مذہب

امام حسین علیہ السلام کا روضہ، امام حسینؑ اور بعض بنی ہاشم و کربلا میں امامؑ کے اعوان و انصار کے دفن ہونے کا مقام ہے۔ جو 10 محرم سنہ 61 ہجری میں عبید اللہ بن زیاد کے لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ مختار ثقفی نے امام حسینؑ کی قبر پر پہلی بناء رکھی اور بعد کے ادوار میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں اور شیعوں نے خاص طور پر سلاطین اور بادشاہوں نے اس روضہ کی باز سازی اور تعمیر و توسیع کے سلسلہ میں خاص اہتمام کئے۔ یہ روضہ دشمنوں کی طرف سے جن میں خلفاء عباسی اور وہابی شامل ہیں، متعدد بار خراب کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے امام حسینؑ کے روضہ کی سب سے زیادہ تخریب متوکل کے زمانہ میں ہوئی اور اس سلسلہ کی آخری کڑی سن 1411 ھ میں بعثی حکومت کی طرف سے عراقی عوام کے انتفاضہ شعبانیہ کے وقت پیش آئی۔

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنا ایسا عمل ہے جو ہمیشہ شیعوں کی توجہ کا باعث رہا ہے اور جس پر شیعہ ائمہ کی احادیت میں تاکید کی گئی ہے۔ زیارت کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد عاشورا و اربعین اور نیمہ شعبان کے مواقع پر امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع ہوتی ہے۔ شیعہ فقہ میں امام حسینؑ کے حرم اور ان کی تربت کے سلسلہ میں مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام

تفصیلی مضمون: امام حسین علیہ السلام

حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام، شیعوں کے تیسرے امام، امام علیؑ و حضرت فاطمہ زہرا (س) کے دوسرے فرزند اور نواسہ رسول (ص) ہیں، جن کی کنیت ابا عبد اللہ ہے۔ آپ 10 محرم سنہ 61 ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ یزید بن معاویہ کے ذریعہ سے شہادت پر فائز ہوئے۔

تاریخچہ

امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد، بنی اسد کے ایک گروہ نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے جنازوں کو ان کی شہادت کے مقام پر دفن کیا۔ اور اس وقت آپ کی قبر کو عوام کی زیارت کے لئے محض لحد کی شکل میں بنا دی گئی تھی۔

اولین تعمیر

جس وقت مختار ثقفی نے شعبان سنہ 65 ھ میں اپنے قیام میں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کے لئے کیا تھا، کامیابی حاصل کر لی تو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک بناء تعمیر کرائی اور اس پر اینٹوں سے گنبد بنوایا۔ اپنی حکومت کے دور میں مختار پہلے انسان تھے جنہوں نے آپ کی قبر پر ضریح اور بناء تعمیر کرائی۔ جس میں انہوں نے ایک مسقف عمارت اور ایک مسجد بنوائی اور مسجد میں دو دروازہ قرار دیئے، جس میں ایک مشرق کی جابب اور دوسرا مغرب کی سمت کھلتا تھا۔

چونکہ شیعہ کثرت سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتے تھے، ہارون عباسی نے بعض لوگوں کو بھیجا کہ وہ آپ کے روضہ کو خراب کر دیں۔ ہارون کے کارندوں نے اس مسجد کو جس میں امام حسین علیہ السلام کا روضہ بنایا گیا تھا اور اسی طرح سے اس مسجد کو جس میں ابو الفضل العباس کا روضہ بنایا گیا تھا، تباہ کر ڈالا۔ اور اسی طرح سے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس جو سدر کا درخت لگایا گیا ہے اسے کاٹ دیں اور قبر کے مقام کو زمین کے برابر کر دیں اور ان لوگوں ایسا ہی کیا۔

دوسری بناء

جس وقت مامون عباسی نے زمام خلافت کو اپنے اختیار میں لیا، تمام عباسی اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور خود کو عباسیوں کی مخالفت سے بچانے کے لئے، علی علیہ السلام کی اولاد اور شیعوں کا سہارا لیا اور ان سے نزدیکی بڑھانا شروع کر دی اور اسی وجہ سے اس نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد معین کیا۔ مامون نے سنہ 193 ھ میں حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی باز سازی کی جائے اور شیعوں کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اماموں کی زیارت کے لئے جا سکتے ہیں۔

مامون کے دور میں امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ایک بناء تعمیر کرائی گئی اور یہ عمارت سنہ 232 ھ تک یعنی متوکل کے زمانہ تک باقی رہی۔ جب متوکل نے قدرت حاصل کی تو اس نے شیعوں پر سختی شروع کر دی اور ان پر زمین کو تنگ کر دیا، اس نے علویوں کا پیچھا کرنے کا حکم صادر کر دیا اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت سے روک دیا۔ اس نے شیعوں کو زیارت سے روکنے کے لئے جگہ جگہ چوکیاں بنا دیں، اس نے اپنی حکومت کے تمام پندرہ برسوں میں اس چیز پر سختی کی اور اس نے اس پابندی کو جاری رکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے حکم دیا کہ اس روضہ کو مسمار کر دیا جائے اور اس مقام پر پانی چھوڑ دیا جائے۔

تیسری بناء

منتصر عباسی سنہ 247 ھ کے اواخر میں کرسی خلافت پر بیٹھا اور اس نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ پر گنبد بنایا جائے۔ اس طرح سے اس خلیفہ نے بعض اموال علویوں کو حوالہ کئے اور انہیں امام حسین (ع) کی زیارت کی طرف دعوت دی۔ اس کی اس نرمی کی وجہ سے ایک گروہ نے کربلا کی طرف ہجرت کر لی۔ جس عمارت کو منتصر نے تعمیر کرایا وہ سنہ 273 ھ تک یعنی متعضد عباسی کے دور خلافت تک باقی رہی۔

چوتھی بناء

9 ذی الحجہ 273 ھ میں اس وقت جب زائرین روز عرفہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع تھے، اس عمارت کو جو منتصر نے بنوائی تھی، ان کے سروں پر خراب کر دیا گیا، جس کے نتیجہ میں بعض افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد 10 سال تک امامؑ کا روضہ اسی طرح سے بغیر تعمیر کے رہا، یہاں تک کہ داعی صغیر نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اس نے امام علیؑ اور امام حسینؑ کی قبروں پر مناسب عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس بناء کی تاریخ سنہ 279 سے 289 ھ تک بنتی ہے۔ داعی صغیر نے جو روضہ کربلا میں تعمیر کرایا تھا اس میں ایک بلند گنبد اور دو دروازے شامل تھے اور ان دونوں دروازوں کے درمیان ایک چھت قرار دی گئی تھی۔ اس نے اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کے روضہ اور اس کے اطراف میں شامل گھروں کے درمیان موجود احاطہ کی باز سازی کرائی۔

پانچویں بناء

مطیع عباسی کے بیٹے طائع کی خلافت کے دوران، عضد الدولہ بویہی نے بغداد کی حکمرانی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے پنج سالہ دور حکومت میں ایک بار جمادی الاول 371 ھ میں کربلا کی زیارت کی اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے لئے اوقاف معین کئے اور حرم کی تجدید نو کا حکم دیا۔ اسی طرح سے اس نے اپنی زیارت کے دوران عوام اور زائرین کو تحفے عطا کئے اور حرم کے صندوق میں کچھ رقم عطا کی۔ عضد الدولہ نے عمارت کی تجدید نو علاوہ اس کی تزئین میں بھی حصہ لیا، اور اس نے ضریح کے اطراف میں رواق بھی تعمیر کرائے۔ ضریح ساج و دیبا کے ذریعہ ضریح کی آرائش کی اور اس پر لکڑی کی جالی بنوائی اور حرم میں روشنی و نور کی غرض سے چراغ دانوں اور شمع دانوں کو ہدیہ کیا۔ عضد الدولہ کی یہ توجہ کربلا کی دینی، سماجی اور تجارتی ترقی اور پیشرفت کا سبب بنی۔ نجف اشرف میں امام علی علیہ السلام کے روضہ میں موجود عمران بن شاہین کے نام سے مشہور رواق اور اسی طرح سے وہ مسجد جو امام حسین (ع) کے حرم میں مغرب کی سمت بنی ہوئی ہے وہ اسی زمانہ میں تعمیر کی گئی ہے۔

معز الدولہ بویھی نے سنہ 369 ھ میں واسط کے قریب بطیح نامی جگہ کی گورنری عمران بن شاہین کے سپرد کی اور عمران بن شاہین نے نجف میں مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کر دیا اور اسی طرح سے اس نے کربلا و کاظمین میں بھی مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ جس رواق کو عمران بن شاہین نے تعمیر کرایا تھا وہ سید ابراہیم بن مجاب کے نام سے مشہور ہوا اور مسجد جو اس رواق کے بغل میں بنائی گئی تھی وہ سلاطین صفوی کی حکومت کے دور تک باقی تھی اور اس زمانہ میں ایک فتوی کے مطابق اس مسجد کو امام حسین (ع) کے حرم کے صحن سے ملحق کرنے کا جواز پیدا کیا گیا، اور حرم کی توسیع و باز سازی میں اسے صحن کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ البتہ اس مسجد کا ایک حصہ آج بھی امام حسینؑ کے حرم کے جزء کے عنوان سے باقی ہے اور آج وہ حرم کے قالینوں کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو ایوان ناصری کے نام سے معروف ایوان کی پشت پر واقع ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں آگ زنی

سنہ 407 ھ میں ایک شب حرم میں روشن ہونے والی دو بڑی شمعیں، جن سے حرم میں روشنی ہوتی تھی، فرش کے اوپر گر گئیں، جس سے پہلے پردوں اور غلافوں میں آگ لگنا شروع ہوئی اور پھر وہ رواق اور گنبد تک پہچ گئی، اس آگ سے فقط حرم کی دیواریں، اس کے کچھ دوسرے حصہ اور مسجد عمران بن شاہین ہی محفوظ رہ سکیں۔

چھٹی بناء

حسن بن مفضل بن سہلان نے قدرت اپنے اختیار میں لینے کے بعد امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی باز سازی کی، جس میں اس نے حرم، گنبد اور رواق کے ان حصوں کو پھر سے بنایا جو آتش کی نذر ہو چکے تھے۔ اس نے سنہ 412 ھ میں حرم کے گنبد کی تجدید نو کے ساتھ آگ سے متاثر جگہوں کو ٹھیک کرایا اور حکم دیا کہ حرم کے گرد ایک چار دیواری بنائی جائے۔

ساتویں بناء

سنہ 620 ھ میں محمد بن عبد الکریم جندی نے ناصر الدین اللہ کی حکومت میں وزارت کا عہدہ حاصل کیا۔ اس نے اپنی وزارت کے دوران حرم کے ان حصوں کی ترمیمم، تجدید نو اور باز سازی میں حصہ لیا جو ویران ہو چکے تھے اور اس نے حرم کی دیواروں اور چاروں رواق میں ساج کی لکڑی سے غلاف چڑھایا، اور ایک لکڑی کی ضریح جس پر دیبا اور حریر کے کپڑوں سے تزئین کی گئی تھی، قبر کے اوپر رکھوائی۔

آٹھویں بناء

اویس بن حسن جلائری نے سنہ 767 ھ میں مسجد اور حرم کی بنائ کی باز سازی کرائی اور ضریح کے اوپر ایک نیم دائرہ گنبد تعمیر کرایا۔ یہ گنبد امامؑ کی قبر کے چارو اطراف میں چار طاقوں پر استوار تھا اور ان طاقوں میں سے ہر ایک کا باہری حصہ حرم کے ایک رواق پر مشتمل تھا۔ ایک بلند گنبد ان چار طاقوں کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس نے جدید معماری نمونہ تشکیل دیا تھا۔ یہ تعمیر جو اویس کے بیٹوں میں سے ایک احمد نے سنہ 786 ھ میں مکمل کرائی؛ اس طرح سے تھی کہ اگر کوئی باہر باب القبلہ کی طرف کھڑا ہو جائے تو وہ سارا حرم، گنبد اور ضریح کو مکمل طور پر دیکھ سکتا تھا اور اس کے علاوہ زائرین کے لئے قبر کی طواف کا موقع بھی میسر تھا۔

احمد بن جلائری نے صحن کے سامنے کے ایوان کو جو ایوان طلا کے نام سے مشہور ہے، اور اسی طرح سے صحن کی مسجد کو جسے مربع شکل میں حرم کے اطراف میں قرار دیا گیا ہے، تعمیرا کرایا۔ اور رواقوں اور حرم کے اندرونی حصوں کی تزئین، آئینہ کاری، نقش و نگار اور کاشانی کاشی کاری کے ذریعہ کرا کر طبیعی مناظر تخلیق کرنے کا اہتمام کیا۔ احمد جلائری کے حکم کے مطابق حرم کے دونوں گل دستوں کو بھی کاشان کے زرد پتھروں سے آراستہ کیا گیا۔

صفوی دور میں

سنہ 914 ھ میں شاہ اسماعیل صفوی نے بغداد کو فتح کیا اور اس کے دو دن وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے گیا اور حکم دیا کہ ضریح کے کناروں کی طلا کاری کی جائے۔ اسی طرح سے اس نے روضہ کے لئے بارہ طلائی چراغ دان ہدیہ کئے۔ سنہ 920 ھ میں شاہ اسماعیل دوسری بار زیارت کے لئے کربلا آیا اور اس نے حکم دیا کہ ضریح کے لئے ساگوان کی لکڑی کا ایک صندوق بنایا جائے۔ سنہ 932 ھ میں شاہ اسماعیل دوم نے چاندی سے بنی ہوئی ایک خوب صورت جالی دار ضریح امام حسین کے حرم میں ہدیہ کی۔ سنہ 983 ھ میں علی پاشا جس کا لقب وند زادہ تھا، نے گنبد کی تجدید بناء کی۔ سنہ 1032 ھ میں شاہ عباس صفوی نے ضریح کے لئے ایک پیتل کا صندوق بنوایا اور گنبد کو بھی کاشانی پتھروں سے مزین کرایا۔ سنہ 1048 ھ میں سلطان مراد چہارم نے جو عثمانی سلاطین میں سے تھا، کربلا کی زیارت کی اور اس نے حکم دیا کہ گنبد کو باہر سے گچ سفید کیا جائے۔

