قرآن

اچھی زندگی گزارنا صرف اصولوں پر عمل کرنے کے بارے میں نہیں ہے، یہ ایک فراخ دل پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔ اسلامی اخلاقیات، جس کی جڑیں قرآن اور پیغمبر اسلام (ص) کی تعلیمات میں ہیں، اس کے لیے ایک خوبصورت فریم ورک فراہم کرتی ہیں۔ آئیے کچھ کلیدی اصولوں کو تلاش کریں جو ہماری روزمرہ کی بات چیت میں مہربانی، اچھے اخلاق اور کشادہ دلی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

مہربانی: خدا کی رحمت کا عکس

قرآن ہمدردی اور سخاوت پر ایک مومن کی بنیادی خصوصیات کے طور پر زور دیتا ہے۔ سورہ رحمٰن ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خدا کی رحمت تمام مخلوقات پر محیط ہے۔ اس مہربانی کو اپنے اعمال میں ظاہر کرکے ہم دنیا میں مثبت تبدیلی کے برتن بن جاتے ہیں۔

تصور کریں کہ کسی کا سامنا کرنا مشکل دن ہے۔ ایک سادہ سی مسکراہٹ، مدد کرنے والا ہاتھ، یا سننے والا کان دنیا میں فرق پیدا کر سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "احسان ایمان کی علامت ہے اور اس کا نہ ہونا نفاق کی علامت ہے۔” (صحیح مسلم) احسان صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جانوروں کا احترام اور خیال رکھنا بھی اچھے کردار کا ایک پہلو ہے۔

اچھے اخلاق: ایک ساتھ رہنے کا فن

باعزت تعامل ایک مضبوط کمیونٹی کی بنیاد ہیں۔ اسلامی تعلیمات اچھے اخلاق کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں، جسے عربی میں "ادب” کہا جاتا ہے۔ اس میں شائستہ سلام کے استعمال سے لے کر ذاتی جگہ کا احترام کرنے، گپ شپ سے بچنے، اور وعدوں کو پورا کرنے تک سب کچھ شامل ہے۔

ہمارے الفاظ کے مثبت اثرات کے بارے میں سوچیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری گفتگو اچھی ہو اور تم سے محبت کی جائے“ (ترمذی)۔ اپنے الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرنے اور سخت زبان سے گریز کرنے سے، ہم سب کے لیے زیادہ مثبت ماحول بناتے ہیں۔

کھلے ذہن: اختلافات کو اپنانا

اسلام متنوع نقطہ نظر کے لیے کھلے پن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن خود مختلف برادریوں اور طرز زندگی کے وجود کو تسلیم کرتا ہے (سورۃ الحجرات)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے عقائد پر سمجھوتہ کریں، بلکہ افہام و تفہیم اور احترام کے ساتھ بات چیت کو فروغ دیں۔

کسی دوسرے نقطہ نظر کے ساتھ کسی کا سامنا کرنے کا تصور کریں۔ فعال طور پر سنیں، مشترکہ بنیاد تلاش کریں، اور باعزت مواصلات پر توجہ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں سے میل جول رکھنے والا اور ان کی اذیت پر صبر کرنے والا مومن اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھتا اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا“ (صحیح بخاری)۔

ایک مسکراہٹ: مہربانی کی عالمگیر زبان

ایک مسکراہٹ کنکشن کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساتھ اپنے بھائی (یا بہن) سے مسکرانا صدقہ ہے (ترمذی)۔ ایک حقیقی مسکراہٹ تناؤ کو ختم کر سکتی ہے، خوش آئند ماحول پیدا کر سکتی ہے، اور یہاں تک کہ کسی کے دن کو روشن کر سکتی ہے۔

ان اصولوں کو جینا: ہر دن، ہر تعامل

یہ اسلامی اخلاقی اصول صرف عظیم نظریات نہیں ہیں؛ وہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں مشق کرنے کے لیے ہیں۔ چاہے یہ ایک پرہجوم بازار میں صبر کا مظاہرہ کرنا ہو، کسی غمزدہ دوست کے لیے مخلصانہ تعزیت پیش کرنا ہو، یا دوسروں کی مدد کے لیے اپنے وقت کو رضاکارانہ طور پر دینا ہو – احسان کا ہر عمل ایک زیادہ مثبت اور ہمدرد دنیا میں حصہ ڈالتا ہے۔

ہمارا اسلامی صدقہ: سخاوت میں ہاتھ ملانا

ہماری اسلامی چیریٹی کے حصے کے طور پر، ہم ان اخلاقی اقدار کو فروغ دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ فرق کرنے میں ہمارے ساتھ شامل ہوں، ایک وقت میں ایک قسم کا عمل۔

