مذہب

کَفّارہ شریعت کی روی سے ایک قسم کی سزا ہے جو بعض حرام کاموں کے ارتکاب یا واجبات کے ترک کرنے پر متعلقہ شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ کسی غلام یا کنیز کو آزاد کرنا، 60 فقیروں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا، 60 دن روزہ رکھنا(جس کے 31 روزوں کو بغیر کسی فاصلے کے رکھنا واجب ہے) اور گوسفند وغیرہ کی قربانی دینا کفارہ کے اقسام میں سے ہیں۔ بعض وہ امور جن کی انجام دہی کفارہ کا موجب بنتا ہے وہ یہ ہیں: کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا، ماہ رمضان کے روزوں کو عمدا باطل کرنا، عہد، نذر اور قسم کی مخالفت کرنا اور اِحرام کے بعض محرمات۔

کفارہ کی نوعیت انجام شدہ عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ہوتی ہے: بعض امور کے لئے ایک مشخص کفارہ ہے؛ جبکہ بعض امور کے لئے کئی کفارے متعین ہے اور ان میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں مکلف کو اختیار ہے؛ اسی طرح بعض امور کے لئے کئی کفارے بالترتیب معین ہیں جنہیں ترتیب سے انجام دینا ضروری ہے۔ بعض امور کے لئے کفارہ جمع دینا ضروری ہے؛ یعنی کئی کفارے ایک ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔

مفهوم‌شناسی

بعض گناہوں کے ارتکاب اور واجبات کے ترک کرنے پر شریعت میں جو مالی اور بدنی سزائیں مقرر کی گئی ہیں انہیں کفارہ کہا جاتا ہے۔ غالباً کفارہ گناہ کے اخروی سزا میں تخفیف یا اس کے ساقط ہونے کا باعث بنتا ہے۔

کفارہ "کفر” کے مادہ سے ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں؛ پس کفارہ کو کفارہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کفارہ گناہوں سے چشم پوشی اور ان کے عذاب کے محو ہونے کا باعث بنتا ہے۔

بعض اوقات فدیہ پر بھی کفارہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مُد طعام (۷۵۰ گرام گندم وغیرہ) کو روزے کے کفارے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ اصل میں روزے کا فدیہ یعنی جانشین ہے جو کسی بیماری یا جسمانی ناتوانی کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکنے کی بنا پر ادا کی جاتی ہے۔

کفارہ کے اقسام

فقہی منابع کے مطابق کفارہ کے درج ذیل اقسام ہیں:

  • غلام یا کنیز کو آزاد کرنا
  • 60 فقیروں کو کھانا کھلانا
  • دس مسکینوں کو کھانا کھلانا
  • دو مہینے روزہ رکھنا
  • 3 دن روزہ رکھنا
  • گوسفند کی قربانی دینا
  • اونٹ کی قربانی دینا
  • گائیں یا گوسفند کی قربانی دینا
  • ایک مد طعام
  • 6 مسکینوں کو کھانا کھلانا
  • 10 فقیروں کو کپڑا پہنانا۔

وہ گناہ جن کی انجام دہی کفارہ کا موجب ہے

فقہی منابع کے مطابق بعض گناہوں کی انجام دہی کفارہ کا موجب ہے جس کے بارے میں ظِہار کے باب میں بحث ہوتی ہے؛ البتہ سوائے مُحَرَّمات احرام کے کفارے کے کہ جن کے بارے میں حج کے باب میں بیان کیا جاتا ہے۔

وہ اعمال جن کے انجام دینے پر کفارہ واجب ہوتا وہ اس عمل کی نوعیت اور اسے انجام دینے کی کیفیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے: ان میں سے بعض کی انجام دہی پر ایک خاص کفارہ واجب ہوتا ہے(کفارہ مُعیَّنہ)۔ بعض اعمال کے لئے کئی کفاروں میں سے کسی ایک کے انتخاب میں مذکورہ شخص کو اختیار حاصل ہوتا ہے(کفارہ مُخَیَّرہ)۔ بعض اوقات مختلف کفارے بالترتیب معین ہوتے ہیں جنہیں اسی ترتیب کے مطابق انجام دینا ضروری ہوتا ہے؛ یعنی اگر پہلا کفارہ انجام نہ دے سکے تو دوسرے کی نوبت آتی ہے(کفارہ مُرتَّبہ)۔ بعض اعمال کے لئے ایک سے زیادہ کفارے معین ہوتے ہیں اور سب کو اکھٹے انجام دینا ضروری ہوتا ہے(کفارہ جمع)۔

