مذہب

علی بن محمد (212۔254 ھ)، امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔

عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔

امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔

آپ کا روضہ سامرا میں حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے۔ سنہ 2006 اور 2007 ء میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں اسے تباہ کیا گیا تھا جسے بعد میں پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔

نسب، کنیت و لقب

آپ کے والد امام محمد تقی علیہ السلام، شیعیان اہل بیتؑ کے نویں امام ہیں۔ آپؑ کی والدہ سمانہ یا سوسن نامی ایک کنیز تھیں۔

امام ہادیؑ اور آپؑ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام عسکریین کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کیونکہ عباسی خلفا انہیں سنہ 233 ہجری میں سامرا لے گئے اور آخر عمر تک وہیں نظر بند رکھا۔

امام ہادیؑ نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیّب جیسے القاب سے بھی مشہور تھے۔ آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ اور چونکہ امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظمؑ کو ابوالحسن اول، امام رضاؑ کو ابوالحسن ثانی اور امام ہادیؑ کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔

انگشتریوں کے نقش

امام علی نقی علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:

"الله رَبّي وهو عِصمَتي مِن خَلقِه”. اور "حِفْظُ الْعُهُودِ مِنْ‏ أَخْلَاقِ‏ الْمَعْبُود”۔

ولادت اور شہادت

کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔

شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔ اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔

آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون ، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر معتمد عباسی نے آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکریؑ کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر امام ہادی علیہ السلام کو شہید کیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس نے دو ائمہ اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کا قاتل متوکل عباسی تھا۔

تاہم متوکل کے ہاتھوں امامؑ کی شہادت کی روایت بحار کی درج ذیل روایت سے متصادم ہے : متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن امام ہادیؑ کو پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امامؑ کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولیے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی متوکل نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ امام ہادی علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ”(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔ میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر امام ہادیؑ نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادیؑ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کر کے شیعیان اہل بیتؑ میں سے ہو گیا۔

زوجہ اور اولاد

امام ہادی علیہ السلام کی زوجہ مکرمہ کا نام سلیل خاتون تھا؛ وہ ام ولد تھیں اور ان کا تعلق "نوبہ” ۔ سے تھا اور وہی امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔

اکثر شیعہ علماء کے مطابق آپؑ کی چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں لیکن آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ خصیبی کے قول کے مطابق آپؑ کے چار فرزند امام حسن عسکریؑ، محمد، حسین اور جعفر ہیں۔ مؤخر الذکر نے امامت کا جھوٹا دعوی کیا چنانچہ جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا۔

شیخ مفید آپ کے فرزندوں کے بارے میں لکھتے ہیں: امام ہادیؑ کے جانشین حضرت ابو محمد حسن ہیں جو آپؑ کے بعد گیارہویں امام ہیں، اور حسین، محمد اور جعفر اور ایک بیٹی بنام عائشہ، جبکہ ابن شہرآشوب کا کہنا ہے کہ آپؑ کی دوسری بیٹی کا نام علیہ ہے۔ البتہ قرائن اور نشانیوں کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آپؑ کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کے کئی نام تھے۔ علمائے اہل سنت کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی، ہیں۔

امامت

امام ہادیؑ سنہ 220 ہجری میں اپنے والد امام جوادؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ظاہر ہے کہ امام کی کمسنی کا مسئلہ امام جوادؑ کی امامت کے آغاز پر حل ہوچکا تھا چنانچہ اکابرین شیعہ کے لئے امامت کے وقت یہ مسئلہ حل شدہ تھا اور کسی کو کوئی شک و تردد پیش نہ آیا۔ شیخ مفید کے بقول چند معدودافراد کے سوا امام جوادؑ کے پیروکاروں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔ متذکرہ معدود افراد کچھ عرصے کے لئے قم میں مدفون موسی بن محمد (متوفی  296ہجری ) المعروف بہ موسی مبرقع کی امامت کے قائل ہوئے؛ لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے اور انھوں نے امام ہادیؑ کی امامت کو قبول کیا۔   سعد بن عبد اللہ کہتے ہیں: یہ افراد اس لئے امام ہادیؑ کی امامت کی طرف پلٹ آئے کہ موسی مبرقع نے ان سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا اور انہیں بھگا دیا۔

دلائل امامت

طبرسی اور ابن شہر آشوب کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام کی امامت پر شیعیان آل رسولؐ کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔ ان سب کے ساتھ، کلینی اور ديگر محدثین نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

روایات کے مطابق معتصم نے امام جوادؑ کو بغداد بلوایا تو آپؑ نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپؑ نے امام ہادی علیہ السلام کو شیعیان اہل بیت کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر پہچنوایا۔ حتی کہ آپؑ نے ایک نصِّ مکتوب بھی مدینہ میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔

اس کے علاوہ رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی نقی الہادی علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (آیت اولو الامر) یعنی ("اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم”) نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (آیت تطہیر) یعنی ("انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا”) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔

ہم عصر عباسی خلفاء

امام ہادی اپنی امامت کی مدت میں بنی عباس کے کئی ایک خلفاء کے ساتھ ہم عصر تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

  • معتصم، جو مامون کا بھائی تھا (دوران حکومت: 218 سے 227 ہجری تک)۔
  • واثق، جو معتصم عباسی کا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 227 سے 232 ہجری تک)۔
  • متوکل عباسی، جو واثق عباسی کا بھائی تھا۔ (دوران حکومت 232 سے 248 ہجری تک)۔
  • منتصر، جو متوکل کا بیٹا تھا۔ (مدت حکومت 6 مہینے)۔
  • مستعین، منتصر عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ (دوران حکومت 248 سے 252 ہجری تک)۔
  • معتز عباسی، متوکل کا دوسرا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 252 سے 255 ہجری تک)۔

امام نقی علیہ السلام کو مؤخر الذکر عباسی حکمران معتز کے زمانے میں بمقام سامرا زہر دیا گیا اور وہیں آپ جام شہادت نوش کرگئے۔ آپؑ سامرا میں ہی مدفون ہوئے۔

امام کے مقابل متوکل کی روش

متوکل کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے عباسی خلفاء کی روش مامون ہی کی روش تھی۔ یہ روش اہل حدیث کے مقابلے میں معتزلیوں کا تحفظ کررہی تھی اور اس روش نے علویوں کے لئے مساعد و مناسب سیاسی ماحول پیدا کردیا تھا۔ متوکل کے آتے ہی تنگ نظریوں کا آغاز ہوا۔ متوکل نے اہل حدیث کی حمایت کی اور انہیں معتزلہ اور شیعہ کے خلاف اکسایا اور یوں معتزلہ اور شیعہ کی سرکوبی شروع کردی اور یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔

ابو الفرج اصفہانی نے طالبیون کے ساتھ متوکل کے نفرت انگيز طرز سلوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ متوکل کا وزیر عبید اللہ بن یحیی بن خاقان بھی متوکل کی طرح خاندان علوی کا شدید دشمن تھا۔ طالبیوں کے ساتھ متوکل عباسی کے ناخوشایند روشوں کے نمونے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے زمین کربلا ـ اور بالخصوص مرقد منور کے گرد کے علاقے ـ کو ہموار کروایا اور وہاں ہل چلوایا اور وہاں کھیتی کا انتظام کیا؛ زائرین امام حسینؑ کے ساتھ سختگیرانہ رویہ اختیار کیا اور ان کے لئے شدید اور ہولناک سزائیں مقرر کردیں۔ اس صورت حال کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ کربلا میں واقع حرم حسینی شیعہ طرز فکر اور مکتب آئمہؑ کے ساتھ عوام کا پیوند و تعلق استوار کرسکتا تھا۔

سامرا میں طلب کیا جانا

متوکل نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو مدینہ سے سامرا طلب کیا۔ ابن جوزی نے خاندان رسالتؐ کے دشمنوں کی طرف سے متوکل کے ہاں امامؑ کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: متوکل نے بدگمانیوں پر مبنی خبروں کی بنیاد پر جو امامؑ کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں، امام ہادیؑ کو سامرا طلب کیا۔

