مذہب

زینب بنت خُزَیمَہ بن حارث (متوفی 4 ھ) رسول خداؐ کی زوجہ ہیں جو ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے طفیل بن حارث سے جدا ہونے کے بعد ان کے بھائی عتیدہ بن حارث سے عقد کیا۔ جنگ بدر میں عتیدہ کی شہادت کے بعد رسول خداؐ نے انہیں زوجیت کے لئے انتخاب کیا۔ مگر اس شادی کی عمر چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوئی اور 30 برس کی عمر میں ان کی رحلت ہو گئی۔ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں جنت البقیع میں سپرد لحد کیا۔

نسب

ان کا سلسلہ نسب اس طرح ذکر ہوا ہے: زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبد الله بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ عامری۔

ابن عبد البر نے ابی الحسن جرجانی کا قول نقل کرتے ہوئے انہیں زوجہ رسول میمونہ بنت حارث کی بہن قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مزید کہا ہے کہ میں نے اس مطلب کو ان کے علاوہ کہیں اور نہیں دیکھا ہے۔ ابن حبیب بغدادی نے بھی انہیں میمونہ بنت حارث کی مادری بہنوں میں ذکر کیا ہے۔

لقب

زینب بنت خزیمہ کو غرباء و مساکین کے ساتھ عطوفت و مہربانی کی وجہ سے ام المساکین کا لقب دیا گیا تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اسی لقب سے مشہور تھیں۔

پیغمبر اکرمؐ سے شادی

مورخین کے درمیان اس بارے میں کہ پیغمبر اکرمؐ سے پہلے وہ کس کی زوجیت میں تھیں، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ قول مشہور کی بنیاد پر وہ طفیل بن حارث بن عبد المطلب بن عبد مناف کے عقد میں تھیں لیکن ان سے طلاق لیکر ان کے بھائی عتیدہ بن حارث کی زوجیت میں آ گئیں۔ عتیدہ جنگ بدر میں زخمی ہوا اور 64 برس کی عمر میں صفراء میں وفات پائی۔ البتہ بعض مصادر میں ذکر ہوا ہے کہ زینب نے سب سے پہلے عبیدہ بن حارث کے چچازاد بھائی جہم بن عمرو بن حارث سے عقد کیا۔ ان سے جدا ہونے کے بعد انہوں نے عبیدہ سے شادی کی۔ بعض دوسرے مآخذ میں انہیں عبد اللہ بن جحش کی زوجہ ذکر کیا گیا ہے۔ عبد اللہ نے جنگ احد میں شہادت پائی۔ ان کے شوہر کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اس کا فیصلہ خود آپ کے اختیار میں دے دیا۔ پیغمبر اسلامؐ نے رمضان 3 ہجری میں ان سے عقد فرمایا۔ حالانکہ اس بارے کہ کس طرح سے رسول خداؐ نے ان سے عقد کی خواہش ظاہر کی اور ان کا مہر کتنا تھا، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

وفات

زینب نے پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ 8 ماہ زندگی گزارنے کے بعد ربیع الثانی 4 ہجری کو وفات پائی۔ بعض نے پیغمبرؐ کے ساتھ ان کی زندگی کی مدت کو 2 یا 3 ماہ ذکر کیا ہے۔ رسول خداؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔

وفات کے وقت زینب کی عمر 30 سال کے قریب تھی۔ وہ اور حضرت خدیجہ (س) ان ازواج میں شامل ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں انتقال فرمایا۔ مورخین کے مطابق، وہ ازواج پیغمبر کی پہلی فرد تھیں جنہوں نے مدینہ میں وفات پائی۔ رسول خداؐ کو ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

مذہب

لَیلَۃ المَبیت اس رات کو کہا جاتا ہے جس میں امام علی ؑ نے پیغمبر اکرم ؐ کی جان بچانے کی خاطر آپ ؐ کے بستر پر گزاری۔ مشرکین مکہ نے آج کی رات سب مل کر پیغمبر اکرم ؐ پر حملہ کر کے آپ ؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب پیغمبر اکرم ؐ کو وحی کے ذریعے مشرکین کے ارادے کا پتہ چلا تو آپ ؐ نے حضرت علی ؑ کو اپنے بستر پر سلایا اور راتوں رات مکہ سے یوں خارج ہوئے کہ مشرکین مکہ پیغمبر اکرم ؐ کی عدم موجودگی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے اور پیغمبر اکرم ؐ رات کی تاریکی میں یثرب کی طرف ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اکثر مفسرین کا عقیدہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 کا شأن نزول آج کی رات امام علی ؑ کی وہ فداکاری ہے جس نے پیغمبر اکرم ؐ کو مشرکوں کے گزند سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ بعثت کے تیرہویں یا چودہویں سال ربیع الاول کی پہلی رات کو پیش آتا تھا۔

پیغمبر اکرم ؐ کے قتل کا منصوبہ

رسول اللہ کی تبلیغی سرگرمیاں جب شدت اختیار کر گئیں تو حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ نے آنحضرت ؐ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت و آزار پہنجانا شروع کردیا اور مسلمانوں کو اسلام سے ہاتھ اٹھانے پر مجبور کرنے لگے۔ پیغمبر خدا نے جب مسلمانوں کی جان خطرے میں دیکھی تو ان کی حفاظت کی خاطر اہل مدینہ سے ایک معاہدہ کیا اور مسلمانوں کو مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں مشرکین سے آنکھ بچا کر مدینے کی طرف ہجرت کر گئے۔ مشرکین مکہ نے آخری حربے کے طور پر رسول اللہ کے قتل کا ارادہ کیا۔

اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے مشرکین دار الندوہ میں جمع ہوگئے اور آخرکار ابو جہل کی رائے کے مطابق طے پایا کہ ہر قبیلے سے ایک شجاع جوان کا انتخاب ہو اور رات کی تاریکی میں اکٹھے رسول اللہ کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اس صورت میں رسول اللہ کے قتل کی ذمہ داری کسی ایک قبیلے کی بجائے مختف قبیلوں کے گردن پر آجاتی نتیجے میں بنی ہاشم کو آپ ؐ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تمام قبائل سے جنگ کرنا پڑتا اور جب وہ ان تمام قبائل سے جنگ کرنے سے عاجز آتے تو جزیہ لے کر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ بعض تاریخی اسناد کے مطابق شیطان ایک بوڑھے شخص کی صورت میں اس میٹنگ میں کفار کی راہنمائی کرتا رہا۔

آیت کا نزول اور پیغمبر کا اس منصوبے سے مطلع ہونا

مشرکین مکہ کی جانب سے جب پیغمبر اکرمؐ کی قتل کا منصوبہ تیار ہوا تو اللہ نے جبرائیل کے ذریعے نبی اکرمؐ کو مشرکین کے اس خطرناک ارادے سے مطلع فرمایا۔ جس کا ذکر قرآن کی سورہ انفال میں اس طرح آیا ہے:

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ  (ترجمہ: اور جب کافر تیرے متعلق تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کردیں یا تمہیں قتل کردیں یا تمہیں دیس بدر کر دیں، وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔)

اس بنا پر رسول اللہ نے مشرکین کے آنے سے پہلے یثرب کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ نے مشرکین کی نگاہوں سے محفوظ رہنے کیلئے

وَجَعَلْنَا مِن بَینِ أَیدِیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَینَاهُمْ فَهُمْ لَا یبْصِرُونَ ﴿۹﴾ کی تلاوت فرمائی۔

واقعے کی تفصیل

ربیع الاول کی پہلی رات رسول اللہ نے حضرت علی ؑ سے فرمایا: مشرکین مکہ آج کی رات مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں کیا تم میری جگہ سو سکتے ہو تا کہ میں آج رات غار ثور کی طرف چلا جاؤں؟ حضرت علی نے جواب دیا: کیا اس صورت میں آپ کی جان محفوظ رہے گی؟ رسول اللہ نے جواب دیا: ہاں۔حضرت علیؑ مسکرائے اور سجدۂ شکر بجا لائے۔سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کہا: میری جان آپ پر نثار ہو! جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسے انجام دیں۔ جس طرح بھی آپ مجھے حکم دینگے میں حاضر خدمت ہوں۔ جیسا آپ چاہتے ہیں میں اسی طرح انجام دوں گا کامیابی خدا کی جانب سے ہو گی۔ پس پیغمبر ؐخدا نے حضرت علیؑ کو آغوش میں لیا اور دونوں نے گریہ کیا پھر جدا ہو گئے۔

حضرت علیؑ اس رات جب سوئے تو جبرائیل آپ کے سرہانے اور میکائیل پائینتی کی جانب آئے۔ جبرائیل نے کہا: اے فرزند ابو طالب! آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خدا فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر و مباہات کر رہا ہے۔

