مذہب

وجوہات شرعی سے مراد، وہ مال یا رقوم ہیں کہ جو خمس، زکات، کفارات، رد مظالم، نذورات اور موقوفات کے عنوان سے، مکلف ادا کرتا ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ خمس اور زکوت، صرف حاکم شرع یا اس کے نمائندہ یا وکیل کو دی جانی چاہیے۔

معنی ومفہوم‌ کی وضاحت

وجوہات، وجوہ کی جمع ہے کہ جس کے معنی عربی لغت میں پیسے اور رقم کے ہیں۔[1] لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ سخن، جیسی لغت کی کتب میں آیا ہے کہ وجوہات کے عرفی اور رائج معانی میں سے ایک معنی، خمس اور زکات [2] نیز رد مظالم کی وہ رقوم ہیں جو مجتہدین کو دی جاتی ہیں۔[3] بعض فقہاء نے وجوہات کو وجوہات بریہ [4] (یعنی وہ رقوم کہ جو نیکی اور نیک اعمال کی خاطر دوسروں کو دی جائیں) کے نام سے جانا ہے۔[5]

فقہاء نے وجوہات شرعیہ کی اصطلاح کو علم فقہ کے مختلف عناوین کے ذیل میں استعمال کیا ہے۔[6] بعض فقہاء کا کہنا ہے چونکہ علم فقہ میں وجوہات شرعیہ کی تعریف نہیں کی گئی ہے اس لئے اس کی فقہی اصطلاحی تعریف نہیں ہو سکتی بلکہ عرفی اصطلاح (یعنی عوام کے درمیان رائج اصطلاحی معنی) مراد ہوں گے۔[7] اور اس کے عرفی (رائج) معنی میں وہ تمام رقوم شامل ہوں گی جو بالغ شخص، احکام شرعی کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔[8]

مصادیق

بعض علماء نے وجوہات شرعیہ کو صرف واجبات شرعیہ (خمس و زکات کی رقوم) کی حد تک جانا ہے[9] لیکن بعض دیگر علماء کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعیہ سے مراد وہ تمام دینی رقوم اور آمدنی [10] ہیں کہ جو مثلا: خمس، زکات، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب کے عنوان سے ادا کی جائیں۔[11] بعض علماء کا نظریہ ہے کہ اوقاف (شرعی وقف شدہ چیزوں کے منافع) اور قیمتی تحائف [12] وجوہ شرعیہ میں داخل ہیں اور نیز بعض علماء نے انفال کو وجوہات شرعیہ میں قرار دیا ہے۔[13] محمد حسین نائینی نے اپنے وکیل، جناب مہدی بہبہانی کو جو اجازہ وکالت دیا تھا اس میں حق امام، مجہول المالک (یعنی جس مال یا پیسے کا مالک معلوم نہ ہو)، زکات، نذر، اور ہر قسم کے صدقات، کفارے اور اسی طرح اجارہ کی عبادات کی رقوم کو وجوہات شرعیہ میں شمار کیا ہے۔[14]

بعض کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعی حسب ذیل چیزوں کو شامل ہوتی ہیں:[15]

  1. فدیہ: اس سے مراد وہ رقم اور مال ہے کہ جو بعض واجبات کے ترک کے سبب، بالغ شخص پر واجب ہے۔ مثلا: جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد، طعام یا اس کے برابر رقم فقیر کو دے۔
  2. کفارہ: اس کا موضوع، وہ جرمانہ ہے کہ جس کا ادا کرنا کسی حرام کام کو انجام دینے یا واجب کو ترک کرنے کے سبب بالغ شخص پر واجب ہوتا ہے۔ جیسے: واجب روزہ عمدا ترک کرنے کا کفارہ، قتل کا کفارہ، قسم توڑنے کا کفارہ، ظہار و ۔۔۔
  3. خراج: وہ مالی حق ہے کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے زمین کے خاص حصوں کے لئے قرار دیا جائے۔
  4. خمس: سال بھر کے اخراجات کے بعد جو باقی بچ جائے اس کا پانچواں حصہ، خمس کے طور پر نکالنا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر جیسے: کان (ہیرے، جواہرات اور سونا و چاندی اور قیمتی پتھر اور ۔۔۔ کی کانیں)، اور ملا ہوا خزانہ، ان شرائط کے ساتھ کہ جو فقہی کتب میں بیان ہوئے ہیں۔
  5. زکات: جب خاص مال اپنے معینہ نصاب تک پہنچ جائیں تواس میں سے خاص مقدار میں ادا کرنا۔
  6. زکات فطرہ: مال یا نقد پیسے کی صورت میں بالغ شخص پر شب عید فطر غروب کے وقت ہر سال واجب ہے۔
  7. جزیہ: مال یا پیسے (ٹیکس کے طور پر) کہ جو اسلامی حکومت بعض اہل ذمہ سے وصول کرتی ہے۔
  8. عُشر: یہ اس مال کو کہا جاتا ہے کہ جو غیر مسلم تاجروں سے اسلامی سرزمین پر تجارت کے لئے لیا جاتا ہے۔[16]