شیخ مفید لکھتے ہیں: امام علی نقیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو سامرا آنے کی دعوت دی۔ کلینی نیز شیخ مفید نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔

متوکل نے امامؑ کی مدینہ سے سامرا کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور امامؑ کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے تاہم مدنیہ کے عوام ابتدا ہی سے اس حقیقت حال کو بھانپ گئے تھے۔

ابن جوزی اس سلسلے میں یحیی بن ہرثمہ سے نقل کرتے ہیں: میں مدینہ چلا گیا اور شہر میں داخل ہوا تو وہاں کی عوام کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بعض غیر متوقع مگر پرامن اور ملائم اقدامات عمل میں لا کر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ رفتہ رفتہ عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس سلسلے میں اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی۔

خطیب بغدادی (متوفٰی 463 ہجری) نے لکھا ہے: متوکل عباسی نے امام ہادیؑ کو مدینہ سے بغداد اور وہاں سے سرّ من رأٰی منتقل کیا اور آپؑ 20 سال اور 9 مہینے کی مدت تک وہیں قیام پذیر رہے اور معتز کے دور حکومت میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے۔

سامرا میں قیام اور متوکل کا رویہ

سامرا پہنچنے پر امام ہادیؑ کا عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا اور آپؑ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں بسایا گیا۔

شیخ مفید کہتے ہیں: سامرا میں پہنچنے کے پہلے روز متوکل نے حکم دیا کہ آپؑ کو تین دن تک "خَانِ الصَّعَالِيكِ” یا("دار الصَّعَالِيكِ”) میں رکھا اور بعدازاں آپؑ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپؑ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔ صالح بن سعید کی رائے کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات امامؑ کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔

امامؑ آخر عمر تک اسی شہر میں مقیم رہے۔ شیخ مفید سامرا میں امامؑ کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلیفہ بظاہر امامؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن درپردہ آپؑ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔

امامؑ سامرا میں اس قدر صاحب عظمت و رأفت تھے کہ سب آپؑ کے سامنے سر تعظیم خم کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپؑ کے سامنے منکسرالمزاجی کا اظہار کرتے اور آپؑ کا احترام کرتے تھے۔ امام علی نقی سامرا میں جبری اقامت 20 سال اور 9 ماہ کی مدت کے دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے مگر متوکل انہیں اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تا کہ اس طرح وہ امام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکے نیز لوگوں کے درمیان امام کے مقام کو گرا دے۔

متوکل کو خبر دی گئی کہ امام کے گھر میں جنگی اسلحہ اور شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے خطوط موجود ہیں۔ اس نے ایک گروہ کو امام کے گھر پر غافل گیرانہ حملے کا حکم دیا۔ حکم پر عمل کیا گیا جب اس کے کارندے امام کے گھر داخل ہوئے تو انہوں نے اس گھر میں امام کے ایسے کمرے میں اکیلا پایا جس کا دروازہ بند تھا اور اس کے فرش پر صرف ریت اور ماسہ موجود تھا۔ امام پشم کا لباس زیب تن کئے اور سر پر ایک رومال لئے قرآنی آیات زمزمہ کر رہے تھے۔ امام کو اسی حالت میں متوکل کے حضور لایا گیا ۔

جب امام متوکل کے پاس حاضر ہوئے تو متوکل کے ہاتھ میں ایک کاسۂ شراب تھا۔ اس نے امام کو اپنے پاس جگہ دی اور شراب کا پیالہ امام کو پیش کیا۔ امام نے جواب دیا میں میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے۔ اس نے امام سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے لئے اشعار پڑھیں جو اسے وجد میں لے آئیں امام نے جواب دیا میں اشعار کم کہتا ہوں ۔متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار کہے :

"باتوا علی قُلَلِ الأجبال تحرسهم”|"غُلْبُ الرجال فما أغنتهمُ القُللُ”

"انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں| لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا”

"واستنزلوا بعد عزّ عن معاقلهم”|"فأودعوا حُفَراً، یا بئس ما نزلوا”

"عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیا|انہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں”

اشعار ختم ہوئے تو متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے یہاں تک کہ متوکل کا چہر آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ امامؑ کو اکرام و احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آئیں۔

منتصر کا دور

متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصر اقتدار پر قابض ہوا جس کی وجہ سے امام علی نقیؑ سمیت علویوں پر عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم ہوگیا؛ گوکہ دوسرے علاقوں میں عباسی کارگزاروں کا دباؤ شیعیان اہل بیت پر بدستور جاری تھا۔

گذشتہ ادوار کی نسبت گھٹن کی کسی حد تک کمی کے بدولت مختلف علاقوں میں شیعیان اہل بیت] کی تنظیم کو تقویت ملی۔ جب بھی کسی شہر میں امامؑ کا کوئی وکیل گرفتار کیا جاتا تھا، آپؑ دوسرا وکیل مقرر کر دیتے تھے۔

اسلامی معارف کی تشریح

یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہؐ کی بعثت کے اہداف و مقاصد اور امامؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ عباسی گھٹن کے اس دور میں رسول اللہؐ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا امامت کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادیؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں امامؑ اس دور میں تبلیغ اسلام کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔

قرآن کی بنیادی حیثیت

اہل تشیع کے درمیان غُلات کی سرگرمیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے انحرافات کی وجہ سے دوسرے فرقوں نے مکتب تشیع کو اپنی یلغار کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان انحرافات میں سے ایک تحریف قرآن کا مسئلہ تھا جس کا تصور البتہ تشیع تک محدود نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی بعض کتب و مآخذ میں بھی تحریف کے سلسلے میں بعض غلط روایات نقل ہوئی ہیں۔

اس تہمت کا ازالہ کرنے کے لئے آئمۂ شیعہؑ نے قرآن کو بنیاد قرار دیتے اور فرماتے جو روایت قرآن سے متصادم ہو وہ باطل ہے۔

امام ہادیؑ نے ایک مفصل رسالہ لکھا جس میں آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔قرآن کو ایک باضابطہ طور ایک ایسا متن قرار دیا کہ تمام اسلامی مکاتب فکر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ رسالہ ابن شعبہ حرانی نے نقل کیا ہے۔

امامؑ نے اپنے زمانے کے مختلف مکاتب اور فرقوں کے اکابرین کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب کرکے قرآن سے استناد کیا اور سب کو اپنی رائے قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ عیاشی کی روایت میں ہے کہ:"كان ابو جعفر وابو عبد الله عليهما السّلام لا يصدّق علينا إلا بما يوافق كتاب الله وسنّة نبيه”، ترجمہ: امام ابوجعفر و امام ابو عبداللہ علیہما السلام ہمارے لئے صرف ان روایات کی تصدیق فرمایا کرتے تھے جو قرآن و سنت کی موافق ہوتی تھیں۔

امامؑ اور خلق قرآن کا مسئلہ

تیسری صدی ہجری کے آغاز میں حدوث و قِدَمِ قرآن کی بحث نے عالم تسنن کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ یہ بحث خود اہل تسنن میں فرقوں اور گروہوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔

شیعیان اہل بیتؑ نے آئمہؑ کے فرمان کے مطابق خاموشی اختیار کرلی۔ امام ہادیؑ نے ایک شیعہ عالم کے خط کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں اظہار خیال نہ کرو اور حدوث و قِدَمِ قرآن میں کسی فریق کی جانبداری نہ کرو۔

امام ہادیؑ کے اس مؤقف کی بنا پر ہی شیعہ اس لاحاصل بحث میں الجھنے سے محفوظ رہے۔

علم کلام

مختلف شیعہ گروہوں کے درمیان اختلاف رائے، ان کی ہدایت کو آئمہؑ کے لئے دشواری کا سبب بن رہا تھا؛ شیعیان اہل بیتؑکا مختلف شہروں میں پھیلے ہونے اور کبھی دوسرے فرقوں کی بعض نظریات کے تحت تاثیر قرار پانا مزید دشوار تر کرتا تھا ۔ اس شور وغوغا میں شیعہ مخالف گروہ اور شیعہ دشمن مسالک ان اختلافات کو مزید ہوا دیتے اور انہیں بہت زيادہ عمیق ظاہر کرتے تھے ۔ کشی سے منقولہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص نے بیٹھ کر زراریہ، عمّاریہ اور یعفوریہ نامی مذاہب بنا دئے اور انہیں تشَیُع فرقے قرار دیتے ہوئے امام صادقؑ کے بزرگ اصحاب یعنی زرارہ بن اعین ، عمار ساباطی اور ابن ابی یعفور سے منسوب کیا۔