مشرکین مکہ نے رات کی ابتدا سے ہی آپ کے گھر کو محاصرے میں لے لیا اور آدھی رات کے وقت حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن ابو لہب نے کہا: اس وقت عورتیں اور انکی اولادیں گھروں میں ہوتی ہیں۔ بعد میں اہل عرب ہمارے بارے میں کہیں گے کہ انھوں نے اپنے چچا کی حرمت شکنی کی ہے۔

حضرت علیؑ نے گھر کے دروازے بند کئے۔ کفار نے بستر پر پتھر پھینک کے اطمینان حاصل کیا کہ بستر پر کوئی سویا ہے اور انہیں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ حضرت رسول خداؐ ہی ہیں۔صبح ہوتے ہی وہ تلواریں سونتے گھر میں داخل ہوئے ۔جب حضرت علیؑ کو دیکھا تو کہنے لگے: محمدؐ کہاں ہے؟ حضرت علیؑ نے جواب دیاَ کیا انہیں میرے حوالے کیا تھا؟ جو مجھ سے اس کے طلبگار ہو؟ تم نے کچھ ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ کفار حضرت علیؑ کو گھر سے باہر لے آئے انہیں زد و کوب کیا۔ کچھ دیر کیلئے انہیں مسجد الحرام میں قید کیا اور انہیں اذیتیں دیں پھر رسول خداؐ کا پیچھا کرنے کیلئے مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے جبکہ غار ثور اس کی مخالف سمت میں تھی۔

بعض نے کہا ہے کہ:

جب قریش کا گروہ حضرت کی سمت آیا تو انہیں رسول خدا کے ہونے کے بارے میں شک نہیں تھا۔ انہوں نے فجر کے نزدیک آپ کے سر اور چہرے پر پتھر مارے اور وہ رسوا ہونے سے خوف زدہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے اکٹھے حملہ کیا۔ اس زمانے میں گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے گھر میں داخل ہونے کے راستے پر صرف ایک پردہ لٹکایا جاتا تھا۔ حضرت علی نے جب انہیں اپنی طرف ننگی تلواروں کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا جن میں سب سے آگے خالد بن ولید تھا وہ سب سے پہلے ننگی تلوار کے ساتھ آپ کی جانب بڑھا تو آپ نے بڑی ہوشیاری سے اس کی تلوار ہاتھ سے چھینی وہ مڑا اور اونٹ کی مانند چنگھاڑا۔ باقی افراد ابھی گھر کی دہلیز پر ہی تھے کہ حضرت علی خالد کی تلوار لے کر انکی جانب بڑھے۔ کفار مقابلے سے فراری ہوتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ کی مانند تتر بتر ہوئے اور گھر کی چھت کی طرف نکل گئے۔ جب انہوں نے غور سے دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ تو علی ہے۔ انہوں نے کہا تو علی ہے؟ حضرت نے جواب دیا: ہاں میں علی ہوں۔ ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں بتاؤ محمد کہاں ہے؟ آپ نے کہا مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ قریش اپنے سواریوں پہ سوار ہوئے اور تیز بین نگاہوں سے آپ کے سراغ میں روانہ ہوئے۔

آیت کا نازل ہونا

اکثر علمائے شیعہ اور علمائے اہل سنت کی ایک جماعت معتقد ہے کہ سورۂ بقرہ کی 207ویں آیت

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾
اور انسانوں میں سے کچھ ایسے (انسان) بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں (خطرے میں ڈال دیتے ہیں) اور اللہ (ایسے جاں نثار) بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔

شب ہجرت کے موقعہ پر حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔لیکن بعض اہل سنت علما نے اسے ابوذر، صہیب بن سنان، عمار یاسر اور انکے والد اور انکی والدہ، خباب بن ارت، زبیر بن عوام و مقداد کے بارے میں نقل کیا ہے۔

مذہب

مَأمُون عباسی، ابو العباس عبد اللہ (170-218 ھ) ہارون الرشید کے بیٹے و سلسلہ عباسی کے ساتویں خلیفہ تھے۔ جو اپنے بھائی محمد امین کو شکست اور قتل کے بعد سنہ 198 ہجری میں سلطنت پر پہنچا اور اپنے ایرانی وزیر فضل بن سہل کے مشورے سے مرو کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ بنایا۔ اس کی حکومت کا ابتدائی دور اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور علویوں کے پے در پے قیام کی وجہ سے متزلزل رہا۔ اسی لئے اس نے اپنی حکومت کو ثبات دینے کی خاطر امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلایا اور علویوں سے اظہار محبت کے بہانے شروع میں خلافت کو ہی امام رضا (ع) کو دینے کی پیشکش لیکن جب امام نے اس کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا تو اس نے ولایت عہدی کے منصب کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔

یوں علویوں کی مزاحمتی تحریکوں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اس نے اپنی سلطنت کو توسیع دینے کی خاطر دار الخلافہ کو "مرو” سے بغداد منتقل کیا اس دوران لوگوں میں امام رضا (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر اس نے امام کو شہید کر دیا۔

مأمون کو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امام علی (ع) کی برتری کے قائل ہونے، متعہ کو جائز سمجھنے، امام رضا (ع) کو ولایتعہدی دینے اور فدک کو اولاد فاطمہ (س) کی طرف منتقل کرنے کی وجہ سے شیعوں کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے مأمون کو معتزلہ کی طرف داری بطور خاص قرآن کے مخلوق ہونے کے مسئلے میں ان کی حمایت اور شیعہ قاضیوں اور اعلی حکومتی عہدیداروں سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار لینے کی وجہ سے اسے معتزلی سمجھا جاتا ہے۔

حسب و نسب

عبداللہ ملقب بہ مأمون، ہارون رشید کا بیٹا اور بنی عباس کا پانچواں خلیفہ تھا ان کا تعلق خاندان قریش اور بنی‌ ہاشم سے تھا۔ شب جمعہ ربیع الاول کی 15 تاریخ سنہ 170 ہجری قمری کو بغداد میں پیدا ہوا۔ ان کی والدہ ایک ایرانی خاتون (دوسری نقل کے مطابق کنیز) مراجل بادغیس (شمال مغربی افغانستان) کی رہنے والی تھی۔ استاذیس جس نے منصور عباسی کے دور میں قیام کیا مراجل کا والد تھا۔ مأمون کا ماموں جس کا نام غالب تھا، نے مأمون کے کہنے پر اس کے وزیر اور لشکر کے سپہ سالار فضل بہ سہل کو قتل کیا۔

خلافت

مأمون بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا جس نے اپنے بہائی امین عباسی کو ایک نزاع کے بعد شکست دے کر خلافت کو حاصل کیا۔

مأمون کی خلافت پر پہنچنے کی کیفیت

مأمون اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور اسے قتل کرنے کے بعد خلافت تک پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں مأمون نے اپنے وزیر فضل بن سہل کے مشورہ سے طاہر بن حسین ملقب بہ "ذوالیمینین” کی سرکردگی میں ایک لشکر "علی بن عیسی” کے مقابلے میں بھیجا جو "امین” کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ امین کی فوج نے شہر ری میں علی بن عیسی کے قتل ہونے کے بعد سنہ ۱۹۵ ہجری قمری کو شکست کھائی۔ مأمون کی فوج نے آخر کار سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو شدید جنگ کے بعد بغداد پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد امین کو قید پھر قتل کیا گیا۔ امین کی خلافت کے اختتام پر مأمون نے سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو مرو میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کیا اور فضل بن سہل کو اپنا وزیر منتخب کیا۔

بعض محققین ان دو بھائیوں کے جھگڑے کی دو علتیں بیان کرتے ہیں: 1 – ولایت عہدی کا چیلنج، 2 – عربوں اور ایرانیوں کی پارٹی بازی

  • الف: مأمون کی ولایتعہدی کا چیلنج

امین اور مأمون کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ولایت‌ عہدی کا مسئلہ تھا۔ جب ہارون رشید نے اپنے چھوٹے بیٹے امین کے ہاتھوں ولایت عہدی کی بیعت کی اور مأمون کو امین کا نائب بنا کر صوبہ خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اسی وقت سے ہی ان دو بھائیوں کے درمیان اختلاف کی بیج بوئی گئی جس کی وجہ سے خلافت کی مستقبل کو لاحق مسائل اور داخلی جنگ چھڑنے کے امکانات نے ہارون کو سخت پریشان کر دیا۔ ان وجوہات کی بنا پر ہارون نے ان دونوں بھائیوں کو خانہ کعبہ میں ایک عہد و پیمان پر دستخط کروایا جس میں مأمون کی ولایت عہدی اور ایک دوسرے کے دائرہ اختیارات میں دخالت نہ کرنے پر تاکید کی گئی تھی اور اس عہد و پیمان کو تقدس بخشنے کیلئے اس کے ایک نسخے کو خانہ کعبہ میں ہی آویزاں کیا گیا۔