نادر شاہ کے دور میں

سنہ 1135 ھ میں نادر شاہ کی بیوی نے امام حسین علیہ السلام کے حرم کے متولیوں کے اختیار میں بہت سارا مال دیا اور حکم دیا کہ اس سے حرم میں بڑے پیمانے پر نو سازی کا کام کیا جائے۔ سنہ 1155 ھ میں نادر شاہ نے کربلا کی زیارت کی اور حکم دیا کہ موجودہ عمارت کی تزئین کی جائے اور اسی طرح سے اس نے حرم کے گنجینہ کے لئے بیحد قیمتی تحفے عطا کئے۔

قاجار کے دور میں

سنہ 1211 ھ میں آقا محمد خان قاجار نے گنبد کو سونے سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ سنہ 1216 ھ میں وہابیوں نے کربلا پر حملہ کر دیا اور ضریح اور رواق کو ویران کر ڈالا اور حرم کے خزانے میں موجود تمام نفیس اشیاء اٹھا لے گئے۔ سنہ 1227 ھ میں حرم کی عمارت فرسودگی کا شکار ہو چکی تھی لہذا کربلا کے عوام نے فتح علی شاہ قاجار کو خط لکھا اور گنبد کی فرسودگی کی اطلاع دی۔ اس نے ایک نمائندہ کو بھیجنے کے ساتھ تا کہ وہ اخراجات اور تعمیرات کی نگرانی کر سکے، عمارت کی تعمیر نو کا حکم دیا اور گنبد کے طلاق اوراق کو تبدیل کروایا۔

سنہ 1232 ھ میں فتح شاہ علی قاجار نے چاندی کی ایک نئی ضریح تعمیر کرائی اور ایوان گنبد کو سونے سے آراستہ کرایا اور ان تمام مقامات کی باز سازی کرائی جو وھابیوں کے حملے میں نابود ہو گئے تھے۔ سنہ 1250 ھ میں فتح شاہ علی قاجار نے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضوں کے گنبدوں کی نو سازی کی جائے اور حضرت عباسؑ کے گنبد پر طلائی ملمع کیا جائے۔

بعد کے ادوار میں

سنہ 1358 ھ میں سیف الدین طاہر اسماعیلی داعی نے چاندی کی ضریح کو نئی ضریح میں تبدیل کیا۔ سنہ 1360 ھ میں اس نے حرم کے ایک گلدستہ کو خراب ہو چکا تھا، پھر سے تعمیر کرایا۔ سنہ 1367 ھ میں بہت سے گھر اور اسی طرح سے وہ دینی مدارس جو حرم کے صحن سے متصل تھے، حرم کی توسیع میں خراب ہو گئے۔ سنہ 1370 ھ میں حرم کا مشرقی حصہ تعمیر کیا گیا اور حرم کے ایوانوں اور طاقوں کو نفیس کاشی کاری سے تزئین کیا گیا۔ سنہ 1371 ھ میں گنبد کی تجدید نو کے ساتھ اس سے سونے کی اینٹوں سے مزین کیا گیا۔

سنہ 1373 ھ میں حرم کی چھت اور رواق مکمل طور پر باز سازی کئے گئے اور امام حسین (ع) اور حضرت عباس (ع) کے روضوں کو سجانے کے لئے اصفہان سے خاص قسم کی ٹائلیں منگوائی گئیں۔ اسی سال ایوان قبلہ (ایوان طلا) کے بالائی حصہ پر طلاکاری کی گئی۔ سنہ 1383 ھ میں حرم میں نو سازی کے امور کو انجام دینی والی کمیٹی نے حرم کی باہری دیواروں کے لئے اٹلی سے پتھروں کی خریداری کی۔

سنہ 1383 ھ میں حرم کی باز سازی کرنے والی کمیٹی نے ایوانوں کو مزید بلند کرنے اور اس کی دیواروں کو تزئین کے لئے کاشی کاری کرائی۔ سنہ 1388 ھ میں ایران سے سنگی ستونوں کو لایا گیا اور اس کے ذریعہ سے ایوان کی قدیم چھت کو تبدیل کیا گیا۔

سنہ 1392 ھ میں ایوان طلا کی جدید تعمیرات کے لئے کام شروع کیا گیا۔ اور 1394 ھ میں صحن کی نو سازی اور تعمیرات میں ہم آہنگی کا کام شروع ہوا۔ اس کام میں ایوان کی تعمیر نو کے علاوہ صحن کے مغربی حصہ کو خراب کرنا اور اسی طرح سے اس کی دیواروں پر کاشی کاری کا کام شامل تھا۔

سنہ 1395 ھ میں امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے روضوں میں تعمیری کام صحن کے سامنے کی دیواروں کی کاشی کاری کے ساتھ حرم کے مغربی حصہ میں کتب خانہ اور میوزیم کی تعمیر ساتھ ساتھ جاری رہا۔ سنہ 1396 H میں وزارت اوقاف نے ایوان طلا کی نو سازی اور تزئین کا کام کاشی کاری اور خاتم کاری کے ذریعہ انجام دیا۔

گزشتہ چند برسوں میں حرم کے صحن مسقف (چھت دار) ہو چکے ہیں۔ صحن کے اوپر چھت کا بن جانا سبب بن چکا ہے کہ حرم کا گبند اور اس کی میناریں دور سے دکھائی نہ دیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ایران کے ادارہ باز سازی عتبات عالیات نے عراقی عہدہ داروں کے ساتھ مل کر روضہ کے گنبد کو مزید بلند کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ اس پلان کے تحت گنبد کی بلندی میں مزید 5 میٹر 70 سینٹی میٹر کا اضافہ ہو جائے گا تا کہ دور سے بھی گنبد کا نظارہ کیا جا سکے۔

تخریب حرم

تفصیلی مضمون: امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی تخریب

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی تخریب سے مراد اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی طرف سے اس کا خراب کیا جانا ہے۔ عباسی خلفاء کے ادوار میں منصور، ہارون اور متوکل کے دورہ خلافت میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے تخریب کے لئے اقدام کئے گئے۔ ان تخریب میں مھم ترین و معروف ترین تخریب متوکل کے حکم سے انجام پائی۔ وہابیوں نے بھی سن 1216 ق میں اس بارگاہ کو شدید ترین نقصان پہچایا اور اس سلسلہ کی آخری تخریب صدام کے زمانہ میں بعثیوں کے حملہ میں کی گئی۔

حرم کی معماری

حرم کے صحن

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے صحن نے اپنی حدود کے دائرے میں تمام رواق اور گنبد کا احاطہ کر لیا ہے۔ بعض نے صحن کو جامع کا نام بھی دیا ہے، اس سبب سے کہ لوگ نماز کے اوقات میں اور اسی طرح سے زیارت یا دعا پڑھتے وقت اور دینی مراسم کے انعقاد کے وقت وہاں پر جمع ہوتے ہیں۔ صحن کو مشہد کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس میں زیارت و دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا روضہ شہر کربلا کے قدیمی علاقہ میں ہے اور سن 1948 عیسوی سے پہلے تک تمام رہائشی مکانات، بازار اور عمارتیں اس سے متصل تھیں اور ان کے اور روضہ کے درمیان کسی سڑک کا وجود نہیں تھا۔ اسی سال امامؑ کے حرم کے ساتھ سڑک بنائی گئی اور اجازت نہیں دی گئی کہ شہر کی عمارتیں حرم کی عمارت سے متصل رہے۔ حرم کی باہری دیوار شہر کی دوسری عمارتوں سے جدا اور اسے ٹائل اور زرد اینٹوں سے سجایا گیا ہے اور دروازوں اور دیواروں کے اوپری حصوں کو آیات قرآن کے کتیبہ نصب کئے گئے ہیں، جنہیں کاشی پر خط کوفی سے منقوش کیا گیا ہے۔

روضہ امام اندر سے مستطیل شکل میں ہے البتہ وہ بھی ضریح کی طرح دو اصافی ضلع کے ساتھ چھ گوشوں پر مشتمل تھا۔ لیکن حرم کی توسیع میں سن 1947 ع میں ان دو اضافی گوشوں کو یعنی جنوب شرقی اور شمال شرقی گوشوں کو ہٹا دیا گیا، جس کے نتیجہ میں صحن اندر سے مستطیل شکل میں ہو گیا، اگر چہ وہ باہر سے بیضوی شکل میں نطر آتا ہے۔

صحن کے دیواروں کی اونچائی بارہ میٹر تک ہے جس میں اندر کی طرف دو میٹر تک پتھر لگے ہوئے ہیں۔ سن 1947 ع میں حرم کی توسیع سے پہلے تک صحن کے اطراف میں مساجد اور دینی مدارس موجود تھے جن کے دروازے حرم کے اندر کھلتے تھے۔ لیکن کربلا کے شہری ترقیاتی ادارہ نے ان مساجد اور مدارس کو ختم کرکے ان کی جگہ پر حرم سے متصل سڑک بنا دی۔

صحن کی مجموعی مساحت 1500 میٹر تک ہے۔ جس کے اطراف میں 65 ایوان بنے ہوئے ہیں اور ہر ایوان کے اندر حجرے بنے ہوئے ہیں۔ ان حجروں میں طلاب مباحثے کیا کرتے تھے اور بعض حجرے بادشاہوں، امراء، عمال، علماء اور دینی شخصیتوں سے متعلق اور مخصوص تھے۔

صحن کے دروازے

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے دروازے اور رواق

امام حسین علیہ السلام کے حرم کے صحن میں کچھ دروازے ہیں جن میں سے ہر ایک کربلا شہر کے کسی محلے میں کھلتے ہیں۔ یہ دروازے بلند اور کاشی جن کے کناروں پر خط کوفی سے آیات قرآنی منقوش ہیں، سے آراستہ، ایوانوں کی سطح سے نیچے قرار دیئے گئے ہیں۔

ماضی میں، صحن میں سات دروازے تھے لیکن اس وقت صحن میں دس دروازے ہیں:

  1. باب القبلہ: صحن میں داخلہ کا قدیمی ترین و اصلی ترین دروازہ شمار ہوتا ہے۔ چونکہ وہ قبلہ کی سمت میں واقع ہے اس لئے اس کا نام باب القبلہ رکھا گیا ہے۔
  2. باب الرجاء: یہ دروازہ باب القبلہ اور باب قاضی الحاجات کے درمیان میں واقع ہے۔
  3. باب قاضی الحاجات: یہ دروازہ سوق العرب کے سامنے کی طرف واقع ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کے نام سے اسے باب قاضی الحاجات کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی اونچائی 5 میٹر اور چوڑائی ساڑھے تین میٹر تک ہے۔
  4. باب الشہداء: یہ دروازہ ضلع شرقی اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے حرم کی طرف جانے والی گذرگاہ کے درمیان واقع ہے اور شہداء کربلا کے کی یاد میں اس کا نام باب الشہدائ رکھا گیا ہے۔
  5. باب الکرامہ: یہ دروازہ صحن کے شمال شرقی ضلع کے دور ترین حصہ کی طرف واقع ہے اور باب الشہداء کے برابر میں ہے۔ اس کا نام امام حسین علیہ السلام کی کرامت اور بزرگواری کی یاد میں باب الکرامہ رکھا گیا ہے۔
  6. باب السلام: یہ دروازہ ضلع شمالی کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ اس دروازے کے سامنے پہچتے تھے تو امامؑ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔
  7. باب السدرہ: یہ دروازہ صحن کے ضلع شمال مغرب کے دور ترین حصہ میں واقع ہے اور اس کا نام سدر کے اس درخت کی یاد میں رکھا گیا ہے جو سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی قبر کے کنارے لگایا گیا تھا اور زائرین اس کے سبب سے قبر تک رسائی حاصل کرتے تھے۔
  8. باب السلطانیہ: یہ دروازہ صحن کے مغربی سمت میں واقع ہے اور اس کا نام سلاطین عثمانی میں سے ایک سلطان جس نے اس باب کو تعمیر کرایا تھا، کے نام پر رکھا گیا ہے۔
  9. باب راس الحسین: یہ دروازہ صحن کے مغربی ضلع کے درمیانی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ امامؑ سرہانے (بالای سر) کی جانب ہے اس لئے اس نام سے معروف ہے۔
  10. باب الزینبیہ: یہ دروازہ صحن کے جنوب مغربی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ تلہ زینبیہ یا مقام زینب (س) سے بھی نزدیک ہے اس لئے باب الزینبیہ کے نام سے مسہور ہو گیا ہے۔

گنبد

امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے فراز پر ایک بلند گنبد ہے جس پر خالص سونے کا ملمع کیا گیا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصہ میں دس کھڑکیاں ہیں جو باہر کی طرف کھلتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کی چوڑائی ایک میٹر اور تینتیس سینٹی میٹر تک ہے اور ان کے درمیان موجود فاصلہ ایک میٹر اور پچپن سینٹی میٹر تک ہے۔ گنبد کی اونچائی نیچے سے اوپر تک تقریبا 37 میٹر ہے اور باہر کی اس کی شکل پیاز نما بیضوی ہے۔ گنبد کی بلندی پر سونے کا ایک راڈ لگا ہوا ہے جس کی لمبائی دو میٹر ہے اور جس کے فراز پر ایک چراغ نصب کیا گیا ہے۔ گنبد میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی تعداد 7526 اور طلاکاری شدہ مجموعی رقبہ کی مساحت 301 مربع میٹر ہے۔

