شیخ مفید کون تھا؟

مذہب

محمد بن محمد بن نُعمان (336 یا 338۔413 ھ) شیخ مفید کے نام سے مشہور چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ امامی متکلم و فقیہ ہیں۔ نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید نے علم اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ فقہی اجتہاد کی راہ میں ایک جدید روش کو متعارف کرایا جو افراطی عقل گرائی اور روایات کو بغیر عقلی پیمانے پر جانچے قبول کرنے کے مقابلہ میں ایک درمیانی راہ پر مبنی تھی۔

شیخ صدوق، ابن جنید اسکافی و ابن قولویہ ان کے برجستہ ترین اساتید، شیخ طوسی، سید مرتضی، سید رضی و نجاشی ان کے مشہور ترین شاگرد اور فقہ میں کتاب المُقنِعَہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور شیعہ ائمہ کی سیرت پر کتاب الارشاد ان کی معروف‌ ترین تالیفات میں سے ہیں۔

نسب، لقب اور ولادت
محمد بن محمد نعمان کی ولادت 11 ذی القعدہ 336 ھ یا 338 ھ میں بغداد کے پاس عکبری نامی مقام پر ہوئی۔

ان کے والد معلم تھے۔ اسی سبب سے وہ ابن المعلم کے لقب سے مشہور تھے۔ عکبری و بغدادی بھی ان کے دو دیگر القاب ہیں۔ شیخ مفید کے لقب سے ملقب ہونے سلسلہ میں نقل ہوا ہے: معتزلی عالم علی بن عیسی رمانی سے ہوئے ایک مناظرے میں جب انہوں نے ان کے تمام استدلالات کو باطل کرنے میں کامیابی حاصل کی تو وہ اس کے بعد سے انہیں مفید کہہ کر خطاب کرنے لگے۔

تاریخی منابع میں ان کی دو اولاد کا ذکر ہوا ہے: ایک ابو القاسم علی نامی بیٹے کا اور دوسرے ایک بیٹی ہے جس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے وہ ابو یعلی جعفری کی زوجہ ہیں۔

تعلیم
انہوں نے قرآن اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ شیعہ و اہل سنت محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔

شیخ صدوق (متوفی 381 ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی 381 ھ)، ابن قولویہ (متوفی 369 ھ)، ابو غالب زراری (متوفی 368 ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی 355 ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔

شیخ مفید نے بزرگ معتزلی استاد حسین بن علی بصری معروف بہ جعل اور نامور متکلم ابو الجیش مظفر بن محمد خراسانی بلخی کے شاگرد ابو یاسر سے علم حاصل کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کے کہنے پر اس زمانہ کے مشہور معتزلی عالم علی بن عیسی زمانی کے درس میں بھی شرکت کی۔

تقریبا 40 برس کی عمر سے شیعوں کی فقہی، کلامی و حدیثی زعامت ان کے ذمے ہوئی اور انہوں نے شیعہ عقائد کے دفاع کے لئے دوسرے مذاہب کے علماء سے مناظرات کئے۔

اخلاقی خصوصیات
نقل ہوا ہے کہ شیخ مفید کثرت سے صدقہ دیتے تھے، متواضع تھے، اکثر روزے رکھتے اور بیشتر وقت نماز میں مشغول رہتے تھے۔ موٹا لباس پہنتے تھے یہاں تک کہ انہیں شیخ مشایخ الصوفیہ کہا جانے لگا۔ ان کے داماد ابو یعلی جعفری کے مطابق وہ شب میں کم سوتے تھے اور بیشتر اوقات مطالعہ، نماز، تلاوت قرآن اور تدریس میں بسر کرتے تھے۔

مقام علمی
شیخ طوسی نے اپنئ کتاب الفہرست میں شیخ مفید کو تیز فہم، حاضر جواب، علم کلام و فقہ میں پیش گام ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم نے انہیں رئیس متکلمین کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ علم کلام میں انہیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اور انہیں بے نظیر ذکر کیا ہے۔

شیخ مفید نے بہت سے شاگرد تربیت کئے جن میں بعض بڑے شیعہ عالم ہوئے۔ ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
سید مرتضی (متوفی 436 ھ)
سید رضی (متوفی 406 ھ)
شیخ طوسی (متوفی 460 ھ)
نجاشی (متوفی 450 ھ)
سلَّار دیلمی (متوفی 463 ھ)
ابو الفتح کراجکی (متوفی 449 ھ)
ابو یعلی محمّد بن حسن جعفری (متوفی 463 ھ)۔
جدید فقہی روش
شیخ مفید نے فقہ شیعہ میں سابق عہد سے متفاوت روش پیش کی۔ سبحانی و گرجی کے مطابق، شیخ سے قبل دو فقہی روش کا رواج تھا: پہلی روش روایات پر افراطی صورت پر عمل پر مبتنی تھی، جس میں روایت کی سند و متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ دوسری روش میں روایات کے اوپر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور حد سے زیادہ عقلی قواعد پر تاکید کی جاتی تھی چاہے وہ قیاس کی مانند نصوص دینی کے ساتھ تعارض ہی کیوں نہ رکھتی ہوں۔ شیخ نے درمیانی راہ کا انتخاب کیا اور ایک جدید روش کی بنیاد رکھی کہ جس میں ابتدائی طور پر عقل کی مدد سے اسنباط و استخراج احکام کے لئے اصول و قواعد تدوین ہوتے تھے، اس کے بعد ان اصولوں کے ذریعہ متون دینی سے احکام استنباط کئے جاتے تھے۔ اسی سبب سے انہیں علم اصول فقہ کا مدون کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔

شیخ مفید کے بعد ان کے شاگرد سید مرتضی نے اپنی کتاب الذریعہ الی اصول الشریعہ اور شیخ طوسی نے کتاب العدہ فی الاصول کے ذریعہ اس راہ کو جاری رکھا۔

علمی مناظرے
شیخ مفید کے زمانہ میں مختلف اسلامی مذاہب کے بزرگ علماء کے درمیان بغداد میں علمی مباحثات ہوا کرتے تھے۔ ان میں بہت سے مناظرات عباسی خلفاء کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ شیخ ان جلسات میں حاضر ہوتے تھے اور شیعہ مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔

شیخ مفید کے گھر میں بھی ایسی بحثوں اور گفتگو کے لئے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مختلف اسلامی مذاہب کے علماء جیسے معتزلی، زیدی، اسماعیلی شرکت کیا کرتے تھے۔

قلمی آثار
تفصیلی مضمون: فہرست آثار شیخ مفید
فہرست نجاشی کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ۱۷۵ ہے۔ ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔

ان کی معروف ترین کتب میں علم فقہ میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت ائمہ (ع) کے سلسلہ میں کتاب الارشاد قابل ذکر ہیں۔

شیخ مفید کا مجموعہ آثار ۱۴ جلدوں میں تصنیفات شیخ مفید کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۷۱ ش میں شیخ مفید عالمی کانگریس کے موقع پر منظر عام پر آ چکا ہے۔

عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں امامت، 10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ، 41 کتابیں فقہ، 12 کتابیں علوم قرآن، 5 کتابیں اصول فقہ، 4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں حدیث کے موضوع پر لکھی ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔

ہزار سالہ عالمی کانفرنس
تفصیلی مضمون: ہزار سالہ عالمی کانفرنس
شیخ مفید ہزار سالہ عالمی پروگرام 24۔26 شوال 1413 ھ) میں مدرسہ عالی تربیتی و قضایی قم میں منعقد ہوا۔ جس میں اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے بزرگان و متفکرین نے شرکت کی اور شیخ مفید کی علمی و دینی شخصیت کے سلسلہ میں مقالات پیش کئے۔

وفات
سن 413 ھ میں 2 یا 3 رمضان جمعہ کے روز شیخ مفید 75 یا 77 سال کی عمر گزار کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کی وفات پر اس سے بڑا جم غفیر نہیں دیکھا۔ لوگ اعتقادی اور مذہبی تفریق کے بغیر ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور گریہ کیا۔ مؤرخین نے ان کے جنازے میں شریک ہونے والے شیعوں کی تعداد 80/000 بیان کی ہے دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے علاوہ تھے۔ میدان "اشنان” میں ان کی نماز جنازہ سید مرتضی نے پڑھائی اور انہیں ان کے گھر کے صحن میں دفن کیا گیا۔ دو سال کے بعد ان کے جسد کو حرم کاظمین کی پائنتی کی جانب قریش کی قبروں کی طرف ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی سمت دفنایا گیا۔

شیخ مفید پر فیلم
1374 ش میں شیخ مفید پر 90 مینٹ کی ایک فیچر فیلم بنائی گئی۔ جس کے رائٹر محمود حسنی اور ڈائریکٹر سیرووس مقدم و فریبرز صالح تھے۔ 1381 ش میں یہ فیلم سیریل اور ڈرامہ کی شکل میں خورشید شب کے نام سے ایرانی ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی گئی۔

رمضان 2025 – 1446

اپنی زکوٰۃ، فدیہ، زکوٰۃ الفطر اور کفارہ کا حساب لگائیں اور ادا کریں۔ افطار کے لیے عطیہ کریں اور اپنی زکوٰۃ اور عطیات براہ راست اپنے والیٹ (Wallet) سے ادا کریں یا ایکسچینج کریں۔

بات پھیلائیں، مزید مدد کریں۔

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں اور ہماری ویڈیوز دیکھیں تاکہ ضرورت مندوں کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لائی جا سکے۔ آپ کی مدد کسی کے لیے وہ دستِ تعاون ثابت ہو سکتی ہے جس کا وہ منتظر ہے۔