ہارون کی وفات اور امین کے خلیفہ بننے کی بعد امین نے بعض ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مذکورہ عہد و پیمان کو نقض کرنے کا شائبہ پیدا ہو سکتا تھا۔ امین کی طرف سے اپنے دو بھائی مأمون اور مؤتمن کے قلمرو حکومت میں اپنا نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کرنا، اپنے بیٹے موسی کو اپنا نائب منتخب کرنا اور خانہ کعبہ میں آویزاں عہد و پیمان کو آگ لگانا اس عہد و پیمان کی واضح مخالفت اور مأمون کے ساتھ اعلان جنگ تھا۔

  • ب: عربوں اور ایرانیوں کا آپس میں جھگڑا

فضل بن سہل جو ایرانی برمکیوں کے نفوذ کے دور میں بنی عباس کی حکومت میں میں شامل ہو گیا تھا اور ایک طرح سے مأمون کا مربی اور بعد میں اس کا وزیر بن گیا تھا، نے اپنی سب سے بڑی آرزو یعنی دار الخلافہ کو مرو سے بغداد منتقل کرنا اور اور خراسان کی عظمت کو بڑھانے کیلئے خلافت پر مأمون کے حق کو محفوظ رکھنے کیلئے جد و جہد شروع کیا۔ دوسری طرف سے فضل بن ربیع جو ہاروں اور بعد میں امین کا وزیر تھا اور ایرانی برمکیوں کی وجہ سے ہاروں کی نسبت اس کے دل میں کدورت پیدا ہو گئی تھی اور ایرانیوں کو امین کے دربار سے باہر کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے، نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور بنی عباس کی حکومت میں عربوں کا نفوذ بڑھانے اور ایرانیوں کا نفوذ کم کرنے کی کوشش کی۔ یوں اس جھگڑے نے عوامی شکل اختیار کی اور جتنا عربوں نے امین کی حمایت کی اتنا ہی ایرانیوں نے مأمون کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کیوںکہ آخر مأمون ماں اور بیوی دونوں حوالے سے ایرانی شمار ہوتا تھا۔

بھائی کا قتل

آخر کار امین اور مأمون کی سپاہیوں کے درمیان شہر ری اور ہمدان میں پے در پے جھنگ چھڑ گئی جس میں ہر وقت امین کے سپاہیوں کو شکست ہوئی جس کے نتیجے میں بغداد پر قبضہ ہوا اور امین بھی مارا گیا۔

مأمون کا علویوں کے ساتھ رابطہ

عباسی خلفاء کو در پیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ پورے عالم اسلام میں ان کے خلاف علویوں کی تحریک تھی۔ اہل تشیع جو منصور عباسی کے دور حکومت میں ہمیشہ حکمرانوں کی ظلم و بربریت کا شکار ہوئے تھے، نے موقع پاتے ہی حکومت وقت کے خلاف تحریک چلانا شروع کی لیکن اکثر مواقع میں ان کی تحریک شکست سے روبرو ہوئی۔ سنہ 193-197 ہجری قمری کے درمیان امین اور مأمون کے درمیان شروع ہونے والا جھگڑا عباسی حکومت کی تضعیف اور حجاز، یمن اور عراق وغیرہ میں علویوں کی تحریکوں میں اضافہ کا سبب بنا۔

مأمون کے دور میں علویوں کی تحریکیں

علویوں نے مأمون کے دور خلافت میں کئی تحریکیں چلائیں۔ ان میں سے اکثر تحریکیں زیدی علویوں کی سرکردگی میں چلائی گئیں۔ ان تحریکوں میں سب سے اہم تحریک جو ایک مستقل حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی وہ تحریک ہے جسے ابن‌ طباطبا نے کوفہ میں چلائی۔ بعض مورخین کے مطابق اس تحریک نے جسے سنہ ۱۹۹ ہجری قمری میں چلائی گئی، بنی عباس کے حکومت کو سخت نقصان پہنچائی اور بنی عباس کی حکومت کے خلاف دوسرے مختلف جگہوں پر بھی تحریکیں چلانے جانے اور اپنی استقلالیت کے اعلان کرنے کا سبب بنی۔ اس طرح کوفہ کے علاوہ زید بن موسی ملقب بہ زیدالنار نے بصره میں، ابراہیم بن موسی بن جعفر نے یمن میں ، حسین بن حسن بن علی معروف بہ ابن‌افطس نے مکہ میں اور محمد بن جعفر الصادق معروف بہ محمد دیباج نے حجاز میں تحریکیں چلائی ۔ ان میں سے اکثر تحریکیں ابن‌ طباطبا کی تحریک کے بعد شروع ہوئیں

مأمون کے خلاف شیعہ تحریکوں کا نتیجہ

اگرچہ یہ تحریکیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی تھیں لیکن یہ تحریکیں مختلف فوائد اور نتائج کا حامل تھیں منجملہ یہ کہ عراق اور ایران کے لوگوں کی اہل بیت(ع) کے ساتھ رکھنے والی محبت علویوں کو مأمون کے خلاف قیام کرنے کا موقع دیتی اور ان ملکوں میں موجود اہل بیت کے ماننے ان تحریکوں کی حمایت کرتے تھے۔ یہ چیز مقتدر عباسی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیتی اور ہمیشہ ملک کے کسی بھی علاقے میں تحریکیں شروع ہونے کے بارے میں خوفزدہ رہتی تھی۔ ان تحریکوں کے دیگر فوائد اور نتائج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان تحریکوں نے بعد میں طبرستان اور یمن میں زیدیوں کی حکومت کی تشکیل کیلئے زمینہ فراہم کیا۔

امام رضا (ع) کی ولی عہدی، علویوں کی تحریکوں کو روکنے کا حربہ

مأمون اپنے خلاف علویوں کی تحریکوں کو ہمیشہ کیلئے روکنے اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی خاطر خراسانیوں(ایرانیوں) کے سامنے اپنے آپ کو اہل بیت (ع) کا ماننے والا ظاہر کرنے کی فکر میں پڑ گیا۔ اسی مقصد کی خاطر اس نے امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلا لیا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ مأمون نے خلافت اور حکومت سے ہاتھ اٹھا اور اسے علویوں میں سے سب سے افضل و برتر شخص یعنی امام رضا (ع) کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب امام رضا (ع) کی طرف سے خلافت اور حکومت کو ٹھکرا دیا گیا تو اس نے امام کو ولایتعہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔

بعض محققین کے مطابق خلافت کو امام رضا (ع) کے حوالے کرنا مأمون کا اصل ہدف نہیں تھا بلکہ وہ ظاہرا حکومت امام کے حوالے کرکے اسے اپنی مرضی سے چلانا چاہتا تھا۔ سنہ 201 ہجری قمری میں ولایتعہدی کو زبردستی امام رضا (ع) کے سپرد کرنے کے بعد اس نے لوگوں سے امام کی بیعت لی۔ مأمون کے حکم سے امام کو "الرضا” کا لقب دیا گیا، امام کے نام پر سکے جاری کئے گئے، حکومتی کارندوں اور سپاہیوں کی تنخواہیں انہیں سکوں کے ذریعے دینے لگا اور کالے لباس جو بنی عباس کی علامت سمجھی جاتی تھی کی جگہ علویوں کی علامت، سبز کپڑوں کو سرکاری لباس قرار دیا۔ مأمون ان کاموں کے ذریعے علویوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ الرضا من آل محمد کے نعرے کے ذریعے وہ لوگوں اپنی طرف دعوت دیتے تھے اب امام رضا(ع) جو "الرضا” کا مصداق ہے کے ذریعے وجود میں آگئی ہے اب انہیں تحریک چلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مأمون کے ان اقدامات کی وجہ سے علویوں کی مخالفتیں کسی حد تک کم ہوگئیں۔

بعض مناطق کو تحریک چلانے والے علویوں کے سپرد کرنا

مأمون اپنی خلافت کی تثبیت اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کی خاطر انجام دینے والے اقدامات میں امام رضا(ع) کی ولایت‌عہدی کے بعد بعض مناطق کی گورنری بھی ان علویوں کے سپرد کیا جنہوں نے ان مناطق پر قبضہ کیا تھا۔ یمن اور حجاز انہی مناطق میں سے تھے۔

سادات کا ایران میں داخلہ

امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کے نتائج میں سے ایک سادات کی ایران کی طرف مہاجرت ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق شیعہ اور سادات کی ایک کثیر تعداد امام رضا(ع) سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد ان قافلوں میں شامل ہوئے۔ مأمون کی ظاہری طور پر علویوں اور شیعوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے کسی حد تک سادات کی ایران بطور خاص خراسان کی طرف مہاجرت کیلئے زمینہ ہموار کیا۔