رقوم شرعی کسے دی جائیں؟

بعض علماء کا کہنا ہے کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہرشخص رقوم شرعی میں استعمال کا حق نہیں رکھتا ہے جبکہ اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں ہے۔[17] ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حاکم، چاہے جس اخلاقی اور علمی خصوصیت کا مالک ہو صرف اس بنا پر کہ وہ حاکم اسلامی ہے رقوم شرعی کو استعمال کا حق اور اختیار رکھتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ صرف، حاکم شرع اور اس کے نمائندے رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتے ہیں۔[18] امام معصوم کی موجودگی میں، صرف امام معصوم ہی رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتا ہے اور غیبت کے زمانے میں، عادل اور جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین کو ان رقوم کے استعمال کی اجازت ہے۔[19] آیت اللہ خامنہ ای کے فتوی کے مطابق، شرعی رقوم کا مسئلہ اگرچہ ولی امر مسلمین سے متعلق ہے، لیکن مراجع تقلید میں سے کسی بھی مرجع کے مقلدین، رقوم شرعی کے دونوں حصوں(سہم امام اور سہم سادات) کو ادا کرنے میں اپنے مرجع کے فتوی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے شرعی فریضہ سے سبکدوش ہو جائیں گے۔

مذہب

سَہم اِمام خمس کا ایک حصہ ہے جو خدا، پیامبر(ص) اور امام معصوم سے متعلق ہے۔[نوٹ 1]شیعہ فقہا آیت خمس[نوٹ 2]میں بیان ہونے والے خمس کے چھ مصارف میں سے خدا، پیامبر اور ذوی‌القربی کو امام کے متعلق سمجھتے ہیں۔[1] اور اسے سہم امام کے نام سے یاد کرتے ہیں۔سہم امام کو سہم خدا، سہم پیامبر اور سہم ذوی‌ القربی بھی کہا جاتا ہے۔[2]

غیبت امام کے زمانے میں شیعہ مراجع تقلید سہم امام دریافت کرتے ہیں اور اسے اسلام کی تقویت کیلئے خرچ کرتے ہیں۔ [3] بعض فقہا معتقد ہیں کہ زمانۂ غیبت میں سہم امام کو انہی موارد میں خرچ کرنا چاہئے جن کے بارے ميں مرجع تقلید کو گمان ہو یا جانتا ہو کہ اگر امام حاضر ہوتے تو انہی موارد میں خرچ کرتے؛ جیسے حوزه علمیہ، مساجد کی تعمیر، لائبریریوں اور مدارس کا قیام اور ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو برطرف کرنا۔[4] البتہ غیبت کے زمانے میں سہم امام کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیںّ؛ جيسے خمس کاوجوب ساقط ہونا، شیعوں کیلئے مباح ہونا، محتاج سید کو دینا، صدقہ دینا، دفن کرنا، يا الگ کر کے ظہور تک اس کی حفاظت کرنا وغیرہ. آیت الله مکارم ان اقوال کے نقل کے بعد کہتے ہیں کہ متاخرین اور معاصرین کے نزدیک قول مشہور یہ ہے کہ مرجع تقلید سہم امام کو ان امور میں خرچ کرے جس کے بارے میں امام کے راضى ہونے کا اسے گمان ہو۔

