مذہب

ابو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا” کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ 183ھ سے 20 سال کی مدت تک منصب امامت پر فائز رہے۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ 200 یا 201ھ کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔

مشہور یہ ہے کہ امام رضاؑ 203ھ ماہ صفر کے آخری ایام میں 55 سال کی عمر میں مأمون عباسی کے ہاتوں شہر طوس میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے اور آپ کو شہر طوس کے ایک گاؤں سناباد میں بقعہ ہارونیہ میں دفن کیا گیا۔ اس وقت امام رضا کا حرم ایران کے شہر مشہد میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے۔

سوانح عمری

نسب، کنیت اور لقب

آپ کا نسب علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب، کنیت ابو الحسن اور سب سے زیادہ مشہور لقب "رضا” ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو یہ لقب مأمون نے دیا تھا؛ لیکن امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ کا یہ لقب خداوند عالم کی طرف سے آپ کے والد ماجد حضرت امام کاظمؑ کی طرف الہام ہوا تھا۔ صابر، رضی اور وفی آپ کے دیگر القاب میں سے ہیں۔ اسی طرح آپؑ عالم آل محمد کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام کاظمؑ اپنے دوسرے بیٹوں سے کہا کرتے تھے: "تمہارا بھائی علی، عالم آل محمد ہیں”۔

انگشتری کا نقش

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی انگشتری کے لئے ایک نقش منقول ہے: "ما شاءَ اللہُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ  (ترجمہ: وہی ہوتا ہے جو خدا چاہے، نہیں کوئی قوت سوائے خدائے بلند و برتر کے۔)”

ولادت اور شہادت

آپ کی تاریخ پیدائش جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، ذی‌ الحجہ یا ربیع الاول 148 یا 153ھ نقل ہوئی ہے۔ کلینی نے آپ کی تاریخ پیدائش سنہ 148ھ ذکر کی ہیں۔ اور اکثر علماء و مورخین اس بات میں شیخ کلینی کے ہم عقیدہ ہیں۔

آپ کی شہادت کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر بروز جمعہ یا پیر، ماہ صفر کی آخری تاریخ، یا 17 صفر، 21 رمضان، 18 جمادی‌الاولی، 23 ذی القعدہ، یا ذی القعدہ کی آخری تاریخ سنہ 202، 203 یا 206 نقل ہوئی ہیں۔ کلینی کے مطابق آپ صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری میں 55 سال کی عمر میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ہیں۔ اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپؑ کی شہادت سنہ 203 ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ طبرسی آپؑ کی شہادت کو ماہ صفر کی آخری تاریخ میں نقل کرتے ہیں۔

ولادت و شہادت کی تاریخ میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر مبارک کے بارے میں بھی علماء و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی بنا پر آپ کی عمر 47 سال سے 57 سال تک ذکر کیا گیا ہے۔ اکثر علماء اور مورخین کے مطابق آپ کی عمر شہادت کے وقت 55 سال تھی۔

والدہ

امام رضاؑ کی مادر گرامی نوبہ کی رہنے والی ایک کنیز تھیں۔ آپ کو تاریخی منابع میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ امام کاظمؑ کی ملکیت میں آگئیں تو امام نے آپ کا نام تکتم رکھا اور جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو امام کاظمؑ نے آپ کو طاہرہ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ شیخ صدوق کہتے ہیں کہ بعض مورخین نے امام رضاؑ کی والدہ گرامی کو سَکَن نوبیہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے آپ کی کنیت ام البنین تھی۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاؑ کی مادر گرامی نجمہ، ایک پاک و پاکیزہ اور پرہیزگار کنیز تھیں جنہیں امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو بخش دیا تھا جس کے بعد جب امام رضاؑ کی ولادت ہوئی تو آپ کا نام طاہرہ رکھا گیا۔”

ازواج

آپ کی ایک زوجہ کا نام سبیکہ تھا جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ ام المؤمنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تھیں۔

بعض دیگر منابع میں سبیکہ کے علاوہ ایک زوجہ کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون عباسی نے امام رضاؑ کو اپنی بیٹی ام حبیب سے شادی کی تجویز دی جسے امامؑ نے قبول کیا۔ طبری نے اس واقعے کو سنہ 202 ہجری کے واقعات کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اس کام کے ذریعے مامون زیادہ سے زیادہ امام رضاؑ کے نزدیک ہونا چاہتا تھا تاکہ آپ کے گھر میں رسوخ پیدا کرکے آپ کے خفیہ منصوبوں سے باخبر ہوتا رہے۔ سیوطی نے بھی امام رضاؑ سے مامون کی بیٹی کی تزویج کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کا نام ذکر نہيں کیا ہے۔

اولاد

امام رضاؑ کی اولاد کی تعداد اور ان کے اسماء کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے آپ کے پانچ بیٹے ہیں: "محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور ایک بیٹی: عائشہ” کا ذکر کیا ہے۔ سبط بن جوزی نے آپ کے چار بیٹے: "محمد تقی (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم، اور ایک بیٹی کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کا کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ امامؑ کے ایک بیٹے جو دو سال یا اس سے کم عمر میں وفات پا چکے تھے، "قزوین” میں مدفون ہیں جو اس وقت امام زادہ حسین کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سنہ 193 ہجری میں امام رضاؑ نے قزوین کا سفر کیا۔ شیخ مفید، امام رضاؑ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے ابو جعفر محمد بن علی التقی الجواد جو آپ کے بعد (نویں) امام تھے، کے سوا کوئی اولاد نہيں چھوڑی جن کی عمر سات سال اور چند مہینے تھی۔ ابن شہر آشوب اور امین الاسلام طبرسی، کی رائے بھی یہی ہے۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ایک بیٹی بھی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔

امامت

امام رضاؑ اپنے والد ماجد امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 20 سال (183-203 ھ) تک امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں ہارون رشید خلافت پر قابض تھا اس کے بعد اس کے بیٹے امین نے تین سال اور 25 دن حکومت کی جس کے بعد ابراہیم بن مہدی عباسی المعروف ابن شکلہ نے 14 روز حکومت کی جس کے بعد امین عباسی نے ایک بار پھر اقتدار سنبھال کر ایک سال اور سات مہینے حکومت کی۔ آپؑ کی امامت کے آخری 5 سال مامون عباسی کے دور خلافت میں گذرے ہیں۔

دلائل امامت

متعدد راویوں جیسے: داود بن کثیر الرقي، محمد بن اسحاق بن عمار، علی بن یقطین، نعیم قابوسی، حسین بن مختار، زیاد بن مروان، أبو لبید یا ابو ایوب مخزومي، داؤد بن سلیمان، نصر بن قابوس، داود بن زربی، یزید بن سلیط اور محمد بن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضاؑ کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں۔ اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں:

داود رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظمؑ سے پوچھا: … آپ کے بعد امام کون ہے؟ امام کاظمؑ نے اپنے فرزند علی بن موسیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔

اس کے علاوہ رسول اللہ ؐ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمۂ معصومین کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں؛ امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں؛ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ ؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ ؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔

متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضاؑ اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان مقبولیت عام رکھتے تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان کے افراد اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔ یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت کے اوپر دلیل بن سکتی ہیں۔ گوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہو چکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظمؑ کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔

امام رضا کے دور میں شیعوں کے اعتقادات

تفصیلی مضمون: واقفیہ

امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بنا پر ان کے بیٹے علی بن موسی الرضاؑ کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپؑ کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظمؑ کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔ لیکن امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلایل کی بنیاد پر علی بن موسی الرضاؑ کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی بن جعفرؑ آخری امام ہیں جنہوں نے کسی کو امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جانے جاتے تھے۔

مدینہ میں آپؑ کا مقام

امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ مأمون کے ساتھ اپنی ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو میرا حکم مشرق و مغرب میں نافذ تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں:

میں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی مسئلے میں پھنس جاتے تھے تو میری طرف رجوع کرتے تھے اور اپنے اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔

خراسان کا سفر

روایت ہے کہ امام رضاؑ کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سنہ 200 ہجری میں انجام پائی۔ رسول جعفریان لکھتے ہیں: امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔ اس قول کے مطابق امام رضاؑ سنہ 201 کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان میں مرو پہنچ گئے۔

یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تا کہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں گذرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کے اجتماعات سے خوفزدہ تھا جو امام کے ان علاقوں میں پہنچنے پر متوقع تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشابور لایا جائے۔ کتاب اطلسِ شیعہ کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشابور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مرو.

شیخ مفید کہتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جگہ دی اور امام رضاؑ کو دوسرے گھر میں اور آپ کی تکریم و تعظیم کی۔

حدیث سلسلۃ الذہب

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضاؑ خراسان جاتے ہوئے نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:‌ اے فرزند پیغمبر آیا ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہمارے لئے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے؟ اس مطالبے کے بعد امامؑ نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:

میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفرؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّدؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علیؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علیؑ سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالبؑ سے، انہوں نے رسول خدا ؐ سے آپ ؐ نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.  (ترجمہ: خداوند حل جلالہ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میری عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا]ؑ نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔)

نیشابور میں امامؑ کا محدثین کی محفل میں اس حدیث کا بیان مدینے سے خراسان تک کے سفر کا اہم ترین اور مستند ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔

مامون کی ولی عہدی

تفصیلی مضمون: امام رضا کی ولی عہدی

امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا۔ اس موقع پر مأمون نے تہدید آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھا۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں نے کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔

مناظرے

امام رضاؑ کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امامؑ کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل بحث و گتفگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو ابو على، فضل بن حسن بن فضل طبرسى، جو امین الاسلام طبرسی کے نام سے معروف ہیں نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے، ان میں سے بعض احتجاجات اور مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

  • توحید و عدل کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
  • امامت کے موضوع پر امام رضاؑ کا مناظرہ
  • سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • ابی قرہ کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • جاثلیق کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • رأس الجالوت کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • زرتشتیوں کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ
  • صابئین کے زعیم کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ

مناظرات کا تجزیہ

مامون امام رضاؑ کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمۂ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے، کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امامؑ کے سامنے لایا کرتا تھا تاکہ ان کے ذریعے امامؑ کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امامؑ کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا۔ لیکن نتیجہ اس کی برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لاجواب اور بے بس ہوکر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امامؑ کو محدود کرنا شروع کیا۔ ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضاؑ نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کی ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد بن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امامؑ کے مجالس دور رکھیں۔ اس کے بعد امامؑ نے مامون کو بد دعا دی۔

نماز عید

امام رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنانے کے بعد (7 رمضان سنہ 201 ہجری) عید کے موقع پر (بظاہر اسی رمضان کی عید فطر) مأمون نے امام رضاؑ سے کہا کہ جاکر نماز عید پڑھائیں۔ لیکن امامؑ نے ولیعہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے کہا کہ "مجھےاس کام سے معاف رکھو”۔ مامون نے اصرار کیا چنانچہ امامؑ کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: ٹھیک ہے تو میں پھر رسول اللہؑ کی طرح نماز عید قائم کروں گا۔ مامون نے بھی امام کی شرط مان لی۔
لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضاؑ بھی دوسرے خلفاء کی طرح خاص قسم کے آداب و رسوم کے ساتھ نماز کے لئے نکلیں گے لیکن سب نے حیرت کے ساتھ دیکھا کہ امامؑ ننگے پاؤں تکبیر کہتے ہوئے گھر سے باہر آئے؛ سرکاری اہلکار جو اس طرح کے مراسمات کے لئے رائج لباس پہن کر آئے تھے، یہ حالت دیکھ کر اپنی سواریوں سے نیچے آئے اور سب نے اپنے جوتے اتار لئے اور روتے ہوئے اور اللہ اکبر کہتے ہوئے امامؑ کے پیچھے پيجھے [عیدگاہ کی طرف] روانہ ہوئے۔ امامؑ ہر قدم پر تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ فضل بن سہل نے مامون سے کہا: اگر امام رضاؑ اسی حالت میں عید گاہ پہنچ جائیں تو لوگ انکے شیدائی بن جائیں گے۔ پس بہتر ہے کہ امام سے کہیں کہ وہ واپس آجائیں۔ چنانچہ مامون نے اپنا ایک ایلچی روانہ کرکے امامؑ سے واپس آنے کی خواہش کی۔ چنانچہ امامؑ نے اپنے جوتے منگوائے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس چلے آئے۔

شہادت

تاریخی منابع میں امام رضاؑ کی شہادت سے متعلق مختلف اقوال ذکر ہوئیں ہیں:

  • چنانچہ تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ مامون سنہ 202 میں عراق روانہ ہوا اس سفر میں علی بن موسی الرضا اور فضل بن سہل بھی ان کے ساتھ تھے؛ جب طوس پہنچے تو سنہ 203 ہجری کے اوائل میں امام رضاؑ بیمار ہوئے اور صرف تین دن بعد "نوقان” نامی محلے میں وفات پائی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ علی بن ہشام نے آپ کو زہریلا انار کھلا کر مسموم کیا اور مامون نے اس واقعے پر سخت بےچینی کا اظہار کیا۔ یعقوبی مزید لکھتے ہیں: "مجھ سے ابو الحسن بن ابی عباد نے کہا: میں نے دیکھا مامون سفید قبا پہنے، سر برہنہ، تابوت کے دستوں کے بیچ جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: آپ کے بعد میں کس سے سکون پاؤںگا۔ مامون نے تین دن تک قبر کے پاس قیام کیا اور ہر روز ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک اس کے پاس لایا جاتا تھا اور یہی اس کا کھانا تھا اور چوتھے روز وہاں سے واپس آیا۔
  • شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن بشیر نے کہا: مجھے مامون نے حکم دیا کہ اپنے ناخن نہ تراشوں تاکہ معمول سے زیادہ بڑھ جائیں اور اس کے بعد اس نے مجھے تمر ہندی (املی) جیسی چیز دے دی اور کہا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے گوندہ لوں۔ اس کے بعد مامون امام رضاؑ کے پاس گیا اور مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا کہ انار کا شربت نکالو۔ میں نے انار کو دباکر شربت نکالا اور مامون نے وہی شربت امامؑ کو پلایا اس کے دو روز بعد امامؑ رحلت کرگئے۔
  • شیخ صدوق نے اس سلسلے میں بعض روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں ہے کہ زہریلے انگور جبکہ بعض میں زہریلے انار اور انگور دونوں کا ذکر ہے۔ جعفر مرتضی حسینی، نے امام رضاؑ کے انتقال کے متعلق 6 نظریات بیان کی ہیں۔
  • چوتھی صدی ہجری کے محدث اور رجال شناس ابن حبّان نے "علی بن موسی الرضا” کے نام کے ذیل میں لکھا ہے: علی بن موسی الرضا اس زہر کے نتیجے میں وفات پاگئے جو مامون نے انہیں کھلایا تھا۔ یہ واقعہ روز شنبہ آخرِ صفر المظفر سنہ 203ہجری کو پیش آیا۔

شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب

رسول اللہؐ نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہوگا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی بن عمرانؑ کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کرکے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔

شہادت کے علل و اسباب

مأمون نے امام کو کیوں قتل کروایا؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کئے گئے ہیں:

  • مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امامؑ کی برتری اور فوقیت؛
  • امام رضاؑ کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کا جوق در جوق شرکت؛ اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضاؑ کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امامؑ کی نگرانی کرنا شروع کیا کہ کہیں اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔
  • دوسری طرف سے امامؑ مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے جو مامون کیلئے سخت ناگوار گذرتے تھے۔ یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امامؑ نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے۔ …

حرم

تفصیلی مضمون: حرم امام رضا

امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کو سناباد نامی محلے میں واقع حمید بن قحطبۂ طائی کے گھر (بقعۂ ہارونیہ) میں سپرد خاک کیا۔ اس وقت حرم رضوی ایران کے شہر مشہد میں واقع ہے جہاں ایران اور دوسرے مسلمان ممالک سے سالانہ لاکھوں مسلمان زیارت کیلئے آتے ہیں۔

امام رضا کی سیرت

عبادات میں آپ کی سیرت: امام رضاؑ کی عملی سیرت میں آیا ہے کہ آپؑ مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے گرما گرم مناظرات کے دوران بھی جیسے ہی اذان سنائی دیتی مناظرے کو متوقف فرماتے تھے اور جب مناظرے کو جاری رکھنے سے متعلق لوگ اصرار کرتے تو فرماتے: نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آتا ہوں۔ رات کی تاریکی میں عبادات کی انجام دہی اور آپؑ کی شب بیداری سے متعلق متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ دعبل خزاعی کو اپنا کرتہ ہدیہ کے طور پر دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس کرتے کی حفاظت کرو! میں نے اس کرتے میں ہزار راتوں میں ہزار رکعت نماز اور ہزار ختم قرآن انجام دیئے ہیں۔ آپ کے طولانی سجدوں کے بارے میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں۔

اخلاق میں آپ کی سیرت: لوگوں کے ساتھ آپؑ کی حسن معاشرت کے متعدد نمونے تاریخ میں نقل ہوئے ہیں۔ حتی مامون کی ولیعہدی قبول کرنے کے بعد بھی غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کرنا اور ان کو دسترخوان پر ساتھ بٹھانا اس سلسلے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ابن شہرآشوب نقل کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ حمام تشریف لے گئے اور وہاں پر موجود افراد میں سے ایک جو امام کو نہیں پہچانتا تھا، امام سے مالش کرنے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور مالش کرنا شروع کیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو اس شخص کیلئے آپ کی معرفی کی، جب وہ شخص اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور مغذرت خواہی کی تو امام نے اسے خاموش کرایا اور مالش جاری رکھی۔

تربیتی امور میں آپ کی سیرت: آپؑ کی سیرت میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاندان کے کلیدی کردار پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں صالح اور نیک بیوی سے شادی کی ضرورت، حمل کے ایام میں خصوصی توجہ، اچھے ناموں کا انتخاب، اور بچوں کے احترام وغیرہ پر تاکید ہوئی ہے۔

اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ رفت و آمد اور ان کے ساتھ انس پیدا کرنا بھی آپ کی سیرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے منقول ہے کہ جب بھی امام کو فراغت حاصل ہوتی تو آپ اپنے رشتہ داروں؛ چھوٹے بڑے سب کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے تھے۔

تعلیم و تعلم میں آپ کی سیرت: مدینے میں قیام کے دوران امام رضاؑ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے اور مختلف سوالات اور مسائل میں جواب دینے سے عاجز آنے والے حضرات آپ سے رجوع کرتے تھے۔ "مرو” پہنچنے کی بعد بھی مناظرات کی شکل میں بہت سارے شبہات اور سوالوں کے جواب مرحمت فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ امامؑ نے اپنی اقامت گاہ اور مرو کے مسجد میں ایک حوزہ علمیہ بھی قائم کیا ہوا تھا لیکن جب آپ کی علمی محفل رونق پیدا کرنے لگا تو مامون نے انقلاب کے خوف سے ان محفلوں پر پابندی لگا دی جس پر آپ نے مامون کو بد دعا دی۔

طب اسلامی اور حفظان صحت کے اصولوں پر خصوصی توجہ دینا امام رضاؑ کی احادیث میں نمیاں طور پر دیکھا جاتا سکتا ہے۔ ان احادیث میں اسی موضوع سے مربوط مفاہیم کی تبیین کے ساتھ ساتھ پرہیز، مناسب خوراک، حفظان صحت کی رعایت اور مختلف بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ رسالہ ذہبیہ نامی کتاب طب الرضا کے نام سے آپ کی طرف منسوب ہے جس میں اس حوالے سے مختلف تجاویز پائی جاتی ہیں۔

امامت کی بحث میں تقیہ نہ کرنا: امام رضاؑ کے دور امامت میں کسی حد تقیہ کی خاص ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی؛ کیونکہ واقفیہ کی پیدائش جیسے واقعے نے شیعوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کیا تھا۔ اس کے علاوہ فطحیہ فرقے کے بچے کھچے افراد بھی امام رضاؑ کے دور امامت میں فعال تھے۔

ان شرایط کو مد نظر رکھتے ہوئے امامؑ نے کسی حد تک تقیہ کی حکمت عملی اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے امامت کے مختلف ابعاد کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔ مثلا امام کی اطاعت کا واجب ہونا، اگرچہ امام صادقؑ کے دور سے دینی اور کلامی محافل میں مطرح ہوتے تھے لیکن اس مسلئے میں ائمہ معصومین تقیہ کرتے تھے۔ لیکن امام رضاؑ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے "ظالم و جابر حکمرانوں سے کسی خوف کا احساس کئے بغیر” اپنے آپ کو واجب الطاعۃ امام معرفی کرتے تھے۔ جیسا کہ "علی بن ابی حمزہ بطائنی” (جو کہ واقفیہ کے بنیاد گزاروں میں سے تھا)‌ نے جب امام سے سوال کیا: آیا کیا آپ واجب الاطاعت امام ہیں؟ تو امام نے فرمایا: ہاں (کشی، ۱۳۴۸، ص۴۶۳) اسی طرح ایک اور شخص جس نے یہی سوال دہراتے ہوئے کہا: کیا آپ علی بن ابی طالب (ع) کی طرح واجب الاطاعت ہیں؟ نیز آپ نے یہی جواب دیا ہاں میں اسی طرح واجب الاطاعت ہوں(کلینی، (۱۳۶۳ش)، ج۱، ص۱۸۷) لیکن ساتھ ساتھ امامؑ اپنے چاہنے والوں سے فرماتے تھے کہ تقوا اختیار کرو اور ہماری احادیث کو ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو۔

اسی طرح جب مأمون نے امامؑ سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔

امام رضا سے منسوب کتابیں

امام رضاؑ سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے علوم و معارف کے مسائل سمجھنے کے لئے جو سوالات آپ سے پوچھے تھے جن کے جوابات کتب حدیث میں نقل ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے ان حدیثوں اور جوابات کو اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں جمع کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض تالیفات اور کتب بھی آپ سے منسوب کی گئی ہیں گوکہ اس انتساب کے اثبات کے لئے کافی و شافی دلیلوں کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے بعض تالیفات کا انتساب ثابت کرنا ممکن نہیں ہے جیسے:

  • فقہ الرضا: علماء و محققین نے امام رضاؑ سے اس کتاب کے انتساب کی صحت تسلیم نہیں کی ہے۔
  • رسالہ الذہبیہ :امام رضاؑ سے منسوب ہے جس کا موضوع علم طبّ ہے۔ مروی ہے کہ امامؑ نے یہ رسالہ سنہ 201 ہجری میں لکھ کر مأمون کے لئے بھجوایا اور مأمون نے رسالے کی اہمیت ظاہر کرنے کی غرض سے ہدایت کی کہ اسے سونے کے پانی سے تحریر کیا جائے اور اسے دارالحکمہ کے خزانے میں رکھا جائے اور اسی بنا پر اسے رسالہ ذہبیہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے علماء نے اس رسالے پر شرحیں لکھی ہیں۔
  • صحیفہ الرضا:امام رضاؑ سے منسوب دیگر تالیفات میں سے ہے جو فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ہے گوکہ علماء کے نزدیک یہ انتساب ثابت نہيں ہو سکا ہے۔
  • محض الاسلام و شرائع الدین: جسے امام رضاؑ سے منسوب کیا گیا ہے لیکن بظاہر امامؑ سے اس کا انتساب قابل اعتماد نہیں ہے۔

اصحاب

بعض اہل قلم نے 367 افراد کو آپ کے اصحاب اور راویان حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

  • یونس بن عبدالرحمن
  • موفق (خادم امام رضا)
  • علی بن مہزیار
  • صفوان بن یحیی
  • محمد بن سنان
  • زکریا بن آدم
  • ریان بن صلت
  • دعبل بن علی

اہل سنت کے یہاں امام کا مقام

اہل‌ سنت کے بعض بزرگوں نے امام رضاؑ کے نسب اور علم و فضل کی تعریف اور زیارت کیلئے حرم امام رضاؑ جایا کرتے تھے۔ ابن حبان کہتے تھے کہ وہ کئی دفعہ مشہد میں علی بن موسی کی زیارت کیلئے گئے اور آپ سے توسل کے نتیجے میں ان کی مشکلات برطرف ہوئی ہیں۔ اسی طرح ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر بن خزیمہ (جو اہل حدیث کا امام ہے) اور ابو علی ثقفی اہل سنت کے دیگر بزرگان کے ساتھ امام رضاؑ کی زیارت کو گئے ہیں۔ راوی (جس نے خود اس حکایت کو ابن حجر کیلئے بیان کیا) کہتے ہیں:

ابوبکر بن خزیمہ نے اس قدر اس روضے کی تعظیم اور وہاں پر راز و نیاز اور فروتنی کا اظہار کیا کہ ہم سب حیران ہو گئے۔

ابن نجار امام رضاؑ کے علمی کمالات اور دینی بصیرت کے حوالے سے کہتے ہیں:

آپؑ علم اور فہم دین میں ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • اہل بیت
  • ائمۂ شیعہ
  • امام موسی کاظمؑ
  • امامت
  • شیعہ

مزید مطالعہ

  • التحفۃ الرضويۃ، سید اولاد حیدر فوق بلگرامی
مذہب

فاطمہ بنت موسی بن جعفر، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور، امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ آپ اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملنے کے لئے مدینہ سے ایران کے سفر پر نکلے؛ لیکن راستے میں بیماری کی وجہ سے قم میں آپ کی وفات ہوگئی اور وہیں پر دفن ہیں۔ تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی منجملہ تاریخ پیدائش و وفات کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہؑ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے اور آپ کی زیارت کرنے والوں کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صنف نسواں میں صرف آپ ہی کے لئے ائمہؑ معصومین کی طرف سے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔

حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب ریاحین الشریعہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہماری دسترس میں نہیں ہیں؛ جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔

حسب و نسب

فاطمہ معصومہ امام کاظمؑ کی بیٹی اور امام رضاؑ کی بہن ہیں۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں امام موسی کاظمؑ کی دو بیٹیاں فاطمہ کبرا اور فاطمہ صغرا کا نام ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ذکر نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی بیٹی حضرت معصومہ ہیں۔ ساتویں صدی کے اہل سنت عالم ابن‌ جوزی نے بھی لکھا ہے کہ امام کاظمؑ کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے؛ لیکن انہوں نے بھی نہیں بتایا ہے کہ حضرت معصومہ ان میں سے کون سی ہیں۔ محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضاؑ کی والدہ بھی ہیں۔

تاریخ ولادت و وفات

قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت اور وفات کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن آیت اللہ استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں ان تاریخوں ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب "نور الآفاق” ہے جو سنہ 1344 ہجری میں نشر ہوئی ہے۔ اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔

بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ شہاب‌ الدین مرعشی، آیت اللہ موسی شبیری زنجانی، رضا استادی و ذبیح‌ اللہ محلاتی قابل ذکر ہیں۔

القاب

معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ معصومہ امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔ محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ امام رضاؑ نے انہیں معصومہ کا نام دیا ہے۔

آج کل انہیں کریمہ اہل بیت بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لقب آیت‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کے دیکھے ہوئے اس خواب سے مستند ہے جس میں ائمہؑ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیتؑ سے تعبیر کیا ہے۔

شادی

ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں؛ اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی نہیں کی ہے اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا کیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔ اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظم نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی؛ لیکن اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔

ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات

تفصیلی مضمون: بیت النور

تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ نے سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کا سفر کیا۔ اس وقت امام رضا کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امامؑ خراسان میں تھے؛ لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئیں۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ میں مسموم اور شہید کیا گیا ہے۔

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم چلنے کے لئے کہا۔ دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں اس کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پر قیام کیا اور 17 دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔

شیعوں کے یہاں مقام و منزلت

شیعہ علماء آپ کے لئے بہت عظیم مقام کے قائل ہیں اور وہ آپ کی منزلت و زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہے: علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کی بنا پر بہشت میں داخل ہو نگے۔ ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔

شوشتری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں کہ موسی بن جعفر ؑ کی اولاد میں امام رضاؑ کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہؑ کا ہم رتبہ نہیں ہے۔ شیخ عباس قمی کہتے ہیں: آپؑ امام موسی کاظمؑ کی بیٹیوں میں سب سے افضل ہیں۔

امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول روایات کے مطابق حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دی گئی ہے۔ البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔

زیارت نامہ

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد، بحار الانوار اور تحفۃ الزائر میں جناب فاطمہ معصومہؑ کے لئے امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔ البتہ انہوں نے کتاب تحفۃ الزائر میں زیارت نامہ نقل کرنے کے بعد احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس روایت میں زیارت نامے کا متن امام کے کلام کا حصہ نہ ہو بلکہ اسے علماء نے اضافہ کیا ہو۔ نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ و حضرت فاطمہ معصومہ تنہا وہ خواتین ہیں جن کے سلسلہ میں ماثور زیارت نامہ (وہ زیارت نامہ جس کی سند معصومین علیہم السلام تک منتہی ہو) ذکر ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ

تفصیلی مضمون: آستانہ حضرت معصومہ (ع)

حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر پر شروع میں ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔ آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضاؑ کے بعد سب بڑی بارگاہ ہے۔ حضرت معصومہ کا آستانہ، حرم، دیگر عمارتیں، موقوفات اور اداری دفاتر پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قم شہر میں ہی ہیں۔

حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس

سنہ 2005 ء میں حضرت فاطمہ معصومہ کی شخصیت اور قم کی ثقافتی منزلت کے بارے میں ایک کانفرنس آستانہ حضرت معصومہ کے متولی علی اکبر خمینی مسعودی کے حکم سے منعقد ہوئی یہ کانفرنس حرم حضرت معصومہ میں منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے مراجع تقلید نے خطاب کیا۔

اس کانفرنس کے سیکریٹری احمد عابدی کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت معصومہ، حرم حضرت معصومہ، حوزہ علمیہ قم، قم اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر 54 کتابیں لکھی گئیں۔

مذہب

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں استخارہ کی دعا اسی تسلسل کے ساتھ سکھائی اور فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی مشکل میں ہو تو دو رکعت نوافل پڑھے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثِمِرِي
"اے اللہ میں تیرے علم سے بھلائی کا طالب ہوں، تیری قدرت سے میں تیری قدرت اور تیری رحمت کا طالب ہوں، بے شک تیرے پاس وہ طاقت ہے جو میرے پاس نہیں، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیب کو جانتا ہے۔ تیرے علم میں اگر یہ کام میرے لیے اس دنیا اور آخرت میں اچھا ہے تو اسے میرے لیے چھوڑ دے، مجھے اس میں برکت عطا فرما اور اگر یہ میرے لیے برا ہے تو اسے مجھ سے دور رکھ اور مجھے عطا فرما۔ کوئی بھی تقدیر جو مجھے خوش کر دے”۔

(مشق)
پڑھتے وقت، ہاتھ پر موجود معاملے کے بارے میں سوچیں۔

مذہب

مجھے یحییٰ نے مالک سے عمرو بن یحییٰ المزنی سے روایت کیا کہ ان کے والد نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے، پانچ اووق (خالص چاندی کے دو سو درہم) سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اووق (تین سو صاع) سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
(17.1.2) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی سسکا الانصاری نے المزنی سے اپنے والد سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ عوسق سے کم کھجور میں زکوٰۃ نہیں، پانچ اووق سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں اور پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں۔
(17.1.3) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سنا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے دمشق میں اپنے گورنر کو زکوٰۃ کے بارے میں لکھا تھا کہ "زکوٰۃ جوتی ہوئی زمین کی پیداوار، سونے اور چاندی پر ادا کی جاتی ہے۔ مویشیوں.” مالک نے کہا کہ زکوٰۃ صرف تین چیزوں پر دی جاتی ہے: ہل کی ہوئی زمین، سونا چاندی اور مویشی۔
(17.2.4) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ محمد بن عقبہ، عز زبیر کے مولا نے القاسم بن محمد سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کے غلام کی طرف سے اس کی آزادی خریدنے کے لیے دی گئی بڑی رقم پر کوئی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟ القاسم نے کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی کے مال سے زکوٰۃ نہیں لیتے تھے جب تک کہ وہ ایک سال تک ان کے قبضے میں نہ رہے۔ القاسم بن محمد نے آگے کہا، "جب ابوبکر مردوں کو ان کے بھتہ دیتے تھے تو وہ ان سے پوچھتے تھے، ‘کیا تمہارے پاس کوئی جائیداد ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہے؟’ اگر وہ کہتے کہ ہاں، تو وہ اس مال کی زکوٰۃ ان کے الاؤنسز میں سے لے گا، اگر وہ کہتے ہیں کہ نہیں، تو وہ ان میں سے کچھ کاٹے بغیر ان کے بھتہ ان کے حوالے کر دے گا۔
مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، عروہ بن حسین سے، عائشہ بنت قدامہ سے، ان کے والد نے بیان کیا کہ جب میں عثمان بن عفان کے پاس اپنا وظیفہ لینے آیا کرتا تھا تو وہ مجھ سے پوچھتے تھے، کیا تمہارے پاس کوئی ہے؟ اگر میں کہوں کہ ہاں، تو وہ اس جائیداد کی زکوٰۃ میرے الاؤنس میں سے کاٹ لے گا، اور اگر میں کہوں کہ نہیں، تو وہ مجھے میرا الاؤنس (پورا) دے گا۔
(17.2.6) مجھے یحییٰ نے مالک سے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ مال پر زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔
(17.2.7) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا کہ سب سے پہلے جس نے زکوٰۃ کو زکوٰۃ سے منہا کیا وہ معاویہ بن ابی سفیان تھا۔ (یعنی کٹوتی خود بخود کی جا رہی ہے)۔ مالک نے کہا کہ ہمارے ہاں سنت متفق علیہ ہے کہ بیس دینار پر زکوٰۃ اسی طرح ادا کی جائے جس طرح دو سو درہم (چاندی) پر ادا کی جاتی ہے۔ مالک نے کہا کہ واضح طور پر بیس دینار (وزن میں) سے کم سونے پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگر اس میں اتنا اضافہ ہو جائے کہ وزن میں پورے بیس دینار تک پہنچ جائے تو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح (چاندی) جو واضح طور پر دو سو درہم (وزن میں) سے کم ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، لیکن اگر اس میں اتنا اضافہ ہو جائے کہ وزن میں پورے دو سو درہم تک پہنچ جائے تو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اگر یہ پورے وزن سے گزر جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے، چاہے وہ دینار ہو یا درہم۔” (یعنی زکوٰۃ کا اندازہ سکوں کی تعداد سے نہیں بلکہ وزن سے ہوتا ہے۔) مالک رحمہ اللہ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں کہا جس کے وزن کے اعتبار سے ایک سو ساٹھ درہم تھے اور اس کے شہر میں شرح مبادلہ آٹھ درہم ایک دینار تھا، زکوٰۃ نہیں دینا پڑتی تھی۔ زکوٰۃ صرف بیس دینار سونا یا دو سو درہم پر ادا ہوتی تھی۔ مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لین دین سے پانچ دینار حاصل کیے یا کسی اور طریقے سے جو اس نے تجارت میں لگائے تو جیسے ہی یہ بڑھ کر زکوٰۃ کی رقم ہو جائے اور پھر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ اس پر اگرچہ زکوٰۃ کی رقم ایک دن پہلے یا سال گزرنے کے ایک دن بعد پہنچ گئی ہو۔ پھر زکوٰۃ لینے کے دن سے لے کر ایک سال گزر جانے تک اس پر زکوٰۃ نہیں تھی۔ مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح ایک شخص کے پاس دس دینار تھے جو اس نے تجارت میں لگائے اور ایک سال گزرنے تک بیس دینار تک پہنچ گئے کہ اس نے اسی وقت ان کی زکوٰۃ ادا کی اور انتظار نہ کیا۔ ان پر ایک سال گزر چکا تھا، اس دن سے جب وہ اصل میں زکوٰۃ کی رقم کو پہنچ گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اصل دینار پر ایک سال گزر چکا تھا اور اب ان میں سے بیس اس کے پاس تھے۔ اس کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے کے دن سے لے کر ان پر ایک سال گزر جانے تک زکوٰۃ نہیں تھی۔ مالک نے کہا: غلاموں کو ملازمت پر رکھنے سے حاصل ہونے والی آمدنی، جائیداد کے کرایہ اور غلام کی آزادی خریدنے پر ملنے والی رقوم کے بارے میں (یہاں مدینہ میں) جس بات پر اتفاق کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، جس دن سے مالک اس پر قبضہ کرتا ہے اس دن سے جب تک مالک اس پر قبضہ کرتا ہے اس دن سے لے کر ایک سال گزر جاتا ہے۔” ملک نے کہا، سونے اور چاندی کے معاملے میں

جو کہ دو شریک مالکان کے درمیان مشترک تھی، وہ زکوٰۃ جس کا حصہ بیس دینار سونا یا دو سو درہم چاندی تک پہنچتا ہے اس پر واجب ہے، اور یہ کہ جس کے حصے میں اس زکوٰۃ کی رقم کم ہو اس پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں۔ اگر تمام حصص زکوٰۃ کی رقم تک پہنچ جائیں اور حصص برابر تقسیم نہ ہوں تو ہر آدمی سے اس کے حصے کے حساب سے زکوٰۃ لی جاتی ہے۔ یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب ان میں سے ہر ایک کا حصہ زکوٰۃ کی رقم تک پہنچ جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پانچ اوق چاندی سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ملک نے تبصرہ کیا، "میں نے اس معاملے کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس میں سے میں اسے سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔” مالک نے کہا کہ جب کسی آدمی کے پاس سونا اور چاندی مختلف لوگوں کے درمیان منتشر ہو جائے تو وہ ان سب کو ملا کر جمع کر کے کل رقم پر زکوٰۃ نکال لے۔ مالک نے کہا کہ جو شخص سونا یا چاندی حاصل کرتا ہے اس پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ اس کے حاصل ہونے کے دن سے ایک سال نہ گزر جائے۔
(17.3.8) مجھے یحییٰ نے مالک سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے ایک سے زائد ذرائع سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے القبالیہ کی بارودی سرنگیں تفویض فرمائیں، جو کہ قابلیہ میں ہے۔ الفور کی سمت بلال بن حارث المزنی کی طرف ہے اور ان سے آج تک زکوٰۃ کے سوا کچھ نہیں لیا گیا۔ مالک نے کہا: میرے خیال میں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کانوں سے جو کچھ نکلتا ہے اس سے کوئی چیز نہیں لی جاتی جب تک کہ ان میں سے جو چیز نکلتی ہے اس کی قیمت بیس سونا دینار یا دو سو درہم تک پہنچ جاتی ہے، جب اس مقدار تک پہنچ جائے تو زکوٰۃ ہے۔ جہاں وہ جگہ پر ہو اس کی ادائیگی کریں، اس پر کسی بھی چیز پر زکوٰۃ اس حساب سے لگائی جاتی ہے کہ جب تک کان سے سپلائی جاری رہے تو اس کا کتنا حصہ ہے۔ زیادہ قابل حصول ہو جاتا ہے، نئی سپلائی کا معاملہ پہلے کی طرح ہی کیا جاتا ہے، اور اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی اسی طرح شروع کی جاتی ہے جس طرح پہلے شروع کی گئی تھی۔ طریقہ کار دونوں پر لاگو ہوتا ہے. جس دن کان سے نکلتی ہے اس میں سے زکوٰۃ ایک سال کا انتظار کیے بغیر نکالی جاتی ہے، جس طرح فصل کا دسواں حصہ کٹائی کے وقت لیا جاتا ہے اور اس پر سال گزرنے کا انتظار کیے بغیر۔”
مجھ سے یحییٰ نے مالک سے ابن شہاب نے سعید بن المسیب سے اور ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دفن خزانے پر پانچواں ٹیکس ہے۔” مالک نے کہا کہ جس موقف پر ہمارا اتفاق ہے اور جس کا میں نے اہل علم کو ذکر کرتے ہوئے سنا ہے، وہ یہ ہے کہ رکاز سے مراد وہ خزانہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں دفن کیا گیا تھا، جب تک نہ سرمائے کی ضرورت ہو اور نہ خرچ۔ اس کی وصولی میں بڑی مشقت یا تکلیف ہو، اگر سرمائے کی ضرورت ہو یا بڑی مشقت لگ جائے، یا ایک موقع پر نشان لگ جائے اور دوسری جگہ چھوٹ جائے تو یہ رکاز نہیں ہے۔”
(17.5.10) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے عبدالرحمٰن بن القاسم سے اپنے والد سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا یتیم بیٹیوں کی کفالت کرتی تھیں۔ اس کے گھر میں اس کے بھائی کا۔ ان کے پاس زیورات تھے (جو وہ پہنتے تھے) اور وہ ان کے اس زیور سے زکوٰۃ نہیں لیتی تھیں۔
(17.5.11) مجھے یحییٰ نے مالک سے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کے زیورات سے آراستہ کیا کرتے تھے اور ان کے زیورات سے زکوٰۃ نہیں لیتے تھے۔ مالک نے کہا کہ جس کے پاس سونا یا چاندی یا سونے چاندی کے زیورات ہیں جو پہننے کے لیے استعمال نہیں ہوتے تو ہر سال اس کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، اس کا وزن کیا جائے اور چالیسواں حصہ لیا جائے، الا یہ کہ اس میں بیس دینار کی کمی ہو۔ سونا یا دو سو درہم چاندی، ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کی جاتی ہے جب زیورات پہننے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے رکھے جائیں، سونے اور چاندی کے ٹکڑے یا ٹوٹے ہوئے زیورات جن کو مالک پہننے کا ارادہ رکھتا ہو۔ مال کی وہی حیثیت ہے جو ان کے مالک کے ذریعہ پہنی جاتی ہے – مالک کی طرف سے ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔” مالک نے کہا: موتی، کستوری یا عنبر پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
(17.6.12) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ یتیموں کے مال سے تجارت کرو پھر اسے زکوٰۃ سے نہیں کھایا جائے گا۔
(17.6.13) مجھے یحییٰ نے مالک سے عبدالرحمٰن بن القاسم سے روایت کیا کہ ان کے والد نے کہا کہ عائشہ میری اور میرے ایک بھائی کی دیکھ بھال کرتی تھیں – ہم یتیم تھے – ان کے گھر میں، اور وہ ہمارے مال سے زکوٰۃ لے گی۔
(17.6.14) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر میں موجود یتیموں کا مال ہر ایک کو دے دیتی تھیں۔ اسے اپنی طرف سے تجارت کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
(17.6.15) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ یحییٰ بن سعید نے اپنے بھائی کے بیٹوں کی طرف سے کچھ جائیداد خریدی جو اس کے گھر میں یتیم تھے، اور یہ کہ بعد میں وہ جائیداد بیچ دی گئی۔