خلافت کی تثبیت کے بعد مأمون کے اقدامات

علویوں کی تحریکوں کو مہار کرنے اور اپنی خلافت کو کسی حد تک طاقتور بنانے کے بعد مأمون نے اپنی سیاست کا رخ تبدیل کیا۔ اس کی سیاسی رویے میں تبدیلی کئی موارد میں آشکار ہو گئی: حکومت سے ایرانیوں اور ایرانی طور و طریقوں کو باہر کرنا، عربی رسم و رواج کی پرچار اور اپنے آبائی دارالخلافہ بغداد پر توجہ دینا، امام رضا(ع) کو شہید کرنا، علویوں کے گرد دوبارہ گیرا تنگ کرنا اور بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑوں کو نمایاں کرنا اور علویوں کی علامت یعنی سبز کپڑوں پر پابندی لگانا۔

اپنے ایرانی وزیر کو قتل کرنا

تفصیلی مضمون: فضل بن سہل

فضل بن سہل مأمون کا ایرانی وزیر تھا جس نے مأمون کو خلافت پر پہنچانے اور اس کی خلافت کو طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فضل بن سہل یہ ان کوششوں کے صلے میں مأمون نے خلافت پر پہنچنے کے بعد فضل کو "ذوالریاستین” کا لقب دیا۔ اس اہم لقب کا مطلب یہ تھا کہ فضل بیک وقت وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں عہدوں پر فائز تھا۔

بعض مورخین کے مطابق ابن‌ سہل کی مأمون کی خلافت کیلئے کوششیں کرنا اور اسے طاقتور بنانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ بغداد کی جگہ مرو دار الخلافہ بنے، خراسان (ایران) عراق اور دیگر مناطق کے مقابلے میں زیادہ مقام پیدا کرے اور بنی عباس کی حکومت سے برمکیوں کو نکال باہر کرنے کی وجہ سے جو ایرانیوں کی تذلیل ہوئی ہے اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔ اسی وجہ سے فضل بن سہل کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ ہر وہ مسئلہ اور چیلنجز جو مرو، خراسان اور ایرانیوں کی عظمت کیلئے خطرہ بن سکتا تھا وہ خلیفہ کی نگاہوں سے دور رہے۔ منجملہ ان مسائل میں بغداد میں ناامنی پھیلانا جس کی اصل جڑیں بعداد کے عربی گورنر طاہر بن حسین کو عزل کرکے ان کی جگہ حسن بن سہل ایرانی کو بیٹھانا اور بطور کلی ایرانی نژاد کو عربی نژاد پر فوقیت اور برتری دینا تھا جو مأمون کی خلافت کا سرلوحہ قرار پایا تھا۔ ایرانی نے نہایت کوشش کیا تا کہ بغداد کی خبریں خلیفہ کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔

جب مأمون امام رضا (ع) کے توسط سے بغداد کی ناامنی سے مطلع ہوا تو اس نے مرو کو ترک کرکے اپنے آبائی دار الخلافہ بغداد جانے کا ارادہ کیا۔ خلیفہ اس بات سے بھی آگاہ ہوا کہ اس کا بغداد جانا اس کے ایرانی وزیر کی مخالفت کا سبب بنے گا اور اس سے پہلے بھی بغداد میں رونما ہونے والے واقعات کو خلیفہ سے مخفی کرنے کی وجہ سے خلیفہ کی فضل بن سہل کی نسبت بدبینی میں اضافہ ہوا تھا۔ یوں مأمون نے بغداد کی طرف سفر کرنے سے پہلے اپنے ایرانی وزیر کو شہر سرخس میں اپنے کارندوں کے ذریعے قتل کیا۔

امام رضا (ع) کی شہادت

امام رضا (ع) کو ولی عہد بنانے اور اس کے ذریعے اپنے اہداف کی تکمیل کے بعد مأمون نے یہ محسوس کیا اب امام رضا (ع) کی موجودگی اس کے اور اس کی حکومت کی مصلحت میں نہیں ہے۔ امام رضا (ع) کی ولی عہدی کے استمرار سے مأمون کو جو پریشانی لاحق تھی اس کی کئی وجوہات تھیں: مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے میں امام رضا (ع) کی برتری، لوگوں میں امام رضا (ع) کی مقبولیت میں اضافہ اور مأمون کے بعض اقدامات پر امام رضا (ع) کی صریح تنقید۔ اس بنا پر مأمون نے بنی عباس کے گذشتہ خلفاء کی طرح اپنی خلافت کو بچانے کیلئے سنہ 203 ہجری قمری کے اوائل میں بغداد کی جانب اپنے سفر سے پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امام رضا (ع) کو شہید کیا۔

دارالخلافہ کی بغداد منتقلی

مأمون کی ایرانی طرز حکومت اور بظاہر بنی عباس کی مخالفت کی وجہ سے بنی عباس کے سرکردگان اور بغداد کے باسی ہمیشہ مأمون کے مخالف رہے ہیں۔ ان مخالفتوں کی وجہ سے بنی عباس کے بعض بزرگوں نے مأمون کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ابراہیم بن مہدی کی بیعت کی۔ اس کے علاوہ ان مخالفتوں کی وجہ سے بغداد میں آہستہ آہستہ بدامنی پیدا ہونے لگی اور آخر کار خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی۔ دوسری طرف سے مصر اور الجزائر میں بھی بدامنی پھیلنے لگی اور خانہ جنگی کا خطرہ بڑھنے لگا۔ ایسے میں خلیفہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان بدامنیوں کی روک تھام طرز حکومت میں تبدیلی اور دار الخلافہ کی منتقلی کی بغیر امکان پذیر نہیں، یوں انہوں نے اپنے آبائی دار الخلافہ، بغداد جانے کا ارادہ کیا۔

علویوں کے گرد دوبارہ گیرا تنگ ہونا

مأمون کی سیاسیت میں تبدیلی اور ایرانی طور طریقوں سے عربی رسم و رواج میں تبدیلی کے ساتھ مامون کا علویوں کے ساتھ رابطہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کیا کہ آپ کی شہادت میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا اسی بنا پر بغداد جانے کے بعد اس نے علویوں کی دلجوئی کی اور امام جواد (ع) کیلئے تحفہ تحائف ارسال کیا اور فدک علویوں کو لوٹا دیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد اس نے علویوں کی مخالف شروع کر دیا اور اپنے دربار میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دیا اور انہیں بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑے پہننے پر مجبور کرنا شروع کیا۔ علویوں کے خلاف مامون کی ظالمانہ کاروائیاں صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے زیاد بن ابیہ کے نواسوں میں سے ایک کو یمن جسے علویوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، کا گورنر مقرر کیا جو علویوں کے ساتھ دشمنی رکھنے میں مشہور تھا۔

مأمون کا معتزلہ کی طرف رجحان

تاریخی مستندات کی روی سے مأمون معتزلہ مذہب کے بعض علماء جیسے اَبُوہذِیل عَلّاف اور نَظَّام کے ساتھ لین دین رکھتا تھا اور مذہب معتزلہ کے بعض بزرگان کو حکومتی مناصب پر منصوب کیا ہوا تھا۔ اسی طرح مامون قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ ان تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر بعض مورخین نے مامون کی مذہب معتزلہ کی طرف رجحان رکھنے کا نظریہ مطرح کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض کا خیال ہے کہ مامون معتزلہ کے مخالفین کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا تھا۔ یحیی بن اکثم جو مأمون کا مشاور اعظم تھا معتزلہ کے دشمنوں میں سے تھا۔ ان متضاد نظریات کی وجہ سے بعض نے مامون کے اعتقادات کو کلامی اعتبار سے مختلف فرقوں کے اعتقادات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔

اعتقادات کی چھان بین

مأمون نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں اپنے فقہا، محدثین اور قضات کو آزمانے کیلئے اعتقادات کی چھان بین کیلئے ایک محکمہ تشکیل دیا۔ سنہ 218 ہجری قمری کو مأمون کے حکم سے مذہب معتزلہ کے علماء کی ذمہ داری لگا دی کہ وہ قرآن کے مخلوق ہونے سے متعلق لوگوں کے اعتقادات کی چھان بین کریں، اور جو اشخاص اس بات کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے انہیں حکومتی عہدوں سے برکنار اور انہیں زندان میں ڈال دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض فقہاء نے حکومتی عہدوں سے عزل ہونے اور زندان میں ڈالنے کے خوف سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ مأمون کی اس اقدام کو محنت سے یاد کیا جاتا ہے۔

مأمون کا شیعہ ہونا

مأمون کا مذہب مورخین کے درمیان مورد اختلاف رہا ہے۔ شیعوں نے بنی عباس کے حکمرانوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رویہ اختیار کیا ہے۔ مأمون اگرچہ دوسرے خلفاء کی بنسبت زیادہ پڑھا لکھا شخص تھا اور خود کو شیعہ مذہب کی طرف تمائل رکھنے والا ظاہر کرتا تھا لیکن وہ بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں اس بنا پر اس کا شیعہ ہونا اس معنی میں کہ جس شیعہ مذہب کا شیعہ ائمہ معصومین قائل تھے وہ بھی قائل تھا، سرے سے قابل قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف سے بعض سنی معتبر منابع میں مأمون کے شیعہ ہونے پر تاکید کی گئی ہے، مثلا ذہبی، ابن‌کثیر اور ابن‌خلدون اس کے شیعہ ہونے کی تصریح کرتے ہیں اور بعض اوقات عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سے تعبیر کرتے ہیں؛ سیوطی کے مطابق بھی مأمون کا شیعہ ہونا مشہور تھا۔