عباداتقرآنمذہب

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، میم۔ (1) یہ کتابِ حکیم کی آیتیں ہیں۔ (2) جو (سراپا) ہدایت اور رحمت ان نیکوکار لوگوں کیلئے ہے۔ (3) جو پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (4) یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی وہ ہیں جو (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں۔ (5) اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ (6) اور جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے اس طرح منہ موڑ لیتا ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے تو اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (7) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کیلئے نعمت (اور آرام) والی جنتیں ہیں۔ (8) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا (اور پکا) وعدہ ہے۔ وہ بڑا غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (9) اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا ہے جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں بھاری پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر (ایک طرف) ڈھلک نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے (جانور) پھیلا دیئے اور ہم نے آسمانوں (بلندی) سے پانی برسایا اور اس سے زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگائیں۔ (10) یہ تو ہے اللہ کی تخلیق! (اور اس کی پیدا کی ہوئی چیزیں)۔ اب تم مجھے دکھاؤ کہ جو اس کے علاوہ (تمہارے شرکاء) ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ بلکہ ظالم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ (11) اور ہم نے لقمان کو حکمت (و دانائی) عطا کی (اور کہا) کہ خدا کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کیلئے شکر ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت (ناشکری) کرتا ہے (وہ اپنا نقصان کرتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے۔ (12) اور (وہ وقت یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! (خبردار کسی کو) اللہ کا شریک نہ بنانا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (13) اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ (14) اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (15) اے بیٹا! اگر کوئی (نیک یا بد) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی پتھر کے نیچے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں تو اللہ اسے لے ہی آئے گا بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ (16) اے بیٹا! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو مصیبت پیش آئے اس پر صبر کر۔ بے شک یہ (صبر) عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (17) اور (تکبر سے) اپنا رخسار لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر ناز و انداز سے نہ چل۔ بے شک خدا تکبر کرنے والے (اور) بہت فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ (18) اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ (19) کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اپنی سب ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ (20) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا (یہ جب بھی انہی کی پیروی کریں گے) اگرچہ شیطان ان (بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟ (21) اور جو کوئی اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے) درآنحالیکہ وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط راستہ (سہارا) پکڑ لیا ان (سب) نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (22) اور جو کوئی کفر اختیار کرے تو (اے رسول(ص)) اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے۔ پس (اس وقت) ہم انہیں بتائیں گے کہ جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ بے شک اللہ سینوں کے اندر کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (23) ہم انہیں چند روزہ عیش کا موقع دیں گے اور پھر انہیں سخت عذاب کی طرف کشاں کشاں لے جائیں گے۔ (24) (اے رسول(ص)) اگر آپ ان (مشرکین) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ (جواب میں) ضرور کہیں گے کہ اللہ نے! آپ کہئے! الحمدﷲ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (25) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے۔ بے شک اللہ بے نیاز ہے اور لائقِ حمد و ثنا ہے۔ (26) اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (27) تم سب کا پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا (اللہ کیلئے) ایک شخص کے پیدا کرنے اور دوبارہ اٹھانے کی مانند ہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔ (28) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک (اپنے مدار میں) چل رہا ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (29) یہ سب اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جن چیزوں کو (مشرک) پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور بے شک اللہ بلند (شان والا) ہے اور بزرگ ہے۔ (30) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ محض اللہ کے فضل سے سمندر میں کشتی چلتی ہے۔ تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر بہت صبر و شکر کرنے والے کیلئے۔ (31) اور جب انہیں ایک موج سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے تو یہ اپنے دین کو اللہ کیلئے خالص کرکے اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو پھر ان میں سے کچھ تو اعتدال پر رہتے ہیں (اور اکثر انکار کر دیتے ہیں) اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر وہی شخص جو بڑا غدار (بے وفا) اور بڑا ناشکرا ہے۔ (32) اے لوگو! اپنے پروردگار (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور اس دن کا خوف کرو۔ جب نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تمہیں دنیا کی (عارضی) زندگی دھوکہ نہ دے اور نہ ہی کوئی دھوکہ باز (شیطان وغیرہ) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دے۔ (33) بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے۔ (34)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف، لام، میم۔ (1) رومی مغلوب ہوگئے۔ (2) قریب ترین زمین میں (اہلِ فارس سے) اور یہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ (3) چند سالوں میں اختیار اللہ کو ہی حاصل ہے پہلے بھی اور بعد بھی۔ اور اس دن اہلِ ایمان خوش ہوں گے۔ (4) اللہ کی نصرت سے، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب ہے (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (5) یہ اللہ کا وعدہ ہے اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (6) یہ لوگ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہیں۔ (7) کیا انہوں نے اپنے آپ میں کبھی غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو (حق اور حکمت کے) ساتھ ایک مقررہ مدت تک کیلئے پیدا کیا ہے اور یقیناً بہت سے لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حضوری کے منکر ہیں۔ (8) آیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟ وہ قوت میں ان سے زیادہ مضبوط تھے اور انہوں نے ان سے زیادہ زمین کو جَوتا بویا اور آباد کیا تھا۔ اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔ (9) پھر ان لوگوں کا انجام جنہوں نے (مسلسل) برائیاں کیں برا ہی ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (10) اللہ ہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے وہی پھر اس کا اعادہ کرے گا۔ پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔ (11) اور جس دن قیامت قائم ہوگی (اس دن) مجرم مایوس اور بےآس ہو جائیں گے۔ (12) اور ان کے بنائے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ بھی اپنے شریکوں سے انکار کر جائیں گے۔ (13) اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن (مؤمن و کافر) الگ الگ ہو جائیں گے۔ (14) پس وہ لوگ جو ایمان لائے تھے اور نیک عمل کئے تھے وہ باغ (بہشت) میں خوش و خرم اور محترم ہوں گے۔ (15) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کی حضوری کو جھٹلایا وہ (ہر وقت) عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔ (16) پس تم جب شام کرو اور جب صبح کرو تو اللہ کی تسبیح کرو (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔ (17) اور آسمانوں میں اور زمین میں اور سہ پہر کو اور جب تم ظہر کرتے ہو ساری حمد و ثنا اسی خدا کے لئے ہے۔ (18) وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے۔ اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ (سرسبز) کر دیتا ہے۔ اسی طرح تم (مرنے کے بعد) نکالے جاؤگے۔ (19) اور اس کی (قدرت) کی نشانیوں سے (ایک) یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر تم ایک دم آدمی بن کر پھیلتے جا رہے ہو۔ (20) اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔ (21) اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا مختلف ہونا بھی ہے۔ بے شک اس میں اہلِ علم کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ (22) اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن میں سونا ہے اور (دن میں) اس کے فضل (روزی) کا تلاش کرنا بھی بے شک اس میں (غور سے) سننے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (23) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت (خشکی) کے بعد زندہ (شاداب) کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں عقل سے کام لینے والے لوگوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ (24) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک ہی بار پکارے گا تو تم یکبارگی نکل پڑوگے۔ (25) جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے (اور) سب اسی کے تابعِ فرمان ہیں۔ (26) اور وہ وہی ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور یہ اس کیلئے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے اعلیٰ ہے۔ وہ غالب ہے اور بڑا حکمت والا ہے۔ (27) وہ (اللہ) تمہارے لئے تمہاری اپنی ذات (اور تمہارے حالات) سے ایک مثل بیان کرتا ہے کہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی تمہارا اس طرح شریک ہے ان چیزوں میں جو ہم نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں کہ تم اور وہ برابر کے حصہ دار بن جاؤ کہ تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو۔ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے (برابر والے) سے ڈرتے ہو؟ ہم عقل سے کام لینے والوں کیلئے اسی طرح آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں۔ (28) بلکہ ظالم لوگ سمجھے بوجھے بھی اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ جسے اللہ (اس کی نافرمانی کی وجہ سے) گمراہی میں چھوڑ دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔ (29) پس (اے رسول(ص)) آپ باطل سے کنارہ کش ہوکر اپنا رخ دین (حق) کی طرف رکھیں یعنی اس (دینِ) فطرت کی پیروی کریں جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (30) (تم اپنا رخ اسلام کی طرف رکھو) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور (ان) مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔ (31) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود گروہ گروہ ہو گئے۔ (پھر) ہر گروہ اس پر خوش ہے جو کچھ اس کے پاس ہے۔ (32) اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو یکایک ان میں سے ایک گروہ پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ (33) تاکہ اس (نعمت) کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں عطا کی ہے۔ اچھا کچھ دن مزہ حاصل کر لو۔ عنقریب تمہیں اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ (34) کیا ہم نے ان پر کوئی سند (دلیل) نازل کی ہے جو انہیں شرک کرنے کو کہہ رہی ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ (35) اور جب ہم لوگوں کو (اپنی) زحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان پر ان کے اعمال کی پاداش میں جو وہ پہلے اپنے ہاتھوں کر چکے ہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو ایک دم مایوس ہو جاتے ہیں۔ (36) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔ (37) پس (اے رسول(ص)) آپ (اپنے) قرابتدار مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دیں۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو رضائے خدا کے طلبگار ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (38) اور جو چیز (روپیہ) تم اس لئے سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم خوشنودئ خدا کیلئے دیتے ہو ایسے ہی لوگ اپنا مال (کئی گنا) بڑھانے والے ہیں۔ (39) وہ اللہ ہی ہے جس نے (پہلے) تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق دیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کر سکے؟ اللہ پاک ہے اور بلند و بالا ہے ان کے شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔ (40) لوگوں کے ہاتھوں کی کارستانیوں کی وجہ سے خشکی و تری (ساری دنیا) میں فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ لوگ باز آجائیں۔ (41) (اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے! کہ زمین میں چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔ (42) پس (اے رسول(ص)) آپ اپنا رخ دینِ مستقیم کی طرف رکھیں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ جس کیلئے اللہ کی طرف سے ٹلنا نہ ہوگا۔ اس دن لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔ (43) جس نے کفر کیا۔ پس اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ اپنے ہی لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ (44) تاکہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو جزاء (خیر) دے۔ بے شک وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (45) اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو (بارش کی) بشارت دینے کیلئے بھیجتا ہے اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ اس کے حکم سے (تمہاری) کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل (رزق) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (46) بے شک ہم نے آپ سے پہلے (بہت سے) پیغمبر ان کی قوموں کی طرف بھیجے جو ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں (معجزات) لے کر آئے۔ پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا اور ہم پر اہلِ ایمان کی مدد کرنا لازم ہے۔ (47) اللہ ہی وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں۔ پھر اللہ جس طرح چاہتا ہے اسے آسمان پر پھیلا دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلنے لگتی ہے۔ پھر وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے۔ تو بس وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ (48) اگرچہ وہ اس کے برسنے سے پہلے بالکل مایوس ہو رہے تھے۔ (49) پس اللہ کی رحمت کے آثار کو دیکھو کہ وہ زمین کو اس کے مردہ (بنجر) ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بے شک وہی مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ (50) اور اگر ہم ایسی ہوا بھیج دیں جس سے وہ اپنی (سرسبز) کھیتی کو زرد ہوتے دیکھ لیں تو وہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں۔ (51) (اے رسول(ص)) آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہیں۔ (52) اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں آپ تو بس انہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے ہیں۔ (53) اللہ ہی وہ ہے جس نے کمزوری کی حالت سے تمہاری پیدائش کا آغاز کیا۔ پھر کمزوری کے بعد (تمہیں جوانی کی) قوت بخشی اور پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔ (54) اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو مجرم لوگ قَسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا) میں گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ یہ لوگ (دنیا میں بھی) اسی طرح الٹے چلا کرتے تھے۔ (55) اور جن لوگوں کو علم و ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ تم اللہ کے نوشتہ کے مطابق حشر کے دن تک ٹھہرے رہے ہو۔ چنانچہ یہ وہی حشر کا دن ہے لیکن تمہیں (اس کا) علم و یقین نہیں تھا۔ (56) سو اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی ان سے (توبہ کرکے) خدا کو راضی کرنے کیلئے کہا جائے گا۔ (57) بے شک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے) کیلئے ہر قسم کی مثال پیش کی ہے اور اگر آپ ان کے پاس کوئی نشانی (معجزہ) لے بھی آئیں تو بھی کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔ (58) اسی طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو جانتے نہیں۔ (59) (اے رسول(ص)) آپ صبر و ثبات سے کام لیں۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو (جوش دلا کر) بے برداشت نہ کر دیں۔ (60)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (1) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے (زبانی) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائیگی؟ (2) حالانکہ ہم نے ان (سب) کی آزمائش کی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں سو اللہ ضرور معلوم کرے گا ان کو جو (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں اور ان کو بھی معلوم کرے گا جو جھوٹے ہیں۔ (3) جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا انہوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے؟ وہ کتنا برا حکم لگاتے ہیں۔ (4) جو کوئی اللہ کے حضور حاضری کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا مقررہ وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (5) اور جو کوئی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے جہاد کرتا ہے۔ بےشک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ (6) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے تو ہم ان کی برائیاں دور کر دیں گے (ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیں گے) اور ہم انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا دیں گے۔ (7) اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے یعنی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (یہ بھی کہ) اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (8) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی بجا لائے ہم ضرور انہیں صالحین میں داخل کریں گے۔ (9) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو (زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر اللہ کی راہ میں جب اسے اذیت پہنچائی جاتی ہے تو وہ ان لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کے مانند قرار دے دیتا ہے اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد پہنچ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم (بھی) تو تمہارے ساتھ تھے کیا جو کچھ دنیا جہاں والوں کے دلوں میں ہے کیا اللہ اس کا سب سے بہتر جاننے والا نہیں ہے۔ (10) اور اللہ ضرور معلوم کرے گا کہ مؤمن کون ہیں اور منافق کون؟ (11) اور کافر لوگ اہلِ ایمان سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے راستہ پر چلو تمہارے گناہوں (کا بوجھ) ہم اٹھائیں گے۔ حالانکہ یہ ان کے گناہوں کو کچھ بھی اٹھانے والے نہیں وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ (12) (ہاں البتہ) یہ لوگ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی۔ اور قیامت کے دن ضرور ان سے بازپرس کی جائے گی ان افترا پردازیوں کے بارے میں جو وہ کرتے تھے۔ (13) اور یقیناً ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ اس میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر (آخرکار) اس قوم کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ (14) پس ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس (کشتی) کو تمام جہانوں کیلئے (اپنی ایک) نشانی بنا دیا۔ (15) اور (ہم نے) ابراہیم کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرو اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ (16) تم اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کرتے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑتے ہو۔ بےشک یہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ پس تم اللہ سے روزی طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔ (17) اور اگر تم (مجھے) جھٹلاتے ہو (تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے) تم سے پہلے بھی کئی امتیں (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکی ہیں اور رسول کی ذمہ داری صرف واضح تبلیغ کرنا ہے۔ و بس۔ (18) کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر کس طرح اسے دوبارہ پلٹاتا ہے؟ بےشک یہ بات اللہ کیلئے آسان ہے۔ (19) آپ کہئے! کہ زمین میں چلو پھرو پھر (غور سے) دیکھو کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا؟ پھر (اسی طرح) اللہ پچھلی بار بھی پیدا کرے گا۔ بےشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (20) وہ جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤگے۔ (21) اور تم (اللہ کو) نہ زمین میں عاجز کر سکتے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ ہی اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست و کارساز ہے اور نہ ہی کوئی مددگار۔ (22) اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوگئے ہیں اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔ (23) اور ان (ابراہیم) کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہیں قتل کر دو یا آگ میں جلا دو تو اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا۔ بےشک اس میں ایمان لانے والوں کیلئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔ (24) اور ابراہیم نے (اپنی قوم سے) کہا کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر زندگانی دنیا میں باہمی محبت کا ذریعہ سمجھ کر ان بتوں کو اختیار کر رکھا ہے پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کروگے اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (25) اور لوط نے ان (ابراہیم) کی بات مانی اور اطاعت کی اور انہوں نے کہا میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ بیشک وہ غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔ (26) اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کئے۔ اور نبوت اور کتاب ان کی نسل میں قرار دے دی۔ اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ دیا اور آخرت میں یقیناً وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ (27) اور (ہم نے) لوط کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ (28) کیا تم (عورتوں کو چھوڑ کر) مردوں کے پاس جاتے ہو؟ اور راہزنی کرتے ہو اور اپنے مجمع میں برے کام کرتے ہو۔ تو ان کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا (اے لوط) اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ۔ (29) لوط نے کہا اے میرے پروردگار! ان مفسد لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (30) اور جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے۔ تو انہوں نے (اثنائے گفتگو میں یہ بھی) کہا کہ ہم اس (لوط کی) بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں (کیونکہ) اس بستی کے لوگ (بڑے) ظالم ہیں۔ (31) ابراہیم نے کہا اس بستی میں تو لوط بھی ہیں؟ فرشتوں نے کہا ہم بہتر جانتے ہیں کہ اس میں کون کون ہیں؟ ہم انہیں اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے۔ سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (32) اور جب (وہ) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے رنجیدہ اور دل تنگ ہوئے اور فرشتوں نے (ان کی حالت دیکھ کر) کہا کہ نہ ڈرو اور نہ رنج کرو ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچا لیں گے سوائے آپ کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (33) ہم اس بستی والوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ (34) اور ہم نے اس بستی کے کچھ نشان باقی چھوڑ دیئے (ان لوگوں کی عبرت کیلئے) جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (35) اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اور روز آخرت کی امید رکھو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (36) پس ان لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تو (انجام کار) ایک (سخت) زلزلے نے انہیں آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل (مردہ ہوکر) گر گئے۔ (37) اور ہم نے عاد و ثمود کو بھی ہلاک کر دیا۔ اور (یہ بات) ان کے (تباہ شدہ) مکانات سے واضح ہو چکی ہے اور شیطان نے ان کے (برے) کاموں کو خوشنما کرکے پیش کیا اور انہیں (سیدھے) راستہ سے روک دیا۔ حالانکہ وہ سمجھ دار تھے۔ (38) اور ہم نے قارون، فرعون اور ہامان کو (بھی ہلاک کیا) اور البتہ موسیٰ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ مگر انہوں نے زمین میں تکبر و غرور کیا حالانکہ وہ (ہم سے) آگے نکل جانے والے نہیں تھے۔ (39) پس ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا۔ سو ان میں سے بعض پر (پتھراؤ کرنے والی) تیز آندھی بھیجی اور بعض کو ہولناک چنگھاڑ نے آدبایا اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسایا اور بعض کو (دریا میں) غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (40) جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور سرپرست اور کارساز بنا لئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جس نے (جالے کا) ایک گھر بنایا اور یقیناً تمام گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش لوگ (یہ حقیقت) جانتے۔ (41) اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ جس شئے کو پکارتے ہیں۔ بےشک اللہ اسے جانتا ہے۔ وہ غالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔ (42) اور یہ مثالیں ہم پیش تو سب لوگوں کے سامنے کرتے ہیں مگر انہیں سمجھتے صرف اہل علم ہیں۔ (43) اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ بےشک اس میں اہلِ ایمان کیلئے (اس کی قدرت کی) ایک نشانی موجود ہے۔ (44) (اے رسول(ص)) آپ اس (کتاب) کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کریں۔ بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے. (45) اور (اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کرو مگر بہترین انداز سے سوائے ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں اور (ان سے) کہو کہ ہم تو اس (کتاب) پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب پر بھی) جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا الٰہ (اللہ) ایک ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (46) اور (اے رسول(ص)) ہم نے اسی طرح آپ پر کتاب نازل کی ہے (جس طرح پہلے رسولوں پر کتابیں نازل کی تھیں) تو جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور ان (اہلِ مکہ و عرب) میں سے بھی بعض اس پر ایمان لا رہے ہیں اور ہماری آیتوں کا کافروں کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ (47) اور (اے رسول(ص)) آپ اس (نزولِ قرآن) سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو یہ اہلِ باطل ضرور (آپ کی نبوت میں) شک کرتے۔ (48) بلکہ وہ (قرآن) کھلی ہوئی آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینہ میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیتوں کا ظالموں کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ (49) اور وہ کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبرِ اسلام(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے معجزات کیوں نہیں اتارے گئے؟ آپ کہہ دیجئے! کہ معجزات تو بس اللہ کے پاس ہیں میں تو صرف (عذابِ الٰہی) سے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ (50) کیا ان کیلئے یہ (معجزہ) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (یہ) کتاب نازل کی ہے۔ جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ بے شک اس میں ایمان والوں کیلئے رحمت اور نصیحت موجود ہے۔ (51) (اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ کافی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور جو لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (52) اور یہ لوگ آپ سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اگر (اس کیلئے) ایک وقتِ مقرر نہ ہوتا تو ان پر (کبھی کا) عذاب آچکا ہوتا۔ اور وہ اس طرح ان پر اچانک آپڑے گا کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (53) وہ آپ سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (54) جس دن عذاب ان کو اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے ڈھانک لے گا اور خدا کہے گا کہ (اب) مزہ چکھو اس کا جو کچھ تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو (تب ان کو پتہ چلے گا)۔ (55) اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین (بہت) وسیع ہے۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔ (56) ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤگے۔ (57) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور) وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے کیا اچھا اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا۔ (58) جنہوں نے صبر کیا اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (59) اور کتنے زمین پر چلنے والے (جانور) ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی۔ اور وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (60) اور اگر آپ ان (مشرکوں) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر وہ کدھر جا رہے ہیں؟ (61) اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (62) اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا؟ اور زمین کو مردہ ہونے (بنجر ہونے) کے بعد کس نے زندہ (آباد) کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے! آپ کہیے! الحمد ﷲ۔ لیکن اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ (63) اور یہ دنیاوی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے اور حقیقی زندگی تو آخرت والی ہے۔ کاش لوگوں کو اس (حقیقت) کا علم ہوتا۔ (64) پس جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین (و اعتقاد) کو اللہ کیلئے خالص کرکے اس سے دعا مانگتے ہیں پھر جب انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ایک دم وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ (65) تاکہ جو نعمت ہم نے انہیں عطا کی ہے وہ اس کا کفران کریں اور تاکہ وہ لطف اٹھا لیں سو انہیں (اس کا انجام) عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ (66) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے (ان کے شہر کو) امن والا حرم بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان کے گرد و پیش کے لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے (پھر بھی) یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران (ناشکری) کرتے ہیں۔ (67) اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا حق کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہے! کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے؟ (68) اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔ (69)

