مذہب

موسی بن جعفر (128۔183 ھ) امام موسی کاظم علیہ السلام کے نام اور کاظم و باب الحوائج کے لقب سے مشہور، شیعوں کے ساتویں امام ہیں۔ سنہ 128 ھ میں بنی امیہ سے بنی عباس کی طرف حکومت کی منتقلی کے دروان آپ کی ولادت ہوئی اور سنہ 148 ھ میں اپنے والد امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کی 35 سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے خلفاء منصور دوانقی، ہادی، مہدی اور ہارون رشید بر سر اقتدار رہے۔ منصور عباسی اور مہدی عباسی کے دور خلافت میں آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور سنہ 183 ھ میں سندی بن شاہک کے زندان میں جام شہادت نوش کیا اور منصب امامت آپ کے فرزند امام علی رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔

آپؑ کی زندگی بنی عباس کے اقتدار کے عروج کے زمانے میں گزری ہے۔ اس بنا پر آپ تقیہ سے کام لیتے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی زندگی میں نہ بنی عباس کے حکمرانوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام دیکھنے میں آتے ہیں اور نہ ان کے مقابلے میں چلائی جانے والی علوی تحریکوں جیسے قیام شہید فخ وغیرہ کی صریح حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود آپ بنی عباس اور دیگر افراد کے ساتھ ہونے والے مناظرات اور علمی بحث و مباحثوں میں بنی عباس سے خلافت کی مشروعیت کو سلب کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔

اسی طرح عیسائی اور یہودی علماء کے ساتھ بھی آپؑ کے مختلف مناظرات اور علمی گفتگو تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ دوسرے ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ آپؑ کے مناظرات مدمقابل کے پوچھے گئے سوالات اور اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ مسند الامام الکاظمؑ میں آپ سے منقول 3000 ہزار سے زائد احادیث جمع کی گئی ہیں جن میں سے بعض احادیث کو اصحاب اجماع میں سے بعض نے نقل کیا ہے۔

اسی طرح آپ نے نظام وکالت کی تشکیل اور اسے مختلف علاقوں میں وسعت دینے کیلئے مختلف افراد کو وکیل کے عنوان سے ان علاقوں میں مقرر کیا تھا۔ دوسری طرف سے آپؑ کی زندگی شیعہ مذہب میں مختلف گروہوں کے ظہور کے ساتھ ہم زمان تھی اور اسماعیلیہ، فطحیہ اور ناووسیہ جیسے فرقے آپ کی حیات مبارکہ ہی میں وجود میں آگئے تھے جبکہ واقفیہ نامی فرقہ آپ کی شہادت کے بعد وجود میں آیا۔

شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بزرگان اہل‌ سنت آپ کا ایک دین شناس ہونے کے عنوان سے احترام کرتے ہیں اور شیعوں کی طرح بعض اہل سنت بھی آپ کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار آپ کے پوتے امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ شمال بغداد میں واقع ہے جو اس وقت حرم کاظمین کے نام سے مشہور مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

نسب، کنیت و لقب

  • نسب: موسی بن جعفر بن محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب۔
  • کنیت: ابو ابراہیم، ابو الحسن اور ابو علی۔
  • لقب: آپ کو دوسروں کے سامنے غصہ پی جانے کی بنا پر کاظم اور کثرتِ عبادت کی وجہ سے عبد صالح کا لقب دیا گیا۔ باب الحوائج نیز آپ کے القاب میں سے ہے۔ اور مدینے کے لوگ انہیں زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے۔

اہل سنت کے مشہور عالم ابن حجر ہیتمی (م 974 ھ) رقمطراز ہیں: آپ بہت زیادہ درگذر کرنے اور بردباری کی وجہ سے کاظم کہلائے اور عراقیوں کے نزدیک باب الحوائج عند اللہ (یعنی اللہ کے نزدیک حاجات کی برآوری کرنے والے) کے عنوان سے مشہور تھے اور اپنے زمانے کی عابد ترین، دانا ترین، عالم ترین اور انتہائی فیاض شخصیت کے مالک تھے۔

انگشتریوں کے نقش

امام موسی کاظم علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش: الْمُلْكُُ‏ للہِ وَحْدَه اور حَسبِيَ اللهُ منقول ہیں۔

زندگی نامہ

ولادت

امام موسی کاظمؑ نے بروز اتوار 7 صفر سنہ 127 یا 128 ہجری میں مکہ و مدینہ کے درمیان ابواء نامی مقام پر اس وقت دنیا میں قدم رکھا جب حضرت امام جعفر صادقؑ اپنی زوجہ کے ہمراہ حج سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپؑ 129ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے ہیں۔

کتاب محاسن میں برقی کی روایت کے مطابق، امام صادقؑ نے اس نومولود کی ولادت کے بعد تین دن تک عمومی ضیافت کا بندوبست کیا۔

روز ولادت میں اختلاف ہے بعض نے مہینے اور دن کے بغیر صرف مقام ولادت ذکر کیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ طبری نے ان کی ولادت ماه ذی الحجہ اور بعض جیسے طبرسی 7 صفر میں نقل کی ہے۔

امام موسی کاظمؑ 25 رجب سنہ 183 ہجری میں بغداد میں شہید ہوئے۔

آپؑ متوسط القامہ، نورانی چہرے کے مالک تھے۔ آپ کے چہرے کی رنگت گندمی، داڑھی گھنی اور سیاہ تھی۔ شیخ مفید لکھتے ہیں: آپؑ اپنے زمانے کی عابد ترین، فقیہ ترین، سخی ترین اور بزرگوار ترین شخصیت سمجھے جاتے تھے۔

موسی بن جعفرؑ کی ولادت امویوں سے عباسیوں کی طرف حکومت کے منتقلی کے دور میں ہوئی۔ آپ کا سن چار سال تھا کہ پہلا عباسی خلیفہ مسند حکومت پر بیٹھا۔ منابع تاریخی میں امام کاظم کی زندگی کے امامت سے پہلے دور کے متعلق کوئی معلومات ذکر نہیں ہے البتہ بچپن میں ابو حنیفہ اور دوسرے ادیان کے علما سے مدینہ میں ہونے والی چند گفتگوئیں مذکور ہیں۔

مناقب کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ امام ایک اجنبی شخص کی حیثیت سے شام کے ایک دیہات میں وارد ہوئے تو ایک راہب سے گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں راہب، اس کی بیوی اور اس کے ساتھی بھی مسلمان ہوئے۔ اسی طرح حج اور عمرے کے بارے میں کچھ روایات مذکور ہیں۔ چند مرتبہ خلفائے عباسی کی طرف سے بغداد امام احضار ہوئے۔ اس کے علاوہ امام ساری زندگی مدینہ میں رہے۔

ازواج اور اولاد

تفصیلی مضمون: امام موسی کاظم کی اولاد

آپ کی ازواج کی تعداد واضح نہیں ہے لیکن منقول ہے کہ ان میں سب سے پہلی خاتون امام رضاؑ کی والدہ نجمہ خاتون ہیں۔ آپ کے فرزندوں کی تعداد کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ امام کاظمؑ کی 37 اولاد ہیں جن میں 18 بیٹے اور 19 بیٹیاں شامل ہیں: امام رضاؑ، إبراہیم، شاہچراغ ، حمزہ، إسحاق بیٹوں میں سے ہیں جبکہ فاطمہ معصومہ و حکیمہ آپ کی بیٹیوں میں سے ہیں۔ امام کاظمؑ کی نسل موسوی سادات سے مشہور ہیں۔

عرصہ امامت

امام کاظمؑ کے والد ماجد امام صادقؑ کی شہادت کے بعد سنہ 148 ہجری میں 20 سال کی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا۔ آپ کی امامت بنی عباس کے چار خلیفوں کی خلافت کے دور میں تھی۔ امامت کے دس برس منصور عباسی کی خلافت (حکومت136ھ-158ھ) میں، 11 سال مہدی عباسی کی خلافت (حکومت158-169ھ) میں، ایک سال ہادی عباسی کی خلافت (حکومت169-170ھ) میں اور 13 سال ہارون کی خلافت (حکومت 170-193ھ) میں گزارے۔ امام کاظمؑ کی امامت 35 سالوں پر محیط تھی۔ سنہ 183ھ کو آپ کی شہادت کے بعد امامت آپ کے بیٹے امام رضاؑ کی طرف منتقل ہوگئی۔

  • نصوص امامت

شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام اللہ تعالی کی طرف سے معین ہوتا ہے اور امام کو پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک نص (رسول اللہ یا سابق امام کی طرف سے موجودہ امام کی امامت پر تصریح) ہے۔ امام صادقؑ نے متعدد موارد میں امام کاظمؑ کی امامت کے بارے میں اپنے خاص اصحاب کو بتایا تھا۔ اور کافی، ارشاد، اعلام الوری اور بحارالانوار، میں سے ہر ایک امام موسی کاظمؑ کی امامت کے بارے میں ایک باب پایا جاتا ہے جس میں بالترتیب 16، 46، 12، اور 14 روایات درج ہیں۔ من جملہ

  • ایک روایت کے مطابق فیض بن مختار کہتا ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ اسی اثنا آپ کے بیٹے موسی آگئے تو امام صادقؑ نے ان کی معرفی کروایی۔
  • امام صادق) کے فرزند علی بن جعفر نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے اپنے بیٹے موسی کے متعلق فرمایا:
فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلہِ تَعَالَى عَلَى كَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی‏ وہ میرا افضل ترین فرزند ہے اور یہ وہ ہے جو میرے بعد میری جگہ لے گا اور میرے بعد مخلوق خدا پر اللہ کی حجت ہے۔

نیز عیون اخبار الرضا سے منقول ہوا ہے کہ ہارون رشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسی بن جعفر کو برحق امام اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے شایستہ ترین شخص قرار دیا اور اس کی اپنی پیشوائی کو ظاہری اور طاقت کے بل بوتے پر قرار دیا۔

  • وصیت امام صادقؑ اور بعض شیعوں کی پریشانی

مآخذ میں لکھا گیا ہے کہ عباسیوں کی طرف سے مشکلات کے پیش نظر امام صادقؑ نے امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر عباسی خلیفہ سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی معرفی کیا۔ اگرچہ اپنے بعد کے لئے امام صادقؑ کو امام کے عنوان سے اصحاب کے لئے معرفی کیا تھا اس کے باوجود شیعوں کے لئے ابہام ایجاد کیا تھا۔ اس دور میں مؤمن طاق اور ہشام بن سالم جیسے جلیل صحابی بھی شک اور تردید کے شکار ہوگئے اور امامت کے مدعی عبد اللہ افطح کی طرف گئے اور زکات کے بارے میں اس سے سوالات کئے اور جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور پھر امام موسی کاظمؑ کے پاس آئے اور آپ کے جوابات سے مطمئن ہوئے اور آپ کی امامت کو مان گئے۔

