مذہب

خُمس ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا اطلاق فقہ میں مذکور مخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اور بعض دوسری چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ خمس، فروع دین میں سے ہے جس کا تذکرہ سورہ انفال کی آیت نمبر 41 اور کتب احادیث میں 110 سے زیادہ احادیث میں ملتا ہے۔

خمس کے وجوب کو کم و بیش اسلام کے تمام مذاہب قبول کرتے ہیں لیکن مذہب امامیہ میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس کی بنا پر خمس کی ادائگی کو اہل تشیع ایک اہم شرعی ذمہ داری اور عبادت کے طور پر خاص اہمیت دیتے ہیں۔

خمس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں سے ایک حصہ سہم سادات کہلاتا ہے جسے پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے فقیر سادات جو اپنی زندگی کے اخراجات پوری نہیں کر سکتے، کو دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ سہم امام جسے امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں جامع الشرائط مجتہد کے توسط سے مختلف دینی امور میں خرچ کیا جاتا ہے۔

خمس سے حاصل ہونے والی وجوہات دینی مدارس اور اسلامی معاشرے میں دینی معارف کی تروج میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

قرآنی دلیل

قرآن مجید میں سورہ انفال کی آیت نمبر 41 میں خداوند عالم نے خمس کی ادائگی کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقانِترجمہ= اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔

شأن نزول: یہ آیت خمس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کیونکہ یہ آیت جنگ بدر کے مجاہدین سے مخاطب ہے اور انکی حقیقی ایمان کو خمس کی ادائگی کے ساتھ مشروط فرما رہے ہیں۔

غنیمت کے معنی

لغوی اعتبار سے "غُنم” اس منفعت کو کہا جاتا ہے جسے انسان حاصل کرتا ہے فرق نہیں یہ منفعت تجارت وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو یا جنگ کے ذریعے حاصل ہو یا کسی اور طریقے سے۔ راغب اصفہانی ، مفردات القرآن میں کہتا ہے کہ "غنم” اصل میں بھیڑ کے معنی سے لیا گیا ہے جسے بعد میں ہر اس منفعت پر اطلاق کیا گیا جو انسان دشمن یا غیر دشمن سے حاصل کرتا ہے۔ طبرسی نے بھی غُنم کو منفعت کے معنی میں لیا ہے نہ فقط جنگی غنیمت میں جس طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 94 میں "غنائم” سے مراد بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو غنیمت کو صرف جنگی غنائم کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں وہ بھی غنیمت کے اصلی معنی کی وسعت سے انکار نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس کا اصلی معنی انسان کو حاصل ہونے والی ہر منفعت ہے۔

احادیث خمس

وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں تقریبا 110 احادیث خمس کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ روایات میں خمس کیلئے جو آثار بیان ہوئے ہیں ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:

  • نسل کی پاکیزگی [1]
  • دین کی تقویت [2]
  • اہل بیت(علیہ السلام)کا مددگار [3]
  • مال و دولت کی پاکیزگی [4]
  • دشمنوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں عزت و آبرو کی حفاظت [5]
  • اہل بیت (علیہم السلام) کی ذریت سے فقر اور تنگدستی کا خاتمہ [6]
  • گناہوں کا کفارہ اور قیامت کیلئے ذخیرہ [7]
  • بہشت کی ضمانت [8]
  • امام کی دعا [9]
  • رزق کی کنجی [10]

اسلام کی تاریخ میں خمس

فقہا اور مفسرین کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال، جنگ بدر کے دوران خمس واجب ہوا۔ اس جنگ میں نصیب ہونے والی کثیر غنیمت‌ نے اسے جمع کرنے والوں کے درمیان اس کی تقسم کے حوالے سے تنازعات اور اختلاف پیدا کئے۔ اسللام سے پہلے عربوں میں یہ رواج تھا کہ اس طرح کے مواقع پر جنگ کا سپہ سالار غنیمت کے چوتھے خصے کا مالک بنتا تھا اور بقیہ تین حصے دیگر جنگجؤوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ [11]

آیت انفال کے نازل ہونے کے ساتھ انفال کل کا کل رسول خدا سے مختص ہوا۔ اس کے بعد آیہ خمس نے 1/5 حصہ بہ عنوان خمس کم کرنے کے بعد غنیمت کو جمع کرنے والوں کی ملکیت قرار دے دی۔ طبری نے پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے پہلی مرتبہ خمس کے دریافت کرنے کو غزوہ بنی قینقاع کی طرف نسبت دی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین سے مختلف احادیث اور خطوط خمس کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں جو خمس کے فقہی احکام کیلئے منبع اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ائمہ معصومین کے بعض شاگردوں نیز غیبت صغری کے دوران شیعہ فقہاء جیسے حسین بن سعید اہوازی، علی بن مہزیار اہوازی، محمد بن اورمہ قمی اور محمد بن حسن صفار نے بھی خمس کے بارے میں مختلف رسالے اور کتابیں لکھی ہیں۔ اسکے علاوہ بعد کے ادوار میں بھی اس حوالے سے رسالوں اور کتابوں کی تالیف شیعہ فقہاء اور علماء کی سیرت میں شامل رہی ہے۔[12]

خمس کا مصرف

سہم امام اور سہم سادات

خمس سے مربوط آیت میں صاحبان خمس کو چھ گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱.خداوند (لِلہ)، ۲.رسول خدا (لِلرّسولِ)، ۳.ذی القُربی، ۴.ایتام، ۵.مساکین، ۶.وہ لوگ جو سفر میں تنگدستی کا شکار ہو گئے ہوں(ابن سبیل)۔

"ذی القُربی” لغت میں انسان کے ہر قسم کی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے۔ لیکن احادیث کی روشنی میں اس آیت میں ذوی القربی سے مراد ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ [13]

سہم امام: جس میں مذکروہ بالا گروہ میں سے ” خدا” و ” پیامبر” اور "ذی القربی” شامل ہے، احادیث کے مطابق اسلامی حکومت کے حاکم اعلی (پیغمبر یا امام معصوم) سے مختص ہے جو "سَہم امام” کے نام سے معروف ہے۔ غیبت کبرا کے زمانے میں جامع الشرایط مجتہدین امام زمان(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے سہم امام دریافت کرتے ہیں اور معصومین کے فرامین کے تحت مختلف دینی امور میں صرف کرتے ہیں۔
سہم سادات: خمس کے حوالے سے دوسری بحث یہ ہے کہ آیا خمس سے مربوط آیت میں یتیم، مسکین، اور ابن سبیل سے مراد ہر وہ شخس ہے جس پر یتیم، مسکین، اور ابن سبیل صدق آتا ہے یا یہ کہ اس سے مراد صرف وہ فقیر، مسکین اور ابن سبیل مراد ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے ہو؟
شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ سے ایسے فراد ہیں جن پر یہ عناوین صدق آتے ہیں۔[14] اسی بنا پر اس حصے کو "سہم سادات” کہا جاتا ہے

جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے

مشہور شیعہ فقہا کے مطابق ائمہ معصومین کے فرامین کی روشنی میں جن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. کار و بار یا کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والے منافع میں سے سال کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچ جائے۔ (احکام)
  2. مال غنیمت، کافر حربی کے ساتھ جنگ سے حاصل ہونے والی غینمت، منقول یا غیر منقول۔ (احکام)
  3. معدنیات، جس میں سونا، چاندی، لوہا، تانبہ، پیتل، پتھر کا کوئلہ، تیل، گندھگ، فیروزہ، نمک اور دوسری چیزیں جو کان کھود کر نکالی جاتی ہیں ۔(احکام)
  4. خزانہ (گنج) یعنی وہ مال جو زمین، پہاڑ، دیوار، یا درخت وغیرہ کے اندر چھپایا گیا ہو۔ (احکام)
  5. جواہرات، غوطہ خوری کے ذریعے سمندر یا دریا سے جو موتی، مونگے وغیرہ ملتی ہیں (احکام)
  6. مال مخلوط بہ حرام، حلال مال کا حرام مال کے ساتھ اس طرح مخلوط ہونا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہ ہو اور مال حرام کی مقدار اور اس کے مالک کا بھی کوئی علم نہ ہو ۔( احکام)
  7. جو زمین کافر ذمی کسی مسلمان سے خریدے ۔ (احکام)

خمس کا محاسبہ اور اس کی ادائیگی

  • خمس کی ادائیگی میں تأخیر جائز نہیں ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خمس کی ادئیگی تاخیر سے کام لے اور اپنے آپ کو خمس کا مقروض قرار دے۔
  • بیوی بچوں کے مال دولت کا خمس ان کے اپنے ذمہ ہیں۔
  • خمس کو مجتہد تک پہنچانا واجب ہے یا اس کی اجازت سے خرچ کرے لہذا مجتہد کی اجازت کے بغیر خمس کو کسی کام میں خرچ کرنا چائز نہیں ہے۔
  • خمس ایک عبادت ہے اس بنا پر قصد قربت کی ضرورت ہے۔

خمس کا سال

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزہ رکھنا چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ سال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے ہوئے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتداء:

  • کسان کے لئے………………. پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔
  • ملازم کے لئے………………. پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • مزدورکے لئے ……………… پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔
  • دوکاندار کے لئے…………… پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔
  • اگر کسی نے اب تک خمس کا سال معین نہ کیا ہو تو بہترین کام یہ ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کرتا ہے ان کے دفتر یا ان کے وکیل سے رجوع کیا جائے۔

خمس کے احکام

  • اگر گھر کے لئے سامان خریدا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہے تو احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے، مثال کے طور پر ایک بڑا فرج خریدے اور پہلے فرج کی ضرورت باقی نہ رہے۔
  • اشیائے خوردو نوش جیسے چاول، تیل، چائے وغیرہ جو سال کی آمدنی سے اس سال کے خرچہ کے لئے خریدی جاتی ہے، اگرسال کے آخر میں بچ جائے تو اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر ایک نابالغ بچے کا کوئی سرمایہ ہو اور اس سے کچھ نفع کمائے تو احتیاط واجب کے طور پر اس بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • جو شخس کسی پیشے سے وابستہ نہ ہو اور اتفاقا کوئی کاروبار انجام دے اور اس میں اسے منافع حاصل ہو تو ایک سال گذرنے کے بعد سال کے اخراجات کو کسر کرنے کے بعد مابقی کا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا کرنا واجب ہے۔ [15]
  • بعض آمدنیوں(جیسے بخشی گئی چیزیں، انعامات اور عیدی وغیرہ) کے اوپر خمس واجب ہونے اور نہ ہونے میں مجتہدین کا اختلاف ہے ۔
  • اگر قناعت کرکے کوئی چیز سالانہ خرچہ سے بچ جائے اس کا خمس دینا چاہئے۔
  • اگر شک کریں کہ میزبان خمس ادا کرتا ہے یا نہیں تو تحقیق کرنا واجب نہیں ہے اور کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سال کا خرچہ

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔ لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔ اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کا پانچواں حصہ خمس کے عنوان سے ادا کردے اور باقی اپنے لئے بچت کرے۔ لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیں جو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

  • خوارک و پوشاک
  • گھریلو سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔
  • گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔
  • مہانوں کا خرچہ۔
  • شادی بیاہ کا خرچ۔
  • ضروری اور لازم کتابیں۔
  • زیارت کا خرچ
  • انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں۔
  • ادا کیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔

اہل سنت میں خمس کا نظریہ

اہل سنت کے فقہی منابع میں خمس کا موضوع بنیادی طور پر جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت کے باب میں مورد بحث قرار پاتا ہے۔ اہل سنت فقہاء، شیعہ فقہاء کی طرح خمس سے مربوط آیت اور متواتراحادیث کی روشنی میں خمس کے وجوب پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ خمس کے باب میں عمدہ اختلاف موارد وجوب خمس اور خمس کے مصرف میں ہے۔ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں وجوب خمس کے اہم ترین موارد جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت ہے۔ اس حوالے سے ان کا اصلی مدرک خمس سے مربوط آیت ہے جس کا شأن نزول مفسرین کے نظریے کے مطابق جنگ بدر سے مربوط ہے۔ اس کے باوجود اہل سنت فقہاء گنج(خزانہ/ دفینہ) کو بھی خاص شرایط کے ساتھ وجوب خمس کے موارد میں شمار کیا ہے۔ فیء اسی طرح معدنیات کے مختلف اقسام اور کافر ذمی کا مسلمان سے خردی ہوئی زمین کے بارے میں بھی وجوب خمس کے حوالے سے اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

مذہب

وقف عوام کے فردی یا گروہی استفادہ کے لئے کسی مال کو اس کے منافع سے استفادہ کرنے کیلئے بغیر کسی عوض کے بخش دینا ہے۔ وقف شدہ اموال کو کسی کو بھی چاہے وہ وقف کرنے والا ہو یا کوئی اور فروخت کرنے یا کسی کو بخشنے کا حق نہیں ہے۔ قرآن مجید میں وقف کا صریح طور پر ذکر نہیں ہوا ہے۔ احادیث میں صدقہ جاریہ کے عنوان سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔ وقف کی تاریخ اسلام سے پہلے کی ہے۔ البتہ پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں وقف اصحاب کے درمیان میں رائج تھا اور آنحضرت (ص) و امام علی (ع) کے وقف نے نمونے منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔

