مذہب

خمسی سال، خمس حساب کرنے کے لیے معین کیا ہوا سال ہے کہ جس کا آغاز پہلی آمدنی ملتے ہی شروع ہوتا ہے۔

نامگذاری

شیعہ فقہ کے مطابق پہلی آمدنی کے ملنے کے ایک سال بعد اس آمدنی سے بچت سے پانچواں حصہ کو خمس کے طور پر دینا واجب ہے۔اس ایک سال کی مدت کو خمسی سال کہا جاتا ہے۔ خمسی سال یا السنۃ الخمسیۃ، قدیمی فقہی منابع اور اسی طرح جواہر الکلام، عروۃ الوثقی اور تحریر الوسیلہ جیسی کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ اور یہ اصطلاح چودھویں صدی شمسی کے دوسرے حصے میں شیعہ فقہی کتابیں خاص کر توضیح المسائل اور استفتائات میں آئی ہے۔

بعض اہم احکام

خمسی سال کا آغاز

شیعہ فقہا کی نظر میں خمسی سال کا آغاز مکلفین کی نسبت اور ان کی درآمد کے تحت مختلف ہے۔ جن لوگوں کی روزانہ آمدنی ہوتی ہے جیسے دکاندار اور تاجر، تو ان کا خمسی سال کا آغاز کام شروع کرنے کے دن سے ہوتا ہے۔ اور جن کی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے تو پہلی تنخواہ لینا ہی خمسی سال کا آغاز شمار ہوتا ہے اور کسانوں کا خمسی سال پیداوار کو پہلی بار حاصل کرنے سے آغاز ہوتا ہے۔ اور بعد کے سالوں میں وہی دن خمس حساب کرنے کے لیے معین ہوتا ہے۔

قمری یا عیسوی سال

  • اکثر شیعہ فقہا خمس حساب کرنے کے لئے قمری یا عیسوی سال میں فرق کے قائل نہیں ہیں۔ اور دونوں میں سے جس کے تحت بھی خمس دیں جائز سمجھتے ہیں؛البتہ بعض نے احتیاط واجب کی بنا پر قمری سال کو مبنا قرار دیا ہے۔

دیگر احکام

  • خمسی سال، خمس واجب ہونے کے موارد میں سے سال کی آمدنی سے جو بچ جاتا ہے اس سے مربوط ہے۔ لیکن دوسرے موارد جیسے مال غنیمت اور معدن وغیرہ میں لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔
  • خمسی سال کی انتہا پر مکلف کو چاہیے کہ اپنی بچث ( نقد ہو یا غیر نقد و خوراکی چیزیں) کا پانچواں حصہ ادا کرے۔
  • اکثر شیعہ فقہا نے خمسی سال تبدیل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔البتہ بعض نے سال کو آگے پیچھے کرنے کو حاکم شرعی کی اجازت پر موقوف ہے۔اور بعض نے جس پر خمس واجب ہوا ہے اس کے متضرر نہ ہونے پر مشروط کیا ہے۔
مذہب

خُمس اَرباح مَکاسب سے مراد کاروبار اور دیگر طریقوں سے حاصل ہونے والے منافع اور آمدنی کا خمس ہے۔ شیعہ فقہا کے نزدیک سالانہ آمدنی اور منافع پر خمس ہے لیکن اہل سنت معتقد ہیں کہ ارباح مکاسب پر خمس نہیں ہے۔

معنا

ارباح مَکاسب سے مراد کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ شیعہ فقہ کے مطابق سالانہ آمدنی سے سال کے اخراجات کم کرنے کے بعد اس کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر دینا واجب ہے۔

شیعہ فقہا، «ارباح مکاسب» میں، تجارت، زراعت، صنعت، تصنیف و تالیف، ٹیلری، مال کو کرائے پر دینے یا دوسرے کسی بھی کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی اور منافع کو شامل کرتے ہیں۔ لیکن کیا حق مہر، انعام، ہدیہ اور ارث بھی ارباح مکاسب میں سے ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف نظر ہے۔