شیعہ گروہ بندی

پیروان اہل بیتؑ میں سے بعض شیعہ امام صادقؑ کی حیات میں ہی آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کی امامت کے قائل تھے۔ اسماعیل کا انتقال ہوا تو ان کی موت کا یقین نہین کیا اور انہیں پھر بھی امام سمجھتے رہے۔ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد ان میں سے بعض نے اسماعیل کی حیات سے مایوس ہوکر ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو امام سمجھا اور اسماعیلیہ کہلائے۔ بعض دوسرے امام صادقؑ کی شہادت کے بعد عبداللہ افطح کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی پیروی کی اور فطحیہ کہلائے۔ امام موسی کاظمؑ کے زمانے کے دوسرے فرقوں میں ناووس نامی شخص کے پیروکاروں کا فرقہ ناووسیہ اور اور آپ کے بھائی محمد بن جعفر دیباج کی امامت کا قائل فرقہ شامل ہیں۔

امام موسی کاظمؑ کی شہادت کے بعد بھی امام رضاؑ کی امامت پر اعتقاد نہ رکھنے والے افراد نے امام موسی کاظمؑ کی امامت پر توقف کیا اور آپ کو مہدی اور قائم قرار دیا اور واقفیہ کہلائے۔ مہدویت اور قائمیت کے تفکر کی جڑیں بنیادی شیعہ اصولوں میں پیوست ہیں اور اس کا سرچشمہ خاندان رسالت سے منقولہ احادیث کی ہیں جن کی بنا پر خاندان رسالت کا ایک فرد قائم اور مہدی کے عنوان سے قیام کر کے دنیا کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنائے گا۔

غالیوں کی سرگرمیاں

امام کاظم کے دور امامت میں غالیوں نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس دور میں فرقہ بشیریہ بنا جو محمد بن بشیر سے منسوب تھا اور یہ شخص امام موسی بن جعفر کے اصحاب میں تھا۔ وہ امام کی زندگی میں امام پر جھوٹ و افترا پردازی کرتا تھا۔ امام کاظم محمد بن بشیر کو نجس سمجھتے اور اس پر لعنت کرتے تھے۔

علمی خدمات

امام کاظم سے روایات، مناظرات اور گفتگوئیں شیعہ کتب میں مذکور ہیں۔

روایات

شیعہ منابع میں اکثر امام کاظم سے احادیث منقول ہوئی ہیں۔ جن میں سے اکثر تعداد کلامی جیسے توحید، بدا اور ایمان نیز اخلاق کے عنوان سے منقول ہیں۔اسی طرح جوشن صغیر جیسی مناجات اسی امام سے مذکور ہیں۔ ان سے منقول روایات کی اسناد میں الکاظم، ابی‌ الحسن، ابی‌ الحسن الاول، ابی‌ الحسن الماضی، العالم و العبد الصالح سے امام کو یاد کیا گیا ہے۔ عزیز الله عطاردی نے ۳،۱۳۴ احادیث امام کاظم سے اکٹھی کی ہیں جنہیں مُسْنَدُ الامام الکاظم کے نام سے اکٹھا کیا گیا ہے اہل سنت عالم دین ابو عمران مروزی نے مسند امام موسی کاظم کے عنوان سے بعض احادیث ذکر کی ہیں۔ امام کاظمؑ سے بعض دیگر روایات بھی منقول ہیں:

  • علی بن جعفر، امام کاظم کے بھائی کی المسائل کے نام سے ایک کتاب تھی جس میں امام کاظمؑ سے کئے گئے سوالات اور امامؑ کے جوابات درج کیا تھا۔ یہ کتاب فقہ کے موضوع پر ہے۔ اور مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا کے نام سے موسسہ آل البیت کی طرف سے نشر ہوئی ہے۔
  • عقل کے بارے میں امام سے منسوب ایک رسالہ لکھا گیا جس میں ہشام بن حکم کو خطاب کیا گیا ہے۔
  • فتح بن عبدالله کے سولات کے جواب میں ایک رسالہ توحید کے نام سے امام کے حوالے سے مذکور ہے۔
  • علی بن یقطین نے بھی امام موسی بن جعفر سے مسائل دریافت کئے جو مسائل عن ابی الحسن موسی بن جعفر‌ کی صورت میں انہوں نے لکھے۔

مناظرے اور مکالمے

امام کاظم کے مناظرات اور گفتگو مختلف کتب میں مذکور ہیں جن میں سے بعض خلفائے بنی عباس، یہودی دانشمندوں، مسیحیوں، ابو حنیفہ اور دیگران سے منقول ہیں۔ باقر شریف قرشی نے تقریبا آٹھ مناظرے اور گفتگو مناظرے کے عنوان کے تحت ذکر کی ہیں۔ امام کاظم ؑ نے مہدی عباسی کے ساتھ فدک اور قرآن میں حرمت خمر کے متعلق گفتگو کی۔ امام ؑ نے ہارون عباسی سے مناظرہ کیا۔ جب کہ وہ اپنے آپ کو پیامبرؐ سے منسوب کرکے اپنے آپ کو پیغمبر کا رشتہ دار سمجھتا تھا، امام کاظمؑ نے اس کے سامنے اس کی نسبت اپنی رشتہ داری کو رسول اکرم سے زیادہ نزدیک ہونے کو بیان کیا۔ موسی بن جعفر نے دیگر ادیان کے علما سے بھی مناظرے کئے جو عام طور پر سوال و جواب کی صورت میں تھے جن کے نتیجے میں وہ علما مسلمان ہوگئے۔

ابو حنیفہ

روایت کے مطابق ابوحنیفہ نے کسی مسئلے کے استفسار کی خاطر امام صادقؑ سے ملاقات کی۔ لیکن امام صادقؑ سے پہلے اس کی نظر امام موسی کاظم پر پڑی جن کا سن 5 سال تھا تو اس نے ان سے سوال کیا: گناہ خدا سے صادر ہوتا ہے یا بندے سے؟ امام کاظمؑ نے جواب میں کہا: گناہ یا تو خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے اور اس میں بندے کی کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں ہے پس اس صورت میں بندے کی جانب سے اس میں کسی قسم کی دخالت نہ ہونے کی بنا پر خدا اسے مجازات نہیں کرے گا۔ یا اس گناہ میں خدا اور بنده دونوں شریک ہیں۔ اس صورت میں خدا انسان کی نسبت قوی تر ہے اور قوی کی موجودگی میں قوی کو حق حاصل نہیں کہ صرف اپنے ضعیف شریک کو سزا دے۔ یا گناہ بندے کی جانب سے اور خدا کا اس میں کسی قسم کا دخل نہیں ہے۔ اس صورت میں اگر خدا چاہے تو اسے سزا دے یا اسے بخش دے۔ خدا وہ ذات ہے جس سے ہر حال میں مدد لی جاتی ہے۔ ابو حنیفہ نے یہ جواب سن کر کہا میرے لئے یہ جواب کافی ہے اور امام صادق کے گھر سے چلے گئے۔

بریہہ

شیخ صدوق اور دیگر ہشام بن حکم سے منقول روایت کے مطابق مسیحی علما میں سے بریہہ ایک گروہ کے ہمراہ ہشام کے پاس آیا اور اس نے مناظرہ کیا۔ ہشام نے کامیابی حاصل کی۔ پھر وہ سب امام صادق سے ملاقات کرنے کیلئے عراق سے مدینہ آئے۔ امام صادق کے گھر داخل ہوتے ہوئے ان کی ملاقات امام موسی کاظم سے ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق ہشام نے امام موسی کاظم سے واقعہ بیان کیا اور ان عیسائیوں کی امام سے گفتگو ہوئی کہ جس کے بعد بریہہ اور اس کی بیوی مسلمان ہو کر امام کے خدمت کار ہوگئے ہشام نے ان کی بات چیت اور مسلمان ہونے کا واقعہ امام صادق کے سامنے بیان کیا تو امام صادق نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ذُرِّیَّهً بَعْضُها مِن بَعْضٍ وَاللهُ سَمیِعُ عَلیِمُترجمہ: جو ایک نسل ہے جن کے بعض بعض سے ہیں (یہ اولاد ہے ایک دوسرے کی) اور خدا بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔(34)۔

ہارون عباسی

ہارون پیامبر کی قبر کے پاس آیا اور حاضرین کے سامنے رسول خدا ؐ سے اپنی رشتہ داری ظاہر کرنے کی خاطر میرے چچا کے بیٹے کہہ کر رسول اللہ کو خطاب کیا۔ امام کاظمؑ وہاں موجود تھے آپ نے میرے بابا کہہ کر رسول خدا کو خطاب کیا۔ ایک روایت کی بنا پر ہارون نے امام سے کہا: لوگوں کو کیوں اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ وہ تمہیں پیغمبر کی طرف نسبت دیں یا تم تو رسول اللہ کے بیٹوں میں سے نہیں بلکہ علی کے فرزندوں میں سے ہو؟ امام نے اسے جواب دیا: اے خلیفہ! اگر پیغمبر زندہ ہو جائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کریں تو تم انہیں رشتہ دو گے؟ ہارون نے جواب دیا: کیوں نہیں بلکہ میں عرب پر اس بات کی وجہ سے فخر و مباہات کروں گا۔ امام کاظم نے جواب دیا: لیکن پیغمبر کسی بھی حالت میں مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے کیونکہ وہ میرے نانا ہیں۔

سیرت

امام موسی کاظم کی خدا سے ارتباط، لوگوں اور حاکمان وقت کے روبرو ہونے کی روشیں مختلف تھیں۔ خدا سے ارتباط کی روش کو سیرت عبادی، حاکمان وقت اور لوگوں سے ارتباط کی روش کو سیاسی اور اخلاقی روش سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عبادی سیرت

شیعہ و سنی منابع کے مطابق امام کاظم ؑبہت زیادہ اہل عبادت تھے۔ اسی وجہ سے ان کے لئے عبد صالح استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض روایات کی بنا پر حضرت امام موسی کاظم اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے کہ زندانوں کے نگہبان بھی ان کے تحت تاثیر آ جاتے۔ شیخ مفید موسی بن جعفر کو اپنے زمانے کے عابد ترین افراد میں سے شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول گریہ کی کثرت کی وجہ سے آپ کی ریش تر ہو جاتی۔ وہ عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ کی دعا بہت زیادہ تکرار کرتے تھے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ کی دعا سجدے میں تکرار کرتے۔ یہانتک کہ ہارون کے حکم سے جب زندان تبدیل کیا جاتا تو اس پر خدا کا شکر بجا لاتے کہ خدا کی عبادت کیلئے پہلے سے زیادہ فرصت مہیا کی ہے اور کہتے: خدایا! میں تجھ سے عبادت کی فرصت کی دعا کرتا تھا تو نے مجھے اس کی فرصت نصیب فرمائی پس میں تیرا شکر گزار ہوں۔