مأمون کی طرف شیعہ ہونے کی نسبت دینا اس کی موت کے بعد سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کے دور خلافت میں بھی اس کے شیعہ رجحانات کی وجہ سے اسے شیعہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے دور خلافت میں علویوں کے ساتھ اس کی دوستی اور شیعوں کی حمایت میں انجام دینے والے بعض اقدامات کی وجہ سے بغداد میں مقیم بنی عباس میں سے اس کے مخالفین کی طرف اس پر بھی رافضی ہونے کا الزام لگاتا رہا ہے۔

حامیوں کی دلیل

تاریخی منابع کے مطابق مأمون کا اپنے دور خلافت میں انجام دینے والے اقدامات اور اس کا طرز حکومت اس کے شیعہ مذہب کی طرف مائل ہونے کی کی خبر دیتی ہے۔ مأمون کے اس طرح کے اقدامات کو چند مسائل کے ذیل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • آل علی کو خلافت اور ولایتعہدی کی پیشکش: مأمون کے شیعہ ہونے مدعی حضرات معتقد ہیں کہ مأمون کی طرف سے امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش کرنا اصل میں اس کے شیعہ اور معتزلہ مذہب خاص کر خلافت پر حضرت علی (ع) کی برتری جیسے عقائد کے سایے میں تربیت ہونے کی طرف لوٹتی ہے۔ اس کے علاوہ مامون کی ماں کا ایرانی ہونا اور حضرت علی (ع) اور آپ کی اولاد کی حقانیت پر ایمان رکھنا اور مامون کا ایرانیوں کے ہاں تربیت پانا اس کی تشیع کی طرف مائل ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مأمون نے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے بھائی امین پر غالب آئے تو وہ خلافت کو آل علی میں سے سب سے افضل شخص کے حوالے کر دونگا اسی بنا پر امین کی شکست کے بعد جب مأمون خلافت پر فائز ہوا تو اس نے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے امام رضا (ع) کو ولی عہد بنایا۔ مامون کا یہ اقدام سبب بنا کہ سیوطی جیسے مورخین مامون کو افراطی شیعہ قرار دینے لگا۔
  • فدک کو اولاد فاطمہ(س) کی ملکیت میں دینا: بغداد واپسی اور حکومت کے مستقر ہونے کے بعد جب مأمون نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا ارادہ کیا تو بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بنا پر اس نے اس زمانے کے 200 علماء کو دعوت دی اور ان سے فدک کی ملکیت کے بارے میں اپنی رائ سے بیان کرنے کو کہا۔ مختلف نظریات مطرح ہونے کے بعد اس جلسے کا نتیجہ یہ ہوا کہ "فدک” حضرت زہرا(س) کی ملکیت ہے اور اسے ان کے حقیقی وارثوں کو لوٹا دینا چاہئے۔ مخالفین کی مخالفت موجب بنی کہ مأمون نے ایک اور مجلس کا اہتمام کیا جس میں پورے اسلامی مملکت سے تمام علماء کو مدعو کیا گیا۔ اس جلسہ کا نتیجہ بھی پہلے جلسے کی مانند ہی نکلا۔ یوں سنہ۲۱۰ ہجری قمری کو مأمون نے "قثم بن جعفر” والی مدینہ کو "فدک” حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا حکم صادر کیا۔ فدک کو اس کے مالک حقیقی کو واپس دے دینے کی خبر شاعروں کے شعروں میں بھی نمایاں ہونے لگیں مثلا دعبل خزاعی نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کے بعد ایک شعر میں یوں کہا
 
اَصْبَحَ وَجْہ الزَّمانِ قَدْ ضَحِکاً بِرَدَّ مَأْموُنُ ہاشِمُ فَدَکاً
ترجمہ= زمانے کے چہرے پر خوشی ظاہر ہونے لگی، جب مأمون نے فدک بنی ہاشم کو واپس کیا۔
  • متعہ کو حلال قرار دینا: نکاح متعہ (عربی= متعہ) شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف مسائل میں سے ہے جسے عمر نے حرام قرار دیا جس کے بعد آنے والے خلفاء اور اہل سنت علماء نے عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس کی حرمت کو باقی رکھا لیکن مامون نے بہت زیادہ مخالفتوں کے باوجود اس کی حرمت کو اٹھایا اور اسے جائز شمار کیا۔ لیکن جب مأمون کے چیف جسٹس یحیی بن اکثم اور بعض دیگر اہل سنت علماء نے کہا کہ امام علی بھی متعہ کو حرام سمجھتے تھے تو اس وقت مأمون نے حصرت علی (ع) کے احترام میں اس حکم سے صرف نظر کیا۔
  • خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کو ثابت اور اس کا باقاعدہ اعلان: معتبر شیعہ اور اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اہل سنت کے 40 برجستہ علماء کو ایک مجلس میں مدعو کیا اور خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کے حوالے سے مناظرہ کیا اور اس مناظرے میں مأمون، اہل‌ سنت علماء پر غالب آیا یوں انہوں نے پیامبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کی برتری اور افضلیت کا اعتراف کیا۔ اس کے علاوہ مأمون نے سنہ 212 ہجری قمری کو ابوبکر اور عمر پر امام علی (ع) کی برتری کا اعلان کیا۔
  • معاویہ کی تعریف سے بے زاری اور امام علی (ع) پر سب و شتم کرنے کی ممانعت اور سزا: مأمون کی شیعیت کی طرف تمائل کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے سنہ 211 ہجری قمری کو معاویہ کی مدح اور تعریف کرنے والوں سے برائت کا اعلان کیا اور اس کی تعریف و تمجید کرنے والوں پر سزا تجویز کیا۔
  • خود مأمون کی طرف سے اپنی اور اپنے والد کے شیعہ ہونے پر تصریح: بعض مورخین کے مطابق خود مأمون نے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اس نے شیعہ مذہب کی تعلیمات کو اپنے والد ہارون سے سیکھا ہے۔ اس سے پوچھا گیا: اگر ہارون عباسی شیعہ تھا تو اہل بیت (ع) کو کیوں قتل کیا؟ مأمون نے جواب میں کہا: المُلکُ عَقیم۔ (یعنی جب حکومت کی بات آتی ہے تو باپ بیٹے کو نہیں پہچانتا دوسروں کی تو بات ہی نہیں)

اس نظریے کے مخالفین کے دلائل

  • مأمون شیعیت کے لباس میں معتزلی تھا: مأمون کے شیعہ ہونے کے مخالفین اس بات کے معتقد ہیں کہ مأمون اصل میں معتزلہ تھا لیکن ظاہرا شیعیت کا اظہار کرتا تھا۔ مأمون کے دور میں بہت معتزلہ کا ایک گروہ علویوں اور شیعوں کے بہت قریب تھے۔ یہ لوگ شیعوں کی طرح خلفاء ثلاثہ پر امام علی(ع) کی برتری کے قائل تھے اور امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کی حمایت اور اس پر گواہی دیتے تھے۔ اس نظریہ کے مطابق مأمون کی طرف سے امام رضا(ع) کو خلافت کی پیشکش اس کی شیعیت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وہ علویوں سے دوستی کا اظہار اور ایرانیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کیلئے تھا۔
  • مأمون کی شیعیت، شیعہ بمنای اعم تھا: بعض تشیع کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلی قسم، تشیع سے مراد خاص ایمان رکھنے والے کے ہیں اور اس اصطلاح کے مطابق شیعہ سے مراد شیعہ اثناعشری ہیں۔ دوسری قسم تشیع عام ہے۔ اس سے مراد یہ کہ امام علی(ع) کی خلافت بلا فصل کا قائل ہونا۔ مأمون، اس کے والد ہارون اور بنی عباس شیعوں کی اس دوسری قسم میں سے تھے۔
  • مأمون امام کو قتل کرنے والا شیعہ: شہید مرتضی مطہری نے مأمون کا اہل‌ سنت علماء کے ساتھ خلافت میں امام علی(ع) کی برتری کے موضوع پر ہونے والے مناظرے کو ایک بے نظیر مناظرہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: علمائے دین میں سے بہت کم علماء نے خلافت کے مسئلے میں مأمون کی طح استدلال کیا ہے۔ اس نے حضرت علی (ع) کی خلافت کی بارے میں مناظرہ کرتے ہوئے سب کو مغلوب کیا ہے۔ شہید مطہری مأمون کی شیعیت کے بارے میں موجود واقعات کو غیر قابل انکار سمجھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ "امام کو قتل” کرنے والا شیعہ ہے۔ وہ مأمون کی شیعیت کو امام حسین(ع) کے دور امامت میں کوفیوں کی شیعیت کی طرح قرار دیتے ہیں جنہوں نے آخر کار امام حسین (ع) کو شہید کئے۔