نظریات

اہل سنت فقہا کے نزدیک ارباح مکاسب پر خمس نہیں ہے۔لیکن شیعہ خمس کے قائل ہیں۔ شیعہ فقہا اہل بیتؑ کی روایات اور اسی طرح آیہ خمس سے استناد کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ اس آیت میں غنیمت ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے جو ہر قسم کے منافع اور آمدنی کو شامل ہے۔ تاریخی مصادر میں پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کے دور میں سالانہ آمدنی پر خمس دینے کی کوئی گزارش موجود نہیں ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ارباح مکاسب پر شروع ہی سے خمس واجب تھا لیکن مسلمان فقیر ہونے کی وجہ سے عملی طور پر خمس دینے کو تاخیر کردیا ہے۔اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ اگر بنی ہاشم کے فقیر ارباح مکاسب کے خمس سے محروم رہیں تو چونکہ زکات غیر بنی ہاشم کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے ان کی زندگی کی مشکلات حل کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں رہے گا۔

خمس دینے کا وقت

فقہا کے نزدیک خمسی سال کے آغاز سے ایک سال گزر جائے تو ارباح مکاسب کا خمس دینا ہوگا۔ خمسی سال کا آغاز ہر شخص کی پہلی آمدنی، پہلے مال کے ملنے یا کام کے آغاز کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ سالانہ منافع کا خمس حساب کرنے کا طریقہ توضیح المسائل میں ذکر ہوا ہے۔

مذہب

فِطرہ یا فطرانہ جسے زکات فطرہ بھی کہا جاتا ہے، اسلام کے واجب احکام میں سے ایک ہے جس کے معنی عید فطر کے دن مخصوص مقدار اور کیفیت میں مال ادا کرنے کے ہیں۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے سال کے غالب خوراک میں سے ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) گندم، جو، کھجور یا کشمش یا ان کی قیمت ہے۔

ہر بالغ اور عاقل شخص جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ رکھتا ہو، پر اپنے اور اپنے اہل عیال کا فطرہ ادا کرنا واجب ہے۔ فطرہ کی ادائیگی کا وقت نماز عید فطر یا اسی دن ظہر کی نماز سے پہلے تک ہے۔ فطرہ کا مصرف اکثر فقہاء کے نزدیک زکات کے مصرف کی طرح ہے۔ احادیث کے مطابق فطرہ روزے کی تکمیل اور قبولیت نیز اسی سال انسان کی موت سے نجات اور زکات مال کی تکمیل کا باعث ہے۔

لغوی معنی

فطرہ کے کئی معنی ہیں:

  • خلقت کے معنی میں: یعنی کسی مخلوق کی شکل و صورت جسے خدا نے اسے دی ہو، اس معنی کے اعتبار سے زکات فطرہ سے مراد خلقت کی زکات ہوگی اسی وجہ سے زکات فطرہ کو زکات بدن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زکات فطرہ انسان کے جسم کا مختلف آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کا سبب ہوتا ہے۔
  • اسلام کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد زکات اسلام ہوگی۔ یہاں اسلام اور زکات فطرہ کے درمیان جو نسبت ہے وہ یہ ہے کہ زکات فطرہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔
  • روزہ کے مقابلے میں افطار کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد روزہ کھولنے کی زکات ہوگی۔

احادیث کی روشنی میں

  • امام صادقؑ سے اس آیت قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ(ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔) کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے فطرہ ادا کی ہو”۔ کہا گیا: پھر وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ(ترجمہ: اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔) سے کیا مراد ہے تو فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے صحرا میں جا کر نماز عید ادا کی۔”
  • امام صادقؑ فرماتے ہیں: روزے کا کمال زکات فطرہ کی ادائیگی میں ہے۔ جس طرح نماز کا کمال پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے میں ہے۔ کیونکہ جس نے روزہ رکھا لیکن عمدا فطرہ ادا نہ کیا تو گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اسی طرح جس نے نماز ادا کی لیکن پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے کو ترک کیا تو گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ خداوند متعال نماز سے پہلے زکات ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ(ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔ (14) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔)
  • امام علیؑ فرماتے ہیں: "جو بھی فطرہ ادا کرتا ہے خداوند عالم اس کے ذریعے اس کے مال میں سے زکات کی کمی رہ گئی ہے اسے پورا کرتا ہے۔
  • امام صادقؑ نے فرمایا: جس نے بھی اپنا روزہ کسی اچھی بات یا اچھے کام سے اختتام کو پہنچایا، خدا اس کا روزہ قبول کرتا ہے۔ لوگوں نے سوال کیا فرزند رسولؐ، اچھی بات سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اور اچھے کام سے مراد فطرہ کی ادائیگی ہے۔”
  • امام صادقؑ نے اپنے وکیل متعب سے فرمایا: "جاؤ جن جن کے اخراجات ہمارے ذمہ ہے ان سب کا فطرہ ادا کرو اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑو۔ کیونکہ اگر کسی کو چھوڑا یا فراموش کیا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ فوت ہو جائے” معتب نے سوال کیا: فوت سے کیا مراد ہے؟ (عربی میں فوت کا ایک معنی مفقود ہونا بھی ہے شاید راوی نے اس لئے یہ سوال کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ فوت سے مراد کیا ہے) تو امام نے فرمایا: "موت”۔