اخلاقی سیرت

مختلف شیعہ اور سنی منابع میں امام موسی کاظم کی بردباری اور سخاوت کا تذکرہ موجود ہے۔ شیخ مفید نے انہیں اپنے زمانے کے ان سخی ترین افراد میں سے شمار کیا ہے کہ جو فقیروں کیلئے خود خوراک لے کر جاتے تھے. ابن عنبہ نے امام موسی کاظم کی سخاوت کے متعلق کہا ہے: وہ رات کو اپنے ہمراہ درہموں کا تھیلا گھر سے باہر لے جاتے ہر کسی کو اس میں سے بخشتے یا جو اس بات کے منتظر ہوتے انہیں بخشتے۔ اس بخشش کا سلسلہ یہانتک جاری رہا کہ زمانے میں ان کے درہموں کا تھیلا ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ موسی بن جعفر ان لوگوں کو بھی بخشش سے محروم نہیں رکھتے تھے جو انہیں اذیت دیتے تھے۔ جب انہیں خبر دی جاتی کہ فلاں انہیں تکلیف و آزار پہچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ہدیہ بھجواتے۔ اسی طرح شیخ مفید امام موسی کاظم کو اپنے گھر اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کی سب سے زیادہ سعی کرنے والا سمجھتے ہیں۔

امام موسی کاظم کو کاظم کا لقب دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے تھے۔ مختلف روایات میں آیا ہے کہ آپ دشمنوں اور اپنے ساتھ بدی کرنے والوں کے مقابلے میں اپنا غصہ پی جاتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے کسی نے آپ کے سامنے حضرت علی کی توہین کی تو آپ کے ساتھیوں نے اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام نے انہیں اس سے روک دیا پھر اس کے کھیت میں اس کے پاس گئے۔ اس شخص نے آپ کو دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ کہیں آپ اس کی فصل کو خراب نہ کر دیں۔ امام اس کے قریب ہوئے اور خوش خلقی سے پوچھا کہ اس کھیت میں تم نے کس قدر خرچ کیا ہے؟ شخص نے جواب دیا: 100 دینار۔ پھر پوچھا: اس سے کتنی مقدار فصل حاصل ہوگی؟ شخص نے جواب دیا: غیب نہیں جانتا ہوں۔ امام کاظم نے سوال کیا: کس قدر اندازے کی امید ہے؟ شخص نے جواب دیا: 200 دینار! امام نے اسے 300 دینار دیتے ہوئے کہا: 300 دینار تمہارے لئے ہے اور ابھی فصل تمہارے لئے باقی ہے۔ پھر مسجد گئے۔ اس شخص نے اپنے آپ کو امام سے پہلے مسجد پہنچایا اور امام کو آتے ہوئے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس آیت کی بلند آواز میں تلاوت کی:اللَّه أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِ‌سَالَتَهُ خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔[ انعام–۱۲۴]

بشر حافی نے مشائخ صوفیہ کا مرتبہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے کلام اور اخلاق سے متاثر ہو کر توبہ کی۔

سیاسی سیرت

بعض منابع کہتے ہیں کہ امام تعاون نہ کرنے اور مناظروں جیسے ذرائع کے ساتھ خلفائے بنی عباس کی حکومت کے ناجائز ہونے کو بیان کرتے اور اس حکومت کی نسبت لوگوں کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔۔ درج ذیل مقامات کو نمونے کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے:

  • عباسی خلفا جب اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کی خاطر اپنی نسبت اور نسب رسول خدا سے جوڑتے اور یہ ظاہر کرتے کہ بنی عباس رسول خدا کے نزدیکی رشتہ داروں میں سے ہیں جیسا کہ امام اور ہارون کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ہوا، تو امام موسی کاظم آیت مباہلہ سمیت قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہ کے ذریعے اپنے نسب کو رسول خدا سے ملا کر ثابت کرتے ہیں۔
  • جب مہدی عباسی رد مظالم کر رہا تھا تو آپ نے اس سے فدک کا مطالبہ کیا۔ مہدی نے آپ سے تقاضا کیا کہ آپ فدک کے حدود معین کریں تو امام نے اس کے ایسے حدود معین کیے کہ جو ان کی حکومت کے برابر تھے۔ ۔
  • ساتویں امام اپنے اصحاب کو عباسی حکومت سے تعاون نہ کرنے کی سفارش کرتے چنانچہ آپ نے صفوان جمال کو منع کیا کہ وہ اپنے اونٹ ہارون کو کرائے پر مت دے۔ اسی دوران ہارون الرشید کی حکومت میں وزارت پر فائز علی بن یقطین کو عباسی حکومت میں باقی رہنے کو کہا تا کہ وہ شیعوں کی خدمت کر سکیں۔
  • اس کے باوجود تاریخی مستندان میں حضرت امام موسی کاظم کی طرف سے عباسی حکومت کی کھلم کھلا مخالفت کی کوئی خبر ذکر نہیں ہوئی ہے۔ آپ اہل تقیہ تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کی وصیت کرتے جیسا کہ آپ نے مہدی عباسی کو اس کی ماں کی وفات پر تسلیت کا خط لکھا۔ روایت کے مطابق جب ہارون نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا: حاکم کے سامنے تقیہ واجب ہے لہذا میں اس کے سامنے جا رہا ہوں۔ اسی طرح آپ آل ابی طالب کی شادیوں اور نسل کو بچانے کی خاطر ہارون کے ہدایات قبول کرتے۔۔ یہانتک کہ آپ نے علی بن یقطین کو خط لکھا کہ خطرے سے بچاؤ کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے اہل سنت کے مطابق وضو کیا کرے۔۔

امام کاظمؑ اور علویوں کے قیام

حضرت موسی بن جعفر کے زمانے میں عباسیوں کی حکومت کے دوران علویوں نے متعدد قیام کئے۔ عباسیوں نے اہل بیت کی حمایت اور طرفداری کا نعرہ بلند کرکے قدرت حاصل کی تھی لیکن کچھ ہی مدت میں علویوں کے سخت دشمن بن گئے۔ لہذا اس بنا پر بہت سے علویوں کو قتل کیا اور بہت سوں کو قید کیا۔ عباسیوں کی اس سخت گیری کی وجہ سے بہت سے علویوں نے ان کے خلاف قیام کا اقدام کیا۔ قیام نفس زکیہ، ادریسیوں کی حکومت کی تشکیل اور شہید فخ کا قیام انہی قیاموں میں سے ہیں۔ قیام فخ سنہ 169 ہجری میں موسی بن جعفر کی امامت اور ہادی عباسی کی خلافت سے متصل ہے۔ امام ان قیاموں کا حصہ نہیں بنے اور نہ ہی امام کی جانب سے ان قیاموں کی واضح طور پر کہیں تائید نقل ہوئی ہے۔ یہانتک کہ یحیی بن عبدالله نے طبرستان میں قیام کے بعد امام کو ایک خط میں اس کی تائید نہ کرنے کا گلہ کیا۔ ۔

  • قیام فخ مدینہ میں رونما ہوا، اس کے متعلق دو نظریے پائے جاتے ہیں:
    • ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ آپ اس قیام کے موافق تھے۔ اس نظریے کی تائید میں شہید فخ کے بارے میں امام کے اس خطاب کو دلیل کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے: اپنے کام میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرو کیونکہ لوگ ایمان کا اظہار کر رہے ہیں لیکن وہ اندرونی طور پر شرک کر رہے ہیں۔
    • دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ یہ قیام امام کا مورد تائید نہیں تھا۔

بہر حال جب امام نے شہید فخ کا سر دیکھا تو کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اور ان کی تعریف کی۔ ہادی عباسی قیام فخ کو امام کے حکم سے سمجھتا تھا اسی وجہ سے ہادی نے امام کو قتل کرنے دھمکی بھی دی تھی۔

اسیری اور قیدخانہ

امام کاظمؑ کی گرفتاری کے اسباب میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں جس سے اہل تشیع کے درمیان امامؑ کے مرتبے اور مقام و منزلت کی عکاسی ہوتی ہے۔ چنانچہ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ عباسی دربار کے وزیر یحیی برمکی یا پھر امامؑ کے ایک بھائی نے عباسی بادشاہ ہارون عباسی کے پاس چغل خوری اور بہتان تراشی کی تھی۔ ہارون نے امامؑ کو دو مرتبہ قید کیا لیکن تاریخ پہلی مدتِ قید کے بارے میں خاموش ہے جبکہ دوسری مدتِ قید سنہ 179 سے 183 ہجری تک ثبت کی گئی ہے جو امامؑ کی شہادت پر تمام ہوئی۔
ہارون نے سنہ 179 میں امامؑ کو مدینہ سے گرفتار کیا۔ امامؑ 7 ذی الحجہ کو بصرہ میں عیسی بن جعفر کے قیدخانے میں قید کئے گئے؛ جہاں سے آپ کو بغداد میں فضل بن ربیع کی زندان میں منتقل کیا گیا۔ فضل بن یحیی کی زندان اور سندی بن شاہک کا زندان وہ قید خانے تھے جن میں امامؑ نے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسیری کی زندگی گذاری۔

شہادت

امام کاظمؑ 25 رجب سنہ 183 ہجری کو بغداد میں واقع سندی بن شاہک کی زندان میں شہید کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد سندی نے حکم دیا کہ آپ کا جسم بے جان بغداد کے پل پر رکھ دیا جائے اور اعلان کیا جائے کہ آپ طبیعی موت پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
آپ کی شہادت کے متعلق بیشتر تاریخ نگار مسمومیت کے قائل ہیں اور یحیی بن خالد اور سندی بن شاہک آپ کے قاتلوں کے طور پر جانے گئے ہیں۔ جبکہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ کو ایک بچھونے میں لپیٹ دیا گیا جس کی وجہ سے آپ کا دم گھٹ گیا اور شہید ہوگئے ہیں۔ اور بعض دیگر نے لکھا ہے کہ ہارون کے حکم پر پگھلا ہوا سیسہ امامؑ کے گلے میں انڈیل دیا گیا۔ تاہم مشہور ترین قول ـ جو تواتر کی حد تک پہنچ گیا ہے ـ یہی ہے کہ یحیی برمکی نے ہارون کے حکم پر سندی بن شاہک کے ذریعے زہر آلود کھجوروں کے ذریعے امام کو شہید کروایا۔ روایت میں ہے کہ ہارون نے شیعیان آل رسولؐ کا مرکز متزلزل کرنے، اپنے اقتدار کو طول دینے اور حکومت کے استحکام کی غرض سے آپ کی شہادت کا حکم جاری کیا اور یہودی سندی بن شاہک نے 10 زہریلی کھجوریں امامؑ کو کھلا دیں اور کہا مزيد تناول کریں تو امامؑ نے فرمایا: حَسبُکَ قَد بَلَغتَ ما یَحتاجُ اِلیهِ فِیما اُمِرتَ بِهِ۔ تیرے لئے یہی کافی ہے اور تجھے جو کام سونپا گیا تھا اس میں تو اپنے مقصد تک پہنچ گیا”۔
اس کے بعد سندی نے چند قاضیوں اور بظاہر عادل افراد کو حاضر کیا تاکہ ان سے گواہی دلوا سکے کہ امام بالکل صحیح و سالم ہیں۔ امام کاظمؑ نے سندی کی سازش کو بھانپتے ہوئے درباری گواہوں سے کہا: گواہی دو کہ مجھے تین دن قبل مسموم کیا گیا ہے اور اگر چہ میں بظاہر تندرست ہوں مگر بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا؛ راوی کہتا ہے کہ امامؑ اسی دن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