بہت زیادہ منافع کے لیے rds. ملک نے کہا، "یتیموں کی جائیداد کو ان کی طرف سے تجارت کے لیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر ان کے ذمہ دار کی اجازت ہو۔
(17.7.16) مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا کہ مالک نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی فوت ہو جائے اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو اس کے مال کے تیسرے حصے سے زکوٰۃ لی جاتی ہے (جس سے وہ وصیت کر سکتا ہے)۔ اور تیسرے سے تجاوز نہیں کیا جاتا اور زکوٰۃ کو وصیت پر ترجیح دی جاتی ہے، میرے خیال میں یہ وہی ہے جیسے اس پر قرض ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسے وصیت پر ترجیح دی جائے۔” مالک نے مزید کہا: "یہ اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب میت نے زکوٰۃ کی کٹوتی کی درخواست کی ہو، اگر میت نے زکوٰۃ کی کٹوتی کا مطالبہ نہیں کیا ہے لیکن اس کے اہل خانہ نے ایسا کیا ہے تو یہ اچھی بات ہے، لیکن اگر وہ نہ کریں تو یہ ان پر واجب نہیں ہے۔ کرو.” مالک نے مزید کہا: "سنت جس پر ہم سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کسی ایسے شخص پر واجب نہیں ہے جو وراثت میں قرض (یعنی وہ مال جو میت پر واجب الادا تھا)، یا سامان، یا مکان، یا کسی غلام یا غلام پر واجب نہیں ہوتا۔ اس نے جو کچھ بیچا (یعنی غلام یا مکان جو کہ زکوٰۃ نہیں ہے) یا اس کے وراثت میں ملنے والی قیمت پر، جس دن سے اس نے چیزیں بیچی ہیں یا ان پر قبضہ کیا ہے ایک سال گزر گیا ہے۔” مالک نے کہا کہ ہمارے ہاں سنت یہ ہے کہ وراثت میں ملنے والے مال کی زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔
مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، ابن شہاب سے، سائب بن یزید سے، عثمان بن عفان کہا کرتے تھے کہ یہ مہینہ تمہارے لیے زکوٰۃ ادا کرنے کا ہے، اگر تم پر کوئی قرض ہے تو ادا کرو۔ تاکہ تم اپنے مال کی چھان بین کر سکو اور اس میں سے زکوٰۃ لے لو۔”
(17.8.18) مجھے یحییٰ نے مالک سے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے جب اس مال کے بارے میں لکھا جو ان کے ایک گورنر نے ناحق جمع کیا تھا تو حکم دیا کہ اسے اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے اور زکوٰۃ دی جائے۔ گزر چکے سالوں کے لئے اس سے لیا جائے گا. پھر تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے حکم پر یہ پیغام دیا کہ زکوٰۃ اس سے صرف ایک بار لی جائے کیونکہ یہ مال ہاتھ میں نہیں ہے۔
(17.8.19) مجھے یحییٰ نے مالک سے یزید بن خصیفہ سے روایت کیا کہ انہوں نے سلیمان بن یسار سے پوچھا کہ کیا اس شخص پر زکوٰۃ واجب ہے جس کے پاس مال تھا لیکن اس پر اتنی ہی رقم کا قرض بھی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں؟ ” مالک نے کہا: قرض کے بارے میں جس موقف پر ہمارا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ قرض دینے والا اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا جب تک کہ وہ اسے واپس نہ لے لے، اگرچہ قرض لینے والے کے جمع کرنے سے پہلے کئی سال تک قرض لینے والے کے پاس رہے، قرض دینے والے کو صرف ایک بار اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، اگر وہ قرض کی وہ رقم جمع کرے جو زکوٰۃ نہیں ہے اور اس کے پاس کوئی اور مال ہے جو کہ زکوٰۃ ہے، تو جو قرض اس نے جمع کیا ہے وہ اس کے باقی مال میں شامل ہوجائے گا۔ کل رقم پر زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔” مالک نے مزید کہا، "اگر اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی تیار رقم نہیں ہے جو اس نے اپنے قرض سے جمع کی ہے، اور وہ زکوٰۃ کی رقم تک نہیں پہنچتی ہے، تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، تاہم اسے ضروری ہے کہ اس کا ریکارڈ رکھیں۔ جو رقم اس نے جمع کی ہے اور اگر بعد میں اس نے دوسری رقم جمع کر لی جو اس نے پہلے سے جمع کی ہوئی رقم میں شامل کر دی تو زکوٰۃ نافذ ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔ مالک نے مزید کہا: "اس پہلی رقم پر زکوٰۃ واجب ہے، اس کے ساتھ اس نے اپنے اوپر واجب الادا قرض میں سے جو مزید جمع کیا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس نے جو کچھ پہلے جمع کیا تھا اسے استعمال کیا ہے یا نہیں۔ یا دو سو درہم چاندی اس کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور جو چیز بھی واپس لیتا ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے، چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی رقم کے حساب سے۔” مالک نے کہا: جو چیز ظاہر کرتی ہے کہ زکوٰۃ صرف ایک بار لی جاتی ہے اس قرض کی ادائیگی سے پہلے جو کچھ سال تک ہاتھ سے باہر ہو وہ یہ ہے کہ اگر مال فروخت کرنے سے پہلے کچھ سال تک تجارتی مقاصد کے لیے آدمی کے پاس رہتا ہے تو اسے صرف زکوٰۃ دینا ہوگی۔ ان کی قیمتوں کی زکوٰۃ ایک بار ادا کریں، اس لیے کہ جس پر قرض واجب الادا ہے، یا مال کا مالک ہے، اسے قرض یا مال کی زکوٰۃ کسی اور چیز سے نہیں لینی چاہیے، کیونکہ زکوٰۃ کسی چیز کی ہی لی جاتی ہے۔ خود چیز سے، اور کسی اور چیز سے نہیں۔” مالک رحمہ اللہ نے کہا: ہمارا مؤقف کسی ایسے شخص کے بارے میں ہے جس پر قرض واجب الادا ہے اور اس کے پاس ایسا سامان ہے جو قرض ادا کرنے کے قابل ہے اور اس کے پاس تیار رقم بھی ہے جو زکوٰۃ کے لائق ہے، یہ ہے کہ وہ تیار رقم پر زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ اگر اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے صرف اتنا سامان اور تیار رقم ہو تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ جو قرض اس پر واجب ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔
(17.9.20) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے کہ زریق بن حیان جو الولید، سلیمان اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں مصر کے انچارج تھے، انہوں نے عمر بن عبد العزیز کا ذکر کیا۔ العزیز نے اسے لکھا تھا کہ ’’ان مسلمانوں کا اندازہ لگائیں جن سے آپ ملتے ہیں اور ان کے مال اور تجارت میں سے جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ لیتے ہیں۔

ہر چالیس دینار کے بدلے ایک دینار ان کے ذمہ ہے اور اسی تناسب سے جو اس سے کم ہو بیس دینار تک اور اگر اس میں سے ایک تہائی دینار کم ہو تو چھوڑ دو اور کچھ نہ لو۔ اس سے. جہاں تک اہل کتاب کا تعلق ہے جو تم کو ملے تو ان کے مال میں سے ہر بیس دینار کے بدلے ایک دینار لے لو اور جو اس سے کم ہو اس سے دس دینار تک لے لو اور اگر ایک تہائی کم ہو تو۔ ایک دینار چھوڑ دو اور اس میں سے کچھ نہ لو۔ اگلے سال اسی وقت تک تم نے جو کچھ ان سے لیا ہے اس کی رسید انہیں دے دو۔‘‘ مالک نے کہا: ’’ہمارے درمیان (مدینہ میں) ان سامانوں کے بارے میں جو تجارتی مقاصد کے لیے چل رہے ہیں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زکوٰۃ ادا کرے۔ اور پھر اس سے مال خریدے، خواہ کپڑا، غلام یا اس جیسی کوئی چیز، اور پھر ان پر ایک سال گزرنے سے پہلے بیچ ڈالے، تو اس مال کی زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں کرتا جب تک کہ اس پر زکوٰۃ دینے کے دن سے ایک سال نہ گزر جائے۔ یہ. کسی مال کی زکوٰۃ نہیں ہے اگر وہ اسے کچھ سال تک فروخت نہ کرے، اور اگر لمبے عرصے تک اپنے پاس رکھے تب بھی اس پر صرف ایک بار زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی جب وہ اسے بیچے”۔ آپ نے فرمایا: ہمارے درمیان اس آدمی کا مقام ہے جو سونے یا چاندی کو گندم، کھجور یا کوئی بھی چیز خرید کر تجارت کے لیے استعمال کرتا ہے اور اسے اس وقت تک اپنے پاس رکھتا ہے جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گزر جائے اور پھر اسے فروخت کر دے تو اس پر صرف زکوٰۃ واجب ہے۔ اس پر اگر اور جب وہ اسے بیچے، اگر قیمت زکوٰۃ کی رقم تک پہنچ جائے۔ اس لیے یہ کھیتی کی فصل جیسی نہیں ہے جو آدمی اپنی زمین سے کاٹتا ہے، یا وہ کھجور جو وہ اپنی کھجوروں سے کاٹتا ہے۔‘‘ مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’وہ شخص جس کے پاس مال ہے جسے وہ تجارت میں لگاتا ہے، لیکن اسے اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کے لیے قابل زکوٰۃ منافع، سال میں ایک مہینہ مقرر کرتا ہے جب وہ اس کے پاس تجارت کے لیے جو سامان ہے اس کا ذخیرہ کرتا ہے، اور اس کے پاس جو سونا چاندی ہے اسے تیار رقم میں شمار کرتا ہے، اور اگر یہ تمام رقم زکوٰۃ کی رقم پر آجائے تو وہ اس پر زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ مالک نے کہا، "مقام ایک جیسا ہے ان مسلمانوں کا جو تجارت کرتے ہیں اور جو مسلمان نہیں کرتے۔ انہیں کسی ایک سال میں صرف ایک بار زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، چاہے وہ اس سال تجارت کریں یا نہ کریں۔”
(17.10.21) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن دینار نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا کہ پوچھا کنز کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی۔ ”
(17.10.22) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، عبداللہ بن دینار سے، ابوصالح الثمان سے، ابو ہریرہ کہتے تھے کہ جس کے پاس ایسا مال ہو جس کی اس نے زکوٰۃ نہ دی ہو، وہ قیامت کے دن تلاش کرے گا۔ اس کی دولت ایک سفید سر والے سانپ سے مشابہ ہے جس کے ہر گال میں زہر کی تھیلی ہے جو اسے ڈھونڈتا رہے گا یہاں تک کہ اس کے اختیار میں ہو جائے اور کہے گا کہ میں وہ دولت ہوں جسے تم نے چھپا رکھا تھا۔ ”
(17.11.23) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے عمر بن الخطاب کی زکوٰۃ کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھا اور اس میں انہوں نے یہ پایا: "شروع اللہ کے نام سے جو مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔” زکوٰۃ کی کتاب۔ چوبیس اونٹوں یا اس سے کم پر بھیڑ بکریوں کے ساتھ زکوٰۃ دی جاتی ہے، ہر پانچ اونٹوں پر ایک دنبہ۔ اس سے اوپر کی چیز پر پینتیس اونٹوں تک، دوسرے سال کی اونٹنی، اور اگر دوسرے سال اونٹ نہ ہو تو تیسرے سال نر اونٹنی۔ اس سے اوپر کی کسی چیز پر، پینتالیس اونٹوں تک، تیسرے سال میں ایک اونٹنی۔ اس سے اوپر کی کسی چیز پر، ساٹھ اونٹوں تک، چوتھے سال کی اونٹنی جو سیر ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس سے اوپر کی کسی چیز پر، پچھتر اونٹوں تک، پانچویں سال میں ایک اونٹنی۔ اس سے اوپر کی کسی چیز پر، نوے اونٹ تک، تیسرے سال میں دو اونٹنیاں۔ اس سے اوپر کی کسی چیز پر، ایک سو بیس اونٹوں تک، چوتھے سال میں دو اونٹنیاں جو تیار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ اس سے زیادہ اونٹوں کی تعداد پر، ہر چالیس اونٹوں پر، تیسرے سال میں ایک اونٹنی، اور ہر پچاس کے بدلے، چوتھے سال میں ایک اونٹنی۔ بھیڑ بکریاں چرانے پر، اگر وہ چالیس یا اس سے زیادہ ہو جائیں تو ایک سو بیس سر تک، ایک دنبہ۔ اس سے اوپر کی کسی بھی چیز پر، دو سو سر تک، دو دنبیاں۔ اس سے اوپر کی کسی بھی چیز پر، تین سو تک، تین دنبیاں۔ اس سے اوپر کسی بھی چیز پر، ہر سو کے بدلے، ایک دنبہ۔ زکوٰۃ کے لیے مینڈھا نہیں لینا چاہیے۔ اور نہ ہی بوڑھی یا زخمی بھنّی، سوائے اس کے کہ زکوٰۃ لینے والا مناسب سمجھے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے الگ ہونے والوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی جمع ہونے والوں کو الگ کرنا چاہیے۔ جو کچھ دو ساتھیوں سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے درمیان تناسب کے مطابق طے پاتا ہے۔ چاندی پر اگر وہ پانچ اواق (دو سو درہم) تک پہنچ جائے تو چالیسواں ادا کیا جاتا ہے۔”
(17.12.24) مجھے یحییٰ نے مالک سے حمید بن قیس المکی نے طاؤس یمانی سے روایت کیا کہ تیس گایوں میں سے معاذ بن جبل نے دوسرے سال ایک گائے اور چالیس گایوں میں سے ایک گائے تیسرے یا چوتھے سال میں لی۔ سال، اور جب اس سے کم (یعنی تیس گائیں) اس کے پاس لائی گئیں تو اس نے اس میں سے کچھ لینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ نہیں سنا، جب میں آپ سے ملوں گا تو آپ سے پوچھوں گا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پی