مأمون کے دور میں علم کی ترقی

مأمون، جوانی کے عالم میں ایرانیوں کے ہاں تربیت پانے کی وجہ سے علم و حکمت سے شدید لگاؤ رکھتا تھا اور ہمیشہ یونانی، سریانی، پہلوی اور اردو زبان سے کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کی سفارش کرتا تھا۔ اس کا دربار مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں سے بھرا رہتا تھا جس میں مختلف علمی مناظرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہتے تھے۔

وفات

مأمون رجب سنہ 218 ہجری قمری کو رومیوں کے ساتھ جنگ کے دوران ایک بیماری کی وجہ سے بَدَندون میں وفات کر گیا اور طَرَسوس میں دفن ہوا۔ موجودہ دور میں اس کی قبر ترکی کے جنوبی صوبہ مرسین کے شہر طرسوس کی جامع مسجد میں واقع ہے۔

مذہب

ابو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا” کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ 183ھ سے 20 سال کی مدت تک منصب امامت پر فائز رہے۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ 200 یا 201ھ کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔

مشہور یہ ہے کہ امام رضاؑ 203ھ ماہ صفر کے آخری ایام میں 55 سال کی عمر میں مأمون عباسی کے ہاتوں شہر طوس میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے اور آپ کو شہر طوس کے ایک گاؤں سناباد میں بقعہ ہارونیہ میں دفن کیا گیا۔ اس وقت امام رضا کا حرم ایران کے شہر مشہد میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے۔

سوانح عمری

نسب، کنیت اور لقب

آپ کا نسب علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب، کنیت ابو الحسن اور سب سے زیادہ مشہور لقب "رضا” ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو یہ لقب مأمون نے دیا تھا؛ لیکن امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کا یہ لقب خداوند عالم کی طرف سے آپ کے والد ماجد حضرت امام کاظمؑ کی طرف الہام ہوا تھا۔ صابر، رضی اور وفی آپ کے دیگر القاب میں سے ہیں۔ اسی طرح آپؑ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام کاظمؑ اپنے دوسرے بیٹوں سے کہا کرتے تھے: "تمہارا بھائی علی، عالم آل محمد ہیں”۔

انگشتری کا نقش

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی انگشتری کے لئے ایک نقش منقول ہے: "ما شاءَ اللہُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ  (ترجمہ: وہی ہوتا ہے جو خدا چاہے، نہیں کوئی قوت سوائے خدائے بلند و برتر کے۔)”

ولادت اور شہادت

آپ کی تاریخ پیدائش جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، ذی‌ الحجہ یا ربیع الاول 148 یا 153ھ نقل ہوئی ہے۔ کلینی نے آپ کی تاریخ پیدائش سنہ 148ھ ذکر کی ہیں۔ اور اکثر علماء و مورخین اس بات میں شیخ کلینی کے ہم عقیدہ ہیں۔

آپ کی شہادت کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر بروز جمعہ یا پیر، ماہ صفر کی آخری تاریخ، یا 17 صفر، 21 رمضان، 18 جمادی‌الاولی، 23 ذی القعدہ، یا ذی القعدہ کی آخری تاریخ سنہ 202، 203 یا 206 نقل ہوئی ہیں۔ کلینی کے مطابق آپ صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری میں 55 سال کی عمر میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔ اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپؑ کی شہادت سنہ 203 ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ طبرسی آپؑ کی شہادت کو ماہ صفر کی آخری تاریخ میں نقل کرتے ہیں۔

ولادت و شہادت کی تاریخ میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر مبارک کے بارے میں بھی علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر آپ کی عمر 47 سال سے 57 سال تک ذکر کیا گیا ہے۔ اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپ کی عمر شہادت کے وقت 55 سال تھی۔

والدہ

امام رضاؑ کی مادر گرامی نوبہ کی رہنے والی ایک کنیز تھیں۔ آپ کو تاریخی منابع میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ امام کاظمؑ کی ملکیت میں آگئیں تو امام نے آپ کا نام تکتم رکھا اور جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو امام کاظمؑ نے آپ کو طاہرہ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ شیخ صدوق کہتے ہیں کہ بعض مورخین نے امام رضاؑ کی والدہ گرامی کو سَکَن نوبیہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے آپ کی کنیت ام البنین تھی۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاؑ کی مادر گرامی نجمہ، ایک پاک و پاکیزہ اور پرہیزگار کنیز تھیں جنہیں امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو بخش دیا تھا جس کے بعد جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو آپ کا نام طاہرہ رکھا گیا۔”

ازواج

آپ کی ایک زوجہ کا نام سبیکہ تھا جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ ام المؤمنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تھیں۔

بعض دیگر منابع میں سبیکہ کے علاوہ ایک زوجہ کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون عباسی نے امام رضاؑ کو اپنی بیٹی ام حبیب سے شادی کی تجویز دی جسے امامؑ نے قبول کیا۔ طبری نے اس واقعے کو سنہ 202 ہجری کے واقعات کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اس کام کے ذریعے مامون زیادہ سے زیادہ امام رضاؑ کے نزدیک ہونا چاہتا تھا تاکہ آپ کے گھر میں رسوخ پیدا کرکے آپ کے خفیہ منصوبوں سے باخبر ہوتا رہے۔ سیوطی نے بھی امام رضاؑ سے مامون کی بیٹی کی تزویج کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کا نام ذکر نہيں کیا ہے۔

اولاد

امام رضاؑ کی اولاد کی تعداد اور ان کے اسماء کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے آپ کے پانچ بیٹے ہیں: "محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور ایک بیٹی: عائشہ” کا ذکر کیا ہے۔ سبط بن جوزی نے آپ کے چار بیٹے: "محمد تقی (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم، اور ایک بیٹی کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کا کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ امامؑ کے ایک بیٹے جو دو سال یا اس سے کم عمر میں وفات پا چکے تھے، "قزوین” میں مدفون ہیں جو اس وقت امام زادہ حسین کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سنہ 193 ہجری میں امام رضاؑ نے قزوین کا سفر کیا۔ شیخ مفید، امام رضاؑ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے ابو جعفر محمد بن علی التقی الجواد جو آپ کے بعد (نویں) امام تھے، کے سوا کوئی اولاد نہيں چھوڑی جن کی عمر سات سال اور چند مہینے تھی۔ ابن شہر آشوب اور امین الاسلام طبرسی، کی رائے بھی یہی ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔

امامت

امام رضاؑ اپنے والد ماجد امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 20 سال (183-203 ھ) تک امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں ہارون رشید خلافت پر قابض تھا اس کے بعد اس کے بیٹے امین نے تین سال اور 25 دن حکومت کی جس کے بعد ابراہیم بن مہدی عباسی المعروف ابن شکلہ نے 14 روز حکومت کی جس کے بعد امین عباسی نے ایک بار پھر اقتدار سنبھال کر ایک سال اور سات مہینے حکومت کی۔ آپؑ کی امامت کے آخری 5 سال مامون عباسی کے دور خلافت میں گذرے ہیں۔

دلائل امامت

متعدد راویوں جیسے: داود بن کثیر الرقي، محمد بن اسحاق بن عمار، علی بن یقطین، نعیم قابوسی، حسین بن مختار، زیاد بن مروان، أبو لبید یا ابو ایوب مخزومي، داؤد بن سلیمان، نصر بن قابوس، داود بن زربی، یزید بن سلیط اور محمد بن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضاؑ کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں۔ اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں:

داود رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظمؑ سے پوچھا: … آپ کے بعد امام کون ہے؟ امام کاظمؑ نے اپنے فرزند علی بن موسیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔

اس کے علاوہ رسول اللہ ؐ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمۂ معصومین کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں؛ امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں؛ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ ؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ ؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔

متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضاؑ اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان مقبولیت عام رکھتے تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان کے افراد اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔ یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت کے اوپر دلیل بن سکتی ہیں۔ گوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہو چکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظمؑ کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔

امام رضا کے دور میں شیعوں کے اعتقادات

تفصیلی مضمون: واقفیہ

امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بنا پر ان کے بیٹے علی بن موسی الرضاؑ کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپؑ کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظمؑ کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔ لیکن امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلایل کی بنیاد پر علی بن موسی الرضاؑ کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی بن جعفرؑ آخری امام ہیں جنہوں نے کسی کو امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جانے جاتے تھے۔

مدینہ میں آپؑ کا مقام

امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ مأمون کے ساتھ اپنی ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو میرا حکم مشرق و مغرب میں نافذ تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں:

میں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی مسئلے میں پھنس جاتے تھے تو میری طرف رجوع کرتے تھے اور اپنے اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔

خراسان کا سفر

روایت ہے کہ امام رضاؑ کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سنہ 200 ہجری میں انجام پائی۔ رسول جعفریان لکھتے ہیں: امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔ اس قول کے مطابق امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان میں مرو پہنچ گئے۔

یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تا کہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں گذرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کے اجتماعات سے خوفزدہ تھا جو امام کے ان علاقوں میں پہنچنے پر متوقع تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشابور لایا جائے۔ کتاب اطلسِ شیعہ کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشابور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مرو.