وقف اسلامی عقود میں سے ہے۔ فقہی کتابوں میں اس کے شرایط اور احکام کا ذکر ہوا ہے۔ وقف کی دو قسمیں ہیں: وقف خاص و وقف عام۔

مسجد، مدرسہ، کتب خانہ، اسپتال اور زیارت گاہ کو وقف کے فرایض میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی ممالک میں امور اوقاف کو سنبھالنے کے لئے ادارے بنائے گئے ہیں۔

تعریف فقہی و اقسام

وقف فقہاء کی اصطلاح میں کسی معین مال کو بخش کر اس کے منفعت اور ثمرے سے استفادہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مکان کو فقراء کے لئے مخصوص کر دیا جائے تا کہ فقراء اس سے استفادہ کر سکیں اور اس مکان کا خریدنا یا بیچنا ممکن نہ ہو۔ وقف میں مال وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور وقف کرنے والے یا جن کے لئے وقف اسے کیا گیا ہے کسی کو بھی اس کے بیچنے یا کسی کو بخشنے کا حق نہیں ہے۔

وقف اسی صدقہ جاریہ کو شمار کیا گیا ہے جس کا ذکر احادیث میں ہوا ہے کیونکہ اس کے منافع ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔

وقف عام و وقف خاص

تفصیلی مضمون: وقف عام اور وقف خاص

فقہی کتابوں میں وقف کو وقف عام اور وقف خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس وقف کا مقصد عام افراد یا عام گروہ ہو اسے وقف عام کیا جاتا ہے جیسے کسی مدرسہ یا اسپتال کا وقف کرنا یا کسی مال کا فقراء یا اہل علم کے لئے وقف کرنا۔ جس وقف کا ہدف عام افراد یا کوئی خاص گروہ ہو اسے وقف خاص کہتے ہیں۔ مثلا کسی مکان کا کسی خاص شخص یا خاص اشخاص کے لئے وقف کرنا۔

منزلت اور اہمیت

وقف ابواب فقہ میں سے ہے اور فقہی کتابوں میں اس کے صحیح ہونے کے شرایط و احکام کے سلسلہ میں بحث ہوئی ہے۔ کتب روایی میں وقف، صدقہ اور ہبہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔

قرآن میں وقف پر دلالت کرنے والی کوئی صریح آیت موجود نہیں لیکن آیات الاحکام پر مبنی منابع میں وقف سُکنی (کسی مال کے منافع کو معینہ مدت کیلئے استفادہ کرنا)، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے ساتھ عطایائے مُنجّزہ (وہ اموال جو کسی عوض کے بغیر دوسرے کو دیئے جاتے ہیں) کے عنوان اور بعض آیات قرآنی جیسے انفاق و مال کا بخشنا کے مفاہیم کے مصداق کے تحت موجود ہے۔

احادیث کے مطابق صدقہ جاریہ (وقف) ان چیزوں میں سے ہے جس کا سلسلہ انسان کے مرنے کے بعد تک جاری رہتا ہے اور اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ البتہ ان روایات میں وقف کا لفظ بہت کم‌ استعمال ہوا ہے اور صدقہ کا عنوان زیادہ رائج‌ ہے۔ حالانکہ احکام وقف سے مربوط روایات میں لفظ وقف کا استعمال ہوا ہے۔

وقف مسلمانوں کے درمیان پر بحث ترین موضوعات میں سے ہے اور فقہی نوشتوں کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں۔ کتاب ماخذ شناسی وقف مولف سید احمد سجادی میں وقف کے سلسلہ میں 6239 عناوین مذکور ہیں جن میں کتب، مقالات، تھیسیز، مخطوطات، خبر اور مجلات میں شائع ہونے والی گزارشات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

تاریخچہ

وقف کی تاریخ قدیم نقل ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی اس کا وجود تھا۔ البتہ اسلام کے بعد عصر پیغمبر (ص) سے ہی وقف مسلمانوں کے درمیان رائج ہو گیا تھا۔ آنحضرت (ص) نے خود بعض اموال وقف کئے۔ منجملہ ان میں سے آپ نے پہلی مرتبہ میں ابن السبیل (مسافرین) کے لئے ایک زمین وقف فرمائی۔ اسی طرح سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ اصحاب کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو مالی اعتبار سے توانائی رکھتا ہو اور اس نے کچھ وقف نہ کیا ہو۔

ائمہ معصومین (ع) کے درمیان امام علی (ع) نے سب سے زیادہ اموال وقف کئے۔ ابن شہر آشوب کے مطابق، امیر المومنین (ع) نے ینبع میں 100 چشمے کھودے اور انہیں حاجیوں کے لئے وقف کر دیا۔ اسی طرح سے آپ نے کوفہ و مکہ کے راستے میں کچھ کنویں کھودے اور مدینہ، میقات، کوفہ و بصرہ میں مساجد بنائیں اور ان سب کو وقف کر دیا۔

اس کے بعد مسلمانوں کے موقوفات اس قدر زیادہ ہو گئے کہ بنی امیہ کے دور میں انہیں چلانے کے لئے ادارے تاسیس کئے گئے اور اس کے بعد کے زمانوں میں حکومت خود ان اداروں کو چلاتی تھی۔

فعالیت و کارکردگی

وقف کے سلسلہ میں بعض تحریروں میں اس کے اقتصادی و سماجی آثار کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ تاریخی گزارشات کے مطابق، وقف کے بعض موارد و مصارف یہ تھے: مساجد، مدارس، کتب خانوں، اسپتالوں، معلولین کے لئے مراکز، پانی کے انبار، چشموں کی تعمیر اور غرباء و ایتام، معلولین، اسیروں کے امور کی رسیدگی، علماء کی زندگی کے مخارج۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اوقاف نے سماجی تحفظ، صحت اور علاج کے شعبوں اور علوم و فنون کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

بعض نے تاریخی تحقیقات کے مطابق، وقف کی کارکردگی کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  • ثقافتی امور: جیسے مدارس و کتب و کتب خانوں کی تاسیس۔
  • صحت عامہ کے امور: جیسے اسپتالوں، مراکز معلولین و عمومی حماموں کی تاسیس
  • سماجی و رفاہی امور: کاروان سراوں، پلوں، خانقاہوں، پانی کے ذخایر، چشموں اور کارخانوں کی تعمیر۔
  • مذہبی امور: مساجد و زیارت گاہوں کی تعمیر۔

آج کے دور میں مذہبی مقامات جیسے ائمہ معصومین (ع) کے روضے، مساجد، دینی مدارس زیادہ تر موقوفات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چلتے ہیں۔ [حوالہ درکار]