مذہب

سہم سادات خمس کا ایک حصہ ہے جو نسل بنی ہاشم کے ضرورت مند سادات کو دیا جاتا ہے۔

شیعہ فقہا آیت خمس سے استدلال کرتے ہوئے خمس کا ایک حصہ ضرورت مند سادات سے مخصوص سمجھتے ہیں۔ اس حصے کو سہم سادات کہتے ہیں۔[نوٹ 1]؛ اور جان لو کہ جو چیز بھی تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے، (اور رسول کے) قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ (یہ واجب ہے) [1] اس آیت میں يَتامىٰ، مساكين اور ابن السبيل سے مراد نسل بنی ہاشم کے ایتام، مساکین اور مسافر ہیں۔[2] صاحب جواہر کے مطابق مشہور شیعہ فقہا معتقد ہیں کہ سہم سادات صرف ان سادات سے تعلق رکھتا ہے جن کا نسب باپ کی طرف سے ہاشم بن عبد مناف تک پہنچتا ہو اور جن کی والدہ سیده ہو سہم سادات اس سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔[3]

سادات کو ان کا سہم دینے کے متعلق فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض قائل ہیں کہ سہم سادات بھی حاکم شرع یا مرجع کو دیا جائے یا اس کی اجازت سے ضرورتمند سادات تک پہنچایا جائے جبکہ بعض مراجع سہم سادات کی ادائیگی میں مرجع کی اجازت معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق سادات سہم سادات خود انہیں دے سکتے ہیں۔[4]

خمس میں سے ایک حصے کے سادات سے مخصوص ہونے کے فلسفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غیر سادات کی طرف سے سادات کو صدقہ دینے کی ممنوعیت کا جبران اس سہم سادات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مذہب

سَہمَیْن کا مطلب دو سہم ہیں جس سے مراد سہم امام اور سہم سادات ہے۔[1] لغت میں سہم کے معنی حصّہ[2] کے ہوتے ہیں۔

فقہائے شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ایک سہم امام اور دوسرا سہم سادات۔[3]

  • سہم امام، مجتہد جامع الشرائط کو یا اس کی اجازت سے سید فقیر یا سید یتیم اور وہ سید جو ابن سبیل (سفر میں ضرورتمند ہو اور وطن واپس پلٹنے کا خرچ نہ رکھتا ہو) ہو اسے دیا جاتا ہے۔
  • سہم امام، غیبت امام کے زمانہ میں مجتہد جامع الشرائط کو دیا جاتا ہے یا جہاں اس نے خرچ کرنے کی اجازت دی ہو وہاں مصرف کیا جاتا ہے۔[4]

فقہائے شیعہ مثلا شیخ طوسی نے اپنی کتاب المبسوط،[5] شہید اول نے لمعہ دمشقیہ[6] اور شہید ثانی نے شرح لمعہ[7] میں خمس کو آیہ خمس کی بنا پر چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اسی کو شیعوں کا مشہور قول جانا ہے؛[8] البتہ یہ چھ حصے دو حصوں کی طرف پلٹتے ہیں جن میں سے تین حصۃ یعنی سہم خدا، رسول اور ذی القربی، امام کے لئے ہے اور تین حصہ یعنی سہم یتیم، فقیر اور ابن سبیل پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک والوں یعنی سادات کے لئے ہوتا ہے جسے سہم سادات کہتے ہیں۔[9]

خمس کی دو تقسیم روایات سے اخذ کی گئی ہے۔[10] امام موسی کاظمؑ نے خمس کے سلسلہ میں ایک روایت میں توضیح فرماتے ہوئے ایک سہم کو حاکم (امام) کے لئے اور دوسرے سہم کو یتیم، فقیر اور ابن سبیل جو پیغمبر اکرمؐ سے نزدیک ہیں، کے لئے قرار دیا۔

مذہب

زکات دین اسلام کے عملی احکام میں سے ایک ہے جسکا تعلق مال سے ہے۔ اس حکم کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے اموال میں سے 9 چیزوں کا ایک معین حصہ غریبوں کی مدد اور دوسرے فلاحی کاموں میں جنہیں شریعت نے مشخص کی ہے، صرف کرے۔ وہ 9 چیزیں جن پر زکات واجب ہے ان میں نقدین (سونا اور چاندی)، انعام ثلاثہ ( گائے، بھیڑ اور اونٹ) اور غلات اربعہ (گیہوں، جو، کشمش اور کھجور) شامل ہیں۔ ان چیزوں میں سے ہر ایک میں زکات کی مقدار اور شرایط متفاوت ہے جسے فقہ میں مشخص کیا گیا ہے۔