آپ یہاں مختلف کریپٹو کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے کفارہ کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

موجب کفارہ امور کفارہ کی نوعیت کفارہ
۱۔ ظِہار اور قتل غیرعمد
۲۔ ماہ رمضان کے قضا روزوں کو ظہر کے بعد توڑنا
کفارہ مُرتَّبہ ۱۔ غلام یا کنیز آزاد کرنا اگر یہ کام نہ کر سکے تو 60 فقیروں کو کھانا کھلانا
۲۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا اگر یہ کام نہ کر سکے تو 3 دن روزہ رکھنا
الف)
۱۔ماہ رمضان کے روزوں کو عمدا توڑنا
۲۔ نذر کی مخالفت کرنا
۳۔ عہد پر عمل نہ کرنا
۴۔ مصیبت کے وقت عورتوں کا سر کے بال نوچنا(بعض فقہاء کے مطابق)۔
۵۔اعتکاف کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا
ب) باب حج
۱۔ قربانی سے پہلے حلق یا تقصیر انجام دینا
۲۔ احرام کی حالت میں شکار کرنا
کفارہ مُخَیَّرہ الف) کسی ایک کو انتخاب کرنے میں اختیار ہے
۱۔غلام یا کنیز آزاد کرنا
۲۔ دو مہینے روزہ رکھنا
۳۔ 60 فقیروں کو کھنا کھلاناب) باب حج
۱ و ۲۔ کسی ایک کو انتخاب کرنے میں اختیار ہے
قربانی، 6 یا 10 مسکینوں کو کھانا کھلانا یا 3 دن روزہ رکھنا
۱۔ حِنث قسم یعنی قسم توڑنا
۲۔ عورت کا مصیبت‌ کے موقع پر سر کے بال نوچنا
۳۔ عورت کا مصیبت کے موقع پر چہرہ نوچنا
۴۔ مرد کا اپنی بیوی بچوں کی موت پر لباس چاک کرنا
کفارہ مُخَیَّرہ و مُرتَّبہ الف) کسی ایک کے انتخاب میں اختیار ہے
۱۔ غلام یا کنیز آزاد کرنا
۲۔دس مسکینوں کو کھانا کھلانا
۳۔ دس فقیروں کو کپڑا پہنانا
ب) انجام نہ دے سکنے کی صورت میں
۴۔3 دن روزہ رکھنا
۱۔ کسی مؤمن کو عمدا قتل کرنا
۲۔ ماہ رمضان کے روزے کو حرام کام کے ذریعے توڑنا
کفارہ جمع درج ذیل امور کو اکھٹے انجام دینا ضروری ہے
۱۔غلام یا کنیز آزاد کرنا
۲۔ دو مہینے روزہ رکھنا
۳۔ 60 فقیروں کو کھانا کھلانا
محرمات احرام جیسے
۱۔بیوی کے ساتھ جماع کرنا
بیوی کے ساتھ مُلاعبہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے
بیوی کی طرف شہوت آمیز نگاہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے
بیوی کو شہوت کے ساتھ بوسہ لگانا
۲۔ حرم کے درختوں کو اکھاڑنا
۳۔ خوشبو استعمال کرنا
سر پر سایہ قرار دینا(فقط مردوں کے لئے)
ہاتھ یا پاؤوں کے تمام ناخونوں کو تراشنا
کپڑے پہننا یا ان کھانوں کا کھانا جو مُحرِم پر حرام ہیں
بیوی کو شہوت کے بغیر بوسہ لگانا
بیوی کو شہوت کے ساتھ لمس کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے
۴۔ ہر ناخن کے تراشنے پر جن کی مجموعی تعداد 1 ناخنوں سے کم ہو
۵۔ احرام کی حالت میں نامحرم کی طرف نگاہ کرنا یہاں تک کہ منی نکل آئے
کفارہ مُعیَّنہ ۱۔ قربانی (اونٹ)
۲۔ گائیں یا گوسفند کی قربانی(درختوں کی جسامت پر موقوف ہے)
۳۔ قربانی (گوسفند)
۴۔ ایک مد طعام
۵۔ اونٹ کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت بہتر ہو
گائیں کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت متوسط ہو
گوسفند کی قربانی اس شخص کے لئے جس کی مالی حالت کمزور ہو