ادارہ موقوفات

اسلامی دنیا میں موقوفات کی کثرت سبب بنی کہ اسلامی حکومتوں کی جانب سے وزارت اوقاف تاسیس کئے جائیں۔ یہ سلسلہ نہایت قدیم ہے اور تاریخی گزارشات کے مطابق، اس کی بازگشت بنی امیہ کے دور حکومت کی طرف ہوتی ہے۔ اس دور میں قاضی شہر بصرہ توبت بن نمر نے موقوفات کو ثبت و درج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح سے اس نے اس شہر میں دیوان اوقاف کی بناء رکھی۔

دور ایلخانان میں ایک ادارہ حکومت موقوفات کے نام سے موجود تھا جو قاضی القضات کے زیر نظر فعالیت انجام دیتا تھا۔ ایران میں پہلی بار صفویہ دور حکومت میں اوقاف کو چلانے کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ بڑے شہروں میں اپنے نمائندے رکھتا تھا جنہیں وزیر اوقاف کا نام دیا جاتا تھا۔

اسلامی ممالک میں امور اوقاف کے انتظام کے لئے خاص ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ جن میں سازمان اوقاف و امور خیریہ ایران، دیوان وقف شیعی و دیوان وقف سنی عراق، وزارت اوقاف مصر، وزارت اوقاف و امور اسلامی کویت و شورای عالی اوقاف سعودی عرب شامل ہیں۔

شرایط صحت وقف

فقہاء نے وقف کے صحیح ہونے کے شرایط ان چار چیزوں میں ذکر کئے ہیں: وقف کیا گیا مال، واقف (وقف کرنے والا)، جن کے لئے وقف کیا گیا ہو اور وقف کرنے کا عمل۔

وقف کیا گیا مال

وقف کئے گئے مال میں چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

  • خارج میں معین مقدار میں مال موجود ہو۔ اس شرط کے مطابق، اگر مال کسی اور کے پاس ہو تو اسے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے گھر کو معین کئے بغیر وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معین ہونا چاہئے کہ کون سا گھر وقف کرنا چاہتا ہے۔
  • جس چیز کو وقف کر رہا ہے وہ ملکیت کے قابل ہو۔ اس شرط کے مطابق، مثلا خوک کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ مسلمان کی ملکیت میں نہیں آ سکتا ہے۔
  • اس مال کے منافع سے استفادہ کرنا ممکن ہو اور ایسا کرنے سے اصل مال ختم نہ ہو۔ اس شرط کے مطابق، پیسے کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اس کے منافع سے استفادہ کرنا اس کے خود کے ختم ہونے کا سبب بنے گا۔
  • واقف سے وقف کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس شرط کے مطابق واقف کسی دوسرے کا مال وقف نہیں کر سکتا ہے کیونکہ اس مال کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔

واقف

وقف کرنے والا بالغ اور عقلی اعتبار سے رشد یافتہ ہو اور اسی طرح سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہو۔

جن کے لئے وقف کیا گیا ہو

جن کے لئے وقف کیا گیا ہے انہیں موجود ہونا چاہئے، فرد یا افراد معین ہوں اور ان کے لئے وقف کرنا حرام نہ ہو۔ ان شروط کے مطابق، ایسا بچہ جو ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے اس کے لئے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے ڈاکووں اور کفار حربی کے لئے کوئی چیز وقف نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسے افراد کے لئے وقف کرنا حرام ہے۔

وقف کرنے کا ظریقہ

وقف کرنا اس وقت صحیح ہے جب اس میں مندرجہ ذیل شرایط پائے جاتے ہوں:

  • ہمیشہ کے لئے ہونا: یعنی وقف کی کوئی مدت معین نہیں ہونا چاہئے۔ لہذا کسی خاص معین مدت کے لئے وقف کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح سے کسی خاص معین شخص کے لئے وقف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے انتقال کے ساتھ ہی وقف ختم ہو جائے گا۔
  • موجود ہونا: یعنی صیغہ وقف کو آئندہ ملنے والے (مثلا اول ماہ) کسی مال کے لئے نہیں پڑھا جا سکتا ہے۔
  • مال کا لینا: جب تک وقف کی گئی چیز، واقف سے مل نہ جائے (اس پر قبضہ نہ مل جائے) اس پر وقف کا اطلاق نہیں ہوگا اور وہ واقف کی ملکیت مانی جائے گی۔
  • واقف کی ملکیت سے خارج ہونا: اس شرط کے مطابق، کوئی خود اپنے لئے کسی چیز کو وقف نہیں کر سکتا ہے۔

احکام

وقف کے بعض احکام رسالہ توضیح المسائل کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں:

  • وقف کیا گیا مال، وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے اور وقف کرنے والا اسے بیچ یا بخش نہیں سکتا ہے نہ ہی وہ کسی کو میراث میں مل سکتا ہے۔
  • وقف کیا گیا مال خریدا اور بیچا نہیں جا سکتا ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کا فتوی یہ ہے کہ وقف کے لئے صیغہ وقف کا جاری کرنا ضروری ہے۔ لیکن صیغہ عربی میں پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ بعض دیگر مراجع تقلید صیغہ پڑھنے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس چیز کے بارے میں لکھ لینا یا ایسا عمل انجام دینا جس کے وقف کا پتہ چل رہا ہو تو وقف صحیح ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کے فتاوی کے مطابق، جن کے لئے وقف کیا جا رہا ہے ان کے قبول کی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے وقف عام ہو یا وقف خاص، البتہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ وقف خاص میں جس فرد یا جن افراد کے لئے وقف کیا گیا ہے ان کا قبول کرنا شرط صحت ہے۔
  • انسان اپنے لئے وقف نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے فقراء کے لئے کوئی مال وقف کیا اور بعد وہ خود غریب ہو گیا تو غریب ہونے کے عنوان سے اس مال کے منافع سے استفادہ کر سکتا ہے۔
  • اگر مال موقوفہ خراب ہو چکا ہو تو بھی وہ وقف سے خارج نہیں ہوگا۔ اگر وہ قابل تعمیر ہو تو اس کی تعمیر کی جائے گی اور اگر قابل تعمیر نہ ہو تو اسے بیچا جائے گا اور اس کا پیسا واقف کے منشاء وقف سے نزدیک ترین کام میں خرچ کیا جائے گا اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو وہ پیسا دوسرے کار خیر میں مصرف کیا جائے گا۔
مذہب

عقیقہ، بچے کی ولادت کے ساتویں دن بلا اور مصیبت سے اس کی حفاظت کی غرض سے کی جانے والی قربانی کو کہا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق، عقیقہ آئمہ معصومینؑ کی طرف سے تاکید شدہ سنت اور سیرت میں سے ایک ہے۔ عقیقہ کے حیوان کے انتخاب، ذبح کرنے، اور گوشت کے استعمال کرنے کے خاص آداب اور احکام ہیں.