گلدستے

روضہ امامؑ کے گنبد کے جنوب میں دس میٹر کے فاصلہ پر دو بڑے گلدستے ہیں جن پر سونے سے ملمع کیا گیا ہے، صحن کی زمین سے جن کی بلندی تقریبا 25 میٹر اور ان کا قطر چار میٹر تک ہے۔ ان دونوں گلدستوں کی نوک پر ایک راڈ نصب کیا گیا ہے جس کے فراز پر روشنی کے لئے چراغ لگائے گئے ہیں۔ یہ دونوں گلدستے سن 786 ق میں اویس جلایری اور اس کے بیٹے احمد جلایری کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔ اس دونوں گلدستوں میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی مجموعی تعداد 8024 ہے۔

ایوان طلا

ایوان طلا سے حرم کے جنوبی حصہ سے صحن کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اس ایوان کی چھت کافی اونچائی پر واقع ہے جس کی تین حصے ہیں: وسط کے حصہ کی بلندی باقی دونوں اطراف کی بنسبت زیادہ ہے۔ ان کے درمیان میں موجود ستون کی لمبائی 13 میٹر اور اطراف کے دونوں حصوں کے ستون کی لمبائی 9 میٹر تک ہے ۔ ایوان کی شکل مستطیل ہے اور اس کی لمبائی 36 میٹر اور وسط کے حصہ کی چوڑائی بھی 10 میٹر تک ہے۔

ایوان کا نچلا حصہ جسے لوہے کی سیڑھی سے ایوان کے درمیان قرار دیا گیا ہے، صحن سے الگ ہو گیا ہے اور زائرین ایوان کے کنارے کی دونوں سمت سے حرم میں رفت و آمد کرتے ہیں۔ اس ایوان کی دیواروں پر خالص سونے سے ملمع کیا گیا ہے اور دیوار کے اوپری حصوں کو کنارے استعمال ہونے والی ٹائلوں سے سجایا گیا ہے۔

رواق

امامؑ کے روضہ کا گنبد کا حصہ چاروں سمت سے چار رواق پر مشتمل ہے۔ ان میں ہر رواق کی چوڑائی 5 میٹر اور شمال سے جنوب تک اس کی لمبائی تقریبا 40 میٹر ہے اور رواق کی شرقی و غربی سمت کی لمبائی تقریبا 45 میٹر ہے اور ہر رواق کی اونچائی 12 میٹر تک ہے۔ ان رواقوں کے فرش پر سفید شفاف پتھر لگائے گئے ہیں اور ان کی دیواروں کے وسط میں مختلف سایز کے چھوٹے اور بڑے آئینے لگائے گئے ہیں۔

مغربی رواق جسے عام طور پر رواق عمران بن شاہین کہا جاتا ہے، اور جو اس وقت رواق ابراہیم بن مجاب کے نام سے معروف ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے پوتے سید ابراہیم مجاب دفن ہیں۔ اس مغربی رواق میں بعض دینی و علمی شخصیتیں بھی مدفون ہیں۔

مشرقی رواق جسے کبھی رواق آقا باقر کا نام دیا گیا تھا اور اس وقت اسے علماء کے مقبروں کی وجہ سے رواق فقہا کہا جاتا ہے۔

جنوبی رواق، رواق حبیب بن مظاہر کے نام سے مشہور ہے۔ ان کی قبر پر چاندی کی ایک چھوٹی سی ضریح لگائی گئی ہے جس کی دس جمادی الثانی 1410 ھ ق میں نو سازی کی گئی ہے۔ رواق حبیب بن مظاہر، اور اسی طرح سے علمی شخصیتوں کی قبروں کی وجہ سے معروف ہے۔

شمالی رواق (بادشاہوں کا رواق) کو شاہ صفی نے تعمیر کرایا تھا اور چونکہ اس رواق میں قاجار سلسلہ کے بادشاہ دفن ہیں اس لئے اسے بادشاہوں کا رواق کہا جاتا ہے۔ شاہ صفی جو حرم کی زیارت کے لئے آیا تھا، اس نے حرم کے خدام اور شہر کے فقیروں کو کافی عطیے دینے کے بعد اس رواق کی تعمیر کا حکم دیا۔

حرم کی ضریح

تفصیلی مضمون: امام حسین علیہ السلام کی ضریح

اس گنبد کے نیچے ایک بڑی چاندی کی چند گوشہ والی ضریح موجود ہے۔ جس کے اندر امام حسین علیہ السلام اور ان کے دو فرزند علی اصغر اور علی اکبر علیہما السلام مدفون ہیں۔ مختلف ادوار میں متعدد ضریحیں بنائی گئی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر پر نصب کی گئی ہیں۔ آخری بار امام حسین علیہ السلام کے حرم کی نئی ضریح چار سال چار مہینوں کے عرصے میں (جون 2008ع‍ سے اکتوبر 2012ع‍ تک) شہر قم کے مدرسہ معصومیہ میں تیار کی گئی جس کی تنصیب کا کام ربیع الاول سنہ 1434ھ کو شروع ہوا اور 22 ربیع الثانی سنہ 1334ھ بمطابق 5 مارچ سنہ 2013ع‍ کو نئی ضریح کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ضریح ہندسی شکل کے لحاظ سے پرانی ضریح کی مانند ہے لیکن بلندی کے لحاظ سے پرانی ضریح کی نسبت زیادہ اونچی ہے، اور اس کا رقبہ 34 میٹر مربع ہے۔

شہدائے کربلا کا مدفن

بائیں سمت میں ایک چاندی کی جالی میں غیر بنی ہاشم شہدائے کربلا مدفون ہیں۔

حضرت علی اکبرؑ کے دفن ہونے کی جگہ امام حسین علیہ السلام کے پائینتی واقع ہے اور امام حسینؑ کی ضریح کے نچلے دو حصوں میں جناب علی اکبر اور بنی ہاشم کے شہداء دفن ہیں ۔ یہ حصہ امام حسینؑ کی ضریح کے بیرونی حصہ سے متصل ہے جس کی لبمائی 2 میٹر 60 سینٹی میٹر اور چوڑائی ایل میٹر 40 سینٹی میٹر ہے۔

بنی ہاشم شہداء کا مزار جناب علی اکبر کی قبر کی طرف امام حسین علیہ السلام کے پیر کی جانب واقع ہے۔ روایات کے مطابق، بنی اسد نے جس وقت شہداء کے جنازوں کو دفن کیا اس وقت بنی ہاشم کے جنازوں کو جسے امام حسینؑ نے ایک خیمہ میں جمع کر دیا تھا، حضرت کے پیر کی سمت میں دفن کیا اور اس کے بعد وہاں سے کچھ میٹر کے فاصلہ پر دوسرے تمام غیر بنی ہاشم شہداء کو دفن کیا ۔ حضرت ابو الفضل العباس، حر بن یزید ریاحی اور حبیب بن مظاہر کے علاوہ تمام شہدائے کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر کے قریب دفن کئے گئے ہیں اور ان کا مقبرہ امام حسینؑ کی ضریح کے جنوب مشرقی سمت میں کچھ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہ قبریں جو ایک 12 میٹر کے چھوٹے سے حجرہ میں ایک منقش صندوق کے اندر واقع ہیں، اس کے اوپر چاندی کی ایک جالی لگی ہوئی ہے جس کی لمبائی 5 میٹر ہے اور جس سے قبریں کا نشان پتہ چلتا ہے۔ اس جالی کے اوپر شہدائے کربلا میں سے تقریبا ایک سو بیس حضرات کے نام، ان کی مخصوص زیارت کے ساتھ کاشی کے کتبہ کی صورت میں نقش اور ثبت ہیں۔

قتل گاہ یا مقتل

تفصیلی مضمون: قتلگاہ

مقتل اس مقام کو کہتے ہیں جس میں امام حسین علیہ السلام کے سر کو تن سے جدا کیا گیا ہے۔ یہ مقام ایک مخصوص حجرہ میں واقع ہے جس کا دروازہ چاندی کا ہے اور اس کی کھڑکی صحن کی طرف، حبیب بن مظاہر کے رواق کے جنوب مغرب کی سمت میں ہے۔ اس کی زمین کا فرش شفاف سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے اور اس میں ایک سرداب بھی ہے جس کا دروازہ چاندی کا ہے۔

حائر حسینی

تفصیلی مضمون: حائر حسینی

حائر اس مقام کو کہتے ہیں جس میں پانی جمع ہو جائے اور باہر نہ نکل سکے۔ دوسرے الفاظ میں، حوض یا ایسے مقام کو کہتے ہیں جس سے پانی اس کی طرف بہہ جائے لیکن پانی اس میں جمع ہو جائے اور خارج نہ ہو سکے۔ یہ نام امام حسین علیہ السلام کی قبر کے مقام اور مزار کے محدودہ کو کہا جاتا ہے۔

اس کو حائر کہنے کا سبب یہ ہے کہ جس وقت متوکل عباسی نے امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے روضہ اور مزار کو مسمار کرنے کا حکم دیا اور روضہ کی طرف پانی چھوڑا گیا تو پانی وہاں تک پہچ کر رک گا، روضہ کے اطراف اور چارو طرف پانی جمع ہو گیا مگر قبر کے پاس نہیں گیا۔ حائر میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے مرکزی مقامات، گنبد، ضریح اور شہدائے کربلا کے مزارات شامل ہیں۔

حرم کا گنجینہ اور کتب خانہ

حرم کا گنجینہ اس کی شمالی سمت میں واقع ہے اور اس میں جواہرات، نفیس اشیاء اور بے شمار قیمتی آثار شامل ہیں جو مختلف صدیوں میں اسلامی ممالک کے مختلف بادشاہوں، اور سلاطین کے ذریعہ ہدیہ کئے گئے ہیں۔ حرم کا کتب خانہ اس کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور اس میں قرآن کریم کے متعدد نفیس خطی نسخے موجود ہیں۔

امام حسینؑ کے روضہ میں مدفون شخصیات

عرصہ دراز سے بہت سی بزرگ شخصیتیں، شاہ زادے، امراء، شعراء اور علماء امام حسین علیہ السلام کے حرم میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:

  • زائدہ بن قدامہ (متوفی سنہ 161 ھ)
  • سلیمان بن مھران اعشمی (پہلی صدی ہجری)
  • حسن بن محبوب (پہلی صدی ہجری)
  • ابو حمزہ ثمالی (متوفی سنہ 128 ھ)
  • معاویہ بن عماد دہنی (متوفی سنہ 157 ھ)
  • عبد اللہ بن طاہر (متوفی سنہ 300 ھ)
  • شیخ علی بن بسام بغدادی (متوفی 302 ھ)
  • شیخ ابوالحسن محمد المزین (متوفی 327 ھ)
  • شیخ ابو علی اسکافی (متوفی سنہ 336 ھ)
  • شیخ ابو بکر محمد بن عمر بن یسار تمیمی (متوفی سنہ 344 ھ)
  • شیخ ابو عبد اللہ غضائری کوفی
  • شیخ علی بروغندی بزرگ صوفی (متوفی سنہ 359 ھ)
  • شیخ ابو علی مغربی (متوفی سنہ 364 ھ)
  • وزیر، احمد بن ابراہیم ضبی الکافی، وزیر مئوید الدولہ بویہ (متوفی سنہ 398 ھ)
  • شیخ ابو سہل صلعوکی (متوفی سنہ 369 ھ)
  • ابو محمد حسن مرعشی طبری (متوفی سنہ 308 ھ)
  • ظافر بن قاسم اسکندری شاعر (متوفی سنہ 529 ھ)
  • امیر قطب الدین سنجر مملوک ناصر لدین اللہ عباسی (متوفی سنہ 607 ھ)
  • جمال الدین قشمر ناصری (متوفی 637 ھ)
  • جمال دین علی بن یحی مخرمی (متوفی سنہ 646 ھ)
  • امیر امین الدین کافور (متوفی سنہ 653 ھ)
  • ابو الفتوح نصر بن علی نحوی ابن المخازن (متوفی سنہ 600 ھ)
  • وزیر، افنسقر بن عبد اللہ ترکی (متوفی سنہ 604 ھ)
  • سلطان طاہر شاہ بادشاہ مملکت دکن حیدر آباد ھندوستان (متوفی سنہ 957 ھ)
  • سلطان برمان نظام بن سلطان احمد ھندی (متوفی سنہ 961 ھ)
  • سلطان حمزہ میرزا صفوی (متوفی سنہ 997 ھ)
  • محمد بن سلیمان ملقب بہ فضولی شاعر (متوفی سنہ 963 ھ)
  • شاعر صوفی فضلی بن فضولی (متوفی سنہ 978 ھ)
  • شیخ وحید بہبہانی (متوفی سنہ 1208 ھ)
  • میرزا مھدی شہرستانی (متوفی 1216 ھ)
  • سید علی بن محمد طباطبایی صاحب الریاض (متوفی سنہ 1231 ھ)
  • میرزا شفیع خان صدر اعظم ایران (متوفی سنہ 1224 ھ)
  • سید کاظم رشتی رہبر فرقہ شیخیہ (متوفی سنہ 1259 ھ)
  • امیر کبیر (متوفی سنہ 1268 ھ)
  • شیخ محمد تقی شیرازی حائری (متوفی سنہ 1338 ھ) (۳۰)