آئمۂ شیعہؑ کو کبھی ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن میں سے بعض کا سبب شیعہ علما کے درمیان اختلافات سے ہوتا تھا۔ یہ سوالات کبھی تو سطحی قسم کے لیکن کبھی گہرائی کے حامل ہوتے تھے اور آئمہؑ مداخلت کرکے اصلاح کیا کرتے تھے۔ ان کلامی و اعتقادی مسائل میں سے ایک تشبیہ اور تنزیہ کا مسئلہ تھا۔ آئمہؑ ابتدا ہی سے نظریۂ تنزیہ کی حقانیت پر تاکید کرتے تھے۔

تشبیہ اور تنزیہ کی بحث میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کا موقف اور کلام شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان اختلاف کا سبب بنااورآئمہؑ کو مسلسل اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس سلسلے میں امام ہادیؑ سے 21 حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض مفصل ہیں اور وہ سب اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ امامؑ تنزیہ کے مؤقف کی تائید کرتے تھے۔

جبر و اختیار کے مسئلے میں بھی ایک مفصل رسالہ امام ہادیؑ کے علمی ورثے کے طور پر موجود ہے۔ اس رسالے میں قرآن کریم کی آیات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور امام صادقؑ سے منقولہ حدیث "لا جبر ولا تفویض بل امر بین الامرین” کی تحلیل و تشریح کی گئی ہے اور مسئلۂ جبر و تفویض کے سلسلے میں شیعہ کلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔

حضرت امام علی نقی ؑ کی مقام استدلال میں بیان ہونے والی اکثر روایات جبر و تفویض کے متعلق ہیں۔

دعا اور زیارت

دعا اور زیارت امام علی نقی ؑ کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیتؑ کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگر ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔

زیارت جامعۂ کبیرہ

مفصل مضمون: زیارت جامعۂ کبیرہ

زیارت جامعۂ کبیرہ آئمہ معصومینؑ کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے ان سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جا سکتی ہے۔

یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادیؑ کی طرف سے صادر ہوا۔ زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں آئمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمۂؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے۔ چونکہ اس زیارت کے مضامین و محتویات ائمۂؑ کے مقامات و مراتب کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔

شیعوں سے رابطہ

امام ہادی علیہ السلام ادارہ وکالت کے توسط سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ روش حقیقت میں ابتداء ہی سے آئمہؑ کی سیرت کا تسلسل تھی۔ اس دور میں پیروان اہل بیتؑ کی اکثریت کا مسکن ایران تھا اور امام ہادیؑ کا غالیوں سے بھی مقابلہ رہا۔

نظامِ وکالت

اگرچہ ائمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔ وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔

ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:

  1. بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
  2. بصرہ اور اہواز؛
  3. قم اور ہمدان؛
  4. حجاز، یمن اور مصر۔

آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔

امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔

ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے۔

حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔

اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔

شیعیانِ ایران

پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔

امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

امام ہادیؑ کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔

قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔

قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔

قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم” کی صفت سے نوازا ہے۔

ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے۔

امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔ دیلم دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔

امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے.

بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادیؑ کے بعض اصحاب قزوین میں سکونت پذیر تھے۔

اصفہان ـ کہ جن کے متعلق متعصب سنیوں حنبلی ہونے کی خبر معروف تھی اور اس شہر کی اکثریت کا تعلق اہل سنت سے ہی تھاـ میں امام ہادیؑ کے بعض اصحاب سکونت پذیر تھے جن میں سے بطور نمونہ ابراہیم بن شیبہ اصفہانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ اگرچہ کاشانی کے تھے لیکن ظاہرا طویل مدت تک اصفہان میں قیام پذیر ہونے کے وجہ سے اصفہانی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ اس کا برعکس بھی صحیح ہے جیسا کہ امام ہادیؑ کے ایک صحابی علی بن محمد کاشانی کاشانی کے لقب سے معروف ہوئے اگرچہ انکا تعلق اصفہان سے تھا؛ نیز ایک روایت میں عبد الرحمن نامی شخص کا ذکر آیا ہے جن کا تعلق اصفہان سے تھا۔ وہ سامرا میں امام ہادیؑ کی ایک کرامت دیکھ کر مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے. ْ ہمدان میں امام ہادی علیہ السلام اپنے وکیل کے نام خط پر مشتمل روایت میں آپ اس طرح فرماتے ہیں: میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے تمہاری سفارش کی ہے۔

غالی شیعہ

امام ہادیؑ آئمۂ سابقین علیہم السلام کی روش جاری رکھتے ہوئے غالیوں کے خلاف میدان میں اترے کیونکہ آپؑ کے اصحاب میں بھی بعض غالی شامل تھے.ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:

  • علی بن حسکہ: یہ قاسم شعرانی یقطینی کا استاد تھا اوریہ دونوں غالیوں کے بزرگوں اور آئمہؑ کے نفرین اور لعن شدہ اشخاص تھے۔ محمد بن عیسی نے ان دونوں کے متعلق امام حسن عسکری ؑ کو خط میں لکھا: ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو آپ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جنہیں ہم نہ تو رد کر سکتے ہیں چونکہ آپ سے منقول ہیں اور ان میں ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قبول بھی نہیں کر سکتے۔ وہ "ان الصلاة تنہی عن الفحشاء و المنکر…”میں کہتے ہیں۔ ان سے شخص (امام حسن عسکری) مراد ہے کوئی رکوع و سجود مراد نہیں ہے اسی طرح فرائض و سنن کی وہ تاویل کرتے ہیں….امام نے جواب میں لکھا۔ یہ ہمارا دین نہیں ہے تم ان سے دوری اختیار کرو۔
  •   حسن بن محمد بن بابا قمی اور محمد بن موسی شریقی: یہ علی بن حسکہ کے شاگرد تھے۔ جو لوگ امام ہادیؑ کے لعن کا مصداق قرار پائے۔ امامؑ نے ایک خط کے ضمن میں ابن بابا قمی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے بھیجا ہے اور وہ میرا باب ہے۔ پھر فرمایا: اے محمد!اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو پتھر سے اسکا سر کچل ڈالو۔
  • محمد بن نصیر نمیری: یہ بھی غالیوں میں سے ہے۔ امام حسن عسکری ؑ نے اس پر لعن کی تھی۔ ایک فرقہ محمد بن نصیر نمیری کی نبوت کا قائل تھا کیونکہ نمیری نے ادعا کیا تھا کہ امام حسن عسکری ؑ نے اسے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ کے بارے میں خدائی کا دعویدار تھا۔ تناسخ کا قائل تھا، محارم سے نکاح نیز مرد کا مرد سے نکاح جائز ہے و ….محمد موسی بن حسن بن فرات بھی اس کی پشت پناہی کرتا تھا. محمد بن نصیر کے پیروکار، جو نُصَیری کہلائے۔ نصیری مشہور ترین غالی فرقے کا نام ہے جو خود کئی فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔
  • فارس بن حاتم قزوینی: امام ہادیؑ نے حکم دیا کہ فارس بن حاتم کو جھٹلایا جائے اور اس کی ہتک کی جائے۔ جب علی بن جعفر اور فارس بن حاتم کے درمیان جھگڑا واقع ہوا تو آپؑ نے علی بن جعفر کی حمایت کی اور ابن حاتم کو رد کر دیا۔ نیز آپؑ نے ابن حاتم کے قتل کا حکم جاری کیا اور اس کے قاتل کے لئے اخروی سعادت اور جنت کی ضمانت دی۔ بالآخر جنید نامی شیعہ فرد نے امامؑ سے بالمشافہہ اجازت حاصل کرکے ابن حاتم کو ہلاک کر دیا۔
  • حسین بن عبید اللہ محرر: یہ امام ہادیؑ کے اصحاب میں تھا۔.اس پر غلو کا الزام تھا۔ قمیوں کی جماعت نے غلو کے ملزمین کے ہمراہ اسے قم سے باہر نکال دیا۔.
  • دیگر غالیوں میں سے احمد بن محمد سیاری تھا جو اصحاب امام ہادیؑ کے زمرے میں شمار ہوتا تھا ـ ، جس کو بہت سے علمائے رجال نے غالی اور فاسد المذہب قرار دیا ہے. اس شخص کی کتاب القرأت  ان لوگوں کے حوالہ جات کا ماخذ ہے جو تحریف قرآن کے حوالے سے اس سے استناد و استدلال کرتے ہیں۔
  • اس دور کے دیگر غالیوں میں عباس بن صدقہ، ابو العباس طرنانی (طبرانی)، ابو عبداللہ کندی المعروف بہ شاہ رئیس تھے جو غلات کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔

امام کی شہادت

معتمد عباسی نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کیا لوگ آپؑ کے جنازے میں اپنے چہرے اور رخساروں کو پیٹ رہے تھے. انہوں نے امامؑ کے جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر گھر سے باہر نکالا اور "‌موسی بن بغا‌” کے گھر کے سامنے قرار دیا. معتمد نے انہیں دیکھا تو فیصلہ کیا کہ امامؑ کے جنازے کی نماز پڑھائے. چنانچہ اس نے حکم دیا کہ جنازہ زمین پر رکھا جائے اور اس نے نماز پڑھائی اگرچہ امام حسن عسکری علیہ السلام قبل ازاں شیعیان سامرا کے ہمراہ آپؑ کی نماز جنازہ ادا کرچکے تھے. اس کے بعد امامؑ کو اس گھر میں دفنا دیا گیا جہاں آپؑ کو کچھ عرصے سے قید رکھا گیا تھا. روایت ہے کہ امامؑ کے جنازے میں عوام کی بھیڑ اس قدر زيادہ تھی کہ امام عسکریؑ کے لئے ان کے درمیان حرکت کرنا مشکل ہورہا تھا. حتی کہ ایک نوجوان ایک گھوڑا امام کے پاس لایا اور لوگ گھر تک آپ کے ساتھ چلے.

شاگرد اور اصحاب

مفصل مضمون: اصحاب امام ہادیؑ

شیخ طوسی نے مرقوم کیا ہے کہ دسویں امامؑ کے شاگردوں اور آپؑ سے روایت کرنے والے اصحاب کی تعداد 185 تک پہنچتی ہے. امامؑ کے بعض معروف و مشہور اصحاب کے نام حسب ذیل ہیں:

عبدالعظیم حسنی

مفصل مضمون: عبدالعظیم حسنی

عبدالعظیم حسنی ـ جن کا سلسلۂ نسب امام حسنؑ تک پہنچتا ہے ـ شیخ طوسی کے مطابق امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں گوکہ بعض دیگر مآخذ میں ان کو امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے.

"عبدالعظیم” ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ‌ اور امام دہمؑ کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں. "ابو حماد رازی‌” کہتے ہیں: میں سامرا میں امام ہادیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ سے بعض مسائل اور حلال اور حرام کے بارے میں بعض سوالات پوچھے. وداع کا وقت آیا تو امامؑ نے فرمایا: ‌اے حماد! جب بھی تمہیں اپنے منطقۂ سکونت میں دین کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھو اور میرا سلام انہیں پہنچا دو.

عثمان بن سعید

مفصل مضمون: عثمان بن سعید

عثمان بن سعید نے صرف گیارہ سال کی عمر میں امام ہادیؑ کی حدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی کہ امامؑ نے انہیں اپنا "ثقہ” اور "امین” قرار دیا.

ایوب بن نوح

مفصل مضمون: ایوب بن نوح

ایوب بن نوح امین اور قابل اعتماد انسان تھے اور عبادت اور تقوی میں اعلی رتبے کے مالک تھے یہاں تک کہ علمائے رجال انہیں اللہ کے صالح بندوں کے زمرے میں قرار دیتے تھے. وہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے وکیل تھے اور انھوں نے امام ہادیؑ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں.

حسن بن راشد

مفصل مضمون: حسن بن راشد

حسن بن راشد ـ جن کی کنیت ابو علی ہے ـ امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں اور ان دو بزرگواروں کے نزدیک اعلی منزلت کے مالک تھے۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ وہ نمایاں فقہاء اور ان رتبۂ اول کی شخصیات میں سے ہیں جن سے حلال و حرام اخذ کیا جاتا ہے اور ان کی مذمت اور ان پر طعن کا امکان نہیں پایا جاتا۔

شیخ طوسی نے بھی آئمہؑ کے ممدوح اصحاب اور سفراء کے بارے میں بحث کرتے ہوئے حسن بن راشد کا نام امام ہادیؑ کے اصحاب کے ضمن میں بیان کیا ہے اور امام ہادیؑ کی طرف سے انہیں ارسال کردہ مکاتیب و خطوط کی طرف اشارہ کیا ہے۔

حسن بن علی ناصر

مفصل مضمون: حسن بن علی ناصر

شیخ طوسی نے انہیں امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے. وہ سید مرتضی علم الہدی کے نانا ہیں. سید مرتضی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علم، فقہ اور زہد و پارسائی میں اس کی مرتبت اور برتری سورج سے زیادہ روشن ہے. وہی ہیں جنہوں نے "دیلم” میں اسلام کی ترویج کی. یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں نے ان کی برکت سے گمراہی سے نجات پائی اور ان کی دعا سے حق کی طرف پلٹ آئے. ان کی پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق حد و حساب سے باہر ہیں.

امام ہادیؑ کی حدیثیں

امام ہادی علیہ السلام سے مروی 12 حدیثیں:

عنوان حدیث
قم اور آبہ کے لوگ "أهْلُ قُمْ وَأهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ، لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىّ ابْنِ مُوسَى الرِّضا عليه السلام بِطُوس، ألا وَمَنْ زارَهُ فَأصابَهُ فى طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حُرَِّمَ جَسَدُهُ عَلَى النّار”.
ترجمہ: "قم اور آبہ کے لوگوں کی مغفرت ہوچکی ہے کیونکہ وہ طوس میں میرے جد بزرگوار حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کی زیارت کو جاتے ہیں. جان لو کہ جو بھی ان کی زیارت کرے اور راستے میں اس کے اوپر آسمان سے ایک قطرہ پڑجائے (اور کسی مشکل سے دوچار ہوجائے) اس کا جسم آتش جہنم پر حرام ہو جاتا ہے”.
قرآن سدا بہار "عَنْ يَعْقُوبِ بْنِ السِّكيتْ، قالَ: سَألْتُ أبَاالْحَسَنِ الْهادي عليه السلام: ما بالُ الْقُرْآنِ لا يَزْدادُ عَلَى النَّشْرِ وَالدَّرْسِ إلاّ غَضاضَة؟ قالَ ؑ: إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَجْعَلْهُ لِزَمان دُونَ زَمان، وَلالِناس دُونَ ناس، فَهُوَ فى كُلِّ زَمان جَديدٌ وَعِنْدَ كُلِّ قَوْم غَضٌّ إلى يَوْمِ الْقِيامَةِ”.
"یعقوب ابن سکیت کہتے ہیں کہ میں نے امام ہادیؑ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید نشر و اشاعت اور درس و بحث سے مزید تر و تازہ ہوجاتا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے کسی خاص زمانے اور خاص افراد کے لئے مخصوص نہیں کیا ہے پس وہ ہر زمانے میں نیا اور قیامت تک ہر قوم و گروہ کے پاس ترو تازہ رہے گا”.
غصہ کبھی نہیں! "الْغَضَبُ عَلى مَنْ لا تَمْلِكُ عَجْزٌ، وَعَلى مَنْ تَمْلِكُ لُؤْمٌ”.
"جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے”.
اطاعت کرو! "مَنۡ جَمَعَ لَكَ وُدَّهُ وَرَأیَهُ فَأجۡمَعۡ لَهُ طَاعَتَكَ”.
"جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی اطاعت کرو”.
جانکنی کو یاد کرو "اُذكُرْ مَصْرَعَكَ بَيْنَ يَدَىْ أهْلِكَ لا طَبيبٌ يَمْنَعُكَ، وَلا حَبيبٌ يَنْفَعُكَ”.
"اپنے گھر والوں کے سامنے (حالت احتضار میں لاچار) پڑے رہنے کو یاد کرو جب نہ طبیب تمہیں (مرنے سے) سے بچا سکتا ہے اور نہ حبیب (دوست) تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے”..
حرام میں برکت نہیں "إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ لَهُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ كانَ زادَهُ إلَى النّارِ”.
"(مال) حرام بڑھتا پھولتا نہیں ہے اور اگر بڑھے اور پھولے بھی تو اس میں (صاحب مال حرام) کے لئے برکت نہیں ہوتی، اگر جو وہ اس مال میں سے انفاق کردے تو اس کا اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا اور اگر (ترکے میں) چھوڑ جائے تو جہنم کی راہ کا توشہ ہے”.
دوہری مصیبت "اَلْمُصيبَةُ لِلصّابِرِ واحِدَةٌ وَ لِلْجازِعِ اِثْنَتان”.
"مصیبت صبر كرنے والے كے لئے اکہری (ایك ہی) اور بے صبری کرنے والے كے لئے دوہری ہے”..
خدا کے مقامات "اِنّ لِلّهِ بِقاعاً يُحِبُّ أنْ يُدْعى فيها فَيَسْتَجيبُ لِمَنْ دَعاهُ، وَالْحيرُ مِنْها”.
فرمایا: "خدا کے کچھ (خاص) مقامات ہیں جہاں اسے پکارا جانا پسند ہے لہٰذا جو ان میں خدا کو پکارتا ہے خدا اس کی سن لیتا ہے اور حائر حسینی ؑ ان ہی مفامات میں سے ایک ہے”.
جزا اور سزا کا مالک "اِنّ اللّهَ هُوَ الْمُثيبُ وَالْمُعاقِبُ وَالْمُجازى بِالاَْعْمالِ عاجِلاً وَآجِلاً”.
"خدا ہی ثواب و عقاب دینے والا اور اعمال کی جلد یا بدیر جزا و سزا دیتا ہے”.
بےآبرو شخص سے ڈرو "مَنْ هانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ”.
"جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ مت سمجھو”.
تقیہ اور نماز "إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار”.
"اے داؤد اگر تم یہ کہو کہ (تقیہ کے موقع پر) تقیہ چھوڑنے والا بے نمازی کے مانند ہے تو تم سچے ہو”.
بد گمانی کہاں؟ "اِذَا كانَ زَمانُ العَدلِ فيهِ أَغلَبَ مِنَ الجَورِ فَحَرامٌ أَن یظُنَّ بِاَحَدٍ سُوءً حَتّی یَعلَمَ ذالِكَ مِنهُ واِذَا كانَ زَمانُ الجَورِ أَغلَبَ فیهِ مِنَ العَدلِ فَلَیسَ لِأَحَدٍ أَن یَظُنَّ بِاَحَدٍ خَیراً ما لَم یَعلَم ذالِكَ مِنهُ”.
"جب بھی معاشرے میں عدل و انصاف ظلم و ستم پر غلبہ کرے، کسی پر بدگمانی کرنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں یقین تک پہنچے؛ اور جب بھی ظلم و ستم عدل و انصاف پر غالب آجائے تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے بارے میں حسن ظن رکھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرے”..

حرم امام ہادیؑ پر حملہ

حالیہ برسوں میں دہشت پسند سلفی و تکفیری ٹولوں نے کئی مرتبہ امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے حرم پر حملے کئے ہیں. سب سے خطرناک حملہ دہشت گردوں نے 22 فروری سنہ 2006 عیسوی کو انجام دیا اور القاعدہ نامی دہشت گرد جماعت نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی؛ دہشت گردی کی اس کاروائی میں 200 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کرکے گنبد کے مرکز اور میناروں کے بعض طلائی گلدستوں کو منہدم کیا گیا.

دو سال بعد مورخہ 13 مارچ سنہ 2008 عیسوی کو امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کا حرم پھر سے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں باقیماندہ گلدستے بھی مکمل طور پر منہدم ہوئے. مورخہ 6 جون سنہ 2014 عیسوی کو بھی داعش نامی ٹولے نے امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کی غرض سے ایک پھر ایک وسیع حملے کا آغاز کیا جو حرم کے محافظین اور عراقی افواج کی زبردست مزاحمت کے نتیجے میں ناکام ہوا.

حرم کی تعمیر نو

حرم کے گنبد اور گلدستوں کی تخریب و ویرانی کے بعد، گنبد کی تعمیر نو کا کام دس کروڑ ڈالر کی لاگت سے شہر قم میں سید جواد شہرستانی کے زیر سرپرستی شروع ہوا۔ اس گنبد کو سونے کی 23 ہزار اینٹوں سے مزین کیا گیا ہے۔

امام ہادیؑ کی ضریح بھی آیت اللہ سید علی سیستانی کے زیر اہتمام تعمیر کی گئی ہے۔ اس ضریح میں 70 کلوگرام سونے، 4500 کلوگرام چاندی، 1100 کلوگرام تانبے و 11 ٹن ساگوان (Teak) کی لکڑی (جو 300 سال تک بادوام رہتی ہے) سے استفادہ کیا گیا اور یہ سارے اخراجات آیت اللہ سید علی سیستانی نے ہی اٹھائے ہیں۔

مذہب

رباب بنت امرؤ القیس بن عدی، امام حسین علیہ السلام کی زوجہ، سکینہ و علی اصغر (عبداللہ رضیع) کی مادر ہیں۔ آپ کو اہل علم اور اہل فصاحت و بلاغت کہا گیا ہے۔ رباب واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیروں کے ہمراہ شام کا سفر بھی کیا۔ آپ کی وفات عاشورا کے بعد ہوئی اور اس کی وجہ شدید مصائب کہا گیا ہے۔

نسب

رباب امرؤالقیس عدی کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد شام کے عرب اور نصرانی تھے جو کہ عمر کے دور خلافت میں مسلمان ہوئے۔ رباب کی مادر جن کا نام ہند الہنود اور وہ ربیع بن مسعود بن مصاد بن حصن بن کعب کی بیٹی تھی۔

خصوصیات

سید محسن امین نے کتاب الاغانی سے ہشام کلبی کا قول نقل کیا ہے کہ رباب عورتوں میں فضیلت، خوبصورتی، ادب اور عقل کے لحاظ سے بہترین اور برترین تھیں۔

ازدواج

شیخ مفید امام حسین (ع) کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے رباب کا ذکر امام(ع) کی زوجہ کے نام سے کرتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق امرؤالقیس حضرت علی (ع) کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت رکھتا تھا جس کی وجہ سے اپنی ایک بیٹی کا نکاح امیرالمومنین (ع) اور ایک کا امام حسن (ع) اور ایک کا امام حسین (ع) کے ساتھ کیا۔

امام حسین (ع) کی محبت

امام حسین(ع) رباب کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ اور آپ کے بارے میں شعر بھی پڑھتے تھے۔ ایک شعر جو امام (ع) سے منسوب ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں رباب اور سکینہ ہوں مجھے وہ گھر پسند ہے۔ رباب کے بارے میں امام حسین (ع) کے اور اشعار بھی موجود ہیں۔

اولاد

رباب سے امام حسین(ع) کی دو اولاد تھیں۔ ایک سکینہ اور دوسری عبداللہ۔ عبداللہ (علی اصغر) جو نہایت کمسنی میں عاشور کے دن اپنے بابا کی آغوش میں شہادت پر فائز ہوئے۔

