وقف اسلام میں

مذہب

وقف عوام کے فردی یا گروہی استفادہ کے لئے کسی مال کو اس کے منافع سے استفادہ کرنے کیلئے بغیر کسی عوض کے بخش دینا ہے۔ وقف شدہ اموال کو کسی کو بھی چاہے وہ وقف کرنے والا ہو یا کوئی اور فروخت کرنے یا کسی کو بخشنے کا حق نہیں ہے۔ قرآن مجید میں وقف کا صریح طور پر ذکر نہیں ہوا ہے۔ احادیث میں صدقہ جاریہ کے عنوان سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔ وقف کی تاریخ اسلام سے پہلے کی ہے۔ البتہ پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں وقف اصحاب کے درمیان میں رائج تھا اور آنحضرت (ص) و امام علی (ع) کے وقف نے نمونے منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔

وقف اسلامی عقود میں سے ہے۔ فقہی کتابوں میں اس کے شرایط اور احکام کا ذکر ہوا ہے۔ وقف کی دو قسمیں ہیں: وقف خاص و وقف عام۔

مسجد، مدرسہ، کتب خانہ، اسپتال اور زیارت گاہ کو وقف کے فرایض میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی ممالک میں امور اوقاف کو سنبھالنے کے لئے ادارے بنائے گئے ہیں۔

تعریف فقہی و اقسام

وقف فقہاء کی اصطلاح میں کسی معین مال کو بخش کر اس کے منفعت اور ثمرے سے استفادہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مکان کو فقراء کے لئے مخصوص کر دیا جائے تا کہ فقراء اس سے استفادہ کر سکیں اور اس مکان کا خریدنا یا بیچنا ممکن نہ ہو۔ وقف میں مال وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور وقف کرنے والے یا جن کے لئے وقف اسے کیا گیا ہے کسی کو بھی اس کے بیچنے یا کسی کو بخشنے کا حق نہیں ہے۔

وقف اسی صدقہ جاریہ کو شمار کیا گیا ہے جس کا ذکر احادیث میں ہوا ہے کیونکہ اس کے منافع ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔

وقف عام و وقف خاص

تفصیلی مضمون: وقف عام اور وقف خاص

فقہی کتابوں میں وقف کو وقف عام اور وقف خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس وقف کا مقصد عام افراد یا عام گروہ ہو اسے وقف عام کیا جاتا ہے جیسے کسی مدرسہ یا اسپتال کا وقف کرنا یا کسی مال کا فقراء یا اہل علم کے لئے وقف کرنا۔ جس وقف کا ہدف عام افراد یا کوئی خاص گروہ ہو اسے وقف خاص کہتے ہیں۔ مثلا کسی مکان کا کسی خاص شخص یا خاص اشخاص کے لئے وقف کرنا۔

منزلت اور اہمیت

وقف ابواب فقہ میں سے ہے اور فقہی کتابوں میں اس کے صحیح ہونے کے شرایط و احکام کے سلسلہ میں بحث ہوئی ہے۔ کتب روایی میں وقف، صدقہ اور ہبہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔

قرآن میں وقف پر دلالت کرنے والی کوئی صریح آیت موجود نہیں لیکن آیات الاحکام پر مبنی منابع میں وقف سُکنی (کسی مال کے منافع کو معینہ مدت کیلئے استفادہ کرنا)، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے ساتھ عطایائے مُنجّزہ (وہ اموال جو کسی عوض کے بغیر دوسرے کو دیئے جاتے ہیں) کے عنوان اور بعض آیات قرآنی جیسے انفاق و مال کا بخشنا کے مفاہیم کے مصداق کے تحت موجود ہے۔

احادیث کے مطابق صدقہ جاریہ (وقف) ان چیزوں میں سے ہے جس کا سلسلہ انسان کے مرنے کے بعد تک جاری رہتا ہے اور اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ البتہ ان روایات میں وقف کا لفظ بہت کم‌ استعمال ہوا ہے اور صدقہ کا عنوان زیادہ رائج‌ ہے۔ حالانکہ احکام وقف سے مربوط روایات میں لفظ وقف کا استعمال ہوا ہے۔

وقف مسلمانوں کے درمیان پر بحث ترین موضوعات میں سے ہے اور فقہی نوشتوں کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں۔ کتاب ماخذ شناسی وقف مولف سید احمد سجادی میں وقف کے سلسلہ میں 6239 عناوین مذکور ہیں جن میں کتب، مقالات، تھیسیز، مخطوطات، خبر اور مجلات میں شائع ہونے والی گزارشات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

تاریخچہ

وقف کی تاریخ قدیم نقل ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی اس کا وجود تھا۔ البتہ اسلام کے بعد عصر پیغمبر (ص) سے ہی وقف مسلمانوں کے درمیان رائج ہو گیا تھا۔ آنحضرت (ص) نے خود بعض اموال وقف کئے۔ منجملہ ان میں سے آپ نے پہلی مرتبہ میں ابن السبیل (مسافرین) کے لئے ایک زمین وقف فرمائی۔ اسی طرح سے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ اصحاب کے درمیان کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو مالی اعتبار سے توانائی رکھتا ہو اور اس نے کچھ وقف نہ کیا ہو۔