کربلا کے نقباء اور حرم کے متولی

نقیب یا علوی سادات کے سرپرست افراد ایک خاص سماجی و سیاسی حیثیت کے حامل تھے اور ان کے ذمہ خاص فرایض تھے اور اس منصب اور مقام کے لئے مخصوص شرائط لازم و ضروری تھیں۔ نقابت علوی خاندان سے مخصوص تھی اور ایک علوی خاندان سے دوسرے علوی خاندان تک، خاص شرائط اور لیاقت کے ساتھ منتقل ہوتی تھی اور عام طور پر کسی نہایت برجستہ اور با اثر و رسوخ فرد کے اختیار میں قرار دی جاتی تھی۔ نقیب کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک علویوں کے امور کی سرپرستی کرنا اور اسی طرح سے ائمہؑ کے روضوں اور زیارتی شہروں سے مربوط امور کی نگرانی کرنا تھا۔

امام حسینؑ کے حرم کے متولی

ام موسی، مہدی عباسی کی ماں نے چند افراد کو امام کے روضہ کی خدمت پر مامور کیا، تا کہ وہ وہاں کے کاموں کو انجام دیں۔ اس نے اس گروہ کے لئے تنخواہ مقرر کی۔ ہارون نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور در واقع اسی ہہلے گروہ نے امام حسین علیہ السلام کے روضے کے خادمین اور متولیوں کو تشکیل دیا۔ اس وجہ سے کہ شہر کی اکثریت علویوں پر مشتمل تھی، شہر کی حاکمیت علوی نقیب کے اختیار میں دی جاتی تھی۔ مغولوں کے ذریعہ سنہ 656 ھ میں بغداد کے سقوط کے بعد تاریخ عراق کے بہت ہی کم منابع میں امام حسین (ع) اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے روضوں کے متولیوں اور اس بارے میں کہ کس طرح سے روضے کے امور کی رسیدگی کی جاتی تھی، تذکرہ کیا گیا ہے۔ اۤٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں قبیلہ بنی اسد کے بعض افراد نے اطراف کی سر زمینوں پر قبضہ کے ساتھ حرم کے امور کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی تھا۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے متولی کے عہدے پر فائز ہونے کا شرف سب سے زیادہ ان دو علوی گروہ؛ اۤل زحیک اور اۤل فائز کے مردوں کو حاصل ہوا کہ جن میں ہر ایک کے حصہ میں اشراف کربلا کی نقابت اۤتی رہی، ایک طائفہ کے ہاتھ میں حرم کی تولیت اور دوسرے کے حصہ میں نقابت کا منصب رہتا تھا۔

منصب تولیت کی طاقت کے جلوہ کے طور پر جس کے نتیجہ میں بطور طبیعی پورے شہر کے انتظامی امور کی قدرت حاصل ہو جاتی ہے، یہ چیز سامنے آئی کہ اس نے کربلا پر وہابیوں کے حملے کے واقعہ میں جو سنہ 1216۔1220 ھ میں پیش آیا اور اسی طرح سے دوسرا حملہ جو سنہ 1258 ھ میں نجیب پاشا کی طرف سے کیا گیا جس کی شہرت غدیر خون کے حادثہ کے طور پر ہے، اس نے عوامی مقاومت و مزاحمت کی رہنمائی کی۔غدیر خون کے حادثہ میں اور کربلا پر ایک بعد ایک حملوں کے بعد حرم کی تولیت کی قدرت نہایت تیزی سے زوال کا شکار ہو گئی، اس طرح سے کہ دو صدیوں سے زیادہ ایسے لوگوں کے پاتھ میں حرم کی تولیت رہی جو غیر علوی خاندانوں سے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک تولیت غیر علویوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس کے بعد آل طعمہ خاندان کے اختیار میں آ گئی اور عثمانی حکومت کے آخر تک اور اسی طرح سے بعد کے ادوار میں ان ہی ہاتھوں میں رہی۔

امام حسینؑ کی زیارت کا ثواب

تفصیلی مضمون: زیارت امام حسینؑ

بہت سی روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور زیارت پر اس قدر تاکید دوسرے امام کے بارے میں نہیں ملتی ہے۔ اس طرح سے کہ بعض روایات میں امام حسین (ع) کی زیارت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی کس قدر فضیلت ہے تو وہ شوق کے مارے اپنی جان دے دیتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: جس نے حسینؑ کی زیارت شوق کے ساتھ کی، اس کے نامہ اعمال میں ہزار مقبول حج اور ہزار مقبول عمرے، شہدائے بدر میں سے ہزار شہداء اور ہزار روزے دار، ہزار مقبولہ صدقہ اور راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔

امام حسین (ع) کے روضے کی زیارت، تمام شیعوں کے قابل توجہ اعمال میں سے ایک ہے۔ کربلا اور امام حسین کے حرم میں سب سے زیادہ زائرین عاشورا، اربعین اور نیمہ شعبان کے ایام میں جمع ہوتے ہیں۔

امام حسینؑ کے حرم کے احکام

امام حسین (ع) کی زیارت شیعوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔

تفصیلی مضمون: حائر حسینی
  • مسافر امام حسین علیہ السلام کے حرم میں اپنی نماز بطور کامل یا قصر پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لئے پوری نماز پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسینؑ کے پورے روضہ میں زیر گنبد، اس سے متصل تمام رواقوں اور مساجد میں بھی یہی حکم ہے اور مسافر وہاں پر اپنی نماز بطور کامل پڑھ سکتا ہے۔
  • ائمہ علیہم السلام کے روضوں میں اور خاص طور پر امام علیؑ اور امام حسینؑ کے روضوں میں نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔
  • انسان کو چاہئے کہ وہ ادب کی رعایت کرے اور رسول اکرم (ص) اور ائمہ معصومینؑ کی قبور کے آگے نماز نہ پڑھے اور چنانچہ نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو حرام ہے البتہ نماز باطل نہیں ہے۔ اگر نماز میں کوئی چیز جیسے اس کے اور قبر کے درمیان دیوار حائل ہو جس سے بے احترامی نہ ہوتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ضریح اور اس کے پاس ڈالے گئے پردہ کا فاصلہ ہونا آگے نماز پڑھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
  • تمام ائمہؑ کی زیارت کے وقت عطر لگانا اور خوشبو کرنا مستحب ہے لیکن امام حسین (ع) کی زیارت میں ایسا کرنا مستحب نہیں ہے۔
تفصیلی مضمون: تربت
  • تربت امام حسین علیہ السلام کے لئے مخصوص آثار اور احکام بیان کئے گئے ہیں:
  1. نماز کی حالت میں تربت امام حسینؑ پر سجدہ کرنا مستحب ہے اور نماز کے ثواب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
  2. کسی بھی قسم کی خاک کا کھانا حرام ہے سوائے تربت امام حسینؑ کے، جس کا شفا حاصل کرنے کی نیت سے کم مقدار میں کھانا جائز ہے۔
  3. نوزائیدہ بچہ کو تربت امام حسین (ع) چٹانا مستحب ہے۔
  4. اس تربت کے احترام کا خیال رکھنا لازم ہے اور کسی بھی طرح سے اس کی بے احترامی کرنا حرام ہے۔ جیسے:
  5. اس کا نجس کرنا جایز نہیں ہے۔
  6. اس کا ایسی جگہ پر ڈالنا جہاں بے احترامی ہوتی ہو، حرام ہے۔
  7. اگر وہ ایسی جگہ پر گر جائے جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو تو اس کا باہر نکالنا لازم ہے حتی اگر وہ کسی کنویں میں ہی کیوں نہ ہو اور اگر اس تربت کو باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو اس کنویں کو بند کر دینا چاہئے۔
  8. مستحب ہے کہ دفن کے وقت میت کے ہمراہ کچھ مقدار میں اس تربت کو رکھا جائے اور اس کے حنوط میں بھی اس کو مخلوط کیا جائے۔
  9. جو سامان دوسری جگہ بھیجا جاتا ہے مستحب ہے کہ اس کے ہمراہ کچھ مقدار میں اس تربت کو بھی رکھ دیا جائے جیسے بیٹی کا جہیز میں۔
  10. تربت امام حسین کو سونکھنا، چومنا اور آنکھوں پر لگانا مستحب ہے اور حتی کہ اس پر ہاتھ پھیرنا اور اسے تمام اعضائے بدن پر مس کرنا بھی ثواب کا باعث ہے۔
  11. ایسی تسبیح سے ذکر پڑھنا جو تربت امام حسین سے بنی ہو مستحب ہے اور حتی اسے ساتھ میں رکھنا مستحب ہے۔
مذہب

کربلا یا کربلائے معلی عراق میں شیعوں کے زیارتی شہروں میں سے ایک ہے جہاں امام حسینؑ اور آپ کے بھائی عباس بن علی کے روضے سمیت کئی دیگر زیارتی مقامات پائے جاتے ہیں۔ یہ شہر شیعوں کے یہاں ایک خاص تقدس کا حامل ہے جسکی اصلی وجہ سنہ 61ھ 10محرم الحرام کو واقعۂ عاشورا میں امام حسینؑ اور آپ کے با وفا اصحاب کی شہادت ہے۔

کربلا کی قدمت اسلام سے پہلے بابلی دور کی طرف پلٹتی ہے۔ اسلامی فتوحات کے بعد کربلا کے اطراف میں فرات کے کنارے بعض قبیلے بستے تھے۔ دس محرم کو کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت اور آپ کے وہاں دفن ہونے کے بعد لوگ آپ کی زیارت کے لیے وہاں آنے لگے یوں امام حسین اور شہدائے کربلا کی زیارت کی اہمیت کے پیش نظر کربلا شیعوں کی بسنے کی جگہ قرار پائی۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے بعد خاص کر آل بویہ کے دور میں کربلا کے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئی جو صفویوں اور قاجاریوں کے دور میں اپنی عروج کو جا پہنچی۔

شہر کی ترقی اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیسری صدی ہجری میں یہاں دینی درسگاہوں کا قیام عمل میں آیا اور کربلا کے حوزہ علمیہ نے تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز دیکھے۔ کربلا میں دینی مدرسے کے قیام کے بعد بہت سارے شیعہ خاندان دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے کربلا میں سکونت پذیر ہوئے جن میں آل طعمۃ، آل‌ نقیب، بہبہانی، شہرستانی اور شیرازی قابل ذکر ہیں۔

آخری دو صدیوں میں کربلا میں بہت سارے حادثے رونما ہوئے۔ وہابیوں کا کربلا پر حملہ، عثمانی حکومت کے گورنر نجیب پاشا کا حملہ، 1920 ء کا انقلاب اور انتفاضہ شعبانیہ ان دو صدیوں کے حادثات میں سے ہیں۔ بیسویں صدی میں عثمانی حکومت کے خاتمے اور برطانیہ کے تسلط کے بعد بہت ساری سیاسی پارٹیاں اور سماجی اور ثقافتی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں عراق کی خود مختاری کے بعد مزید اضافہ ہوا۔

ہر سال پوری دنیا سے مختلف مواقع پر اہل تشیع زیارت کے لئے کربلا کا رخ کرتے ہیں۔ اس سفر کا عروج محرم اور صفر خاص طور پر اربعین کے مراسم میں نمایاں ہوتا ہے جس میں دنیا جہاں سے کئی لاکھ لوگ زیارت اربعین کے لئے کربلائے معلی کا رخ کرتے ہیں جو گذشتہ سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی مذہبی مناسبتوں میں تبدیل ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2016 میں زائرین کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔

تاریخ میں کربلا کے بعض دوسرے نام بھی مذکور ہیں: غاضریہ، نینوا، طَفّ، عقر، حائر اور نواویس انہی ناموں میں سے ہیں۔

تعارف

کربلا کا شہر، عراق میں شیعہ زیارتی اور مقدس شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر صوبہ کربلا کا دارالخلافہ ہے۔ اور عراق کے جنوبی حصے میں بغداد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

امام حسینؑ اور ان کے باوفا ساتھیوں کی واقعہ کربلا میں شہادت اور حرم امام حسین اور حرم حضرت عباس اور دیگر زیارتی مقامات کے ہونے نے کربلا شہر کو خاص کر محرم اور اربعین کے ایام میں شیعوں کی سب سے زیادہ تعداد میں زائرین کے رفت و آمد کا شہر قرار دیا ہے۔ 1914ء کو عثمانی امپراطوری اور 2003ء کو صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد عراق میں کربلا کے لیے ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ شیعہ مجتہد آیت اللہ محمد تقی شیرازی کا برطانیہ کے خلاف جہاد کا فتوی دینے اور 1920ء میں برطانیہ کے عراق میں حضور کے خلاف عراقی عوام کی تحریک کی سرپرستی اس شہر کے معاصر عراق کی تاریخ میں سیاسی کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی نماز جمعہ کے خطبوں میں شیعہ مجتہدوں کا عراق اور عالمی سیاسی موقف بیان کیا جاتا ہے۔ آیت اللہ سیستانی کا داعش کے خلاف جہاد کا فتوی کا اس شہر کے نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان ہونا اس کی ایک مثال ہے۔

۲۰۱۵ کی مردم شماری کے مطابق کربلا شہر کی آبادی سات لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تاریخ میں کربلا کے بعض دوسرے نام بھی تھے: غاضریہ، نینوا، طَفّ، عقر، حائر اور نواویس انہی ناموں میں سے ہیں۔.