احکام

  • کفارے کے طور پر فقیر کو دیا جانے والا کھانا اور کپڑا کسی مسلمان فقیر کو دینا واجب ہے
  • کفارہ واجب تعبدی ہے۔ اس بنا پر اس کے ادا کرنے میں قصد قربت شرط ہے۔
  • اگر کفارے کے بعض موارد جیسے غلام یا کنیز آزاد کرنا، ممکن نہ ہو تو کفارہ جمع میں یہ مورد ساقط ہوگا اور مخیّرہ اور مرتبہ کفارات میں اس کے علاوہ دوسرے موارد کو انجام دینا ضروری ہے۔
  • کہا گیا ہے کہ جس وقت روزے کو کفارے کے عنوان سے رکھا جائے تو اسے پے در پے رکھنا ضروری ہے۔ البتہ 60 روزوں میں صرف 31 روزوں کو پے در پے رکھنا ضروری ہے۔
  • اگر مختلف محرمات احرام کی وجہ سے مختلف کفارے واجب ہوں تو ہر ایک کے لئے علیحدہ کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
مذہب

وجوہات شرعی سے مراد، وہ مال یا رقوم ہیں کہ جو خمس، زکات، کفارات، رد مظالم، نذورات اور موقوفات کے عنوان سے، مکلف ادا کرتا ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ خمس اور زکوت، صرف حاکم شرع یا اس کے نمائندہ یا وکیل کو دی جانی چاہیے۔

معنی ومفہوم‌ کی وضاحت

وجوہات، وجوہ کی جمع ہے کہ جس کے معنی عربی لغت میں پیسے اور رقم کے ہیں۔[1] لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ سخن، جیسی لغت کی کتب میں آیا ہے کہ وجوہات کے عرفی اور رائج معانی میں سے ایک معنی، خمس اور زکات [2] نیز رد مظالم کی وہ رقوم ہیں جو مجتہدین کو دی جاتی ہیں۔[3] بعض فقہاء نے وجوہات کو وجوہات بریہ [4] (یعنی وہ رقوم کہ جو نیکی اور نیک اعمال کی خاطر دوسروں کو دی جائیں) کے نام سے جانا ہے۔[5]

فقہاء نے وجوہات شرعیہ کی اصطلاح کو علم فقہ کے مختلف عناوین کے ذیل میں استعمال کیا ہے۔[6] بعض فقہاء کا کہنا ہے چونکہ علم فقہ میں وجوہات شرعیہ کی تعریف نہیں کی گئی ہے اس لئے اس کی فقہی اصطلاحی تعریف نہیں ہو سکتی بلکہ عرفی اصطلاح (یعنی عوام کے درمیان رائج اصطلاحی معنی) مراد ہوں گے۔[7] اور اس کے عرفی (رائج) معنی میں وہ تمام رقوم شامل ہوں گی جو بالغ شخص، احکام شرعی کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔[8]

مصادیق

بعض علماء نے وجوہات شرعیہ کو صرف واجبات شرعیہ (خمس و زکات کی رقوم) کی حد تک جانا ہے[9] لیکن بعض دیگر علماء کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعیہ سے مراد وہ تمام دینی رقوم اور آمدنی [10] ہیں کہ جو مثلا: خمس، زکات، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب کے عنوان سے ادا کی جائیں۔[11] بعض علماء کا نظریہ ہے کہ اوقاف (شرعی وقف شدہ چیزوں کے منافع) اور قیمتی تحائف [12] وجوہ شرعیہ میں داخل ہیں اور نیز بعض علماء نے انفال کو وجوہات شرعیہ میں قرار دیا ہے۔[13] محمد حسین نائینی نے اپنے وکیل، جناب مہدی بہبہانی کو جو اجازہ وکالت دیا تھا اس میں حق امام، مجہول المالک (یعنی جس مال یا پیسے کا مالک معلوم نہ ہو)، زکات، نذر، اور ہر قسم کے صدقات، کفارے اور اسی طرح اجارہ کی عبادات کی رقوم کو وجوہات شرعیہ میں شمار کیا ہے۔[14]

بعض کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعی حسب ذیل چیزوں کو شامل ہوتی ہیں:[15]