معاذ بن جبل کے واپس آنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ یحییٰ نے کہا کہ مالک نے کہا کہ میں نے کسی ایسے شخص کے بارے میں جو سب سے بہتر سنا ہے جس کے پاس دو یا دو سے زیادہ چرواہے ہیں وہ مختلف جگہوں پر ہیں کہ ان کو ایک ساتھ جوڑا جائے اور مالک ان کی زکوٰۃ ادا کرے، یہی صورت حال ہے۔ ایک ایسے شخص کے طور پر جس کے ہاتھ میں سونا اور چاندی مختلف لوگوں کے ہاتھ میں بکھرے ہوئے ہو، اسے چاہیے کہ وہ سب کچھ شامل کر لے اور جتنی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہو اس کی کل رقم ادا کرے۔” یحییٰ کہتے ہیں کہ مالک نے ایک آدمی کے بارے میں کہا کہ جس کے پاس بھیڑ اور بکریاں دونوں تھیں کہ زکوٰۃ کے حساب سے ان کو جمع کر دیا گیا تھا، اور اگر ان دونوں کے درمیان ایک عدد آ جائے جس پر زکوٰۃ واجب ہے تو اس نے ان کی زکوٰۃ ادا کی۔ مالک نے مزید کہا، "ان سب کو بھیڑیں سمجھا جاتا ہے، اور عمر بن الخطاب کی کتاب میں لکھا ہے، ‘بھیڑ اور بکریوں کو چرانے پر، اگر وہ چالیس یا اس سے زیادہ ہو جائیں تو ایک دنبہ’۔ مالک نے کہا کہ اگر بکریوں سے زیادہ بھیڑیں ہوں اور ان کے مالک کو صرف ایک دنبہ دینا ہو تو زکوٰۃ لینے والا بھیڑ سے بھیڑ لیتا ہے اور اگر بکریوں سے زیادہ بکریاں ہوں تو بکریوں سے لیتا ہے۔ بھیڑوں اور بکریوں کی برابر تعداد، وہ جس قسم کی چاہتا ہے اس سے بھیڑ لیتا ہے۔” یحییٰ نے کہا کہ مالک نے کہا کہ اسی طرح عربی اونٹوں اور باختری اونٹوں کو ایک ساتھ ملا کر زکوٰۃ کا اندازہ لگایا جاتا ہے جو مالک کو ادا کرنی پڑتی ہے، وہ سب اونٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اگر باختری اونٹوں سے زیادہ عربی اونٹ ہوں اور صرف مالک۔ ایک اونٹ دینا ہوگا، زکوٰۃ لینے والا اسے عربوں سے لیتا ہے، البتہ اگر زیادہ باختری اونٹ ہوں تو ان سے لے لیتا ہے، اگر دونوں کی تعداد برابر ہو تو جس قسم کا چاہے اونٹ لے لے۔ ” ملک نے کہا، "اسی طرح گائے اور بھینس کو ایک ساتھ ملا کر سب کو مویشی سمجھا جاتا ہے۔ اگر پانی کی بھینس سے زیادہ گائے ہوں اور مالک کو صرف ایک گائے ادا کرنی ہو تو زکوٰۃ لینے والا گائے سے لے لیتا ہے۔ بھینسیں زیادہ ہوں تو وہ ان سے لیتا ہے، اگر دونوں کی تعداد برابر ہو تو جس قسم کی چاہے گائے لے لیتا ہے، لہٰذا اگر زکوٰۃ ضروری ہو تو دونوں قسموں کو ایک جماعت میں لینا شمار کیا جاتا ہے۔” یحییٰ نے کہا کہ مالک نے کہا کہ جس شخص کے پاس مویشی آئے اس کی زکوٰۃ نہیں ہے خواہ اونٹ ہوں یا مویشی یا بھیڑ بکریاں، جب تک کہ اس کے قبضے میں آنے کے دن سے ایک سال نہ گزر جائے۔ مویشیوں کا نصاب۔ (نصاب وہ کم سے کم رقم ہے جس پر زکوٰۃ ادا کی جائے، یا تو اونٹوں کے پانچ سر، یا تیس مویشی، یا چالیس بھیڑ بکری) اگر اس کے پاس اونٹوں کے پانچ سر ہوں یا تیس مویشی، یا چالیس بھیڑیں اور بکریاں اور پھر اس نے اضافی اونٹ یا گائے یا بھیڑ بکریاں تجارت یا تحفہ یا وراثت سے حاصل کیں تو اس پر لازم ہے کہ جب وہ پہلے سے موجود مویشیوں کی زکوٰۃ ادا کرے تو ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔ اگر اس کے حصول پر ایک سال بھی نہ گزرا ہو اور جو اضافی مویشی اس نے حاصل کیے اس کی زکوٰۃ خریدنے سے ایک دن پہلے یا وراثت سے ایک دن پہلے لے لی ہو تو پھر بھی اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے جب وہ اس کے پاس پہلے سے موجود مویشیوں کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔” یحییٰ نے کہا کہ مالک سائی د، "یہ وہی حال ہے جس کے پاس کچھ چاندی ہے جس پر وہ زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر کسی اور سے سامان خریدتا ہے۔ پھر جب وہ ان سامان کو بیچتا ہے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کو ایک دن ان کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے اور دوسرے دن دوسرے آدمی کو بھی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے۔‘‘ مالک رحمہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس کے پاس بھیڑ اور بکریاں تھیں جو ان تک نہ پہنچیں۔ زکوٰۃ کی رقم، اور پھر جس نے زکوٰۃ کی رقم سے زیادہ بکریوں اور بکریوں کی اضافی تعداد خریدی یا وراثت میں حاصل کی، کہ اس کو اپنی تمام بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب تک کہ اس نے نیا مال حاصل کرنے کے دن سے ان پر ایک سال نہ گزر جائے۔ جانور خواہ اس نے خریدے ہوں یا وراثت میں ملے ہوں، اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کے پاس جو بھی مویشی تھے، چاہے وہ اونٹ ہوں، گائے ہوں، یا بھیڑ بکریاں ہوں، ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک نصاب میں شمار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے لیے کوئی ایک قسم کافی نہ ہو۔ اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، یہ نصاب تھا جو مالک کے اضافی مال کی زکوٰۃ کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے وہ مویشی زیادہ ہوں یا چھوٹی۔ گائے، یا بھیڑ بکری، اس کے لیے ہر قسم کی زکوٰۃ واجب ہے، اور پھر وہ کوئی دوسرا اونٹ یا گائے یا بھیڑ یا بکری حاصل کرے تو اسے اس کے باقی جانوروں کے ساتھ شامل کرنا ضروری ہے جب وہ ان کی زکوٰۃ ادا کرے، یحییٰ نے کہا کہ مالک نے کہا: میں نے جو کچھ سنا ہے اس میں سے یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اس آدمی کے معاملے میں جس کے پاس زکوٰۃ کے لیے ضروری جانور نہیں ہے، اگر دو سال کی اونٹنی ہو جو اس کے پاس نہ ہو تو تین سال کی اس کی بجائے نر اونٹ لیا جاتا ہے۔ اگر وہ تین یا چار یا پانچ سال کی اونٹنی ہے جو اس کے پاس نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ مطلوبہ جانور خریدے تاکہ وہ جمع کرنے والے کو واجب الادا ادا کرے۔ اگر مالک کلکٹر کو مساوی قیمت دے تو مجھے یہ پسند نہیں ہے۔‘‘ مالک نے کہا، پانی لے جانے کے لیے استعمال ہونے والے اونٹوں اور پانی کے کام کے لیے استعمال ہونے والے مویشیوں کے بارے میں۔

پہیے یا ہل چلانا، "میری رائے میں ایسے جانور زکوٰۃ کا تعین کرتے وقت شامل ہیں۔”
(17.13.25)  یحییٰ نے کہا کہ مالک نے دو ساتھیوں کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ایک چرواہا، ایک نر جانور، ایک چراگاہ اور ایک پانی دینے کی جگہ میں شریک ہیں تو دونوں شریک ہیں، جب تک کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے مال کا علم ہو۔ اس کے ساتھی سے اگر کوئی شخص اپنی جائیداد اپنے ساتھی کے علاوہ نہیں بتا سکتا تو وہ شریک نہیں ہے، بلکہ شریک مالک ہے” مالک نے کہا: "دونوں شریکوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب تک کہ دونوں نہ ہوں۔ (مویشیوں کی) زکوٰۃ کی رقم ہے، مثال کے طور پر اگر کسی شریک کے پاس چالیس یا اس سے زیادہ بھیڑیں اور بکریاں ہوں اور دوسرے کے پاس چالیس سے کم بھیڑیں اور بکریاں ہوں تو جس کے پاس چالیس ہیں اس پر زکوٰۃ واجب ہے اور جس کے پاس ہے۔ اگر ان دونوں کے پاس (مویشیوں کی) زکوٰۃ کی رقم ہے تو ان دونوں کا حساب ایک ساتھ کیا جائے گا (یعنی ریوڑ ایک ہی ہے) اور ان دونوں کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ یا اس سے کم کہ اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور دوسرے پر چالیس یا اس سے زیادہ ہیں تو وہ شریک ہیں۔ کھاتا ہے، اور ہر ایک اپنے جانوروں کی تعداد کے مطابق اپنا حصہ ادا کرتا ہے – ایک ہزار والے سے اتنا اور چالیس والے سے اتنا۔ مالک نے کہا کہ اونٹوں میں دو شریک وہی ہیں جیسے بھیڑ بکریوں میں دو شریک ہیں اور زکوٰۃ کے مقاصد کے لیے اگر ان میں سے ہر ایک کے پاس زکوٰۃ کی رقم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹوں کے پانچ سروں سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: بھیڑ بکریاں چرانے پر، اگر وہ چالیس یا اس سے زیادہ ہوں۔ ایک بہن یحییٰ نے کہا کہ ملک نے کہا، "میں نے اس معاملے کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس میں سے یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔” مالک نے کہا کہ جب عمر بن الخطاب نے کہا کہ "جدا ہونے والوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی جمع ہونے والوں کو زکوٰۃ ادا کرنے سے بچنے کے لئے الگ نہیں ہونا چاہئے” تو ان کا مطلب مویشیوں کے مالک تھے۔ مالک نے کہا کہ اس کا مطلب کیا تھا جب اس نے کہا کہ ‘جو الگ ہو گئے ہیں انہیں اکٹھا نہیں کرنا چاہیے’ مثال کے طور پر یہ ہے کہ تین آدمیوں کا ایک گروہ ہے جن میں سے ہر ایک کے پاس چالیس بھیڑیں اور بکریاں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو اس طرح کرنا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب زکوٰۃ لینے والا اپنے راستے پر ہوتا ہے تو وہ اپنے بھیڑ بکریوں کو اکٹھا کرتے ہیں تاکہ ان کے درمیان صرف ایک بکری کا مقروض ہو، اس سے ان کو منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اور نہ ہی جمع ہونے والوں کو ہونا چاہیے۔ مثلاً دو ساتھی ہیں، جن میں سے ہر ایک کے پاس ایک سو ایک بھیڑ اور بکریاں ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کو تین دنبیاں ادا کرنی ہوں گی، پھر جب زکوٰۃ لینے والا اپنے راستے پر ہوتا ہے تو وہ الگ ہوجاتے ہیں۔ اپنے بھیڑ بکریوں کو اُٹھاتے ہیں تاکہ ہر ایک کو صرف ایک دنبہ ادا کرنا پڑے، ایسا کرنے سے ان کو منع کیا گیا ہے، اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے الگ ہونے والوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی جمع ہونے والوں کو الگ کرنا چاہیے۔ ملک نے کہا کہ میں نے اس معاملے کے بارے میں یہی سنا ہے۔
(17.14.26) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے ثور بن زید دلی سے، عبداللہ بن سفیان ثقفی کے بیٹے سے اپنے دادا سفیان بن عبداللہ سے بیان کیا کہ عمر بن الخطاب نے انہیں ایک مرتبہ زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (زکوٰۃ کا تعین کرتے وقت) سخل کو شامل کرتے تھے، اور وہ کہتے تھے، "کیا تم صخل کو شامل کرتے ہو حالانکہ تم انہیں (ادائیگی کے طور پر) نہیں لیتے؟” وہ عمر بن الخطاب کے پاس واپس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا تو عمر نے کہا: ہاں، تم میں ایک صخلہ شامل ہے جسے چرواہا لے جاتا ہے، لیکن تم اسے نہیں لیتے، نہ عقول لیتے ہو، نہ ربا، یا makhid، یا نر بھیڑ اور بکریوں کو ان کے دوسرے اور تیسرے سال میں، اور یہ بھیڑوں اور بکریوں کے بچوں اور ان میں سے بہترین کے درمیان ایک مناسب سمجھوتہ ہے۔” مالک نے کہا، "سخلہ ایک نوزائیدہ بھیڑ یا بچہ ہے، ایک ربا ایک ماں ہے جو اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتی ہے، ایک ماخد ایک حاملہ بھیڑ یا بکری ہے، اور عقول ایک بھیڑ یا بکری ہے جسے گوشت کے لئے موٹا کیا جاتا ہے.” مالک رحمہ اللہ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں کہا جس کے پاس بھیڑ اور بکریاں تھیں جن پر اس پر زکوٰۃ نہیں تھی لیکن جو زکوٰۃ لینے والے کے آنے سے ایک دن پہلے پیدائشی طور پر بڑھ کر قابل زکوٰۃ ہو گئی کہ اگر بھیڑ بکریوں کی تعداد اس کے ساتھ ان کی (نوزائیدہ) اولاد بھی زکوٰۃ کی رقم تک پہنچ جائے تو آدمی کو ان کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، اس لیے کہ بھیڑ بکریوں کی اولاد بھی ریوڑ کا حصہ ہے، یہ صورت حال ایسی نہیں ہے کہ جب کوئی شخص بھیڑ خرید کر حاصل کرتا ہے۔ یا ان کو دیا جائے یا ان کا وارث بنا دیا جائے، بلکہ یہ ایسا ہے کہ جب وہ سامان فروخت کیا جائے جس کی قیمت زکوٰۃ کی رقم میں نہیں آتی ہے، اور اس سے جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ زکوٰۃ کی رقم میں آتا ہے، تو مالک کو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ اس کے منافع اور اصل سرمایہ دونوں پر، اگر اس کا منافع موقع کا حصول یا وراثت ہوتا تو اسے اس کی زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہ ہوتی جب تک کہ اسے حاصل کرنے یا وراثت میں ملنے کے دن سے ایک سال نہ گزر جائے۔ ” مالک نے کہا کہ بھیڑ بکریوں کے بچے ریوڑ کا حصہ ہیں جس طرح مال سے نفع حاصل کرنا اس مال کا حصہ ہے۔