شیخ مفید کہتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جگہ دی اور امام رضاؑ کو دوسرے گھر میں اور آپ کی تکریم و تعظیم کی۔

حدیث سلسلۃ الذہب

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضاؑ خراسان جاتے ہوئے نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:‌ اے فرزند پیغمبر آیا ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہمارے لئے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے؟ اس مطالبے کے بعد امامؑ نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:

میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفرؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّدؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علیؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علیؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالبؑ سے، انہوں نے رسول خدا ؐ سے آپ ؐ نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.  (ترجمہ: خداوند حل جلالہ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میری عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا]ؑ نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔)

نیشابور میں امامؑ کا محدثین کی محفل میں اس حدیث کا بیان مدینے سے خراسان تک کے سفر کا اہم ترین اور مستند ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔

مامون کی ولی عہدی

تفصیلی مضمون: امام رضا کی ولی عہدی

امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا۔ اس موقع پر مأمون نے تہدید آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھا۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں نے کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔

مناظرے

امام رضاؑ کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امامؑ کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل بحث و گتفگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو ابو على، فضل بن حسن بن فضل طبرسى، جو امین الاسلام طبرسی کے نام سے معروف ہیں نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے، ان میں سے بعض احتجاجات اور مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

  • توحید و عدل کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
  • امامت کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
  • سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • ابی قرہ کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • جاثلیق کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • رأس الجالوت کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • زرتشتیوں کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • صابئین کے زعیم کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

مناظرات کا تجزیہ

مامون امام رضاؑ کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمۂ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے، کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ ان کے ذریعے امامؑ کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امامؑ کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا۔ لیکن نتیجہ اس کی برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لاجواب اور بے بس ہوکر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امامؑ کو محدود کرنا شروع کیا۔ ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضاؑ نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کی ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد بن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امامؑ کے مجالس دور رکھیں۔ اس کے بعد امامؑ نے مامون کو بد دعا دی۔

نماز عید

امام رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنانے کے بعد (7 رمضان سنہ 201 ہجری) عید کے موقع پر (بظاہر اسی رمضان کی عید فطر) مأمون نے امام رضاؑ سے کہا کہ جاکر نماز عید پڑھائیں۔ لیکن امامؑ نے ولیعہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے کہا کہ "مجھےاس کام سے معاف رکھو”۔ مامون نے اصرار کیا چنانچہ امامؑ کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: ٹھیک ہے تو میں پھر رسول اللہؑ کی طرح نماز عید قائم کروں گا۔ مامون نے بھی امام کی شرط مان لی۔
لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضاؑ بھی دوسرے خلفاء کی طرح خاص قسم کے آداب و رسوم کے ساتھ نماز کے لئے نکلیں گے لیکن سب نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ امامؑ ننگے پاؤں تکبیر کہتے ہوئے گھر سے باہر آئے؛ سرکاری اہلکار جو اس طرح کے مراسمات کے لئے رائج لباس پہن کر آئے تھے، یہ حالت دیکھ کر اپنی سواریوں سے نیچے آئے اور سب نے اپنے جوتے اتار لئے اور روتے ہوئے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے امامؑ کے پیچھے پيجھے [عیدگاہ کی طرف] روانہ ہوئے۔ امامؑ ہر قدم پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ فضل بن سہل نے مامون سے کہا: اگر امام رضاؑ اسی حالت میں عید گاہ پہنچ جائیں تو لوگ انکے شیدائی بن جائیں گے۔ پس بہتر ہے کہ امام سے کہیں کہ وہ واپس آجائیں۔ چنانچہ مامون نے اپنا ایک ایلچی روانہ کرکے امامؑ سے واپس آنے کی خواہش کی۔ چنانچہ امامؑ نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس چلے آئے۔

شہادت

تاریخی منابع میں امام رضاؑ کی شہادت سے متعلق مختلف اقوال ذکر ہوئیں ہیں:

  • چنانچہ تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ مامون سنہ 202 میں عراق روانہ ہوا اس سفر میں علی بن موسی الرضا اور فضل بن سہل بھی ان کے ساتھ تھے؛ جب طوس پہنچے تو سنہ 203 ہجری کے اوائل میں امام رضاؑ بیمار ہوئے اور صرف تین دن بعد "نوقان” نامی محلے میں وفات پائی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ علی بن ہشام نے آپ کو زہریلا انار کھلا کر مسموم کیا اور مامون نے اس واقعے پر سخت بےچینی کا اظہار کیا۔ یعقوبی مزید لکھتے ہیں: "مجھ سے ابو الحسن بن ابی عباد نے کہا: میں نے دیکھا مامون سفید قبا پہنے، سر برہنہ، تابوت کے دستوں کے بیچ جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: آپ کے بعد میں کس سے سکون پاؤںگا۔ مامون نے تین دن تک قبر کے پاس قیام کیا اور ہر روز ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک اس کے پاس لایا جاتا تھا اور یہی اس کا کھانا تھا اور چوتھے روز وہاں سے واپس آیا۔
  • شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن بشیر نے کہا: مجھے مامون نے حکم دیا کہ اپنے ناخن نہ تراشوں تاکہ معمول سے زیادہ بڑھ جائیں اور اس کے بعد اس نے مجھے تمر ہندی (املی) جیسی چیز دے دی اور کہا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے گوندہ لوں۔ اس کے بعد مامون امام رضاؑ کے پاس گیا اور مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا کہ انار کا شربت نکالو۔ میں نے انار کو دباکر شربت نکالا اور مامون نے وہی شربت امامؑ کو پلایا اس کے دو روز بعد امامؑ رحلت کرگئے۔
  • شیخ صدوق نے اس سلسلے میں بعض روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں ہے کہ زہریلے انگور جبکہ بعض میں زہریلے انار اور انگور دونوں کا ذکر ہے۔ جعفر مرتضی حسینی، نے امام رضاؑ کے انتقال کے متعلق 6 نظریات بیان کی ہیں۔
  • چوتھی صدی ہجری کے محدث اور رجال شناس ابن حبّان نے "علی بن موسی الرضا” کے نام کے ذیل میں لکھا ہے: علی بن موسی الرضا اس زہر کے نتیجے میں وفات پاگئے جو مامون نے انہیں کھلایا تھا۔ یہ واقعہ روز شنبہ آخرِ صفر المظفر سنہ 203ہجری کو پیش آیا۔

شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب

رسول اللہؐ نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی بن عمرانؑ کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کرکے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔

شہادت کے علل و اسباب

مأمون نے امام کو کیوں قتل کروایا؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کئے گئے ہیں:

  • مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امامؑ کی برتری اور فوقیت؛
  • امام رضاؑ کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کا جوق در جوق شرکت؛ اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضاؑ کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امامؑ کی نگرانی کرنا شروع کیا کہ کہیں اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔
  • دوسری طرف سے امامؑ مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے جو مامون کیلئے سخت ناگوار گذرتے تھے۔ یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امامؑ نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے۔ …

حرم

تفصیلی مضمون: حرم امام رضا

امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کو سناباد نامی محلے میں واقع حمید بن قحطبۂ طائی کے گھر (بقعۂ ہارونیہ) میں سپرد خاک کیا۔ اس وقت حرم رضوی ایران کے شہر مشہد میں واقع ہے جہاں ایران اور دوسرے مسلمان ممالک سے سالانہ لاکھوں مسلمان زیارت کیلئے آتے ہیں۔

امام رضا کی سیرت

عبادات میں آپ کی سیرت: امام رضاؑ کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپؑ مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو متوقف فرماتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے: نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔ رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپؑ کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیئے ہیں۔ آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔

اخلاق میں آپ کی سیرت: لوگوں کے ساتھ آپؑ کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولیعہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرنا اور ان کو دسترخوان پر ساتھ بٹھانا اس سلسلے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ابن شہرآشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپ کی معرفی کی، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور مغذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔

تربیتی امور میں آپ کی سیرت: آپؑ کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت، حمل کے ایام میں خصوصی توجہ، اچھے ناموں کا انتخاب، اور بچوں کے احترام وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔

اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس پیدا کرنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔

تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت: مدینے میں قیام کے دوران امام رضاؑ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل میں جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔ "مرو” پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امامؑ نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کے مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل رونق پیدا کرنے لگا تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا دی۔

طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضاؑ کی احادیث میں نمیاں طور پر دیکھا جاتا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ کی طرف منسوب ہے جس میں اس حوالے سے مختلف تجاویز پائی جاتی ہیں۔

امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا: امام رضاؑ کے دور امامت میں کسی حد تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی؛ کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضاؑ کے دور امامت میں فعال تھے۔

ان شرایط کو مد نظر رکھتے ہوئے امامؑ نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے امامت کے مختلف ابعاد کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔ مثلا امام کی اطاعت کا واجب ہونا، اگرچہ امام صادقؑ کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں مطرح ہوتے تھے لیکن اس مسلئے میں ائمہ معصومین تقیہ کرتے تھے۔ لیکن امام رضاؑ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے "ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کئے بغیر” اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام معرفی کرتے تھے۔ جیسا کہ "علی بن ابی حمزہ بطائنی” (جو کہ واقفیہ کے بنیاد گزاروں میں سے تھا)‌ نے جب امام سے سوال کیا: آیا کیا آپ واجب الاطاعت امام ہیں؟ تو امام نے فرمایا: ہاں (کشی، ۱۳۴۸، ص۴۶۳) اسی طرح ایک اور شخص جس نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: کیا آپ علی بن ابی طالب (ع) کی طرح واجب الاطاعت ہیں؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں(کلینی، (۱۳۶۳ش)، ج۱، ص۱۸۷) لیکن ساتھ ساتھ امامؑ اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔

اسی طرح جب مأمون نے امامؑ سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔

امام رضا سے منسوب کتابیں

امام رضاؑ سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لئے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے جن کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں جمع کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گوکہ اس انتساب کے اثبات کے لئے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:

  • فقہ الرضا: علماء و محققین نے امام رضاؑ سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔
  • رسالہ الذہبیہ :امام رضاؑ سے منسوب ہے جس کا موضوع علم طبّ ہے۔ مروی ہے کہ امامؑ نے یہ رسالہ سنہ 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لئے بھجوایا اور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے دارالحکمہ کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بنا پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔
  • صحیفہ الرضا:امام رضاؑ سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہے گوکہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔
  • محض الاسلام و شرائع الدین: جسے امام رضاؑ سے منسوب کیا گیا ہے لیکن بظاہر امامؑ سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔

اصحاب

بعض اہل قلم نے 367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

  • یونس بن عبدالرحمن
  • موفق (خادم امام رضا)
  • علی بن مہزیار
  • صفوان بن یحیی
  • محمد بن سنان
  • زکریا بن آدم
  • ریان بن صلت
  • دعبل بن علی

اہل سنت کے یہاں امام کا مقام

اہل‌ سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضاؑ کے نسب اور علم و فضل کی تعریف اور زیارت کیلئے حرم امام رضاؑ جایا کرتے تھے۔ ابن حبان کہتے تھے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی بن موسی کی زیارت کیلئے گئے اور آپ سے توسل کے نتیجے میں ان کی مشکلات برطرف ہوئی ہیں۔ اسی طرح ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر بن خزیمہ (جو اہل حدیث کا امام ہے) اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضاؑ کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کیا) کہتے ہیں:

ابوبکر بن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔

ابن نجار امام رضاؑ کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے کہتے ہیں:

آپؑ علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • اہل بیت
  • ائمۂ شیعہ
  • امام موسی کاظمؑ
  • امامت
  • شیعہ

مزید مطالعہ

  • التحفۃ الرضويۃ، سید اولاد حیدر فوق بلگرامی
مذہب

فاطمہ بنت موسی بن جعفر، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور، امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ آپ اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملنے کے لئے مدینہ سے ایران کے سفر پر نکلے؛ لیکن راستے میں بیماری کی وجہ سے قم میں آپ کی وفات ہوگئی اور وہیں پر دفن ہیں۔ تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی منجملہ تاریخ پیدائش و وفات کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہؑ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے اور آپ کی زیارت کرنے والوں کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صنف نسواں میں صرف آپ ہی کے لئے ائمہؑ معصومین کی طرف سے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔

حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب ریاحین الشریعہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہماری دسترس میں نہیں ہیں؛ جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔

حسب و نسب

فاطمہ معصومہ امام کاظمؑ کی بیٹی اور امام رضاؑ کی بہن ہیں۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں امام موسی کاظمؑ کی دو بیٹیاں فاطمہ کبرا اور فاطمہ صغرا کا نام ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ذکر نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی بیٹی حضرت معصومہ ہیں۔ ساتویں صدی کے اہل سنت عالم ابن‌ جوزی نے بھی لکھا ہے کہ امام کاظمؑ کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے؛ لیکن انہوں نے بھی نہیں بتایا ہے کہ حضرت معصومہ ان میں سے کون سی ہیں۔ محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضاؑ کی والدہ بھی ہیں۔

تاریخ ولادت و وفات

قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت اور وفات کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن آیت اللہ استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں ان تاریخوں ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب "نور الآفاق” ہے جو سنہ 1344 ہجری میں نشر ہوئی ہے۔ اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔

بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ شہاب‌ الدین مرعشی، آیت اللہ موسی شبیری زنجانی، رضا استادی و ذبیح‌ اللہ محلاتی قابل ذکر ہیں۔

القاب

معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ معصومہ امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔ محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ امام رضاؑ نے انہیں معصومہ کا نام دیا ہے۔

آج کل انہیں کریمہ اہل بیت بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لقب آیت‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کے دیکھے ہوئے اس خواب سے مستند ہے جس میں ائمہؑ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیتؑ سے تعبیر کیا ہے۔

شادی

ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں؛ اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی نہیں کی ہے اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا کیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔ اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظم نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی؛ لیکن اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔

ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات

تفصیلی مضمون: بیت النور

تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ نے سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کا سفر کیا۔ اس وقت امام رضا کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امامؑ خراسان میں تھے؛ لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئیں۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ میں مسموم اور شہید کیا گیا ہے۔

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم چلنے کے لئے کہا۔ دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں اس کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پر قیام کیا اور 17 دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔

شیعوں کے یہاں مقام و منزلت

شیعہ علماء آپ کے لئے بہت عظیم مقام کے قائل ہیں اور وہ آپ کی منزلت و زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہے: علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کی بنا پر بہشت میں داخل ہو نگے۔ ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔

شوشتری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں کہ موسی بن جعفر ؑ کی اولاد میں امام رضاؑ کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہؑ کا ہم رتبہ نہیں ہے۔ شیخ عباس قمی کہتے ہیں: آپؑ امام موسی کاظمؑ کی بیٹیوں میں سب سے افضل ہیں۔

امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول روایات کے مطابق حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دی گئی ہے۔ البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔

زیارت نامہ

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد، بحار الانوار اور تحفۃ الزائر میں جناب فاطمہ معصومہؑ کے لئے امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔ البتہ انہوں نے کتاب تحفۃ الزائر میں زیارت نامہ نقل کرنے کے بعد احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس روایت میں زیارت نامے کا متن امام کے کلام کا حصہ نہ ہو بلکہ اسے علماء نے اضافہ کیا ہو۔ نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ و حضرت فاطمہ معصومہ تنہا وہ خواتین ہیں جن کے سلسلہ میں ماثور زیارت نامہ (وہ زیارت نامہ جس کی سند معصومین علیہم السلام تک منتہی ہو) ذکر ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ

تفصیلی مضمون: آستانہ حضرت معصومہ (ع)

حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر پر شروع میں ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔ آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضاؑ کے بعد سب بڑی بارگاہ ہے۔ حضرت معصومہ کا آستانہ، حرم، دیگر عمارتیں، موقوفات اور اداری دفاتر پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قم شہر میں ہی ہیں۔

حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس

سنہ 2005 ء میں حضرت فاطمہ معصومہ کی شخصیت اور قم کی ثقافتی منزلت کے بارے میں ایک کانفرنس آستانہ حضرت معصومہ کے متولی علی اکبر خمینی مسعودی کے حکم سے منعقد ہوئی یہ کانفرنس حرم حضرت معصومہ میں منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے مراجع تقلید نے خطاب کیا۔

اس کانفرنس کے سیکریٹری احمد عابدی کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت معصومہ، حرم حضرت معصومہ، حوزہ علمیہ قم، قم اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر 54 کتابیں لکھی گئیں۔

مذہب