حکم

زکات فطرہ ایک واجب عبادت ہے اس لئے اس کی ادائیگی میں قصد قربت شرط ہے۔

واجب ہونے کی شرائط

  1. بلوغ اور عقل: پس زکات فطرہ (نابالغ اور دیوانہ) سے ساقط ہے۔
  2. ہوش میں ہو: جو شخص ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو بے ہوشی کی حالت میں ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
  3. بی‌نیازی: فقیر پر زکات فطرہ واجب ہے۔ مشہور قول کی بنا پر فقیر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ابھی یا مستقبل میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ نہ ہو۔ یعنی ابھی کو مال موجود بھی نہیں ہے یا کوئی ایسا شغل بھی نہیں ہے جس سے وہ اپنا خرچہ پورا کر سکے۔ گذشتہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ: فقیر وہ شخص ہے جو زکات کے کسی ایک نصاب یا اس کی قیمت کا مالک نہ ہو۔ بعض فقہاء سے منقول ہے کہ جس شخص کے پاس فقط ایک دن اور رات کا خرچہ ہو تو اس پر بھی زکات واجب ہے۔ البتہ فقیر پر بھی فطرہ کے مستحب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور کم از کم یہ کہ ایک صاع(تقریبا تین کلو گرام) گندم یا دوسری اشیاء جو وہ فطرہ کے طور پر دینا چاہتا ہے، کو اپنے اہل خانہ کے ایک فرد کے ہاتھ میں دے اور وہ دوسرے کو اسی طرح پورا اہل خانہ آخر میں اسے فطرہ کے عنوان سے اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور فقیر کو دے دے۔
  • اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ زکات فطرہ واجب ہونے کیلئے علاوہ بر مخارج سال خود فطرہ کا بھی مالک ہونا شرط ہے یا نہیں؟۔ اس صورت میں اگر اسے بھی شرط قرار دے تو جس کے پاس پورے ایک سال کے خرچے کی علاوہ فطرہ کی مقدار کا بھی مالک نہ ہو تو یعنی سال کے اخراجات کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
  • تعض فقہاء غنی بالفعل اور غنی بالقوھ یعنی ابھی اخراجات اس کے پاس ہونے اور کسی شغل کے ذریعے رفتہ رفتہ اخراجات کے حاصل ہونے میں فرق کے قائل ہوئے ہیں اس وقت دوسری صورت میں یہ شرط رکھی ہے کہ سال کے اخراجات سے ہٹ کر زکات فطرہ کا بھی مالک ہو۔
  • فطرہ واجب ہونے کے لئے عید کی رات مغرب تک شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بنابراین اگر کوئی عید کی رات مغرب سے پہلے تک تو شرائط رکھتا ہو لیکن مغرب کے دوران اس میں شرائط مفقود ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر عید کی رات مغرب سے عید کی صبح نماز عید تک شرائط محقق ہو جائے مثلا اس دوران کوئی نابالغ، بالغ ہو جائے تو اس پر فطرہ ادا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
  • بعض معاصرین کہتے ہیں: اگر عید کی رات مغرب سے عید کے صبح نماز عید تک شرائط متحقق ہو جائے تو فطرہ بنابر احتیاط واجب ہے۔ بعض دیگر کہتے ہیں: عید کی رات مغرب کے وقت شرائط کا موجود ہونا کافی ہے اس سے پہلے شرائط کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے.