ایک فرق یہ ہے کہ جب کسی شخص کے پاس سونا چاندی کی زکوٰۃ کی رقم ہو اور پھر اس سے زیادہ مال حاصل کر لے تو اس نے جو مال حاصل کیا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے اور جب وہ اپنی اصل کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں دیتا۔ دولت لیکن اس وقت تک انتظار کرتا ہے جب تک کہ اس نے حاصل کیے دن سے جو کچھ حاصل کیا ہے اس پر ایک سال گزر جائے۔ جب کہ جس آدمی کے پاس بھیڑ بکریوں یا مویشی یا اونٹ کی زکوٰۃ کی رقم ہو اور پھر وہ دوسرا اونٹ، گائے، بھیڑ یا بکری حاصل کرے تو اس کی زکوٰۃ اسی وقت ادا کرتا ہے جس طرح وہ اس قسم کی دوسری چیزوں کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ اگر اس کے پاس پہلے سے ہی اس قسم کے مویشیوں کی زکوٰۃ کی رقم موجود ہو۔‘‘ مالک نے کہا، ’’میں نے اس کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس میں یہ سب سے بہتر ہے۔ ”
(17.15.27) یحییٰ نے کہا کہ مالک نے کہا کہ ہمارے ہاں اس شخص کے بارے میں جو ایک سو اونٹوں کی زکوٰۃ ادا کرے لیکن زکوٰۃ لینے والا اس کے پاس نہیں آتا جب تک کہ دوسری مرتبہ زکوٰۃ واجب نہ ہو اور اس وقت تک تمام اس کے اونٹ مر گئے ہیں سوائے پانچ کے، یہ کہ زکوٰۃ لینے والا پانچ اونٹوں سے زکوٰۃ کی دو مقداروں کا تعین کرتا ہے جو جانوروں کے مالک کی طرف سے واجب ہوتی ہیں، جو اس صورت میں صرف دو بھیڑیں ہیں، ہر سال کے لیے ایک۔ مال مویشیوں پر صرف وہی زکوٰۃ ہے جو اس پر واجب ہے جس دن زکوٰۃ کا تخمینہ لگایا جائے گا، ہو سکتا ہے کہ اس کا مویشی مر گیا ہو یا اس میں اضافہ ہو گیا ہو، اور زکوٰۃ لینے والا صرف زکوٰۃ کا اندازہ اس چیز پر کرتا ہے جس پر وہ (حقیقت میں) جس دن وہ اندازہ لگاتا ہے، اگر مال مویشیوں کی طرف سے زکوٰۃ کی ایک سے زائد ادائیگیاں واجب الادا ہوں، تب بھی اسے صرف وہی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی جو زکوٰۃ جمع کرنے والے کے قبضے میں ہو، اور اگر اس کا مویشی مر گیا ہو یا زکوٰۃ کی متعدد ادائیگیاں ہو جائیں۔ اس سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ اس کے تمام مویشی مر جائیں یا اس سے کم کر دیے جائیں جس پر اس کو زکوٰۃ ادا کرنی ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ جو مر گیا ہے یا ان سالوں کے لیے جو گزر چکے ہیں۔
(17.16.28) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، یحییٰ بن سعید سے، محمد بن یحییٰ بن حبان، القاسم بن محمد سے، کہ عائشہ رضی اللہ عنہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سے زکوٰۃ کی بھیڑیں لائی گئیں تو انہوں نے ان کے درمیان ایک بھیڑ کو دیکھا جس کا تھن بڑا تھا، جو دودھ دینے کے لیے تیار تھی، آپ نے فرمایا: یہ بھیڑ یہاں کیا کر رہی ہے؟ اور انہوں نے جواب دیا کہ یہ زکوٰۃ میں سے ایک بھیڑ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مالکان نے یہ بھیڑ اپنی مرضی سے نہیں دی، لوگوں کو آزمائش میں نہ ڈالو، مسلمانوں سے ان کے جانوروں میں سے وہ جانور نہ لو جو بہترین خوراک پیدا کرنے والے ہوں۔ ”
(17.16.29) مجھے یحییٰ نے مالک سے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا کہ محمد بن یحییٰ بن حبان نے کہا کہ مجھے قبیلہ اشج کے دو آدمیوں نے بتایا کہ محمد بن مسلمہ الانصاری ان کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے آتے تھے اور وہ جو کوئی مویشی رکھتا ہو اس سے کہے گا کہ اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ منتخب کر کے میرے پاس لے آؤ، اور جو بھی بکری اس کے پاس لائی جائے گی اسے قبول کر لے گا بشرطیکہ وہ آدمی کے واجبات کے مطابق ہو۔ مالک نے کہا کہ ہمارے ہاں سنت ہے اور جو میں نے اہل علم کو اپنے شہر میں کرتے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوئی مشکل نہیں کی جاتی ہے اور وہ اپنے مویشیوں کی جو چیز بھی دیتے ہیں وہ ان سے قبول ہوتی ہے۔ ”
(17.17.30) مجھے یحییٰ نے زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ کے علاوہ کسی محتاج کے لیے زکوٰۃ جائز نہیں: کوئی اللہ کی راہ میں لڑنے والا، کوئی زکوٰۃ لینے والا، کوئی جس کو (قرض داروں کے ہاتھوں) نقصان پہنچا ہو، کوئی وہ جو اسے اپنے پیسے سے خریدے، اور کوئی وہ جس کا کوئی غریب پڑوسی ہو جس سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ اور اس کو تحفہ کے طور پر کچھ دیتا ہے جو محتاج نہیں ہے۔” مالک نے کہا، "زکوٰۃ کی تقسیم کے بارے میں ہمارے ہاں موقف یہ ہے کہ یہ انچارج (ولی) کے انفرادی فیصلے پر منحصر ہے، جس قسم کے لوگ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوں اور سب سے زیادہ ہوں، اس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک سال، دو، یا اس سے زیادہ کے بعد اس میں تبدیلی آئے، لیکن یہ ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ضرورت مند ہوتے ہیں اور زیادہ تر ہیں جنہیں ترجیح دی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی زمرے سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ میں نے اہل علم کو کرتے دیکھا ہے جس سے میں مطمئن ہوں۔” مالک نے کہا: زکوٰۃ لینے والے کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں، سوائے اس کے جو امام مناسب سمجھے۔
(17.18.31) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے ایک رسی کو بھی روک لیا تو میں اس پر ان سے جنگ کروں گا۔
(17.18.32) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ زید بن اسلم نے کہا کہ عمر بن الخطاب نے کچھ دودھ پیا جو انہیں بہت پسند تھا اور اس شخص سے پوچھا جس نے اسے دیا تھا یہ دودھ کہاں کا ہے؟ سے آو؟’ اس آدمی نے اسے بتایا کہ وہ ایک پانی پلانے کی جگہ پر آیا ہے جس کا نام اس نے رکھا ہے اور وہاں پر زکوٰۃ سے مویشی چراتے ہوئے پائے ہیں۔ اسے کچھ دیا گیا۔

ان کا دودھ، جسے اس نے پھر اپنی جلد میں ڈال دیا، اور وہ دودھ ہی سوال میں تھا۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈال کر قے کر دی، مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے ہاں حیثیت یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کے واجبات میں سے کسی ایک کو ماننے سے انکار کر دے اور مسلمان اسے حاصل نہ کر سکیں۔ پھر وہ اس سے لڑنے کا حق رکھتے ہیں جب تک کہ وہ اس سے اسے حاصل نہ کر لیں۔”
(17.18.33) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سنا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے منتظمین میں سے ایک نے انہیں لکھا کہ ایک شخص نے اس کے مال کی زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عمر نے منتظم کو خط لکھا اور کہا کہ اس آدمی کو اکیلا چھوڑ دو اور جب وہ دوسرے مسلمانوں سے لے تو اس سے کوئی زکوٰۃ نہ لے۔ اس آدمی کو یہ بات سن کر اس کے لیے حالات ناقابل برداشت ہو گئے اور اس کے بعد اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی۔ منتظم نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا اور اس کا تذکرہ کیا اور عمرؓ نے واپس لکھا کہ اس سے زکوٰۃ لے لو۔
(17.19.34) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، سلیمان بن یسار سے اور بسر بن سعید سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس زمین پر جو بارش سے سیراب ہو یا چشمے یا کسی قدرتی ذرائع میں دسواں حصہ (زکوٰۃ ادا کرنا) ہے، سیراب شدہ زمین پر بیسواں حصہ (زکوٰۃ ادا کرنا) ہے۔”
(17.19.35) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے زیاد بن سعد سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا کہ نہ جور، نہ مسران الفارہ، اور نہ ضحاک بن حبائق کو کھجور میں سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔ مالک نے کہا کہ یہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہے، جن کے بچے تو تعیین میں شامل ہیں لیکن (حقیقت میں) زکوٰۃ نہیں لی جاتی، بعض قسم کے پھل ایسے بھی ہیں جن کی زکوٰۃ نہیں لی جاتی۔ جیسا کہ بردی کھجور (کھجوروں کی بہترین اقسام میں سے ایک) اور اسی قسم کی اقسام۔ نہ تو کم ترین (کسی بھی جائیداد کی) اور نہ ہی اعلیٰ ترین لینی چاہیے۔ بلکہ اوسط درجے کی جائیداد سے زکوٰۃ لینی چاہیے۔” ملک نے کہا کہ پھلوں کے بارے میں جس موقف پر ہمارا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ درخت پر رہتے ہوئے صرف کھجور اور انگور کا اندازہ لگایا جاتا ہے، ان کا اندازہ اس وقت لگایا جاتا ہے جب ان کا استعمال صاف ہو اور ان کا بیچنا حلال ہو۔ اور انگوروں کو تازہ کھجوروں اور انگوروں کی شکل میں فوراً کھایا جاتا ہے، اور اس لیے لوگوں کے لیے چیزوں کو آسان بنانے اور انھیں پریشانی سے بچنے کے لیے تخمینہ لگا کر ان کی پیداوار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور پھر انھیں ان کے استعمال میں کھلا ہاتھ دیا جاتا ہے۔ جس طرح چاہیں پیدا کریں، اور بعد میں اس کی زکوٰۃ اس اندازے کے مطابق ادا کریں گے جو کہ لگائی گئی تھی۔” مالک نے کہا: "وہ فصل جو تازہ نہیں کھائی جاتی، جیسے اناج اور بیج، جو صرف کٹائی کے بعد کھائے جاتے ہیں، ان کا تخمینہ نہیں لگایا جاتا، اس کا مالک فصل کی کٹائی کے بعد، جھاڑی اور چھان کر کھاتا ہے، تاکہ وہ اس کے بعد کھائی جائے۔ غلہ یا بیج کی صورت میں اپنی امانت کو خود پورا کرنا ہوگا اور زکوٰۃ کاٹنا ہوگا اگر رقم اتنی زیادہ ہو کہ اسے زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔یہ وہ موقف ہے جس پر ہم سب یہاں (مدینہ میں) متفق ہیں۔ ” مالک نے کہا: یہاں (مدینہ میں) جس موقف پر ہم سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ کھجور کی پیداوار کا تخمینہ اس وقت لگایا جاتا ہے جب وہ درخت پر موجود ہو، جب وہ پک کر بیچنے کے لیے حلال ہو جائے، اور اس پر زکوٰۃ ہے۔ کٹائی کے وقت خشک کھجور کی صورت میں کٹوتی کی جاتی ہے، اگر تخمینہ لگانے کے بعد پھل خراب ہو جائے اور نقصان تمام پھلوں کو متاثر کرے تو زکوٰۃ نہیں ہے، اگر پھل کا کچھ حصہ متاثر نہ ہو، اور اس پھل کی مقدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع پانچ اوصق یا اس سے زیادہ تک استعمال کیا جائے تو اس میں سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے البتہ جو پھل خراب ہو گیا ہو اس پر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مختلف جگہوں پر جائیداد کے مختلف ٹکڑوں کا مالک ہو، یا مختلف جگہوں پر جائیداد کے مختلف ٹکڑوں کا شریک مالک ہو، تو ان میں سے کوئی بھی انفرادی طور پر قابل زکوٰۃ نہیں ہے، لیکن جب ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ رقم ہو جاتی ہے۔ زکوٰۃ کی رقم میں، پھر وہ ان کو ملا کر زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ ان پر واجب ہے۔”
(17.20.36) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن شہاب سے زیتون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان پر دسواں حصہ ہے۔ مالک نے کہا کہ زیتون کا دسواں حصہ دبانے کے بعد لیا جاتا ہے اور زیتون کا کم از کم پانچ عسوق تک آنا چاہیے اور زیتون کے کم از کم پانچ وسق ہونے چاہئیں۔ زیتون کی زکوٰۃ نہیں ہے زیتون کے درخت کھجور کی طرح ہیں کیونکہ بارش یا چشمے یا کسی قدرتی ذریعہ سے جو چیز سیراب کی جاتی ہے اس کا دسواں حصہ اور جس چیز کو سیراب کیا جاتا ہے اس پر بیسواں حصہ ہوتا ہے تاہم زیتون کا تخمینہ نہیں لگایا جاتا۔ ہمارے ہاں جہاں تک اناج اور بیجوں کا تعلق ہے جسے لوگ ذخیرہ کرتے اور کھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو چیز بارش یا چشموں یا کسی قدرتی ذریعہ سے سیراب کی گئی ہو اس سے دسواں حصہ لیا جاتا ہے اور جس چیز کو سیراب کیا گیا ہو اس کا بیسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ جب تک رقم مذکورہ بالا صاع یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاع کے استعمال سے پانچ اوصق یا اس سے زیادہ ہو جائے

اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ پانچ اوصق سے اوپر کی کسی بھی چیز پر زکوٰۃ واجب ہے، مالک نے کہا: اناج اور بیج کی وہ قسمیں ہیں جن پر زکوٰۃ ہے: گیہوں، جو، سلٹ (ایک قسم کا جو)، جوار، جوار، چاول، دال، مٹر، پھلیاں، تل اور اس طرح کے دوسرے اناج اور بیج جو کھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ زکوٰۃ ان سے کٹائی کے بعد لی جاتی ہے اور وہ دانے یا بیج کی شکل میں ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو اندازہ لگایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ حوالے کرتے ہیں وہ قبول ہوتا ہے۔ زیتون کو بیچنے سے پہلے یا بعد میں نکالا گیا اور فرمایا کہ فروخت پر غور نہیں کیا جاتا۔ زیتون پیدا کرنے والوں سے زیتون کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، جس طرح کھانے پینے کی چیزیں پیدا کرنے والوں سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، اور ان کے کہنے سے زکوٰۃ لی جاتی ہے۔ جو شخص اپنے زیتون کے درختوں سے پانچ اوصق یا اس سے زیادہ زیتون حاصل کرے اس کے تیل کا دسواں حصہ دبانے کے بعد لیا جائے۔ جب کہ جس شخص کو اپنے درختوں سے پانچ اوصق حاصل نہ ہوں اس پر تیل کی زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’جو شخص اپنی فصل پک کر بیچے اور بھوسی میں تیار ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ جو انہیں خریدتا ہے وہ نہیں کرتا۔ فصل کی خریدوفروخت اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ وہ بھوسی میں تیار نہ ہو جائیں اور پانی کی ضرورت نہ رہے۔‘‘ مالک رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں کہا کہ ’’اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو‘‘ کہ اس سے زکوٰۃ مراد ہے۔ اور یہ کہ اس نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا، مالک رحمہ اللہ نے کہا: اگر کوئی اپنا باغ یا اپنی زمین بیچ دے، جس پر وہ فصل یا پھل ہو جو ابھی تک نہ پکیں تو خریدار پر زکوٰۃ واجب ہے۔ البتہ اگر وہ پک جائیں تو بیچنے والے کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، الا یہ کہ زکوٰۃ ادا کرنا بیچنے کی شرائط میں سے ہے۔”
(17.21.37) مالک نے کہا، "اگر کسی آدمی کے پاس چار آسوق کھجوریں ہوں جو اس نے کاٹی ہوں، چار اوصق انگور ہوں جو اس نے چنی ہوں، یا چار اوصق گندم کاٹی ہو یا چار اوصق دالیں اس نے کاٹی ہوں، تو مختلف قسمیں ہیں۔ اور اس پر کسی قسم کی قسم کھجور، انگور، گیہوں یا دال کی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک صاع کے ساتھ پانچ اوصق تک نہ آجائے، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ عوسق کھجور سے کم کسی چیز پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اوصوق، تو زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، اگر پانچ اوصق میں سے کوئی بھی زمرہ نہ آئے تو زکوٰۃ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب آدمی پانچ عوسق کھجور (اپنی ہتھیلیوں سے) کاٹے تو ان سب کو ملا دیتا ہے۔ ایک ساتھ اور ان سے زکوٰۃ کاٹ لیتا ہے خواہ وہ سب مختلف قسموں اور انواع و اقسام کے ہوں۔ اصلی، جیسے بھوری گندم، سفید گندم، جو اور سلٹ، جو سب کو ایک زمرہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک میں سے پانچ وسق کاٹے تو اس کو ملا کر اس کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ اگر اتنی رقم نہ آئے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ انگور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، چاہے وہ سیاہ ہوں یا سرخ۔ اگر کوئی شخص ان میں سے پانچ وسق اٹھائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر وہ اتنی مقدار میں نہ آئے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ دالوں کو بھی ایک قسم کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جیسے اناج، کھجور اور انگور، چاہے وہ مختلف قسم کے ہوں اور مختلف ناموں سے پکارے جائیں۔ دالوں میں چنے مٹر، دال، پھلیاں، مٹر، اور ہر وہ چیز شامل ہے جس کے بارے میں سب کا اتفاق ہے۔ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ صاع سے ناپ کر پانچ عوسق دالوں کاٹتا ہے تو وہ ان سب کو اکٹھا کر لے گا اور ان پر زکوٰۃ ادا کرے گا، چاہے وہ ہر قسم کی ہی کیوں نہ ہوں۔ دال اور صرف ایک قسم کی نہیں۔‘‘ مالک نے کہا، ”عمر بن الخطاب نے نباتی عیسائیوں سے زکوٰۃ لیتے وقت دالوں اور گندم میں فرق کیا، وہ تمام دالوں کو ایک طبقے میں شمار کرتے تھے اور ان سے دسواں حصہ لیتے تھے۔ اناج اور کشمش سے اس نے بیسواں حصہ لیا۔” مالک نے کہا، "اگر کوئی پوچھے کہ زکوٰۃ کا تعین کرتے وقت دالیں کیسے جمع کی جائیں تاکہ صرف ایک ادائیگی ہو، جب آدمی ایک کے بدلے دو قسم کی چیزیں خرید سکتا ہے، جب کہ اناج کا بارٹر نہیں کیا جا سکتا۔ دو سے ایک کے حساب سے؟’، پھر اس سے کہو، ‘زکوٰۃ کے حساب سے سونا چاندی اکٹھا کیا جاتا ہے، حالانکہ سونے کے دینار چاندی کے درہم سے کئی گنا بدل سکتے ہیں۔’ مالک رحمہ اللہ نے کھجوروں کے بارے میں کہا جو دو آدمیوں کے درمیان یکساں طور پر مشترک ہیں اور جن سے آٹھ اوصق کھجور کاٹی جاتی ہے کہ ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، اگر ایک آدمی کے پاس ایک ٹکڑا کے پانچ اوصق ہوں تو اور دوسرے کے پاس چار اوشوق یا اس سے کم زمین ہے، جس کے پاس پانچ اوصق ہیں اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اور دوسرا جس نے چار اوشوق یا اس سے کم کاشت کی ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، جب بھی کام اس طرح ہوتے ہیں۔ کسی بھی فصل میں ساتھی ہوتے ہیں، فصل اناج کی ہو یا سی

کاٹی جانے والی کھجوریں، یا کاٹی جانے والی کھجوریں، یا انگور جو چنے گئے ہیں۔ ان میں سے جو بھی پانچ اوصق کھجور کاٹے یا پانچ اوصق انگور چنے یا پانچ اوصق گیہوں کاٹے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے اور جس کا حصہ پانچ وسق سے کم ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ زکوٰۃ صرف وہ شخص ادا کرے گا جس کی کٹائی یا چنائی یا کاٹنا پانچ اوصق تک آئے۔‘‘ مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’ہمارے نزدیک ان میں سے کسی بھی قسم کے گندم، کھجور، انگور اور کسی بھی قسم کے اناج کے بارے میں سنت ہے۔ جس میں سے زکوٰۃ کاٹی گئی ہو اور اس کے مالک نے اس پر زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد کئی سال تک اس کو ذخیرہ کر رکھا ہو یہاں تک کہ وہ بیٹھ کر فروخت کرے، تو اس پر اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے جس قیمت پر وہ اسے بیچتا ہے۔ جب تک کہ اس نے فروخت کرنے کے دن سے اس پر ایک سال نہ گزر جائے، جب تک کہ اسے (موقع) حصول یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہو اور اس کا مقصد تجارت کے لیے نہ ہو۔ اناج، بیج اور تجارت کا سامان ایک جیسا ہے، اگر کوئی آدمی ان میں سے کچھ حاصل کر کے کئی سال تک اپنے پاس رکھے اور پھر انہیں سونے یا چاندی کے عوض بیچ دے تو ان کی قیمت پر ایک سال گزرنے تک زکوٰۃ نہیں ہے۔ فروخت کے دن سے اس پر۔ البتہ اگر مال تجارت کے لیے تھا تو مالک کو جب وہ ان کو بیچتا ہے تو ان پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، بشرطیکہ وہ اس کے پاس اس دن سے ایک سال تک رہے جب اس نے اس مال کی زکوٰۃ ادا کی جس سے اس نے ان کو خریدا تھا۔
(17.22.37a) ملک نے کہا، "وہ سنت جس پر ہم سب یہاں (مدینہ میں) متفق ہیں اور جسے میں نے اہل علم سے سنا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے تازہ (نرم) پھل پر زکوٰۃ نہیں ہے، چاہے خواہ انار ہو، آڑو، انجیر یا کوئی بھی چیز جو ان جیسی ہو یا ان جیسی نہ ہو جب تک کہ وہ پھل ہو۔” انہوں نے مزید کہا: "جانوروں کے چارے یا کسی بھی قسم کی جڑی بوٹیوں اور سبزیوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، اور ان کی فروخت پر ملنے والی قیمت پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ فروخت کے دن سے ایک سال نہ گزر جائے۔ جس وقت مالک رقم وصول کرتا ہے۔”
(17.23.38) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، عبداللہ بن عمر سے، سلیمان بن یسار سے، انہوں نے عراق بن مالک سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر لازم نہیں ہے۔ اس کے غلام یا گھوڑے کی زکوٰۃ ادا کرو۔
(17.23.39) مجھے یحییٰ نے مالک سے، ابن شہاب سے، سلیمان بن یسار سے، وہ کہتے ہیں کہ اہل شام نے ابو عبیدہ بن الجراح سے کہا کہ ہمارے گھوڑوں اور غلاموں سے زکوٰۃ لے لو، تو انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس نے عمر بن الخطاب کو خط لکھا تو انہوں نے (بھی) انکار کردیا۔ پھر انہوں نے اس سے بات کی اور پھر اس نے عمر کو لکھا اور عمر نے اسے واپس لکھا کہ اگر وہ چاہیں تو ان سے لے لو اور (پھر) انہیں واپس کر دو اور ان کے غلاموں کو رزق دو۔ مالک نے کہا، "اس کا مطلب کیا ہے، اللہ رحم کرے، ان الفاظ سے ‘اور ان کو واپس کر دو’، ‘ان کے غریبوں کو’۔ ”
(17.23.40) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حازم نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے میرے والد کے پاس ایک پیغام آیا جب وہ منیٰ میں تھے کہ ان سے کہا کہ شہد میں سے زکوٰۃ نہ لینا۔ یا گھوڑے۔”
(17.23.41) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن دینار نے کہا کہ میں نے سعید بن المسیب سے کام والے گھوڑوں کی زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کیا گھوڑوں کی زکوٰۃ ہے؟ ”
مجھ سے یحییٰ نے مالک سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا جسے عمر بن خطاب نے لیا تھا۔ اسے فارس کے مجوسیوں سے اور عثمان بن عفان نے اسے بربر سے لیا تھا۔”
(17.24.43) مجھے یحییٰ نے مالک سے جعفر بن محمد بن علی سے اپنے والد سے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب نے مجوسیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ان کے بارے میں کیا کروں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم ان کے ساتھ وہی سنت کی پیروی کرو جس پر تم اہل کتاب کرتے ہو۔
(17.24.44) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے نافع سے اسلم سے، عمر بن خطاب کے مولا سے، کہ عمر بن الخطاب نے ان لوگوں پر چار دینار کا جزیہ ٹیکس لگایا جہاں سونا کرنسی تھا، اور چالیس درہم۔ ان لوگوں پر جہاں چاندی کی کرنسی تھی۔ اس کے علاوہ، انہیں مسلمانوں کے لیے سامان مہیا کرنا تھا اور تین دن کے لیے مہمان کے طور پر ان کا استقبال کرنا تھا۔
(17.24.45) مجھے یحییٰ نے مالک سے، زید بن اسلم سے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ گھر کے پیچھے ایک اندھی اونٹنی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے دے دو۔ ایک گھرانہ تاکہ وہ اس سے (کچھ) فائدہ اٹھا سکیں۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لیکن وہ نابینا ہے” عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "پھر اسے دوسرے اونٹوں کے ساتھ ایک قطار میں لگا دو۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیسے ہو سکے گا؟ زمین سے کھاؤ؟” عمر نے پوچھا: "یہ جزیہ کے مویشیوں سے ہے یا زکوٰۃ؟” اسلم نے جواب دیا: "جزیہ کے مویشیوں سے۔” عمر نے کہا: "خدا کی قسم، تم اسے کھانا چاہتے ہو۔” اسلم نے کہا کہ اس پر جزیہ کا نشان ہے تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ذبح کرنے کا حکم دیا، اس کے پاس نو تھالیں تھے اور ہر تھال پر ہر پھل اور لذیذ چیز رکھ دی کہ اس میں ایک تھا۔

پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو بھیجا وہ ان سب میں سب سے آخری تھی اور اگر ان میں سے کسی میں کوئی کمی تھی تو وہ حفصہ رضی اللہ عنہا میں تھی۔ حصہ. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح شدہ جانور کا گوشت تھالیوں میں ڈال کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ذبح شدہ جانور کے گوشت میں سے جو بچ گیا ہے اسے تیار کر لیا جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی۔ مہاجرین اور انصار اسے کھائیں۔ مالک نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ مال مویشی ایسے لوگوں سے لیا جائے جو جزیہ دیتے ہیں سوائے جزیہ کے۔
(17.24.46) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سنا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو خط لکھا تھا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ جزیہ ادا کرنے والے تمام لوگوں کو جزیہ دینے سے فارغ کر دیا جائے اگر وہ مسلمان ہو جائیں۔ مالک نے کہا: سنت یہ ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں یا بچوں پر جزیہ نہیں ہے اور یہ جزیہ صرف ان مردوں سے لیا جاتا ہے جو بلوغت کو پہنچ چکے ہوں، اہل ذم اور مجوسیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ان کی ہتھیلیوں پر یا ان کی انگوروں پر یا ان کی فصلوں یا ان کے مویشیوں پر، یہ اس لیے ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی جاتی ہے تاکہ وہ ان کو پاک کریں اور ان کے مسکینوں کو واپس کر دیں، جب کہ اہل کتاب پر جزیہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ان کو عاجز کریں۔ جیسا کہ وہ اس ملک میں ہیں جس میں رہنے کے لیے انہوں نے رضامندی ظاہر کی ہے، ان پر اپنی جائیداد پر جزیہ کے سوا کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا، البتہ اگر وہ مسلم ممالک میں تجارت کرتے ہیں، ان میں آتے جاتے ہیں، تو ان کے مال سے دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جزیہ ان پر صرف ان شرائط پر لگایا جاتا ہے جن پر وہ راضی ہو جاتے ہیں، یعنی وہ اپنے ملک میں ہی رہیں گے، اور یہ کہ ان کے لیے ان کے کسی دشمن سے جنگ چھیڑی جائے گی۔ پھر وہ اس زمین کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں تاکہ وہ کاروبار کریں۔ مجھے دسواں حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ان میں سے جو بھی اہل مصر کے ساتھ تجارت کرے اور پھر شام جائے اور پھر اہل شام کے ساتھ تجارت کرے پھر عراق جائے اور ان کے ساتھ تجارت کرے اور پھر مدینہ یا یمن یا اس جیسی دوسری جگہوں پر جائے۔ دسواں حصہ ادا کرنا ہوگا۔ اہل کتاب اور مجوسیوں پر ان کے کسی مال، مویشی، پیداوار یا فصل پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سنت اب بھی اسی طرح جاری ہے۔ وہ اسی دین پر قائم ہیں جس میں وہ تھے اور وہی کرتے رہے جو وہ کرتے تھے۔ اگر کسی ایک سال میں وہ مسلمان ممالک میں کثرت سے آتے اور جاتے ہیں تو انہیں ہر بار ایسا کرنے پر دسواں حصہ ادا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ اس بات سے باہر ہے جس پر انہوں نے اتفاق کیا ہے، اور ان میں سے ایک بھی شرط نہیں ہے۔ میں نے اپنے شہر کے اہل علم کو یہی کرتے دیکھا ہے۔”
(17.25.47) مجھ سے یحییٰ نے ابن شہاب سے، سالم بن عبداللہ نے اپنے والد سے بیان کیا کہ عمر بن الخطاب نبیتی نصاریٰ کے اناج اور زیتون کے تیل سے بیسواں حصہ لیتے تھے، اس سے مدینہ کی طرف سامان بڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ . وہ دالوں سے دسواں حصہ لیتا۔
(17.25.48) مجھے یحییٰ نے مالک نے ابن شہاب سے روایت کیا کہ سائب بن یزید نے کہا کہ میں عمر بن کے زمانے میں عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کے ساتھ مدینہ کے بازار میں ایک نوجوانی میں کام کرتا تھا۔ الخطاب اور ہم نبیوں سے دسواں حصہ لیتے تھے۔”
(17.25.49) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ابن شہاب سے پوچھا تھا کہ عمر بن الخطاب نبیوں سے دسواں حصہ کیوں لیتے تھے، ابن شہاب نے جواب دیا کہ یہ جاہلیت میں ان سے لیا جاتا تھا، اور عمر یہ ان پر مسلط کر دیا۔”
(17.26.50) مجھ سے یحییٰ نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ ان کے والد نے کہا کہ میں نے عمر بن الخطاب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ اللہ کی راہ میں کسی کو لے جانے کے لیے ایک عمدہ گھوڑا دیا تو اس شخص نے اسے نظرانداز کردیا۔ میں نے اس سے اسے واپس خریدنا چاہا اور میں نے سوچا کہ وہ اسے سستے بیچ دے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: نہ خریدو، اگرچہ وہ دے بھی دیں۔ یہ آپ کے لیے ایک درہم کے بدلے میں ہے، جو شخص اپنا صدقہ واپس لے لے وہ ایسا ہے جیسے کتا اپنی قے نگل رہا ہو۔’ ”
(17.26.51) مجھے یحییٰ نے مالک نے نافع سے، عبداللہ بن عمر سے روایت کیا کہ عمربن الخطاب نے اللہ کی راہ میں کسی کو لے جانے کے لیے ایک گھوڑا دیا، پھر آپ نے اسے واپس خریدنا چاہا۔ تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”صدقہ نہ خریدو اور نہ واپس لو۔ یحییٰ نے کہا کہ مالک سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ جس آدمی نے کچھ صدقہ دیا اور پھر اسے اس شخص کے علاوہ کسی اور نے فروخت کرنے کے لیے پیش کیا جسے اس نے دیا تھا، وہ اسے خرید سکتا ہے یا نہیں، تو انہوں نے کہا: "میں پسند کرتا ہوں کہ وہ اسے چھوڑ دے۔”
(17.27.52) مجھے یحییٰ نے مالک سے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے ان غلاموں کا صدقہ فطر ادا کرتے تھے جو وادی القریٰ اور خیبر میں تھے۔ یحییٰ نے مجھ سے بیان کیا کہ مالک نے کہا کہ میں نے صدقہ فطر کے بارے میں سب سے بہتر جو سنا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کو ہر اس شخص کے لیے ادا کرنا پڑتا ہے جو اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اور جس کی حمایت کرنا ضروری ہے، اسے اس کے مکاتب کے تمام اخراجات ادا کرنا ہوں گے۔ اس کے مدبر اور اس کے عام غلام، چاہے وہ حاضر ہوں یا غائب، جب تک کہ وہ ایک