مدفن اور زیارت کا ثواب

تفصیلی مضمون: حرم کاظمین

امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ بغداد کے کاظمین میں آپ کا حرم واقع ہے جو حرم کاظمین سے مشہور ہے اور مسلمان بالخصوص شیعہ وہاں زیارت کرنے آتے ہیں۔ امام رضاؑ کی ایک روایت کے مطابق آپ کے قبر کی زیارت کا ثواب رسول اللہ، امام علیؑ اور امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کے برابر ہے۔

وکیل اور اصحاب

امام موسی کاظم کے اصحاب کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ ان کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے:

شیخ طوسی ان اصحاب کی تعداد 272 ذکر کی ہے۔
برقی نے ان کی تعداد 160 افراد شمار کی ہے۔
قرشی برقی کی تعداد 160 کو درست نہیں سمجھتے ہیں اور انہوں نے خود ۳ اصحاب کی تعداد 320 ذکر کی ہے۔

علی بن یقطین، ہشام بن حکم، ہشام بن سالم، محمد بن ابی عمیر، حماد بن عیسی، یونس بن عبد الرحمن، صفوان بن یحیی و صفوان جمال امام کاظم کے ان اصحاب میں سے ہیں کہ جنہیں بعض نے اصحاب اجماع میں شمار کیا ہے۔ امام کی شہادت کے بعد بعض اصحاب جیسے علی بن ابی حمزه بطائنی، زیاد بن مروان اور عثمان بن عیسی نے علی بن موسی الرضا ؑ کی امامت کو قبول نہیں کیا اور امام موسی کاظم کی امامت پر توقف کیا۔ یہ گروہ واقفیہ کے نام سے معروف ہوا۔ البتہ ان میں سے بعض نے دوبارہ امام علی بن موسی رضا کی امامت کو قبول کر لیا۔

وکالت

تفصیلی مضمون: شعبہ وکالت

امام کاظم نے اپنے زمانے میں شیعوں کے باہمی رابطے اور ان کی اقتصادی توان بڑھانے کی خاطر امام جعفر صادق کے زمانے میں قائم ہونے والے وکالت کے شعبے کو وسعت دی۔ امام موسی کاظم نے کچھ اصحاب کو مختلف جگہوں پر وکیل کے عنوان سے بھیجا۔ کہا گیا ہے کہ منابع میں 13 افراد کے نام وکیل کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔ بعض منابع کے مطابق کوفہ میں علی بن یقطین اور مفضل بن عمر، بغداد میں عبد الرحمان بن حجاج، قندھار میں زیاد بن مروان، مصر میں عثمان بن عیسی، نیشاپور میں ابراہیم بن سلام اور اہواز میں عبدالله بن جندب امام کی جانب سے وکیل تھے۔ مختلف روایات کے مطابق شیعہ حضرات اپنا خمس وکلا کے ذریعے امام موسی کاظم تک پہنچاتے یا خود امام کو دیتے۔ شیخ طوسی نے کچھ وکلا کے واقفی ہونے کا سبب ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لوگ اپنے پاس جمع شدہ مال کی محبت میں واقفی ہو گئے۔ علی بن اسماعیل بن جعفر نے ہارون عباسی کو ایک خبر دی جس کی وجہ سے امام موسی کاظم کو زندان جانا پڑا، اس خبر میں آیا ہے کہ اسے شرق و غرب سے بہت زیادہ مال بھجوایا گیا، وہ بیت المال اور خزانے کا صاحب تھا کہ جس میں مختلف حجم کے بہت زیادہ سکے پائے گئے۔

شیعوں کے ساتھ ارتباط کی ایک روش خطوط کی تھی کہ جو انہیں فقہی، اعتقادی، وعظ، دعا اور وکلا سے مربوط مسائل کے سلسلے میں لکھے جاتے تھے۔ یہانتک نقل ہوا کہ آپ زندان سے اپنے اصحاب کو خطوط لکھتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔

اہل سنت کے نزدیک امام کی منزلت

اہل سنت شیعوں کے ساتویں امام کا ایک عالم دین کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں۔ ان کے بعض جید علما نے ان کے علم و اخلاق کی تعریف کی۔ نیز انہوں نے ان کی بردباری، سخاوت، کثرت عبادت اور دیگر اخلاقی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح ان کی بردباری اور عبادت کی روایات انہوں نے نقل کی ہیں۔ اہل سنت کے سمعانی جیسے جید علما آپ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے تھے اور ان سے توسل کرتے تھے۔ علمائے اہل سنت میں سے ابو علی خلال نے کہا: جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی وہ آپ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے اور ان سے توسل کرتے یہانتک کہ اس کی مشکل برطرف ہو جاتی۔ شافعی نے امام کو شفا بخش دوا کہا ہے۔

مقبرہ

تفصیلی مضمون: حرم کاظمین

بغداد کے پاس کاظمین میں امام کاظمؑ اور امام جوادؑ کے مقبرے حرم کاظمین کے نام سے مشہور ہیں۔ مسلمانوں اور خاص طور شیعوں کیلئے زیارت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام رضاؑ سے منقول روایت کے مطابق امام موسی کاظم کی زیارت کا ثواب رسول اللہ، حضرت علیؑ اور امام حسینؑ کی زیارت کے برابر ہے۔

کتاب شناسی

امام کاظم کے متعلق مختلف زبانوں میں کتابیں، تھیسس اور مقالے لکھے گئے۔ جن کی تعداد 770 کے قریب ہے۔۔کتاب‌ ہای کتاب نامہ امام کاظم ، کتاب‌ شناسئ کاظمین اور مقالۂ کتاب‌ شناسی امام کاظم میں ان آثار کا تعارف کیا گیا ہے۔ اسی طرح فروری 2014 عیسوی میں امام کاظم کا زمانہ اور سیرت کے عنوان سے ایک کانفرنس ایران میں منعقد ہوئی جس کے مقالوں کا مجموعہ بعنوان مجموعہ مقالات ہمایش سیره امام کاظم شائع ہوا۔

اسی طرح مسند الامام الکاظم، باب الحوائج الامام موسی الکاظم اور حیاة الامام موسی بن جعفر ان آثار میں سے ہیں جن میں امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

مذہب

حرم حضرت زینب شام کے شہر دمشق کے جنوب میں واقع شیعوں کا مشہور زیارتی مقام ہے۔ تاریخی اعتبار سے مشہور یہی ہے کہ حضرت زینب‌ؑ اسی مقام پر مدفون ہیں جبکہ مصر میں مقام حضرت زینب اور مدینہ میں قبرستان بقیع دوسرے دو مقام ہیں جہاں پر حضرت زینب‌ؑ کے مدفون ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔

دمشق کا وہ منطقہ جس میں حضرت زینب‌ؑ کا حرم واقع ہے، "شہرک السیدۃ زينب” یا "زینبیہ” کے نام سے مشہور ہے۔ تأسیس سے اب تک متعدد بار حرم حضرت زینب‌ؑ کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی ہے۔

سنہ 2013ء سے شام کے حالات خراب ہونے کے بعد اس ملک میں مختلف تکفیری دہشت گردوں کی موجودگی کی وجہ سے حضرت زینب کا حرم کئی دفعہ راکٹ حلموں کا نشانہ بنا جس کے نتیجے میں حرم کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک سے اہل بیت کے ماننے والے مختلف گروہوں کی شکل میں حرم کی حفاظت کے لئے شام روانہ ہوئے جو مدافعان حرم کے نام سے مشہور ہیں جن کی کوششوں سے اب تک دہشت گروہوں کو منطقہ زینبیہ کی طرف بڑھنے میں ناکامی کا سامنا ہوتا رہا ہے اور حضرت زینبؑ کا حرم ان کی شر سے محفوظ ہیں۔

حضرت زینب کے محل دفن میں اختلاف

حضرت زینب‌ؑ کے محل دفن کے بارے میں تین اقوال موجود ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ شام کے شہر دمشق کے جنوب میں منطقہ زینبیہ میں دفن ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق آپ مصر میں مدفون ہیں اور اس وقت یہ جگہ قاہرہ میں "منطقہ سیدۃ الزینب” میں مقام السیدۃ زینب کے نام سے مشہور ہے۔ تیسرے قول کے مطابق آپ مدینہ میں قبرستان بقیع میں دفن ہیں۔ سید محسن امین اس قول کو قبول کرتے ہوئے پہلے والے دو قول کے رد میں دلائل پیش کرتے ہیں۔

تاریخ کے آئینے میں

تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تاریخی منابع میں پانچویں صدی ہجری تک حضرت زینب‌ؑ کے مقبرے پر گنبد ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک تاریخی منبع میں حرم کے موجودہ جگہے پر دوسری صدی ہجری میں زیارتگاہ ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس یادداشت کے مطابق علوی خاندان سے منسوب ایک خانون، سیدہ نفیسہ بنت حسن الانور جو حضرت علیؑ کی ذریہ میں سے تھی، نے سنہ 193ھ کو دمشق میں منطقہ راویہ میں حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کے لئے گئی تھی۔ اس کے بعد تاریخ میں آیا ہے کہ حلب کے رہنے والے ایک شخص نے سنہ 500ھ میں حضرت زینب‌ؑ کی زیارتگاہ کی جگہ ایک مسجد تعمیر کی۔

لیکن ساتویں صدی ہجری کے بعد اس زیارتگاہ پر گنبد اور بارگاہ تعمیر کی گئی۔ اس کے مطابق عالم اسلام کے معروف سیاح ابن‌جبیر(متوفی 614ھ) دمشق میں منطقہ راویہ جہاں پر اس وقت حرم حضرت زینب‌ؑ واقع ہے، سے عبور کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں اس مزار کو ام کلثوم بنت امام علیؑ سے منسوب کیا ہے۔البتہ یہ احتمال ہے کہ ابن جبیر کی مراد امام علیؑ کی چھوٹی بیٹی زینب صغری ہو نہ کہ حضرت زینب‌ؑ جو زینب کبری کے نام سے معروف ہے۔

ابن جبیر اپنی یادداشت میں دمشق سے ایک فرسخ کے فاصلے پر راویہ نامی گاؤں میں حضرت زینب‌ؑ کے حرم کے واقع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس پر ایک بہت بڑی مسجد بنائی ہوئی ہے اور اس کے باہر گھر بنائے گئے ہیں جو سب کے سب وقف شدہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اس مقبرے کو ام‏‌کلثوم سے منسوب کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے آخر میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے وہاں قیام کیا ہے اور حرم حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کے لئے گئے ہیں۔ ابوبکر ہروی متوفی ۶۱۱ھ نے بھی حرم حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے بھی اپنی یادداشت تحریر کی ہیں۔