واقعہ کربلا کے بعد

بعض قول کے مطابق رباب واقعہ کربلا کے ایک سال بعد تک امام حسین (ع) کی قبر کے پاس کربلا میں ہی رہیں اور پھر مدینہ لوٹ گئیں۔ لیکن شہید قاضی طباطبائی کا قول ہے کہ رباب نے مدینہ میں عزاداری کی نہ کہ کربلا میں اور وہ کہتے ہیں: اگرچہ امام سجاد (ع) بھی اس بات پر راضی نہ ہوتے کہ امام حسین (ع) کی زوجہ اکیلی کربلا میں رہیں اس کے علاوہ خود آپ کی شخصیت بھی ایسی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں: کوئی بھی یقینی طور پر یوں نہیں کہتا کہ یہ معظمہ خاتون پورا ایک سال امام (ع) کی قبر پر رہیں ہیں، ابن اثیر نے بھی اپنے قول کا کوئی قائل ذکر نہیں کیا، اس لئے پہلا قول کہ آپ شہادت کے بعد پورا سال قبر کے پاس رہیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں، ضعیف قول ہے۔ ابن کثیر نے بھی کچھ اشعار آپکی زبانی بیان کئے ہیں:

اِلی الحول ثمَ اَسْمُ السلامَ علیکما وَ مَنْ یبْک حَوْلاً کامِلاً فَقَد اعْتَذَر
ایک سال پھر اس کے بعد آپ پر درود (اور الوداع) بھیجتی رہوں گی اور جو پورا ایک سال روتی رہی وہ اس کے بعد معذور ہے۔

مدینے میں قریش کی بزرگ شخصیات نے آپ کا رشتہ مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کسی کے ساتھ شادی کے لئے حاضر نہ ہوئیں۔ آپ فرماتی تھیں: میں اس بات پر راضی نہیں کہ پیغمبر(ص) کے بعد کوئی اور میرا سسر ہو۔ مصقلہ الطحان نے امام صادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: جب حسین (ع) شہید ہو گئے تو آپ کی زوجہ رباب آپ کے لئے مجلس بپا کرتی خود بھی روتی اور آپ کی خدمت کرنے والی بھی گریہ کرتیں یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔ اس وقت اپنی ایک کنیز کو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس کو بلا کو سوال کیا: کیا وجہ ہے کہ ہم سب کے درمیان صرف تمہارے آنسو خشک نہیں ہوئے؟ اس نے کہا: میں سویق کا شربت پیتی ہوں آپ نے بھی حکم دیا کہ سویق کا شربت منگوایا جائے اور وہی شربت پیا اور اس کے بعد کہا کہ یہ شربت پی کر حسین (ع) پر رونے کی طاقت پیدا کروں گی۔

وفات

ابن کثیر لکھتا ہے: رباب واقعہ کربلا کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہیں اور اس ایک سال میں درخت کے سائے میں نہ بیھٹیں اور شدید غم و اندوہ کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔ سید محسن امین نے آپ کا سنہ وفات سنہ 62 ہجری (یعنی عاشورا کے ایک سال بعد) لکھا ہے۔

مذہب

سکینہ بنت الحسین واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئیں۔ آپ نے اپنے والد سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھیں اور حضرت امام حسینؑ کے لئے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔

آپ کی شادی اور جہاں وفات پائی ہیں اس جگہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ اسی طرح بعض شیعہ فقہاء نے آپ کی مصعب بن زبیر سے شادی کو دلیل بنا کر شیعہ عورتوں کا دیگر مسلمانوں سے شادی کرنا جائز قرار دیا ہے۔ بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائی گئی الزام قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔

آپ کی شادی کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ نے آپ کی شادی آپ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن سے کی لیکن؛ لیکن شیخ مفید نے عبد اللہ بن حسن کو واقعہ کربلا میں ایک نابالغ اور شادی کی عمر تک نہ پہنچا ہوا بچہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

جبکہ بعض مآخذ سکینہ کے شوہر کا نام ابو بکر (عبد اللہ) بن حسن لکھتے ہیں۔ اور انہی منابع کے مطابق گویا ابوبکر، عبداللہ بن حسن کی کنیت تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ سکینہ کی شادی عبد اللہ بن حسن سے ہوئی لیکن شب زفاف سے پہلے ہی عبد اللہ بن حسن کربلا میں شہید ہو گئے۔ ریاحین الشریعہ میں آپ کا شوہر عبداللہ بن مسلم بن عقیل لکھا گیا ہے۔

بعض مآخذ میں مصعب بن زبیر کا نام ذکر ہوا ہے۔ کتاب الطبقات الکبری و الاعلام میں آیا ہے کہ مصعب قتل ہونے کے بعد سکینہ نے عبداللہ بن عثمان سے شادی کی اور عبداللہ مرنے کے بعد زید بن عمر بن عثمان بن عفان نے ان سے شادی کی۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سکینہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کی ہے۔ بعض شیعہ فقہاء نے سکینہ کی مصعب سے شادی یہ استفادہ کیا ہے کہ شیعہ لڑکی غیر شیعہ مسلمانوں سے شادی کر سکتی ہیں۔

اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ سے جو بہت ساری شادیوں کی نسبت دی ہے انہیں بعض مورخین نے رد کیا ہے؛ کیونکہ ان میں سے بعض ایسے افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں جو اہل بیت کے دشمن تھے اور ایسے شخص سے سکینہ کا شادی کرنا بعید ہے۔ ان کتابوں میں آیا ہے کہ سکینہ نے عبداللہ بن حسن سے شادی کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی ہے۔ اسی طرح سکینہ کی متعدد شادیوں کے بارے میں کہا ہے کہ صدرِ اسلام میں یہ رسم تھی کہ شوہر مرنے کے بعد عورتیں بغیر شوہر کے نہیں رہتی تھیں اور دوبارہ سے شادی کرنا ایک فطری اور عام سی بات تھی۔ بعض نے سکینہ کا حسب ونسب اور سماجی حیثیت کو متعدد شادیوں کی علت قرار دیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ کی بیٹیوں کے شوہر وفات ہونے کے بعد بنی امیہ کے حکمران ان کا رشتہ مانگتے تھے اور دشمنِ اہل بیت کا رشتہ ٹھکرانے کے لئے کسی اور سے شادی کرتی تھیں۔

کربلا میں موجودگی

مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، امام حسین (ع) میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں آپ نے ان سے صبر کرنے کو کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کئے اور یہ اشعار پڑھے:

سیطول بعدی یا سکینة فاعلمی منک البکاء اذا الحمام دهانی
لا تحرقی قلبی بدمعک حسرة مادام منی الروح فی جثمانی
فاذا قتلت فانت اولی بالذی تبکینه یا خیرة النسوان
ترجمہ: اے سکینہ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہوگا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لئے شایستہ ہے۔

اسیری کے ایام

واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلامؐ سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچا تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی؛ اس نے اپنے کو سکینہ بنت الحسین سے معرفی کیا اور مجھے کسی خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تاکہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کیا۔ بعض منابع میں سکینہ سے دمشق ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرمؐ بعض دیگر انبیاءؑ کے ہمراہ اور فاطمہ زہراؑ کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسینؑ کا خونی قمیص ہاتھ میں لئے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔

سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات

حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق اور بزرگ خاتون شمار کی جاتی ہے۔ فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسینؑ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے
سکینہ کی سخاوت کا بھی بعض تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی علی ابن الحسینؑ کے حج کے پورے اخراجات آپ نے دیئے۔
احادیث اور رجال کی کتابوں میں انہیں موثق راوی کے طور پر جانا گیا ہے، کوفہ والے آپ سے روایت نقل کرتے تھے۔ سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں ان کے والد گرامی امام حسینؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔ اور عبیداللہ بن ابی‌ارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل بن ابی‌ خالد اور سکینہ دختر قاضی ابی‌ذر نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قابل میں اور امام حسینؑ کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:

لا تعذلیه فهم قاطع طرقه فغینه بدموع ذرف غدفه
ان الحسین غداة الطف یرشقه ریب المنون فما ان یخطی الحدقه
بکف شر عبادالله کلهم نسل البغایا و جیش المرق الفسقه
یا امة السوء هاتوا ما احتجاجکم غذا و جلکم بالسیف قد صفقه
ترجمہ: جو راستے سے بھٹک گیا ہے اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسینؑ کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجادؑ کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بدترین لوگ، حرام زادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بدترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اس قتل کیا ہے۔

