وجوہات شرعی سے مراد، وہ مال یا رقوم ہیں کہ جو خمس، زکات، کفارات، رد مظالم، نذورات اور موقوفات کے عنوان سے، مکلف ادا کرتا ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ خمس اور زکوت، صرف حاکم شرع یا اس کے نمائندہ یا وکیل کو دی جانی چاہیے۔
معنی ومفہوم کی وضاحت
وجوہات، وجوہ کی جمع ہے کہ جس کے معنی عربی لغت میں پیسے اور رقم کے ہیں۔[1] لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ سخن، جیسی لغت کی کتب میں آیا ہے کہ وجوہات کے عرفی اور رائج معانی میں سے ایک معنی، خمس اور زکات [2] نیز رد مظالم کی وہ رقوم ہیں جو مجتہدین کو دی جاتی ہیں۔[3] بعض فقہاء نے وجوہات کو وجوہات بریہ [4] (یعنی وہ رقوم کہ جو نیکی اور نیک اعمال کی خاطر دوسروں کو دی جائیں) کے نام سے جانا ہے۔[5]
فقہاء نے وجوہات شرعیہ کی اصطلاح کو علم فقہ کے مختلف عناوین کے ذیل میں استعمال کیا ہے۔[6] بعض فقہاء کا کہنا ہے چونکہ علم فقہ میں وجوہات شرعیہ کی تعریف نہیں کی گئی ہے اس لئے اس کی فقہی اصطلاحی تعریف نہیں ہو سکتی بلکہ عرفی اصطلاح (یعنی عوام کے درمیان رائج اصطلاحی معنی) مراد ہوں گے۔[7] اور اس کے عرفی (رائج) معنی میں وہ تمام رقوم شامل ہوں گی جو بالغ شخص، احکام شرعی کی بنیاد پر ادا کرتا ہے۔[8]
مصادیق
بعض علماء نے وجوہات شرعیہ کو صرف واجبات شرعیہ (خمس و زکات کی رقوم) کی حد تک جانا ہے[9] لیکن بعض دیگر علماء کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعیہ سے مراد وہ تمام دینی رقوم اور آمدنی [10] ہیں کہ جو مثلا: خمس، زکات، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب کے عنوان سے ادا کی جائیں۔[11] بعض علماء کا نظریہ ہے کہ اوقاف (شرعی وقف شدہ چیزوں کے منافع) اور قیمتی تحائف [12] وجوہ شرعیہ میں داخل ہیں اور نیز بعض علماء نے انفال کو وجوہات شرعیہ میں قرار دیا ہے۔[13] محمد حسین نائینی نے اپنے وکیل، جناب مہدی بہبہانی کو جو اجازہ وکالت دیا تھا اس میں حق امام، مجہول المالک (یعنی جس مال یا پیسے کا مالک معلوم نہ ہو)، زکات، نذر، اور ہر قسم کے صدقات، کفارے اور اسی طرح اجارہ کی عبادات کی رقوم کو وجوہات شرعیہ میں شمار کیا ہے۔[14]
بعض کا کہنا ہے کہ وجوہات شرعی حسب ذیل چیزوں کو شامل ہوتی ہیں:[15]
- فدیہ: اس سے مراد وہ رقم اور مال ہے کہ جو بعض واجبات کے ترک کے سبب، بالغ شخص پر واجب ہے۔ مثلا: جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلہ ایک مد، طعام یا اس کے برابر رقم فقیر کو دے۔
- کفارہ: اس کا موضوع، وہ جرمانہ ہے کہ جس کا ادا کرنا کسی حرام کام کو انجام دینے یا واجب کو ترک کرنے کے سبب بالغ شخص پر واجب ہوتا ہے۔ جیسے: واجب روزہ عمدا ترک کرنے کا کفارہ، قتل کا کفارہ، قسم توڑنے کا کفارہ، ظہار و ۔۔۔
- خراج: وہ مالی حق ہے کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے زمین کے خاص حصوں کے لئے قرار دیا جائے۔
- خمس: سال بھر کے اخراجات کے بعد جو باقی بچ جائے اس کا پانچواں حصہ، خمس کے طور پر نکالنا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر جیسے: کان (ہیرے، جواہرات اور سونا و چاندی اور قیمتی پتھر اور ۔۔۔ کی کانیں)، اور ملا ہوا خزانہ، ان شرائط کے ساتھ کہ جو فقہی کتب میں بیان ہوئے ہیں۔
- زکات: جب خاص مال اپنے معینہ نصاب تک پہنچ جائیں تواس میں سے خاص مقدار میں ادا کرنا۔
- زکات فطرہ: مال یا نقد پیسے کی صورت میں بالغ شخص پر شب عید فطر غروب کے وقت ہر سال واجب ہے۔
- جزیہ: مال یا پیسے (ٹیکس کے طور پر) کہ جو اسلامی حکومت بعض اہل ذمہ سے وصول کرتی ہے۔
- عُشر: یہ اس مال کو کہا جاتا ہے کہ جو غیر مسلم تاجروں سے اسلامی سرزمین پر تجارت کے لئے لیا جاتا ہے۔[16]
رقوم شرعی کسے دی جائیں؟
بعض علماء کا کہنا ہے کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہرشخص رقوم شرعی میں استعمال کا حق نہیں رکھتا ہے جبکہ اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں ہے۔[17] ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حاکم، چاہے جس اخلاقی اور علمی خصوصیت کا مالک ہو صرف اس بنا پر کہ وہ حاکم اسلامی ہے رقوم شرعی کو استعمال کا حق اور اختیار رکھتا ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ صرف، حاکم شرع اور اس کے نمائندے رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتے ہیں۔[18] امام معصوم کی موجودگی میں، صرف امام معصوم ہی رقوم شرعی میں استعمال کا حق رکھتا ہے اور غیبت کے زمانے میں، عادل اور جامع الشرائط فقہاء و مجتہدین کو ان رقوم کے استعمال کی اجازت ہے۔[19] آیت اللہ خامنہ ای کے فتوی کے مطابق، شرعی رقوم کا مسئلہ اگرچہ ولی امر مسلمین سے متعلق ہے، لیکن مراجع تقلید میں سے کسی بھی مرجع کے مقلدین، رقوم شرعی کے دونوں حصوں(سہم امام اور سہم سادات) کو ادا کرنے میں اپنے مرجع کے فتوی کے مطابق عمل کر سکتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے شرعی فریضہ سے سبکدوش ہو جائیں گے۔