محل وقوع اور مشخصات

حرم حضرت زینب‌ؑ دمشق کے جنوب میں منطقہ "السیدہ زینب” میں واقع ہے۔

حرم کی عمارت ایک وسیع اور مربع صحن پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں حرم واقع ہے۔ حرم ایک گنبد اور دو بلند میناروں پر مشتمل ہے۔ میناروں اور صحن اور رواقوں کے دیواروں پر ایرانی معماروں کے توسط سے کاشی کاری کی گئی ہے اسی طرح حرم کی چھت اور داخلی دیواروں پر شیشہ کاری کی گئی ہے اور گنبد کے بیرونی حصے پر سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے۔

صحن کے مشرقی حصے میں مصلائے زینبیہ ایک چھوٹے صحن کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے جس میں نماز جمعہ، نماز یومیہ اور دیگر مذہبی آداب و رسوم ادا کی جاتی ہے۔ ان آخری سالوں میں حرم کے شمالی حصے میں ایک اور صحن بھی تعمیر کی گئی ہے۔

حرم حضرت زینب‌ؑ اور اس کے اطراف میں موجود قبرستان‌ کے درمیان کئی علماء اور شیعہ مشاہیر مدفون ہیں۔ من جملہ ان میں ضریح کے داخلی راستے کے مغربی حصے میں سید محسن امین عاملی اور سید حسین یوسف مكی عاملی کی قبر ہے جو شام کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ اسی طرح حرم کے شمالی حصے میں واقع قبرستان میں علی شریعتی اسی طرح جنوبی حصے کے قبرستان میں معاصر عراقی شاعر سید مصطفی جمال‌الدین کی قبر موجود ہے۔

تکفیری گروہوں کی دہشت گردانہ حملے

سنہ 2012ء کے بعد شام میں شروع ہونے والی جنگ میں تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے حضرت زینب‌ؑ کے حرم کو کئی دفعہ راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں حرم کے گنبد، صحن اور مین دروازے کو نقصان پہنچا۔ یہ حملے چونکہ حرم کے اطراف اور نزدیک انجام پائے جس کی وجہ سے بہت سارے زائرین اور ان علاقوں کے مکین بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔

مدافعان حرم

شام میں تکفیری دہشتگروں کی آمد اور مختلف مناطق پر مسلط ہونے کے بعد یہاں موجود مختلف زیارتی اور مذہبی مقامات ان دہشتگروں کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔ حرم حضرت زینب‌ؑ نیز کئی دفعہ ان دہشتگروں کے راکٹ حملوں کا نشانہ بنا۔ تکفیری دہشتگردوں نے کئی بار حرم کے نزدیک تک پیش قدمی کی لیکن وہاں کے ساکنین اور شیعوں کی مقاومت کے نتیجے میں حرم تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

داعش کی طرف سے اہل‌ بیتؑ کے حرموں خاص کر حرم حضرت زینب‌ؑ کو تخریب کرنے کی دھمکی کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر ایران، عراق، لبنان، افغانستان اور پاکستان سے شیعہ جوان حرم حضرت زینب‌ؑ اور دیگر مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے شام روانہ ہو گئے۔ ابوالفضل العباس برگیڈ میں عراقی اور لبنانی، لشکر فاطمیون میں افغانستان جبکہ زینبیون برگیڈ میں پاکستانی جنجگو شامل ہیں جو شام میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے رضاکارانہ طور پر شامل چلے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ ایران سے بھی مختلف گروہ جن میں فوجی افسران بھی شامل تھے، شام چلے گئے ہیں۔

تعمیر اور ترقیاتی منصوبہ جات

تاریخی اسناد کے مطابق حرم حضرت زینب‌ؑ کی پہلی بار سنہ ۷۶۸ھ میں توسیح و تعمیر ہوئی۔ یہ اقدام سید حسین بن موسی موسوی حسینی جو دمشق کے سادات اور اشراف نیز شام میں سادات آل مرتضی کے جد امجد تھے، کے توسط سے انجام پایا۔ اسی سال سے مربوط ایک وقفنامہ میں صاحب قبر کا نام تصریحا زینب کبری بنت امام علیؑ لکھا گیا ہے۔ اس وقفنامے کے مطابق شام میں سادات آل مرتضی کے جد امجد نے زیارتگاہ کی تعمیر کے ساتھ بہت سارے اپنے باغات اور املاک کو حرم کے لئے وقف کئے ہیں۔ اس وقفنامے پر دمشق کے سات قاضیوں کے دستخط ہیں۔

چودہویں صدی ہجری میں حرم کی توسیع

چودہویں صدی ہجری کو حرم حضرت زینب‌ؑ کی تین بار توسیع کی گئی۔ اس بنا پر سنہ ۱۳۰۲ھ کو سلطان عبدالعزیزخان عثمانی نے تاجروں کی مدد سے حرم کی تعمیر و توسیع کی اسی طرح سنہ ۱۳۵۴ھ کو سادات آل نظام نے حرم حضرت زینب‌ؑ کی توسیع کی۔ آخری بار سنہ ۱۳۷۰ھ کو سید محسن امین نے تاجروں کی مدد سے حرم کی توسیع کی اس بار حرم کی پرانی عمارت کو توڑ کر نئی عمارت تعمیر کی گئی۔

پندرہویں صدی ہجری میں حرم کی توسیع

پندرہویں صدی ہجری میں حرم حضرت زینب‌ؑ کی توسیع کا کام مصلی زینبیہ کی تعمیر کے ساتھ جاری رہی۔ یہ کام شام میں ولی فقیہ کے نمایندے سید احمد فہری زنجانی کے توسط سے انجام پایا۔ حرم میں مصلی کی تعمیر کے بعد نماز جماعت، دعائے کمیل اور نماز جمعہ اسی مصلے میں انجام پاتے ہیں۔ آخری سالوں میں حرم حضرت زینب‌ؑ کے شمالی حصے میں ایک صحن بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

تکفیری دہشتگردوں کے حملے کے بعد حرم کی مرمت

شام میں موجود تکفیری دہشتگردوں کے مختلف راکٹ حملوں میں حرم حضرت زینب‌ؑ کے گنبد، صحن‌ اور مین دروازے کو نقصان پہنچا۔ اس بنا پر مقدس مقامات کی تعمیر و توسیع کے ادارے نے حرم کے نقصان دیدہ حصوں کی مرمت کا کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں گنبد کے نقصان دیدہ مقامات کو خوزستان کے لوگوں کی طرف سے اہدا شدہ سونے کی ملمع کاری کی گئی۔

مذہب

امام علی (ع) کا مزار (عربی: عَتَبَة إمام عَلي ع) نجف، عراق میں واقع ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو دفن کیا گیا ہے۔ ان کی وفات کے بعد کئی سالوں تک ان کی قبر کی جگہ ایک راز رہی۔ امام صادق (ع) نے اسے 135/752 میں نازل کیا۔ مختلف ادوار میں مختلف ڈھانچے بنائے گئے ہیں۔ عدود الدولہ الدیلمی اور شاہ صفی ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اس مزار کے لیے شاندار تعمیرات کی ہیں۔

فی الحال، ایک شاندار ڈھانچہ ہے جو چار دروازوں، پانچ برآمدوں، ایک بڑا صحن اور ایک دریہ پر مشتمل ہے۔ صدام حسین کے خاتمے اور ایرانیوں کی موجودگی کے بعد، مزار کو وسیع کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں مزار کے مغربی حصے میں ایک بڑا صحن بنایا جا رہا ہے، اور اس کا نام حضرت فاطمہ (ع) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس سے مزار کا کل رقبہ 140,000 مربع میٹر ہو جائے گا۔ اس حصے میں بہت سے فقہاء اور علماء مدفون ہیں۔ (آپ یہاں امام علی کے مزار پر نذر ادا کر سکتے ہیں۔)

خفیہ تدفین

امام علی (ع) کے بیٹے، یعنی امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، اور محمد بن۔ حنفیہ، امام علی (ع) کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن کے ساتھ۔ جعفر نے امام علی (ع) کو رات کے وقت خفیہ طور پر غریین (موجودہ نجف) کے علاقے میں دفن کیا اور ان کی قبر کو چھپا دیا۔ ابن طاؤس لکھتے ہیں:

"[قبر اور اس کے مقام کی] پردہ پوشی ان کے دشمنوں کے خوف کی وجہ سے تھی، جیسا کہ بنی امیہ اور خوارج۔ یہ اس لیے ممکن تھا کہ وہ اس کی قبر کو تلاش کرنے اور اس کی لاش کو نکالنے کی کوشش کریں گے، جس سے لامحالہ قبیلہ ہاشمی کے ساتھ تصادم، اس کے ذریعے بہت سے لوگ مارے جائیں گے اور یہ امت مسلمہ میں ایک بڑا فتنہ (تصادم) کا سبب بنے گا۔ اور فتنے کی آگ کو بجھانے کے لیے مسلسل کوششیں کیں، اس لیے یہ توقع کی جانی چاہیے تھی کہ وہ اسی طرز فکر و عمل کی ترغیب دیں گے جو انھوں نے اپنی پوری زندگی میں وضع کیے، اپنی موت کے بعد بھی جاری رکھیں اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس کا خاندان اور پیروکار اس چیز کو ترک کر دیں جو تنازعہ کا باعث ہو سکتا ہے۔”

امام علی علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنے والے ائمہ

بارہ شیعہ اماموں میں سے، ان میں سے چھ کے لیے نجف میں امام علی (ع) کی قبر کی زیارت کی خبریں ہیں: امام حسین (ع)، امام علی (ع)۔ الحسین السجاد (ع)، امام محمد باقر (ع)، امام جعفر الصادق (ع)، امام علی الہدی (ع)، اور امام حسن العسکری (ع)۔

قبر دریافت کرنا

امام جعفر الصادق (ع) کے دور میں جب امویوں کو خلافت سے بے دخل کیا جا رہا تھا، اب امام علی (ع) کی قبر کو پوشیدہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کی قبر کا مقام معلوم ہوتا گیا اور سب کے سامنے آ گیا۔ روایت کی گئی ہے کہ صفوان نے امام صادق (ع) سے کوفہ کے شیعوں کو بتانے کی اجازت چاہی کہ امام علی (ع) کی تدفین کی جگہ کہاں ہے۔ امام (ع) نے اثبات میں جواب دیا اور قبر کی مرمت اور تعمیر نو کے لیے کچھ رقم بھی دی۔

تعمیر کی تاریخ

بنی امیہ کے معزول اور امام علی (ع) کی قبر کی عوامی دریافت کے ساتھ، داؤد بن۔ علی العباسی (متوفی 133/751) نے گواہی دی کہ بہت سے لوگ قبر کی زیارت کر رہے تھے۔ اس طرح اس نے قبر کے اوپر ایک مقبرہ نصب کر دیا۔ تاہم، عباسی خلافت کے قیام کے بعد، علویوں کے ساتھ ان کے تعلقات بدل گئے اور قبر ایک بار پھر لاوارث ہو گئی اور قبر کا پتھر تباہ ہو گیا۔