ائمہ معصومین (ع) کے درمیان امام علی (ع) نے سب سے زیادہ اموال وقف کئے۔ ابن شہر آشوب کے مطابق، امیر المومنین (ع) نے ینبع میں 100 چشمے کھودے اور انہیں حاجیوں کے لئے وقف کر دیا۔ اسی طرح سے آپ نے کوفہ و مکہ کے راستے میں کچھ کنویں کھودے اور مدینہ، میقات، کوفہ و بصرہ میں مساجد بنائیں اور ان سب کو وقف کر دیا۔

اس کے بعد مسلمانوں کے موقوفات اس قدر زیادہ ہو گئے کہ بنی امیہ کے دور میں انہیں چلانے کے لئے ادارے تاسیس کئے گئے اور اس کے بعد کے زمانوں میں حکومت خود ان اداروں کو چلاتی تھی۔

فعالیت و کارکردگی

وقف کے سلسلہ میں بعض تحریروں میں اس کے اقتصادی و سماجی آثار کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ تاریخی گزارشات کے مطابق، وقف کے بعض موارد و مصارف یہ تھے: مساجد، مدارس، کتب خانوں، اسپتالوں، معلولین کے لئے مراکز، پانی کے انبار، چشموں کی تعمیر اور غرباء و ایتام، معلولین، اسیروں کے امور کی رسیدگی، علماء کی زندگی کے مخارج۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اوقاف نے سماجی تحفظ، صحت اور علاج کے شعبوں اور علوم و فنون کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

بعض نے تاریخی تحقیقات کے مطابق، وقف کی کارکردگی کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  • ثقافتی امور: جیسے مدارس و کتب و کتب خانوں کی تاسیس۔
  • صحت عامہ کے امور: جیسے اسپتالوں، مراکز معلولین و عمومی حماموں کی تاسیس
  • سماجی و رفاہی امور: کاروان سراوں، پلوں، خانقاہوں، پانی کے ذخایر، چشموں اور کارخانوں کی تعمیر۔
  • مذہبی امور: مساجد و زیارت گاہوں کی تعمیر۔

آج کے دور میں مذہبی مقامات جیسے ائمہ معصومین (ع) کے روضے، مساجد، دینی مدارس زیادہ تر موقوفات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چلتے ہیں۔ [حوالہ درکار]

ادارہ موقوفات

اسلامی دنیا میں موقوفات کی کثرت سبب بنی کہ اسلامی حکومتوں کی جانب سے وزارت اوقاف تاسیس کئے جائیں۔ یہ سلسلہ نہایت قدیم ہے اور تاریخی گزارشات کے مطابق، اس کی بازگشت بنی امیہ کے دور حکومت کی طرف ہوتی ہے۔ اس دور میں قاضی شہر بصرہ توبت بن نمر نے موقوفات کو ثبت و درج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح سے اس نے اس شہر میں دیوان اوقاف کی بناء رکھی۔

دور ایلخانان میں ایک ادارہ حکومت موقوفات کے نام سے موجود تھا جو قاضی القضات کے زیر نظر فعالیت انجام دیتا تھا۔ ایران میں پہلی بار صفویہ دور حکومت میں اوقاف کو چلانے کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ بڑے شہروں میں اپنے نمائندے رکھتا تھا جنہیں وزیر اوقاف کا نام دیا جاتا تھا۔

اسلامی ممالک میں امور اوقاف کے انتظام کے لئے خاص ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ جن میں سازمان اوقاف و امور خیریہ ایران، دیوان وقف شیعی و دیوان وقف سنی عراق، وزارت اوقاف مصر، وزارت اوقاف و امور اسلامی کویت و شورای عالی اوقاف سعودی عرب شامل ہیں۔

شرایط صحت وقف

فقہاء نے وقف کے صحیح ہونے کے شرایط ان چار چیزوں میں ذکر کئے ہیں: وقف کیا گیا مال، واقف (وقف کرنے والا)، جن کے لئے وقف کیا گیا ہو اور وقف کرنے کا عمل۔

وقف کیا گیا مال

وقف کئے گئے مال میں چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

  • خارج میں معین مقدار میں مال موجود ہو۔ اس شرط کے مطابق، اگر مال کسی اور کے پاس ہو تو اسے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے گھر کو معین کئے بغیر وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معین ہونا چاہئے کہ کون سا گھر وقف کرنا چاہتا ہے۔
  • جس چیز کو وقف کر رہا ہے وہ ملکیت کے قابل ہو۔ اس شرط کے مطابق، مثلا خوک کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ مسلمان کی ملکیت میں نہیں آ سکتا ہے۔
  • اس مال کے منافع سے استفادہ کرنا ممکن ہو اور ایسا کرنے سے اصل مال ختم نہ ہو۔ اس شرط کے مطابق، پیسے کو وقف نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اس کے منافع سے استفادہ کرنا اس کے خود کے ختم ہونے کا سبب بنے گا۔
  • واقف سے وقف کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس شرط کے مطابق واقف کسی دوسرے کا مال وقف نہیں کر سکتا ہے کیونکہ اس مال کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔

واقف

وقف کرنے والا بالغ اور عقلی اعتبار سے رشد یافتہ ہو اور اسی طرح سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہو۔

جن کے لئے وقف کیا گیا ہو

جن کے لئے وقف کیا گیا ہے انہیں موجود ہونا چاہئے، فرد یا افراد معین ہوں اور ان کے لئے وقف کرنا حرام نہ ہو۔ ان شروط کے مطابق، ایسا بچہ جو ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے اس کے لئے وقف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سے ڈاکووں اور کفار حربی کے لئے کوئی چیز وقف نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسے افراد کے لئے وقف کرنا حرام ہے۔

وقف کرنے کا ظریقہ

وقف کرنا اس وقت صحیح ہے جب اس میں مندرجہ ذیل شرایط پائے جاتے ہوں:

  • ہمیشہ کے لئے ہونا: یعنی وقف کی کوئی مدت معین نہیں ہونا چاہئے۔ لہذا کسی خاص معین مدت کے لئے وقف کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح سے کسی خاص معین شخص کے لئے وقف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے انتقال کے ساتھ ہی وقف ختم ہو جائے گا۔
  • موجود ہونا: یعنی صیغہ وقف کو آئندہ ملنے والے (مثلا اول ماہ) کسی مال کے لئے نہیں پڑھا جا سکتا ہے۔
  • مال کا لینا: جب تک وقف کی گئی چیز، واقف سے مل نہ جائے (اس پر قبضہ نہ مل جائے) اس پر وقف کا اطلاق نہیں ہوگا اور وہ واقف کی ملکیت مانی جائے گی۔
  • واقف کی ملکیت سے خارج ہونا: اس شرط کے مطابق، کوئی خود اپنے لئے کسی چیز کو وقف نہیں کر سکتا ہے۔

احکام

وقف کے بعض احکام رسالہ توضیح المسائل کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں:

  • وقف کیا گیا مال، وقف کرنے والے کی ملکیت سے خارج ہو جاتا ہے اور وقف کرنے والا اسے بیچ یا بخش نہیں سکتا ہے نہ ہی وہ کسی کو میراث میں مل سکتا ہے۔
  • وقف کیا گیا مال خریدا اور بیچا نہیں جا سکتا ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کا فتوی یہ ہے کہ وقف کے لئے صیغہ وقف کا جاری کرنا ضروری ہے۔ لیکن صیغہ عربی میں پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ بعض دیگر مراجع تقلید صیغہ پڑھنے کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس چیز کے بارے میں لکھ لینا یا ایسا عمل انجام دینا جس کے وقف کا پتہ چل رہا ہو تو وقف صحیح ہے۔
  • بعض مراجع تقلید کے فتاوی کے مطابق، جن کے لئے وقف کیا جا رہا ہے ان کے قبول کی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے وقف عام ہو یا وقف خاص، البتہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ وقف خاص میں جس فرد یا جن افراد کے لئے وقف کیا گیا ہے ان کا قبول کرنا شرط صحت ہے۔
  • انسان اپنے لئے وقف نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے فقراء کے لئے کوئی مال وقف کیا اور بعد وہ خود غریب ہو گیا تو غریب ہونے کے عنوان سے اس مال کے منافع سے استفادہ کر سکتا ہے۔
  • اگر مال موقوفہ خراب ہو چکا ہو تو بھی وہ وقف سے خارج نہیں ہوگا۔ اگر وہ قابل تعمیر ہو تو اس کی تعمیر کی جائے گی اور اگر قابل تعمیر نہ ہو تو اسے بیچا جائے گا اور اس کا پیسا واقف کے منشاء وقف سے نزدیک ترین کام میں خرچ کیا جائے گا اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو وہ پیسا دوسرے کار خیر میں مصرف کیا جائے گا۔

رمضان 2025 – 1446

اپنی زکوٰۃ، فدیہ، زکوٰۃ الفطر اور کفارہ کا حساب لگائیں اور ادا کریں۔ افطار کے لیے عطیہ کریں اور اپنی زکوٰۃ اور عطیات براہ راست اپنے والیٹ (Wallet) سے ادا کریں یا ایکسچینج کریں۔

بات پھیلائیں، مزید مدد کریں۔

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں اور ہماری ویڈیوز دیکھیں تاکہ ضرورت مندوں کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لائی جا سکے۔ آپ کی مدد کسی کے لیے وہ دستِ تعاون ثابت ہو سکتی ہے جس کا وہ منتظر ہے۔