تاریخ کے آئینے میں

اگرچہ سنہ 61 ہجری قمری عاشورا کے دن امام حسینؑ کی شہادت کے بعد سے کربلا شیعوں کے ہاں ایک زیارتی اور مذہبی شہر بن گیا اور امام عالی مقام سے عشق و محبت رکھنے والے دور دراز سے آپ کی زیارت کی خاطر یہاں آتے ہیں لیکن یہ شہر اس واقعے کے کئی سال بعد سکونت اور محل زندگی قرار پایا۔ بعض تاریخی منابع نے کربلا کی قِدمت کو اسلام سے پہلے بابلی زمانے سے قرار دیا ہے۔[حوالہ درکار] بعض نے کربلا کو فتوحات اسلامی سے پہلے مسیحیوں کا قبرستان اور بعض نے اسے مجوسیوں کے آتشکدوں کا مرکز جانا ہے۔[حوالہ درکار] قدیم الایام سے کربلا کے اطراف خاص طور پر دریائے فرات کے کنارے میں بہت سارے گاوں آباد تھے۔ اس کے علاوہ بعض گزارشات کے مطابق بعض انبیاء کا وہاں آنا خاص کر بعض اولوالعزم انبیاء جیسے حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کا کربلا میں آنے کے بارے میں روایات پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں عراق اور بین‌النہرین کی فتح کے بعد مورخوں نے واقعہ عاشورا سے پہلے کے بعض واقعات نقل کئے ہیں۔ ایک گزارش میں ذکر ہوا ہے کہ سنہ 12 ہجریی کو حیرہ کی جنگ میں حیرہ (حالیہ نجف کے نزدیک) کو اپنے کنٹرول میں لینے کے بعد کربلا میں پڑاؤ ڈالا۔اور بعض نے امام علیؑ کی جنگ صفین سے واپسی پر کربلا سے گزرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ امام، نماز اور استراحت کی غرض سے وہاں رک گئے اور مستقبل میں اپنے بیٹے امام حسینؑ، ان کے ساتھی اور گھر والوں کے ساتھ پیش آنے والے باقی واقعات کی پیشگوئی کی۔

کربلا میں رونما ہونے والے واقعات میں سب سے اہم عاشورا کا واقعہ ہے جس کی وجہ سے کربلا مشہور ہوئی اور شیعوں کے ہاں اس کی بہت اہمیت ہوئی۔اس واقعے میں امام حسینؑ کی طرف سے یزید کی بیعت سے انکار اور کوفہ والوں کی طرف سے ان کی بیعت کرنے لیے خطوط لکھنے کے بعد آپ مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے حکم سے کوفہ کے راستے میں حر بن یزید ریاحی کے ذریعے امام حسینؑ کا کاروان روکنے کے بعد امام کے کاروان نے کربلا میں پڑاؤ ڈالا۔چند دن وہاں رکنے کے بعد اکسٹھ ہجری کی دس محرم، عاشورا کے دن امام حسینؑ کی فوج اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور امامؑ اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ اس دن شہید ہوگئے اور جو زندہ رہے تھے ان میں اکثر خواتین اور بچے تھے؛ اسیر ہوکر پہلے کوفہ پھر وہاں سے شام لے جائے گئے۔

شیعہ اماموں کی طرف سے حرم امام حسین کی زیارت کرنے کی تاکید اور شیعوں کی طرف سے اس پر زیادہ توجہ کی وجہ سے بنی‌امیہ اور بنی‌عباس کے دور میں امام حسینؑ کی قبر پر عمارت بنی، پھر اس کو توسیع دی گئی اور زائرین کی سہولت کے لیے حرم کے اطراف میں مختلف عمارتیں بنیں۔واقعہ کربلا کے بعد شیعہ تحریکیں بھی شیعوں کو امام حسینؑ کے حرم کی طرف جلب کرنے میں موثر تھیں۔ توابین نے اپنی تحریک میں جب نخیلہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں امام حسینؑ کے قبر کی زیارت کی۔اور امام حسینؑ کے راستے پر چلنے اور خود کو اس راستے پر گامزن رہنے کا اعلان کیا۔ مختار کے قیام میں بھی کربلا اور امام حسینؑ کے قبر کی زیارت پر خاصی توجہ دی گئی۔ مختار ثقفی ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے امام حسینؑ کی قبر پر عمارت، مسجد اور چھوٹے سے گاوں بنوایا جس میں بعض عمارتیں تھیں جو مٹی، در خرما کے پتے اور تنوں سے بنایا تھا۔ اسلام سے پہلے کربلا کے بارے میں کوئی خاص معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن کربلا کو اگر لفظ "کور بابل” یعنی بابل کا دیہات، سے ماخوذ قرار دیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کربلا "بابلیوں” کے دور میں محل سکونت تھی اور لوگ یہاں زندگی گزارتے تھے۔ اسی طرح اس سرزمین کو "نواویس” یعنی مسیحیوں کا قبرستان، بھی کہا جاتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے پہلے کسی زمانے میں یہاں مسیحی بستے تھے۔

زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بعض مسلمانوں کا امام حسینؑ کے مرقد کے جوار میں سکونت پذیر ہونے کے اور اسی وقت بنی بنی‌امیہ کمزور پڑنے اور بنی عباس کی حکومت بنتے وقت کربلا کو آباد کرنے میں رونق آگئی اور حرم کے جوار میں نئے مضبوط مکانات بنے۔

یہ کام بنی عباس کے خلیفوں کے لیے شیعوں کی طرف سے ایک خطرہ شمار ہوتا تھا۔اسی لئے بعض خلفاء جیسے؛ ہارون‌الرشید اور مُتَوکِّل عَبّاسی نے اپنے دور حکومت میں امام حسینؑ کے حرم اور اس کے جوار میں موجود مکانات کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔اس کے باوجود شیعوں کو وہاں پر رہنے اور کربلا کو شیعوں کا مسکن بننے سے نہ روک پائے۔ ہارون کے بعد ان کا بیٹا مأمون عباسی کے دور میں امام حسینؑ کا مرقد اور اطراف کی عمارتوں کی مرمت ہوئی اور کربلا پھر سے آباد ہونے لگا۔متوکل کی طرف سے کی جانے والی ویرانی بھی ختم ہونے لگی اور کربلا آباد ہونے لگا اور مسمار شدہ عمارتوں اور حرم کے علاوہ کربلا کے بازار کی بھی تاسیس ہوئی۔عباسیوں کے دور میں کربلا میں بعض علمی محفلیں بھی منعقد ہوئیں جنہیں کربلا میں حوزہ کربلا کا پہلا دور سے یاد کیا جاتا ہے۔ آل‌بویہ کے دور میں کربلا کی معماری میں نئی طرز آگئی جسے بعض نے کربلا کی معماری کی ترقی کا دور سمجھا ہے۔بویہ کے حکمرانوں نے زیارت امام حسین(ع) کے ساتھ ساتھ مرقد کی عمارت کو دوبارہ سے وسعت دے کر بنانے کے علاوہ کربلا شہر کو میں بھی وسعت دیا۔ اور کربلا میں پہلا قلعہ، کاروانسرا، نیا بازار، دینی مدرسے جیسے عضدیہ اور مسجد راس الحسین جو عَضُدُالدولہ دیلمی کے حکم سے 372ھ کو بن گئے۔

صفوی اور قاجاری بادشاہوں کی طرف سے عتبات عالیات عراق پر خاص توجہ کے پیش نظر دسویں صدی سے تیرھویں صدی ہجری تک وسیع پیمانے پر ایرانی وہاں بسنے لگے اور یوں معماری کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس دور میں حرم امام حسینؑ کی توسیع کے علاوہ حرم حضرت عباسؑ اور دیگر کربلا کی زیارتگاہوں کی رونق ، دینی مدرسے، مسجدیں اور لائبریریوں کی تاسیس میں کربلا میں مقیم ایرانیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ سیاح اور جغرافیا کے ماہرین جیسے؛ کارِستِن نِیبُور، جان اشر نے اس دور میں کربلا کا سفر کر کے عثمانیوں کے دور میں شہر کی پیشرفت اور تعمیرات کی خبر اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ آمریکہ کا سیاح اور قدیمی چیزوں کا ماہر جان پیترز نے بھی 1890ء کو کربلا کے سفر کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے قدیم شہر کربلا کے حدود سے باہر جو شہر ایجاد ہوا ہے اس میں یورپ کی طرف وسیع اور کشادہ سڑکیں بنی ہیں۔

زیارتگاہیں

حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی وجہ سے کربلا کا شہر شیعوں کی اہم زیارتی شہروں میں سے قرار پائی ہے۔ امام حسینؑ کا حرم، ان کا اور بنی‌ہاشم اور امام کے انصار میں سے بعض کا مدفن ہے جو واقعہ کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔امام حسینؑ کے حرم کی زیارت کرنا ہمیشہ سے شیعوں کے لیے اہمیت کا حامل رہا ہے۔اور بعض مخصوص دنوں جیسے عاشورا، اربعین و پندرہ شعبان میں امام حسینؑ کی زیارت پڑھنے کی تاکید کی وجہ سے زائرین کی زیادہ تعداد انہی دنوں آتے ہیں۔ شیعہ فقہ میں امام حسین کے حرم اور تربت کے بعض مخصوص احکام ہیں۔

امام حسینؑ کا حرم کئی مرتبہ شیعہ مخالفین خاص کر عباسی خلیفوں اور وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ ابتدائی تخریب میں متوکل عباسی کے دور میں حرم کو مسمار کرنا بھی شامل ہے۔اور آخری بار 1411 ہجری کو عراق کی بعثی حکومت کے ہاتھوں انتفاضہ شعبانیہ میں ہوا۔

حضرت عباسؑ کا حرم بھی امام حسینؑ کے حرم سے 378 میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔ اور زائرین امام حسینؑ کی حرم کے علاوہ حضرت عباس کے حرم کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ نو محرم؛ روز تاسوعا کو شیعہ حضرت عباس کے حرم میں ماتم داری کرتے ہیں۔ اور عزاداری کے کلینڈر میں نو محرم اکثر جگہوں پر حضرت عباسؑ سے منسوب ہے۔

کربلا میں امام حسین اور حضرت عباس کے حرم کے علاوہ بعض دیگر زیارتی مقامات بھی ہیں جن میں سے اکثر واقعہ کربلا سے مربوط ہیں۔ خیمہ‌گاہ، تل زینبیہ و مرقد حر بن یزید ریاحی انہی مقامات میں سے ہیں۔ امام حسینؑ کی حرم کے قریب مقام امام صادقؑ اور مقام امام زمانؑ بھی ہیں جو شیعہ تہذیب میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

آخری دو صدیوں کے سیاسی اور سماجی واقعات

آخری دو صدیوں میں کربلا میں بہت ساری سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آگئیں۔

وہابیوں کا حملہ

18 ذی الحجہ سنہ 1216 ہجری میں وہابی، عبدالعزیز بن سعود کی سرپرستی میں حجاز سے عراق میں وارد ہوئے اور کربلا پر حملہ کیا۔ وہ خیمگاہ محلے سے کربلا میں داخل ہوئے اور قتل عام کیا اور لوگوں کے مال کو غارت کیا۔ حرم امام حسین سے قیمتی اشیاء کو غارت کیا۔ اس دن کربلا کے اکثر لوگ ان کی دیرینہ سنت کے تحت عید غدیر منانے نجف میں حرم امام علیؑ گئے ہوئے تھے اور کربلا میں مزاحمت کے لیے کوئی نہیں تھا۔ تاریخی کتابوں میں اس حادثے میں مرنے والوں کی تعداد کو ہزار سے چار ہزار تک بتایا گیا ہے۔ اس سانحے میں حرم امام حسینؑ کو بڑا نقصان پہنچا۔

نجیب پاشا کا حملہ

1285ھ میں جب کربلا کی عوام نے عثمانی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تو عثمانی حکومت کے عراق کے حاکم نجیب پاشا نے کربلا کے باسیوں کو عثمانی حکومت کے سامنے تسلیم ہونے کے لیے چند دنوں کی مہلت دی۔ عثمانیوں کے شہر کے اندر حملوں کی روک تھام اور عراق کے عوام کی طرف سے تسلیم نہ ہونے پر شیخیہ کے عالم اور دوسرے رہبر سید کاظم رشتی کی طرف سے میانجگری شکست سے دوچار ہونے کے بعد نجیب پاشا نے کربلا پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور عثمانی حملہ آور سواے حرم امام حسینؑ، حرمِ حضرت عباسؑ اور سید کاظم رشتی کے علاوہ باقی تمام جگہوں پر حملہ کرنے کے مجاز تھے۔

کربلا کے بعض لوگ اپنے کو دشمنوں کی گزند سے بچانے کے لیے حرم حضرت ابوالفضل میں پناہ لی۔ لیکن اس کے باوجود یہ مکان بھی عثمانیوں کے حملے سے محفوظ نہیں رہا اور بعض گزارشات کے مطابق اس حادثے میں تقریبا دس ہزار لوگ مارے گئے۔ اور یہ سانحہ واقعۃ غدیر الدم(ترجمہ: خونی غدیر) سے مشہور ہوا

استعمار کے خلاف مقابلہ

1917ء کو عراق میں عثمانی شہنشاہیت کی شکست اور برطانیہ کے حضور کے دوران کربلا برطانیہ کے خلاف جنگ کا مرکز سمجھی جاتی تھی۔ عراق کی 1920 کی تحریک جو بعد میں ثورۃ العشرین سے مشہور ہوئی کربلا سے شیعہ مرجعیت محمدتقی شیرازی کی سرپرستی میں تشکیل پائی۔ اور یہ تحریک برطانیہ کا عراق سے نہ جانے اور عراق کے استقلال کے پیش نظر وجود میں آئی۔