re muslim، اور وہ fortrade ہیں یا نہیں۔ البتہ اس پر ان میں سے کسی پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے جو مسلمان نہیں ہے۔‘‘ مالک نے ایک بھاگے ہوئے غلام کے بارے میں کہا، ’’میرا خیال ہے کہ اس کے آقا کو رم کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، خواہ وہ جانتا ہو کہ وہ کہاں ہے؟ غلام کو بھاگے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اور اس کے مالک کو امید ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے اور واپس آئے گا۔ اگر اسے بھاگے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہو اور اس کا آقا اس کے واپس آنے سے مایوس ہو گیا ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔ مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صدقہ فطر صحرا میں رہنے والے (یعنی خانہ بدوشوں) کو اسی طرح ادا کرنا ہے جس طرح دیہات میں رہنے والے (یعنی آباد لوگ) ادا کرتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما، رمضان المبارک کے آخر میں صدقہ فطر کو ہر مسلمان پر فرض کر دیا، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت۔”
(17.27.53) مجھے یحییٰ نے مالک نے نافع سے عبداللہ بن عمر سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخر میں افطار کی زکوٰۃ کو ہر مسلمان پر فرض کر دیا، خواہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، اور اسے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے طور پر مقرر کیا ہے۔
(17.27.54) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، زید بن اسلم سے، لیث بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح الامیری سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ صاع گندم، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع خشک کھٹا دودھ، یا ایک صاع کشمش، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع استعمال کرنا۔”
(17.27.55) مجھے یحییٰ نے مالک نے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر ہمیشہ صدقہ فطر کھجور میں ادا کرتے تھے، سوائے ایک بار کے، جب وہ اسے جو میں ادا کرتے تھے۔ مالک نے کہا: ہر قسم کے کفارہ کی ادائیگی، فطرانہ اور اناج کی زکوٰۃ جس کا دسواں یا بیسواں حصہ واجب ہے، چھوٹے مدّے سے کیا جاتا ہے، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مد ہے۔ اور اسے امان دے، سوائے ظہار طلاق کے، جب کفارہ ہشام کے مد سے ادا کیا جائے، جو بڑا مد ہے۔”
(17.28.56) مجھے یحییٰ نے مالک نے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کو صدقہ فطر بھیجتے تھے جس کے ساتھ افطار کے دن سے دو یا تین دن پہلے جمع کیا جاتا تھا۔
(17.28.57) مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا کہ مالک نے دیکھا کہ اہل علم فطر کے دن فجر کے بعد نماز کی جگہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا پسند کرتے تھے۔ مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو اس میں رخصت ہے کہ اسے عید الفطر کے دن نکلنے سے پہلے یا بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
(17.29.58)  مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا کہ مالک نے کہا کہ آدمی پر اپنے غلاموں کے غلاموں یا اس کے ملازم یا اپنی بیوی کے غلاموں کی زکوٰۃ نہیں ہے، سوائے اس کے جو اس کی خدمت کرے اور جس کی خدمات اس کے لیے ناگزیر ہیں، اس صورت میں اسے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، اس پر اپنے کسی ایسے غلام کی زکوٰۃ نہیں ہے جو کافر ہوں اور مسلمان نہ ہوئے ہوں، خواہ وہ تجارت کے لیے ہوں یا دوسری صورت میں۔”

مذہب

مجھ سے مالک نے یحییٰ بن سعید سے، وہ ابو الحباب سعید بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نیکی سے صدقہ دیا اور صرف اللہ تعالیٰ نے۔ نیکی کو قبول کرتا ہے – گویا اس نے اسے اٹھانے کے لیے رحمن کی ہتھیلی میں رکھا جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے یا اونٹ کو اٹھاتا ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے۔
مجھ سے مالک نے بیان کیا کہ اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ ابوطلحہ کے پاس مدینہ کے انصار میں کھجور کے درختوں میں سب سے زیادہ جائیداد تھی، ان کو ان کی جائیدادوں میں سب سے زیادہ عزیز بیروحہ تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جاتے اور اس میں موجود خوشگوار پانی سے پیتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے مزید کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”تم اس وقت تک عمل کی درستگی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو” (سورہ 2 آیت 76) تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے سلام پھیر کر عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔ میں اس کی بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کے پاس اس کے ذخیرہ کرنے کی امید رکھتا ہوں، جہاں چاہو اسے رکھ دو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاباش! وہ جائیداد جو نفع دیتی ہے یہ وہ جائیداد ہے جو نفع دیتی ہے میں نے اس کے بارے میں آپ کی بات سنی ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اسے اپنے رشتہ داروں کو دے دیں۔ ابوطلحہ نے کہا کہ میں کروں گا یا رسول اللہ! چنانچہ ابوطلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کے بچوں میں تقسیم کر دیا۔
مجھے مالک نے زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سائل کو دو خواہ وہ گھوڑے پر آئے۔
مجھ سے مالک نے زید بن اسلم سے عمرو بن معاذ الاشعلی الانصاری سے روایت کی ہے کہ ان کی دادی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے امانت دار عورتیں! تم میں سے کوئی بھی اپنے پڑوسی کو دینے کو حقیر نہ جانے چاہے وہ بھنی ہوئی بھیڑ ہی کیوں نہ ہو۔’
(58.1.5) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا کہ ایک فقیر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت کچھ پوچھا جب وہ روزے سے تھیں اور ان کے پاس صرف ایک روٹی تھی۔ اس کے گھر میں روٹی اس نے اپنے مولا سے کہا کہ اسے دے دو۔ مولا نے احتجاج کیا، "تمہارے پاس افطاری کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔” عائشہ نے دہرایا، "اسے دو” تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب شام ہوئی تو گھر کے لوگ یا آدمی جو عام طور پر ان کو نہیں دیتے تھے، انہیں ایک بھیڑ اور کچھ کھانے کے لیے اس کے ساتھ جانے کے لیے دیا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مولا کو بلایا اور کہا کہ اس میں سے کھاؤ یہ تمہاری روٹی سے بہتر ہے۔
(58.1.6) مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا کہ مالک نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ایک سائل نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کھانا مانگا، اس کے پاس کچھ انگور تھے، اس نے کسی سے کہا کہ ایک انگور لے آؤ، اس نے شروع کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، کیا آپ حیران ہیں، آپ کو اس انگور میں کتنے ایٹم وزن نظر آتے ہیں؟ (سورہ 99 آیت 7 کا حوالہ دیتے ہوئے)
(58.2.7) مجھے مالک نے مالک نے ابن شہاب سے، عطا بن یزید لیثی سے، وہ ابو سعید خدری سے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دیا. پھر اُنہوں نے اُس سے دوبارہ پوچھا، اور اُس نے اُن کو دے دیا جب تک کہ اُس کے پاس جو کچھ تھا وہ استعمال نہ کر دِیا۔ پھر فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہے، میں تم سے ذخیرہ نہیں کروں گا، جو صبر کرے گا، اللہ اس کی مدد کرے گا، جو خود مختار ہونے کی کوشش کرے گا، اللہ اسے غنی کر دے گا، جو صبر کرنے کی کوشش کرے گا، اللہ اسے صبر دے گا، اور صبر سے بہتر یا وسیع تر تحفہ کسی کو نہیں دیا گیا ہے۔”
(58.2.8) مجھے یحییٰ نے مالک نے نافع سے عبداللہ بن عمر سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے صدقہ کا ذکر کرتے ہوئے اور سوال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے فرمایا: اوپر والا ہاتھ بہتر ہے۔ نچلے ہاتھ کے مقابلے میں اوپر والا وہ ہے جو خرچ کرتا ہے، اور نیچے والا وہ ہے جو مانگتا ہے۔”
(58.2.9) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، زید بن اسلم سے، عطا بن یسار سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب کو ہدیہ بھیجا اور عمر نے اسے واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اسے واپس کیوں کیا؟ اس نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ کسی سے کچھ نہ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مانگنے سے ہے، اللہ تمہیں جو رزق دیتا ہے وہ مانگنے سے مختلف ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا اور جو چیز میرے پاس میرے مانگے بغیر آئے گی میں قبول کروں گا۔
(58.2.10) مجھے یحییٰ نے مالک سے، ابوزیناد سے، العرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے اندر

اور میں ہوں! اپنی رسی لے کر اپنی پیٹھ پر لکڑیاں جمع کرنا تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم کسی ایسے آدمی کے پاس پہنچو جس پر اللہ نے اپنا فضل کیا ہو اور اس سے مانگو تو وہ تمہیں دیتا ہے یا انکار کر دیتا ہے۔
(58.2.11) مجھ سے یحییٰ نے مالک سے، زید بن اسلم سے، عطا بن یسار سے، بنو اسد کے ایک آدمی نے بیان کیا کہ میں اور میرے گھر والے بقیع میں آرام کرنے کے لیے اترے، میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگو جو ہم کھائیں، اور وہ اپنی حاجت کا ذکر کرنے لگے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا۔ کہ ایک آدمی کچھ مانگ رہا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ شخص غصے میں اس سے منہ پھیر کر کہنے لگا، ‘میری جان کی قسم! تو جسے چاہے دے’۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھ سے ناراض ہے کیونکہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، جس نے تجھ سے سوال کیا حالانکہ اس کے پاس اوقیہ یا اس کے برابر ہے تو اس نے بے صبری سے مانگا۔ ‘ اس شخص نے بات جاری رکھی، "میں نے اپنے آپ سے ایک اونٹ کے بارے میں کہا جو ہمارے پاس ہے، ‘وہ اوقیہ سے بہتر ہے۔’ (مالک نے بیان کیا کہ ایک اوقیہ چالیس درہم تھا) چنانچہ میں واپس آیا اور آپ سے کچھ نہ پوچھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو اور کشمش بھیجی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی طرف سے عطا فرمایا۔ اس وقت تک شئیر کریں جب تک کہ اللہ رب العزت ہمیں راحت نہ دے”
(58.2.12) یحییٰ نے بیان کیا کہ مالک نے علاء بن عبدالرحمٰن کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ بندے کو صرف اس کی پابندی سے بڑھاتا ہے اور کوئی بندہ عاجز نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا ہے۔ ” مالک نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے یا نہیں۔
(58.3.13) مجھے یحییٰ نے مالک سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آل محمد کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے، یہ صرف لوگوں کی نجاست ہے۔
(58.3.14) مجھے یحییٰ نے مالک سے عبداللہ بن ابی بکر نے اپنے والد سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد العشال کے ایک آدمی کو کچھ صدقہ دیا تھا۔ جب وہ ان سے صدقہ میں سے کچھ اونٹ مانگنے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرے سے غصہ ظاہر ہو گیا۔ اس کے چہرے پر غصے کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ پھر اس نے کہا کہ اس شخص نے مجھ سے وہ چیز مانگی ہے جو میرے یا اس کے لیے اچھی نہیں ہے، اگر میں انکار کروں تو مجھے انکار کرنا ناپسند ہے، اگر میں اسے دوں گا تو میں اسے وہ چیز دوں گا جو میرے یا اس کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ” اس آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ سے اس میں سے کچھ نہیں مانگوں گا۔
(58.3.15) مجھے یحییٰ نے مالک سے زید بن اسلم سے روایت کیا کہ ان کے والد نے کہا کہ عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ مجھے ایک سواری والا اونٹ دکھاؤ جو امیر المومنین مجھے استعمال کرنے کے لیے دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک۔ عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ گرم دن میں ایک مضبوط آدمی تمہارے لیے اس کے نچلے کپڑے اور اس کی تہوں کو دھوئے اور پھر تمہیں پینے کے لیے دے؟ میں نے غصے میں آکر کہا اللہ تمہیں معاف کرے تم مجھ سے ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ صدقہ لوگوں کی نجاست ہے جسے وہ خود دھوتے ہیں۔ "

مذہب