قرآن

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
طا۔ سین۔ میم۔ (1) یہ کتابِ مبین کی آیتیں ہیں۔ (2) ہم اہلِ ایمان کے فائدہ کیلئے موسیٰ و فرعون کی کچھ خبریں سچائی کے ساتھ آپ کے سامنے پڑھ کر سناتے ہیں۔ (3) بےشک فرعون زمین (مصر) میں سرکش ہوگیا تھا اور اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اس نے ان میں سے ایک گروہ کو کمزور بنا رکھا تھا (چنانچہ) ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں (لڑکیوں) کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ بےشک وہ (زمین میں) فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ (4) اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔ (5) اور انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون، ہامان اور ان کی فوجوں کو ان (کمزوروں) کی جانب سے وہ کچھ دکھلائیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔ (6) اور ہم نے مادر موسیٰ کو وحی کی کہ اس (بچہ) کو دودھ پلا۔ اور جب اس کے متعلق خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور (کسی قسم کا) خوف اور غم نہ کر، بلاشبہ ہم اسے تیری طرف واپس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔ (7) چنانچہ فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ ان کیلئے دشمن اور رنج و غم (کا باعث) بنے۔ بیشک فرعون، ہامان اور دونوں کے لشکر والے خطاکار (اور غلط کار) تھے۔ (8) اور فرعون کی بیوی نے (اس سے) کہا کہ یہ (بچہ) تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے کہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لین اور انہیں (انجام کی) کچھ خبر نہ تھی۔ (9) اور مادرِ موسیٰ کا دل بے چین ہوگیا اور قریب تھا کہ وہ اس (بچہ) کا حال ظاہر کر دے۔ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے تاکہ وہ (ہمارے وعدہ پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ (10) اور ہم نے اس (بچہ) کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ دور سے اسے دیکھتی رہی جبکہ ان لوگوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔ (11) اور ہم نے اس (بچہ) پر دائیوں کو پہلے سے حرام کر دیا تھا تو اس (بچہ کی بہن) نے کہا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرے؟ اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں؟ (12) اس طرح ہم نے وہ (بچہ) اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا۔ تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی اور غمناک نہ ہو اور یہ بھی جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ (یہ بات) نہیں جانتے۔ (13) اور جب وہ (بچہ) اپنے پورے شباب کو پہنچ گیا اور (قد و قامت) پورا درست ہوگیا تو ہم نے اس کو (خاص) حکمت و علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو صلہ دیتے ہیں۔ (14) وہ (جوان) ایسے وقت شہر میں داخل ہوا جب کہ اس شہر کے باشندے بے خبر تھے۔ تو اس نے وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا۔ یہ ایک ان کے گروہ میں سے تھا۔ اور یہ دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا پس جو اس کے گروہ میں سے تھا اس نے (موسیٰ) کو اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا مدد کیلئے پکارا تو موسیٰ نے اسے ایک مکا مارا۔ بس اس کا کام تمام کر دیا اور کہا یہ (ان کی لڑائی) شیطان کی کاروائی تھی۔ بےشک وہ کھلا ہوا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ (15) کہا اے میرے پروردگار میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے بخش دے تو خدا نے اسے بخش دیا۔ بےشک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (16) (پھر) کہا اے میرے پروردگار تو نے مجھے اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ میں کبھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔ (17) پھر موسیٰ نے شہر میں اس حال میں صبح کی کہ وہ خوف زدہ اور منتظر تھا (کہ کیا ہوتا ہے؟) کہ اچانک دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل اس سے مدد طلب کی تھی (آج پھر چیخ کر( اس کو مدد کیلئے پکار رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو کھلا ہوا بد راہ ہے۔ (18) پھر جب موسیٰ نے اس شخص پر سخت ہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا اے موسیٰ تو (آج) مجھے اسی طرح قتل کرنا چاہتا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کیا؟ تو بس یہی چاہتا ہے کہ زمین میں سرکش بن جائے اور یہ نہیں چاہتا کہ اصلاح کرنے والوں میں سے ہو۔ (19) اور شہر کے آخری حصہ سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا (اور) کہا اے موسیٰ! قوم کے بڑے لوگ تمہارے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں۔ (لہٰذا) یہاں سے نکل جا یقیناً میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ (20) چنانچہ موسیٰ وہاں سے خوفزدہ ہوکر نتیجہ کا انتظار کرتا ہوا نکلا (اور) کہا اے میرے پروردگار! مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ (21) اور جب موسیٰ نے (مصر سے نکل کر) مدین کا رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا پروردگار سیدھے راستہ کی طرف میری راہنمائی کرے گا۔ (22) اور جب وہ مدین کے پانی (کنویں) پر پہنچا تو وہاں لوگوں کا ایک مجمع پایا جو (اپنے مویشیوں کو) پانی پلا رہا ہے اور ان لوگوں سے الگ دو عورتوں کو پایا کہ وہ (اپنے ریوڑ کو) روکے ہوئے کھڑی ہیں۔ موسیٰ نے کہا تمہارا کیا معاملہ ہے؟ ان دونوں نے کہا ہم اس وقت تک (اپنے جانوروں کو) پانی نہیں پلاتیں جب تک (یہ) چرواہے اپنے مویشیوں کو (پانی پلا کر) نہ لے جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں۔ (23) (یہ سن کر) موسیٰ نے (ان کے ریوڑ کو) پانی پلا دیا اور پھر وہاں سے ہٹ کر سایہ میں آگیا اور کہا اے میرے پروردگار! تو جو خیر (نعمت) بھی مجھ پر اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ (24) پس ان دو عورتوں مین سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی (اور) کہا میرے والد تمہیں بلاتے ہیں تاکہ تمہیں اس کا معاوضہ دیں جو تم نے ہماری خاطر پانی پلایا تو جب موسیٰ اس کے پاس پہنچا اور اسے سارا اپنا قصہ سنایا تو اس (بزرگ) نے (تسلی دیتے ہوئے) کہا خوف نہ کر اب تم ظالم لوگوں سے نجات پا گئے ہو۔ (25) تو ان دو میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا! اس کو اجرت پر رکھ لیجئے کیونکہ اچھا مزدور جسے آپ اجرت پر رکھیں وہی ہے جو طاقت ور بھی ہو اور امانت دار بھی۔ (26) اس (شعیب) نے (موسیٰ سے) کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا عقد نکاح تمہارے ساتھ اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال تک میری خدمت کرو اور اگر دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا۔ ان شاء اللہ تم مجھے نیکوکار لوگوں میں سے پاؤگے۔ (27) موسیٰ نے کہا (اچھا) یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ ان دونوں میں سے میں جو مدت بھی پوری کر دوں (اس کے بعد) مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔ (28) پھر جب موسیٰ نے (مقررہ) مدت پوری کر دی اور اپنے اہل و (عیال) کو ساتھ لے کر مصر روانہ ہوئے تو طور کی جانب سے آگ محسوس کی تو گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھہرو میں نے آگ محسوس کی ہے شاید میں تمہارے پاس (وہاں سے) کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم تاپو۔ (29) تو جب آپ وہاں گئے تو اس وادی کے داہنے کنارے سے اس مبارک مقام پر درخت سے انہیں ندا دی گئی اے موسیٰ! میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔ (30) اور یہ کہ تم اپنا عصا پھینک دو تو جب اسے دیکھا کہ اس طرح حرکت کر رہا ہے جیسے وہ سانپ ہے تو وہ منہ موڑ کر الٹے مڑے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (آواز آئی) اے موسیٰ! آگے آؤ۔ اور ڈرو نہیں تم (ہر طرح) امن میں ہو۔ (31) (اور) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی تکلیف (اور بیماری) کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور رفع خوف کیلئے اپنا بازو اپنی طرف سمیٹ لو یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے دو نشانیاں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے پیش کرنے کیلئے۔ بیشک وہ (بڑے) نافرمان لوگ ہیں۔ (32) موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا تھا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ (33) اور میرا بھائی ہارون جو مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے تو اسے میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج تاکہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔ (34) ارشاد ہوا: ہم تمہارے بازو کو تمہارے بھائی کے ذریعہ سے مضبوط کریں گے اور ہم تم دونوں کو غلبہ عطا کریں گے کہ وہ تم تک پہنچ بھی نہیں سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کی برکت سے تم اور تمہارے پیروکار ہی غالب آئیں گے۔ (35) تو جب موسیٰ ان لوگوں کے پاس کھلی ہوئی نشانیوں کے ساتھ آئے تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جادو اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ داداؤں کے زمانہ میں بھی نہیں سنیں۔ (36) اور موسیٰ نے کہا میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی طرف سے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کیلئے دار آخرت کا انجام بخیر ہے؟ بیشک ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔ (37) اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں تو اپنے سوا تمہارے لئے کوئی خدا نہیں جانتا تو اے ہامان! تو میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا (مٹی کو کچی اینٹوں کو پکوا) پھر میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا۔ تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے خدا کا کوئی سراغ لگا سکوں اور میں تو اسے (اس دعویٰ میں) جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔ (38) اور فرعون اور اس کی فوجوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔ (39) سو ہم نے اسے اور اس کی فوجوں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا تو دیکھو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟ (40) اور ہم نے انہیں ایسا پیشوا قرار دیا ہے جو (لوگوں کو) آتش (دوزخ) کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی۔ (41) اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن قبیح المنظر لوگوں میں سے ہوں گے۔ (42) اور پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد بالیقین ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی جو لوگوں کیلئے بصیرتوں کا مجموعہ اور سراپا ہدایت و رحمت تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (43) اور (اے رسول(ص)) آپ (کوہِ طور کی) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ سے (نبوت و رسالت) کا معاملہ طے کیا تھا اور نہ ہی آپ وہاں حاضرین میں سے تھے۔ (44) لیکن ہم نے (اس اثناء میں) کئی نسلیں پیدا کیں اور ان پر زمانہ دراز گزر گیا ہے (اور ہمارے عہد و پیمان کو بھلا دیا) اور نہ ہی آپ مدین والوں میں مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے لیکن ہم (آپ کو) رسول بنا کر بھیجنے والے تھے (اس لئے ان کے حالات سے آپ کو آگاہ کیا)۔ (45) اور نہ آپ کوہ طور کے دامن میں موجود تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) ندا دی تھی لیکن یہ (آپ کا مبعوث برسالت ہونا) آپ کے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (46) (اور شاید ہم رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اگر ان کے کرتوتوں کی پاداش میں انہیں کوئی مصیبت پہنچے تو وہ یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔ (47) جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آگیا (آخری برحق رسول آگیا) تو کہنے لگے اس (رسول) کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہتے تھے کہ ہم ہر ایک کے منکر ہیں۔ (48) آپ کہیے! کہ تم سچے ہو تو اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لاؤ جو ان دونوں (توراۃ، قرآن) سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو تو میں اسی کی پیروی کروں گا۔ (49) اور اگر وہ آپ کی یہ بات قبول نہ کریں تو پھر سمجھ لیں کہ وہ صرف اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے؟ بےشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (50) اور ہم نے ان کیلئے کلام (ہدایت نظام) کا تسلسل جاری رکھا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (51) جن کو ہم نے اس (نزولِ قرآن) سے پہلے کتاب عطا کی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ (52) اور جب یہ (قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے بےشک یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اور ہم تو اس سے پہلے ہی مسلم (اسے ماننے والے) ہیں۔ (53) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کی وجہ سے دوہرا اجر عطا کیا جائے گا اور وہ برائی کا دفعیہ بھلائی سے کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دے رکھا ہے وہ اس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔ (54) اور وہ جب کوئی فضول بات سنتے ہیں تو اس سے روگردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے! تم کو سلام! ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔ (55) (اے رسول(ص)) آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بہتر جانتا ہے۔ (56) اور وہ (کفارِ مکہ) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہمیں اپنی سر زمین سے اچک لیا جائے گا (یہاں سے نکال دیا جائے گا) کیا ہم نے ان کو ایسے امن والے محترم مقام میں جگہ نہیں دی؟ جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (57) اور ہم نے کتنی ہی ایسی بستیاں ہلاک کر دیں جو اپنی معیشت (خوشحالی) پر اترا گئی تھیں (دیکھو) یہ ان کے مکانات ہیں جو (اجڑے) پڑے ہیں جو ان کے بعد کم ہی آباد ہوئے ہیں آخرکار ہم ہی وارث ہیں۔ (58) اور آپ کا پروردگار بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے مرکزی مقام میں کوئی رسول نہ بھیج دے جو ہماری آیتوں کی تلاوت کرے اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں جب تک ان کے باشندے ظالم نہ ہوں۔ (59) اور تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے یہ محض زندگانی دنیا کا سرمایہ ہے اور اسی کی زیب و زینت اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور زیادہ پائیدار بھی تم عقل سے کیوں کام نہیں لیتے۔ (60) کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے اور وہ اسے پانے والا بھی ہے۔ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیوی زندگانی کا (چند روزہ) سامان دیا ہے۔ اور پھر قیامت کے دن (سزا کیلئے پکڑ کر) حاضر کیا جائے گا۔ (61) اور (وہ دن یاد رکھو) جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور فرمائے گا (آج) کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کو تم (میرا شریک) گمان کرتے تھے۔ (62) جن پر خدا کا حکم (عذاب) نافذ ہو چکا ہوگا۔ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں اسی طرح گمراہ کیا تھا جیسے ہم خود گمراہ تھے (اب) ہم تیری بارگاہ میں (ان سے) برأت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہماری پرستش نہیں کیا کرتے تھے۔ (63) پھر (ان سے) کہا جائے گا کہ اپنے (مزعومہ) شریکوں کو بلاؤ چنانچہ وہ انہیں پکاریں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہیں دیں گے۔ اور عذاب کو دیکھیں گے (اس پر وہ تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ (64) اور (وہ دن یاد کرو) جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ (65) اس دن ان پر خبریں تاریک ہو جائیں گی (کوئی جواب نہ بن پڑے گا) اور نہ ہی یہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کر سکیں گے۔ (66) البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو امید ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔ (67) اور (اے رسول) آپ کا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) منتخب کرتا ہے لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ پاک ہے اور جو وہ شرک کرتے ہیں وہ اس سے بلند و برتر ہے۔ (68) اور آپ کا پروردگار جانتا ہے وہ جو کچھ ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (69) وہی (ایک) اللہ ہے اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے اسی کیلئے ہر قسم کی تعریف ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اسی کی حکومت (فرمانروائی) ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ (70) آپ کہئے آیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر رات مقرر (مسلط) کر دے تو اللہ کے سوا کون الہ ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ (71) اور کہئے! آیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر قیامت تک تم پر دن مقرر (مسلط) کر دے تو اللہ کے سوا کون الٰہ ہے جو تمہارے پاس رات لائے جس میں تم آرام کرو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ (72) اور اس نے اپنی (خاص) رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے تاکہ (رات میں) آرام کرو۔ اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔ (73) اور (یاد کرو) وہ دن جس میں اللہ ان (مشرکین) کو پکارے گا اور کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جن کے متعلق تم گمان فاسد کیا کرتے تھے۔ (74) اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائیں گے پھر ان سے کہیں گے کہ اپنی دلیل و برہان لاؤ تب انہیں معلوم ہوگا کہ حق اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ جو افتراء پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہو جائیں گی۔ (75) بےشک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان کے خلاف سرکش ہوگیا۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی چابیاں ایک طاقتور جماعت کو بھی گرانبار کر دیتی تھیں (اس سے مشکل سے اٹھتی تھیں) جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی منزلت پر) مت اترا بےشک اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (76) اور اللہ نے تجھے جو کچھ (مال و زر) دیا ہے۔ اس سے آخرت کے گھر کی جستجو کر اور دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ اور جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اسی طرح (اس کے بندوں کے ساتھ) احسان کر۔ اور زمین میں فساد برپا کرنے کی خواہش نہ کر یقیناً اللہ فساد برپا کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (77) قارون نے کہا کہ مجھے جو کچھ (مال و منال) ملا ہے وہ اس (خاص) علم کی بدولت ملا ہے جو میرے پاس ہے کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی نسلوں کو ہلاک کر دیا ہے جو قوت میں اس سے سخت تر اور جمعیت میں زیادہ تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کرنا پڑتا۔ (78) وہ (ایک دن) اپنی قوم کے سامنے اپنی زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو جو لوگ دنیاوی زندگی کے طلبگار تھے وہ کہنے لگے کہ کاش ہمیں بھی وہ (ساز و سامان) ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے۔ (79) اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا وائے ہو تم پر! جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے اس کیلئے اللہ کا صلہ و ثواب اس سے بہتر ہے اور یہ (حکمت و منزلت) صرف صبر و ثبات کرنے والوں کو مرحمت کی جاتی ہے۔ (80) پھر ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا سو نہ اس کے حامیوں کی کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ اپنی مدد آپ کر سکا۔ (81) اور وہ لوگ جو کل اس کے جاہ و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے اب کہنے لگے افسوس (اب پتہ چلا) کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر (تنگدست بنا کر) احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا اور کافر کبھی فلاح نہیں پاتے۔ (82) یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں تکبر و سرکشی اور فساد برپا کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں کے ہی لئے ہے۔ (83) جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگوں کو جو برائیاں کرتے ہیں تو انہیں بدلہ بھی اتنا ہی ملے گا جتنا وہ (برائی) کرتے تھے۔ (84) (اے رسول(ص)) جس (خدا) نے آپ پرقرآن (کا پہنچانا) فرض کیا ہے وہ آپ کو واپسی کی منزل (مکہ) تک پھر پہنچا کر رہے گا۔ آپ کہئے! میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے؟ (85) اور آپ کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ آپ پر (یہ) کتاب نازل کی جائے گی۔ یہ تو بس آپ کے پروردگار کی رحمت ہے۔ لہٰذا آپ بھی کافروں کے پشت پناہ نہ بنئے گا۔ (86) اور (خیال رکھنا) کہ یہ لوگ آپ کو اللہ کی آیتوں (کی تبلیغ) سے کہیں روک نہ دیں بعد اس کے کہ وہ آپ پر نازل ہو چکی ہیں اور آپ اپنے پروردگار کی طرف (لوگوں کو) بلائیں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ (87) اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہ پکاریں اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ہر شئ ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے وجہ (ذات) کے اسی کی حکومت (اور فرمانروائی) ہے اور اسی کی طرف تم (سب) لوٹائے جاؤگے۔ (88)

قرآن