وہ افراد جن پر فطرہ واجب ہے

جو بھی عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی شخص کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ وہ شخص ان کا فطرہ دے، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے مسلمان ہوں یا کافر اگر اس شخص میں فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط ہوں میں اس پر ان سب کا فطرہ واجب ہے۔

آیا بیوی کا فطرہ اس کے شوہر پر اسی طرح غلام کا فطرہ اس کے آقا پر ہر صورت میں واجب ہے اگرچہ یہ اس کے عیال میں شامل نہ ہوتے ہوں؟ یا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ یہ ان کے عیال میں شامل ہوتا ہو؟ یا ان کا نفقہ ان پر واجب ہونے کی صورت میں واجب ہے؟ فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ البتہ اختلاف صرف اس صورت میں ہے کہ زوجہ اور غلام کسی اور کا عیال شمار نہ ہوتے ہوں ورنہ اگر یہ دونوں کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہوں تو شوہر اور مالک سے ان کا فطرہ ساقط ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

جس شخص کا فطرہ کسی اور پر واجب ہے خود اس کے اوپر اس کا فطرہ واجب نہیں اگرچہ وہ اسکا فطرہ ادا نہ بھی کرے . لیکن اس صورت میں کہ معیل(وہ شخص جو گھر کا ذمہ دارہے) فقیر ہو جبکہ عیال غنی ہو تو اس صورت میں عیال کے اوپر اپنی طرف سے اپنا فطرہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

مہمان کا فطرہ

مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے۔ اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے کہ آیا عید کی رات ایک دفعہ افطاری کھانے سے مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہونے کیلئے مہمان کا عنوان صدق آنا کافی ہے اگرچہ افطار سے ایک لمحہ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن بقیہ حضرات معتقد ہیں کہ صرف اس مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے جسے عرف میں میزبان کا عیال اور کھانے والا شمار کیا جاتا ہو۔ اس مسئلے میں دیگر اقوال بھی ہیں منجملہ: پورے ماہ رمضان میں مہمان رہنے کی شرط؛دوسرے نصف میں مہمان رہنا؛ آخری عشرے میں مہمان رہنا یا آخری دو راتوں میں مہمان رہنا وغیرہ۔

جنس اور مقدار

زکات فطرہ کے جنس کے بارے میں فقہاء کے کلمات مختلف ہیں۔ بعض فقط گندم، جو، خرما اور کشمش کو ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات مذکورہ اشیاء کے علاوہ مکئی اور خشک دھی کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تیسرا گروہ مذکورہ اشیاء پر دودھ کو جبکہ چوتھا گروہ چاول کو بھی اضافہ کرتے ہیں۔

متاخرین میں سے مشہور علماء زکات فطرہ کی جنس کو عرف عام میں غالبا اور اکثرا استعمال ہونے والی چیز کو قرار دیتے ہیں۔

زکات فطره میں مذکورہ اشیاء کی قیمت کی ادائیگی بھی کافی ہے۔

زکات فطرہ کی مقدار ہر شخص کے مقابلے میں دودھ کے علاوہ باقی اشیاء میں ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) ہے۔ جبکہ دودھ میں اس کی مقدار کو بعض نے چار رطل ذکر کیا ہے اگرچہ مشہور دودھ میں بھی باقی اشیاء کی طرح ایک صاع ذکر کرتے ہیں۔ قول اول کی بنا پر رطل سے مراد "رطل عراقی” ہے یا "رطل مدنی” علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ زکوۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے کلک کریں۔

زمان وجوب

  • متأخرین میں سے مشہور کا قول ہے کہ زکات فطرہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو مغرب کے وقت واجب ہوتی ہے۔ بعض نے فطرہ کے وجوب کے وقت کو عید کے دن فجر تک ذکر کیا ہے۔ فطرہ کی ادائیگی کے آخری وقت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض اسے نماز عید کی ادائیگی کے وقت جبکہ بعض عید کے دن زوال اور بعض اسے اسی روز مغرب تک ذکر کرتے ہیں.
  • ماہ رمضان میں چاند رات سے پہلے فطرہ کی ادائیگی کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جائز ہونے کی صورت میں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی جائز ہو گی۔
  • اگر کوئی شخص مقرره مدت میں فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اگر قصد قربت کے ساتھ اپنے مال سے اسے الگ کر کے رکھا ہو تو اسی کو فطرہ کے طور پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اس نے الگ نہ کیا ہو تو آیا زکات اس کے گردن سے ساقط ہو گی یا نہیں اور اگر اس سے ساقط نہ ہونے کی صورت میں فطرہ کو ادا کی نیت سے ادا کرنا چاہئے یا قضا کی نیت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
  • اگر فطرہ کو اپنے مال سے الگ رکھا ہو اور ادائیگی کی امکان کے باوجود ادا نہ کی گئی ہو تو شخص اس کا ضامن ہے۔