بظاہر، تقریباً 170/786 میں، یہ ہارون الرشید تھا جس نے سفید اینٹوں سے بنی امام علی (ع) کا پہلا مزار بنایا تھا۔ اس نے یہ بھی حکم دیا کہ قبر کے اوپر سرخ مٹی سے ایک عمارت بنائی جائے اور مزار پر سبز کپڑے بچھا دیے جائیں۔
جس طرح عباسی خلیفہ متوکل (متوکل 247/861) نے امام حسین (ع) کے مزار کو تباہ کیا، اسی طرح اس نے نجف میں امام علی (ع) کے مزار کو بھی تباہ کردیا۔ اس کے بعد محمد بی۔ زید الدعی (متوفی 287/900) نے قبر کو دوبارہ تعمیر کیا، اور مزید برآں، مزار کے لیے ایک گنبد، دیواریں اور قلعہ تعمیر کیا۔
عمر بی۔ یحییٰ نے 330/942 میں مزار امام علی (ع) کی تزئین و آرائش کی اور گنبد کی تنصیب کے اخراجات اپنے ذاتی فنڈز سے ادا کئے۔
عدود الدولہ الدیلمی (متوفی 372/982) نے اس عمارت کی اس طرح تزئین و آرائش کی کہ یہ اپنے عہد کے لحاظ سے بالکل منفرد تھی اور اس نے اس کے لیے اوقافات بھی مقرر کیے تھے۔ یہ عمارت 753/1352 تک قائم رہی۔ اسی سال یہ عمارت جل کر تباہ ہوگئی تھی۔ کہا گیا ہے کہ اس آگ میں خود امام علی (ع) کے لکھے ہوئے تین جلدوں میں قرآن کا ایک نسخہ بھی جل گیا۔ عود الدولہ کے علاوہ، دیگر بوید حکمرانوں اور ان کے وزیروں، ہمدانیوں، اور کچھ عباسیوں (مستنصر العباسی) نے بھی مزار کی تزئین و آرائش میں حصہ لیا۔
سنہ 760/1359 میں ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی جو کسی خاص فرد سے منسوب نہیں کی گئی۔ تاہم، بظاہر، یہ Ilkhanates کا کام تھا اور اس کی عمارت میں بہت سے قواعد کا حصہ تھا۔ شاہ عباس اول نے اس عمارت کے ہال، گنبد اور صحن کو بحال کیا۔
شاہ صفی نے مزار کے صحن کو وسیع کیا۔

سلطان محمد مرزا کی سفری ڈائریوں میں

(جس نے 1279/1862 میں سفر کیا) لکھا ہے کہ ایک قلعہ محمد حسین صدر اصفہانی نامی شخص نے بنوایا تھا۔ مزید برآں، ان کی سفری ڈائریوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے ایک گنبد خریداروں کے دور میں بنایا گیا تھا اور اسے صفوی دور میں توڑ دیا گیا تھا۔ اس نے مزید نوٹ کیا کہ اس سال (یعنی 1279/1862) جو گنبد قائم ہوا تھا اس کے بارے میں معلوم تھا کہ اسے شاہ عباس اول نے شیخ بہائی کے ڈیزائن سے بنایا تھا۔
گنبد، داخلی دروازے اور دونوں میناروں کی سنہری تفصیل نادر شاہ افشار نے کی تھی۔
آرکیٹیکچرل خصوصیات

مسجد عمران بی۔ شاہین

اس مسجد کا نام عمران بن کے نام پر رکھا گیا ہے۔ شاہین۔ یہ نجف کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے اور امام علی (ع) کے روضہ کے صحن کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ اس وقت اسے مزار کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

جب عمران عدود الدولہ کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تو بالآخر اسے شکست ہوئی۔ اپنی شکست کے بعد، اس نے ایک نطر لیا کہ اگر عود الدولہ اسے معاف کر دے تو وہ امام علی (ع) کے روضہ میں ایک پورٹیکو (رواق) بنائے گا۔ جب عود الدولہ نے اسے معاف کر دیا تو اس نے چوتھی/دسویں صدی کے وسط میں یہ پورٹیکو بنایا۔ آخرکار یہ مسجد بن گئی اور پھر مسجد عمران بن کے نام سے مشہور ہوئی۔ شاہین۔ بعثی حکومت کی تحلیل اور صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے تک مسجد کچھ عرصے کے لیے ترک کر دی گئی۔ حالیہ برسوں میں، مسجد کی تزئین و آرائش شاندار انداز میں کی گئی ہے۔

اس مسجد میں سید محمد کاظم یزدی (عروت الوثقی کے مصنف)، سید محمد کاظم مقدّس اور محمد باقر قمی جیسی چند ممتاز شخصیات کو دفن کیا گیا ہے۔

مسجد الرا

مسجد الرع (صاحب کی مسجد) صحن کے مغرب میں واقع ہے۔ مسجد کا نام اس طرح کیسے پڑ گیا اس بارے میں دو قول ہیں:

یہ مسجد امام علی علیہ السلام کی قبر کے سامنے واقع ہے۔
امام جعفر الصادق (ع) سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امام حسین (ع) کا سر درحقیقت اسی علاقے میں دفن کیا گیا تھا۔
مسجد الخدرہ

مسجد الخدرہ (سبز مسجد کی روشنی) صحن کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یہ وہ مسجد تھی جہاں آیت اللہ الخوئی نے اپنا سبق پڑھایا تھا۔ درحقیقت حال ہی میں اس مسجد اور آیت اللہ الخوئی کی قبر کے درمیان کی دیوار کو ہٹا کر اس کی جگہ داغے ہوئے شیشے کی کھڑکی لگا دی گئی۔

حسینیہ سہن شریف

حسینیہ سہن شریف صحن کے شمالی حصے میں واقع ہے۔ اسے سید محسن زینی نے بنایا تھا۔ یہ عمارت امام علی (ع) کے مزار پر آنے والے زائرین کے لیے آرام گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی تھی اور اس میں وضو کرنے کی جگہ بھی ہے۔ کئی سالوں سے، یہ لاوارث اور ویران پڑا رہا۔ تاہم، جب صدام حسین کا تختہ الٹ دیا گیا، آیت اللہ السیستانی نے اس کی تزئین و آرائش اور دوبارہ کھولنے کا کام شروع کیا۔

ایوان العلماء

ایوان العلماء (علماء کی روشنی کا برآمدہ) مرکزی ہال کے مرکزی شمالی حصے میں واقع ہے۔ اس جگہ کے نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں متعدد علماء مدفون ہیں۔

سکول آف مذہبی سائنسز

صحن کی بالائی منزل میں، 52 کمرے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا برآمدہ صحن کی طرف ہے۔ یہ 52 کمرے ایک مدرسہ بناتے ہیں۔ ہر کمرے کے پیچھے، ایک دالان ہے جو ایک سیڑھی کی طرف جاتا ہے (مدینہ سے باہر نکلنے کے لیے)۔ ان کمروں کو اسلامی مدرسہ کے طلباء کی کلاسوں اور آرام کی جگہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ماہ صفر 1377/1958 میں عراقی عوام کی بغاوت کے بعد، بعثی حکومت نے شیعہ مدرسے کو کمزور اور تباہ کرنے کے ارادے سے مدرسے کے طلباء کو ان کمروں سے نکال دیا۔ تب سے یہ کمرے خالی پڑے ہیں۔

مقام امام صادق علیہ السلام

مقام امام صادق (ع) کا مقام مسجد الرع کے دروازے کے قریب واقع ہے۔ روایت کی گئی ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں امام صادق (ع) جب امیر المومنین (ع) کی زیارت کے لیے تشریف لاتے تھے تو نماز پڑھتے تھے۔ یہ جگہ، تقریباً پچاس سال پہلے ایک سفید گنبد سے ڈھکی ہوئی تھی، جو تقریباً 100 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم، فی الحال، اس عمارت کی کوئی باقیات نہیں ہیں اور جگہ صرف مزار کا ایک حصہ ہے۔

مودی الاصبعین

مودی الاسباعین (دو انگلیوں کی جگہ) اس جگہ کے پار ہے جہاں امام (ع) کا چہرہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ایک ظالم حکمران تھا جس کا نام مرہ ب تھا۔ قیس جو کبھی اپنے قبیلے اور آباؤ اجداد کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس نے قبیلے کے بزرگوں سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جو اس کے خاندان سے گزرے تھے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایک لڑائی میں مارے گئے تھے۔ اس نے مزید پوچھا کہ انہیں کس نے قتل کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے اکثر علی بن کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ابی طالب (ع) تو اس نے پوچھا کہ امام علی (ع) کہاں دفن ہوئے ہیں اور بتایا گیا کہ وہ نجف میں مدفون ہیں۔ اس کے بعد مرہ نے نجف پر حملہ کرنے کے لیے 2000 افراد کی فوج بھیجی۔ چھ دن تک اپنے شہر کے دفاع کے بعد نجف کے لوگ شکست کھا گئے اور مررہ مزار میں داخل ہوئے اور اسے تباہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ قبر کو نکالنے ہی والا تھا کہ اس میں سے دو انگلیاں نکل آئیں

دریہ، اور گویا وہ ایک تلوار ہیں، اسے آدھا کاٹ دو۔ اسی لمحے اس کے جسم کے دونوں حصے پتھر ہو گئے۔ ان دونوں پتھروں کو پھر سڑک / راستے کے قریب رکھا گیا، جس کے بعد فوج نے انہیں لے کر چھپا دیا۔

ترقی

روضہ امام علی علیہ السلام ابی طالب (ع) کو حالیہ برسوں میں کافی توسیع اور تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ اپنے ترقیاتی منصوبوں میں حرم کے مغربی حصے کا نام حضرت فاطمہ الزہرا (ع) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس صحن میں مقام امام سجاد (ع) تک مزار کے احاطے کا مغربی حصہ شامل ہے۔ اسے ایرانی ماہر تعمیرات ڈیزائن اور تعمیر کر رہے ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر، مزار کے احاطے کا کل رقبہ 140,000 مربع میٹر پر محیط ہوگا۔

مذہب

بینُ الْحَرَمَین حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی درمیانی جگہ کو کہا جاتا ہے جس کی لمبائی تقریبا 378 میٹر ہے۔ پرانے زمانے میں بین الحرمین موجودہ دور کی طرح خالی نہیں تھا بلکہ اس میں تجارتی اور رہایشی عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ صدام کے دور میں حرم کی توسیع کی خاطر ان عمارتوں کو گرا دیا گیا اس طرح بین الحرمین موجودہ حالت میں خالی ہو گیا۔ صدام کے سقوط کے بعد بین الحرمین کی توسیع، ایران اور عراق میں عتبات عالیات کے توسیعی پروگراموں میں سے سر فہرست پروگراموں میں شامل ہوا اور اس پر تیزی سے کام شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں بین الحرمین موجودہ شکل میں وجود میں آ گیا۔