زکات کا شمار فروع دین کے اہم ارکان میں سے ہوتا ہے جس پر دین اسلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور نماز اور جہاد کے ساتھ اس کا بھی ذکر ملتا ہے یہاں تک کہ اسے دین کے پانچ ستونوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ تقریبا 59 آیات اور 2000 احادیث زکات کے بارے موجود ہیں اور قرآن کریم میں اکثر موقعوں پر لفظ صدقہ کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فقہ میں بھی زکات کو واجب صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

زکات دو طرح کی ہے: بدن کی زکات جسے زکات فطرہ کہا جاتا ہے جسے عید فطر کے موقع پر ادا کرنا واجب ہے۔ مال کی زکات جو درج بالا 9 چیزوں پر اپنے مخصوص شرایط کے ساتھ واجب ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

زکات لغوی اعتبار سے "ز ک و” کے مادے سے نشو و نما اور زیادہ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔[1] خلیل بن احمد زکات کے لغوی معنی کے بارے میں کہتے ہیں: زکات مال سے مراد اسے پاک کرنا ہے۔ اور "زکا الزرع یزکو زکاء” سے مراد کھیتی باڑی کا نشو و نما ہے۔[2] راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ زکات اصل میں اس نشو و نما کو کہتے ہیں جو خدا کی جانب سے ہو۔[3] اور علامہ طباطبایی زکات کے لغوی معنی کو تطہیر سے تعبیر کرتے ہیں۔[4]

دین اسلام میں بعض مخصوص شرایط کے ساتھ 9چیزوں کے معین اور مشخص حصے کو وجوب کی نیت سے ادا کرنے کو زکات کہتے ہیں۔ اس حکم کو زکات اس وجہ کہا جاتا ہے کہ خداوند عالم اس مال میں برکت عطا کرتا ہے یا یہ کہ زکات دینے کی وجہ سے انسان کا نفس گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ [5]

زکات ایک عمومی مفہوم بھی رکھتی ہے جس سے مراد وہ تمام واجب یا مستحب مالی امداد ہے جو انسان دوسروں کی مدد کیلئے انجام دیتا ہے۔

چوں کہ قرآن میں زکات کو صدقہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اسلئے واجب زکات کو مستحب زکات سے جدا کرنے کیلئے اسےصدقہ واجب کہا جاتا ہے ۔

قرآن اور احادیث کی روشنی میں

زکات اسلام کے اہم ترین اقتصادی احکام میں سے ہے۔ یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ تقریبا 59 مرتبہ قرآن کی 56 آیتوں میں ذکر ہوا ہے جن میں سے 27 مرتبہ نماز کے ساتھ ساتھ آیا ہے: وَالَّذِينَ ہمْ لِلزَّكَاة فَاعِلُونَ [6]الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاہمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاة وَآتَوُا الزَّكَاة…[7] …وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاة ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاة وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّـہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيہمْ أَجْرًا عَظِيمًا [8] رِجَالٌ لَّا تُلْہيہمْ تِجَارَة وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـہ وَإِقَامِ الصَّلَاة وَإِيتَاءِ الزَّكَاة ۙ…[9]

وسایل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں ۱۹۸۰ احادیث زکات کے بارے میں موجود ہیں جو اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ احادیث میں زکات کے بعض آثار کا تذکرہ آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • انسانی روح کی تطہیر اور تزکیہ کا سبب بنتی ہے [10]
  • اسلام کے پانج ستون میں سے ایک ہے[11]
  • خداوندعالم کے غضب کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے [12]
  • نماز قبول ہونے کی شرط ہے [13]
  • زکات کی ادائیگی خدا کا انسان کے ساتھ دوستی کی علامت ہے۔ [14]
  • خدا کے نزدیک محبوبیت کا سبب ہے [15]
  • سخت‌ترین واجب ہے [16]
  • سماج اور معاشرے کی سعادت کا سبب بنتی ہے[17]
  • مال و دولت کی حفاظت کا ضامن ہے[18]
  • گناہوں کی بخشش کا سبب بنتی ہے[19]
  • رزق و روزی میں اضافہ ہوتا ہے اور مال میں کبھی بھی کمی نہیں ہوتی [20] [21]
  • تزکیہ نفس اور مال میں اضافہ کا باعث ہے[22]
  • بیماروں کا علاج ہے[23]
  • زکات دینے والے اور دوسرں سے بلاء کو دفع کرتی ہے [24]
  • مالداروں کیلئے امتحان اور غریبوں کیلئے امداد ہے۔ [25]
  • بخل کا علاج ہے[26]
  • مردوں کی بخشش کا باعث ہے۔ [27]
  • فقر کو ختم کرتی ہے[28]