  1. فدیہ: اس سے مراد وہ رقم اور مال ہے کہ جو بعض واجبات کے ترک کے سبب، بالغ شخص پر واجب ہے۔ مثلا: جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد، طعام یا اس کے برابر رقم فقیر کو دے۔
  2. کفارہ: اس کا موضوع، وہ جرمانہ ہے کہ جس کا ادا کرنا کسی حرام کام کو انجام دینے یا واجب کو ترک کرنے کے سبب بالغ شخص پر واجب ہوتا ہے۔ جیسے: واجب روزہ عمدا ترک کرنے کا کفارہ، قتل کا کفارہ، قسم توڑنے کا کفارہ، ظہار و ۔۔۔
  3. خراج: وہ مالی حق ہے کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے زمین کے خاص حصوں کے لئے قرار دیا جائے۔
  4. خمس: سال بھر کے اخراجات کے بعد جو باقی بچ جائے اس کا پانچواں حصہ، خمس کے طور پر نکالنا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر جیسے: کان (ہیرے، جواہرات اور سونا و چاندی اور قیمتی پتھر اور ۔۔۔ کی کانیں)، اور ملا ہوا خزانہ، ان شرائط کے ساتھ کہ جو فقہی کتب میں بیان ہوئے ہیں۔
  5. زکات: جب خاص مال اپنے معینہ نصاب تک پہنچ جائیں تواس میں سے خاص مقدار میں ادا کرنا۔
  6. زکات فطرہ: مال یا نقد پیسے کی صورت میں بالغ شخص پر شب عید فطر غروب کے وقت ہر سال واجب ہے۔
  7. جزیہ: مال یا پیسے (ٹیکس کے طور پر) کہ جو اسلامی حکومت بعض اہل ذمہ سے وصول کرتی ہے۔
  8. عُشر: یہ اس مال کو کہا جاتا ہے کہ جو غیر مسلم تاجروں سے اسلامی سرزمین پر تجارت کے لئے لیا جاتا ہے۔[16]

رقوم شرعی کسے دی جائیں؟

بعض علماء کا کہنا ہے کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہرشخص رقوم شرعی میں استعمال کا حق نہیں رکھتا ہے جبکہ اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں ہے۔[17] ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حاکم، چاہے جس اخلاقی اور علمی خصوصیت کا مالک ہو صرف اس بنا پر کہ وہ حاکم اسلامی ہے رقوم شرعی کو استعمال کا حق اور اختیار رکھتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ صرف، حاکم شرع اور اس کے نمائندے رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتے ہیں۔[18] امام معصوم کی موجودگی میں، صرف امام معصوم ہی رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتا ہے اور غیبت کے زمانے میں، عادل اور جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین کو ان رقوم کے استعمال کی اجازت ہے۔[19] آیت اللہ خامنہ ای کے فتوی کے مطابق، شرعی رقوم کا مسئلہ اگرچہ ولی امر مسلمین سے متعلق ہے، لیکن مراجع تقلید میں سے کسی بھی مرجع کے مقلدین، رقوم شرعی کے دونوں حصوں(سہم امام اور سہم سادات) کو ادا کرنے میں اپنے مرجع کے فتوی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے شرعی فریضہ سے سبکدوش ہو جائیں گے۔

مذہب

سَہم اِمام خمس کا ایک حصہ ہے جو خدا، پیامبر(ص) اور امام معصوم سے متعلق ہے۔[نوٹ 1]شیعہ فقہا آیت خمس[نوٹ 2]میں بیان ہونے والے خمس کے چھ مصارف میں سے خدا، پیامبر اور ذوی‌القربی کو امام کے متعلق سمجھتے ہیں۔[1] اور اسے سہم امام کے نام سے یاد کرتے ہیں۔سہم امام کو سہم خدا، سہم پیامبر اور سہم ذوی‌ القربی بھی کہا جاتا ہے۔[2]

غیبت امام کے زمانے میں شیعہ مراجع تقلید سہم امام دریافت کرتے ہیں اور اسے اسلام کی تقویت کیلئے خرچ کرتے ہیں۔ [3] بعض فقہا معتقد ہیں کہ زمانۂ غیبت میں سہم امام کو انہی موارد میں خرچ کرنا چاہئے جن کے بارے ميں مرجع تقلید کو گمان ہو یا جانتا ہو کہ اگر امام حاضر ہوتے تو انہی موارد میں خرچ کرتے؛ جیسے حوزه علمیہ، مساجد کی تعمیر، لائبریریوں اور مدارس کا قیام اور ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو برطرف کرنا۔[4] البتہ غیبت کے زمانے میں سہم امام کے متعلق دیگر اقوال بھی ہیںّ؛ جيسے خمس کاوجوب ساقط ہونا، شیعوں کیلئے مباح ہونا، محتاج سید کو دینا، صدقہ دینا، دفن کرنا، يا الگ کر کے ظہور تک اس کی حفاظت کرنا وغیرہ. آیت الله مکارم ان اقوال کے نقل کے بعد کہتے ہیں کہ متاخرین اور معاصرین کے نزدیک قول مشہور یہ ہے کہ مرجع تقلید سہم امام کو ان امور میں خرچ کرے جس کے بارے میں امام کے راضى ہونے کا اسے گمان ہو۔