مصرف

  • فقہاء کے درمیان مشہور قول کی بنا پر زکات فطرہ کا مصرف وہی زکات مال کا مصرف ہے۔
  • بعض قدماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات فطرہ فقط فقراء کے ساتھ مختص ہے۔ بعض معاصرین بھی زکات فطرہ کو فقط فقیروں کے ساتھ مختص ہونے کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔
  • فقہاء کے ایک گروہ کے مطابق مؤمن(شیعہ) فقیر نہ ہونے کی صورت میس فطرہ سنی مستحق کو دینا جائز ہے۔
  • مالک فطرہ کو براہ راست مستحق کو ادا کر سکتا ہے اگرچہ امام یا نائب امام کو دینا افضل ہے۔
  • قول مشہور کی بنا پر کسی پ فقیر کو ایک صاع سے کم مقدار میں زکات کے عنوان سے دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ فقراء بہت زیادہ ہوں اور سب کو ایک ایک صاع دینا ممکن نہ ہو اس صورت میں بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک صاع سے زیادہ دینا یہاں تک کہ اس کا فقر دور ہو جائے جائز ہے۔
  • مستحب ہے پہلے اپنے رشتہ دار فقراء کو فطرہ دی جائے پھر ہمسایوں میں سے جو فقیر ہوں انہیں دیا جائے اسی طرح اہل علم فقراء کو دوسروں پر ترجیح دینا بھی مستحب ہے۔
  • سید غیر سید سے زکات مال اور فطرہ نہیں لے سکتا لیکن خمس اور دوسری وجوہات اگر اس کی زندگی کے اخراجات پورا نہ کرسکے اور زکات لینے پر محبور ہو تو غیر سید کا فطرہ بھی لے سکتا ہے۔
مذہب

صدقہ، اس مال کو کہتے ہیں جو راہ خدا میں دیا جائے۔ دین اسلام میں جس طرح رزق و روزی حاصل کرنے کے لئے ہر طریقہ صحیح نہیں ہے اسی طرح سے اس مال کو ہر راہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلام میں مال استعمال کرنے کا ایک بہترین راستہ، خدا کی راہ میں صدقہ دینا ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، صدقہ واجب اور مستحب دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اسی طرح اس کے استعمال کے شرائط بھی بیان کئے گئے ہیں۔ روایات کے مطابق، صدقہ دینے سے نہ صرف یہ کہ انسان کے مال و اموال کم نہیں ہوتے، بلکہ یہ مال میں زیادتی اور برکت کا باعث بنتا ہے۔

صدقے کا معنی

صدقہ ایسی چیز ہے جسے انسان قربۃً الی اااللہ کی نیت سے (خداوند کے نزدیک ہونے کے لئے) اپنے مال سے نکالتا ہے، جیسے زکات، لیکن لفظ (صدقہ) کو مستحب صدقہ کے لئے اور (زکات) واجب صدقہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. خدا کی راہ میں مال دینے کو (تصدق) اور جو مال دیا گیا ہے اس کو (صدقہ) کہا جاتا ہے۔

صدقے کی اہمیت

سورہ توبہ کی آیت 104 میں یوں آیا ہے، خداوند خود صدقے کو لیتا ہے: أَلَمْ یعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِیمُ ﴿۱۰۴﴾ ترجمہ: کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور زکات و خیرات کو وصول کرتا ہے اور وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔(104) تفسیر نمونہ میں اس آیت کے ذیل کے اس طرح آیا ہے: یہ تعبیر، اس اسلامی حکم کی عظمت کو مجسم کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس الہی فریضہ میں رغبت دلانے کے علاوہ، یہ بھی سکھا رہی ہے کہ زکات اور صدقات کو نہایت ادب واحترام سے خرچ کریں، کیونکہ اس کا لینے والا خود خداوند ہے. اسی طرح ایک روایت میں امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: إنَّ الصَّدَقَة لاتَقَع فی یدِ العَبدِ حتّی تَقَعُ فی یدِ الرَّب ترجمہ: صدقہ بندے کے ہاتھ میں قرار نہیں دیا جاتا مگر یہ کہ اس سے پہلے یہ خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے۔

صدقہ کی اقسام

صدقات کی دو اقسام ہیں:

  • واجب: صدقے کی اس قسم میں، انسان اپنے اموال کے کچھ حصے کو خاص شرائط کے تحت خاص لوگوں میں تقسیم کرتا ہے. صدقہ واجب جیسے زکات، خمس اور فطرہ۔
  • مستحب: اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں انسان جس مقدار میں چاہے اپنے مال کو خدا کی راہ میں فقیروں اور نیاز مندوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔

صدقہ کے شرائط

قرآن کی آیات اور آئمہ معصومین(ع) کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے صدقے کے درج ذیل شرائط ہیں:

  • ہر چیز سے پہلے صدقہ پاک اور حلال مال سے نکالنا چاہیے.
  • بہتر یہ ہے کہ صدقہ مخفی طور پر دیا جائے.
  • صدقہ آزار اور منت کے ساتھ نہ ہو.
  • صدقہ دیتے وقت نیت خالص ہونی چاہیے.
  • اپنے پسندیدہ اور اچھے مال سے صدقہ دینا چاہیے.
  • صدقہ دینے والا ہر گز خود کو اس مال کا حقیقی مالک نہ سمجھے بلکہ خود کو خدا اور اسکی خلق کے درمیان وسیلہ سمجھے.

صدقے کا استعمال

خداوند نے قرآن کی آیات میں صدقہ کے استعمال کے آٹھ مورد بیان کئے ہیں:

  • فقرا
  • مساکین
  • زکات جمع کرنے والے. درحقیقت جو ان کو دیا جاتا ہے وہ انکی اجرت کے طور پر ہوتا ہے.
  • مُؤلِفَة قلوبُهُ یعنی جو اسلام کی مدد کرنے کا انگیزہ نہیں رکھتے لیکن مالی لحاظ سے انکی تعریف کر کے انکی محبت کو جلب کیا جا سکتا ہے. غلام کو آزاد کرنا
  • ان کے قرض کو ادا کرنا جو بغیر جرم اور قصور کے مقروض ہوں اور قرضہ ادا کرنے سے عاجز ہوں.
  • خدا کی راہ میں استعمال کرنا. اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام وہ راہ جس سے دین الہی کی گسترش اور تقویت ہو.
  • جو اپنا راستہ بھول گئے (وابن سبیل)، یعنی وہ مسافر جو اپنے راہ سے بھٹک گئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ان کے پاس زاد راہ موجود نہ ہو.

صدقہ دینے کا طریقہ

  • قرآن کی نگاہ میں دو ناپسند طریقے:
  1. خداوند نے صدقہ دینے کے لئے دو طریقوں سے منع کیا ہے:
  2. صدقہ ریا اور دکھاوے کے لئے ہو۔ اس صورت میں صدقہ ابتداء سے ہی باطل ہے۔

ایسا صدقہ جس کو دینے کے بعد اذیت اور منت کے ذریعے اس کی اہمیت کو ختم کیا جائے۔ ان دو قسم کے صدقے کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رضای خدا کے لئے انجام نہیں دیئے گئے یا اگر بھی خدا کی رضا کے لئے انجام دیئے گئے تھے لیکن اس شخص نے منت لگا کر اور اذیت دے کر اپنی نیت کو ناخالص کر دیا جس کی وجہ سے یہ عمل باطل ہو گیا.

  • قرآن کی نگاہ میں اچھے کام:

خداوند نے قرآن میں دو قسم کے صدقے کو بیان کیا ہے اور ان دو قسموں کو درست قرار دیا ہے:

  1. چھپ کر صدقہ دیںا: اس طرح انسان ریا اور دکھاوے سے دور ہوتا ہے اور فقیر کی عزت بھی محفوظ رہتی ہے اور فقیر اپنی ذلت کا احساس نہیں کرتا۔ جہاں تک کہ دین کی بنیاد اخلاص پر ہے جتنا عمل خالص تر ہو گا، اتنی ہی اس کی فضیلت زیادہ ہو گی اسی لئے خداوند نے بغیر دکھاوے کے صدقہ دینے کو، دکھاوے کے صدقہ پر ترجیع دی ہے اور فرمایا ہے: اگر بغیر دکھاوے کے صدقہ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
  2. سب کو دکھا کر صدقہ دینا: کہ جو لوگوں کو اس نیک کام کے بجا لانے کی عملی دعوت ہے اور یہ فقرا اور مساکین کی دلگرمی کا باعث ہے کیونکہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انکے حال پر ترحم کرتے ہیں، اور اس کام سے ان کی یاس اور ناامیدی ختم ہوتی ہے۔