زکات نہ دینے والے پر اسکے جو برے اثرات مترتب ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • مال کا تلف ہونا [29]
  • دوگنی خسارت [30]
  • ظلم اور گناہ کی راہ میں خرج ہونا [31]
  • خدا کی رحمت سے محروم ہونا [32]
  • چوری کی ایک قسم ہے [33]
  • محتاج اور نیاز مند ہونا [34]
  • نماز مورد قبول واقع نہ ہونا [35]
  • وہ مال جس کا زکات نہ دیا گیا ہو وہ قیامت کے دن آگ میں تبدیل ہوتی ہے [36]
  • زکات نہ دینا موت کے وقت بے ایمان ہو کر مرنے کا باعث بنتا ہے [37]
  • زکات نہ دینا زمین میں برکت کے خاتمے کا باعث ہے [38]

دوسری نعمتوں کی زکات

زکات کے وسیع معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام میں ہر نعمت کے اوپر مخصوص زکات تعیین کی گئی ہے جس کے ادا کرنے سے اس نعمت میں نشو و نما اور برکت آتی ہے۔ مصباح الشریعہ نامی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں بدن کے اعضاء کی زکات کے بارے میں آیا ہے:

  • آنکھ کی زکات: عبرت کی نگاہ سے دیکھنا اور شہوتوں سے چشم پوشی کرنا۔
  • کان کی زکات: علم، حکمت، قرآن اور ہر اس چیز کا سننا جس میں انسانی روح کو تسکین ملتی ہو اور ان چیزیں کے سننے سے پرہیز کرنا جو روح کی گرفتاری کا سبب بنتی ہے جیسے جھوٹ اور غیبت وغیرہ۔
  • زبان کی زکات: مسلمانوں کی خیرخواہی چاہنا، غافلوں کو بیدار کرنا، ہمیشہ تسبیح اور ذکر میں مشغول رہنا۔
  • ہاتھوں کی زکات: خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے دوسروں کو عطا کرنا، علم کے لکھنے میں اس سے کام لینا، ہر اس کام کو انجام دینا جس میں مسلمانوں کی بلائی اور خدا کی بندگی ہو اور ہر برے کام سے پرہز کرنا۔
  • ٹانگوں کی زکات: حقوق اللہ کی ادائگی، اللہ کے نیک بندوں سے ملاقات، ذکر اور دعا کے محافل میں شرکت، لوگوں کے امور کی اصلاح، صلہ رحم، جہاد اور ہر اس چیز کیلئے قدم اٹھانا جس میں دین اور دنیا کی سعادت اور خوشبختی ہو۔

غرر الحکم میں امیرالمؤمنین علی(ع) سے بعض نعمتوں کی زکات کے بارے میں یوں منقول ہے:

  • علم کی زکات: اہل لوگوں میں اس کی نشر و اشاعت اور اپنے نفس کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینا۔
  • مقام و منصب کی زکات: کار خیر میں اسے بروئے کار لانا ہے۔
  • بردباری کی زکات: تحمل اور صبر ہے۔
  • مال کی زکات: بخشش اور جود و سخاوت ہے۔
  • قدرت کی زکات: عدل و انصاف ہے۔
  • خوبصورتی کی زکات: عفت و پاکدامنی ہے۔
  • کامیابی کی زکات: احسان ہے۔
  • بدن کی زکات: جہاد اور روزہ ہے۔
  • مال و دولت کی زکات: ہمسایوں سے نیکی اور صلہ رحم ہے۔
  • تدرستی کی زکات: خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں سعی و تلاش کرنا ہے۔
  • شجاعت کی زکات: خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔
  • حاکم کی زکات: بے یار و مددگاروں کی امداد کرنا ہے۔
  • خدا کی نعمتوں کی زکات: نیک کاموں کی انجام دہی ہے۔