انتفاضہ شعبانیہ

صدام حسین کی بعثی حکومت کے خلاف 1411 ہجری کو لوگوں کے قیام کے اصلی مراکز میں سے ایک کربلا تھا۔ انتفاضہ شعبانیہ میں باقی 13 صوبوں کی طرح کربلا بھی عوام کے ہاتھ آیا۔لیکن آخر کار یہ تحریک صدام کی فوج کے ذریعے ناکام کرائی گئی۔ اور اسی دوران بعثی فوج کے ذریعے حرم امام حسینؑ کو بھی نقصان پہنچا۔ بعض گزارشات کے مطابق تین سے پانچ لاکھ کے درمیان لوگ اس حادثے میں مارے گئے اور بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بےگھر ہوگئے۔

صدام کے سقوط کے بعد امریکہ کی فوج سے نبرد آزمائی

سنہ 2003ء میں عراق پر چڑھائی کے بعد امریکی فوجیوں کو کربلا میں حرم امام حسین اور حضرت عباس(ع) کی جانب جانے والی سڑکوں پر عوامی مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اسی طرح 2004ء کو صدر پارٹی سے وابستہ جیش المہدی نے نجف، بصرہ، شہرک صدر بغداد وغیرہ میں امریکی فوج سے لڑائی شروع کی اور ان حملوں کو روکنے کے لیے امریکی فوج پوری نظامی طاقت کے ساتھ کربلا میں داخل ہوئی اور صدر پارٹی کے دفتر پر حملہ کرنے کے بعد حرم کے اطراف کو بند کردیا۔ اس لڑائی کی اصل وجہ امریکی فوج کی عراق پر قبضہ کرنا بتایا گیا ہے۔2007ء کو بھی کربلا میں جیش‌المہدی کے طرفدار، امریکی فوج سے مقابلے پر اترے اس فرق کے ساتھ کہ جیش المہدی کے مقابلے میں عراق کی پلیس تھی اور امریکی فوج ان کی مدد کے لیے کربلا میں پہنچ گئی۔

کربلا میں دہشتگردی کے حملے

عراق میں بعثی حکومت ختم ہونے کے بعد حزب بعث کے بعض افسروں کی تعاون سے القاعدہ سے وابستہ بعض دہشتگرد اور تکفیری گروہوں نے کربلا میں متعدد حملے کئے۔ دہشتگردی کے حملے عراق کے دوسرے شہروں میں بھی ہوتے تھے اور اس سے مالی اور جانی بڑا نقصان ہوا۔ اور کربلا میں اکثر دہشتگردی کے حملے محرم کے ایام میں عزاداری امام حسین اور اربعین کے وقت ہوتے تھے۔

سیاسی اور سماجی پارٹیاں

آخری دو صدیوں میں مراجع تقلید کا کربلا میں رہنے اور حوزہ علمیہ میں پیشرفت کی وجہ سے کربلا کا عراق کے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں میں بڑا کردار رہا۔ کربلا کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں عراق اور کبھی ایران کی سیاسی حالات پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ نجف اور کربلا میں مقیم علما کا ایران میں مشروطہ تحریک پر عکس العمل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تحریکِ مشروطہ نے جہاں نجف حوزہ کے علما کو متحرک کردیا اسی طرح کربلا پر بھی اثر انداز ہوا صرف اس فرق کے ساتھ کہ کربلا والے "مشروطہ” کے مخالف نظریہ رکھتے تھے۔

بیسویں صدی میں، خاص کر عراق پر برطانیہ کے قبضے کے دوران بھی بعض پارٹیاں اور تحریکیں وجود میں آئیں یا موجودہ پارٹیوں کے بعض گروپ بن گئے۔ کربلا میں موجود مراجع تقلید اور حوزہ علمیہ بھی بعض پارٹیوں کی سیاسی اور سماجی تعاون کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں تحریکوں کا اصل مقصد برطانیہ کو عراق سے خارج کرنا تھا۔ جمعیۃ الإتحاد و الترقی و الجمعیۃ الوطنیۃالإسلامیۃ انہی میں سے ایک تھی۔ جمعیۃ الوطنیہ کربلا میں مرجعیت شیعہ محمدتقی شیرازی کے بیٹے محمدرضا شیرازی اور بعض دیگر شیعہ علما کی سرپرستی میں برطانیہ کے خلاف 1917ء کو قیام پذیر ہوا۔ یہ ساری تحریکیں میزاے شیرازی کا جہاد کے فتوے کے بعد 1920ء کے انقلاب کے قیام میں کلیدی کردار کے حامل تھے۔

کمیونسٹ چھوٹے گروہوں کے وجود میں آنے کے بعد عراق کے استقلال کے زیر سایہ کمیونسٹی پارٹی بنام «حزب الشیوعی» نے نجف اور کربلا میں کام شروع کیا اور بہت سارے جوانوں کو اپنی طرف جلب کیا۔ حوزہ اور مرجعیت، نجف اور کربلا میں کمیونسٹوں کا اسلام کے لیے خطرے کا احساس کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں منظم پروگرام کا سوچا۔یہ تنظیم حزبُ الدّعوَۃِ الاسلامیۃ کے نام سے 1956ء کو وجود میں آیی۔ جزب الدعوہ کی سب سے پہلی میٹنگوں میں سے ایک کربلا میں منعقد ہوئی۔اس پارٹی کے بعض سربراہ جیسے؛ ابراہیم جعفری اور نوری مالکی بھی کربلا سے تھے۔ حزب الدعوہ کے بعد ۱۹۶۲ء کو شیرازی خاندان سے وابستہ سازمان عمل اسلامی کربلا میں تشکیل پائی۔

صدام اور بعثی حکومت کے دوران بھی عراق کے بعض شیعہ علما نے مجلس اعلی اسلامی عراق کو بنایا۔صدام کے سقوط کے بعد بہت ساری شیعہ تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں سے اکثر نے کربلا میں اپنا شعبہ کھولا اور سیاسی اور سماجی فعالیت شروع کی ان تنظیموں میں سازمان بدر عراق اور صدر پارٹی کا نام لیا جاسکتا ہے۔

رسومات

واقعہ کربلا اور قیامِ امام حسینؑ کا شیعہ ثقافت اور تہذیب میں بڑا اثر تھا اور خاص کر کربلا بہت سارے رسومات کا منبع رہا ہے جو واقعہ عاشورا سے متاثر ہوکر ایجاد ہوئے ہیں۔ کربلا میں شیعہ رسومات جیسے طویریج عزاداری، زیارت اربعین و اربعین کے لیے پیدل سفر، امام بارگاہوں کی تعمیر، تربت کربلا سے سجدہ گاہ اور تسبیح بنانا اور تعزیے بنانا انہی رسومات میں سے شمار ہوتے ہیں۔

طویریج

طویریج کربلا سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک شہر کا نام ہے جہاں سے عصر عاشورا کو کربلا کے شیعوں کا جلوس نکلتا ہے جسے دستہ عزاداری طویریج کہا جاتا ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر روز عاشورا کو جو مراسم وہاں انجام پاتے ہیں اس کی طرف اشارہ ہے۔ کربلا کے شیعہ عصر عاشورا کو طویریج شہر سے امام حسینؑ اور حضرت عباس کے حرم کی جانب جلوس کی شکل میں نکلتے ہیں اور جب امام حسینؑ کے حرم کے قریب پہنچتے ہیں تو بین‌الحرمین سے حرم تک کا راستہ اونچے قدموں میں سرو سینہ زنی کرتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ یہ رسم اکسٹھ ہجری کو وہاں کے لوگوں کا امام حسینؑ کی مدد کو دیر سے پہنچنے کی یاد میں مناتے ہیں۔

زیارت اربعین

شیعہ مذہبی مراسم میں سے ایک کربلا میں زیارت اربعین ہے۔ ابتدائی صدیوں میں ہی شیعہ ائمہ کی تاکید سے اربعین کی زیارت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔بہت سارے شیعہ مختلف ممالک سے اربعین کی زیارت کے لیے عراق جاتے ہیں اور نجف سے کربلا تک کا سفر پیدل طے کرتے ہیں اور یہ اربعین پیدل مارچ سے مشہور ہے۔ اربعین کے دن عراق کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک سے عزاداروں کی کثیر تعداد کربلا میں جمع ہوتی ہے۔

تربت کربلا

تربت کربلا یا تربت امام حسین وہ مٹی ہے جو امام حسینؑ کی قبر کے اطراف سے لی جاتی ہے اور روایات میں ذکر شدہ فضیلت کی وجہ سے شیعہ اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔ شیعہ تربت کربلا سے نماز کے لیے سجدہ گاہ اور تسبیح بناتے ہیں۔ نماز میں سجدہ، تربت کربلا پر کرنے کو فقہی کتابوں میں مستحب قرار دیا گیا ہے۔

زائرین کی سکونت کے لیے امام بارگاہوں کا قیام

زائرین کی سکونت کے پیش نظر امام بارگاہوں کا قیام گزشتہ صدیوں میں انجام دئے جانے والے کاموں میں سے ہیں۔ کربلا میں امام بارگاہ بنانے کی تاریخ گیارھویں صدی ہجری کی ہے۔ عراق میں زیارتگاہوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ قاجاریہ دور میں عثمانی حکومت کا عراق میں مقیم حاکم نے ۱۱۲۷ھ کو کربلا کے زائرین کی سہولت کے لیے ایک امام بارگاہ بنایا۔پھر ۱۳۶۸ھ کو بعض ایرانی تاجروں نے اس مکان عراق کی وزارت اوقاف سے خرید کر بعض عراقی اور کویتی تاجروں کے ساتھ ملکر اس حسینیہ کی مرمت کی اور اس کے بعد تہرانی حسینیہ کا نام لگا اور بعد میں نام تبدیل کر کے حسینیہ حیدریہ رکھا گیا۔اس تاریخ سے پہلے امام بارگاہ یا حسینیہ کے نام سے کوئی عمارت کا وجود نہیں ملتا ہے۔ اس کے بعد کربلا کی مشہور امام بارگاہیں چودھویں صدی کے دوسری اور تیسری دہائی میں تاسیس ہوئی ہیں۔ان امام بارگاہوں میں سے بعض ایرانی اور ہندوستانی شیعہ علما اور تاجروں نے بنایا ہے۔بعثی حکومت کی نابودی کے بعد امام بارگا اور زائر سرا بنانے میں تیزی آگئی اور ہوٹلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی حسینیہ اور امام بارگاہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روک نہ سکے۔

تعزیہ اور شبیہ خوانی

تعزیہ ایک مذہبی نمایش کے عنوان سے کربلا سمیت عراق کے بہت سارے شہروں میں رائج ہے۔ اور تعزیہ کا موجودہ طریقہ ایران میں قاجاریہ دور میں رائج ہونے کے بعد تقریبا بیسویں صدی عیسوی کو عراق میں پہنچ گئی۔یہ مراسم کربلا اور نجف میں تعزیہ کے علاوہ تشابیہ یا مسرح الحسینی کے نام سے بھی پہچانی جاتی ہے۔بعثی حکومت نے عراق پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد شیعہ دیگر مراسم کی طرح یہ رسم بھی کم رنگ ہوگئی اور آخرکار اسے ممنوع قرار دیا گیا۔صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد 2003ء میں شبیہ خوانی کے مراسم عراق کے مختلف شہروں میں پھر سے شروع ہوگئے۔

کربلا کے شعرا

عراق کی تاریخی اور ادبی منابع کے مطابق کربلا کے شاعروں نے عراق کی ادبی اور سیاسی تحریک میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ان کی بعض ادبی، سماجی اور سیاسی فعالیتیں کربلا اور عراق کے دیگر شہروں میں انجمن شعر و ادب کے نام سے ہوئیں۔ جمعیۃ الندوۃ الشباب العربی، ندوۃ الخمیس العربی، المنتدی الثقافی اور جمعیۃ الشعراء الشعبیین کربلا کی ادبی انجمنوں میں سے ہیں۔ان انجمنوں میں سے بعض اب بھی کام کر رہی ہیں۔ اس دوران شعر کے مختلف سبک کے ساتھ کربلا میں شعرِ آئینی بھی رائج تھا۔ اشعار کا یہ طرز اور سبک حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی تعاون سے عراق کے جوانوں کے درمیان بہت محبوب ہے۔

حوزہ‌ علمیہ اور علمی مراکز

تفصیلی مضمون: حوزہ علمیہ کربلا

کربلا میں حوزہ علمیہ کا قیام ابتدائی صدی میں شیعہ ائمہ معصومین کے بعض صحابی اور روایوں کی توسط ہوا ہے۔ وہ لوگ اس عرصے شاگردوں کی تربیت کرتے رہے۔ عبداللہ بن جعفر حمیری، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے ساتھی تھے جو کربلا میں حوزہ علمیہ کے ابتدائی اساتذہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔امام زمانؑ کی غیبت کے دوران بھی بعض فقہاء جیسے؛ نجاشی، سیدبن طاووس، شہید اول اور ابن‌فہد حلی نے حوزہ علمیہ کربلا سے تعلیم حاصل کی ہے۔کربلا کے حوزہ علمیہ میں اس قدر رونق آگئی کہ بعض دیگر مکاتب اجتہادی شیعہ کے مقابلے میں ایک خاص مکتب شمار ہوتا تھا۔

حوزہ علمیہ کربلا میں دو مکتب اخباری اور اصولی فعال تھیں لیکن اخباری مکتب کے خریدار زیادہ نہیں تھے۔صفوی دور میں اخباری مکتب محمدامین استرآبادی کے توسط احیا ہوئی۔ اور صفویوں کے سقوط کے بعد، سنی افغانیوں کی ظلم و ستم اور نادرشاہ کے دباؤ سے ایرانی علما عراق خاص کر کربلا کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور اس دوران کربلا میں اخباری مکتب عروج پر تھی اور بعض ایرانی علماء کے بھی اخباری افکار رکھتے تھے۔ اس کے باوجود بعض اسباب کی بنا پر اخباری مکتب نے زوال کی طرف سفر شروع کیا۔