عربی ادب پر آپ کو اتنا تسلط حاصل تھا کہ عربی معروف شاعر فرزدق، جریر، کثیر، نصیب اور جمیل اپنے اشعار کو پرکھنے کے لیے آپ کے پاس لے آتے تھے تاکہ اصلاح ہوسکے۔
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسینؑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسب دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔ ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے کہ سکینہ غزل اور اشعار پڑھتی تھی۔
ابوالفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر بن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔ اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسور کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر بن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علما بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر بن ابی ربیعہ سے ملاقاتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے تھے۔ اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہیں وہ بھی حقیقت میں مصعب بن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ بن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں جو عمر بن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔

وفات

آپ اسراء کے کاروان کے ساتھ مدینے لوٹ آئی اور وفات تک مدینے میں رہی، تاریخی منابع میں اس بارے کوئی خاص بات ذکر نہیں صرف بعض علمی مناظروں کا ذکر آیا ہے۔ آپ کی وفات اور مقام وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق 5 ربیع الاول 117 ھ کو مدینہ میں وفات پائی۔ کے زمانے میں جبکہ دوسری نقل کے مطابق خالد بن عبد الملک بعض منابع کے مطابق خالد بن عبد اللہ (وقت کے حاکم) نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبد العزیز سے شادی کے بعد مصر جاتے ہوئے دمشق میں فوت ہوئیں اس لحاظ سے باب الصغیر نامی قبرستان میں ایک قبر سکینہ کے نام سے منسوب ہے ۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کر کے مصر گئی اور وہاں پر مدفون ہیں اور قاہرہ میں ایک مزار سکینہ بنت الحسین کے نام سے منسوب ہے۔

آپ کے بارے میں تالیفات

آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں مختلف کتابوں میں مطالب لکھے گئے ہیں اور مستقل کتاب کی شکل میں عربی زیان میں «سکینہ بنت الامام‌الحسین (ع)» بقلم علی محمد علی دخیل، انتشارات موسسہ اہل‌ البیت (ع) سے 1979ء کو بیروت لبنان سے چھپی۔ اور اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے 1363 ش میں طبع ہوئے ہیں۔

مذہب

کوہ ثَور مکہ کا مشہور پہاڑ ہے۔ اس کی وجۂ شہرت اس میں واقع وہ غار ہے جہاں ہجرت کے موقع پر لیلۃ المبیت کو رسول اللہؐ نے مشرکین سے بچنے کے لئے پناہ لی۔ مشرکین غار کے دہانے تک آئے مگر اللہ کی غیبی امداد کے بدولت آپؐ کو نہ پاسکے۔

کوہ ثور

کوہ ثور مکہ اور مسجد الحرام کے جنوب میں، یمن کے راستے میں واقع ہے۔

بعض مؤلفین نے اس کو "جبل اطخل” یا "ثور اطخل” کا نام دیا ہے، جبکہ دوسروں نے اس پہاڑ کو "ابو ثور” کا نام دیا ہے جو صحیح نظر نہیں آتا۔ بعید از قیاس نہیں ہے کہ اس پہاڑ کو ثور [بمعنی بیل] کا نام اس وجہ سے ہو کہ اس کی ہیئت ایک بیل کی سی ہے جس نے مکہ کے جنوب کی طرف رخ کیا ہے۔

قدیم الایام میں لوگ دو کوہستانی راستوں سے کوہ ثور کی طرف جاتے تھے جن میں سے ایک راستہ دشوارگزار مگر مختصر جبکہ دوسرا آسان مگر طویل تھا۔ مکہ سے کوہ ثور تک کی مسافت راستے کے انتخاب پر منحصر تھی؛ اسی بنا پر اس راستے کو اختلاف کے ساتھ ایک فرسخ، دو یا تین میل، اور مکہ سے دو گھنٹوں کا راستہ بیان کیا گیا ہے۔ آج مسجد الحرام سے کوہ ثور کا راستہ تین سے چار کلومیٹر ہے۔

غار ثور

غار ثور پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے اور یہاں سے اطراف کی پہاڑوں کی نگرانی کی جاسکی ہے۔ ایک کھوکھلی چٹان یا پتھر کی مانند ہے اور الٹی کشتی سے مشابہت رکھتی ہے۔ زمین سے اس کی اونچائی 500 میٹر سے کچھ اوپر ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کا راستہ بہت دشوار ہے جس کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

غار ثور میں داخلے کے لئے دو راستے یا دراڑیں ہیں، ایک مغرب کی جانب ہے جو بہت تنگ ہے اور تقریبا غار کے فرش سے چسپاں ہے اور دوسرا مشرقی راستہ ہے جو کسی حد تک چوڑا ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ یہ راستہ رسول اللہؐ کے داخلے کے بعد اعجاز الہی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے۔

غار کی لمبائی 18 بالشت (Span)، اور درمیانی حصے کی چوڑائی 11 بالشت ہے۔ غار کی اندرونی اونچائی ایک انسان کے قد کے برابر اور پوری غار کا اندرونی رقبہ اڑھائی میٹر مربع ہے۔

کچھ مؤرخین کے نزدیک غار ثور ـ جہاں رسول اللہؐ نے پناہ لی تھی ـ غار حراء کے ساتھ ـ جہاں رسول اللہؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی ـ مشتبہ ہوئی ہے۔

رسول خداؐ کا غار ثور میں پناہ لینا

خداوند متعال نے پیغمبرؐ کو مشرکین کی طرف سے قتل کی سازش سے آگاہ فرمایا تو طے پایا کہ علیؑ آپؐ کے بستر پر لیٹیں اور آپؐ خود رات کے وقت مکہ کو يثرب کی جانب، چھوڑ دیں۔ (دیکھئے: لیلۃ المبیت)۔ رسول خداؐ مشرکین مکہ کی دسترس سے نکلنے کے لئے ـ جو آپؐ کی تلاش میں تھے ـ ابوبکر کو ساتھ لے کر غار ثور میں روپوش ہوئے اور تین دن اور تین رات وہیں مقیم رہے۔ قرآن کریم نے بھی مشرکین کی سازش، پیغمبراکرمؐ کے مکہ میں اپنے گھر سے نکلنے اور جبل ثور میں واقع اس غار میں پناہ لینے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اعجاز الٰہی

اس غار میں رسول اللہؐ کے مقیم ہوجانے کے بموجب متعدد معجزات رونما ہوئے، جیسے غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا بنا جانا، دو جنگلی (وحشی) کبوتروں کا گھونسلا بنانا، اور ایک قول کی بنا پر رسول خداؐ کے سامنے ایک درخت کا اگ جانا۔

مشرکین رسول خداؐ کی تلاش میں غار ثور کے دہانے تک بھی آئے مگر خداوند متعال نے انہیں داخلے سے باز رکھا؛ اس طرح کہ قریشیوں نے دہانے پر مکڑی کے جالے اور گھونسلے میں کبوتر کے اںڈوں کو دیکھا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ غار متروک اور خالی ہے اور اس میں کوئی داخل نہیں ہوا کیونکہ کسی کے آنے کی صورت میں جالا پھٹ جاتا اور کبوتر کے انڈے ٹوٹ جاتے اور کبوتر بھی وہاں نہ بیٹھا رہتا۔

غار ثور سے لوگوں کا تبرک حاصل کرنا

کوہ ثور، رسول اللہؐ کے تین روزہ قیام سے اب تک مسلمانوں کے نزدیک مبارک اور بابرکت سمجھا جاتا ہے اور اسی وقت سے سے حجاج کرام کی زیارت گاہ ہے۔

اس کے باوجود کہ اس غار کے تنگ دہانے سے اندر داخل ہونا بہت دشوار ہے جس میں رسول اللہؐ داخل ہوئے تھے، غار جانے والے لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ تبرک کے حصول کے لئے اس میں داخل ہوجائیں، اور اس طرح کئی لوگ شگاف کی تنگی کی وجہ سے اس میں پھنس کر محبوس ہو جاتے تھے۔ عوام کے درمیان غار ثور کی شگاف سے داخلے میں ناکام ہونے والے افراد کے بارے میں ایک نہایت بھونڈی اور نامعقول افواہ پھیلی ہوئی تھی۔ ابن جبیر لکھتے ہیں: "زیادہ تر غار کے تنگ دہانے کی وجہ سے اس میں داخلے سے پرہیز کرتے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جو وہاں سے داخل نہ ہوسکے، وہ حلال زادہ نہیں ہے”۔