وجوب

زکات کا وجوب دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار کفر اور ارتداد کا موجب ہے۔ [39] چونکہ زکات ایک عبادت ہے اس بنا پر اس کی ادائیگی میں نیت (قصد قربت) شرط ہے۔[40]

قرآن کی مختلف آیات من جملہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 156 ، سورہ نمل کی آیت نمبر3 ، سورہ لقمان کی آیت نمبر4، اور سورہ فصلت کی آیت نمبر4 جو کہ سب کے سب مکّی سورتیں ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات پیغمبر اکرم کی مکی زندگی میں واجب ہوئی تھی۔ لیکن جب پیفمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوئی تو خدا کی طرف سے لوگوں سے باقاعدہ طور پر زکات وصول کرنے پر مامور ہوئے۔ نہ یہ کہ خود لوگ اپنی صوابدید پر خرچ کرے۔ آیہ شریفہ "خُذْ مِنْ أَمْوالِہمْ صَدَقَة…” (ترجمہ: اے رسول! ان لوگوں کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لیں…)[41] اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ مشہور ہے کہ یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی اس کے بعد سورہ توبہ کی آیت نمبر60 میں زکات کے مصارف کو بیان کیا گیا ہے۔ [42]

سابقہ امتوں میں

دین اسلام کے علاوہ گذشتہ امتوں میں بھی زکات کا حکم تھا، لھذا زکات اور نماز کو تمام آسمانی اور الہی ادیان کے مشترکہ اعمال اور عبادات میں شکار کئے جاتے ہیں جس پر قرآن کی بہت ساری آیات دلالت کرتی ہیں۔[43]

آیات اور احادیث میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں زکات کا حکم دوسری امتوں کی طرح صرف ایک اخلاقی سفارش اور وصیت کے طور پر نہیں بلکہ اسلام میں زکات ایک اہم الہی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ زکات کو اہمیت نہ دینے والے پر فسق اور اسکے وجوب کے منکر پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے۔[44]

جن چیزوں پر زکات واجب ہے

زکات 9چیزوں پر واجب ہے:

۱- گیہوں، ۲- جو، ۳- کھجور، ۴- کشمش، ۵- سونا، ۶- چاندی، ۷- اونٹ، ۸- گائے، ۹- بھیڑ۔

بعض حضرات سرمایہ کو بھی درج بالا موارد کے ساتھ ملحق کرتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ سرمایہ پر زکات واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔[45] [46]

جو شخص مذکورہ بالا اشیاء میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور بقیہ شرایط بھی پائے جاتے ہوں تو اس شخص پر واجب ہے اس چیز کا ایک معین مقدار جسے شریعت نے معین کی ہے کو بہ عنوان زکات ادا کرے۔

زکات کی ادائیگی میں نیت شرط ہے چونکہ زکات ایک واجب عمل ہے اور ہر واجب عمل کیلئے نیت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اس عمل کو قصد قربت اور خدا کے حکم کی تعمیل کی نیت سے انجام دینا ضروری ہے۔

زکات کے وجوب اور اس کے نصاب کے حوالے سے مجتہدین نے مختلف احکام بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل کیلئے توضیح المسائل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس حوالے سے مشہور فقہا کا نظریہ کچھ یوں ہے:

غلات میں زکات کی شرایط

غلات (گیہوں، جو، کھجو اور کشمش) پر زکات واجب ہونے کیلئے دو بنیادی شرایط کا ہونا ضروری ہے:

۱. شخص کھیتی باڑی کا مالک ہو۔

۲. محصول حد نصاب تک پہنچ جائے، جو تقریبا۸۴۷ کیلوگرم ہے۔

غلات میں آبپاشی کے مختلف ہونے سے ان پر زکات کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے یعنی اگر آبپاشی بارش، نہر یا زمین کی تری کے ذریعے ہوتی ہے تو اس صورت میں محصول کا دسواں حصہ زکات کے عنوان سے دینا ضروری ہے لیکن اگر آبپاشی کنویں کے پانی کے ذریعے ہو تو اس صورت میں محصول کا اکیسواں حصہ بہ عنوان زکات ادا کرنا واجب ہے۔ [47]

سونے اور چاندی میں زکات کی شرایط

سونا اور چاندی پر درج ذیل شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:

۱. سونے اور چاندی پر اس وقت زکات واجب ہوتی ہے جب انہیں رائج الوقت سکے کی صورت میں ہو اور ان کے ذریعے باقاعدہ لین دین اور خرید و فروخت کی جاتی ہو۔

۲. مکلف کی ملکیت میں پورا سال گذر جائے۔

۳. حد نصاب تک پہنچ جائے۔ سونا اور چاندی میں سے ہر ایک کیلئے شریعت میں دو دو نصاب معین ہے۔

پہلا نصاب: 20 مثقال شرعی جو تقریبا(۶۹ گرام) ہے، سونے کیلئے جبکہ 200درہم جو تقریبا(۶۰۰ گرام) ہے، چاندی کیلئے۔ دوسرا نصاب: 4مثقال شرعی سونے کیلئے جبکہ 21 مثقال چاندی کیلئے۔ [48]

حیوانوں میں زکات کی شرایط

حیوانات(اونٹ، گائے، بھیڑ) پر چار شرایط کے ساتھ زکات واجب ہوتی ہے:

۱. ایک سال گذر جائے۔

۲. بیابان میں چرے۔

۳. پورا سال ان سے کوئی کام جیسے بابرداری وغیرہ نہ لیا جائے۔

۴. حد نصاب تک پہنچے۔ مجموعی طور پر اونٹ کے بارہ گائے کے دو اور بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں۔ اونٹ کا پہلا نصاب 5 اونٹ ہے پانج سے کم اونٹ پر زکات واجب نہیں ہے۔ گائے کا پہلا نصاب 30 گائیں اور 30 سے کم پر زکات واجب نہیں نیز بھیڑ کا پہلا نصاب 40 بھیڑیں ہیں اور اس سے کم پر زکات واجب نہیں ہوتی۔ [49]

زکات کا مصرف

مصرف زکات کی تعیین میں مفسرین جس ایت سے استناد کرتے ہیں وہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 ہے۔انَّما الصَّدقاتُ للفُقَراء و المَساکین و العاملین عَلَیها وَ المُؤلَّفَة قُلُوبُهم وَ فی الرّقاب و الغارمین و فی سبیل الله و ابن السبیل فریضَة مِنَ الله و الله عَلیمٌ حکیم جس میں آٹھ موارد بیان ہوئے ہیں جن پر زکات صرف کی جاتی ہے:

  1. فقراء؛
  2. مساکین؛
  3. خو شخص امام یا آپ کے نمائندے کی جانب سے زکات جمع آوری، حفاظت، حساب و کتاب یا زکات کو آپ تک پہنچانے یا آپ کی اجازت سے اسے مختلف کاموں میں صرف کرنے کیلئے ؛
  4. کمزور ایمان افراد جنہیں مالی معاونت کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ (مؤلفة قلوبهم)
  5. غلاموں اور کنیزوں کی خریداری اور آزادی کیلئے۔
  6. مقروض افراد جو اپنا قرضہ ادا نہ کر سکتے ہوں۔
  7. فی سبیل اللہ یعنی ایسے کام جس سے عام طور پر دینی امور میں منفعت ملتی ہو۔
  8. ابن سبیل، یعنی وہ افراد جو سفر میں تہی دست ہوگئے ہوں چاہے اپنے وطن میں مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ »[50]

مستحقین زکات کی شرایط

  1. خدا، رسول اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہو۔
  2. زکات دینے سے گناہ میں معاونت نہ ہوتی ہو۔ البتہ عدالت اور گناہگار نہ ہونا شرط نہیں ہے۔
  3. زکات لینے والا زکات دینے والے کا واجب النفقہ افراد میں سے نہ ہو۔
  4. اگر زکات دینے والا غیر سید ہو تو زکات لینے والا سید نہ ہو لیکن اگر زکات دینے والا بھی سید ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

زکات فطرہ

اصلی مضمون: زکات فطرہ

زکات فطره اس مال کو کہا جاتا ہے جسے مخصوص شرایط کے ساتھ رمضان المبارک کی اختتام اور عید فطر کے وقت واجب ہوتا ہے۔ زکات فطرہ کی مقدار اپنے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر فرد جو اس کے گھر سے کھانا کھانے والا شمار ہوتا ہو، کے بدلے میں ایک ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) گیہوں یا جو یا کجھور یا کشمش دینا واجب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی بجائے اس کی قیمت بھی دے سکتا ہے۔

مذہب