معنی

عقیقہ فقہ کی اصطلاح میں، اس حیوان کو کہتے ہیں جو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن قربانی ہوتا ہے. کیونکہ اس دن، بچے کے سر کے بال بھی اتارے جاتے ہیں، اس دن کی قربانی کو عقیقہ کہتے ہیں.

عقیقہ اور آئمہ معصومین کی سیرت

کلینی نے کتاب الکافی میں عقیقہ کے بارے میں 50 کے قریب روایات بیان کی ہیں.  روایات میں، عقیقہ کا فلسفہ بچے کو مصیبتوں اور بلاؤں سے بچانے کو کہا ہے.  حسنینؑ کا عقیقہ کرنے کے بارے میں رسول اللہؐ سے متعدد روایات بیان ہوئی ہیں یہ کہ پیغمبرؐ نے آپ کی تولد کی ساتویں دن آپکے بالوں کو اتارا اور ان کے وزن جتنی چاندی صدقہ دیا اور ایک بھیڑ صدقے میں ذبح کی. بعض روایت میں حسنینؑ کے سر کے بال اتارنے اور عقیقہ کرنے کو حضرت زہراءؑ سے نسبت دی گئی ہے. بعض روایات میں ملتا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ رسالت پر مبعوث ہوئے تو آپؐ نے اپنے لئے عقیقہ کیا تھا.  محمد بن مسلم نقل کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے زید بن علی کو حکم دیا کہ اپنے دوبیٹوں کے لئے جو کہ اکھٹے (جوڑوں) دنیا میں آئے تھے، انکے عقیقہ کے لئے دو حیوان خریدے، لیکن مہنگائی اور حیوان نہ ملنے کی وجہ سے زید نے ایک حیوان خریدا اور دوسرا خریدنا اس کے لئے مشکل ہو گیا. اسی وجہ سے اس نے امام باقرؑ سے سوال کیا کہ آیا دوسرے حیوان کی قیمت صدقے میں دے سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: حیوان خریدنے کی جستجو کرو کیونکہ خداوند عزوجل خون بہانے (حیوان کا سر کاٹنے) اور بخشش طعام کو پسند فرماتا ہے شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے ایک ذبح شدہ گائے کسی شخص کے لئے بھیجی اور فرمایا: یہ میرے فرزند محمد کا عقیقہ ہے.

عقیقہ کے آداب

مستحب ہے کہ لڑکے کے لئے نر حیوان اور لڑکی کے لئے مادہ حیوان کی قربانی کی جائے.
اگر بالغ ہونے تک عقیقہ نہ کیا ہو تو انسان پر مستحب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنا عقیقہ کرے.
اہل تشیع کا مشہور عقیدہ ہے کہ عقیقہ مستحب عمل ہے. لیکن سید مرتضی نے صاحب جواھر ابن جنید اسکافی کے قول کے مطابق عقیقہ کو واجب عمل کہا ہے. اس کے واجب ہونے کے بارے میں احادیث بھی وارد ہوئی ہیں. لیکن دوسرے فقھا کی نظر میں ایسا مستحب عمل ہے کہ جس کے بارے میں تاکید کی گئی ہے.
بعض احادیث میں آیا ہے کہ قربانی عقیقہ کی جگہ کافی ہے. یہاں پر قربانی سے مراد حج والی قربانی ہے.

عقیقہ کے احکام اور شرائط

عقیقہ، چار پاؤں والے حیوان جیسے گائے، بکری، اونٹ کا ہونا چاہئے.
مستحب ہے کہ اس میں قربانی کی شروط کی رعایت کی جائے.
قربانی کی جگہ پیسے صدقہ دینا کافی نہیں ہیں.
عقیقہ کے گوشت کی ہڈی کو توڑنا مکروہ ہے.
قربانی اور بچے کے سر کے بال ایک جگہ پر اتارے جائیں.
بچے کے سر کے بال اتارنے کے بعد، حیوان کو ذبح کرنا چاہئے.

استعمال کے موارد

مستحب ہے کہ حیوان کی ایک ٹانگ یا اس کا چوتھا حصہ بچے کی (دایا) کو دیا جائے ، اور اگر وہ نہ ہو تو بچے کی ماں یہ صدقہ دے.
اس گوشت کا کھانا بچے کے والدین کے لئے مکروہ ہے.
مستحب ہے کہ اس گوشت کو پکائیں اور تقریباً ١٠ افراد فقیر، ہمسائے، اور شیعہ کو اس کھانے پر دعوت دی جائے.

عقیقہ کی دعا

« بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ اللَّهُمَّ عَقِیقَةٌ عَنْ فُلَانٍ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیا جائے) لَحْمُهَا بِلَحْمِهِ وَ دَمُهَا بِدَمِهِ وَ عَظْمُهَا بِعَظْمِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ وِقَاءً لآِلِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه و آله»

اس بارے میں ایک اور دعا بھی وارد ہوئی ہے: يا قَوْمِ اِنّى بَرىٌ مِمّا تُشْرِكُونَ اِنّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذى فَطَرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ حَنيفاً مُسْلِماً وَ ما اَنَا مِنَ الْمُشْرِكينَ اِنَّ صَلوتى وَ نُسُكى وَ مَحْياىَ وَ مَماتى لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمينَ لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمينَ اَللّهُمَّ مِنْكَ وَ لَكَ بِسْمِ اللَّهِ وَ بِاللَّهِ وَاللَّهُ اَكْبَرُ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ تَقَبَّلْ مِنْ …. اور اس کے بعد بچے کا نام لیں اور پھر ذبح کریں.