آپ یہاں سے اپنا صدقہ گمنامی میں ادا کر سکتے ہیں۔

صدقہ کے مصادیق

صدقہ حقیقی اور حقوقی افراد کی طرف سے تحفہ ہے جو محتاج افراد کو دیا جاتا ہے. صدقہ ممکن ہے نقد رقم، خدمات، استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ اشیاء، کپڑے، کھانے پینے کا سامان، کھلونے یا دوسری انسان دوستانہ مدد، اسی طرح دوسری جسمانی مدد جیسے خون یا بدن کے اعضاء ہدیہ دینا وغیرہ… رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہر اچھائی صدقہ ہے اور ہر وہ چیز جو مومن اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور بیوی کے لئے جمع کرتا ہے اور ہر وہ چیز جس سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے. اور یہ کہ کن چیزوں سے صدقہ دیا جائے، اس بارے میں قرآن کی آیات اور روایات میں یوں آیا ہے: طیبات سے صدقہ دیں، یعنی پاک اور حلال مال جسے انسان نے حلال طریقے سے حاصل کیا ہو، اور کوشش کرے کہ گھٹیا اور پست مال کو صدقے کے لئے استعمال نہ کرے، کیونکہ صدقہ دینے سے خدا کی رضایت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ایک طرف فقیروفقراء، اور دوسری طرف خدا ہے اور اگر مومنین ان نکات کی رعایت نہ کریں، تو ایک طرف خداوند کی توہین اور دوسری طرف فقیروفقراء کی توہین ہے.

صدقہ کی مقدار

صدقہ دیتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، یعنی نہ یہ کہ صدقہ دینے میں کنجوسی اختیار کرے اور نہ یہ کہ صدقہ دے کر اپنے لئے مشکل ایجاد کر لے. صدقہ کی مقدار خود اس شخص کے مطابق ہے، حتی بعض روایات میں ایک چلو پانی بھی صدقہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے.

صدقہ کے آثار و برکات

بہت سی روایات صدقہ کی فضیلت اور برکت کے لئے نقل ہوئی ہیں اور ان کے لئے بہت سے فائدے اور آثار بیان ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

مصیبت اور بری موت سے دوری صدقہ مصیبت اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں: صدقہ انسان سے ستر بلاؤں کو دور کرتا ہے اور نیز بری موت کو انسان سے دور کرتا ہے، کیونکہ صدقہ دینے والا ہرگز بری موت کے ذریعے دنیا سے نہیں جاتا۔

لمبی عمر

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: صدقہ اور صلہ رحم شہروں کو آباد اور عمروں کو زیادہ کرتا ہے۔

بیماروں کی شفا

صدقہ دینے کی ایک اور برکت بیماروں کی شفا ہے۔ معصومین (ع) کی حدیث میں بیان ہوا ہے: اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ مستحب ہے کہ مریض خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دے۔

فقر کو دور کرتا ہے

امام باقر (ع) فرماتے ہیں: نیکی اور صدقہ فقر کو دور کرتے ہیں۔

صدقہ کے معنوی اثرات

قرآن کریم کی نگاہ میں خدا کی راہ میں صدقہ دینا، ایک سودمند تجارت ہے جس کا انعام بہشت ہے اور جو انسان کو قیامت کی ھولناک سختیوں سے دور کرتا ہے اور دردناک عذاب الہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔

نحوست سے دوری

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: جب رات گزار کر صبح کرتے ہو، تو صدقہ دو تا کہ اس دن کی نحوست تم سے دور ہو جائیں اور جس وقت دن گزار کر رات کرتے ہو، صدقہ دو تا کہ رات کی نحوست تم سے دور ہو جائیں۔

پل صراط سے گزرنا

امام صادق (ع) فرماتے ہیں: صراط سے گزرنے کی تلاش تھی اس کو صدقہ میں پایا ہے۔

بہشت کی ضمانت

امام علی (ع) فرماتے ہیں: چھ گروہ کے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں۔ ایک وہ مرد جو کوئی چیز صدقہ دینے کے لئے الگ رکھتا ہے، لیکن مر جاتا ہے، وہ اہل بہشت ہے۔ دوسرے پانچ گروہ درج ذیل ہیں: بیمار کی عیادت کرنے والے، جہاد کرنے والے، حج گزار، نماز جمعہ اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلیں اور گھر واپس آنے سے پہلے فوت ہو جائیں۔