تیروھویں صدی کو ایران کے علما کا نجف کی طرف ہجرت یا ایران واپس لوٹنے کی وجہ سے کربلا کے حوزہ علمیہ کی رونق میں کمی آگئی اور محمدتقی شیرازی نے سامرا سے کاظمین اور آخرکار کربلا کی طرف ہجرت کی۔ اور ان کی طرف سے برطانیہ کے خلاف قیام میں رہبری اور بعض علما اور طلاب حوزہ علمیہ کربلا کا برطانیہ کے خلاف ہونے والی تحریکوں میں شرکت کی وجہ سے حوزہ علمیہ کربلا میں پھر سے جان آگئی۔

کربلا میں مختلف صدیوں میں مختلف دینی مدرسے بنے ان میں سے بہت سارے مدرسے عراق میں مقیم ایرانی علما نے بنایا اور مدرسہ سید مجاہد، مدرسہ صدر اعظم نوری اور مدرسہ خوئی انہی مدارس میں سے ہیں۔دینی مدارس کے علاوہ کربلا میں بہت ساری لائبریریاں بھی بنیں اور ان میں سے بعض قلمی نسخوں کی وجہ سے شیعہ محققین کے ہاں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔بعض نے کربلا کی لائبریریوں کی تعداد 78 تک بتایا ہے جن میں سے بعض کربلا میں مقیم علما نے بنایا ہے۔دینی مدرسوں کے ساتھ ساتھ کربلا یونیورسیٹی، اہل‌البیت یونیورسیٹی اور حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ سے وابستہ تعلیمی اداروں نے بھی بعثی حکومت ختم ہونے کے بعد تشیع کے بارے میں بہت ساری علمی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں۔

خاندان‌ اور شخصیات‌

ابتدائی صدیوں سے اب تک بہت سارے خاندان کربلا کے شہر میں بسے ہیں جن میں سے بعض ابتدائی صدیوں سے ہی کربلا میں مقیم تھے؛ جیسے آل طعمۃ و آل‌نقیب خاندان۔ آل طعمۃ کا نسب ابراہیم مجاب تک پہنچتا ہے جو کربلا میں سکونت اختیار کرنے والے علویوں میں سب سے پہلے ہیں۔ یہ خاندان تیسری صدی ہجری میں کربلا میں آئے ہیں اور علویوں میں سب سے قدیمی خاندان ہیں۔ آل‌نقیب جو کہ امام کاظمؑ سے منسوب ہیں وہ پانچویں صدی ہجری کو کربلا میں بسے ہیں۔سب سے زیادہ وہ خاندان مشہور ہیں جو حصول علم کے غرض سے عراق کے دیگر شہر، ایران، خلیجی ممالک اور ہندوستان سے یہاں آکر بسے ہیں۔ بعض علما کے گھرانے دینی علم حاصل کرنے اور اجتہاد تک پہنچنے کے بعد یا ابتدائی دروس کو دینی مدارس میں حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک لوٹتے تھے۔ خاندانِ بہبہانی، صدر شیرازی، شہرستانی، کشمیری، رشتی، مرعشی وغیرہ کربلا کی بعض مشہور خاندان ہیں۔

ایران اور عراق میں موجودہ دور کی بعض شیعہ شخصیات بھی کربلا کی ہیں۔ ابراہیم جعفری اور نوری مالکی عراق کی سیاسی شخصیات اور علی‌اکبر صالحی ایران کی سیاسی شخصیت کی پیدائش کربلا کی ہے۔

تجارت اور زراعت

موجودہ صدی میں کربلا کے باسیوں کے اصلی پیشوں میں سے زراعت اور تجارت ہے۔ ابتدائی دہائیوں میں عراق میں عربی قوم پرستی اہل سنت کے فائدے میں رہی۔ شیعہ مرجعیت تقلید کی طرف عراقی بادشاہت میں کام کرنے کو حرام قرار دینے کے بعد کربلا اور دیگر شہروں کے شیعہ، حکومتی ملازمت کے بجائے زراعت اور تجارت میں لگ گئے۔اس کے علاوہ پانی کی فراوانی خاص کر حسینیہ کے نام سے مشہور نہر جو فرات سے کربلا تک کو پانی فراہم کرتی تھی اسی وجہ سے کربلا میں زراعت کے لیے مناسب موقع فراہم تھا۔

مذہب

اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین ؑ اور آپ ؑ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔

مشہور تاریخی اسناد کے مطابق اسیران کربلا بھی شام سے رہا ہو کر مدینہ واپس جاتے ہوئے اسی دن یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔ البتہ شیخ مفید اور شیخ طوسی وغیرہ تصریح کرتے ہیں کہ اسیران کربلا شام سے واپسی پر کربلا نہیں بلکہ مدینہ گئے تھے۔ اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری بھی اسی دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آئے تھے۔

اس دن کے خاص اعمال میں سے ایک زیارت اربعین ہے جسے امام حسن عسکریؑ سے مروی حدیث میں مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔

ایران سمیت بعض مسلم ممالک میں اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور شیعیان اہل بیت ؑ عزاداری کرتے ہیں۔ اس دن دنیا کے مختلف ممالک میں شیعیان اہل بیت سڑکوں پر ماتمی دستے نکالتے ہیں اسی طرح امام حسین ؑ سے عقیدت رکھنے والے قافلوں کی صورت میں اس دن کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخری چند سالوں میں اربعین کے دن کربلا کی طرف پیدل چل کر سید الشہداء ؑ کی زیارت کیلئے جانا شیعوں کے اہم ترین اور عظیم ترین مراسمات میں شامل ہو گیا ہے یہاں تک کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تہواروں میں شامل ہونے لگا ہے۔

تاریخی اہمیت

اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہا جاتا ہے اور 20 صفر کو امام حسینؑ کی شہادت کے چالیسویں روز کی مناسبت سے اربعین کہا جاتا ہے۔ 61ھ کے اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچنے تھے۔ اسی طرح بعض مآخذ کے مطابق جابر کے علاوہ اسیران کربلا بھی اسی دن شام کے زندان سے رہا ہو کر امام حسینؑ کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔

جابر بن عبداللہ انصاری کی کربلا میں حاضری

پیغمبر اسلامؐ کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔

جابر جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے نے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور آہستہ آہستہ امام حسینؑ کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوا۔ عطیہ بن عوفی کی رہنمائی میں اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا اور بے ہوش ہو گیا، ہوش میں آنے کے بعد تین بار یا حسینؑ کہا اس کے بعد کہا "حَبیبٌ لا یجیبُ حَبیبَهُ. ..” اس کے بعد امام اور دیگر شہداء کی زیارت کی۔

اسیران کربلا کی شام سے واپسی

بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اسرائے کربلا اسی سال یعنی سنہ 61 ہجری کو ہی شام سے رہا ہو کر مدینہ جانے سے پہلے عراق گئے اور واقعہ کربلا کے 40 دن بعد یعنی 20 صفر کو کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ جب یہ قافلہ کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو وہاں پایا پھر امام حسینؑ کی زیارت کے بعد وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب لہوف میں سید ابن طاووس نے اس نظریے کی تصریح کی ہے۔

ان کے مقابلے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ شام اور عراق کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسیران کربلا عاشورا کے 40 دن بعد دوبارہ کربلا واپس آ گئے ہوں کیوں کہ کوفہ سے شام پھر وہاں سے دوبارہ کربلا لوٹ آنا اس مختصر مدت میں امکان پذیر نہیں ہے۔ محدث نوری اور شیخ عباس قمی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی موجود نہیں ہے۔

علماء کا ایک گروہ اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسیران کربلا کا شام سے مدینہ واپسی کی تاریخ کو اسی سال صفر کے اواخر یا ربیع الاول کے اوائل بتاتے ہیں جبکہ بعض علماء اس واقعے کو اگلے سال صفر کی 20 تاریخ کو رونما ہونے کے قائل ہیں۔

اس اختلاف کے پیش نظر بعض علماء نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات کو کتاب کی شکل میں شایع کی ہیں جس میں اسیران کربلا کا اسی سال یعنی 61 ہجری کو شام سے کربلاء لوٹ آنے کو امکان پذیر قرار دیا ہے اور اس واقعے کی صحت کے بارے میں معتبر احادیث بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری مشہور کتابوں میں سے ایک جس میں اس نظریے کے مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے، تحقیق دربارہ اولین اربعین حضرت سیدالشہداءؑ نامی کتاب ہے جسے سید محمد علی قاضی طباطبایی نے تحریر کی ہیں۔

شہداء کربلا کے سروں کا بدن سے ملحق ہونا

مشہور قول کی بنا پر امام حسینؑ اور شہداء کربلا کے سروں کو عاشورا کے دن ان کے بدن سے جدا کیا گیا تھا اور اسیران کربلا کے ساتھ شہداء کے سروں کو بھی شام یزید کے دربار میں لے گیا تھا جو اسیران کربلا کی رہائی کے ساتھ اربعین کے دن شہداء کے بدنوں سے ملحق ہو گئے تھے۔ یہ قول بہت سارے شیعہ اور اہل سنت علماء اور مورخین کا مشترکہ قول ہے۔ شیعہ علماء میں سے شیخ صدوق، سید مرتضی، فتال نیشابوری،ابن نما حلی، سید ابن طاووس، شیخ بہایی اور علامہ مجلسی نے اس قول کو نقل کئے ہیں۔

شیخ صدوق اور ان کے بعد فتال نیشابوری اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام سجادؑ اہل بیتؑ کے مستورات کے ساتھ جب شام سے رہا ہوئے تو اپنے ساتھ امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے سروں کو بھی کربلا لے آئے تھے”۔ سید مرتضی اس بارے میں لکھتے ہیں: "روایت میں ہے کہ امام حسینؑ کا سر اقدس آپ کے بدن مطہر کے ساتھ کربلا میں مددفون ہیں۔” ابن شہر آشوب درج بالا سید مرتضی کے قول کو نقل کرنے کے بعد شیخ طوسی سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسینؑ کا سر بدن سے ملحق ہونے کی بنا پر زیارت اربعین کی سفارش ہوئی ہے۔

زیارت اربعین

تفصیلی مضمون: زیارت اربعین

امام حسین عسکریؑ سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مؤمن کی نشانی گردانا گیا ہے۔

نیز روز اربعین کے لئے ایک زیارت نامہ امام صادقؑ سے منقول ہے۔ شیخ عباس قمی نے اس زیارتنامے کو مفاتیح الجنان کے تیسرے باب میں زيارت عاشورا غير معروفہ میں زیارت اربعین کے عنوان سے درج کیا ہے۔

قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین زیارت مَرَدّ الرَّأس بھی کہلاتی ہے۔ "مَرَدُ الرأس” یعنی سر کا لوٹا دیا جانا، کیونکہ اس روز اسیران اہل بیتؑ کربلا پلٹ کر آئے تو وہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جسے امام حسینؑ کے بدن مطہر کے ساتھ دفن کیا گیا۔

اربعین کا پیدل زیارتی سفر

تفصیلی مضمون: اربعین پیدل مارچ

زیارت اربعین پر ائمہؑ کی تاکید کی بنا پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں سے کربلا کی طرف سفر کرتے ہیں؛ اکثر زائرین پیدل چل کر اس عظیم مہم میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ریلیاں دنیا کی عظیم ترین مذہبی ریلیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دسمبر 2013 بمطابق صفر المظفر 1435 ہجری، کے تخمینوں کے مطابق، اس سال دو کروڑ زائرین اس عظیم جلوس عزاداری میں شریک ہوئے تھے۔ بعض رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس سال کربلا پہنچنے والے زائرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔

قاضی طباطبایی لکھتے ہیں کہ کربلا کی طرف پائے پیادہ جانے والے زائرین کے قافلوں کا سلسلہ ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں بھی رائج تھا اور حتی کہ یہ سلسلہ بنو امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جاری رہا اور تمام تر سختیوں اور خطرات کے باوجود شیعیان اہل بیتؑ پابندی کے ساتھ ان مراسم میں شرکت کرتے تھے۔

انتفاضہ اربعین

تفصیلی مضمون: انتفاضہ صفر عراق

عراق میں بعثی حکومت نے ہر قسم کے مذہبی مراسم کو محدود کرنے، کربلا کی طرف پیدل سفر کرنے اور موکب لگانے پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود نجف کے مؤمنین 15 صفر 1398 ہجری بمطابق 1977ء کو اربعین پیدل سفر کے لئے تیار ہو گئے۔ 30 ہزار افراد پر مشتمل ایک کاروان نے کربلا کی طرف حرکت کی۔ بعثی حکومت نے اس کاروان کو روکنے کیلئے شروع سے ان کے خلاف کروائی کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہو گئے یہاں تک کہ نجف سے کربلا جانے والے راستے میں فوج نے بھی زائرین پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا۔ ان حملوں میں بعض شہید ہوئے بعض کو پھانسی دی گئی اور بعض کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔[حوالہ درکار]

سید محمد باقر صدر اور سید محمد باقر حکیم نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کئے۔ امام خمینی نے بھی اس عوامی تحریک کی حمایت کی تھی۔

مذہب

زکوٰۃ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایمان کا ایک اہم ستون ہے۔