مذہب

قربانی حضرت ابراہیم کی سنت اور حج کے باب میں ایک واجب عمل ہے جسے حضرت محمد(ص) کی امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم کوبھی اللہ تعالی کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ (ترجمہ: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو) [1] قربانی کرنا حج پر جانے والے ہر مسلمان پر واجب ہے جس کے مخصوص احکام اور شرائط ہیں۔ حجاج کے علاوہ باقی مسلمان بھی اپنے اپنے ملکوں میں 10 ذی الحجہ کو عید قربان کے دن اس سنت پر عمل کرتے ہیں جو ایک مستحب عمل ہے جس پر احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی
لغوی اعتبار سے "قربانی” لفظ "قربان” سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہر اس چیز کے ہیں جس کے ذریعے خداوند متعال کی قربت حاصل کی جاتی ہے چاہے یہ کسی جانور کو ذبح کرنے کے ذریعے ہو یا صدقات اور خیرات دینے کے ذریعے۔

اصطلاح میں عید قربان کے دن جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے چاہے یہ عمل حجاج کرام منا میں انجام دیں یا دوسرے مسلمان دنیا کی کسی بھی حگہ پر انجام دیں۔

قربانی کا فلسفہ
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس کے بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

نیازمندوں کی مدد: پیامبر اکرمؐ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ نادار لوگ اس کے گوشت سے استفادہ کرسکیں”اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے: فَکُلُواْ مِنْهَا وَ أَطْعِمُواْ الْقَانِع َ وَ الْمُعْتَرَّ (ترجمہ: اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ)۔

گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی علت اور حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوان کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والے کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔” قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (ترجمہ: خدا تک ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون … اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقویٰ جاتا ہے اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنادیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو)

موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے)۔

قرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔”

قربانی کے احکام
حج تمتع میں اونٹ، گائے اور گوسفند یا بکري میں سے کسی ایک کو قرباني کرنا واجب ہے۔ قربانی کے جانور ميں نر یا مادہ میں کوئی فرق نہیں البتہ اونٹ کی قربانی کرنا بہتر ہے۔ مذکورہ جانوروں کے علاوہ ديگر حيوانات کی قربانی کرنا کافي نہيں ہيں۔

حج میں قربانی کے شرائط
قرباني کرنا ايک عبادت ہے اس بنا پر اس میں بھی دوسرے شرائط کے ساتھ نيت بھی شرط ہے۔
قرباني کے جانور میں درج ذیل شرائط اور خصوصیات ہونا ضروری ہیں۔
عمر، بنابر احتیاط واجب اونٹ چھٹے سال ميں داخل ہوچکا ہو اور گائے اور بکری تيسرے سال ميں اور گوسفند دوسرے سال ميں داخل ہوئے ہوں اور مذکورہ عمر کی حد بندی، جانور کی کمترین عمر کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے لیکن زیادہ عمر کے بارے میں کوئی حد نہیں ہے اور قربانی کی عمر اس سے زیادہ ہو تو بھی کافی ہے اس شرط پر کہ جانور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔
جانور صحيح و سالم ہو۔
بہت دبلا اور کمزور نہ ہو۔
اسکے اعضا پورے ہوں۔ پس ناقص حیوان کی قربانی کرنا کافي نہيں ہے جيسے آختہ شدہ یا جس جانور کے بيضے نکالے گئے ہوں۔ لیکن جس کے بيضے کوٹ ديئے جائيں لیکن خصی کی حد کو نہ پہنچ جائے تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دم کٹا، آدھا، مفلوج، کان کٹا اور وہ حیوان جس کّے اندر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہو یا پیدائشی طور پر ہی معذور ہو تو اس کی قربانی کافی نہیں ہے۔ لہذا ایسے حيوان کی قربانی کافی نہيں ہے کہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف کے جانوروں ميں عام طور پر پایا جاتا ہے اور ایسے عضو کا نہ ہونا نقص شمار ہوتا ہے۔ لیکن جس جانور کے باہر کا سينگ ٹوٹا ہوا ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے اور جس جانور کا کان پھٹا ہوا ہو يا اسکے کان ميں سوراخ ہو تو اس ميں بھی کوئي حرج نہيں ہے۔

چند فرعی مسائل

اگر ايک جانور کو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح کرے پھر اس کے مريض يا ناقص ہونے کا انکشاف ہو تو مالی توان کي صورت ميں دوسري قرباني کو ذبح کرنا واجب ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ جمرہ عقبہ کو کنکرياں مارنے کے بعد قربانی کی جائے۔
احتیاط کی بنا پر قربانی کے ذبح کرنے کو اختیاری حالت میں روز عيد سے زیادہ تاخیر نہ کرے پس اگر جان بوجھ کر ، بھول کر، لاعلمي کي وجہ سے، کسي عذر کي خاطر يا کسی اور سبب کی وجہ سےذبح کو تاخیر میں ڈال دےتو احتیاط واجب کی بنا پر ، ممکن ہوتو اسے ايام تشريق ميں ذبح کرے ورنہ ذي الحجہ کے مہینے کے ديگر دنوں ميں ذبح کرے اور علی الظاہرذبح کو دن ميں انجام دے یا رات میں اس میں کوئی فرق نہيں ہے ۔
ذبح کرنے کي جگہ مني، ہے پس اگر مني ميں ذبح کرنا ممنوع ہو تو اس وقت ذبح کرنے کيلئے جو جگہ تيار کي گئي ہے اس ميں ذبح کرنا کافي ہے۔
احتیاط واجب يہ ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ اثنا عشری ہو ہاں اگر نيت خود کرے اور نائب کو صرف رگيں کاٹنے کيلئے وکيل بنائے تو شیعہ اثنا عشری کي شرط کا نہ ہونا بعيد نہيں ہے۔
قربانی کو خود انجام دے یا اس کی طرف سے وکالت حاصل کر کے کوئی دوسرا انجام دے ليکن اگر کوئي اور شخص بغیر اسکی ہماہنگی اور وکیل بنانے کے اسکی طرف سے ذبح کرے تو يہ محل اشکال ہے اور بنابر احتیاط اسی پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔
ذبح کرنے کے آلے ميں شرط ہے کہ وہ لوہے کا ہو اور سٹيل (وہ فولاد جسے ايک ايسے مادہ کے ساتھ ملايا جاتا ہے تاکہ زنگ نہ لگے) لوہے کے حکم ميں ہے۔ ليکن اگر شک ہو کہ يہ آلہ لوہے کا ہے يا نہيں تو جب تک یہ واضح نہ ہو کہ يہ لوہے کا ہے یا نہیں اسکے ساتھ ذبح کرنا کافي نہيں ہے۔

دعائے قربانی
قربانی کو ذبح کرتے وقت بہتر ہے اس دعا کو پڑھی جائے: بِسمِ الله الرّحمن الرّحیم، یا قَومِ اِنّی بَریءٌ مِمّا تُشرِکون اِنّی وَجَّهتُ وَجهی لَلَّذی فَطَرَالسَّمواتِ وَالاَرضَ حَنیفاً مُسلِماً وَما اَنَا مِنَ المُشرِکینَ اِنَّ صَلاتی وَ نُسُکی وَ مَحیایَ وَ مَماتی لِلّه رَبِّ العالَمینَ لا شَریکَ لَهُ وَ بِذالِکَ اُمِرتُ وَ اَنا مِنَ المُسلِمینَ اَللّهمَّ مِنکَ وَلَکَ بِسمِ الله وَ بِاللهِ وَ اللهُ اَکبَرُ اللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

