو۔ بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے، بڑا بخشنے والا ہے۔ (43) کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جن کو کتاب (الٰہی) کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ گمراہی خرید رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی سیدھے راستے سے بہک جاؤ۔ (44) اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ تمہاری کارسازی و سرپرستی اور مددگاری کے لیے کافی ہے (45) یہودیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کلموں کو ان کے موقع و محل سے پھیر دیتے ہیں اور زبانوں کو توڑ موڑ کر اور دین پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سمعنا و عصینا‘‘ (ہم نے سنا مگر مانا نہیں) اور ’’اسمع غیر مسمع‘‘ (اور سنو تمہاری بات نہ سنی جائے) اور ’’راعنا‘‘ (ہمارا لحاظ کرو)۔ اگر وہ اس کی بجائے یوں کہتے ’’سمعنا و اطعنا‘‘ (ہم نے سنا اور مانا) اور ‘‘اسمع‘‘ (اور سنیئے) ‘‘وانظرنا‘‘ (اور ہماری طرف دیکھئے) تو یہ ان کے لئے بہتر اور زیادہ درست ہوتا۔ مگر اللہ نے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے (اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے) اس لئے وہ بہت کم ایمان لائیں گے۔ (46) اے اہل کتاب اس (قرآن) پر (ایمان لاؤ) اس سے پہلے کہ ہم کچھ چہروں کو بگاڑ دیں اور انہیں ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتہ کے دن والوں پر لعنت کی تھی اور اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے۔ (47) یقینا اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا (ہر گناہ) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اس نے بہت بڑے گناہ کے ساتھ بہتان باندھا۔ (48) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں (اور خود اپنی تعریف کرتے ہیں) حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے پاکیزگی عطا کرتا ہے (جس کی چاہتا ہے تعریف کرتا ہے)۔ اور ان پر سوت برابر (ذرہ برابر) ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (49) دیکھو کہ یہ کس طرح خدا پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں۔ اور ان کے گنہگار ہونے کے لیے یہی کھلا ہوا گناہ کافی ہے۔ (50) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (الٰہی) سے کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ جبت (بت) اور طاغوت (شیطان) پر ایمان رکھتے ہیں (انہیں مانتے ہیں) اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایمان لانے والوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (51) یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے تم اس کا ہرگز کوئی یار و مددگار نہیں پاؤگے۔ (52) کیا ان کا سلطنت میں کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو تل بھر بھی نہ دیتے۔ (53) یا پھر وہ لوگوں پر اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے۔ (اگر یہ بات ہے) تو ہم نے آلِ ابراہیم (ع) کو کتاب و حکمت عطا کی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت عطا کی۔ (54) پھر ان میں کچھ تو اس پر ایمان لائے اور کچھ روگردان ہوگئے اور (ایسوں کے لئے) دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔ (55) بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہم عنقریب انہیں (دوزخ) کی آگ میں جھونکیں گے۔ جب ان کی (پہلی) کھا لیں پک (جل) جائیں گی تو ہم ان کی کھالیں اور کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں بے شک اللہ زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے ۔ (56) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہم عنقریب ان کو ان بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لئے وہاں پاک و پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں (اپنی رحمت) کے گنجان سایہ (گھنی چھاؤں) میں اتاریں گے۔ (57) (اے مسلمانو) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ بے شک اللہ تمہیں بہت ہی اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (58) اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتے ہو تو یہ طریقہ کار تمہارے لئے اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہے۔ (59) یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے تم اس کا ہرگز کوئی یار و مددگار نہیں پاؤگے۔ (52) کیا ان کا سلطنت میں کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو تل بھر بھی نہ دیتے۔ (53) یا پھر وہ لوگوں پر اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے۔ (اگر یہ بات ہے) تو ہم نے آلِ ابراہیم (ع) کو کتاب و حکمت عطا کی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت عطا کی۔ (54) پھر ان میں کچھ تو اس پر ایمان لائے اور کچھ روگردان ہوگئے اور (ایسوں کے لئے) دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔ (55) بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہم عنقریب انہیں (دوزخ) کی آگ میں جھونکیں گے۔ جب ان کی (پہلی) کھا لیں پک (جل) جائیں گی تو ہم ان کی کھالیں اور کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں بے شک اللہ زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے ۔ (56) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہم عنقریب ان کو ان بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لئے وہاں پاک و پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں (اپنی رحمت) کے گنجان سایہ (گھنی چھاؤں) میں اتاریں گے۔ (57) (اے مسلمانو) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ بے شک اللہ تمہیں بہت ہی اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (58) اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتے ہو تو یہ طریقہ کار تمہارے لئے اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہے۔ (59) اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو۔ یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ۔ تو اس پر معدودے چند لوگوں کے سوا اور کوئی عمل نہ کرتا اور اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے، جو ان کو کی جاتی ہے، تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ اور ثابت قدمی کا زیادہ موجب ہوتا۔ (66) اور اس وقت ہم انہیں اپنی طرف سے بڑا اجر دیتے۔ (67) اور انہیں سیدھے راستہ پر چلنے کی خاص توفیق عطا کرتے۔ (68) جو اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرے گا۔ تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہ بہت اچھے رفیق ہیں۔ (69) یہ اللہ کا خاص فضل ہے اور اللہ کا علم کافی ہے۔ (70) اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان مکمل رکھو۔ ہر وقت تیار رہو پھر (موقع کی مناسبت سے) دستہ دستہ ہوکر نکلو یا اکھٹے ہوکر نکلو۔ (71) اور تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو پیچھے رکا رہنا پسند کرتے ہیں پس اگر تم پر کوئی مصیبت نازل ہو تو کہتا ہے کہ یہ مجھ پر اللہ کا احسان تھا کہ ان کے ساتھ حاضر نہ تھا۔ (72) اور اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم ہو (فتح ہو اور مالِ غنیمت مل جائے) تو کہتا ہے جیسے اس کے اور تمہارے درمیان کبھی محبت اور دوستی تھی ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرتا۔ (73) اللہ کی راہ میں ان لوگوں کو جنگ کرنا چاہیے جنہوں نے دنیا کی پست زندگی آخرت کے عوض فروخت کر دی ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے، پھر مارا جائے یا غالب آجائے تو ہم ضرور اسے اجر عظیم عطا کریں گے۔ (74) آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ تم جنگ نہیں کرتے راہ خدا میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر جو فریاد کر رہے ہیں۔ پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال دے۔ جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لئے کوئی سرپرست اور حامی و مددگار بنا۔ (75) جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ پس تم شیطان کے حوالی، موالی (حامیوں) سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا مکر و فریب نہایت کمزور ہے۔ (76) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رہو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر جدال و قتال فرض کر دیا گیا۔ تو ان میں سے ایک گروہ انسانوں سے اس طرح ڈرنے لگا، جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگا پروردگار! تو نے کیوں (اتنا جلدی) ہم پر جہاد فرض کر دیا۔ اور تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہ دی؟ (اے نبی) کہہ دیجیے کہ دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور جو متقی و پرہیزگار ہے اس کے لئے آخرت بہت بہتر ہے اور تم پر کھجور کی گھٹلی کے ریشہ برابر (ذرہ بھی) ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (77) تم جہاں کہیں بھی ہوگے، موت تمہیں آئے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو اور جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے۔ تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جب کوئی برائی اور تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی وجہ سے ہے۔ کہہ دیجیے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھتے ہی نہیں ہیں؟ ۔ (78) آپ کو جو بھلائی پہنچتی ہے۔ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور آپ کو جو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ تمہاری وجہ سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔ (79) اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے روگردانی کی، تو ہم نے آپ کو ان پر نگران و پاسبان بنا کر نہیں بھیجا۔ (80) اور وہ زبان سے اطاعت و فرمانبرداری کی لفظ کہتے ہیں اور جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں۔ تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے فرمان (یا اپنے قول و قرار کے) برعکس رات بھر تدبیریں کرتا ہے جو کچھ وہ رات کے وقت کرتے ہیں۔ اللہ وہ سب کچھ (ان کے صحیفۂ اعمال میں) لکھ رہا ہے۔ آپ ان کی طرف توجہ نہ کریں۔ اور اللہ پر توکل و بھروسہ کریں، کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔ (81) آخر یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔ (82) اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات پہنچتی ہے تو اسے پھیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ اسے رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹاتے تو (حقیقت کو) وہ لوگ جان لیتے جو استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو چند آدمیوں کے سوا باقی شیطان کی پیروی کرنے لگ جاتے۔ (83) تو آپ(ص) اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ آپ پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ سوائے اپنی ذات کے اور اہل ایمان کو (جہاد پر) آمادہ کریں۔ امید ہے کہ اللہ کافروں کا زور روک دے اور اللہ کا زور زبردست اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔ (84) اور جو اچھی سفارش کرے گا۔ اسے اس میں سے حصہ ملے گا اور جو کوئی بری سفارش کرے گا۔ اسے بھی اس کا حصہ (وزر و بال) ملے گا۔ اور اللہ ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (85) اور جب تمہیں سلام کیا جائے (یا کوئی تحفہ پیش کیا جائے) تو اس سے بہتر طریقہ پر جواب دو۔ یا (کم از کم) اسی کو لوٹادو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا محاسبہ کرنے والا ہے۔ (86) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا۔ جس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون بات میں سچا ہے۔ (87) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو۔ حالانکہ اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے (ان کے کفر کی طرف) الٹا پھیر دیا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اسے ہدایت دو جس سے اس کی بدعملی کی وجہ سے خدا نے توفیق ہدایت سلب کر لی ہے۔ اور جس سے اللہ توفیق ہدایت سلب کرے، تم اس کے لیے (ہدایت کا) راستہ نہیں پاؤگے۔ (88) وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کفر اختیار کرو جیسے انہوں نے کفر اختیار کیا ہے۔ تاکہ پھر تم سب برابر ہو جاؤ۔ لہٰذا تم انہیں اپنا حامی و سرپرست نہ بناؤ جب تک اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اگر وہ اس ہجرت کرنے سے روگردانی کریں تو انہیں پکڑو۔ اور جہاں کہیں انہیں پاؤ انہیں قتل کر ڈالو اور ان میں کسی کو اپنا سرپرست اور مددگار نہ بناؤ۔ (89) سوا ان کے جو ان لوگوں سے جا ملیں جن کے اور تمہارے درمیان (جنگ نہ کرنے کا) معاہدہ ہے یا اس حالت میں تمہارے پاس آئیں کہ ان کے سینے (دل) میں تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ جنگ کرنے سے تنگ آچکے ہوں (ایسے منافق قتل کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں) اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا اور وہ ضرور تم سے لڑتے تو پھر اگر وہ تم سے کنارہ کشی کر لیں اور تمہارے ساتھ جنگ نہ کریں اور صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کوئی راہ نہیں رکھی ہے۔ (90) عنقریب تم کچھ ایسے لوگ (منافق) پاؤگے۔ جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں لیکن جب وہ کبھی فتنہ و فساد کی طرف بلائے جاتے ہیں تو اندھے منہ اس میں جا پڑتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو پھر انہیں پکڑو۔ اور جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ قتل کرو۔ یہی وہ لوگ ہیں! جن پر ہم نے تمہیں کھلا غلبہ عطا کیا ہے۔ (91) کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر غلطی سے۔ اور جو کوئی کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کرے (تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ) ایک مؤمن غلام آزاد کیا جائے اور خون بہا اس کے گھر والوں (وارثوں) کو ادا کیا جائے، مگر یہ کہ وہ لوگ خود (خون بہا) معاف کر دیں۔ پھر اگر مقتول تمہاری دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو تو پھر (اس کا کفارہ) ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا ہے اور اگر وہ (مقتول) ایسی (غیر مسلم) قوم کا فرد ہو جس کے اور تمہارے درمیان (جنگ نہ کرنے کا) معاہدہ ہے۔ تو (کفارہ میں) ایک خون بہا اس کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا۔ اور ایک مسلمان غلام بھی آزاد کیا جائے گا اور جس کو (غلام) میسر نہ ہو تو وہ مسلسل دو مہینے روزے رکھے گا۔ یہ اللہ کی طرف سے (اس گناہ کی) توبہ مقرر ہے۔ خدا بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔ (92) اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا دوزخ ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔ (93) اے ایمان والو! جب خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو۔ اور جو تمہیں سلام کرے تم اسے نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔ تم دنیاوی زندگی کا سازوسامان حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بڑی غنیمتیں ہیں۔ اس سے پہلے تم خود ایسے (کافر) ہی تھے۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (کہ تم مسلمان ہوگئے) پس خوب تحقیق کر لیا کرو۔ یقینا اللہ اس سے باخبر ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو۔ (94) مسلمانوں میں سے بلا عذر گھر میں بیٹھے رہنے والے اور راہِ خدا میں مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔ (95) یعنی اس کی طرف سے (ان کے لئے) بڑے درجے، بخشش اور رحمت ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (96) بے شک وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ جب فرشتوں نے ان کی روحوں کو قبض کیا، تو ان سے کہا تم کس حال میں تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بُری جائے بازگشت ہے۔ (97) علاوہ ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے جن کے اختیار میں کوئی تدبیر نہ تھی اور وہ کوئی راستہ نہ نکال سکتے تھے۔ (98) یہی وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب خدا معاف کر دے گا کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔ (99) اور جو کوئی راہِ خدا میں ہجرت کرے گا۔ وہ زمین میں بہت ہجرت گاہ، جائے پناہ اور بڑی کشائش پائے گا۔ اور جو شخص اپنے گھر سے خدا اور رسول(ص) کی طرف ہجرت کے ارادہ سے نکلے پھر اسے موت آجائے، تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہوگیا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (100) اور جب تم زمین میں سفر کرو۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (بلکہ واجب ہے کہ) نماز میں قصر کر دو۔ (بالخصوص) جب تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائیں گے۔ بے شک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ (101) اے رسول(ص) جب آپ(ص) ان (مسلمانوں) میں ہوں اور انہیں نماز (باجماعت) پڑھانے لگیں تو چاہیے کہ ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ اور وہ لوگ اپنے ہتھیار لئے رہیں۔ اور جب یہ سجدہ کر چکیں (نماز پڑھ چکیں) تو یہ (پشت پناہی کے لیے) تمہارے پیچھے چلے جائیں اور پھر وہ دوسرا گروہ جس نے ہنوز نماز نہیں پڑھی ہے۔ آجائے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے۔ اور چوکنا رہے اور اپنا اسلحہ لئے رہے، کفار کی تو یہ خواہش ہے کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سازوسامان سے (ذرا) غافل ہو جاؤ اور وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں۔ اور اگر تمہیں بارش سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم اپنے ہتھیاروں کو رکھ دو۔ ہاں اپنی حفاظت کا خیال رکھو (چوکنا رہو) بے شک اللہ نے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (102) پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے، اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہوئے) اور جب تمہیں اطمینان ہو جائے تو نماز کو پورے طور پر ادا کرو۔ بے شک نماز اہل ایمان پر پابندی وقت کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ (103) اس (مخالف) جماعت کی تلاش اور تعاقب میں سستی نہ دکھاؤ۔ اگر اس میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ تو انہیں بھی اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے۔ جس طرح تمہیں پہنچتی ہے اور تم اللہ سے اس چیز (ثواب) کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں ہیں اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔ (104) بے شک ہم نے (یہ) کتاب حق کے ساتھ آپ پر اتاری ہے۔ تاکہ آپ لوگوں میں اس کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے آپ کو بتا دیا ہے اور آپ خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔ (105) اور اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (106) اور جو لوگ اپنی ذات سے خیانت کرتے ہیں۔ آپ ان کی وکالت نہ کریں۔ بے شک اللہ اسے دوست نہیں رکھتا، جو بڑا خیانت کار اور بڑا گنہگار ہے۔ (107) یہ لوگ (اپنی حرکات) لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے، کیونکہ وہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے، جب وہ راتوں کو اس کی پسند کے خلاف گفتگوئیں (مشورے) کرتے ہیں اور وہ جو کچھ کرتے ہیں۔ اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (108) (اے مسلمانو!) یہ تم ہو جو دنیاوی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑتے ہو (ان کی طرفداری کرتے ہو)۔ تو قیامت کے دن ان کی طرف سے خدا سے کون بحث کرے گا؟ یا کون ان کا وکیل (نمائندہ) ہوگا؟ ۔ (109) اور جو کوئی برائی کرے یا قبیح کام کرے یا کوئی اپنے اوپر ظلم کرے (گناہ کا ارتکاب کرے) پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے، تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا پائے گا۔ (110) اور جو گناہ کرتا ہے تو وہ اپنی ہی جان کے خلاف کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا ہے اور بڑی حکمت والا ہے۔ (111) اور جو کوئی غلطی یا گناہ کرے یا کسی بے قصور پر تہمت لگائے، تو اس نے ایک بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔ (112) اور اگر اللہ کا فضل و کرم اور اس کی خاص رحمت آپ(ص) کے شامل حال نہ ہوتی تو ان کے ایک گروہ نے تو یہ تہیّہ کر لیا تھا کہ آپ کو گمراہ کرکے رہے گا۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ پڑھا دیا ہے۔ جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ (113) لوگوں کی زیادہ تر سرگوشیوں میں کوئی خیر و خوبی نہیں ہے سوا اس کے کہ کوئی صدقہ دینے، نیکی کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے کی بات کرے اور جو شخص خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ایسا کرے ہم اسے اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (114) اور جو راہِ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے راستے کے خلاف چلے، تو ہم اسے ادھر ہی جانے دیں گے، جدھر وہ گیا ہے (ہم اسے کرنے دیں گے جو کچھ وہ کرتا ہے)۔ اور اسے آتش دوزخ کا مزا چکھائیں گے اور یہ بہت بری جاءِ بازگشت ہے۔ (115) بے شک اللہ اس جرم کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا (جو کم درجہ کے جرائم ہیں) جس کے لئے چاہتا ہے، بخش دیتا ہے۔ اور جو کسی کو اس کا شریک ٹھرائے، وہ گمراہ ہوا (اور اس میں) بہت دور نکل گیا۔ (116) یہ (مشرک) لوگ اللہ کو چھوڑ کر نہیں پکارتے، مگر زنانی چیزوں (دیویوں) کو (ان کی عبادت کرتے ہیں) اور نہیں پکارتے، مگر سرکش شیطان کو (اس کی پرستش کرتے ہیں)۔ (117) جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس نے کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا مقررہ حصہ لے کر رہوں گا۔ (118) اور انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور میں انہیں مختلف آرزوؤں میں الجھاؤں گا (انہیں سبز باغ دکھاؤں گا) اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ ضرور چوپاؤں کے کان شگافتہ کریں گے اور میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ خدا کی خدائی ساخت کو ضرور بدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنائے گا وہ کھلا ہوا نقصان اٹھائے گا۔ (119) وہ شیطان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں (جھوٹی) امیدیں دلاتا ہے۔ اور ان سے شیطان وعدہ نہیں کرتا مگر فریب کے طور پر۔ (120) یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جس سے وہ چھٹکارا کی راہ نہیں پائیں گے۔ (121) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ہم عنقریب انہیں ان بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون بات کا سچا ہے۔ (122) (اے مسلمانو) نہ تمہاری تمناؤں سے کچھ ہوتا ہے اور نہ اہلِ کتاب کی تمناؤں سے۔ جو بھی برائی کرے گا، اس کو اس کی سزا دی جائے گی اور وہ اللہ کو چھوڑ کر اپنے لئے نہ کوئی سرپرست پائے گا اور نہ کوئی حامی و مددگار۔ (123) اور جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت درانحالیکہ وہ مؤمن ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر تل برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (124) اور اس شخص سے بڑھ کر کس کا دین اچھا ہوگا۔ جو اللہ کے لئے اپنا چہرہ جھکا دے (اپنے کو اللہ کے سپرد کر دے) اور وہ احسان کرنے والا ہو۔ اور اس ابراہیم حنیف کی ملت کا پیرو ہو۔ جسے اللہ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ (125) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وہ اللہ ہی کا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (126) اے رسول! لوگ عورتوں کے معاملہ میں آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دیجیے! کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور متوجہ کرتا ہے ان آیات کی طرف جو کلام الٰہی کے اندر ہیں اور تمہیں ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں۔ جن کا تم مقررہ حق تو ادا نہیں کرتے مگر چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔ اور متوجہ کرتا ہے ان (آیات) کی طرف جو ان کمزور و بے بس لڑکوں کے بارے میں ہیں۔ اور جو (آیات) اس بارے میں ہیں کہ یتیم بچوں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔ اور تم جو بھلائی کروگے تو اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے۔ (127) اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے حق تلفی یا بے توجہی محسوس کرے تو ان دونوں کے لیے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ (کچھ لو کچھ دو کی بنا پر) آپس میں صلح کر لیں اور صلح بہرحال بہتر ہے اور نفوس میں بخل موجود رہتا ہے (تنگ دلی پر آمادہ رہتے ہیں) اور اگر تم بھلائی کرو۔ اور پرہیزگاری اختیار کرو۔ تو بے شک اللہ تمہارے اس طرزِ عمل سے باخبر ہے۔ (128) یہ ٹھیک ہے کہ تم جس قدر چاہو مگر بیویوں میں پورا پورا عدل نہیں کر سکتے۔ مگر بالکل تو ایک طرف نہ جھک جاؤ۔ کہ (دوسری کو) بیچوں بیچ لٹکا چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنی اصلاح کر لو۔ اور تقویٰ اختیار کرو۔ تو خدا بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (129) اور اگر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنے فضل و کرم کی وسعت سے بے نیاز کر دے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا بڑی حکمت والا ہے۔ (130) اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور ہم نے ان لوگوں کو بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور تمہیں بھی ہدایت کی ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے حمد و ثناء کا حقدار ہے۔ (131) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وہ سب اللہ کا ہے اور اللہ کارسازی کے لیے کافی ہے۔ (132) اے لوگو! اگر وہ چاہے، تو تم سب کو لے جائے (ختم کر دے) اور دوسروں کو لے آئے اور اللہ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (133) جو شخص صرف دنیاوی صلہ و ثواب کا طلبگار ہو (تو اس کی مرضی ورنہ) اللہ کے پاس تو دنیا و آخرت دونوں کا صلہ و ثواب ہے اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (134) اے ایمان والو! مضبوطی کے ساتھ انصاف کے علمبردار ہو جاؤ۔ اور محض اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو۔ خواہ تمہیں اپنے یا والدین کے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی گواہی دینا پڑے۔ وہ (جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہے) چاہے امیر ہو چاہے فقیر ہو بہرحال اللہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے پس اس طرح خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ۔ اور اگر تم نے ہیرپھیر کیا یا (حق سے) منہ موڑا تو بے شک جو کہ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (135) اے ایمان والو! اللہ پر، اس کے رسول(ص) پر اور اس کی کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول(ص) پر نازل کی ہے۔ اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری ہے اور جو کوئی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا، اور آخرت کے دن کا انکار کرے۔ وہ گمراہ ہوا اور اس میں بہت دور نکل گیا۔ (136) جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ پھر کفر میں بڑھتے گئے۔ اللہ ہرگز نہ ان کی مغفرت فرمائے گا اور نہ انہیں سیدھی راہ تک پہنچائے گا۔ (137) منافقوں کو سنا دیجیے! کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (138) وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں۔ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے (اس کے اختیار میں ہے)۔ (139) اور اس نے کتاب (قرآن) میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب سنو کہ (کسی جگہ) آیات الٰہیہ کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہو جائیں (ورنہ) اس حالت میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤگے۔ بے شک خدا سب منافقوں اور سب کافروں کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے۔ (140) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام) کے منتظر رہتے ہیں۔ پھر اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح و فیروزی حاصل ہوگئی تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو (فتح کا) کچھ حصہ مل گیا تو (کافروں سے) کہتے ہیں۔ کیا ہم تم پر غالب نہیں آنے لگے تھے؟ اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا؟ اب اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اور اللہ کبھی کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔ (141) منافق (بزعم خود) خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے (انہیں ان کی دھوکہ بازی کی سزا دینے والا ہے) اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ تو بے دلی اور کاہلی کے ساتھ وہ بھی خلوص نیت سے نہیں بلکہ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑ۔ (142) وہ (کفر و اسلام کے) درمیان ڈانواں ڈول ہیں نہ پورے اس طرف نہ پورے اس طرف جسے اللہ بھٹکنے دے (اس کی کج رفتاری کی وجہ سے توفیق ہدایت سلب کر لے) تو تو اس کے لئے ہدایت کا کوئی راستہ نہیں پائے گا۔ (143) اے ایمان والو! اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ کو کھلی ہوئی دلیل مہیا کر دو۔ (144) بے شک منافق دوزخ کے سب سے نیچے والے طبقہ میں ہوں گے۔ اور تم ان کے کوئی یار و مددگار نہیں پاؤگے۔ (145) سوا ان کے جنہوں نے توبہ کی، اپنی اصلاح کرلی۔ اور اللہ سے وابستہ ہوگئے اور اللہ کے لئے اپنا دین خالص کر دیا (خلوص کے ساتھ اس کی اطاعت کرنے لگے) تو یہ لوگ مؤمنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ اہل ایمان کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ (146) اگر تم شکرگزار بن جاؤ۔ اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب کرکے کیا کرے گا؟ اور اللہ تو بڑا قدردان ہے (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (147) اللہ علانیہ بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جس پر ظلم ہوا ہو (کہ اس کے لیے ظالم کی بدگوئی جائز ہے) اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (148) اگر تم کوئی نیکی ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ۔ یا کسی برائی سے درگزر کرو۔ تو بے شک اللہ (بھی) بڑا معاف کرنے والا، بڑا قدرت والا ہے۔ (149) بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے پیغمبروں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ (ایمان و کفر کے) درمیان کوئی راستہ نکالیں۔ (150) یہی وہ لوگ ہیں، جو حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (151) اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں وہ (اللہ) ان کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ اور اللہ تو ہے ہی بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا۔ (152) آپ سے اہل کتاب مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی (لکھی ہوئی) کتاب اتروا دیں سو یہ تو جناب موسیٰ سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کر چکے ہیں یعنی کہا تھا کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ دکھا دو تو ان کے (اسی) ظلم کی وجہ سے ان کو بجلی نے پکڑ لیا۔ اور پھر ان لوگوں نے آیات و معجزات آجانے کے بعد گوسالے کو (خدا) بنا لیا۔ مگر ہم نے انہیں معاف کر دیا اور موسیٰ کو کھلا ہوا غلبہ عطا کیا۔ (153) اور ہم نے ان سے (فرمانبرداری کا) پختہ عہد لینے کے لیے ان کے اوپر کوہ طور کو بلند کیا اور ہم نے ان سے کہا سجدہ ریز ہوکر دروازہ (شہر) میں داخل ہو جاؤ اور ان سے کہا کہ قانون سبت کے بارے میں زیادتی نہ کرو (حد سے نہ بڑھو) اور ہم نے ان سے پختہ عہد و پیمان لیا تھا۔ (154) سو (ان کو جو سزا ملی وہ) ان کے عہد شکنی کرنے، آیاتِ الٰہیہ کا انکار کرنے، نبیوں کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے (دلوں) پر مہر لگا دی ہے۔ اس لیے وہ بہت کم ایمان لائیں گے۔ (155) نیز ان کے ساتھ یہ جو کچھ ہوا یہ ان کے کفر کی وجہ سے ہوا۔ اور جناب مریم پر بہتان عظیم لگانے کی وجہ سے۔ (156) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے خدا کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان پر اصل معاملہ مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ یقینا اس کے متعلق شک میں ہیں اور انہیں گمان کی پیروی کرنے کے سوا کوئی علم نہیں ہے۔ اور انہوں نے یقینا ان کو قتل نہیں کیا۔ (157) بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے۔ (158) اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں، جو اپنی موت (یا ان کی موت) سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور وہ قیامت کے دن ان کے خلاف گواہ ہوں گے۔ (159) یہودیوں کے ایسے ہی مظالم اور زیادتیوں کیوجہ سے ہم نے وہ بہت سی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں، جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں۔ نیز ان کے (لوگوں کو) اللہ کے راستہ سے بکثرت روکنے کی وجہ سے۔ (160) اور ان کے سود لینے کے سبب سے، حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا ناحق مال کھانے کے باعث (یہ سب کچھ ہوا)۔ اور ان میں سے جو لوگ کافر ہیں، ہم نے ان کے لئے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (161) البتہ ان میں سے جو علم میں پختہ ہیں اور جو ایمان دار ہیں، وہ سب اس پر ایمان لاتے ہیں، جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم بہت بڑا اجر و ثواب عطا کریں گے۔ (162) بے شک ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے۔ جس طرح (جناب) نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اولادِ یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی تھی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔ (163) کچھ پیغمبر وہ ہیں جن کے حالات ہم نے آپ سے پہلے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کے واقعات ہم نے آپ سے بیان نہیں کئے اور اللہ نے موسیٰ سے اس طرح کلام کیا جیساکہ کلام کرنے کا حق ہے۔ (164) اور (ہم نے) رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہ جائے اور اللہ زبردست، بڑا حکمت والا ہے۔ (165) اللہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ آپ پر نازل کیا۔ وہ اپنے علم سے نازل کیا ہے اور فرشتے (بھی) اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اگرچہ گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔ (166) بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے روکا گمراہی میں بہت دور نکل گئے۔ (167) بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم و ستم کیا، اللہ انہیں بخشنے والا نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں کوئی راستہ دکھائے گا۔ (168) سوا جہنم کے راستہ کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بات اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ (169) اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے رسول حق لے کر آگیا ہے۔ پس ان پر ایمان لاؤ۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اگر انکار کروگے تو (اللہ کا کیا نقصان کروگے) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ اللہ ہی کا ہے۔ اور اللہ بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (170) اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور اللہ کے بارے میں نہ کہو مگر سچی بات جناب عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ جسے اس نے مریم کی طرف بھیجا۔ اور اللہ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور تثلیث (یعنی تین خداؤں) کے قائل نہ ہو۔ (اس سے باز آجاؤ) (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ تو صرف ایک ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب اسی کا ہے اور اللہ کارسازی کے لئے کافی ہے۔ (171) عیسیٰ مسیح اللہ کا بندہ ہونے میں اپنے لئے عار نہیں سمجھتے اور نہ ہی مقرب فرشتے اس میں اپنے لئے کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور جو اس کی بندگی میں ننگ و عار محسوس کرے گا اور تکبر کرے گا۔ اللہ سب کو جلد اپنی طرف محشور فرمائے گا۔ (172) پھر جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور نیک عمل کئے ہوں گے انہیں ان کا پورا پورا صلہ و ثواب دے گا اور اپنے فضل و کرم سے انہیں مزید بھی عطا فرمائے گا۔ اور جنہوں نے (اس کی بندگی سے) ننگ و عار محسوس کیا ہوگا اور تکبر کیا ہوگا ان کو دردناک عذاب کی سزا دے گا۔ اور وہ اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست پائیں گے اور نہ کوئی یار و مددگار۔ (173) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیل آگئی ہے۔ اور ہم نے تمہاری طرف نمایاں نور اتارا ہے۔ (174) سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور مضبوطی سے اس کا دامن پکڑا تو ضرور اللہ انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا۔ اور ان کو اپنے سیدھے راستہ پر لگا دے گا۔ (175) اے رسول یہ لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجیے! کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کا آدھا ترکہ اس کا ہوگا۔ اور اگر وہ (بہن) مر جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو (اور ایک بھائی ہو) تو وہ اس کے پورے ترکہ کا وارث ہوگا۔ اور اگر کسی مرنے والے کی دو بہنیں ہوں تو ان کا اس کے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہوگا۔ اور اگر کئی بھائی بہن ہوں یعنی مرد عورت دونوں ہوں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کھول کر احکام بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم گمراہ نہ ہو اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (176)

قرآن

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (1) اللہ ہی (کی ذات) ہے جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے۔ زندہ (جاوید) ہے جو (ساری کائنات کا) بندوبست کرنے والا ہے۔ (2) اسی نے آپ پر حق کے ساتھ وہ کتاب اتاری ہے جو اس سے پہلے موجود (آسمانی کتابوں) کی تصدیق کرتی ہے۔ (3) اور اسی نے اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے تورات و انجیل نازل کی۔ اور (حق و باطل کا) فیصلہ کن کلام نازل کیا۔ بلاشبہ جو لوگ آیاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے۔ خدا زبردست ہے (اور برائی کا) بدلہ لینے والا ہے۔ (4) بے شک خدا پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے زمین میں اور نہ آسمان میں۔ (5) وہ (خدا) وہی ہے جو ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے، تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔ (6) وہ وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی جس میں کچھ آیتیں تو محکم ہیں۔ جو کتاب کی اصل و بنیاد ہیں اور کچھ متشابہ ہیں اب جن لوگوں کے دلوں میں کجی (ٹیڑھ) ہے۔ تو وہ فتنہ برپا کرنے اور من مانی تاویلیں کرنے کی خاطر متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ حالانکہ خدا اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں مضبوط و پختہ کار ہیں اور کوئی ان کی تاویل (اصل معنی) کو نہیں جانتا۔ جو کہتے ہیں کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں یہ سب (آیتیں) ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت کا اثر صرف عقل والے ہی لیتے ہیں۔ (7) (جو دعا کرتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! ہمیں سیدھے راستے پر لگانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا فرما۔ یقینا تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔ (8) اے ہمارے پروردگار! بے شک تو ایک دن سب لوگوں کو جمع کرنے والا ہے جس (کے آنے) میں کوئی شک نہیں ہے۔ بلاشبہ خدا کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (9) بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ کے یہاں ان کے مال اور اولاد ہرگز ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور یہی لوگ جہنم کا ایندھن ہیں۔ (10) ان کا حال (معاملہ بھی وہی ہے) کہ جو فرعونی گروہ اور اس سے پہلے لوگوں کا تھا کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ تو اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو گرفت میں لے لیا اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (11) (اے رسول!) کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم (اہل اسلام کے مقابلہ میں) مغلوب ہوگے اور جہنم کی طرف محشور ہوگے اور وہ کیا بری آرام گاہ ہے۔ (12) تمہارے لیے ان دو گروہوں (کے حالات) میں جن کی (میدانِ بدر میں) مڈبھیڑ ہوئی تھی (صداقت رسول(ص) کی) ایک بڑی نشانی (معجزہ) موجود ہے۔ ایک گروہ خدا کی راہ میں جنگ کر رہا تھا۔ اور دوسرا گروہ کافر تھا جن کو (مسلمان) اپنی آنکھوں سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور اللہ اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے، تائید و تقویت کرتا ہے بے شک اس (واقعہ) میں بڑی عبرت و نصیحت ہے۔ نگاہ (عبرت رکھنے) والوں کے لیے۔ (13) لوگوں کے لیے خوش نما بنا دی گئی ہے عورتوں، بیٹوں اور ڈھیروں سونے و چاندی پر مشتمل مال کی محبت اور (عمدہ) گھوڑے، چوپائے اور کھیتی باڑی۔ یہ سب (چیزیں) دنیاوی زندگی کا اثاثہ اور متاع ہیں۔ جبکہ (آخرت کا) اچھا ٹھکانہ اور بہترین انجام خدا کے یہاں ہے۔ (14) (اے رسول(ص)) کہو۔ کیا میں تمہیں ان سب سے بہتر چیز بتاؤں؟ جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ان کے لئے ان کے پروردگار کے یہاں ایسے بہشت ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے علاوہ) پاک و پاکیزہ بیویاں ہیں اور (سب سے بڑی نعمت) خدا کی خوشنودی ہے۔ اور خدا (اپنے) بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے۔ (15) (ان متقیوں کی صفت یہ ہے کہ) کہتے ہیں (دعا کرتے ہیں) ہمارے پروردگار! بے شک ہم ایمان لائے ہیں تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (16) یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں (قول و فعل میں) سچ بولنے والے، اطاعت کرنے والے، راہِ خدا میں خیرات کرنے والے اور سحر کے وقت طلب مغفرت کرنے والے ہیں۔ (17) خود اللہ، اس کے ملائکہ اور صاحبانِ علم گواہ ہیں کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ قائم و برقرار ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے جو زبردست، حکمت والا (دانا) ہے۔ (18) بے شک خدا کے نزدیک سچا دین صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے (دین حق میں) اختلاف نہیں کیا مگر اپنے پاس علم آجانے (اور اصل حقیقت معلوم ہو جانے) کے بعد۔ محض آپس کی شرارت و ضد اور ناحق کوشی کی بنا پر اور جو بھی آیاتِ الٰہیہ کا انکار کرے گا تو یقینا خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (19) پس اگر یہ لوگ آپ سے خواہ مخواہ حجت بازی کریں۔ تو کہہ دو کہ میں نے اور میری پیروی کرنے والوں نے تو اپنا سر خدا کے سامنے جھکا دیا ہے (اپنے کو اس کے سپرد کر دیا ہے) اور اہل کتاب اور جو کسی کتاب کے پڑھنے والے نہیں ہیں سے کہو: کیا تم بھی اسلام لائے ہو؟ پس اگر انہوں نے اسلام کا اقرار کر لیا تو گویا ہدایت پا گئے اور اگر (اس سے) منہ موڑا تو آپ کا فرض تو صرف پہنچا دینا ہے (منوانا نہیں ہے)۔ اور اللہ (اپنے) بندوں کو خوب دیکھنے (اور پہچاننے والا ہے)۔ (20) جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں انہیں دردناک عذاب کا مژدہ سناؤ۔ (21) یہ وہ (بدنصیب) ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں اکارت و برباد ہوگئے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔ (22) کیا تم نے ان (علماءِ یہود) کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (تورات کے علم) سے تھوڑا سا حصہ ملا ہے جب انہیں کتابِ خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اس پر ان کا ایک گروہ پیٹھ پھیر لیتا ہے۔ درآنحالیکہ وہ روگردانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ (23) یہ (انداز) اس لئے ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا ہمیں آتش جہنم چھوئے گی بھی نہیں۔ یہ لوگ جو افتراء پردازیاں کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ان کو دین کے بارے میں دھوکہ دیا ہے۔ (24) اس وقت ان کی کیا حالت ہوگی جب ہم ان کو ایک دن (بروزِ قیامت) اکٹھا کریں گے جس (کے آنے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اور ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (25) (اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (26) تو ہی رات کو (بڑھا کر) دن میں اور دن کو (بڑھا کر) رات میں داخل کرتا ہے اور تو جاندار کو بے جان اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے، بے حساب روزی عطا کرتا ہے۔ (27) (خبردار) اہل ایمان، اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست (اور سرپرست) نہ بنائیں۔ اور جو ایسا کرے گا۔ اس کا خدا سے کوئی تعلق اور سروکار نہیں ہوگا۔ مگر یہ کہ تمہیں ان (کافروں) سے خوف ہو تو پھر (بقصد تقیہ اور بچاؤ) ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور خدا تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (28) کہہ دیجئے! جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے، تم اسے چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو، بہرحال خدا اسے جانتا ہے۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ (29) اس دن کو یاد کرو جب ہر شخص اس بھلائی کو اپنے سامنے پائے گا جو اس نے کی ہوگی۔ اور برائی کو بھی (جنہیں دیکھ کر) خواہش کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے برے اعمال کے درمیان بڑا فاصلہ ہوتا۔ اور خدا تمہیں اپنی ذات (اپنے عذاب) سے ڈراتا ہے اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ (30) (اے رسول! میری محبت کے دعویداروں سے) کہہ دیں کہ اگر تم خدا سے (سچی) محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (31) کہہ دیں خدا اور رسول(ص) کی اطاعت و فرماں برداری کرو اور اگر روگردانی کریں تو بے شک خدا کافروں (نافرمانوں) کو دوست نہیں رکھتا۔ (32) بے شک اللہ نے آدم، نو ح، خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمران کو سارے جہانوں سے منتخب کیا ہے۔ (33) جو ایک نسل ہے جن کے بعض بعض سے ہیں (یہ اولاد ہے ایک دوسرے کی) اور خدا بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (34) (اس وقت کو یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا اے میرے پروردگار! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے اسے میں (دنیا کے کاموں سے) آزاد کرکے (خانہ کعبہ کی) جاروب کشی اور تیری عبادت کے لئے تیری بارگاہ میں نذر کرتی ہوں تو میری (نذر) قبول فرما۔ بے شک تو بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (35) پھر جب اس کے یہاں وہ (بچی) پیدا ہوئی۔ تو اس نے کہا: اے میرے پروردگار! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوئی ہے (میں تو یہ لڑکی جنی ہوں) حالانکہ خدا خود خوب جانتا ہے کہ وہ کیا جنی ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ لڑکا، لڑکی یکساں نہیں ہوتے۔ اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم (کے شر) سے (بچنے کے لیے) تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (36) تو اس کے پروردگار نے اس لڑکی (مریم) کو احسن طریقہ سے قبول فرما لیا۔ اور اچھی طرح اس کی نشوونما کا انتظام کیا (یعنی) جناب زکریا کو اس کا کفیل (اور سرپرست) بنایا۔ جب بھی زکریا محرابِ عبادت میں اس (مریم) کے پاس آتے تھے تو اس کے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود پاتے۔ (اور) پوچھتے: اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ وہ جواب دیتی۔ یہ خدا کے یہاں سے آیا ہے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ (37) اس موقع پر زکریا نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور عرض کیا اے میرے پروردگار! مجھے اپنی طرف سے پاک و پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ بے شک تو (ہر ایک کی) دعا کا سننے والا ہے۔ (38) تو فرشتوں نے انہیں اس حالت میں آواز دی جب کہ وہ محراب میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ کہ خدا آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کے ایک کلمہ (عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ سردار، ضبط نفس کرنے والا پارسا اور نیکوکار جماعت میں سے نبی ہوگا۔ (39) جناب زکریا نے (یہ خوشخبری سن کر) کہا: اے پروردگار! میرے یہاں لڑکا کس طرح ہوگا جبکہ میرا بڑھاپا آگیا۔ اور میری بیوی بانجھ ہے؟ ارشاد ہوا اسی طرح (خدا) جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ (40) عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے (اطمینانِ قلب) کیلئے کوئی علامت مقرر فرما فرمایا: تمہاری علامت یہ ہے کہ تم تین دن رات تک لوگوں سے اشارہ کے سوا بات نہیں کر سکوگے۔ (شکرانۂ نعمت کے طور پر) اپنے پروردگار کا کثرت سے ذکر کرو۔ اور صبح و شام اسی کی تسبیح کرو۔ (41) اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے۔ اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ بنا دیا ہے۔ (42) اے مریم۔ اپنے پروردگار کی اطاعت کرو۔ اور سجدہ کرو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔ (43) (اے رسول(ص)) یہ (خبر) غیب کی خبروں میں سے ایک ہے جو وحی کے ذریعہ ہم آپ کی طرف بھیج رہے ہیں اور آپ ان (دعویداران سرپرستی) کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کیلئے) اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے؟ اور آپ ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ (44) اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک خدا آپ کو اپنے کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے۔ جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ جو دنیا و آخرت میں عزت و آبرو والا ہوگا۔ اور (خدا کے) مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ (45) اور وہ گہوارے میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا۔ اور ادھیڑ عمر میں بھی۔ اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ (46) (یہ بشارت سن کر) مریم نے کہا: اے میرے پروردگار! میرے یہاں بچہ کہاں سے ہوگا۔ حالانکہ مجھے کسی انسان (مرد) نے ہاتھ تک نہیں لگایا؟ ارشاد ہوا: بات اسی طرح ہے مگر خدا جو چاہتا ہے (بلا اسباب بھی) پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا تو بس وہ ہو جاتا ہے۔ (47) اور خدا اس (بچہ) کو کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کی تعلیم دے گا۔ (48) اور اسے بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنائے گا۔ (اور جب وہ مبعوث ہوگا تو کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی صورت بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ اور میں خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھاتے ہو۔ اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو وہ تمہیں بتاتا ہوں بے شک اس میں تمہارے لئے (خدا کی قدرت اور میری نبوت کی) بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ (49) اور جو مجھ سے پہلے (توراۃ) موجود ہے میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور (میرے آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ) میں تمہارے لئے ان چیزوں میں سے بعض کو حلال کروں جو تم پر حرام تھیں۔ اور میں تمہارے پروردگار کی طرف سے اعجاز کے ساتھ تمہارے پاس آیا ہوں۔ لہٰذا اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور میری اطاعت کرو۔ (50) بے شک اللہ میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس تم اس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (51) پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) کی طرف سے کفر و انکار محسوس کیا۔ تو کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان (فرمانبردار) ہیں۔ (52) اور کہا اے ہمارے پروردگار جو کچھ تو نے نازل کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے رسول (عیسیٰ) کی پیروی اختیار کی۔ لہٰذا ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں (کے دفتر) میں درج فرما۔ (53) انہوں (بنی اسرائیل) نے (عیسیٰ کے خلاف) مکاری کی اور اللہ نے بھی اپنی (جوابی) تدبیر و ترکیب کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر و ترکیب کرنے والا ہے۔ (54) (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا (اے عیسیٰ) میں تمہیں پورا قبض کرنے والا اور تمہیں اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو کافروں پر قیامت تک غالب اور برتر کرنے والا ہوں۔ پھر تم سب کی بازگشت میری طرف ہے تو اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (55) تو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انہیں دنیا و آخرت میں سخت سزا دوں گا۔ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (56) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو خدا ان کو پورا پورا اجر و ثواب دے گا۔ اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ (57) (اے رسول) یہ جو ہم آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں (کتابِ الٰہی کی) آیات ہیں (یا خدا کی قدرت اور آپ کی حقانیت کی نشانیاں ہیں) اور وہ دانائی سے لبریز تذکرے ہیں۔ (58) بے شک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا پھر حکم دیا کہ ہو جا سو وہ ہوگیا۔ (59) یہ بات تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (60) (اے پیغمبر(ص)) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ (61) (جناب عیسیٰ کی) یہ برحق سرگزشت ہے (وہ خدا یا خدا کے بیٹے نہیں بلکہ اس کے خاص بندے ہیں) اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہ توانا اور بڑا حکمت والا ہے۔ (62) اب اس کے بعد بھی یہ لوگ انحراف کریں تو خدا مفسدین کو خوب جانتا ہے۔ (63) (اے رسول) کہیے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب (مالک و مختار) نہ بنائے۔ اور اگر یہ لوگ اس (دعوت) سے منہ موڑیں تو (اے مسلمانو) تم کہہ دو کہ گواہ رہنا ہم مسلمان (خدا کے فرمانبردار و اطاعت گزار ہیں)۔ (64) اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں (ہم سے) حجت بازی کرتے ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد اتری ہیں کیا تم میں اتنی بھی عقل (سمجھ) نہیں ہے۔ (65) تم وہی لوگ ہو۔ جو (ہم سے) ان باتوں کے بارے میں بحث و تکرار کرتے رہے جن کا تمہیں کچھ علم تھا۔ اب ان باتوں کے بارے میں کیوں حجت بازی کرتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں (حقیقت حال) صرف اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (66) ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو نرے کھرے خالص مسلمان (خدا کے فرمانبردار بندے) تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ (67) بے شک تمام لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب اور زیادہ تعلق رکھنے والے وہ ہیں جنہوں نے اُن کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو (ان پر) ایمان لائے ہیں اور اللہ ایمان والوں کا ساتھی و سرپرست ہے۔ (68) اہل کتاب کا ایک گروہ چاہتا ہے کہ کاش وہ تمہیں گمراہ کر سکے حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو بھی گمراہ نہیں کرتے مگر انہیں اس کا شعور نہیں۔ (69) اے اہل کتاب تم آیاتِ الٰہیہ کا کیوں انکار کرتے ہو؟ حالانکہ تم خود گواہ ہو (کہ وہ آیاتِ الٰہیہ ہیں) اور برحق ہیں۔ (70) اے اہل کتاب! حق کو باطل کے ساتھ کیوں گڈمڈ کرتے ہو؟ اور حق کو کیوں چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو (کہ حق کیا ہے)۔ (71) اہل کتاب کا ایک گروہ (اپنے لوگوں سے) کہتا ہے کہ جو کچھ مسلمانوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کے وقت ایمان لے آؤ اور شام کے وقت انکار کر دو۔ شاید (اس ترکیب سے) وہ مسلمان (اپنے دین سے) پھر جائیں۔ (72) خبردار۔ صرف اسی کی بات مانو جو تمہارے دین کی پیروی کرے۔ کہہ دیجیے کہ حقیقی ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے (اور یہ اسی کی دین ہے) کہ کسی کو ویسی ہی چیز مل جائے جو (کبھی) تم کو دی گئی تھی۔ یا وہ دلیل و حجت میں تمہارے پروردگار کے ہاں تم پر غالب آجائیں۔ کہہ دیجیے کہ بے شک فضل و کرم اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ وہ بڑی وسعت والا اور بڑا جاننے والا ہے۔ (73) وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کر لیتا ہے اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔ (74) اور اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے۔ کہ اگر تم ڈھیر بھر روپیہ بھی بطور امانت اس کے پاس رکھو تو وہ تمہیں ادا کر دے گا۔ اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار (اشرفی) بھی بطور امانت رکھو تو جب تک تم اس کے سر پر کھڑے نہ رہو وہ تمہیں واپس نہیں کرے گا (یہ بدمعاملگی) اس وجہ سے ہے کہ ان کا قول ہے کہ ہم پر امیّون (ان پڑھ عربوں جوکہ اہل کتاب نہیں) کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ منڈھتے ہیں۔ (75) ہاں جو شخص اپنے عہد و پیمان کو پورا کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک خدا پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔ (76) جو لوگ اللہ سے کئے گئے عہد و پیمان اور قسم اقسام کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ خدا قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں کی کثافت سے) پاک کرے گا۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (77) بے شک ان (اہل کتاب) سے ایک گروہ ایسا بھی ہے۔ جو اپنی زبانوں کو کتاب (توراۃ وغیرہ) کے پڑھنے میں مروڑتا ہے اور کچھ کا کچھ پڑھتا ہے تاکہ تم یہ سمجھو کہ یہ (توڑ موڑ) بھی کتاب خدا میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے۔ اور کہتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے (آیا) ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے یہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (78) کسی ایسے انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی جسے خدا کتاب، حکمت (یا اقتدار) اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ (میری عبادت کرو) بلکہ (وہ تو یہ کہے گا کہ) تم اللہ والے ہو جاؤ۔ اس بنا پر کہ تم کتابِ الٰہی کی تعلیم دیتے ہو۔ اور اسے پڑھتے بھی رہتے ہو۔ (79) اور وہ کبھی تمہیں یہ حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو اپنا پروردگار بنا لو۔ بھلا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا۔ اس کے بعد کہ تم مسلمان ہو؟ ۔ (80) اور (یاد کرو) جب خدا نے تمام پیغمبروں سے یہ عہد و اقرار لیا تھا کہ میں نے جو تمہیں کتاب و حکمت عطا کی ہے۔ اس کے بعد جب تمہارے پاس ایک عظیم رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیزوں (کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہو تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور ضرور اس کی مدد کرنا ارشاد ہوا۔ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اس پر میرے عہد و پیمان کو قبول کرتے ہو اور یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا۔ تم سب گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ (81) اب جو کوئی بھی اس (عہد) سے منہ پھیرے گا تو ایسے ہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔ (82) کیا وہ اللہ کے دین (اسلام) کے سوا کسی اور (دین) کو تلاش کرتے ہیں حالانکہ جو آسمانوں میں ہیں یا زمین میں ہیں سب خوشی سے یا ناخوشی سے (چار و ناچار) اسی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور بالآخر سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (83) (اے رسول) کہہ دیجئے! کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر اتارا اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط پر اتارا گیا۔ اور اس پر بھی جو کچھ موسیٰ و عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو جو کچھ ان کے پروردگار کی طرف سے عطا ہوا۔ ہم (بحیثیت نبی ہونے کے) ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ اور ہم اسی (خدائے یکتا) کے مسلمان (اطاعت گزار بندے) ہیں۔ (84) اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین اختیار کرے گا تو اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ (85) بھلا خدا ان لوگوں کو کیوں کر ہدایت دے گا (منزل مقصود پر پہنچائے گا) جو ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ حالانکہ وہ گواہی دے چکے تھے کہ رسول برحق ہے۔ اور ان کے پاس آیات بینات (واضح معجزات) بھی آچکے تھے۔ بے شک خدا ظلم و جور کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (86) ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ، فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ (87) وہ ہمیشہ اس لعنت (پھٹکار) میں گرفتار رہیں گے۔ نہ ان کے عذاب میں تخفیف (کمی) کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (88) مگر وہ جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کر لی تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (89) بے شک وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور یہی لوگ حقیقی گمراہ ہیں۔ (90) بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور پھر کفر ہی کی حالت میں مر گئے تو ان میں سے کسی ایک سے ساری زمین بھر سونا بطور فدیہ و معاوضہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوں گے۔ (91) لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔ اور تم (راہِ خدا میں) جو کچھ خرچ کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔ (92) تورات نازل ہونے سے پہلے کھانے کی سب چیزیں (جو اسلام میں حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں۔ سوائے اس کے جو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھی (یہود سے) کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تورات لاؤ اور اسے پڑھو۔ (93) پھر اس کے بعد جو شخص خدا پر بہتان باندھے۔ تو (سمجھ لو کہ) ایسے لوگ ہی ظالم ہیں۔ (94) (اے رسول(ص)) کہہ دیجیے خدا نے سچ فرمایا! پس تم ملت (دین) ابراہیم کی پیروی کرو جو باطل سے کنارہ کش ہوکر صرف اللہ کا ہو رہا تھا اور مشرکین میں سے نہ تھا۔ (95) بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینا وہی ہے جو مکہ میں ہے بڑی برکت والا اور عالمین کے لیے مرکز ہدایت ہے۔ (96) اس گھر میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں (منجملہ ان کے ایک) مقام ابراہیم ہے۔ اور جو اس میں داخل ہوا اسے امن مل گیا۔ اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے اس گھر کا حج کریں جو اس کی استطاعت (قدرت) رکھتے ہیں اور جو (باوجود قدرت) کفر کرے (انکار کرے) تو بے شک خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔ (97) (اے رسول(ص)) کہہ دیجیے! اے اہل کتاب تم آیاتِ الٰہیہ کا کیوں انکار کرتے ہو؟ حالانکہ تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس کا گو اہ ہے (سب کچھ دیکھ رہا ہے) ۔ (98) کہیے۔ اے اہل کتاب! آخر تم اس شخص کو جو ایمان لانا چاہتا ہے کیوں خدا کی راہ سے روکتے ہو؟ اور چاہتے ہو کہ اس راہ (راست) کو ٹیڑھا بنا دو حالانکہ تم خود گواہ ہو (کہ سیدھی راہ یہی ہے) اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (99) اے ایمان والو! اگر تم نے اہل کتاب میں سے کسی گروہ کی بات مان لی تو یہ تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹا دیں گے۔ (100) اور بھلا تم کیوں کر کفر اختیار کر سکتے ہو۔ جبکہ تمہارے سامنے برابر خدا کی آیتیں پڑھی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول موجود ہے۔ اور جو شخص خدا سے وابستہ ہوگیا وہ ضرور سیدھے راستے پر لگا دیا گیا۔ (101) اے ایمان والو! خدا سے اس طرح ڈرو جیساکہ ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ (102) اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (103) اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کی دعوت دے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی وہ لوگ ہیں (جو دین و دنیا کے امتحان میں) کامیاب و کامران ہوں گے۔ (104) اور خبردار تم ان لوگوں کی طرح نہ بننا جو انتشار کا شکار ہوگئے اور کھلی ہوئی نشانیوں (دلیلوں) کے آجانے کے بعد اختلاف میں مبتلا ہوگئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔ (105) جس دن کچھ چہرے سفید (نورانی) ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا) کہ تم نے ہی ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا؟ تو اب اپنے کفر کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو۔ (106) اور جن کے چہرے سفید (نورانی) ہوں گے وہ خدا کی رحمت میں ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (107) یہ آیاتِ الٰہیہ ہیں جو ہم سچائی کے ساتھ تمہیں پڑھ کر سنا رہے ہیں کیونکہ خدا جہان والوں پر ظلم کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتا۔ (108) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔ سب اللہ کا ہے اور سب معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہوتی ہے۔ (109) تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو ایمان لائے ہیں مگر بہت سے فاسق و نافرمان ہیں۔ (110) یہ معمولی اذیت کے سوا ہرگز تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کریں گے تو تمہیں پیٹھ دکھائیں گے پھر ان کی (کہیں سے) مدد نہ کی جائے گی۔ (111) یہ جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت کی مار پڑ گئی مگر یہ کہ خدا کے کسی عہد پر یا انسانوں کے کسی معاہدہ کے سہارے کچھ پناہ مل جائے۔ اور یہ خدا کے قہر و غضب میں گھر گئے ہیں اور ان پر محتاجی کی مار پڑی یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ وہ آیاتِ الٰہی کے ساتھ کفر کرتے رہے اور ناحق نبیوں کو قتل کرتے رہے نیز اس لئے کہ (خدا کی) نافرمانی اور زیادتیاں کیا کرتے تھے۔ (112) یہ لوگ سب برابر نہیں ہیں۔ اہل کتاب میں ایسی ثابت قدم جماعت بھی ہے جو رات کے مختلف اوقات میں آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتی ہے۔ اور سجدہ ریز ہوتی ہے۔ (113) اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں تیزی کرتے ہیں اور یہ لوگ نیک لوگوں میں سے ہیں۔ (114) یہ جو نیکی بھی کریں گے اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اور خدا پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ (115) بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انہیں ان کے اموال اور اولاد اللہ (کی گرفت) سے کچھ بھی نہیں بچا سکیں گے۔ وہ تو دوزخی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (116) یہ لوگ جو کچھ اس دنیوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں سخت سردی ہو اور وہ ایسے لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ اور اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دے۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (117) اے ایمان والو! اپنے (لوگوں کے) سوا دوسرے ایسے لوگوں کو اپنا جگری دوست (رازدار) نہ بناؤ جو تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ جو چیز تمہیں مصیبت و زحمت میں مبتلا کرے وہ اسے محبوب رکھتے ہیں بغض و عناد ان کے مونہوں سے ٹپکتا ہے۔ اور جو کچھ ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اگر تم عقل سے کام لو۔ (118) تم ایسے (سیدھے) ہو کہ تم ان سے محبت کرتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ حالانکہ تم (آسمانی) کتاب پر ایمان رکھتے ہو۔ (ان کی حالت یہ ہے کہ) جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف غیظ و غضب سے اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اپنے غم و غصہ سے مر جاؤ۔ بے شک اللہ سینے کے اندر والی باتوں کو خوب جانتا ہے۔ (119) جب تمہیں کوئی بھلائی چھو بھی جائے تو ان کو برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر سے کام کرو۔ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو ان کی ترکیبیں اور چالیں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ بے شک جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس کا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (120) اور وہ موقع (یاد رکھنے کے لائق ہے کہ) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (احد کے مقام پر) مؤمنوں کو جنگی مورچوں پر بٹھا رہے تھے اور جگہ دے رہے تھے اور اللہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔ (121) جب تم میں سے دو گروہوں نے بزدلی دکھانے کا ارادہ کیا (مگر پھر سنبھل گئے) حالانکہ اللہ ان کا حامی و مددگار تھا اور مؤمنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (122) بے شک (اس سے پہلے) جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا حالانکہ تم (اس وقت) بہت کمزور تھے سو اللہ کی نافرمانی سے ڈرو۔ تاکہ تم شکرگزار بنو۔ (123) (اے پیغمبر(ص)) یاد کرو۔ جب تم مؤمنوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ بات تمہارے (اطمینان) کے لئے کافی نہیں ہے۔ کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے جو (آسمان سے) اتارے گئے ہوں۔ (124) ہاں کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور تقویٰ الٰہی اختیار کرو۔ اور وہ (دشمن جوش میں آکر) اس وقت فوری طور پر تم پر چڑھ آئے تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ (125) اللہ نے اس (غیبی امداد) کو قرار نہیں دیا۔ مگر اس لئے کہ تمہارے لئے خوشخبری ہو۔ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (یہ بات تو واضح ہے کہ) مدد اور فتح و نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے۔ (126) (اور یہ امداد اس لئے ہے) تاکہ کافروں کے ایک بڑے حصہ کو کاٹ دے (قلع قمع کر دے) یا ان کو ایسا ذلیل کرے کہ وہ ناکام و نامراد ہوکر واپس چلے جائیں۔ (127) اے رسول(ص)! خدا کے امر (فیصلہ) میں تمہیں کوئی اختیار نہیں ہے (بلکہ یہ اختیار اللہ کے پاس ہے) چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو انہیں سزا دے۔ کیونکہ یہ لوگ بہرحال ظالم ہیں۔ (128) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (129) اے ایمان والو! یہ دوگنا چوگنا بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ (اللہ کی نافرمانی) سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (130) اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ (131) اور اللہ اور رسول(ص) کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (132) اور تیزی سے دوڑو اپنے پروردگار کی طرف سے بخشش۔ اور اس کے بہشت کی طرف جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ (133) وہ پرہیزگار جو خوشحالی اور بدحالی (غرضیکہ ہر حال میں راہِ خدا میں مال) خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کے قصور) معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بھلائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (134) یہ لوگ اگر (اتفاقاً) کوئی فحش کام (کوئی بڑا برا کام) کر بیٹھیں یا کوئی عام گناہ کرکے اپنے اوپر ظلم کر گذریں تو (فوراً) اللہ کو یاد کرکے اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو معاف کرے۔ (135) اور وہ اپنے کئے پر دیدہ دانستہ اصرار نہیں کرتے ایسے لوگوں کی جزاء ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت و بخشش ہے اور وہ جنات (باغات) کہ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور کتنا اچھا صلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا۔ (136) تم سے پہلے بہت سے نمونے (اور دور) گزر چکے ہیں سو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ (احکام خداوندی) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ ۔ (137) یہ (عام) لوگوں کے لیے تو واضح تذکرہ اور تنبیہ ہے اور پرہیزگاروں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (138) اے مسلمانو! کمزوری نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب و برتر ہوگے۔ (139) اگر تمہیں زخم لگا ہے تو اس جیسا زخم ان لوگوں (کافروں) کو بھی (جنگ بدر میں) لگ چکا ہے۔ یہ تو ایام (زمانہ کے اتفاقات اور نشیب و فراز) ہیں جنہیں ہم لوگوں میں باری باری ادلتے بدلتے رہتے ہیں (تمہیں یہ چوٹ اس لئے لگی) کہ خدا (خالص) ایمان والوں کو جان لے۔ اور بعض کو (چھانٹ کر) شہید (گواہ) بنائے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ (140) نیز اللہ اس (ابتلا و آزمائش) سے یہ چاہتا تھا کہ خالص اہل ایمان کو چھانٹ کر الگ کر دے اور کافروں کو رفتہ رفتہ مٹا دے۔ (141) (اے مسلمانو!) کیا تم کو یہ خیال ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک اللہ نے (جانچ کر) معلوم ہی نہیں کیا کہ تم میں واقعی مجاہد کون ہیں؟ اور نہ ابھی یہ معلوم کیا ہے کہ صابر اور ثابت قدم کون ہیں؟ ۔ (142) اور تم لوگ موت کا سامنا کرنے سے پہلے تو اس کی بہت تمنا کیا کرتے تھے۔ لو اب تم نے اسے دیکھ لیا۔ اور اب بھی (اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو) (تو پھر اس سے کنّی کیوں کتراتے ہو؟)۔ (143) اور حضرت محمد (ص) نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا۔ (144) کوئی ذی روح خدا کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا موت کا وقت تو لکھا ہوا (معیّن) ہے اور جو شخص (اپنے اعمال کا) بدلہ دنیا میں چاہتا ہے تو ہم اسی (دنیا) میں دے دیتے ہیں اور جو آخرت میں بدلہ چاہتا ہے تو ہم اسے آخرت میں دیتے ہیں اور ہم عنقریب شکرگزار بندوں کو جزا (خیر) عطا کریں گے۔ (145) اور بہت سے ایسے نبی (گزر چکے) ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی تو اللہ کی راہ میں ان پر جو مصیبتیں پڑیں ان پر وہ نہ پست ہمت ہوئے اور نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ (دشمن کے سامنے) سرنگوں ہوئے اور اللہ صبر و تحمل رکھنے والے (ثابت قدموں) سے محبت رکھتا ہے۔ (146) (ایسے مواقع پر) ان کا قول اس (دعا) کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ اور اپنے کام میں ہماری زیادتی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما۔ (147) تو خدا نے ان کو دنیا میں بھی صلہ عطا کیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عنایت فرمایا۔ اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (148) اے ایمان والو! اگر تم نے ان لوگوں کی اطاعت کی جنہوں نے کفر اختیار کیا تو وہ تم کو الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پھیر کر لے جائیں گے اور تم بڑا خسارہ اٹھا کر واپس ہوگے۔ (149) (تمہیں کسی کی اطاعت کی کیا ضرورت ہے) بلکہ تمہارا حامی و سرپرست خدا ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔ (150) (تم پریشان نہ ہو) ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیں گے اس لئے کہ انہوں نے خدائی میں ان بتوں کو شریک بنایا ہے۔ جن کے بارے میں خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے اور ان کا انجام جہّنم ہوگا اور وہ ظالمین کا بدترین ٹھکانہ ہے۔ (151) خدا نے (جنگ احد میں) اپنا وعدہ (نصرت) اس وقت سچا کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے ان (کافروں) کا قلع قمع کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی تو تم نے حکم عدولی کی۔ (یہ اس لئے کہ) تم میں کچھ دنیا کے طلب گار تھے اور کچھ آخرت کے طلبگار تھے پھر اس نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارے ایمان و اخلاص کی آزمائش کرے۔ اور (پھر بھی) تمہیں معاف کر دیا۔ اور اللہ اہل ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ (152) (اس وقت کو یاد کرو) جب تم بے تحاشا بھاگے چلے جا رہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ حالانکہ پیغمبر(ص) تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے۔ (تمہاری اس روش کی وجہ سے) خدا نے تمہیں ثواب کے بدلے رنج پر رنج دیا۔ تاکہ (آئندہ) جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر ملول نہ ہو اور جو مصیبت درپیش ہو اس پر رنج نہ کرو۔ اور اللہ تمہارے سب اعمال سے خوب باخبر ہے۔ (153) پھر اس (خدا) نے رنج و غم کے بعد نیند کی صورت میں تم پر سکون و اطمینان اتارا۔ جو تم میں سے ایک گروہ پر طاری ہوگئی۔ اور ایک گروہ ایسا تھا کہ جسے صرف اپنی جانوں کی فکر تھی وہ اللہ کے ساتھ ناحق زمانۂ جاہلیت والے گمان کر رہا تھا وہ کہہ رہا تھا۔ کہ آیا اس معاملہ میں ہمیں بھی کچھ اختیار ہے؟ کہہ دیجیے۔ ہر امر کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں۔ جن کا آپ سے اظہار نہیں کرتے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاتھ میں بھی کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ کہہ دیجیے! اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی جن کے لئے قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنے مقتل کی طرف نکل کر جاتے (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) کہ خدا اسے آزمائے جو کچھ تمہارے سینوں کے اندر ہے اور نکھار کے سامنے لائے اس (کھوٹ) کو جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ سینوں کے اندر کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ (154) بے شک جن لوگو ں نے دو جماعتوں کی مڈبھیڑ کے دن پیٹھ پھرائی (اس کا سبب یہ تھا) کہ ان کی بعض بدعملیوں کے نتیجہ میں جو وہ کر بیٹھے تھے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگائے تھے اور بے شک اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ یقینا اللہ بڑا بخشنے والا نہایت بردبار ہے۔ (155) اے ایمان والو! کافروں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ان بھائی بندوں کے بارے میں کہتے ہیں جو سفر میں گئے۔ یا جہاد کے لیے نکلے (اور وہاں وفات پا گئے) کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ (طبعی موت) مرتے اور نہ قتل کئے جاتے۔ یہ لوگ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ خدا اسے ان کے دلوں میں رنج و حسرت کا باعث بنا دے۔ حالانکہ اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے۔ اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ (156) اور اگر تم راہِ خدا میں قتل کئے جاؤ۔ یا اپنی موت سے مر جاؤ۔ تو بے شک اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت بہت ہی بہتر ہے اس (مال و دولت) سے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔ (157) اور تم اپنی موت مرو۔ یا قتل کئے جاؤ۔ بہرحال اللہ کے ہی حضور میں محشور کئے جاؤگے۔ (158) (اے رسول(ص)) یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے اتنے نرم مزاج ہو۔ ورنہ اگر تم درشت مزاج اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے۔ انہیں معاف کر دیا کریں۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کیا کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ بھی لے لیا کریں۔ مگر جب کسی کام کے کرنے کا حتمی ارادہ ہو جائے تو پھر خدا پر بھروسہ کریں بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (159) اگر اللہ تمہاری مدد کرے۔ تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے (مدد نہ کرے) تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے اور اہل ایمان کو صرف خدا پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (160) کسی نبی کی یہ شان اور کام نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو خیانت کرے گا۔ وہ اپنی خیانت کردہ چیز سمیت قیامت کے دن حاضر ہو جائے گا۔ پھر ہر ایک شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ (161) بھلا وہ شخص جو ہمیشہ خدا کی رضا پر چلنے والا ہو۔ وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو خدا کے غضب میں گھر گیا ہو۔ اور جس کا آخری ٹھکانہ دوزخ ہو اور وہ کیا برا ٹھکانہ ہے؟ ۔ (162) (ان دو قسم کے لوگوں کے) اللہ کے یہاں (مختلف درجے ہیں)۔ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ (163) اللہ نے ہمیشہ اہل ایمان پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔ جو ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتا ہے۔ ان کو پاکیزہ کرتا ہے (ان کی اصلاح کرتا ہے) اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ (164) (اے مسلمانو! تمہارا کیا حال ہے) کہ جب تم پر (جنگ احد میں) کوئی ایسی مصیبت آپڑی جس سے دگنی مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (165) اور جو دو جماعتوں کی مڈبھیڑ والے دن (جنگ احد میں) تم پر جو مصیبت آئی وہ خدا کے اذن سے آئی تاکہ اللہ دیکھ لے (مخلص) مؤمن کون ہیں۔ (166) اور منافق کون؟ جن سے جب کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ یا (کم از کم) دفاع ہی کرو۔ تو انہوں نے کہا۔ کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ جنگ ہوگی تو تمہارے پیچھے آتے جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے اس وقت وہ بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (167) یہی وہ لوگ ہیں جو خود تو (گھروں میں) بیٹھے رہے مگر اپنے (شہید ہونے والے) بھائی بندوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری پیروی کرتے (اور جہاد کرنے نہ جاتے) تو مارے نہ جاتے۔ (اے رسول) ان سے کہو۔ کہ اگر تم سچے ہو تو جب خود تمہاری موت آئے تو اسے ٹال کر دکھا دینا۔ (168) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔ (169) اللہ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ اس پر خوش و خرم ہیں۔ اور اپنے ان پسماندہ گان کے بارے میں بھی جو ہنوز ان کے پاس نہیں پہنچے خوش اور مطمئن ہیں کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔ اور نہ کوئی حزن و ملال ہے۔ (170) وہ اللہ کے فضل و انعام پر خوش اور شاداں ہیں اور اس بات پر فرحاں ہیں کہ اللہ اہل ایمان کے اجر و ثواب کو ضائع و برباد نہیں کرتا۔ (171) اور جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہی۔ ان میں سے جو نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے۔ (172) وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے خلاف بڑا لشکر جمع کیا ہے لہٰذا تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا۔ اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ (173) پس یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا۔ اور وہ رضاءِ الٰہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔ (174) دراصل یہ تمہارا شیطان تھا جو تمہیں اپنے حوالی موالی (دوستوں) سے ڈراتا ہے۔ اور تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو۔ اگر سچے مؤمن ہو۔ (175) (اے رسول) وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں وہ تمہیں غمزدہ نہ کریں یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اللہ کا ارادہ ہے کہ آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہ رکھے۔ اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (176) بے شک جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خرید لیا ہے وہ ہرگز اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب (تیار) ہے۔ (177) اور کافر یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں (ان کی رسی دراز رکھتے ہیں) یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے یہ ڈھیل تو ہم صرف اس لئے انہیں دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ گناہ کر لیں۔ (آخرکار) ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ (178) اللہ مؤمنوں کو اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس حال پر تم اب ہو۔ جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کر دے اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کرے۔ البتہ اللہ (غیب کی باتیں بتانے کے لیے) اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔ سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور اگر تم ایمان لاؤ۔ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا اجر و ثواب ہے۔ (179) اور جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے (بہت کچھ) دے رکھا ہے۔ اور وہ بخل کرتے ہیں وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ (بخل) ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن اس مال کا طوق انہیں پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کر رہے ہیں۔ اور آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب خبردار ہے ۔ (180) بے شک اللہ نے ان لوگوں (یہودیوں) کا قول سن لیا ہے جنہوں نے کہا کہ خدا مفلس ہے اور ہم مالدار ہیں سو ان کی یہ باتیں ہم لکھ لیں گے نیز ان کا نبیوں کو ناحق قتل کرنا بھی لکھ لیں گے۔ اور (فیصلے کے وقت) ہم ان سے کہیں گے کہ اب آتش دوزخ کا مزہ چکھو۔ (181) یہ بدلہ ہے اس کا جو تمہارے ہاتھوں نے (زاد سفر کے طور پر) آگے بھیجا ہے اور یقینا اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (182) یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے عہد و اقرار لیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں۔ جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے (غیبی) آگ آکر کھا لے۔ ان سے کہیئے۔ مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے رسول(ص) روشن نشانیاں (معجزے) لے کر اور وہ (نشانی) بھی جو تم کہتے ہو لے کر آئے۔ تو اگر تم (اس شرط میں) سچے ہو تو تم نے ان کو کیوں قتل کیا تھا؟ ۔ (183) (اے رسول) اگر یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو (آزردہ خاطر نہ ہوں) آپ سے پہلے بہت سے رسول(ص) جھٹلائے جا چکے ہیں جو معجزات، صحیفے اور روشن کتاب (آئین حیات) لے کر آئے تھے۔ (184) ہر جاندار نے (انجام کار) موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور تم سب کو قیامت کے دن تمہیں (اپنے اعمال کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا پس جو شخص (اس دن) جہنم سے بچا لیا گیا۔ اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان اور سرمایہ فریب ہے۔ (185) (مسلمانو) ضرور تمہیں تمہارے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمایا جائے گا اور تمہیں اہل کتاب مشرکین سے بڑي دل آزار باتیں سننا پڑیں گی۔ اور اگر تم صبر و ضبظ سے کام لو اور تقویٰ اختیار کرو۔ تو بے شک یہ بڑی ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔ (186) (اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو۔ جب خدا نے اہل کتاب سے عہد و پیمان لیا تھا کہ تم اسے ضرور لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کروگے۔ اور اسے ہرگز نہیں چھپاؤگے مگر انہوں نے اسے اپنے پس پشت ڈال دیا۔ اور اس کے عوض تھوڑی سی قیمت وصول کرلی۔ کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ (187) آپ ان لوگوں کے بارے میں خیال کریں جو اپنی کارستانیوں پر اتراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریف و ستائش کی جائے۔ ان کے بارے میں خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے محفوظ ہیں (نہیں بلکہ) ان کے لیے دردناک عذاب (تیار) ہے۔ (188) اللہ کے لیے ہی ہے آسمانوں اور زمین کی حکومت (اور وہی ان کا مالک ہے) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (189) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی ادل بدل میں صاحبانِ عقل کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ (190) جو اٹھتے، بیٹھتے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے (برابر) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی تخلیق و ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ فضول و بیکار پیدا نہیں کیا۔ تو (عبث کام کرنے سے) پاک ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (191) اے ہمارے پروردگار! بے شک جسے تو نے دوزخ میں داخل کر دیا اسے تو نے ذلیل و رسوا کر دیا۔ اور ظالموں کے لئے کوئی یار و مددگار نہیں ہیں۔ (192) اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیاں مٹا اور دور فرما اور نیکوکاروں کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرما۔ (193) پروردگارا! تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی جو وعدہ کیا ہے وہ ہمیں عطا فرما قیامت کے دن ہم کو رسوا نہ فرما تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (194) سو ان کے پروردگار نے ان کی دعا و پکار کو قبول کر لیا (اور فرمایا) میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت کبھی ضائع نہیں کرتا۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہی تو ہو۔ سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ اور میری راہ میں انہیں ایذائیں دی گئیں۔ اور (دین کی خاطر) لڑے اور مارے گئے، تو میں ان کی برائیاں مٹا دوں گا اور ان کو ایسے بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ہے اللہ کے ہاں ان کی جزا۔ اور اللہ کے پاس بہترین ثواب و جزاء ہے۔ (195) (اے رسول) کافروں کا مختلف شہروں میں چلنا پھرنا (اور دندناتے پھرنا) تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (196) یہ صرف چند روزہ فائدہ (بہار) ہے۔ پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کیسی بُری آرام گاہ ہے۔ (197) مگر وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا (واجبات ادا کئے اور محرمات سے اجتناب کیا) ان کے لیے ایسے بہشت ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے ان کی مہمان نوازی ہوگی اور جو کچھ اس کے پاس ہے وہ نیکوکاروں کے لیے بہت اچھا ہے۔ (198) اور یقیناً اہل کتاب میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ پر اور ان باتوں پر جو ہماری طرف اور جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں پر ایمان رکھتے ہیں اللہ کے سامنے (نیازمندی سے) جھکے ہوئے ہیں اور آیاتِ الٰہیہ کو تھوڑی قیمت پر فروخت بھی نہیں کرتے یہ وہ ہیں جن کا اجر اپنے پروردگار کے پاس ہے بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (199) اے ایمان والو! صبر و تحمل سے کام لو۔ اور (کفار کے) مقابلہ میں پامردی دکھاؤ۔ اور (خدمت دین کے لیے) کمربستہ رہو۔ تاکہ تم فوز و فلاح پاؤ (اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاؤ)۔ (200)

قرآن