سنہ 800 اور بقول دیگر 810ھ ق کو، حاکم وقت نے غار کا دہانہ وسیع کرنے کا اہتمام کیا تا کہ لوگ اس میں محبوس نہ ہوں۔ بعد کے زمانے میں، حاکم مکہ نے غار کے دہانے کو وسیع تر کردیا۔ آج کے زمانے میں دہانے کی اونچائی نیز غار کی چوڑائی تقریبا نصف میٹر ہے۔

مذہب

توابین کا قیام واقعہ عاشورا کے بعد شیعوں کی پہلی تحریک تھی جو امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے قاتلوں سے انتقام لینے کی غرض سے چلائی گئی تھی۔ یہ تحریک سنہ ۶۵ ھ.ق میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کی توسط سے شام کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی غرض سے عین الوردہ نامی جگہ پر سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں عمل میں آئی۔

قیام کی وجہ

واقعہ عاشورا اور امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت کے بعد شیعوں میں سے وہ حضرات جنہوں نے آپؑ کو بیعت کا وعدہ دے کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی لیکن بعد میں وعدہ خلافی کرتے ہوئے آپؑ کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا، اپنے کئے پر پشیمان ہوکر اپنے گناہ سے توبہ اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی ٹھان لی۔ متعدد نشست وبرخاست کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ذلت اور خواری کا یہ بدنما داغ ان کے دامن سے سوائے آپؑ کی راہ میں جان نچھاور کرنے اور آپؑ کے دشمنوں سے انتقام لئے بغیر پاک نہیں ہو سکتا۔

قیام کے خدوخال

واقعہ کربلا کے کچھ عرصے بعد کوفہ کے شیعہ شخصیات میں سے تقریبا 300 افراد سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوگئے۔ سلیمان نے اس جلسے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 54 کی روشنی میں حضرت موسیؑ کی قوم کے توبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت علیہم السلام کی حمایت کرنے کا وعدہ دیا تھا لیکن ہم نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا یہاں تک کہ فرزند زہرا(س) اپنے اصحاب کے ساتھ شہید ہو گئے۔ اب خدا ہم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوگا جب تک ہم ان کے دشمنوں سے جنگ نہ کریں، پس اپنی تلواروں کو تیز کریں اور گھوڑے اور جنگی سازوسامان فراہم کریں انشاء اللہ عنقریب تمہیں بھلایا جائے گا۔

سلیمان کے بعد دیگر شیعہ بزرگان اور امام علیؑ کے اصحاب منجملہ مسیب بن نجبۃ فزاری، رفاعۃ بن شداد بجلی، عبداللہ بن وال تمیمی و عبداللہ بن سعد ازدی نے بھی تقریریں کیں اور آخر کا سلیمان بن صرد خزاعی کو قیادت کیلئے انتخاب کیا گیا۔

قیام کے اہداف

توابین کے جلسات اور انکی تقریروں پر غور و فکر کرنے سے اس قیام کے درج ذیل اہداف سامنے آتے ہیں:

  1. امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لینا۔
  2. حکومت کو پیغمبر اکرمؐ کی آل کی طرف پلٹانا۔

فوج کی تشکیل

سنہ 61 ھ.ق میں اس تحریک کے بارے میں سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں توابین کے مخفی طور پر ہفتہ وار جلسات منعقد ہوتے تھے جن میں فوج کی تشکیل سے لے کر قیام کی تاریخ تک پر بحث ہوتی تھی۔ اسی تناظر میں کوفہ کے اندر اور کوفہ سے باہر مختلف قبائل میں اسلحہ اور افرادی قوت نیز جنگی مقدمات کی فراہمی کیلئے مخفی طور پر اقدامات انجام پاتے تھے۔

اس قیام کے لئے فوج تشکیل دینے کی خاطر سلیمان بن صرد خزاعی نے سنہ ۶۴ ھ.ق کو مدائن میں شیعہ رہنما سعد بن حذیفہ اور مثنی بن مخرمہ عبدی جو کہ بصرہ کے شیعہ شخصیات میں سے تھے، کی طرف خطوط لکھے اور انہیں اس قیام کی طرف دعوت دی۔ مداین اور بصرہ کے شیعوں نے بھی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس قیام میں شریک ہونے کی حامی بھر لی۔

قیام کا آغاز

سلیمان بن صرد خزاعی نے ربیع الاول سنہ ۶۵ ھ.ق کو قیام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ بہت سارے افراد نے ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی تھی لیکن آخر کار 4000 افراد نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچایا جہاں توابین کی فوج جمع ہوتی تھے۔

تاریخی شواہد کے مطابق مختار ثقفی سلیمان کی سیاسی اور نظامی سوج بھوج کا قائل نہیں تھا اسی بنا پر شیعوں کی بڑی تعداد سلیمان کی فوج سے جدا ہوگئی۔

توابین کے لشکر ۵ ربیع الاول کو مقررہ مقام سے دمشق کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب یہ لشکر کربلا پہنچے تو اپنی سواریوں سے اتر کر اپنے آپ کو امام حسینؑ کی قبر مطہر پر گرا دیا اور ایک پر جوش فوج کی شکل اختیار کر لی۔ سلیمان نے اس موقع پر کہا: خدایا تو گواہ رہنا ہم حسینؑ کے ماننے والے، انکی راہ پر چلنے والے اور ان کے قاتلوں کے دشمن ہیں۔ توابین نے بھی امام حسین کی راہ میں شہادت نصیب ہونے کی دعا کی۔

جنگ کا آغاز

توابین نے شام کی فوج پہونچنے سے پہلے عین الوردہ نامی جگہ پر پڑاؤ ڈال دیا اور وہاں پر 5 دن آرام کیا۔ جنگ کی ابتداء میں سلیمان نے جنگی سفارشات کے ساتھ اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس موقع پر حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: اگر میں مارا جاؤں تو لکشر کی قیادت "مسیب بن نجبہ” سنبھالے گا اور اس کے بعد عبداللہ بن سعد بن نفیل لشکر کی قیادت کرینگے ان کے قتل ہونے کے بعد عبداللہ بن وال اور رفاعہ بن شداد لشکر کی قیادت سنبھالیں گے۔ ۲۵ جمادی الاول کو دونوں لشکر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے اور توابین اور شام کے لشکر کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ لشکر شام کی قیادت عبیداللہ بن زیاد کررہے تھے اور حصین بن نمیر، شرحبيل بن ذی الكلاع حميری‏، ادہم بن محرز باہلى‏، ربيعۃ بن مخارق عنوى‏ اور جبلۃ بن عبد اللہ خثعمى‏ اس کے ہمراہ تھے۔

جنگ کا انجام

چار دن کے مقابلے کے بعد توابین کی اکثریت شہید ہو گئی اور باقی افراد بھی دشمن کے نرغے میں آگئے۔ توابین کے سپہ سالار ایک کے بعد ایک شہید ہوتے گئے اور بچے کچے چند افراد "رفاعہ بن شداد بجلی” کی قیادت میں عقب نشینی پر مجبور ہوگئے۔ واپس جاتے ہوئے بصرہ اور مدائن کے شیعوں سے ان کی ملاقات ہوئی جو ان کی مدد کیلئے آرہے تھے جب ان کو حقیقت کا پتہ چلا تو اظہار افسوس کے بعد اپنے اپنے وطن کی طرف واپس پلٹ گئے۔ توابین شکست کے بعد جب کوفہ پہنچے تو مختار ثقفینے جوکہ اس وقت جیل میں بند تھے سلیمان اور دیگر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ عہد کیا کہ توابین اور امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ضرور قیام کریں گے۔

سید حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ ظاہرا توابین نے بنی امیہ کی فوج سے شکست کھائی لیکن شیعوں کا ایک منظم گروہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور چونکہ ان کا قیام خالصۃ شیعہ عقاید کی پاسبانی کرتا تھا اور امام حسینؑ کی شہادت سے متاثر ہوکر یہ قیام عمل میں آیا تھا اس لئے یہ قیام اہل تشیع کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنا۔

مذہب