اس دعا کے بعد ذبح کرے اگر ذبح کرنے والا خود اپنی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو یہ کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِنّی

لیکن اگر کسی اور کی طرف سے قربانی کر رہا ہے تو کہے: اَللّهُمَّ تَقَبَّل مِن فُلانِ بنِ فُلان فلان بن فلان کی جگہ اس شخص کا نام لیا جائے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے۔

البتہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اور ذبح کر رہا ہے اور ممکن ہو تو صاحب قربانی ذبح کرنے والے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اور مذکورہ دعا کو خود پڑھے۔

مذہب

نَذْر کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر واجب کرے کہ کوئی نیک کام خدا کیلئے انجام دے گا یا ایسا کام جس کو انجام نہ دینا بہتر ہے اسے خدا کیلئے ترک کرے گا۔ شریعت کی نظر میں نذر اس وقت واجب العمل ہو گا کہ انسان اس کا صیغہ عربی یا کسی اور زبان میں ادا کرے۔ نذر تمام انبیائے کرام کا مورد پسند ایک سنت حسنہ ہے اور گذشتہ امتوں میں بھی تھی اور اسلام میں بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ ائمہ اطہار(ع) کیلئے نذر کرنا نذر کی مؤثرترین اقسام میں سے ہے۔

تعریف
یہ لفظ لغت میں کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنے کو کہتے ہیں اور فقہی اصطلاح میں نذر یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے کسی نیک کام کو انجام دینے یا کسی برے کام کو ترک کرنے کو اپنے اوپر واجب کرے۔  مثال کے طور پر نذر یہ ہے کہ انسان ان الفاظ میں نذر کا صیغہ پڑھے: میں نذر کرتا ہوں کہ اگر میری بیماری ٹھیک ہو جائے تو میں اپنے اوپر واجب کرتا ہوں کہ خدا کیلئے ایک لاکھ تومان کسی فقیر کو دوں گا۔

نذر کی تاریخ
نذر ایک پسندیدہ سنت ہے جو تمام انبیاء الہی اور گذشتہ امتوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اسلام میں اس کی مشروعیت کافی پرانی ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عمران کی بیوی یعنی حضرت حضرت مریم(س) کی ماں کے نذر کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اس وقت کو یاد کرو جب عمران علیھ السّلام کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے”۔

سورہ مریم میں حضرت عیسی(ع) کی پیدائش کا واقعہ بیان کرتے ہوئے خداوند متعال حضرت مریم(س) سے فرماتے ہیں: ” پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی۔” اس آسمانی کتاب میں "عباد الرحمن” کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یہ بندے نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔”

امام صادق(ع) ایک روایت میں آیت "یوفون بالنذر” کی شأن نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) بیمار تھے ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرات حسنین (ع) سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے اور حضرت علی(ع) سے فرمایا: بہتر ہے اپنے فرزندوں کی صحت و سلامتی کیلئے کوئی نذر کی جائے۔ حضرت علی(ع) نے فرمایا میں نذر کرتا ہوں اگر یہ دونوں صحت یاب ہو جائے تو شکرانے میں خدا کیلئے تین دن روزہ رکھوں گا۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ(س) اور آپ کی کنیز فضّہ نے بھی اس نذر کو تکرار کئے اور نتیجے میں خدا نے حسنین شریفین(ع) کو صحت و سلامتی عنایت فرمائی اور خود ان دو ہستیوں نے بھی ساتھ روزہ رکھے۔

بنابراین "نذر” نہ صرف توحید، رضا، تسلیم اور خدا کے مقابلے میں ادب و احترام کے منافی نہیں ہے بلکہ اس نذر پر عمل پیرا ہونا اور اس عہد کو پورا کرنا حق تعالی پر ایمان اور خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور خالق حقیقی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہونے کا سبب ہے اور یہ چیز اہل بیت(ع) عصمت و طہارت اور مؤمنین کے درمیان رائج اور مرسوم ہے۔

شرائط

نذر حقیقت میں خدا کے ساتھ عہد و پیمان ہے، تا کہ بندے کی طرف سے اپنے اوپر واجب کرنے والے نیک کام کے انجام دینے کے نتیجے میں خداوندعالم اس بندے کی حاجب پوری کرتا ہے۔ نذر کے مخصوص آداب اور شرائط ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

صیغہ نذر
شریعت کی رو سے نذر اس وقت واجب العمل ہو جاتا ہے کہ اس کا صیغہ عربی میں پڑھا گیا ہو یا کسی اور زبان میں پڑھا جائے لیکن شرط یہ ہے کہ اس مضمون کا حامل ہو: اگر میری فلان حاجت پوری ہو جائے تو میں خدا کیلئے فلان نیک کام انجام دوں گا۔ بنا بر این اگر انسان اس مطلب کو اپنے ذهن میں مرور کرے لیکن اسے زبان پر نہ لائے اور مذکورہ صیغہ کو جاری نہ کرے تو یہ نذر واجب العمل نہیں ہو گا البتہ اس پر عمل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

متعلق نذر
جس کام کو انجام دینے کی نذر کی جاتی ہے اس کا پسندیدہ ہونا ضروری ہے۔ پس اگر کسی حرام یا مکروہ کام کو انجام دینے کی نذر کرے یا کسی واجب یا مستحب کو ترک کرنے کی نذر کرے تو نذر صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی مباح کام کو جس کا انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہے، کو انجام دینے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس مباح کام کو کسی جہت سے انجام دینا پسندیدہ ہو اور نذر کرنے والا اسی جہت کو مد نظر رکھ کر نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔(مثلا نذر کرے کہ ایک ایسی غذا کھاؤں گا جس سے عبادت انجام دینے کی توانائی حاصل ہو جاتی ہے) اسی طرح اگر اس مباح کام کو ترک کرنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو اور انسان اسی جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ترک کرنے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔ اگر انسان اپنی واجب نماز کو ایک ایسی جگہ پڑھنے کی نذر کرے جہاں پر نماز پڑھنا ذاتا تو کوئی اضافی ثواب کا باعث نہ ہو مثلا کمرے میں نماز پڑھنے کی نذر کرے۔ لیکن وہاں نماز پڑھنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو مثلا یہ کہ شور و غل نہ ہونے کی وجہ سے انسان حضور قلب پیدا ہوتی ہو تو اس جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔

اس کام کو انجام دینا امکان پذیر ہو
انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا امکان پذیر ہو بنابراین اگر کوئی شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اس کے باوجود پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔

نذر کرنے والا
نذر کے صحیح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ نذر کرنے والے میں درج ذیل شرائط پائی جاتے ہوں:

  • مکلف ہو: نذر صحیح ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا مکلف ہو بنابراین اگر کوئی مکلف نہ ہو تو اس نذر پر عمل کرنا واجب نہیں ہے۔
  • عاقل ہو: نذر کی دوسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا عاقل ہو۔ بنابراین جو شخص بے وقوف ہو جو اپنے اموال کو بے ہودہ کاموں میں خرچ کرتا ہو یا حاکم شرع اسے اپنے اموال میں تصرف کرنے سے منع کیا ہو تو اس کے اموال سے متعلق نذر صحیح نہیں ہے۔
  • مختار ہو: تیسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا اپنے ارادے اور اختیار سے نذر کرے، بنابراین اس شخص کا نذر صحیح نہیں ہے جسے نذر کرنے پر مجبور کیا گیا ہو یا غصے کی وجہ سے بے اختیار کوئی نذر کیا ہو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔
  • نذر کا ارادہ ہو: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت نذر کا ارادہ رکھتا ہو بنابراین صرف ذہن میں خطور کرنے یا صرف صیغہ پڑھنے یا مستی کی حالت میں نذر واجب نہیں ہو جاتا ہے۔
  • قصد قربت: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت قصد قربت رکھتا ہو پس کافر اور ریاکاری کیلئے اگر کوئی نذر کرے تو یہ نذر منعقد نہیں ہوگا۔
  • امکان پذیر ہو: جس چیز کی نذر کی ہے وہ نذر کرنے والے کی قدرت میں ہو یعنی نذر کرنے والے کی استطاعت میں ہو کہ وہ نذر کو انجام دے۔ بنابراین نذر محال عرضی پر تعلق نہیں پکڑتا ہے۔
  • معصیت انجام دینے کی نذر کرنا: جس چیز کی نذر کی گئی ہے وہ ایک عبادت یا مباح کام ہو بنابراین کسی معصیت کی انجام دہی کی نذر کرنا صحصح نہیں ہے۔

نذر پر عمل کرنا امکان پذیر نہ ہو
نذر پر عمل کرنا ممکن نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

یہ کہ شروع سے ہی نذر پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا۔
یہ کہ جس وقت نذر کر رہا تھا اس پر عمل کرنا امکان پذیر تھا، لیکن نذر کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا نا ممکن ہوا ہو۔
پہلی صورت میں مراجع تقلید فرماتے ہیں: انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا اس کیلئے ممکن ہو بنابراین جو شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اگر پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔

دوسری صورت میں فقہاء فرماتے ہیں: اگر روزہ کے علاوہ کسی اور کام کی نذر کی ہو تو یہ نذر باطل ہے اور اس کی گردن پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ ولى اگر روزہ‏‌ رکھنے کی نذر کی ہو اور کسی پیشگی اطلاع کے روزہ رکھنا اس کیلئے ممکن نہ ہو تو اس کی قضا رکھنا واجب ہے اور اگر قضا بھی ممکن نہ ہو تو ایک مدّ کھانا کسی فقیر کو بطور صدقہ دے دیں۔

نذر کی اقسام
نذر کرنے والے کی قصد کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کی دو قسم ہے:

معلق اور مشروط نذر
نذر کرنے والا اپنے نذر کو کسی کام کے ساتھ معلق اور مشروع کر دیتا ہے، مثلاً یہ کہ اگر میری فلان حاجب پوری ہوئی تو میں خدا کی خشنودی کیلئے فلان کام کرنگا۔

نذر کی یہ قسم خود دو قسموں میں تقسم ہوتی ہے:

نذر شکرانہ: یہ کہ کسی حاجت کے پوری ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے کی خاطر نذر کرنا، مثلا یہ کہے کہ اگر مجھے فلان بیماری سے نجات مل جائے اور صحت و سلامتی دوبارہ بحال ہو جائے تو فلان کام کرنے کی نذر کرتا ہوں۔
نذر مجازاتی: کسی معصیت کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو تنبیہ کرنے کی خاطر کوئی نذر کرے مثلا یہ کہے کہ اگر میں فلان گناہ کا مرتکب ہوا تو فلان کام انجام دینے کو اپنے اوپر لازم قرار دیتا ہوں۔
نذر تبرّعی
نذر تبرّعی سے مراد یہ ہے کہ نذر کرنے والا نذر کو کسی کام سے مشروع نہیں کرتا مثلا یہ کہ کوئی شخص کسی کام کو اپنے اوپر واجب قرار دے۔

احکام نذر
نذر کی مخالفت
اگر نذر تمام احکام و شرائط کے ساتھ منعقد ہو تو عمدا اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں اس شخص پر كفارہ واجب ہوتی ہے۔

نذر کی نوعیت میں تبدیلی
اگر کوئی شخص شرعی صیغہ پڑھ کر کسی چیز کی نذر کرے تو اسے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اکثر لوگ صیغہ نہیں پڑھتے اس بنا پر نذر شرعی منعقد نہیں ہوتا اس بنا پر اس کو تبدیل کرنے یا سرے سے اسے ترک کرنے میں آزاد ہے۔

عین منذروہ کو تبدیل کرنا
اگر نذر شرعا منعقد ہوئی ہو یعنی صیغہ پڑھ کر نذر کی ہو تو جس چیز کی نذر کی ہے اسے اسی کام میں مصرف کرنا واجب ہے مثلا اگر شخص کسی مشخص گوسفند کی قربانی کی نذر کرے تو کسی اور کو اس کی جگہ قربانی نہیں کر سکتا ہے۔

متعلق نذر کو معین نہ کرنا
عبیداللہ بن علی حلبی، امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام(ع) نے اس شخص کے بارے میں جو متعلق نذر کو معین کئے بغیر کوئی نذر کرتا ہے، فرمایا: "اگر متعلق نذر کو معين کیا ہو تو وہی معین ہے لیکن اگر معین نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔”

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی نذر
چنانچہ اگر بیوی اپنے شوہر کی غیر موجودگی یا اس سے پوچھے بغیر یا اس کی رضایت کے بغیر کوئی نذرکرے تو اس کی نذر صحیح نہیں ہے چاہے مال منذور شوہر کا ہو یا دونوں کا مشترک مال ہو یا خود بیوی کا مال ہو تینوں صورتوں میں نذر باطل ہے۔

نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے میں والدين کی رضامندی
ماں باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتے لیکن متعلق نذر ان کی رضایت مؤثر ہے مثلا یہ کہ ماں باپ اپنی اولاد کو نذر کرنے سے تو منع نہیں کر سکتے لیکن وہ یہ کام کر سکتے ہیں کہ اولاد سے کہے کہ روزے رکھنے کی نذر نہ کرے یعنی متعلق نذر کو روزہ قرار دینے سے منع کر سکتے ہیں۔

ذریعہ

مذہب