مذہب

رَدِّ مَظالِم انسان کے ذمے موجود دوسروں کے ناحق اموال کے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک رد مظالم ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق رد مظالم واجب ہے۔

رد مظالم میں مجہول‌ المالک اموال کو مرجع‌ تقلید کی اجازت سے محتاجوں اور فقیروں کو صدقہ دے سکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں خمس، امر بہ معروف، میّت کے احکام، وصیت اور غصب کے ابواب میں رد مظالم سے متعلق بحث کی گئی ہے۔

تعریف‌

ردّ مظالم سے مراد انسان کے ذمے موجود دوسروں کے اموال اور قرضوں کو ادا کرنا ہے؛ لیکن ان اموال کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:

اسداللہ شوشتری (تیرہویں صدی ہجری) لکھتے ہیں:‌ مَظالِم مَظلِمَہ کا جمع ہے جس سے مراد دوسروں کے وہ اموال اور حقوق ہیں جو انسان کے ذمے باقی ہیں؛ مثلا وہ اموال جو غصب یا چوری کے ذریعے انسان کے پاس موجود ہو۔ آیت اللہ مکارم شیرازی ان حرام اموال کو مظالم قرار دیتے ہیں جو انسان کے پاس موجود ہو لیکن ان کے مالک کو نہ پہنچانتے ہو۔

آقا محمد علی کرمانشاہی فرزند وحید بہبہانی کے مطابق مظالم ان اموال اور حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کے اموال سے مخلوط ہو گئے ہوں لیکن نہ ان کی مقدار معلوم ہو اور نہ ان کا مالک۔ آیت اللہ سیستانی مظالم ان اموال کو قرار دیتے ہیں جنہیں انسان نے ظلم کے ساتھ دوسروں سے لیا ہو یا ا­نہیں ضایح کیا ہو؛ چاہے ان کا مالک معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔

آیت اللہ صافی گلپایگانی مظالم کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ مظالم ان اموال کو کہا جاتا ہے جن کی مقدار تو معلوم ہے لیکن ان کا مالک مشخص نہ ہو۔

فقہ اور احادیث میں اس کی اہمیت

شیعہ احادیث میں ردّ مظالم کو توبہ کی قبولیت میں شرائط قرار دیتے ہوئے اسے ترک کرنے کو گناہان کبیرہ اور موجب نزول بلا جانا جاتا ہے۔ حدیثی منابع میں امر بہ معروف اور فقہی کتابوں میں احکام طہارت (احکام میت)، خمس، غصب، وصیت اور امر بہ معروف کے ابواب میں رد مظالم سے بحث کی گئی ہے۔

حکم شرعی

شیعہ فقہاء ردّ مظالم کو خمس اور زکات کی طرح واجب مانتے ہیں۔ بعض فقہاء مانند آیت اللہ فیاض اسے واجب فوری قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اس وقت اسے فورا ادا کرنا واجب ہے۔

طریقہ

مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر انسان کے ذمے دوسروں کا مال ہو چاہے وہ مجہول ‌المالک ہو یا ان کے مالک تک رسائل ممکن نہ ہو، انہیں یا ان کی قیمت (اس صورت میں کہ جب عین مال تلف ہوئی ہو) کو حاکم شرع یا مرجع تقلید کی احازت سے فقیروں کو صدقہ دے دیں۔ بعض فقہاء من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی رد مظالم کو صرف غیر سید کو دینا چاہئے۔

مذکورہ مال کو صدقہ دینے کے بعد اگر اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اس تک رسائل ممکن ہو جائے تو اس صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پابا جاتا ہے۔ امام خمینی کے فتوے کے مطابق احتیاط واجب کی بنا پر اس مال کے برابر اس کے مالک کو بھی دینا واجب ہے؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ آیت‌ اللہ خویی کے مطابق صدقہ دینے کے بعد دوبارہ اس کے مالک کو بھی دینا واجب نہیں ہے۔

مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق رد مظالم میں اگر مال کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مالک کے ساتھ صلح کرنا چاہئے؛ یعنی ایک دوسرے کو راضی کریں؛ لیکن اگر صاحب مال راضی نہ ہو جائے تو اس صورت میں صرف اس مقدار کو دینا کافی ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو۔ البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مقدار سے کچھ اضافہ بھی دے دیا جائے۔

مونوگرافی

آقا محمد علی کرمانشاہی نے "رد مظالم کے مصرف” کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب لکھی ہیں۔

مذہب