بین الحرمین کی اصطلاح

تاریخی منابع اور دیگر ذرایع کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بین الحرمیں میں موجود عمارتوں کی تخریب سے پہلے یہ اصطلاح رائج نہیں تھی۔ اس وقت تک بین الحرمین کا نام صرف تہران میں مسجد شاہ اور مسجد جامع کے درمیان موجود بازار جسے سلسلہ قاجاریہ میں بنایا گیا تھا، کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن جب کربلا میں حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان موجود عمارتوں کو خالی کرایا گیا تو اس جگہ کو اس اصطلاح سے پکارا جانے لگا۔

بین الحرمین کی تعمیر

بین الحرمین کی تعمیر سے پہلے یہ جگہ بھی کربلا کے دوسرے محلوں کی طرح ایک قدیمی محلہ تھی جس کی تنگ و تاریک گلیوں میں لوگوں کے مکانات اور دکانیں موجود تھیں۔ سید محسن حکیم اس فکر میں تھے کہ دونوں حرموں کو توسیع دے کر ایک دوسرے سے ملایا جائے لیکن ایک طرف سے یہاں موجود مکانات اور دکانوں کی قیمت بہت زیادہ تھی جسے تہیہ کرنا ایک مشکل امر تھا تو دوسری طرف ان کے مالکوں کو راضی کرنا بھی ایک سخت کام تھا اسی طرح ان کے درمیان مساجد اور مدارس بھی تھے جن کی وجہ سے معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا تھا۔

سن 1393 ہجری کو عراق کے وزارت اوقاف نے عراق میں موجود عتبات عالیات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور سن 1400 ہجری کو ان مقامات کی مرمت اور توسیع کے حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔

صدام نے محرم 1984 ع کو کربلا میں یہ اعلان کیا کہ حرمین کی توسیع اور انہیں آپس میں ملانے کیلئے دسیوں میلین عراقی دینار مختص کئے جائیں گے۔ اس کے بعد یہاں موجود عمارتوں اور زمینوں کو خریدا گیا اور حرمین کی توسیع اور بین الحرمین کی تعمیر کیلئے ایک میلین عراقی دینار جس کی قیمت دس میلین ڈالر بنتی تھی کو کربلا کے گورنر کیلئے دیا گیا۔

دو سال بعد 3 جمادی الثانی 1407 ہجری کو توسیع حرمین کے دوسرے پروگراموں کی طرح بین الحرمین کی توسیعی پروگرام کا افتتاح ہوا۔ حرمین کے توسیعی پروگرام کے دوران حرمین کے درمیان موجود عمارتیں 40 میٹر تک خالی کرائی گئیں اس دوران بعض تاریخی آثار قدیمہ جیسے مدارس، مساجد اور بعض بزرگوں کے مقبرے بھی خراب ہو گئے۔

بین الحرمین کے دونوں طرف تجارتی عمارتیں بنائی گئیں جو سن 1991ء تک باقی تھیں۔ عراق میں انتفاضہ شعبانیہ کے دوران انقلابیوں اور بعثی فوج کے درمیان لڑائی کی وجہ سے اطراف میں موجود تجارتی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ اس علاقہ پر صدام کی دوبارہ قبضے کے بعد بین الحرمین کے اطراف میں موجود تمام عمارتیں خراب کی گئیں یوں بین الحرمین نے مزید وسعت پیدا کی۔ سن 1994ء میں بغداد کے شیعوں نے بین الحرمین میں درخت کاری کی۔

سن 1991ء کی تحریک میں بعثیوں کے ہاتھوں حرمین کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ اگرچہ صدام حکومت نے دوسرے سال حرمین کی مرمت اور توسیع کی لیکن صدام کی سرنگونی کے بعد تک ان حملات کے آثار باقی تھے۔

بین الحرمین کا محدودہ

بین الحرمین حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان 378 میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ بین الحرمین کی ہوائی تصاویر اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ حرمین کا درمیانی فاصلہ شروع میں خالی نہیں تھا بلکہ دونوں حرموں کے درمیان کافی سارے مکانات اور دکانوں تھیں۔ اور ایک نہایت تنگ گلی حرم امام حسین(ع) کو حرم حصرت عباس(ع) سے ملاتی تھی۔ لیکن صدام کی حکومت کے دوران بین الحرمین میں موجود عمارتیں دو مرحلوں میں تخریب ہوئیں اور حرمین کا درمیانی فاصلہ ایک چوڑی سڑک کی شکل اختیار کر گیا جو بین الحرمین کے نام سے مشہور ہوا۔

بین الحرمین کو زائرین کیلئے مورد استفادہ قرار دینا

صدام کی سرنگونی کے بعد جب عراق میں عتبات عالیات کی تعمیر و توسیع کے منصوبے پر کام شروع ہوا جس میں حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی تعمیر و توسیع بھی شامل تھی۔ حرمین کی توسیع کے ساتھ ساتھ زائرین کے آرام و آسائیش خاص کر عزاداری کے مواقع پر لاکھوں زائرین کیلئے مراسم عزاداری منعقد کرنے کیلئے بین الحرمین کے توسیعی منصوبے پر تیزی سے کام شروع ہوا۔

بین الحرمین کا توسیعی منصوبہ

بین الحرمین کو وہاں کی معنوی فضا کے ساتھ سازگار بنانے اور زائرین کے آرام و آسائش اور حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کے درمیان زائرین کی رفت و آمد میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر سن 2010ء کو بین الحرمین کے توسیعی منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے کے ایک پروجیکٹ میں حرم اور بین الحرمین کے محدودے میں موجود ہوٹلوں اور عمارتوں کی تخریب کا کام شامل تھا۔ اس پروجیکٹ کی مساحت تقریبا ڈیڑھ میلین مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے جو میثم تمار روڈ سے شروع ہو کر شارع "جمہوری” سے ہوتے ہوئے بین الحرمین کی دوسری طرف منتہی ہوتی ہے۔

اس محدودے میں موجود ہوٹلوں اور عمارتوں کے مہنگے ہونے کی بنا پر انہیں خریدنے اور تخریب کیلئے کافی مقدار میں رقوم کی ضرورت تھی جس میں سے کچھ حصہ عراقی حکومت نے ادا کیا جبکہ کچھ حصہ کربلا کے بلدیاتی بجٹ نیز حرمین کے ہدایا اور نذورات سے دریافت ہوا۔ یہ منصوبہ سن 2035ء میں مکمل ہوگا۔

بین الحرمین کے فرش پر سنگ مرمر لگانے کا منصوبہ

بین الحرمین کے توسیعی منصوبوں میں سے ایک منصوبہ اس کے فرش پر سنگ مرمر لگانا تھا۔ اس مقصد کیلئے سن 2010 میں عراق کی وزارت تعمیرات اور ہاوسنگ نے 25 ارب 393 میلین عراقی دینار کی لاگت سے اٹلی کے اعلی کوالٹی کا سنگ مرمر مہیا کیا یوں بین الحرمین کی 24270 مربع میٹر مساحت سنگ مرر سے مزین ہوئی۔ یہ منصوبہ سن 2013 میں مکمل ہوا۔ اس منصوبے میں بین الحرمین کے فرش پر سنگ مرمر کے ساتھ ساتھ زائرین کے آرام و آسائش کیلئے سائبان، انفراسٹرکچر اور بجلی تنصیبات، واٹر اور گیس کولرز، نگرانی کیمرے اور آڈیو آیات وغیره کی تنصیب شامل تھے۔ یہاں استعمال ہونے والا سنگ مرمر مسجد الحرام میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر کی طرح ہے جس کی ضحامت 5 سنٹی میٹر اور وہ ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔

"سفینۃ النجاۃ” جامع منصوبہ

"سفینۃ النجاۃ” جامع منصوبہ بین الحرمین کے توسیعی منصوبوں میں سے سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت حرم امام حسین(ع) اور حرم حضرت عباس(ع) کی موجودہ حالت کو برقرار رکھتے ہوئے بین الحرمین کو دو منزلوں میں تعمیر کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ایرانی انجینیروں نے پیش کیا جسے ایران میں عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی کی طرف سے بین الاقوامی بولی میں رکھا گیا جو بین الاقوامی ثالثوں کی تائید کے بعد سب سے زیادہ رای لینے میں کامیاب ہوا۔

مذہب

روضہ حضرت عباسؑ، کربلا میں اہل تشیع کی زیارت گاہ اور آپؑ کی جائے دفن ہے۔ حرم عباسؑ، حرم امام حسینؑ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور ان دونوں حرموں کی درمیانی جگہ کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔ حرم کی حدود تقریبا 10973 مربع میٹر ہے اور اس کی عمارت اسلامی فن تعمیر کے ساتھ بنی ہوئی ضریح، رواق، صحن، گنبد، میناروں اور ایوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تاریخی قدمت کی بازگشت آل بویہ کے دور کی طرف ہوتی ہے تاہم صفوی اور قاجاری ادوار میں اس کی توسیع یا تعمیر نو کی گئی۔ اس کی جدید ترین ضریح 2016ء میں نصب کی گئی ہے۔

حضرت عباسؑ کا حرم، حرم حسینی کے متولیوں کے زیر انتظام رہا ہے۔ وہ کچھ افراد کو اپنی نیابت میں حرم کا انتظام چلانے کیلئے مقرر کرتے تھے۔ حضرت عباسؑ، امام حسینؑ کے بھائی اور کربلا میں آپؑ کی فوج کے علمدار تھے۔ آپؑ یوم عاشور سنہ 61 ہجری کو عمر بن سعد کے لشکر کے خلاف ایک جنگ میں شہید ہوئے۔

حضرت عباس

تفصیلی مضمون: حضرت عباس

حضرت عباس، امام علیؑ اور ام البنین کے فرزند ہیں۔ آپ سنہ 61 ہجری کو کربلا میں اپنے بھائی امام حسینؑ کی رکاب میں شہید ہوئے۔ عباس واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی فوج کے سپہ سالار اور علمدار تھے۔ امامؑ کے حکم پر عاشور کے دن پانی لانے کیلئے نہر علقمہ کی طرف گئے تھے کہ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے انہیں شہید کر دیا۔ آپ کو اسی مقام پر دفن کیا گیا کہ جہاں پر آپؑ کی شہادت ہوئی تھی۔ بعد میں آپؑ کے مزار پر ایک بارگاہ تعمیر کی گئی کہ جو حرم حضرت عباسؑ کے نام سے معروف ہے۔ حرم حضرت عباسؑ کربلا میں حرم امام حسینؑ سے 300 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ دونوں کی درمیانی حدود کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔

تاریخ

حضرت عباسؑ کے حرم کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں تاریخی معلومات کم ہیں۔ بعض مصنفین کا خیال ہے کہ حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی تاریخ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے اور تعمیر، تعمیر نو، انہدام اور توسیع کے حوالے سے جو داستان حرم امام حسینؑ کی ہے، وہی حضرت عباسؑ کے حرم کی بھی ہے۔ حضرت عباسؑ کے حرم سے منسلک ویب سائٹ میں امام حسینؑ کے حرم کی تاریخ جیسے مختار ثقفی کے دور میں پہلی مرتبہ تعمیر، ہارون کے دور میں انہدام، مامون کی حکومت میں تعمیر نو اور 236 ہجری میں متوکل عباسی کے حکم پر انہدام کا ذکر حضرت عباسؑ کے مرقد کی تاریخ میں ملتا ہے۔ بعض مصنفین کے بقول حضرت عباسؑ کا حرم تعمیر کیے جانے کی تاریخ دوسری صدی ہجری تک پہنچتی ہے۔ یہ عمارت 170 ہجری میں ہارون الرشید کے حکم پر گرا دی گئی۔ ان لوگوں نے امام صادقؑ سے منقول ایک روایت سے استدلال کیا ہے کہ جس میں حضرت عباسؑ کی قبر پر موجود ایک سائبان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

آل بویہ کے دور میں عمارت کی تعمیر

371ھ میں آل بویہ کی حکومت کے دوران عضد الدولہ دیلمی کے حکم پر حضرت عباسؑ کے مرقد پر ایک عمارت تعمیر کی گئی۔

صفوی دور میں عمارت کی توسیع

صفوی دور میں حضرت عباسؑ کے حرم میں توسیع کی گئی۔ شاہ طھماسب نے 1032ھ میں حکم دیا کہ حرم کے گنبد کی تزئیین کی جائے اور تعویذ قبر پر ایک ضریح نصب کی جائے۔اسی طرح ان کے دور میں حرم کا صحن اور ایوان تعمیر کیے گئے۔

بعد کے ادوار میں تعمیر اور تعمیر نو

مختلف ادوار میں حضرت عباسؑ کا حرم یا اس کے کچھ حصے تعمیر کیے جاتے رہے ہیں۔ جن بادشاہوں نے حرم امام حسینؑ کی تعمیر نو کی، وہ حضرت عباسؑ کے حرم کی تعمیر نو کی طرف بھی متوجہ تھے۔ نادر شاہ کی حکومت میں تعویذ قبر اور حرم کا ایوان، عبد المجید خان محمود عثمانی کے دور میں حرم اور قاجار کے دور میں اس کا گنبد تعمیر کیا گیا۔

وہابیوں کا حملہ اور حرم کا انہدام

1216ھ میں سعود بن عبد العزیز نے کربلا پر حملہ کیا۔اس کے سپاہیوں نے حضرت عباسؑ کا حرم گرا دیا اور اس کے تبرکات اور اموال لوٹ لیے۔وہابیوں کے حملے کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے حکم پر اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ 1411ھ کے انتفاضہ شعبانیہ میں بھی بعثی فوج کے کربلا پر حملے کے دوران حضرت عباسؑ کے حرم کو نقصان پہنچا۔

معماری

حضرت عباسؑ کا حرم مستطیل نما ہے اور حضرت عباسؑ کی قبر اس کے وسط میں ہے۔حرم ضریح، رواق، صحن، ایوان، میناروں اور گنبد پر مشتمل ہے۔ حرم کی عمارت کے نیچے ایک سرنگ ہے جو رواقوں سے گزرتی ہوئی حضرت عباسؑ کے مقام دفن تک پہنچتی ہے۔

ضریح

ضریح، سونے چاندی سے تیار کی جاتی ہے اور یہ تعویذ قبر کے اوپر سایہ فگن ہوتی ہے۔ صفوی دور سے حضرت عباسؑ کی قبر پر ضریح نصب تھی اور بعد کے ادوار میں اسے مرمت یا تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ محمد شاہ قاجار کے حکم پر 1236 ھ میں حضرت عباسؑ کے مزار پر ایک چاندی کی ضریح تیار کی گئی۔ 1385 ھ میں سید محسن الحکیم کے تعاون سے حرم کی ضریح کو تبدیل کیا گیا۔ یہ ضریح ایران میں تیار کی گئی تھی اور اس میں 400 ہزار مثقال (دو ہزار کلو) چاندی اور 800 مثقال (40 کلو) سونا استعمال کیا گیا تھا۔ سن 2016 ء میں بھی حرم کی ضریح کو تبدیل کیا گیا۔ حرم کی جدید ضریح سونے اور چاندی سے تیار کی گئی ہے اور اس کی تعمیر عراق میں 5 سال کے عرصے میں مکمل ہوئی ہے۔

رواق

حضرت عباسؑ کے حرم میں ضریح کے چاروں طرف چار رواق ہیں جن کی چھتوں اور دیواروں پر شیشہ کاری کی گئی ہے۔ شمالی رواق کا راستہ تہہ خانے اور قبر کی طرف نکلتا ہے جبکہ مشرقی رواق میں پانچ قبریں موجود ہیں اور جنوبی رواق تین دروازوں کیساتھ ایوان طلا کے ساتھ متصل ہے۔

ایوان طلا

ایوان طلا 320 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور یہ حرم کے مرکزی ہال کے سامنے ہے۔ ایوان طلا کے سامنے والے حصے میں سونے کی ملمع شدہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔

گنبد

حرم حضرت عباسؑ کے گنبد کا قطر 12 میٹر اور اونچائی 39 میٹر ہے۔ گنبد نیم دائروی اور لمبوترا ہے اور اس کی کھڑکیاں آبروؤں سے مشابہہ کمانیوں کے ساتھ باہر کی طرف کھلتی ہیں۔ گنبد کی اندرونی سطح پر سفید رنگ سے قرآنی آیات کندہ ہیں۔ گنبد کے اوپر 1305ھ کی تاریخ درج ہے۔ 1375ھ میں عراقی حکومت نے اس پر ملمع کاری کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملمع کاری میں 6418 سونے کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ گنبد کے زیریں حصے میں قرآن کی آیات شیشہ کاری کیساتھ نقش کی گئی ہیں۔

مینار

ایوان طلا کے گوشے میں اور دیوار حرم سے متصل دو مینار ہیں کہ جن کی اونچائی 44 میٹر ہے۔ ان کے نچلے حصے میں کاشی کاری کے ساتھ 1221ھ کی تاریخ کندہ ہے۔ ہر ایک مینار کا نیم بالائی حصہ سونے کی 2016 اینٹوں کے ساتھ مزین ہے جبکہ باقی آدھا نچلا حصہ اینٹوں اور کاشی کاری کا حسین شاہکار تھا۔ البتہ حرم کی انتظامیہ نے 2009۔2010 ء میں میناروں کی تعمیر نو کرنے کے بعد ان کے نچلے نصف حصے پر بھی طلاکاری کر دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس تعمیر نو میں 108 کلو سونا استعمال کیا گیا۔

صحن

حضرت عباسؑ کے حرم کا صحن 9300 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور چار ایوانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایوانوں کی چھتوں پر مقرنس کاری اور اقلیدسی (جیومیٹری) نمونوں کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر ایوان میں ایک کمرہ ہے کہ جسے مباحثے یا دینی علوم کی تدریس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔

صحن کے دروازے

صحن کے دروازے 1394ھ (1972ء) میں تعمیر کیے گئے ہیں اور ان کے نام یہ ہیں:

  • باب القبلہ، صحن کے جنوب میں
  • باب الامام الحسن، صحن کے مغرب میں اور امام حسینؑ کے صحن کی سمت سے
  • باب الامام الحسین، باب الامام الحسن کے نزدیک
  • باب صاحب الزمان، باب الامام الحسین کے پاس
  • باب الامام موسی بن جعفر، صحن کے غربی زاویے میں
  • باب الامام محمد الجواد، صحن کے شمال میں
  • باب الامام علی الھادی، صحن کے شمال مشرقی زاویے میں
  • باب الفرات، صحن کے مشرق میں
  • باب الامیر، صحن کے مشرق میں

صحن کے اضلاع

صحن کے چار اضلاع ہیں۔ ان چاروں اضلاع میں 57 حجرے ہیں۔ ہر حجرے کے سامنے ایک چھوٹا ایوان ہے۔ ہر ضلع کا وسط،ایک بڑے بیرونی ایوان پر مشتمل ہے جس کی اونچائی ان طبقات کی نسبت دوگنا زیادہ ہے کہ جن کے اندر حجرے واقع ہیں۔ ان ایوانوں میں بیل بوٹے، ہندسی شکلیں اور قرآن کریم کی آیات ہیں۔

تولیت

کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کے مزارات کا انتظام حکمرانوں کی طرف سے کسی قبیلے کے بزرگ یا کسی عالم کے سپرد کیا جاتا تھا۔ سلمان ہادی کے بقول کربلا میں مقیم ایک خاندان آل طعمہ، کے پاس صفوی بادشاہوں کے اس امر پر حکم نامے موجود ہیں کہ حرم کی تولیت (انتظامات) ان کے سپرد کی جاتی ہے۔عثمانی دور کے بعض متولیوں کے نام عراق کی اوقاف میں ثبت ہیں۔ عام طور پر حضرت عباسؑ کے حرم کی تولیت حرم امام حسینؑ کے متولیوں کے ذمہ تھی۔ وہ کچھ افراد کو اپنی نیابت میں اس حرم کی تولیت کیلئے مقرر کرتے تھے۔ عام طور پر متولیوں کا انتخاب علویوں میں سے ہوتا تھا۔ کتاب تاریخ مرقد الحسین والعباس میں حرم حضرت عباس کے 21 متولیوں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے کچھ افراد آل ضیاء الدین، آل ثابت،آل طعمہ اور آل وہاب سے تعلق رکھتے تھے۔

حرم کا خزانہ

حضرت عباسؑ کے حرم میں نفیس اشیا محفوظ ہیں۔ منجملہ سونے کے تاروں یا قیمتی نگینوں سے بنے ہوئے قالین، چالیس سونے کے چراغ، مرصع تلواریں اور سونے کی گھڑیاں۔ اسی طرح حرم کے کتب خانے میں، 109 سے زیادہ قرآن محفوظ ہیں کہ جن میں سے ایک امام علیؑ سے منسوب ہے۔

حرم میں مدفون مشہور شخصیات

حضرت عباسؑ کے حرم میں مدفون بعض شخصیات یہ ہیں:

  • علی بن زین العابدین پارچینی یزدی (متوفی 1333ھ) آپ ایک شیعہ عالم اور کتاب الزام الناصب کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب امام زمانہ(عج) کے بارے میں ہے۔
  • محمد رشید جلبی صافی
  • سید کاظم بهبهانی
  • حسین حلاوی
  • سید محسن سید محمد علی آل طعمہ
  • عبد الجواد کلیدار
  • سید محمد بن محسن زنجانی (متوفی سال 1355 ھ)
  • شیخ علی ‌اکبر یزدی بفروئی (شاگرد علامہ اردکانی)
  • سید عبد الله کشمیری
  • شیخ ملا علی یزدی المعروف سیبویہ
  • شیخ کاظم الهر
مذہب