اپنی دولت کا ایک حصہ ضرورت مندوں کو دینا یہ ہے کہ ہم اپنی کمیونٹیز میں عدم مساوات اور غربت کو ختم کرنے اور آنے والی نسلوں کو کامیابی کے لیے ترتیب دینے میں کس طرح مدد کرتے ہیں۔ زکوٰۃ، اسلام کے ایمان کا تیسرا ستون، دینے کی ثقافت کو برقرار رکھنے کی کلید ہے۔

جیسے جیسے ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ترقی کرتی ہے، دولت کی نئی شکلیں تخلیق ہوتی ہیں، جن میں تازہ ترین کرپٹو کرنسی ہے۔ یہ سمجھنا کہ اصل میں کرپٹو کیا ہے اور یہ ہماری مالی ذمہ داریوں میں کیسے فٹ بیٹھتا ہے بحیثیت مسلمان ہمارے عقیدے کو ہمارے زمانے کے ساتھ تازہ رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

یہ دیکھنے کے لیے پڑھیں کہ ہمیں کرپٹو پر اپنی زکوٰۃ کا حساب کیسے لگانا چاہیے:

زکوٰۃ کیا ہے؟

دولت کی تقسیم کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر سے متعلق کوئی بھی بحث زکوٰۃ کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔

زکوٰۃ ایک سالانہ صدقہ ہے جو مسلمان اپنی رقم، جائیداد اور دیگر اثاثوں پر ادا کرتے ہیں جو غریبوں اور کمزوروں کو قابل ادائیگی ہیں۔

جب آپ اپنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، تو آپ براہ راست بیواؤں، یتیموں، پناہ گزینوں، جنگ سے بے گھر ہونے والوں اور مقامی اور عالمی برادریوں میں بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے، سب سے پہلے یہ طے کرتا ہے کہ آیا ان کے پاس زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے درکار دولت کی کم از کم مقدار ہے، جسے عربی میں نصاب کہتے ہیں۔ وہاں سے، وہ اپنے پاس موجود تمام قسم کے اثاثوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کون سے "زکوٰۃ کے قابل” یا زکوٰۃ کے اہل ہیں۔

ان کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے:

ذاتی دولت اور اثاثے۔
مائع اور استحصالی اثاثے۔
زرعی پیداوار
مویشیوں
خزانہ

آخر میں، کوئی اپنی زکوٰۃ کا حساب لگاتا ہے، جو ایک ڈیجیٹل ٹول جیسے زکوٰۃ کیلکولیٹر کی مدد سے کیا جا سکتا ہے، اور اپنی زکوٰۃ عیدالاضحیٰ کے جشن سے پہلے دیتا ہے، جو کہ ماہ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے۔

Cryptocurrency کیا ہے؟

کریپٹو کرنسی، جسے اکثر "کریپٹو” کہا جاتا ہے، کرنسی کی ایک شکل ہے جس طرح امریکی ڈالر، جاپانی ین، یا ہندوستانی روپیہ جیسی کرنسیوں کی طرح حقیقی، حالانکہ یہ ان سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اسے مکمل طور پر ڈیجیٹل طور پر خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے۔

 

کرپٹو کو اس کی تخلیق یا استعمال میں حکومت، بینک، یا دیگر ثالث کی پشت پناہی یا مداخلت نہیں ہے۔ اسے پیچیدہ، کرپٹوگرافک کمپیوٹر کوڈز کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے جو اسے "انکرپٹ” کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے ہیکنگ کو روکتے ہیں۔

کرپٹو کی قدر اس کی قدر کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور انٹرنیٹ کے ذریعے تبادلے کی ایک شکل کے طور پر اس کی قبولیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس نے کامیاب کرنسیوں کے چھ اہم اقدامات جو کہ کمی، تقسیم، افادیت، نقل و حمل، پائیداری، اور (اینٹی) جعل سازی ہیں، کو پورا کرنے کے ذریعے بار بار خود کو ایک حقیقی "نظامِ زر” کے طور پر ثابت کیا ہے۔

چونکہ کریپٹو ذاتی دولت اور اثاثوں کے زکوٰۃ کے زمرے میں آتا ہے جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے، اس لیے کریپٹو پر زکوٰۃ کا حساب ان مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے جو اسے رکھتے ہیں۔

کرپٹو پر زکوٰۃ کا حساب کیسے لگائیں؟

جب کرپٹو پر زکوٰۃ کا حساب لگانے کی بات آتی ہے، تو سب سے پہلے یہ تعین کرنا چاہیے کہ آیا کوئی نصاب پر پورا اترتا ہے یا کم سے کم دولت، جو کرپٹو پر زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

کرپٹو پر نصاب کا حساب لگانے کے دو سب سے عام طریقے سونے کی فی گرام یا اونس قیمت کی بنیاد پر قیمت کا تعین کرنا ہیں، جیسا کہ درج ذیل دو فارمولوں کے ذریعے کسی کی کرپٹو ہولڈنگز کی ڈالر کی قیمت سے متعلق ہے:

سونے کی موجودہ قیمت فی گرام US$ x 85 گرام = نصاب (انتہائی درست)
سونے کی موجودہ قیمت فی ٹرائے اونس US$ x 2.73295 t oz = نصاب

حسابات درج ذیل مثالوں سے مشابہ ہوں گے:

$50.00 (سونے کی قیمت فی گرام) x 85 گرام = $4,250.00
$1,500.00 (سونے کی قیمت فی ٹی اوز) x 2.50 t اوز = $3,750.00

اگر آپ کی کرپٹو ہولڈنگز موجودہ اسلامی یا ہجری سال کے نصاب کی حد کے برابر یا اس سے زیادہ ہیں، تو آپ کی کل ہولڈنگز زکوٰۃ کی شرح 2.5، یا 0.025، اور آپ کے ہولڈنگز کی قیمت کو ضرب دینے کا نتیجہ ہے۔ اس شرح سے آپ کے کرپٹو پر آپ کی زکوٰۃ ہوگی۔

یہ حتمی حساب اس طرح نظر آئے گا اگر آپ لکھتے وقت 1 بٹ کوائن کے مالک تھے:

$39,124.71 (Bitcoin ویلیو فی 1) x 0.025 gm (سونے کی قیمت فی گرام) = $978.12 (زکوۃ کی ادائیگی)”

کرپٹو پر زکوٰۃ کا حساب لگانا اس سال اور اس کے بعد کے لیے زکوٰۃ کی مکمل ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے ایک اہم جز ہے۔

اپنی زکوٰۃ کو کریپٹو کرنسی کے ساتھ ادا کرنے کے لیے ہماری خدمات استعمال کریں۔

کرپٹو کرنسیمذہب

ہماری سمجھ کے مطابق، بٹ کوائنز قابل زکوٰۃ ہیں۔ کوئی شخص اپنی بٹ کوائن ہولڈنگز کا 2.5% بطور زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے یا متبادل طور پر، کسی کی گھریلو کرنسی میں 2.5% زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے جو کسی کے بٹ کوائن ہولڈنگز کے 2.5% کی قیمت کے برابر ہے۔

فقہ (جواب کی فقہ):

بٹ کوائنز قابل زکوٰۃ ہیں کیونکہ یہ مال (ہستی) ہیں، تقویم (اسلامی قانونی قدر) رکھتے ہیں اور کرنسی (ثمانیہ) کے حکم میں ہیں۔

کیا کسی کرنسی کو زر مبادلہ کے ذریعہ کے علاوہ متبادل افادیت کا ہونا ضروری ہے؟ مفتی تقی عثمانی واضح طور پر کہتے ہیں کہ "پیسے کی کوئی اندرونی افادیت نہیں ہے، یہ صرف زر مبادلہ کا ایک ذریعہ ہے” (اسلامی مالیات کا تعارف)۔ اگر کسی چیز کو کرنسی کے طور پر اپنایا جائے جس میں دیگر افادیتیں ہوں تو اس کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے دیتے وقت دیگر افادیت پر غور نہیں کیا جاتا ہے – دوسری افادیت کو مدم (غیر موجود) سمجھا جاتا ہے۔

کسی بھی چیز کو مال کے طور پر تصور کرنے کے لیے، اس میں مطلوبہ اور ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ بٹ کوائن میں ایسی خصوصیات ہیں جو اسے مطلوبہ بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، Bitcoin کے پیچھے موجود بلاک چین ٹیکنالوجی، قابل اعتماد پارٹی انٹرمیڈی ایشنز کو پروف آف ورک پروٹوکول کے ساتھ تبدیل کرنا، وکندریقرت، محدود سپلائی اور کم ٹرانزیکشن فیس کے ساتھ بارڈر لیس ادائیگیاں بٹ کوائن کو مطلوبہ بناتی ہیں (ان میں سے کچھ خصوصیات کم ہو رہی ہیں)۔ اس کے نتیجے میں بٹ کوائن کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے سلسلے میں، Bitcoins کو بلاک چین کے اندر انکوڈ کیا جاتا ہے اور یہ عوامی لیجر پر اندراجات ہیں۔ آپ کی ملکیت آپ کے بٹ کوائن ایڈریس کو بیلنس کے ساتھ کریڈٹ کیے جانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ Bitcoins عوامی لیجر پر محض ہندسے اور اندراجات ہیں، ان کے غیر قانونی ہونے کا کوئی ثبوت یا بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے Bitcoins میں تقویم ہے۔ تھمانیہ کے لحاظ سے، بٹ کوائن کو پیئر ٹو پیئر پیمنٹ سسٹم کے طور پر بنایا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، وہ کرنسیوں کے طور پر قائم ہیں

یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بٹ کوائن کو تبادلے کے ذرائع ابلاغ اور کرنسیوں کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ وہ کرنسیوں کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں اور کرنسیوں کے طور پر قابل استعمال ہیں۔ بلاکچین اس کرنسی کے لیے ایک نظام فراہم کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ انہیں سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ان کی کرنسی کی خصوصیت کی نفی نہیں کرتی ہے۔ یہ انہیں صرف غیر ملکی کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنے سے مماثلت دیتا ہے۔ درحقیقت، بٹ کوائن میں ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں منفرد بناتی ہیں۔ اگر مستقبل میں وہ زر مبادلہ کے ذریعہ استعمال ہونا بند کر دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی قیمت میں کوئی قیاس آرائی پر اضافہ ہوتا ہے، تو کیا Bitcoin لوگوں میں کوئی قدر رکھے گا؟ کیا لوگوں کے پاس بٹ کوائن کا تماول ہوگا اور ان کا استعمال ہوگا؟ بٹ کوائن بے معنی ہندسے ہوں گے۔ لہذا، فی الحال، ان کا کچھ مالیاتی استعمال ہے اور لوگوں نے ان Bitcoins کو ‘ایک قدر’ تفویض کی ہے۔ لوگوں کی طرف سے ایک ‘قدر’ کا تصور کیا جاتا ہے جب وہ بنیادی تصوراتی قدر کے لیے بٹ کوائنز کی خرید، فروخت، قبول اور تبادلہ کرتے ہیں۔ چیزوں کی قدر میں ہیرا پھیری، استحصال اور قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیرونی مسائل ہیں جن کے لیے ضابطے اور کنٹرول کی ضرورت ہے۔

قدر کے فلسفے پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی۔ پچھلی صدی میں تکنیکی ترقی نے ہمارے طرز زندگی کو نئی شکل دی ہے اور اس کی نئی تعریف کی ہے۔ مثال کے طور پر، آج قدر کی نمائندگی بینک ایپ پر محض ہندسوں سے کی جاتی ہے جسے حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ معاشرہ اپنے بینک بیلنس میں دکھائے جانے والے ہندسوں کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ لوگوں میں ان ہندسوں کے نظام اور قبولیت کی وجہ سے۔ اگر ایک متبادل نظام بنایا گیا جس نے ایک خاص حد تک اعتماد، تحفظ، استعمال میں آسانی اور اسی طرح کی خصوصیات فراہم کیں، تو اس نظام کے ہندسے کو قدر کی نمائندگی کرنے والے ہندسے کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟ شریعت میں کرنسی قائم کرنے کے لیے ایک ایسا نظام کافی ہے جو لوگوں میں قابل قبول ہو۔

کرپٹو زکوٰۃ کا حساب لگانے کے لیے اس لنک کا استعمال کریں۔

آپ اسے بٹ کوائن یا دیگر کریپٹو کرنسیوں سے اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

قدر ایک تصور ہے؛ ایک ایسی چیز جس پر لوگوں کا سماجی اتفاق ہوتا ہے۔ قدر وہ چیز ہے جو مائل (جھکاؤ) کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ قدر ایک معنی ہے، ایک تصور جو کہ کرپٹو کرنسی ہندسوں کو زیر کرتا ہے۔ بٹ کوائن میں قدر لوگوں کے طریقوں اور رجحانات کی وجہ سے ہے۔ ڈیجیٹل بٹوے اور پبلک لیجرز میں توازن کے طور پر دکھائے گئے ہندسے لوگوں کے ذہنوں میں ایک قدر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لوگ اس کی طرف معاشی جھکاؤ رکھتے ہیں اور ان Bitcoin سے معاشی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ Bitcoin سے کوئی دوسرا ٹھوس فائدہ نہیں ہے۔ اس طرح، سب سے زیادہ قابل فہم تشریح (تکیف) یہ معلوم ہوتی ہے کہ بٹ کوائن ایک کرنسی ہے۔ اتار چڑھاؤ، لانڈرنگ، بلیک مارکیٹ وغیرہ کے حوالے سے دیگر تمام مسائل بیرونی معاملات ہیں جن کو حل کرنے کے لیے کنٹرول اور ضابطے کی ضرورت ہے۔

اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مفتی فراز آدم

Source

کرپٹو کرنسیمذہب