مذہب

سہم سادات خمس کا ایک حصہ ہے جو نسل بنی ہاشم کے ضرورت مند سادات کو دیا جاتا ہے۔

شیعہ فقہا آیت خمس سے استدلال کرتے ہوئے خمس کا ایک حصہ ضرورت مند سادات سے مخصوص سمجھتے ہیں۔ اس حصے کو سہم سادات کہتے ہیں۔[نوٹ 1]؛ اور جان لو کہ جو چیز بھی تمہیں بطورِ غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے، (اور رسول کے) قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ (یہ واجب ہے) [1] اس آیت میں يَتامىٰ، مساكين اور ابن السبيل سے مراد نسل بنی ہاشم کے ایتام، مساکین اور مسافر ہیں۔[2] صاحب جواہر کے مطابق مشہور شیعہ فقہا معتقد ہیں کہ سہم سادات صرف ان سادات سے تعلق رکھتا ہے جن کا نسب باپ کی طرف سے ہاشم بن عبد مناف تک پہنچتا ہو اور جن کی والدہ سیده ہو سہم سادات اس سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔[3]

سادات کو ان کا سہم دینے کے متعلق فقہا کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض قائل ہیں کہ سہم سادات بھی حاکم شرع یا مرجع کو دیا جائے یا اس کی اجازت سے ضرورتمند سادات تک پہنچایا جائے جبکہ بعض مراجع سہم سادات کی ادائیگی میں مرجع کی اجازت معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق سادات سہم سادات خود انہیں دے سکتے ہیں۔[4]

خمس میں سے ایک حصے کے سادات سے مخصوص ہونے کے فلسفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غیر سادات کی طرف سے سادات کو صدقہ دینے کی ممنوعیت کا جبران اس سہم سادات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مذہب

سَہمَیْن کا مطلب دو سہم ہیں جس سے مراد سہم امام اور سہم سادات ہے۔[1] لغت میں سہم کے معنی حصّہ[2] کے ہوتے ہیں۔

فقہائے شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خمس دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ایک سہم امام اور دوسرا سہم سادات۔[3]

  • سہم امام، مجتہد جامع الشرائط کو یا اس کی اجازت سے سید فقیر یا سید یتیم اور وہ سید جو ابن سبیل (سفر میں ضرورتمند ہو اور وطن واپس پلٹنے کا خرچ نہ رکھتا ہو) ہو اسے دیا جاتا ہے۔
  • سہم امام، غیبت امام کے زمانہ میں مجتہد جامع الشرائط کو دیا جاتا ہے یا جہاں اس نے خرچ کرنے کی اجازت دی ہو وہاں مصرف کیا جاتا ہے۔[4]

فقہائے شیعہ مثلا شیخ طوسی نے اپنی کتاب المبسوط،[5] شہید اول نے لمعہ دمشقیہ[6] اور شہید ثانی نے شرح لمعہ[7] میں خمس کو آیہ خمس کی بنا پر چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اسی کو شیعوں کا مشہور قول جانا ہے؛[8] البتہ یہ چھ حصے دو حصوں کی طرف پلٹتے ہیں جن میں سے تین حصۃ یعنی سہم خدا، رسول اور ذی القربی، امام کے لئے ہے اور تین حصہ یعنی سہم یتیم، فقیر اور ابن سبیل پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک والوں یعنی سادات کے لئے ہوتا ہے جسے سہم سادات کہتے ہیں۔[9]

خمس کی دو تقسیم روایات سے اخذ کی گئی ہے۔[10] امام موسی کاظمؑ نے خمس کے سلسلہ میں ایک روایت میں توضیح فرماتے ہوئے ایک سہم کو حاکم (امام) کے لئے اور دوسرے سہم کو یتیم، فقیر اور ابن سبیل جو پیغمبر اکرمؐ سے نزدیک ہیں، کے لئے قرار دیا۔

مذہب